• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آدم علیہ السلام جنت میں

شمولیت
مئی 14، 2015
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
آدم علیہ السلام جنت میں


ہم جانتے ہیں کہ لفظ ""شیطان ""اسم جنس ہے جس میں پہلا شیطان اور دیگر تمام شیطان شامل ہیں لیکن ابلیس مخصوص نام ہے، اور یہ اسى شیطان کى طرف اشارہ ہے جس نے حضرت آدم کو ورغلایا تھا وہ صریح آیات قرآن کے مطابق ملائکہ کى نوع سے نہیںتھا صرف ان کى صفوں میں رہتا تھا وہ گروہ جن میں سے تھا جو ایک مادى مخلوق ہے _(1)
اس مخالفت کاسبب کبر و غرور اور خاص تعصب تھا جو اس کى فکر پر مسلط تھا_وہ سوچتا تھا کہ میں آدم سے بہتر ہوں لہذا آدم کو سجدہ کرنے کا حکم نہیں دیا جانا چاہئے بلکہ آدم کو سجدہ کرنا چاہئے اور اسے مسجود ہونا چاہئے_
خدانے ""ابلیس""کى سرکشى اور طغیانى کى وجہ اس کا مواخذہ کیا اور کہا:اس بات کا کیا سبب ہے کہ تو نے آدم کو سجدہ نہیں کیا اور میرے فرمان کو نظر انداز کردیا ہے؟(2)
اس نے جواب میں ایک نادرست بہانے کا سہارا لیا اور کہا:""میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم کو آب و گل سے_(3)
گویا اسے خیال تھا کہ آگ،خاک سے بہتر و افضل ہے،یہ ابلیس کى ایک بڑى غلط فہمى تھی،شاید اسے غلط فہمى بھى نہ تھى بلکہ جان بوجھ کر جھوٹ بول رہا تھا_
لیکن شیطان کى داستان اسى جگہ ختم نہیں ہوتی،بلکہ اس نے جب یہ دیکھا کہ وہ درگاہ خداوندى سے نکال دیا گیا ہے او اس کى سرکشى اور ہٹ دھرمى میں اور اضافہ ہوگیا_ چنانچہ اس نے بجائے شرمندگى اور توبہ کے اور بجائے اس کے کہ وہ خدا کى طرف پلٹے اور اپنى غلطى کا اعتراف کرے،اس نے خدا سے صرف اس بات کى درخواست کى کہ : ""خدایا مجھے رہتى دنیا تک کے لئے مہلت عطا فرمادے اور زندگى عطا کر""_(4)
اس کى یہ درخواست قبول ہوگئی اور اللہ تعالى نے فرمایا:""تجھے مہلت دى جاتى ہے""_(5)
اگر چہ قران میں اس بات کى صراحت نہیں کى گئی کہ ابلیس کى درخواست کس حدتک منظور ہوئی_ارشادہوا: ""تجھ کو اس روز معین تک کے لئے مہلت دى گئی""_(6)
یعنى اس کى پورى درخواست منظور نہیں ہوئی بلکہ جس مقدار میں خدانے چاہا اتنى مہلت عطا کی_
لیکن اس نے جو یہ مہلت حاصل کى وہ اس لئے نہیں تھى کہ اپنى غلطى کا تدارک کرے بلکہ اس نے اس طولانى عمر کے حاصل کرنے کا مقصد اس طرح بیان کیا:
""اب جبکہ تو نے مجھے گمراہ کردیا ہے،تو میں بھى تیرے سیدھے راستے پر تاک لگا کر بیٹھوں گا(مورچہ بنائوں گا)اور ان(اولاد آدم)کو راستے سے ہٹادوں گا،تاکہ جس طرح میں گمراہ ہوا ہوں اسى طرح وہ بھى گمراہ ہوجائیں_""(7)
اس کے بعد شیطا ن نے اپنى بات کى مزید تائید و تاکید کے لئے یوں کہا:""میں نہ صرف یہ کہ ان کے راستہ پر اپنا مورچہ قائم کروں گا بلکہ ان کے سامنے سے،پیچھے سے،دا ھنى جانب سے،بائیںجانب سے گویا
چاروں طرف سے ان کے پاس آئوں گا جس کے نتیجہ میں تو ان کى اکثریت کو شکر گزار نہ پائے گا_""(8)(9)
شروع میں اس کا گناہ صرف یہ تھا کہ اس نے خدا کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھا،اسى لئے اس کے خروج کا حکم صادر ہوا، اس کے بعد اس نے ایک اور بڑا گناہ یہ کیا کہ خدا کے سامنے بنى آدم کو بہکانے کا عہد کیا اور ایسى بات کہى گویا وہ خدا کو دھمکى دے رہا تھا،ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کونسا گناہ ہوسکتا ہے_ لہذا خدا نے اس سے فرمایا:اس مقام سے بد ترین ننگ و عار کے ساتھ نکل جا اور ذلت و خوارى کے ساتھ نیچے اتر جا_
اور فرمایا:""میں بھى قسم کھاتاہوں کہ جو بھى تیرى پیروى کرے گا میں جہنم کو تجھ سے اور اس سے بھردوں گا_""(10)(11)





