• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آج کے حکمران اور اطاعت امیر

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
یہ شرط آپ نے بتلائی تھی!
اور شاید آپ کو یہ نہیں معلوم کہ امریکہ کا نام ''یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ'' ہے جبکہ پاکستان کا نام ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' ہے!
.
صرف کہنے سے اسلامی ہو جائے گی یا نام رکھنے سے اسلامی ہو جائے گی شراب کا نام روح افزاء رکھنے سے وہ حلال ہو جائے گا یا روح افزا مشروب ہو جائے گا
کچھ عقل سے کام لیں

کیا اس کے بعد صحابہ اور دیگر نے کبھی کسی غیر مسلم ریاست سے کوئی معاہدہ نہیں کیا

اگر کیا ہے تو اپ بتا دو
یہ بات کس کی ہے کہ کسی ملک میں مسلمانوں کی اکثریت ہونے سے اس ملک کا اسلامی ہونا لازم آتا ہے؟
آپ کا دعوی ہے کہ یہ بے نمازی ہیں ، اس پر آپ سے نماز کی ادائیگی یا فوتگی کا رجسٹر مطلوب ہے!

اسی پر میں نے عرض کی تھی کہ نماز قائم بھی کریں گےاس سے معلوم ہوتا ہے کے نمازی ہیں کیونکہ خود بھی اس کا اہتمام کرتا ہے اور دوسروں سے بھی اس کا اہتمام کروائیں گے جیسے خلفاء راشدین کیا کرتے تھے
اور قرآن نے یہی کہا ہے کہ
اگر ہم تم کو زمیں میں تمکن عطا کریں گے تو تم نماز قائم کرو جو خلفاء راشدین کرتے تھے نماز پڑھاتے تھے اب اپ اسلامی ریاست کے اصولوں سے ناواقف ہیں تو کوئی کیا کرے
کیونکہ اسلامی ریاست کا سربراہ ان میں نیک ترین آدمی ہوتا مگر اب تو کوئی بھی ہو بس نظریہ ضرورت کے تحت وہی خلیفہ ہو گیا یا حکمران ہو گیا اور وہ اسلامی ریاست ہو گئی ماشاء الله .

 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کشمیر کب سے مسلمان ملک ہو گیا! کبھی بھارت کو بھی کسی نے اسلامی ملک کہا ہے؟
اگر یہ سوچ ہے تو پھر داعش کا عذاب آپ کا حق ہے! جو آپ پر وارد ہوتا نظر آتا ہے!
اس کی بھی کوئی ''خوبصورت تاویل'' سوچ لیں کہ جب داعش ولے جماعت الدعوۃ والوں کے کافر کہتے ہوئے قتل کریں گے، تو داعش والوں بھی حق پر ہوں گے کہ ان کے پاس بھی قرآن و حدیث کی دلیل ہے ، اگر چہ کمزور ہی کیوں نہ ہو!
محترم شیخ آپ ایسا کریں اللہ آپ کو جزائے خیر دے مجھے تھوڑی مزید وضاحت کر دیں کہ میں نے کیا بات غلط لکھی ہے کیونکہ میرے اوپر بات مکمل واضح نہیں ہوئی
میرا خیال ہے کہ اس طرح تعین کے بغیر کوئی بات کہنے سے بات واضح نہیں ہوتی جب تک کوئی غلطی واضح نہ لکھی جائے پس آپ میری غلط بات کے صرف غلط حصے کا قتباس لیں اور اس کی غلطی واضح مختصر لکھ دیں تاکہ میں اپنی اصلاح کر سکوں

جہاں تک مجھے سمجھ آئی ہے آپ نے مندرجہ ذیل غلطیاں نکالی ہیں

1-کشمیر اسلامی ملک نہیں ہے
پیارے بھائی یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں چلیں کچھ لوگ اسکو کچھ دلائل کی وجہ سے اسلامی کہتے ہیں اس لئے لکھ دیا تھا کیونکہ انکے اسلامی کی تعریف میں یہ بھی آتا ہے کہ جہاں الیکشن کے ذریعے مسلمان حاکم بنتا ہو اب چونکہ یہ موضوع یہاں نہیں کہ اسلامی ملک کس کو کہتے ہیں پس اسکو چھوڑیں ہم کشمیر کو غیر اسلامی کہ دیتے ہیں

2- آپ اگر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ
جو بھی کسی مسلمان کی کوئی خوبصورت تاویل کر کے تکفیر کرتا ہے تو وہ لازمی خارجی ہو جاتا ہے

تو محترم بھائی اس موقف کے غلط ہونے کے بارے میں کچھ کہنا تو سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہو گا کیونکہ اس طرح تو شیعوں کا قتل جائز ٹھہرتا ہے کیونکہ وہ صحابہ کی تکفیر کرتے ہیں پس وہ خارجی ہو گئے اور خارجی جہنم کے کتے ہیں انکو قتل کرنے کا حکم تو واضح موجود ہے

3-اگر آپ کا موقف یہ ہے کہ

بعض مسلمانوں کی تکفیر کی جا سکتی ہے اور بعض کی نہیں


تو یہی بات اوپر میں نے کہی ہے میری پھر کیا غلطی ہے

4- داعش کا عذاب ہم جماعت والوں پہ حق ہے کیونکہ ہم ہر تکفیری کو خارجی نہیں کہتے پس داعش والے بھی خارجی نہیں ہوں گے
پیارے بھائی جان میں اوپر شاید آپ پر اپنی بات واضح نہیں کر سکا یا آپ نے اسکو غور سے نہیں دیکھا میں نے کہا تھا کہ مسلمان کی کسی تاویل کی بنا پر تکفیر کرنے کے بعد اسکو قتل کرنے والا خارجی ہوتا ہے البتہ خالی تکفیر کرنے والا خارجی نہیں ہو جاتا پس میری بات سے داعش کی گلو خلاصی کیسے ہو سکتی ہے یا پاکستانی را کے ایجنٹوں کی گلو خلاصی کیسے ہو سکتی ہے

