• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آج ہر انسان تبدیلی چاھتا ہے !!!

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
کل ایک خبر پڑھی کہ سعودیہ عرب میں ایسے لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا جو داعش میں بھرتی ہونا چاہتے تھے یا داعش میں بھرتی کرتے تھے۔

جہاں تک میرا خیال ہے تو اس کی یہی وجہ ہے کہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں، اگرچہ ہر کسی کی تبدیلی کا معیار علیحدہ علیحدہ ہے، طاہر القادری کی تبدیلی، عمران خان کی تبدیلی اور داعش کی تبدیلی میں فرق ہے، لیکن دیکھا جائے تو خاص کر عسکری تنظیموں کی طرف لوگوں کا میلان بڑھنے کی ایک وجہ یہی ہے کہ لوگ اس نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

داعش کی بڑھتی ہوئی فتوحات، عملی طور پر مزارات کی تباہی، دشمن پر رعب و دبدبہ، یہاں تک کہ دشمن اپنی وردیاں تک چھوڑ کر بھاگ گئے، مسلمانوں کے خطرناک ترین دشمن رافضیوں پر اس قدر خوف، یہ تمام باتیں ایسی ہیں کہ ایک عام مسلمان کے دل و دماغ کو راحت پہنچاتی ہیں۔

لوگ مولوی حضرات سے مایوس ہو چکے ہیں، ان سے کوئی امید نہیں کہ وہ کسی جدوجہد کے لئے اٹھ کھڑیں ہوں گے، مولوی حضرات چاہے جہاں کے ہوں، سعودیہ عرب کے ہوں یا پاکستان کے، اس معاملے میں بہت کوتاہی کا شکار ہیں، اور یہ زبردستی عوام کو ان ظالم فاسق (اور کئی ایک صورتوں میں کافر) حکمرانوں کی حکومت میں مجبور رکھنا چاہتے ہیں، انہوں نے صرف ممبر و محراب پر تقریریں کرنی ہیں، لیکن جب کوئی عملی طور پر جدوجہد کے لئے اٹھے تو اس کو دہشت گرد کہہ دیا جاتا ہے۔ ایک جگہ لکھا تھا کہ یوں عسکری تنظیمیں بنا کر مسلم ممالک میں جدوجہد فساد کہلاتی ہے، بلکہ آئینی لحاظ سے پر امن تحریک چلائی جائے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون اس دنیا میں اخلاق کا اعلیٰ نمونہ ہو سکتا ہے، لیکن انہوں نے بھی جہاد کے لئے تلواریں اٹھائیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہونے کا شوق رکھتا ہو گا، لیکن انہوں نے بھی کلمہ گو لوگ جو صرف زکوۃ کے انکاری ہوئے تھے ان کے خلاف تلواریں اٹھا لیں۔

اب یہاں اگر آج کی سوچ لاگو کی جائے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تو یہ چاہئے تھا کہ پیار سے سمجھاتے، آئینی تحریک چلاتے، کہ دیکھو میرے پیارے پیارے زکوۃ کا انکار کرنے والے بھائیو، یہ جو کچھ تم کر رہے ہو، یہ ٹھیک نہیں ہے، آپ کو چاہئے کہ آپ زکوۃ دیا کریں، آپ تو ہمارے کلمہ گو بھائی ہیں۔

لیکن نہیں، کیونکہ یہ چیز اس مسئلے کا حل نہیں، ایسے موقعوں پر سرکشوں کے خلاف تلواریں ہی اٹھائی جاتی ہیں، اگر اس دور امن میں صرف ایک رکن کا انکار کر دینے والوں کے خلاف تلواریں اٹھ سکتی ہیں تو آج کے دور میں جہاں اسلام پر عمل کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے، یہاں کیوں نہیں؟

علماء کو چاہئے کہ اللہ کا خوف کریں اور دینی معاملات میں صحیح رہنمائی کی طرف توجہ کریں۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کل ایک خبر پڑھی کہ سعودیہ عرب میں ایسے لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا جو داعش میں بھرتی ہونا چاہتے تھے یا داعش میں بھرتی کرتے تھے۔