(1)سورہ کہف آیت 50 میں ہے :""سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے جو جنوں میں سے تھا""
(2)سورہ اعراف آیت12
(3)سورہ اعراف آیت12

(4) سورہ اعراف آیت14
(5) سورہ اعراف ایت 15
(6) سورہ حجر آیت38
(7) سورہ اعراف آیت16

(8)سوہ اعراف آیت16
(9)مذکورہ بالا تعبیر سے مراد یہ ہو سکتى کہ شیطان ہر طرف سے انسان کا محاصرہ کرے گا اور اسے گمراہ کرنے کے لئے ہر وسیلہ اختیار کرے گا اور یہ تعبیر ہمارى روز مرہ کى گفتگو میں بھى ملتى ہے جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ""فلاں شخص چاروں طرف سے قرض میں یا مرض میں گھر گیا ہے_""
اوپر اور نیچے کا ذکر نہیں ہوا اس کى وجہ یہ ہے کہ انسان کى زیادہ تر اور عموماًفعالیت ان چار طرف ہوتى ہے_
لیکن ایک روایت جو امام محمد باقر رضه سے وارد ہوئی ہے،اس میں ان""چاروں جہت""کى ایک گہرى تفسیر ملتى ہے اسمیں ایک جگہ پر حضرت(ع) فرماتے ہیں: ""شیطان جو آگے سے آتا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ آخرت کو جو انسان کے آگے ہے اس کى نظر میں سبک کردیتا ہے،اور پیچھے سے آنے کے معنى یہ ہیں کہ;شیطان انسان کو مال جمع کرنے اور اولاد کى خاطر بخل کرنے کے لئے ورغلاتا ہے،اور""داہنى طرف""سے آنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ انسان کے دل میں شک و شبہ ڈال کر اس کے امور معنوى کو ضائع کردیتا ہے اور بائیں طر ف سے آنے سے مراد یہ ہے ک شیطا ن انسان کى نگاہ میں لذات مادى و شہوات دنیوى کو حسین بنا کر پیش کرتا ہے_
(10)سورہ اعراف ایت 18
(11)سجدہ خدا کے لئے تھا یاآدم کے لئے ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ""سجدہ ""جس کا معنى عبادت وپرستش ہے صرف خدا کے لئے ہے کیونکہ عالم میں خدا کے علاوہ کو ئی معبود نہیں اور توحید عبادت کے معین یہى ہیں کہ خدا کے علاوہ کسى کى عبادت نہ



