• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آدم علیہ السلام اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی قبر کہاں ہے

شمولیت
جنوری 13، 2013
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
64
کیا یہ آدم علیہ السلام کی قبر ہے۔۔۔ ؟
received_1792070461035302.jpeg


تحریر : الطاف الرحمن ابوالکلام سلفی

محترم قارئین !! آپ نے کئی ایسی تصویریں دیکھی ہوں گی جس پر لکھا ہوتا ہے یہ آدم علیہ السلام کی قبر ہے ، یہ فلاں نبی کی قبر ہے ، فلاں جگہ پر واقع ہے وغیرہ ۔
تو کیا اس طرح کی تصویروں پر ایک مسلمان کو یقین کرنا چاہئے ؟ اور اسلام میں انبیاء وصالحین کے قبروں کی کیا حیثیت ہے؟
عزیز قارئین! سب سے پہلے ہمارا یہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ دین اسلام میں قبروں کی کوئی ایسی اہمیت نہیں ہے کہ آدمی انبیاء وصالحین کی قبروں کو نا جانے تو آخرت میں کامیاب نہیں ہوسکتا ، اور نہ انبیاء وصالحین کے قبروں کو تلاشنے کی کوئی فضیلت ہے کہ اس کے لئے جستجو کی جائے ۔
بلکہ قبروں کی حقیقت اسلام میں بس اتنی سی ہے کہ مسلمان میت کو اسلامی قبرستان میں دفنایا جائے، موت کی یاد تازہ کرنے کے لئے قبروں کی شرعی زیارت کی جائے، صاحب قبر کے لئے مغفرت کی دعائیں کی جائیں، قبرستان میں جوتے اور چپل وغیرہ پہن کر نہ چلا جائے۔ قبر کی بس اتنی سی حقیقت یے۔
مگر افسوس ! آج لوگوں نے قبروں کو عید گاہ بنا دیا ہے ، شرک و بدعت کا کارخانہ بنا ڈالا ہے ، قبریں تجارت گاہ بن گئی ہیں ۔ جو خود سفارش اور دوسروں کے استغفار کا محتاج ہے اسی کو اپنا حاجت روا سمجھ بیٹھا گیا ہے۔ قبروں پر قبے ، مزارات قائم کرکے غیر اللہ کے لئے عبادت کی دعوت دی جا رہی ہے ۔ بھلا بتائیں تو سہی ان جیسے قبر پرست جماعت اور کفار مکہ کی جماعت میں کیا فرق ہے ؟؟ وہ بھی غیراللہ کی عبادت اس لئے کرتے تھے تاکہ وہ انہیں اللہ کے قریب کردے ۔ وہ اپنے آپ کو اس لائق نہیں سمجھتے تھے کہ بذات خود اللہ سے دعا کر سکیں۔ آج بھی وہی عقیدہ اس امت میں در کر آیا ہے ۔ یہ سب علم سے دوری اور جہالت کا نتیجہ ہے ، تاریخ گواہ ہے جس دور میں بھی دینی علم سے لوگ دور ہوئے انہیں شیطان نے خوب گمراہ کیا ۔ انسان کو اپنی شیطانی چالوں کے ذریعہ اللہ کی عبادت سے دور کرکے غیر اللہ کی عبادت کا عادی بنا دیا ۔ لہذا ہمیں شیطانی چالوں سے ہوشیار رہنا چاہئے کیونکہ کہ وہ ہمارا سب سے بڑا کھلا ہوا دشمن ہے۔ شرک و بدعت کے تمام راستوں سے کوسوں دور رہنا چاہیے، تمام اعمال کتاب و سنت کی روشنی میں ہی انجام دینی چاہئے۔ تبھی جاکے ہمیں کامیابی مل سکتی ہے۔ شریعت نے ہر ایسی چیزیں سے منع کردیا جس سے شرک کا دروازہ کھل سکے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالی یھود و نصاری پرلعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کومسجدیں بنا لیا " [صحیح بخاری و مسلم ]
ایک جگہ آپ نے امت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : "ہوشیار رہو تم سے پہلے لوگوں نے انبیاء اورصالحین کی قبروں کو مساجد بنا لیا تھا توتم قبروں کومساجد نہ بنانا میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں " [صحیح مسلم ]
محترم قارئین!! جب یہ معلوم ہوگیا کہ اسلام میں قبروں کی کیا اہمیت ہے ، تو پھر ہمارے لئے انبیاء وصالحین کے غیر معروف قبروں کو ڈھونڈھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور نہ ہی کسی قبر کی زیارت کے لیے سفر کرنا جائز ہے ۔