جہاں تک میرا خیال ہے تو اس کی یہی وجہ ہے کہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں، اگرچہ ہر کسی کی تبدیلی کا معیار علیحدہ علیحدہ ہے، طاہر القادری کی تبدیلی، عمران خان کی تبدیلی اور داعش کی تبدیلی میں فرق ہے، لیکن دیکھا جائے تو خاص کر عسکری تنظیموں کی طرف لوگوں کا میلان بڑھنے کی ایک وجہ یہی ہے کہ لوگ اس نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

داعش کی بڑھتی ہوئی فتوحات، عملی طور پر مزارات کی تباہی، دشمن پر رعب و دبدبہ، یہاں تک کہ دشمن اپنی وردیاں تک چھوڑ کر بھاگ گئے، مسلمانوں کے خطرناک ترین دشمن رافضیوں پر اس قدر خوف، یہ تمام باتیں ایسی ہیں کہ ایک عام مسلمان کے دل و دماغ کو راحت پہنچاتی ہیں۔

لوگ مولوی حضرات سے مایوس ہو چکے ہیں، ان سے کوئی امید نہیں کہ وہ کسی جدوجہد کے لئے اٹھ کھڑیں ہوں گے، مولوی حضرات چاہے جہاں کے ہوں، سعودیہ عرب کے ہوں یا پاکستان کے، اس معاملے میں بہت کوتاہی کا شکار ہیں، اور یہ زبردستی عوام کو ان ظالم فاسق (اور کئی ایک صورتوں میں کافر) حکمرانوں کی حکومت میں مجبور رکھنا چاہتے ہیں، انہوں نے صرف ممبر و محراب پر تقریریں کرنی ہیں، لیکن جب کوئی عملی طور پر جدوجہد کے لئے اٹھے تو اس کو دہشت گرد کہہ دیا جاتا ہے۔ ایک جگہ لکھا تھا کہ یوں عسکری تنظیمیں بنا کر مسلم ممالک میں جدوجہد فساد کہلاتی ہے، بلکہ آئینی لحاظ سے پر امن تحریک چلائی جائے۔

کیا انقلاب بھی پر امن طریقے سے آتے ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون اس دنیا میں اخلاق کا اعلیٰ نمونہ ہو سکتا ہے، لیکن انہوں نے بھی جہاد کے لئے تلواریں اٹھائیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہونے کا شوق رکھتا ہو گا، لیکن انہوں نے بھی کلمہ گو لوگ جو صرف زکوۃ کے انکاری ہوئے تھے ان کے خلاف تلواریں اٹھا لیں۔

اب یہاں اگر آج کی سوچ لاگو کی جائے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تو یہ چاہئے تھا کہ پیار سے سمجھاتے، آئینی تحریک چلاتے، کہ دیکھو میرے پیارے پیارے زکوۃ کا انکار کرنے والے بھائیو، یہ جو کچھ تم کر رہے ہو، یہ ٹھیک نہیں ہے، آپ کو چاہئے کہ آپ زکوۃ دیا کریں، آپ تو ہمارے کلمہ گو بھائی ہیں۔

لیکن نہیں، کیونکہ یہ چیز اس مسئلے کا حل نہیں، ایسے موقعوں پر سرکشوں کے خلاف تلواریں ہی اٹھائی جاتی ہیں، اگر اس دور امن میں صرف ایک رکن کا انکار کر دینے والوں کے خلاف تلواریں اٹھ سکتی ہیں تو آج کے دور میں جہاں اسلام پر عمل کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے، یہاں کیوں نہیں؟

علماء کو چاہئے کہ اللہ کا خوف کریں اور دینی معاملات میں صحیح رہنمائی کی طرف توجہ کریں۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ارسلان بھائی علماء کی کیا اہمیت ہے اور ھم جیسے طالب علم لوگوں کی کیا ذمہ داری ہے آپ بھائی اس لیکچر کو پورا سنے اور پھر کمنٹس ضرور کریں - کیونکہ آج کے دور میں فتنے عروج پر ہیں اور علماء کی رہنمائی کے بغیر ھم اس کو نہیں سمجھ سکتے میں نے آج ہی گاڑی میں اس لیکچر کا پارٹ - 1سنا ہے آپ بھی ضرور سنیں -

شیخ ابو ذید ضمیر رحمہ کا درس ہے جس کا عنوان یہ ہے



 
Top