5-اگر آپ کا موقف یہ ہے کہ ہمیں سد ذرائع کے طور پہ جائز تکفیر کو بھی نا جائز کہنا چاہئے تو مجھے اس پہ کوئی اعتراض نہیں البتہ فقہاء کے ہاں سد ذرائع کے اپنے کچھ اصول ہوتے ہیں مثلا احناف کے ہاں سد ذرائع کے طور پہ جہاں جماعت ہو چکی ہو وہاں دوسری جماعت کروانا منع ہے وغیرہ وغیرہ مگر دوسرے اسکو سد ذرائع نہیں مانتے پس اخٹلاف کی صورت میں دوسرے کو گمراہ نہیں کہ سکتے ہاں اختلاف رکھ سکتے ہیں واللہ اعلم

پس میں نے تو اوپر پچھلی پوسٹ میں نمبر دے کے واضح موقف دے دیا تھا کہ جس پہ اعتراضات کا جواب بھی میں آسانی سے دے سکتا ہوں مگر اگر ہم کوئی اور موقف بنائیں تو پھر بریلویوں کی طرح ہم بھی لاجواب ہوتے رہیں گے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یہ شرط آپ نے بتلائی تھی!
اور شاید آپ کو یہ نہیں معلوم کہ امریکہ کا نام ''یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ'' ہے جبکہ پاکستان کا نام ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' ہے!
جب امریکہ نے خود کو اسلامی ریاست کہا ہی نہیں تو اسے اسلامی ریاست کیونکر کہا جاسکتا ہے!
وعلیکم السلام و رحمت الله - محترم ابو داؤد بھائی -

کمیونزم کے زوال کے بعد جب یہودی اور عیسائیوں نے جمہوریت کا راگ الاپنا شروع کیا تو کئی اسلام پسند لوگ بھی اس بہکاوے میں آ گئے کہ جمہوری طرز حکومت اور اسلامی طرز حکومت کوئی مختلف چیز نہیں ہے یہ ایک ہی چیز ہے- اور تبھی یہ مزاحم که خیز اصطلاح سامنے آئی "اسلامی جمہوریہ" -اور پاکستان بننے کے بعد اس ملک کو بھی "اسلامی جمہوریہ" کا نام دے دیا گیا جو اسلام کے نام پر ایک دھوکہ ہے-دونوں طرز حکومت میں زمین و آسمان کا فرق ہے - اسلام زمین پر صرف اور صرف الله رب العزت کی حاکمیت کے نفاذ کا حکم دیتا ہے- جب کہ جمہوریت "ملک میں اکثریت اور پارلیمنٹ" کی خدائی" کی قائل ہے جو صریح شرک ہے-

وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ سوره المائدہ -
اور ان میں اکثر لوگ فاسق ہیں -

وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ سوره یوسف ١٠٦
اوران میں سے اکثر ایسے بھی ہیں جو الله پر ایمان لاتے ہیں اس حال میں کہ اس کے ساتھ شرک بھی کرتے ہیں-

جب الله کے قانون کے مطابق اکثریت فاسق و فاجر ہوتی ہے تو پھر اس کو زبردستی اسلام کا لبادہ اڑھانے کی کیا ایسی ضرورت ہے- اب کیا کہیں ان عقل سے پیدل و جاہل مشائخ کو جو جمہوریت کو زبردستی "مشرف با اسلام" کرنے پر تلے ہوے ہیں-
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جب کہ جمہوریت "ملک میں اکثریت اور پارلیمنٹ" کی خدائی" کی قائل ہے جو صریح شرک ہے-
یہ تو اکثریت پر الزام وادر کیا گیا ہے، اسے تہمت بھی کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا!
وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ سوره المائدہ -
اور ان میں اکثر لوگ فاسق ہیں -

وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ سوره یوسف ١٠٦
اوران میں سے اکثر ایسے بھی ہیں جو الله پر ایمان لاتے ہیں اس حال میں کہ اس کے ساتھ شرک بھی کرتے ہیں-
کیا اس کا مستفاد آپ یہ اخذ کرتے ہیں کہ اکثریت ہمیشہ باطل ہوگی! اگر یہ گمان ہے تو بالکل باطل ہے!
ایسی صورت میں تو جمہور فقہاء اور جمہور محدثین کے مؤقف کو باطل اور شذوذ کو حق قرار دینا چاہئے، جبکہ اس کا قائل کوئی بھی نہیں!
جب الله کے قانون کے مطابق اکثریت فاسق و فاجر ہوتی ہے تو پھر اس کو زبردستی اسلام کا لبادہ اڑھانے کی کیا ایسی ضرورت ہے- اب کیا کہیں ان عقل سے پیدل و جاہل مشائخ کو جو جمہوریت کو زبردستی "مشرف با اسلام" کرنے پر تلے ہوے ہیں-
پھر کیا کہیئے گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت مدینہ کی اکثریت کے بارے میں؟
میرے بھائی اس طرح سے اللہ کے قانون اخذ کرنے سے قبل اچھی طرح سوچ بچار کرنا چاہئے اور اصول تفسیر و فقہ کو صرف نظر نہیں کرنا چاہئے!
 
Last edited:

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
جی محترم بھائی اوپر ضابطہ ہی نمبر وار بتایا ہے کہ کس امیر کی اطاعت لازم ہو گی اور کہاں کہاں لازم ہو گی


جی یہ بات درست ہے لیکن ہم اس سلسلے میں صرف غلطی کی نشاندہی کر سکتے ہیں جو ہماری استطاعت میں ہے اور کچھ نہیں کر سکتے


کیسے حکمرانوں کے خلاف؟ سمجھ نہیں آئی
اوپر میں نے وضاحت کی تھی کہ ایک وہ مسلمان حکمران ہیں جنکے کافر ہونے پہ سب متفق ہیں مثلا میرے نزدیک کشمیر افغانستان عراق شام وغیرہ انکے خلاف خروج جئز ہے
مگر اسکے برعکس وہ مسلمان حکمران جن کے کفر پہ امت متفق نہیں ہے بلکہ اکثریت کے ہاں وہ مسلمان ہیں اگرچہ منافق ہی ہوں تو انکے خلاف خروج کوئی جائز نہیں کہتا اور نہ شریعت جائز کہتی ہے کیونکہ شریعت میں واضح ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے واضح منفق عبداللہ بن ابی کو قتل تک نہیں کیا حالانکہ استطاعت تھی کہ لوگ کہیں گے کہ یہ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں ور جہاں استطاعت نہ ہو تو وہں تو اصلی کافر کوبھی قتل نہیں کی جاتا جیسا کہ امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے وہاں خڑوج بھی جائز نہیں نہ انڈیا والے مسلمانوں کے لئے مودی کے خلاف خروج درست ہو گا جیسا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے خندق کے موقع پہ یہودیوں کے خلاف خڑوج نہیں کیا تھا حالانکہ وہ اندر سے لڑائی شروع کر چکے تھے اور انکے ایک یہودی کو صفیہ رضی اللہ عنھا قتل بھی کر چکی تھیں


