• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آداب نماز کا بیان

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
نماز ایک عظیم عبادت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اسے دین کا ستون قرار دیا ہے۔ یہ دینِ اسلام کا وہ رکن عظیم ہے جسے ایمان اور کفر وشرک کے درمیان فرق کرنے والی چیز کہا گیا ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:
اُتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَاَقِـمِ الصَّلٰوةَ ۭاِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ ۭ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ (النحل آیت 45۔)
"جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کریں یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے ۔بیشک اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے ""
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا، مَا تَقُولُ: ذَلِكَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ
""تمہارا کیا خیال ہے اگر کسی کے دروازے پر کوئی نہر جاری ہو اور وہ اس میں ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو، تو تم کیا کہتے ہو کہ یہ (نہانا) اس کے میل کو باقی رکھے گا؟""
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا کہ اس کے جسم پر بالکل میل نہ رہے گا۔ تو فرمایا:
فَذَلِكَ مِثْلُ الصَّلَوَاتِ الخَمْسِ، يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الخَطَايَا
صحیح البخاری کتاب مواقیت الصلاۃ باب الصلوات الخمس کفارۃ حدیث نمبر 528
"پانچوں نمازوں کی یہی مثال ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔"
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
مَا مِنْ امْرِئٍ مُسْلِمٍ تَحْضُرُهُ صَلَاةٌ مَكْتُوبَةٌ فَيُحْسِنُ وُضُوءَهَا وَخُشُوعَهَا وَرُكُوعَهَا إِلَّا كَانَتْ كَفَّارَةً لِمَا قَبْلَهَا مِنْ الذُّنُوبِ مَا لَمْ يُؤْتِ كَبِيرَةً وَذَلِكَ الدَّهْرَ كُلَّهُ
صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب فضل الوضو ء و الصلاۃ عقبہ حدیث نمبر228
"جس مسلمان پر فرض نماز کا وقت آ جائے اور وہ اچھی طرح وضو کرے ، پورے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرے اوربہترین انداز میں (اطمینان کےساتھ) رکوع (سجدے)ادا کرے تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے جب تک کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے اور یہ (فضیلت) ہمیشہ کے لیے ہے"
اس حدیث مبارک کے الفاظ سے معلوم ہو رہا ہے کہ یہاں جن گناہوں کی معافی کی بات ہو رہی ہے ان سے مراد صغیرہ گناہ ہیں، کبیرہ گناہ سچی توبہ سے معاف ہوتے ہیں۔ بندوں کے حقوق بھی اس اعلان سے مستثنیٰ ہیں چنانچہ اگر کسی کا حق مارا، کسی کا مال غصب کر لیا، ملاوٹ کی، کم تولا، خیانت کی وغیرہ تو یہ گناہ نماز سے معاف نہیں ہوتے جب تک صاحبِ حق اسے معاف نہ کر دے۔
نماز کے فائدے حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے پورے آداب اور شرائط کی پابندی کے ساتھ ادا کیا جائے۔ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ تفسیر احسن البیان میں لکھتے ہیں:
"(نماز) بے حیائی اور برائی سے روکنے کا سبب اور ذریعہ بنتی ہے جس طرح دواؤں کی مختلف تاثیرات ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فلاں دوا فلاں بیماری کو روکتی ہے اور واقعتا ایسا ہوتا ہے لیکن کب؟ جب دو باتوں کا التزام کیا جائے ایک دوائی کو پابندی کے ساتھ اس طریقے اور شرائط کے ساتھ استعمال کیا جائے جو حکیم اور ڈاکٹر بتلائے۔ دوسرا پرہیز یعنی ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جائے جو اس دوائی کے اثرات کو زائل کرنے والی ہوں۔ اسی طرح نماز کے اندر بھی یقینا اللہ نے ایسی روحانی تاثیر رکھی ہے کہ یہ انسان کو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے لیکن اسی وقت جب نماز کو سنت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق ان آداب وشرائط کے ساتھ پڑھا جائے جو اس کی صحت و قبولیت کے ضروری ہیں۔ مثلا اس کے لیے پہلی چیز اخلاص ہے، ثانیًا طہارت قلب یعنی نماز میں اللہ کے سوا کسی اور کی طرف التفات نہ ہو۔ ثالثًا باجماعت اوقات مقررہ پر اس کا اہتمام۔ رابعًا ارکان صلاۃ قرأت ،رکوع، قومہ، سجدہ وغیرہ میں اعتدال و اطمینان۔ خامسًا خشوع وخضوع اور رقت کی کیفیت۔ سادسًا مواظبت یعنی پابندی کے ساتھ اس کا التزام۔ سابعاً رزق حلال کا اہتمام۔ ہماری نمازیں ان آداب وشرائط سے عاری ہیں۔ اس لیے ان کے وہ اثرات بھی ہماری زندگی میں ظاہر نہیں ہو رہے ہیں جو قرآن کریم میں بتلائے گئے ہیں
نماز میں دل لگانے کا طریقہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے فرامین مبارکہ میں ایسی بہت سی چیزوں کی طرف راہنمائی فرمائی ہے جن پر عمل کرنے سے نماز میں خشوع و خضوع کا حصول آسان ہو جاتا ہے۔ ایک صحابی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
صَلِّ صَلَاةَ مُوَدِّع، فَإِنَّكَ إِنْ كُنْتَ لَا تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ
(صحیح الترغیب و الترھیب حدیث نمبر 3350۔سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 1914۔ حسن لغیرہ)
"نماز اس طرح پڑھا کرو جیسے کہ (تم ابھی دنیا سے ) رخصت ہونے والے ہو"بے شک اگر تو اسے(یعنی اللہ تعالیٰ کو)نہیں دیکھ رہا وہ تو تجھے دیکھتا ہے"۔
اس حدیث مبارک میں دو باتوں کا ذکر ہے:
1۔ نماز اس طرح پڑھو جیسے وہ شخص پڑھتا ہے جو دنیا سے رخصت ہو رہا ہو۔ اگرکسی کو معلوم ہو جائے کہ دنیا سے جانے وقت آ چکا ہے اور میرا آخری عمل یہ نماز ہے جسے لے کر میں رب العالمین کے سامنے پیش ہونے جا رہا ہوں تو اس کی نماز کی کیا کیفیت ہو گی۔ یہی یقین اگر ہر نماز کے وقت پختہ ہو جائے کہ معلوم نہیں اگلی نماز پڑھنی نصیب ہو گی یا نہیں تو نمازوں کی حالت ہی بدل کر رہ جائے۔
2۔ تمہیں یقین ہو کہ تم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دربار میں کھڑے ہو، وہ نہ صرف تمہاری حرکات دیکھ رہا ہے بلکہ تمہارے دل میں آنے والے ایک ایک خیال سے بھی واقف ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے جسے حدیثِ جبریل میں احسان سے تعبیر کیا گیا ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تم کو دیکھتا ہے۔
ان دو ہدایات پر عمل کر لیا جائے تو ممکن ہی نہیں کہ نماز میں خشوع و خضوع حاصل نہ ہو لیکن ان کے علاوہ کچھ چیزیں اور بھی ہیں جن سے نماز میں توجہ برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ ذیل میں ان میں سے کچھ کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
کھانے پینے اور حوائج ضروریہ سے فراغت:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ وَلَا هُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ
صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب کراھۃ الصلاۃ بحضرۃ الطعام الذی یرید اکلہ فی الحال حدیث نمبر560
"اس شخص کی نماز نہیں جس کے سامنے کھانا رکھ دیا جائے اور نہ اس شخص کی جسے دو ناپاک چیزوں (پیشاب پاخانے) کی حاجت محسوس ہو رہی ہو"
نقش و نگار والی چیزوں سے اجتناب:
نقش و نگار والاکپڑا یا مصلیٰ استعمال نہ کیا جائے ۔ ایک دفعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے اور انہوں نے ایک ڈبوں والی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ نماز سے فراغت کے بعد فرمایا:
اذْهَبُوا بِخَمِيصَتِي هَذِهِ إِلَى أَبِي جَهْمٍ وَأْتُونِي بِأَنْبِجَانِيَّةِ أَبِي جَهْمٍ فَإِنَّهَا أَلْهَتْنِي آنِفًا عَنْ صَلَاتِي ( وفي رواية : ( فإني نظرت إلى علمها في الصلاة فكاد يفتني )
صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب اذا صلی فی ثوب لہ اعلام و نظر الی علمھا۔ حدیث نمبر 373
"میری یہ ڈبوں کے نقوش والی چادر ابو جہم کے پاس لے جاؤ اور اس کی سادہ چادر میرے لیے لاؤ۔ اس چادر نے ابھی میری توجہ نماز سے ہٹا دی تھی"۔دوسری روایت میں ہے کہ" میری نظر اس کے نقوش پر پڑ گئی (اگر میں نظر ہٹا نہ لیتا تو ) عین ممکن تھا کہ (چادر) مجھے (میری اس نماز کے معاملے میں) پریشانی میں ڈال دیتی"
اسی سے ملتا جلتا دوسرا واقعہ ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک کپڑا تھا جس پر (بے روح اشیاء کی) تصویریں بنی ہوئی تھیں۔انہوں نے سجاوٹ کے لیے وہ کپڑا ایک دیواری طاق کے نچلے حصے تک لٹکایا ہوا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اس طرف چہرہ مبارک کرکے نماز ادا فرمایا کرتے تھے تو فرمایا:
أَخِّرِيهِ عَنِّي
صحیح مسلم کتاب اللباس و الزینۃ باب تحریم تصویر صورہ الحیوان و تحریم اتخاذ ما فیہ صورۃ حدیث نمبر2107
"اسے مجھے سے دور کر دو"
فَإِنَّهُ لَا تَزَالُ تَصَاوِيرُهُ تَعْرِضُ لِي فِي صَلَاتِي
صحیح البخاری کتاب اللباس باب کراھیۃ الصلاۃ فی التصاویر حدیث نمبر 5959
"کیونکہ اس کی تصویریں نماز میں مسلسل مجھے پریشان کرتی رہی ہیں"۔
آجکل مساجد اور گھروں میں استعمال ہونے والے مصلوں اور قالین وغیرہ پر مقدس مقامات کی تصویریں یا دلفریب ڈیزائن بنے ہوتے ہیں۔ یہ چیز سنت کے مطابق نہیں ہے لہٰذا ان کی بجائے سادہ کپڑا یا مصلیٰ استعمال کیا جانا چاہیے۔ یہ حکم کپڑوں وغیرہ کے لیے ہی خاص نہیں بلکہ نماز والی جگہ پر کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جو توجہ ہٹانے کا سبب بن سکتی ہو۔ اس کی دلیل یہ حدیث مبارک ہے۔
لَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ فِي الْبَيْتِ شَيْءٌ يَشْغَلُ الْمُصَلِّيَ
مسند احمد باقی مسند الانصار حدیث امراۃ من بن سلیم، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 2030
"مناسب نہیں کہ (اللہ کے)گھر (خانہ کعبہ) (اور اسی کے حکم میں مسجد،مصلیٰ ، نماز پڑھنے کی جگہ ) میں کوئی ایسی چیز ہو جو نمازی کو مشغول کر دے (یعنی اس کی توجہ نمازسے ہٹا دے)"
نگاہیں پست رکھنا:
اللہ تعالیٰ کے حضور ایک عاجز غلام کی طرح کھڑا ہوا جائے۔ لاپرواہی سے کھڑے ہونا، دائیں بائیں دیکھنا یا نگاہوں کو اوپر نیچے گھماتے رہنا نماز کے آداب کے منافی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےنماز میں نظریں بلند کرنے سے سختی کے ساتھ منع کرتے ہوئے فرمایا ہے:
لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ يَرْفَعُونَ أَبْصَارَهُمْ إِلَى السَّمَاءِ فِي الصَّلَاةِ أَوْ لَا تَرْجِعُ إِلَيْهِمْ ( وفي رواية : لَتُخْطَفَنَّ أَبْصَارُهُمْ)
صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب النھی عن رفع البصر الی السماء فی الصلاۃ حدیث نمبر 428 ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع البصر الی السماء فی الصلاۃ حدیث نمبر 750
"جو لوگ نماز میں اپنی نگاہیں آسمان کی طرف بلند کرتے ہیں انہیں اس سے باز آ جانا چاہیے یا پھر ان کی نظرواپس نہ لوٹ سکے گی" دوسری روایت میں ہے کہ "یا ان کی بینائی اچک لی جائے گی"۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب نماز ادا فرماتے تو اپنا سر مبارک جھکا کر رکھتے تھے اور نگاہیں زمین کی طرف لگی ہوتی تھیں۔اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال اور ادب کا اتنا خیال تھا کہ ایک مرتبہ کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں سے نکلنے تک اپنی نظر سجدے کی جگہ سے نہیں اٹھائی ۔
