• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داعش کی باقیات سونے کے دینار

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
داعش کی باقیات سونے کے دینار
کالم: عبدالرحمان الراشد
بدھ 2 ستمبر 2015م

جو کوئی بھی دولتِ اسلامیہ عراق وشام (داعش) کے جاری کردہ دینار خرید کرے گا اور انھیں اپنے پاس سنبھال کر رکھے گا، وہ ان کی بدولت مالا مال ہو جائے گا کیونکہ اس گروپ کو بالآخر اپنے انجام کو پہنچنا ہے اور یہ دینار ہی معاصر تاریخ کا ثبوت باقی رہ جائیں گے۔ آج داعش کے ایک دینار کی قیمت ایک سو تیس امریکی ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ اس کی تاریخی قدر مارکیٹ میں شاید اس سے دگنا ہو جائے کیونکہ یہ جدید دور کی سب سے خطرناک تنظیم کی سب سے اہم یادگار ہو گی۔

داعش کے لیے دینار کرنسی نہیں ہے بلکہ ایک پیغام ہے کیونکہ کرنسی کا اجراء ایک ریاست کی خود مختاری کا مظہرہے۔ یہ ایک ایسی پروپیگنڈا جنگ کا حصہ ہے جس کے ذریعے لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ داعش برسرزمین موجود ہے اور وہ اپنی متحارب تنظیموں سے مختلف ہے۔

شام کی جیش الحر (فری سیرین آرمی) اپنے کنٹرول والے علاقوں میں ترک لیرا کو کرنسی کے طور استعمال کر رہی ہے جبکہ شامی صدر بشارالاسد کی حکومت اپنی کرنسی روس سے چھپوا رہی ہے کیونکہ یورپ میں چھاپہ خانوں نے اس کی چھپائی روک دی تھی۔

تاہم داعش کا دینار ایک کرنسی سے زیادہ ایک یادگاری شے ہے اور ریاستیں خصوصی مواقع پر ایسی یادگار اشیاء کا اجراء کرتی رہتی ہیں۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ داعش نے شام سے کتنی عورتوں کو اغوا کیا ہے، اس نے عراق سے کتنا سونا چُرایا ہے اور اس نے تیل کی کتنی مقدار فروخت کرنے کی کوشش کی ہے مگر وہ اس وقت تک اتنی مقدار میں خالص سونا حاصل نہیں کر سکے گی جب تک کہ وہ اپنے عمل داری والے شہروں میں موجود بنکوں میں پڑے سونے کے ذخائر کو لوٹ نہ لے۔ سونے کی اتنی زیادہ مقدار دستیاب ہونے کی صورت ہی میں وہ اس کو کرنسی کے طور پر استعمال کر سکتی ہے اور اس سے مارکیٹ میں دوسری اشیاء کی تجارت کر سکتی ہے۔

داعش کے حامی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سونے کے دینار اس کے نظم ونسق کے استحکام کی علامت ہیں اور اس کے ریاست کی تعمیر کے منصوبے کی صلاحیت کے بھی مظہر ہیں لیکن یہ بہت بڑی مبالغہ آرائی ہے۔ داعش کو اپنے ظہور کے بعد اس وقت سب سے خطرناک بحران کا سامنا ہے اور اس کے دینار بھی اس کو بچا نہیں سکیں گے۔ داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد میں شامل فریقوں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے اور وہ اب اس دہشت گرد تنظیم کا قلع قمع کرنے کی زیادہ صلاحیت کا حامل ہے۔

ترکی کی داعش مخالف جنگ میں شمولیت کے بعد یہ اتحاد اب مکمل ہوچکا ہے۔ ترکی کی جانب سے داعش کے ٹھکانوں پر گولہ باری تو شاید زیادہ اہمیت کی حامل نہ ہو لیکن اس کی داعش مخالف اتحاد میں شمولیت کا ایک یہ بھی مطلب ہے کہ اب اس دہشت گرد گروپ کا حقیقی معنوں میں محاصرہ کر لیا گیا ہے اور اس کے خلاف بہت سی فوجی کارروائیاں اب ترکی سے کی جا رہی ہیں۔

-----------------------------------------------
(عبدالرحمان الراشد العربیہ نیوز چینل کے سابق جنرل مینجر ہیں۔ ان کے نقطہ نظر سے العربیہ ڈاٹ نیٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں)