اوپر لکھا جا چکا ہے کہ جو بھی بات شریعت کے خلاف ہو وہ چاہے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ہو یا پھر نواز شریف کی ہو یا پھر راحیل شریف کی ہو یا کسی اور کی ہو وہ ماننا ہی ہمیں اہل الحدیث کی صف سے باہر نکال دیتا ہے ال الحدیث کوئی لقب نہیں بلکہ یہ وصف ہے جس میں یہ وصف ہو گا وہی اہل الحدیث ہو گا


میں نے اوپر لکھا ہے کہ جن کے ہاں یہ حکمران مسلمان ہیں چاہے منافق ہیں تو انکو انکی اطاعت کرنی ہو گی اور وہ اطاعت صرف معروف کاموں میں ہو گی یا مباح کاموں میں ہو گی جیسا کہ ٹریفک کے قوانین وغیرہ
اور اس میں بھیڑ چال کی کوئی بات ہی نہیں ہم جب امریکہ میں رہتے ہیں یا انڈیا میں ہوں تو وہاں بھی تو انکی مباح اور جائز کاموں میں اطاعت کرتے ہیں تو ایک مسلمان منافق کی اطاعت میں کیا مسئلہ ہے البتہ غلط کاموں میں اطاعت تو کسی کی بھی نہیں ہے اللہ آپ کو جزائے خیر دے امین اگر کوئی غلطی ہو تو اصلاح کر دیں

محترم عبدہ بھائی
السلام علیکم

میں آپ کی اور ابن داؤد صاحب کی تحریرسے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ، اطاعت سے مراد آپ کی ملکی قوانین پر عمل ہے ۔میں یہاں صرف اپنے ملک کی بات کررہاہوں۔ تو آئین کے مطابق حکمران کوئی بھی ہو اس کی اطاعت واجب ہے۔ کیونکہ پاکستان کے آئین میں یہ لکھا ہے کہ ملک کا سربراہ صرف مسلمان ہوسکتا ہے تو اس کو مسلمان تسلیم کریں چاہے جیسے بھی عقائد کا حامل ہو لیکن اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو۔

اس طرح کی اطاعت تو غیر مسلم کی بھی کی جاسکتی ہے پھر اس میں مسلمان کی کیا تخصیص ۔ یعنی جو قانون اسلام کے خلاف ہو اس کو ترک کریں اور باقی کو اخیتار کریں۔
اور کفار کے ملک میں رہنے والے بھی ایسا ہی کر تے ہیں ۔ مثلا شراب ، قمار بازی، اور حرام گوشت قانونی طور پر جائز ہے لیکن مسلمان اخیتار نہیں کرتے ۔
مسلم ممالک میں سودی کاروبار قانوناً جائز ہے اب اس کا اختیار کاروبار کرنے یا نہ کرنے والے پر ہے۔
ایسی اطاعت تو کچھ مشکل نہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
صرف کہنے سے اسلامی ہو جائے گی یا نام رکھنے سے اسلامی ہو جائے گی شراب کا نام روح افزاء رکھنے سے وہ حلال ہو جائے گا یا روح افزا مشروب ہو جائے گا
کچھ عقل سے کام لیں
بھائی جان آپ ذرا اپنی عقل شریف کا کچھ استعمال کریں! یہ نام بتلاتا ہے کہ پاکستان نے اسلامی ریاست ہونے کا اعلان کیا ہے، جبکہ امریکہ نے نہیں، جو آپ نے پاکستان کے اسلامی ریاست نہ ہونے پر یہ کہا تھا کہ امریکہ میں بھی نماز کی آزادی ہونے کے باوجود غیر اسلامی ریاست ہے، اور اس پر آپ نے پاکستان کو بھی قیاس کرنا چاہا تھا!
اگر کیا ہے تو اپ بتا دو
وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ (سورة الأنفال 58)
اور اگر آپ کو کسی قوم کی طرف سے خیانت (بدعہدی) کا خوف ہو تو برابری (کی سطح) پر ان کا عہد ان کے منہ پر دے ماریں۔ بے شک اللہ خیانت (بدعہدی) کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُمْ مِنْ وَلَايَتِهِمْ مِنْ شَيْءٍ حَتَّى يُهَاجِرُوا وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (سورة الأنفال 72)
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے (مہاجروں کو اپنے ہاں) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی، وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو لوگ ایمان لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی، ان کی دوستی سے تمہیں کوئی غرض نہیں حتی کہ وہ حجرت کریں۔ اور اگر وہ تم سے دین (کے معاملہ) میں مدد مانگیں تو تم پر مدد لازم ہے مگر اس قوم کے خلاف نہیں کہ جن کے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ ہو، اور تم جو کام کرتے ہو اللہ دیکھ رہا ہے۔
قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي الْفَيْضِ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: كَانَ مُعَاوِيَةُ يَسِيرُ فِي أَرْضِ الرُّومِ، وَكَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ أَمَدٌ، فَأَرَادَ أَنْ يَدْنُوَ مِنْهُمْ، فَإِذَا انْقَضَى الْأَمَدُ غَزَاهُمْ، فَإِذَا شَيْخٌ عَلَى دَابَّةٍ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ [اللَّهُ أَكْبَرُ] وَفَاءً لَا غَدْرًا، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ فَلَا يحلَّنَّ عُقْدَةً وَلَا يَشُدَّهَا حَتَّى يَنْقَضِيَ أَمَدُهَا، أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ" قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةَ، فَرَجَعَ، وَإِذَا الشَّيْخُ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
وَهَذَا الْحَدِيثُ رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ وَأَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ، وَالتِّرْمِذِيُّ، وَالنَّسَائِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ فِي صَحِيحِهِ مِنْ طُرُقٍ عَنْ شُعْبَةَ، بِهِ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: حَسَنٌ صَحِيحٌ.