دائیں بائیں دیکھنے سے اجتناب:
ادھر ادھر دھیان دینے اور قبلے کی جانب سے چہرہ پھیرنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے۔
فَإِذَا صَلَّيْتُمْ فَلَا تَلْتَفِتُوا فَإِنَّ اللَّهَ يَنْصِبُ وَجْهَهُ لِوَجْهِ عَبْدِهِ فِي صَلَاتِهِ مَا لَمْ يَلْتَفِت
سنن ترمذی کتاب الامثال باب ما جاء فی مثل الصلاۃ و الصیام و الصدقۃ، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 2863
" جب تُم لوگ نماز پڑھو تو ادھر ادھر توجہ مت کرو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنا چہرہ مبارک نماز پڑہنے والے کے چہرے کی طرف کیے ہوئے پوری طرح سے متوجہ رہتا ہے جب تک کہ وہ بندہ (نماز سے)اپنی توجہ اِدھر اُدھر نہ کر لے "
التفات یعنی نمازی کے دائیں بائیں متوجہ ہونے کو شیطان کی کاروائی بتایا گیا ہے:
اخْتِلَاسٌ يَخْتَلِسُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ صَلَاةِ الْعَبْد
صحیح البخاری کتاب الاذان باب الالتفات فی الصلاۃ حدیث نمبر 751
"یہ بندے کی نماز (کے خشوع و خضوع میں سے کچھ حصہ ہے) جو شیطان جھپٹ کر لے جاتا ہے"
اور فرمایا:
لَا يَزَالُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مُقْبِلًا عَلَى الْعَبْدِ وَهُوَ فِي صَلَاتِهِ مَا لَمْ يَلْتَفِتْ فَإِذَا الْتَفَتَ انْصَرَفَ عَنْهُ
سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الالتفات فی الصلاۃ، صحیح الترغیب و الترھیب حدیث نمبر 554۔ حسن لغیرہ
"جب بندہ نماز میں ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس کی طرف پوری طرح متوجہ رہتا ہے جب تک وہ بندہ (نماز سے) اپنی توجہ ادھر ادھر نہ کر لے۔ پھر جب بندہ اپنا چہرا پھیر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے رخ پھیر لیتا ہے‘‘
خلاف ادب کام:
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے نماز میں تین چیزوں سے منع فرمایا ہے:
عَنْ نَقْرَةٍ كَنَقْرَةِ الدِّيكِ وَإِقْعَاءٍ كَإِقْعَاءِ الْكَلْبِ وَالْتِفَاتٍ كَالْتِفَاتِ الثَّعْلَب
ِ (صحیح الترغیب و الترھیب حدیث نمبر 555، مسند احمد مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ8091۔ حسن لغیرہ)
"مرغ کے چونچ مارنے کی طرح (جلدی جلدی سجدہ کرنے سے)۔

کتے کی طرح ہاتھ ٹیک کر بیٹھنے سے۔

اور لومڑی کی مانند(سراور آنکھیں) ادھر ادھر گھمانے سے۔

سمجھ کر پڑھنا:
آخری اورسب سے ضروری چیز یہ ہے کہ آپ نماز میں جو کچھ پڑھیں اسے سمجھ کر پڑھیں۔ اس طرح جو کچھ آپ کی زبان سے ادا ہو گا اس کا اثر آپ کے دل پر ہو گا۔ بلا سوچے سمجھے نمازکے کلمات دہرا دینے سے نماز تو ادا ہو جاتی ہے لیکن وہ حلاوت شاید نہ ملے جو سمجھ کر پڑھنے والوں کو نصیب ہوتی ہے۔
(اس آرٹیکل کی تیاری میں امام البانی کی کتاب اصل صفۃ صلاۃ النبی سے مدد لی گئی ہے)
ماخذ
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
جزاک اللہ خیرالجزاء۔اسی طرح نماز کے آداب میں یہ بھی داخل ہے کہ نماز اسی طرح پڑھی جاے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
آجکل مساجد اور گھروں میں استعمال ہونے والے مصلوں اور قالین وغیرہ پر مقدس مقامات کی تصویریں یا دلفریب ڈیزائن بنے ہوتے ہیں۔ یہ چیز سنت کے مطابق نہیں ہے لہٰذا ان کی بجائے سادہ کپڑا یا مصلیٰ استعمال کیا جانا چاہیے۔ یہ حکم کپڑوں وغیرہ کے لیے ہی خاص نہیں بلکہ نماز والی جگہ پر کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جو توجہ ہٹانے کا سبب بن سکتی ہو۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مساجد کے منتظمین و علماء کرام سے خصوصی توجہ کی درخواست ہے...
 
Top