اب آئیے انبیاء علیہم السلام کے قبروں کے بارے میں کچھ پڑھتے ہیں۔
سو معلوم ہونا چاہئے کہ روئے زمین پر کوئی ایسی جگہ نہیں جس کے بارے میں یقین کے ساتھ کہا جا سکے کہ یہاں فلاں نبی کی قبر ہے سوائے مدینہ منورہ کے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں۔
البتہ ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں کچھ علماء کا کہنا ہے کہ آپ کی قبر فلسطین کے شہر خلیل میں ہے ، جبکہ بعض علماء کا کہنا ہے : ان کی موت جہاں ہوئی تھی وہ تو معلوم ہے مگر آپ دفن کہاں کئے گئے یہ نہیں معلوم ۔
لہذا ان کے علاوہ نبیوں کی قبروں کے بارے میں بیان کردہ ساری باتیں جھوٹ اور بے بنیاد ہیں ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : انبیاء کرام کے قبروں کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ تمام علماء کا صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے معلوم ہونے پر اتفاق ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر تواتر کے ساتھ منقول ہے ، اسی طرح آپ کے دونوں صحابی ابو بکر وعمر کی قبر بھی ۔
لیکن ابراہیم خلیل علیہ السلام کی قبر کے بارے میں زیادہ لوگ یہی کہتے ہیں کہ جو معروف ہے ( فلسطین کے شہر خلیل میں) وہی ہے ۔ جبکہ اہل علم کی ایک جماعت نے اس کا رد کیا یے، امام مالک سے بیان کیا گیا ہے: وہ کہتے ہیں: " روئے زمین پر سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے کسی نبی کی قبر معروف نہیں" ۔ حالانکہ جمہور (اکثر) علماء کہتے ہیں ابراہیم علیہ السلام کی قبر فلسطین میں یے۔ اس کے بہت سارے دلائل ہیں ، اور اہل کتاب کے پاس بھی یہی بات مسلم ہے۔
لیکن انبیاء کے قبروں کے بارے میں جگہ کی تعیین کے ساتھ جاننے کا کوئی شرعی فائدہ نہیں ہے ، ان کی قبروں کا جاننا دین میں سے نہیں ہے ۔ اگر دین ہوتا تو اللہ تعالٰی اس کی حفاظت کرتا ، جیسا کہ تمام دینی اعمال کو محفوظ کیا ہے ۔
سو جو لوگ ان کی قبروں کے بارے میں سوال کرتے ہیں ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہاں جاکر نماز پڑھیں ، اور ان سے دعائیں مانگیں وغیرہ اعمال بدعات جو شریعت میں ممنوع ہیں۔ [مجموع الفتاوى :27 / 444 ]
أمام ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے علاوہ کسی نبی کی قبر یقینی طور پر معلوم نہیں ہے۔ لہذا جو یہ دعوٰی کرے کہ فلاں جگہ "عمان " میں یا کسی اور جگہ انبیاء کی قبریں ہیں تو وہ جھوٹا ہے، اس کا یہ کہنا درست نہیں ہے ، سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ۔ اور اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کی قبر کے جو فلسطین میں یے۔ اور اس کی جگہ بھی معروف یے، لیکن دوسرے انبیاء کی قبریں معلوم نہیں ہیں۔
[نور على الدرب :شريط 642 ]
آدم علیہ السلام کی قبر کے بارے میں کچھ آثار منقول ہیں مگر سب کے سب موضوع و منگھڑت ہیں ۔ لہذا ایسی باتوں پر یقین کیا جانا درست نہیں ہے۔ علامہ البانی لکھتے ہیں اس طرح کے تمام آثار معضل اور واہیات ہیں ۔
[تحذير الساجد من اتخاذ القبور مساجد :ص 69 ] .