امام احمد نے سُلَیم بن عامر سے روایت کیا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سرزمین روم میں چل رہے تھے، آپ کے اور ان کے مابین معاہدہ تھا، آپ چاہتے تھے کہ ان کے قریب پہنچ جائیں اور جب معاہدے کی مدت ختم ہو تو ان پر حملہ کردیں تو انہوں نے دیکھا کہ ایک بزرگ جانور پر سوار ہیں اور کہہ رہے ہیں: اللہ اکبر! اللہ اکبر! وعدہ وفا کرنا ہے، بے وفائی نہیں کرنی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ''جس کسی قوم کے مابین عہد ہو تو جب تک مدت گزر نہ جائے، کوئی گرہ کھولے نہ باندھے یا ان کا عہد انہی کی طرف پھینک دے اور برابر کا جواب دے۔'' سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث پہنچی تو وہ واپس آگئے، حدیث بیان کرنے والے یہ بزرگ حضرت عمر بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے۔ اس حدیث کو امام ابو داود طیالسی، امام ابو داود، امام ترمذی، امام نسائی نے اور ابن حبان رحم اللہ عنہم نے بھی اپنی ''صحیح'' میں شعبہ کے طرق سے بیان کیا اور ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 79 جلد 04 تفسير القرآن العظيم (تفسير ابن كثير) - أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي (المتوفى: 774هـ) - دار طيبة للنشر والتوزيع، الریاض

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 568 المصباح المنير في تهذيب تفسير ابن كثير - إعداد جماعة من العلماء، بإشراف صفي الرحمن المباركفوري - دار السلام، الرياض
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 812 المصباح المنير في تهذيب تفسير ابن كثير (ترجمه اردو) - إعداد جماعة من العلماء، بإشراف صفي الرحمن المباركفوري - دار السلام

جامع الترمذي » كِتَاب السِّيَرِ » بَاب مَا جَاءَ فِي الْغَدْرِ
سنن أبي داود » كِتَاب الْجِهَاد » بَاب فِي الْإِمَامِ يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْعَدُوِّ عَهْدٌ فَيَسِيرُ إِلَيْهِ
مسند أحمد بن حنبل» مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ...» مُسْنَدُ الشَّامِيِّينَ» حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ
مصنف ابن أبي شيبة» كِتَابُ السِّيَرِ» الْغَدْرُ فِي الْأَمَانِ
شعب الإيمان للبيهقي» الثاني والثلاثون من شعب الإيمان وهو بَابٌ فِي الإِيفَاءِ بِالْعُقُودِ
مسند أبي داود الطيالسي» وَحَدِيثُ عَمْرِو بْنِ عَبسَةَ السُّلَمِيِّ
المصباح المنير
کا حوالہ اس حدیث کی صحت کے بارے میں مزید اطمینان کے لئے پیش کیا گیا ہے، جبکہ اسے امام ترمذی ، امام ابن حبان، امام ابن کثیر بھی صحیح قراد دے چکے ہیں!
اسی پر میں نے عرض کی تھی کہ نماز قائم بھی کریں گےاس سے معلوم ہوتا ہے کے نمازی ہیں کیونکہ خود بھی اس کا اہتمام کرتا ہے اور دوسروں سے بھی اس کا اہتمام کروائیں گے جیسے خلفاء راشدین کیا کرتے تھے
میرے بھائی! آپ انہیں بے نمازی ثابت کرنے کے لئے نماز کا رجسٹر پیش کریں!
اور قرآن نے یہی کہا ہے کہ
اگر ہم تم کو زمیں میں تمکن عطا کریں گے تو تم نماز قائم کرو جو خلفاء راشدین کرتے تھے نماز پڑھاتے تھے
آپ کا نماز قائم کرنے سے یہ مطلب اخذ کرنا کہ نماز پڑھانا، یعنی کہ امامت کرانا بالکل باطل ہے!
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (55) وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (56) (سورة النور)
یہاں بھی نماز قائم کرنے کا حکم صرف خلفاء کو نہیں بلکہ تمام ایمان لانے والوں کو ہے، اب تمام کہ تمام ایمان لانے والوں کا امامت کروانا تو محال ہے، لہٰذا آپ کا یہ معنی اخذ کرنا باطل ہے!
آپ حاکم ہونے کے لئے نماز کی امامت کرانے سے مشروط ہونے کی دلیل پیش کیجئے!
اب اپ اسلامی ریاست کے اصولوں سے ناواقف ہیں تو کوئی کیا کرے
میرے بھائی! میں کسی کے خود ساختہ اصول کا قائل نہیں! اور لوگوں کے خود ساختہ اصولوں سے واقف ہونا لازم بھی نہیں جانتا!
کیونکہ اسلامی ریاست کا سربراہ ان میں نیک ترین آدمی ہوتا
یہ بھی عجیب کہی! اس کی کوئی دلیل سبیل بھی ہے؟ کہ اسلامی ریاست کا سربراہ کا ان میں سے نیک ترین آدمی ہونا لازم ہے؟
جبکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اس کے برخلاف ہیں!
ایک حدیث پیش خدمت ہے:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلَ سَلَمَةُ بْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ قَامَتْ عَلَيْنَا أُمَرَاءُ يَسْأَلُونَا حَقَّهُمْ وَيَمْنَعُونَا حَقَّنَا، فَمَا تَأْمُرُنَا؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الثَّالِثَةِ، فَجَذَبَهُ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ، وَقَالَ: «اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا، فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِّلُوا، وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ.
محمد بن جعفر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے سماک بن حرب سے حدیث بیان کی، انہوں نے علقمہ بن وائل حضرمی سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ سلمہ بن یزید جعفی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اور کہا: اللہ کے نبی! آپ کیسے دیکھتے ہیں کہ اگر ہم پر ایسے لوگ حکمران بنیں جو ہم سے اپنے حقوق کا مطالبہ کریں اور ہمارے حق ہمیں نہ دیں تو اس صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے اس سے اعراض فرمایا، اس نے دوبارہ سوال کیا، آپ نے پھر اعراض فرمایا، پھر جب اس نے دوسری یا تیسری بار سوال کیا تو اس کو اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ نے کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سنو اور اطاعت کرو کیونکہ جو ذمہ داری ان کو دی گئی اس کا بار ان پر ہے اور جو ذمہ داری تمہیں دی گئی ہے، اس کا بوجھ تم پر ہے
صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِمَارَةِ (بَابٌ فِي طَاعَةِ الْأُمَرَاءِ وَإِنْ مَنَعُوا الْحُقُوقَ)
صحیح مسلم: کتاب: امور حکومت کا بیان (باب: امراء (حکمرانوں ) کی اطاعت چاہے وہ حقوق ادا نہ کرتے ہو)
مگر اب تو کوئی بھی ہو بس نظریہ ضرورت کے تحت وہی خلیفہ ہو گیا یا حکمران ہو گیا اور وہ اسلامی ریاست ہو گئی ماشاء الله .
جی جناب! اب کسی کو بھائے نہ بھائے، جب تک کسی حاکم میں اسلامی ریاست کے حاکم ہونے کی قران و سنت میں مذکور کوئی شرط مفقود نہیں ہو، اس کے اسلامی ریاست کے حاکم ہونے سے ریاست کے اسلامی ہونے کی نفی نہیں کی جا سکتی!
 