 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بچوں کو اسکول جاتے چاکلیٹ یا لالی پوپ خریدنے کے لئے کون سے سکےدینے ہونگے؟ کیا وہ بھی سونے یا چاندی کے ہونگے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بچوں کو اسکول جاتے چاکلیٹ یا لالی پوپ خریدنے کے لئے کون سے سکےدینے ہونگے؟ کیا وہ بھی سونے یا چاندی کے ہونگے؟
چاکلیٹ یا لالی پوپ تھوک میں خریدیں گے ۔۔اور کئی مہینوں کا سٹاک لے لیں گے ،
یا لوکل کرنسی میں ۔۔بھنا لیں گے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
معاشیات پر کئی ارباب فکر و نظر کا نقطہ نظر پڑھنے کو ملا ہے ، سب یہی کہتے ہیں کہ ترقی اور فلاح کی ایک ہی راہ ہے کہ درہم و دینار کا دوبارہ اجراء کیا جائے ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
معاشیات پر کئی ارباب فکر و نظر کا نقطہ نظر پڑھنے کو ملا ہے ، سب یہی کہتے ہیں کہ ترقی اور فلاح کی ایک ہی راہ ہے کہ درہم و دینار کا دوبارہ اجراء کیا جائے ۔
خضر حیات بھائی!
یہ خود ساز معاشی اسکالر لوگوں کے جذبات کا فائدہ اٹھا کر اپنا ''خیالی چورن'' بیچتے ہیں!
ان معاشی مفکروں سے اس کا جواب لے ليں!
بچوں کو اسکول جاتے چاکلیٹ یا لالی پوپ خریدنے کے لئے کون سے سکےدینے ہونگے؟ کیا وہ بھی سونے یا چاندی کے ہونگے؟
 
شمولیت
اگست 13، 2011
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
172
پوائنٹ
82
معاشیات پر کئی ارباب فکر و نظر کا نقطہ نظر پڑھنے کو ملا ہے ، سب یہی کہتے ہیں کہ ترقی اور فلاح کی ایک ہی راہ ہے کہ درہم و دینار کا دوبارہ اجراء کیا جائے ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
داعش کی حمایت یا مخالفت کیے بغیر- شیخ خضر حیات صاحب کی بات قابل غور ہے۔ باقی رہی بات کہ بچوں کو اسکول جاتے چاکلیٹ یا لالی پوپ خریدنے کے لئے کون سے سکےدینے ہونگے؟ توکیا اس وقت دنیا کے تمام لوگ اپنے بچوں کو اپنے ملک کی کرنسی کا سب سے بڑا یونٹ ہی دیتے ہیں؟ مثلا کیا پاکستانی اپنے بچوں کو چاکلیٹ یا لالی پوپ خریدنے کے لئے 5000 کا نوٹ دیتے ہیں؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ بچوں کو اس طرح کی خریداری کے لیے سب سے چھوٹا (diminutive unit of currency) یونٹ ہی دیا جاتا ہے۔
کیا دینار کا سب سے چھوٹا یونٹ ( سونے یا چاندی کا) بنانا ممکن نہیں؟
مزید برآں اوپر مذکور کالم نگار کی گفتگو دلیل کی قوت نہیں رکھتی۔
واللہ اعلم
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
معاشیات پر کئی ارباب فکر و نظر کا نقطہ نظر پڑھنے کو ملا ہے ، سب یہی کہتے ہیں کہ ترقی اور فلاح کی ایک ہی راہ ہے کہ درہم و دینار کا دوبارہ اجراء کیا جائے ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرا خیال ہے عمومی طور پر اسلامی شریعت کا مزاج یہ ہے کہ اُس وقت تک پائی جانے والی جو جو باتیں انسانیت کے لیے کسی طور بھی (جسمانی، اخلاقی، روحانی وغیرہ) مضر تھیں تو انہیں تو اسلام نے قطعی طور پر منع کردیا.
اسی طرح جن کاموں میں معاملہ اصلاح طلب تھا، ان میں اصلاحات جاری کرکے انہیں انسانیت کے لیے کارآمد بنادیا گیا.
اور جن کاموں سے انسانوں کے جسمانی، اخلاقی، روحانی مفادات پر کوئی زد نہیں پڑتی تھی انہیں ویسے ہی رہنے دیا گیا.