عزیز قاریئین ! اس طرح کے سوالات اور اس قسم کا علم کوئی فائدہ نہیں دینے والا ، لوگوں کو دین حق اور اصل تعلیم سے دور کرنے کا یہ ایک ذریعہ ہے ، جس سے انجانے میں لوگ دلچسپی لے رہے ہیں۔ یہ بھی شیطان کی ایک چال ہے۔ جب مسلمان غیر مفید علم کو حاصل کرنے میں زندگی گزار دے گا تو صحیح تعلیم حاصل کرنے کہ فرصت کہاں ملے گی ، کہ جس کے ذریعہ صحیح ڈھنگ سے اللہ کی عبادت کرسکے ۔ اور جب لوگوں کو بنیادی تعلیم حاصل نہ ہو تو شیطان انہیں بہت آسانی کے ساتھ اپنے گروہ میں شامل کرسکتا یے ۔ لہذا اپنے وقت کی قدر کریں ، اسے غنیمت سمجھتے ہوئے ضروری اور واجبی علم کو حاصل کرنے میں صرف کریں ، جس سے دنیا و آخرت دونوں جگہ کامیابی حاصل ہوسکے ۔
اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین ۔
 
شمولیت
اکتوبر 16، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
46
أبو عبدل لطيف حماد بن محمد الأنصاري الأفريقي(1344-1488ھ) رحمہ اللہ لکہتے ہے:
"دنیا مے کسی بھی نبی کی قبر معلوم نہی سوائے ہمارے نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کے قبر مبارک کے، اس بات پر سلف الصالحین کا اجماع ہے"
المجموع فی ترجمہ لابو عبدل لطیف
2-504
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
جزاکم اللہ خیرا محترم شیخ
 

Talha Salafi

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2018
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
28
محترم جناب @تبریز بی ابرار صاحب اس پر بھی روشنی ڈالیں کہ سیدنا علی رضي الله عنه کی قبر کس جگہ ہے ؟ اور کسی جگہ انکو دفن کیا گیا ؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
سیدنا علی رضي الله عنه کی قبر کس جگہ ہے ؟ اور کسی جگہ انکو دفن کیا گیا ؟؟
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی قبر کہاں ہے ؛
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی سیرت پر مشہور محقق و مؤرخ ڈاکٹر علی محمد الصلابی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
وأما موضع قبره فقد اختلف فيه وذكر ابن الجوزي عددا من الروايات في ذلك ثم قال: والله أعلم أي الأقوال أصح (المنتظم (5/ 175).)،
ومن الروايات التي جاءت في هذا الشأن ما يلي:
- أن الحسن بن علي -رضي الله عنهما- دفنه عند مسجد الجماعة في الرحبة مما يلي أبواب كندة قبل أن ينصرف الناس من صلاة الفجر
الطبقات (3/ 38)، خلافة علي بن أبي طالب، عبد الحميد، ص (441)
- رواية مثلها أنه دفن بالكوفة عند قصر الإمارة عند المسجد الجامع ليلا وعمى موضع قبره (المنتظم (5/ 177)، تاريخ الإسلام، عهد الخلفاء، ص (615 )
- رواية تذكر أن ابنه الحسن -رضي الله عنه- نقله إلى المدينة (تاريخ بغداد (1/ 137)).
- رواية تذكر أن القبر الذي بظاهر الكوفة المشهد الذي بالنجف هو قبر علي -رضي الله عنه-، وأنكر بعض أهل العلم مثل شريك بن عبد الله النخعي قاضي الكوفة (ت 178 هـ) ومحمد بن سليمان الحضرمي (ت297 هـ) (خلافة علي بن أبي طالب، عبد الحميد ص (441))،
وفي الحقيقة فإن ابتداع ما يسمى مشهد علي -رضي الله عنه- بالنجف كان أيام بني بويه في عهد الدولة العباسية وكانوا من الشيعة الروافض، وقد صنع الشيعة ذلك على عاداتهم في القرن الرابع، وأهل المعرفة متفقون على أنه ليس بقبر علي -رضي الله عنه- بل قيل، هو قبر المغيرة بن شعبة، قال ابن تيمية: وأما المشهد الذي بالنجف، فأهل المعرفة متفقون على أنه ليس بقبر علي، بل قيل: إنه قبر المغيرة بن شعبة، ولم يكن أحد يذكر أن هذا قبر على ولا يقصده أحد أكثر من ثلاثمائة سنة، مع كثرة المسلمين من أهل البيت والشيعة وغيرهم وحكمهم بالكوفة، إنما اتخذ ذلك مشهدا في ملك بني بويه - الأعاجم- بعد موت علي بأكثر من ثلاثمائة سنة (الفتاوى (4/ 502)، دراسات في الأهواء والفرق والبدع، ص (280
، وقال: وأما مشهد علي فعامة العلماء على أنه ليس قبره، بل قد قيل: إنه قبر المغيرة بن شعبة، وذلك أنه إنما أظهر بعد نحو ثلاثمائة سنة من موت علي في إمارة بني بويه