Last edited:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محترم عبدہ بھائی
السلام علیکم
میں آپ کی اور ابن داؤد صاحب کی تحریرسے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ، اطاعت سے مراد آپ کی ملکی قوانین پر عمل ہے ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ بھائی جان
آپ نے بالکل درست سمجھا کہ اطاعت سے مراد ملکی قوانین پہ عمل کرنا ہے کیونکہ وہ حاکم کے ہی بنائے ہوتے ہیں اور انکی اطاعت امیر کی اطاعت ہی ہوتی ہے اور انکی نافرمانی امیر کی نا فرمانی ہی ہوتی ہے

میں یہاں صرف اپنے ملک کی بات کررہاہوں۔ تو آئین کے مطابق حکمران کوئی بھی ہو اس کی اطاعت واجب ہے۔
جی آئین یا قانون کے مطابق حاکم کوئی بھی ہو اسکی اطاعت لازم ہے

کیونکہ پاکستان کے آئین میں یہ لکھا ہے کہ ملک کا سربراہ صرف مسلمان ہوسکتا ہے تو اس کو مسلمان تسلیم کریں چاہے جیسے بھی عقائد کا حامل ہو لیکن اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو۔
نہیں پیارے بھائی جان ایسا نہیں ہے آپ نے حکمران کے مسلمان تسلیم کرنے کیے دو دلائل دیئے ہیں
1-کیونکہ آئین میں لکھا ہوا ہے کہ ملک کا سربراہ مسلمان ہو گا اس لئے جو بھی سربراہ ہو گا اسکو مسلمان ہی تسلیم کریں
تو بھائی جان یہ دلیل بالکل غلط ہے اسکو عمران خٓن اور طاہر القادری ہی نہیں مانیں گے کیونکہ آئین میں تو پھر یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ جو حکمران یا وذیراعظم یا ایم این اے وغیرہہو گا وہ جھوٹا نہیں ہو گا تو کیا ہمیں سب اسمبلی کے ممبران کو سچا اور ایماندار تسلیم کرنا پڑے گا کیونکہ آئین میں ایسا لکھا ہے

2-چونکہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں
تو بھائی مسلمان ہونے کی مطلقا یہی دلیل عقل میں آنے والی نہیں ہے

اس طرح کی اطاعت تو غیر مسلم کی بھی کی جاسکتی ہے پھر اس میں مسلمان کی کیا تخصیص ۔ یعنی جو قانون اسلام کے خلاف ہو اس کو ترک کریں اور باقی کو اخیتار کریں۔
جی بھائی جان میں نے اوپر بتایا تھا کہ ہم مسلمانوںکے لئے یہ بھی لازم ہے کہ امریکہ کے مسلمان اس کی غیر مسلم حکومت کی اطاعت کریں یا انڈیا کے رہنے والے مسلمان مودی کے قوانین کی اطاعت کریں
اس سلسلے میں ایک مولانا اصلاحی کے حوالے سے پڑھا تھا جو کافی حد تک درست معلوم ہوتا ہے وہ نیچے لکھتا ہوں