اب باہمی لین دین والے معاملے میں اگر ہم دیکھیں تو "سود" جو انسانیت کے لیے تباہی کا سامان رکھتا تھا اس ختم کرنے کیلیے مختلف احکامات نازل ہوئے، حتٰی کہ اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ تک قرار دے دیا گیا اور اسی طرح اس وقت رائج لین دین کی مختلف اجناس میں بھی سود کے بارے میں احکامات ہمیں احادیث میں مل جاتے ہیں لیکن دوسری طرف "کرنسی" یا باہمی لین دین کی "دیگر اجناس" کے بارے میں کوئی احکامات نہیں ہیں یہاں تک کہ کسی "مخصوص جنس" کو ترجیح دینے کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی، جس سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ باہمی لین دین کیلیے جس کرنسی / جنس پر کسی دور کے انسانوں کا اتفاق ہو وہ بیشک جاری رہے لیکن اس میں سود وغیرہ کی صورت میں انسانوں پر ظلم نہ ہو. واللہ اعلم

یہاں ما شاء اللہ کافی اہلِ علم موجود ہیں، امید ہے کہ میری سوچ غلط ہونے کی صورت میں بہتر رہنمائی کریں گے. ان شاء اللہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

خضر حیات بھائی!
یہ خود ساز معاشی اسکالر لوگوں کے جذبات کا فائدہ اٹھا کر اپنا ''خیالی چورن'' بیچتے ہیں!
ان معاشی مفکروں سے اس کا جواب لے ليں!
پیپر کرنسی کو رد کرتے ہوئے عموماً کاغذ کی ناپائیداری کا حوالہ دیا جاتا ہے لیکن میں نے تو کافی عرصہ پہلے ہمارے انگلش کے ایک استاد کے لیکچر میں یہ تک سنا ہے کہ کسی دور میں "نمک" تک "لین دین میں مرکزی جنس" رہا ہے اور انگریزی لفظ salary (تنخواہ) بھی لفظ salt (نمک) سے نکلا ہے. واللہ اعلم

درہم و دینار کے origin پر تو محترم @ابن داود بھائی نے روشنی ڈال دی ہے امید ہے وہ یا کوئی اور اس بات پر بھی تحقیق کرکے کچھ رہنمائی کریں گے.

@کنعان @یوسف ثانی



جزاکم اللہ خیرا
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
معاشیات پر کئی ارباب فکر و نظر کا نقطہ نظر پڑھنے کو ملا ہے ، سب یہی کہتے ہیں کہ ترقی اور فلاح کی ایک ہی راہ ہے کہ درہم و دینار کا دوبارہ اجراء کیا جائے ۔
اوریا مقبول جان نے ایک تنظیم قائم کی ہے۔ اس تنظیم کے تحت اس موضوع پر کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس تنظیم نے سونے کے سکے جاری کئے ہیں اور لوگوں کو ترغیب دی جارہی ہے کہ اپنی بچت سونے کے سکوں میں رکھیں، پیپر کرنسی میں نہیں۔
لیکن یہ تو محض ایک مثال ہے۔ یہ تو ریاست کا کام ہے کہ وہ اپنی مملکت میں سونے چاندی کی کرنسی رائج کرے تاکہ پیپر کرنسی کے فراڈ کا خاتمہ ہو۔ لیکن جب خود حکومتیں کرنسی فراڈ میں ملوث ہوں تو وہ ایسا کیوں کریں گی؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرا خیال ہے عمومی طور پر اسلامی شریعت کا مزاج یہ ہے کہ اُس وقت تک پائی جانے والی جو جو باتیں انسانیت کے لیے کسی طور بھی (جسمانی، اخلاقی، روحانی وغیرہ) مضر تھیں تو انہیں تو اسلام نے قطعی طور پر منع کردیا.
اسی طرح جن کاموں میں معاملہ اصلاح طلب تھا، ان میں اصلاحات جاری کرکے انہیں انسانیت کے لیے کارآمد بنادیا گیا.
اور جن کاموں سے انسانوں کے جسمانی، اخلاقی، روحانی مفادات پر کوئی زد نہیں پڑتی تھی انہیں ویسے ہی رہنے دیا گیا.

اب باہمی لین دین والے معاملے میں اگر ہم دیکھیں تو "سود" جو انسانیت کے لیے تباہی کا سامان رکھتا تھا اس ختم کرنے کیلیے مختلف احکامات نازل ہوئے، حتٰی کہ اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ تک قرار دے دیا گیا اور اسی طرح اس وقت رائج لین دین کی مختلف اجناس میں بھی سود کے بارے میں احکامات ہمیں احادیث میں مل جاتے ہیں لیکن دوسری طرف "کرنسی" یا باہمی لین دین کی "دیگر اجناس" کے بارے میں کوئی احکامات نہیں ہیں یہاں تک کہ کسی "مخصوص جنس" کو ترجیح دینے کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی، جس سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ باہمی لین دین کیلیے جس کرنسی / جنس پر کسی دور کے انسانوں کا اتفاق ہو وہ بیشک جاری رہے لیکن اس میں سود وغیرہ کی صورت میں انسانوں پر ظلم نہ ہو. واللہ اعلم