آدم علیہ السلام کونسى جنت میں تھے؟

اس سوال کے جواب میں اس نکتے کى طرف متوجہ رہنا چاہئے کہ اگر چہ بعض نے کہا ہے کہ یہ وہى جنت تھى جو نیک اور پاک لوگوں کى وعدہ گاہ ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ وہ بہشت نہ تھى بلکہ زمین کے سرسبز علاقوں میں نعمات سے مالا مال ایک روح پر ورمقام تھا کیونکہ_
اوّل تو وہ بہشت جس کا وعدہ قیامت کے ساتھ ہے وہ ہمیشگى اور جاودانى نعمت ہے جس کى نشاند ہى بہت سى آیات میں کى گئی ہے اور اس سے باہر نکلنا ممکن نہیں _
دوّم یہ کہ غلیظ اور بے ایمان ابلیس کے لئے اس بہشت میں جانے کى کوئی راہ نہ تھى وہاں نہ وسوسہ شیطانى ہے اور نہ خدا کى نافرمانى سوم یہ کہ اہل بیت سے منقول روایات میں یہ موضوع صراحت سے نقل ہوا ہے _
ایک راوى کہتا ہے : میں نے امام صادق رضه سے آدم کى بہشت کے متعلق سوال کیا امام نے جواب میں فرمایا :
""دنیا کے باغوں میں سے ایک باغ تھاجس پر آفتاب وماہتاب کى روشنى پڑتى تھى اگر آخرت کى جنتوں میں سے ہو تى تو کبھى بھى اس سے باہر نہ نکالے جاتے""_
یہاں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آدم کے ہبوط ونزول سے مراد نزول مقام ہے،نہ کہ نزول مکان یعنى اپنے اس بلند مقام اور سرسبز جنت سے نیچے آئے _
بعض لوگوں کے نزدیک یہ احتمال بھى ہے کہ یہ جنت کسى آسمانى کرہ میں تھى اگر چہ وہ ابدى جنت نہ تھى ،بعض اسلامى روایات میں بھى اس طرف اشارہ ہے کہ یہ جنت آسمان میں تھى لیکن ممکن ہے لفظ ""سماء ً(آسمان ) ان روایات میں مقام بلند کى طرف اشارہ ہو _
تاہم بے شمار شواہد نشاندہى ہیں کرتے ہیں کہ یہ جنت آخرت والى جنت نہ تھى کیونکہ وہ تو انسان کى سیر تکامل کى آخرى منزل ہے اور یہ اس کے سفر کى ابتداء تھى اور اس کے اعمال اور پروگرام کى ابتداء تھى اور وہ جنت اس کے اعمال و پروگرام کا نتیجہ ہے_(1)



(1)آدم کا گناہ کیا تھا :واضح ہے کہ آدم اس مقام کے علاوہ جو خدا نے قران مجید میں ان کے لئے بیان کیا ہے معرفت وتقوى کے لحاظ سے بھى بلند مقام پر فائز تھے وہ زمین میں خدا کے نمائند ے تھے وہ فرشتوں کے معلم تھے وہ عظیم ملائکہ الہى کے مسجود تھے اوریہ مسلم ہے کہ آدم امتیازات وخصوصیات کے ہو تے ہوئے گناہ نہیں کر سکتے تھے علاوہ ازیں ہمیں معلوم ہے کہ وہ پیغمبر تھے اور ہرپیغمبر معصوم ہو تا ہے لہذا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدم سے جو کچھ سرزد ہوا وہ کیا تھا؟ اس سوا ل کے جواب میں تین تفاسیر موجود ہیں :
1_ آدم سے جو کچھ سرزد ہوا وہ ترک اولى تھا دوسرے لفظوںمیں ان کى حیثیت اور نسبت سے وہ گناہ تھا لیکن گناہ مطلق نہ تھا، گناہ مطلق وہ گناہ ہوتا ہے جو کسى سے سرزد ہو اور اس کے لئے سزا معین ہو (مثلا شرک،کفر ،ظلم اور تجاوز وغیر ہ)اور نسبت کے اعتبار سے گناہ کا مفہوم یہ ہے کہ بعض اوقات بعض مباح اعمال بلکہ مستحب بھى بڑے لوگوں کے مقام کے لحاظ سے مناسب نہیں