دین اسلام کا مزاج یہ ہے کہ وہ لاقانونیت اور انارکی کو سخت ناپسند کرتا ہے اور اپنے ماننے والوں کو ایک اجتماعی نظام کے تحت زندگی بسر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ دین ہمیں ایسے تمام احکامات اور قوانین میں اپنی حکومت کی اطاعت کی دعوت دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف نہ ہوں۔ اس مسئلے پر امین احسن اصلاحی صاحب نے اپنی کتابوں "اسلامی ریاست" اور "تزکیہ نفس" میں بہت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ یہاں ہم ان کے بیان کردہ نکات کا ایک خلاصہ پیش کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اس مسئلے میں اصلاحی صاحب کا موقف امت مسلمہ کے اکثر علماء کے نقطہ نظر کے مطابق ہے۔
اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے یا نہ کرنے کے اعتبار سے حکومتیں چار قسم کی ہو سکتی ہیں: پہلی قسم وہ حکومت ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کی پابندی کی جاتی ہواور دین اسلام کو بطور قانون قائم کر دیا گیا ہو۔ اس حکومت کے بارے میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی واضح ہدایات دی ہیں کہ اس کی ہر حال میں اطاعت کی جائے اور اس کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ ایسی حکومت کی اطاعت نہ کرنے والاجاہلیت کی موت مرتا ہے۔ بشری تقاضوں کے باعث اس قسم کی حکومت میں چند خامیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں، ان کے باوجود ان حکومتوں کی نافرمانی جائز نہیں بلکہ ان خامیوں کے خلاف آواز اٹھانے کا حکم ہے۔
دوسری قسم کی حکومت وہ ہے جس میں بظاہر تو اسلام کا نام لیا جاتا ہو اور بعض معاملات میں اس کی پیروی بھی کی جاتی ہو، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ظلم اور کرپشن بھی پائی جاتی ہو۔ موجودہ دور کے زیادہ تر مسلم ممالک میں ایسی ہی حکومتیں قائم ہیں۔ ایسی حکومتوں کے بارے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح ہدایت فرمائی ہے کہ ان کی اس وقت تک اطاعت کی جائے جب تک یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف حکم نہ دیں۔ ظلم اور کرپشن کے خلاف آواز بلند کی جائے اور معاشرے اور حکومت کی اصلاح کی کوشش جاری رکھی جائے۔ اس قسم کی حکومتوں کے خلاف مسلح بغاوت جائز نہیں۔ آئین او رقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے برائی کے خلاف جدوجہد بہر حال مسلمانوں پر اجتماعی طور پر لازم ہے۔
تیسری قسم کی حکومت غیر مسلموں کی حکومت ہے جہاں مسلمانوں کو اپنے دین اور پرسنل لاء کے بارے میں مکمل آزادی ہو۔ اگر ایک مسلمان کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ وہاں سے ہجرت کرکے کسی ایسے ملک میں زندگی بسر کر سکتا ہے جہاں اسے اسلامی ماحول میسر ہو تب تو ٹھیک ہے ورنہ وہ اسی معاشرے میں رہتے ہوئے اپنے دین پر عمل کرے اور دنیاوی معاملات میں حکومت کی اطاعت بھی کرے۔ ایسی حکومت کے خلاف بھی مسلح بغاوت درست نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کسی کے والدین اگر غیر مسلم ہوں تو اس پر لازم ہے کہ وہ ان کے ساتھ ساتھ عدل و احسان کا سلوک جاری رکھے، ہاں دین کے معاملے میں ان کی مداخلت گوارا نہ کرے۔ موجودہ دور میں مغربی ممالک کی حکومتیں اس کی مثال ہیں۔
چوتھی قسم کی حکومت وہ ہے جس میں اہل اسلام کو اپنے دین کے بارے میں آزادی حاصل نہ ہو بلکہ انہیں کفر اختیار کرنے پر مجبور کیا جارہا ہو خواہ اس کے حکمران غیر مسلم ہوں یا نام نہاد مسلمان ہوں۔ ماضی قریب کا سوویت یونین ایسے طرز حکومت کی مثالیں ہیں جہاں دین پر عمل کرنے والوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے دین کو ترک کردیں۔
ایسی صورت میں مسلمانوں کے سامنے تین راستے ہیں: ایک ہجرت، دوسرے مسلح جدوجہد اور تیسرے صبر۔ موجودہ دور میں ویزے کی پابندیوں کی وجہ سے کسی کمیونٹی کے لئے ہجرت کرنا ممکن نہیں رہا۔جہاں تک جہاد کا تعلق ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کوئی آزاد مسلم حکومت اس پر تیار ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ حالات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
اگر حالات ایسے ہیں کہ حکومتی سطح پر مسلح جدوجہد کے ذریعے ظلم و جبر کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے اور اس جدوجہد کی کامیابی کے معقول حد تک امکانات موجود ہیں تو یہ کوشش کی جاسکتی ہے لیکن اگر مسلح جدوجہد کے نتیجے میں محض انارکی ہی پھیلنے کا غالب امکان ہو اور اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہ آتی ہو تو اپنے ایمان کو بچانے کی ممکن حد تک جدوجہد کی جائے کیونکہ اسلام کی نظر میں لاقانونیت اور انارکی ظلم و جبر سے بھی بڑا جرم ہے۔
لاقانونیت اور انارکی کے نتیجے میں ایک محدود پیمانے پر ہونے والا ظلم و جبر وسیع پیمانے پر پھیل جاتا ہے اور پھر ہر کوئی اپنی اپنی طاقت کے مطابق اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگ جاتا ہے۔ عام لوگوں کی دولت پر بدمعاش قبضہ کر لیتے ہیں، خواتین کی عزتیں محفوظ نہیں رہتیں اور جرائم پیشہ گروہ منظم ہو جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں افغانستان اور صومالیہ اس کی بدترین مثالیں ہیں جہاں کسی کی مال، جان اور عزت محفوظ نہیں۔
صبر کرکے اور معاشرے سے الگ تھلگ ہوکر اپنے ایمان کو بچانے کی ایک خوبصورت مثال اصحاب کہف کی ہے جو اپنے دین و ایمان کو بچانے کے لئے شہر سے باہر غار میں چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس کوشش کی بہت تعریف کی ہے۔
اگر ہم پاکستان کے حالات پر غور کریں تو ہمارے ملک میں دوسری قسم کی حکومت قائم ہے۔ یہاں ہمیں انفرادی طور پر تو دین پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے، لیکن اجتماعی طور پر نظام حکومت اور معاشرے میں بہت سی خرابیاں موجود ہیں ۔ ان حالات میں اگرچہ ہمارے لئے یہ درست نہیں کہ ہم حکومت سے محاذ آرائی کی پالیسی اختیار کریں لیکن معاشرے اور حکومت کی خرابیوں پر احسن انداز میں تنقید کرکے ان کی اصلاح کی جدوجہد کرنا بہرحال بحیثیت ایک قوم کے ہم پر لازم ہے۔
یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ ہمارے ملک میں اس کام پر بھی کوئی پابندی نہیں اور ہم کھل کر یہ کام کر سکتے ہیں۔ صرف اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ جذبات کے جوش میں خواہ مخواہ کی محاذ آرائی درست نہیں۔
ہمارے معاشرے میں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد، پچھلے دو سو برسوں سے ہمارے سیاسی رہنما بالعموم ہمیں قانون توڑنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ چونکہ ملک میں اسلام کا مکمل نفاذ نہیں ہو سکا اس لئے ہمارے سیاسی کارکن سگنل توڑنے، ٹریفک کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ اس طرح کی حرکتوں سے یہ لوگ اسلام کو تو نافذ نہیں کر پاتے اور نہ ہی حکومت کو کوئی بڑا نقصان پہنچا پاتے ہیں لیکن بے چارے عوام الناس کو تنگ ضرور کرتے ہیں جن کا اس معاملے میں کوئی قصور نہیں۔
اپنی شخصیت کو بہتر بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم خود میں قانون کا احترام پیدا کریں اور اگر یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف نہ ہو تو اس کی پابندی کریں۔ انارکسٹوں اور دہشت گردوں کو کسی معاشرے میں بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
(مصنف: محمد مبشر نذیر)