(الفتاوى (27/ 446))
أسمى المطالب في سيرة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب
https://archive.org/details/waq90305/page/n1035

ترجمہ :
ان کی قبر کی جگہ کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے امام ابن الجوزی نے اس بارے میں متعدد روایات نقل کرنے کے بعد کہا ہے: اللہ تعالی ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ ان میں سے کون سا قول زیادہ ہے۔
(المنتظم لابن الجوزیؒ 5/178 )
اس سلسلے میں جو روایات منقول ہیں، وہ یہ ہیں: ۔
٭حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے انھیں جامع مسجد کے نزدیک کھلی جگہ پر نماز فجر کے بعد دفن کر دیا۔ یہ جگہ کندہ کے ابواب کے قریب ہے وہاں لوگوں نے فجر کی نماز پڑھی پھران کے واپس جانے سے پہلے تدفین عمل میں آئی ۔
(الطبقات 3/38 وخلافۃ علی بن ابی طالب لعبد الحمید ص441 )
* اس جیسی دوسری روایت میں ہے کہ انھیں کوفہ میں قصر امارت کے قریب جامع مسجد کے
پاس رات کو دفن کیا گیا۔ ان کی قبر کا مقام عام لوگوں کو معلوم نہیں۔
(المنتظم 65/177 وتاریخ الاسلام عہد الخلفاءالراشدین ص651)
* ایک روایت میں ہی ذکر ملتا ہے کہ ان کے صاحبزادے حضرت حسن جانے میں مدینہ منتقل کردیا تھا،
(تاریخ بغداد 1/137)
٭ ایک روایت میں یہ ہے کہ کوفہ سے باہر نجف میں مشہد کے نام سے مشہور جگہ ہے۔ وہیں
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قبر ہے ۔ بعض اہل علم نے اس کا انکار کیا ہے، ان میں کوفہ کے قاضی شریک بن عبداللہ النخعی (وفات 178 ھ) اور محمد بن سليمان الخضرمی (وفات 297ھ)
شامل ہیں۔ (خلافة على بن أبي طالب العبدالحميد، ص:441 )
اصل حقیقت یہ ہے کہ نجف میں مشہد علی “ کے نام سے کچھ لوگوں نے خلافت بنو عباس کے دوران ایک مقام کا تعین کیا اور اسے حضرت علی ان کی قبر کا مقام قرار دے دیا۔ وہ لوگ شیعہ روافض تھے۔ شیعہ نے حسب عادت چوتھی صدی ہجری میں یہ کام کیا۔ ابل علم اس بات پر متفق ہیں کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قبر نہیں ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی قبر ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ کہتے ہیں: نجف میں مشہد کے نام سے جو مقام ہے، اہل علم اس پر متفق ہیں کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کی قبر کا مقام نہیں ہے بلکہ وہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی قبر ہے۔ ایل بیت ، شیعہ اور دیگر بے شمار مسلمانوں نے کوفہ میں ان کی حکومت اور تین سو سال سے زیادہ کے لیل و نہار بیت جانے کے باوجود بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قبر ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے تین سو سال بعدبنی بویہ کے دور حکومت میں اس جگہ کو مشہدعلی کا نام دیا گیا۔
(مجموع فتاوی ابن تیمیہ 4/502 ودراسات فی الاھواء والفرق والبدع ص280 )
https://archive.org/details/SayyadnaAliR.AAlSulabi/page/n711
 
Last edited:
Top