آدم علیہ السلام کى باز گشت خدا کى طرف

آدم علیہ السلام کونسى جنت میں تھے خدا نے جو کلمات آدم علیہ السلام پر القاکئے وہ کیا تھے ؟


وسوسئہ ابلیس اور آدم کے جنت سے نکلنے کے حکم جیسے واقعات کے بعد آدم متوجہ ہوئے کہ واقعاً انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اس اطمینان بخش اور نعمتوں سے مالا مال جنت سے شیطانى فریب کى وجہ سے نکلنا پڑا اور اب زحمت مشقت سے بھرى ہوئی زمین میں رہیں گے اس وقت آدم اپنى غلطى کى تلافى کى فکر میں پڑے اور مکمل جان ودل سے پروردگار کى طرف متوجہ ہوئے ایسى توجہ جو ندامت وحسرت کا ایک پہاڑساتھ لئے ہوئے تھى اس وقت خداکا لطف وکرم بھى ان کى مدد کے لئے آگے بڑھا اورجیسا کہ قرآن میں خدا وندعالم کہتا ہے:
"" آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات حاصل کئے جو بہت مو ثر اور انقلاب خیز تھے ،ان کے ساتھ توبہ کى خدا نے بھى ان کى توبہ قبول کرلى کیونکہ وہ تواب والرّحیم ہے ""_(1)
یہ صحیح ہے کہ حضرت آدم نے حقیقت میں کوئی فعل حرا م انجام نہیں دیا تھا لیکن یہى ترک اولى ان کے
انہیں چا ہئے کہ ان اعمال سے گریز کریں اور اہم کام بجالائیں ورنہ کہا جائے گا کہ انہوں نے ترک اولى کیا ہے ہم جو نماز پڑھتے ہیں اس کا کچھ حصہ حضور قلب سے ہوتا ہے کچھ بغیر اس کے، یہ امر ہمارے مقام کے لئے تو مناسب ہے لیکن حضرت رسول اسلام(ص) اور حضرت على (رضه) کے شایان شان نہیں ان کى سارى نماز خداکے حضور میں ہو نى چاہئے اور اگر ایسا نہ ہو توکسى فعل حرام کا ارتکاب تو نہیں تاہم ترک اولى ہے _
2_ خدا کى نہى یہاں ""نہى ارشادی"" ہے جیسے ڈاکڑکہتا ہے فلاں غذا نہ کھائو ورنہ بیمار پڑجائو گے خدا نے بھى آدم سے فرمایا کہ اگر درخت ممنوعہ سے کچھ کھا لیا تو بہشت سے باہر جانا پڑے گااور رنج وتکلیف میں مبتلا ہونا پڑے گا ،لہذا ادم علیہ السلام نے حکم خدا کى مخالفت نہیں کى بلکہ ""نہى ارشادی""کى مخالفت کى ہے _
3_جنت بنیادى طور پر جائے تکلیف نہ تھى بلکہ وہ ادم علیہ السلام کے زمین پر انے کے لئے ایک ازمائشے اور تیارى کا زمانہ تھا،اور یہ نہیں صرف ازمائشے کا پہلو رکھتى تھی_
لئے نافرمانى شمار ہوتا ہے، حضرت ادم فوراً اپنى کیفیت وحالت کى طرف متوجہ ہوئے اوراپنے پروردگار کى طرف پلٹے _
بہرحال جو کچھ نہیں ہونا چاہئے تھایا ہونا چاہئے تھا وہ ہو اور باوجود یکہ آدم کى توبہ قبول ہوگئی لیکن اس کا اثروضعى یعنى زمین کى طرف اترنایہ متغیر نہ ہوا _


(1)سورہ بقرہ ایت 37
 
Last edited:
Top