لیکن بھائی جان اس غیر مسلم حکومت کی اطاعت اور مسلمان حکومت کی اطاعت میں فرق ہے مثلا غیر مسلم حکومت کی اطاعت مجبوری اور مصلحت کے تحت کی جاتی ہے مگر مسلم حکومت کی اطاعت فرض ہے اسی طرحغیر مسلم حکومت کی اطاعت ہر کام میں نہیں ہوتی بلکہ صرف مفسدہ روکنے کے لئے اور فساد کم کرنے کے لئے ہو گی مگر مسلم حکومت کی اطاعت اسکے علاوہ کاموں میں بھی ہو گی مثلا جنگ کا حکم مسلم حکومت دے گی تو اطاعت لازم ہو گی اور غیر مسلم حکومت دے گی تو لازم نہیں ہو گی اسی طرح کچھ اور کاموں میں ہو گا

نوٹ: غیر مسلم حکومت کی مفسدہ روکنے کی وجہ سے اطاعت لازم ہونے پہ حیرانی سے پہلے یہ یاد رکھ لیں کہ کوئی نام نہاد مسلمان حکومت بھی اگر مرتد ہو جائے یعنی کھلا کفر اختیار کر لے تو بھی مفسدہ کی وجہ سے اسکے خلاف لڑائی یا خروج جائز نہیں ہے یعنی اسکی مصلحت والی اطاعت سے نکلنا جائز نہیں جیسا کہ شیخ صالح ابن عثیمین کا فتوی ہے کہ
'' مھما کان الأمر الخروج علی الحاکم ولو کان کفرہ صریحا مثل الشمس لہ شروط فمن الشروط أن لایترتب علی ذلک ضرر أکبر بأن یکون مع الذین خرجوا علیہ قدرة علی ازالتہ بدون سفک دماء أما ذا کان لا یمکن بدون سفک دماء فلا یجوز لأن ھذا الحاکم الذی یحکم بما یقتضی کفرہ لہ أنصار و أعوان لن یدعوہ ...لو فرض أنہ کافر مثل الشمس فی رابعة النھار فلا یجوز الخروج علیہ اذا کان یستلزم اراقة الدماء واستحلال الأموال.''
'' جیسا بھی معاملہ کیوں نہ ہو اور اگر حکمران کا کفر سورج کی طرح روشن ہی کیوں نہ ہو پھر بھی اس کے خلاف خروج کی کچھ شرائط ہیں۔ پس ان شروط میں ایک شرط یہ ہے کہ اس خروج کے نتیجے میں کوئی بڑا ضرر مرتب نہ رہا ہو یعنی جو لوگ حکمران کے خلاف خروج کر رہے ہیں' ان کے پاس بغیر مسلمانوں کی خون ریزی کیے حکمران کو ہٹانے کی قوت و طاقت موجود ہو۔ پس اگر حکمران کو بغیرمسلمانوں کی خونریزی کے ہٹانا ممکن نہ ہو تو یہ خروج جائز نہ ہوگا کیونکہ وہ حکمران جو ایسے فیصلے کرتا ہے جو اس کے کفر کے متقاضی ہیں' کے بھی اعوان و انصار ہوتے ہیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اور کفار کے ملک میں رہنے والے بھی ایسا ہی کر تے ہیں ۔ مثلا شراب ، قمار بازی، اور حرام گوشت قانونی طور پر جائز ہے لیکن مسلمان اخیتار نہیں کرتے ۔
مسلم ممالک میں سودی کاروبار قانوناً جائز ہے اب اس کا اختیار کاروبار کرنے یا نہ کرنے والے پر ہے۔
ایسی اطاعت تو کچھ مشکل نہیں۔
سمجھ نہیں آئی پیارے بھائی جان مشکل اور کیا ہوتی ہے آپ کس قسم کی مشکل کی بات کر رہے ہیں اطاعت میں نفس کے خلاف کام کرنا ہی تو مشکل ہوتی ہے پس جو اوپر معروف کاموں میں حکمران کی اطاعت کرتا ہے وہی تو مشکل کام ہے مجھے سمجھ نہیں آئی آپکی بات
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یہ تو اکثریت پر الزام وادر کیا گیا ہے، اسے تہمت بھی کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا!

کیا اس کا مستفاد آپ یہ اخذ کرتے ہیں کہ اکثریت ہمیشہ باطل ہوگی! اگر یہ گمان ہے تو بالکل باطل ہے!
ایسی صورت میں تو جمہور فقہاء اور جمہور محدثین کے مؤقف کو باطل اور شذوذ کو حق قرار دینا چاہئے، جبکہ اس کا قائل کوئی بھی نہیں!

پھر کیا کہیئے گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت مدینہ کی اکثریت کے بارے میں؟
میرے بھائی اس طرح سے اللہ کے قانون اخذ کرنے سے قبل اچھی طرح سوچ بچار کرنا چاہئے اور اصول تفسیر و فقہ کو صرف نظر نہیں کرنا چاہئے!
محترم ابو داؤد بھائی -

لگتا ہے آپ لفظ "اکثریت" کے حقیقی مفہوم سے واقف نہیں ورنہ دوسرے لفظوں میں تو آپ کے الفاظ قرآن کی آیات جو کہ پیش کی گئی ہیں پر تہمت ثابت جاتے ہیں- (الله آپ پر رحم کرے)- نا کہ میرے الفاظ اکثریت پر تہمت- اب اس کی آپ کیا توجیہ پیش کریں گے کہ الله کے قانون کے مطابق اکثریت "فاسق" ہوتی ہے- یہ تو الله کریم کی وحی کے الفاظ ہیں- میرے نہیں-