یہاں ما شاء اللہ کافی اہلِ علم موجود ہیں، امید ہے کہ میری سوچ غلط ہونے کی صورت میں بہتر رہنمائی کریں گے. ان شاء اللہ


پیپر کرنسی کو رد کرتے ہوئے عموماً کاغذ کی ناپائیداری کا حوالہ دیا جاتا ہے لیکن میں نے تو کافی عرصہ پہلے ہمارے انگلش کے ایک استاد کے لیکچر میں یہ تک سنا ہے کہ کسی دور میں "نمک" تک "لین دین میں مرکزی جنس" رہا ہے اور انگریزی لفظ salary (تنخواہ) بھی لفظ salt (نمک) سے نکلا ہے. واللہ اعلم

درہم و دینار کے origin پر تو محترم @ابن داود بھائی نے روشنی ڈال دی ہے امید ہے وہ یا کوئی اور اس بات پر بھی تحقیق کرکے کچھ رہنمائی کریں گے.

@کنعان @یوسف ثانی



جزاکم اللہ خیرا

5000.gif

  1. سب سے پہلے تو یہ نوٹ کر لیجئے کہ یہ” 5000 روپیہ“ نہیں ہے بلکہ ”پانچ ہزار روپے کی رسید“ ہے، جسے اسٹیٹ بنک نے حکومت پاکستان کی ”ضمانت“ پر جاری کیا ہے۔ سرخ دائرہ میں صاف صاف لکھا ہے کہ حامل ھٰذا (یعنی جس کے پاس یہ رسید ہے) کو طلب کرنے پر بنک ”پانچ ہزار روپیہ“ ادا کرے گا۔
  2. سونے اور چاندی کی کرنسی کے لین دین میں ”مشکلات“ کے پیش نظر حکومتوں نے یہ طے کیا تھا کہ لوگ اپنی دولت (سونے چاندی کی کرنسی) اپنی اپنی حکومتوں کے خزانوں میں جمع کرواکر ”مرکزی بنک کی رسید“ حاصل کرلیں۔ یہ رسید عام لین دین میں ”کرنسی“ کے طور پر مستعمل ہوگی۔
  3. حکومتوں نے یہ طے کیا کہ وہ اتنی ہی ”پیپر کرنسی رسید“ چھاپیں گے، جتنی مالیت کا سونا ان کے خزانے مین ہوگا۔ لیکن مالی بدعنوانی میں مبتلا تقریباً تمام حکومتوں نے سونے کے ذخائر سے زیادہ مالیت کے نوٹ چھاپ لئے اور وقتاً فوقتاً چھاپتے رہتے ہیں۔ جس سے پیپر کرنسی ڈی ویلیو ہونا شروع ہوا اور مہنگائی بڑھنے لگی
  4. مرکزی بنک کے جاری کردہ ”رسیدی نوٹ“ کو لوگ ”اصل نوٹ“ سمجھنے لگے۔ دیگر بنکوں نے یہ نوٹ بھی اپنے قبضہ (بنک اکاؤنٹس) میں لے کر اپنی اپنی رسیدیں (چیک بکس، بنک ڈرافٹ وغیرہ) جاری کردیں۔ ان ذیلی کمرشیل بنکوں نے مزید فراڈ یہ کیا کہ لوگوں کو ”جعلی قرضے“ دینے شروع کردیئے۔ یعنی بنک کے اکاؤنٹس میں اگر ”ایک ارب کرنسی نوٹ “ جمع ہیں تو انہون نے قرض مانگنے والوں کو دو ارب کا قرضہ دے دیا۔ قرضہ میں کرنسی نوٹ دینے کی بجائے اپنے چیک، ڈرافٹس یا بنک اکاؤنٹس بیلنس دے دئے۔ چونکہ فراڈ سارے کمرشیل بنکس کر رہے ہیں۔ لہٰذا سارے بنکون نے ایک دوسرے کے یہ فرضی اور جعلی چیک، ڈرافٹس، بیلنس وغیرہ قبول کرنے شروع کردئے اور لوگوں سے ان قرضوں پر بھاری سود لینا شرعو کردیا
  5. گویا پیپر کرنسی فراڈ کی بنیاد ہے۔ اس کا واحد حل درہم و دینار والی کرنسی کا اجرا ہے مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟؟؟
 
Top