بات صرف اتنی ہے کہ "اکثریت" ہمیشہ باطل نہیں ہوتی لیکن اکثر و بیشتر باطل ہوتی ہے- اور قران کا بھی یہی منشاء ہے- اگر اکثریت کو ہمیشہ "حق" سمجھ لیا جائے تو وہ قانون بن جاتا ہے اور یہی جمہوریت کا شاخسانہ ہے- جمہوریت کی بنیاد ہی یہی ہے کہ ہر وہ حکم چاہے قرآن و حدیث سے کیوں نہ ٹکراتا ہو- جمہوری فیصلے کی بنیاد پر ملک کا قانون بن جاتا ہے- کبھی ہم جن پرستی اس قانون کے تحت جائز قرار پاتی ہے تو کبھی بیوی پر ہاتھ اٹھانے پر مرد کو سزا ہو جاتی ہے تو کبھی سودی نظام کے خلاف رٹ کو خارج کردیا جاتا ہے تو کبھی چوری کی سزا ہاتھ کاٹنے کو وحشیانہ قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے- ہمارے اس "اسلامی جمہوریہ" پاکستان میں آپ کو اس قسم کے صریح کفر کی بے شمار مثالیں ملیں گی-

جہاں تک آپ کی یہ بات کہ "جمہور فقہاء اور جمہور محدثین کے مؤقف کو باطل اور شذوذ کو حق قرار دینا چاہئے، جبکہ اس کا قائل کوئی بھی نہیں" تو اس سے مراد ان کی مجموعی تعداد ہے- ناکہ کسی گروه کے مقابلے میں اکثریت ہے - ورنہ کیا اسلام کی ابتدائی و مکی دور میں مسلمان کفار کی نسبت اقلیت میں نہیں تھے - تو کیا اس وقت ان مسلمانوں کے موقف کو باطل سمجھنا صحیح ہوتا ؟؟

قرآن میں تو الله رب العزت کا فرمان ہے کہ :

قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ سوره البقرہ ٢٤٩
وہ کہنے لگے - بارہا ایسا ہوا کہ بڑی جماعت پر چھوٹی جماعت الله کے حکم سے غالب ہوئی ہے اور الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

محترم -میرا بھی یہی موقف ہے کہ اللہ کے قانون اخذ کرنے سے قبل اچھی طرح سوچ بچار کرنا چاہئے اور اصول تفسیر و فقہ کو صرف نظر نہیں کرنا چاہئے! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اصحاب کرام رضوان الله اجممین اور خود نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے دور میں متعدد فیصلے جمہور کے خلاف جا کر کیے گئے - حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے معدنین زکات کے خلاف تلوار اٹھانے کا فیصلہ اکثریت صحابہ کے مشورے کو نظر انداز کرکے کیا- بدر کے قیدیوں کے معاملے میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم اور ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کا ایک موقف ہونے کے باوجود وحی الہی فرد واحد حضرت عمر رضی الله عنہ کے فہم کے مطابق نازل ہوئی- غزوہ احد میں بعض صحابہ نے مدینہ سے باہر نکل کرلڑنے کے حوالے سے شدید خواہش اورجوش وخروش کا مظاہرہ کیا لیکن بعد میں یہ صحابہ کرام مدینہ سے باہر جنگ کرنے کے اپنے فیصلے سے دستبردار ہوگئے - لیکن نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے اس کے باوجود یہ فرما کر کہ "جب ایک نبی جنگ کے لئے ہتھیار پہن لے تو اس وقت تک نہیں اتارتا جب تک کہ اللہ اس کے درمیان اور اس کے دشمن کے درمیان فیصلہ فرما دے"- جنگ شہر سے باہر ہی لڑنے کا فیصلہ کیا-- اس کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جو اقلیت کے حکم کی اکثریت پر فوقیت کی دلیل ہیں -یہ تو اس سنھرے دور کی مثالیں ہیں کہ اگر اس وقت اکثریت کے فیصلے کو بھی ترجیح دی جاتی تو معاشرے پر شاید اس کے کوئی برے اثرات مرتب نہ ہوتے-

لیکن آج کے اس پرفتن دور میں حکم ، قانون اورفیصلے کے لئے انسانوں کی اکثریت کی طرف رجوع کرنا اور ان کی ا کثریت کے علمِ حقیقی سے جاہل، دین سے بے بہرہ اور فاسق ہونے کی بنا پر ان کی اکثریت کے فیصلے کو قانون کادرجہ دینا جاہلیت کے فیصلے کو قانون بنانے کے سواء اور کیا ہو سکتا ہے- جب کہ قرانی نقطہ نظر سے ہو بھی جمہوری نظام ناجائز- ویسے بھی جمہوریت تو ایک ایسا نظام حکومت ہے کہ جس میں اقتدار حاصل کرنے کی بہت حرص پائی جاتی ہے -اور اس معاملے میں بھی یہ حکم نبوی سے براہ راست متصادم ہے -

ابو موسٰی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے دو چچا زاد بھائیوں کے ساتھ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے پاس حاضر ہوا ان میں سے ایک بولا- اللہ کے رسول ہمیں کسی ملک کی حکومت دے دیجئے ان ملکوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دئیے ہیں اور دوسرے نے بھی ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا اللہ کی قسم ہم نہیں دیتے اس شخص کو جو اس کو مانگے اور نہ اس کو جو اس کی حرص کرے۔ (مسلم:)

غرض یہ ایک طاغوتی نظام ہے جس کی ترویج و اشاعت میں یہود و نصاریٰ دن رات لگے رہتے ہیں - ورنہ اگر یہ نظام حکومت جائز یا مستحسن ہوتا تو یہ کافر دن رات اس کی حمایت میں اپنا وقت کیوں برباد کرتے ؟؟-

فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق لَاانْفِصَامَ لَھَا ط وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْم ٌ سوره البقرہ
پس جس نے طاغوت سے کفر کیااور اللہ پر ایمان لایا وہ ایک مضبوط سہارے سے یوں وابستہ ہو گیا کہ کبھی اس سے جدا کیا جانے والا نہیں اور اللہ سنتا و جانتا ہے۔

الله ہماری صحیح راستے کی طرف رہنمائی فرمایے (آمین)-
 
Last edited:
Top