خضرت ابو موسی الشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔انہوں نے فرمایا جب آدم علیہ السلام کو جنت سے زمیں پر اتارتو آپ کو ہر چیز بنانا سکھایا اور جنت کے پھل بھی عطا فرمائے۔ تمہاے یہ( زمینی) پھل جنت کے پھلوں میں سے ہیں۔فرق یہ ہے کہ ان میں تبدیلی آتی ہے اور ان میں تبدیلی نہیں آتی ۔
اگر یہ حدیث صحیح ہے تو ہر چیز بنانا سکھایا سے کیا مراد ہے اس کی شرح بھی فرمادیجے
مصنف عبدالرزاق والمستدرک حکم 543/2حدیث 3996
محترم بھائی یہ موقوف روایت ( یعنی صحابی کا قول ) مستدرک حاکم میں درج ذیل الفاظ سے موجود ہے :
حدثنا محمد بن صالح بن هانئ ، ثنا الحسين بن الفضل ، ثنا هوذة بن خليفة ، ثنا عوف ، عن قسامة بن زهير ، عن أبي بكر بن أبي موسى الأشعري ، قال: " إن الله لما أخرج آدم من الجنة زوده من ثمار الجنة ، وعلمه صنعة كل شيء فثماركم هذه من ثمار الجنة غير أن هذه تغير وتلك لا تغير "
" صحيح الإسناد ولم يخرجاه " ووافقہ الذہبی( المستدرک 4054 )
ترجمہ :
سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےوہ فرماتے ہیں : اللہ تعالی نے جب آدم علیہ السلام کو جنت سے نکالا تو انہیں جنت کے کچھ پھل ساتھ دے کر بھیجا ، اور انہیں ہر چیز بنانا سکھایا ۔ تو تمہاے یہ( زمینی) پھل جنت کے پھلوں میں سے ہیں۔فرق یہ ہے کہ یہ زمینی پھل خراب ہوجاتے ہیں ، جبکہ وہ جنت کے ( اصلی پھل ) خراب نہیں ہوتے ۔
امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے ، اور امام الذہبی نے انکی موافقت کی ہے
جبکہ علامہ البانی نے بھی اس اثر کو صحیح کہا ہے ( دیکھئے ؛ سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب رہی بات کہ اللہ نے انہیں ( ہر چیز بنانی سکھائی ) کا مطلب ، تو ملحوظ رہے کہ اس روایت میں لفظ ( صنع ) استعمال ہوا ہے
(وعلمه صنعة كل شيء ) اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ نے انہیں ہر وہ کام جو انسانی ضرورت کا ہے وہ بہترین طریقہ سے کرنا سکھلایا
علامہ راغب اصفہانی فرماتے ہیں :
الصُّنْعُ: إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ، وليس كلّ فعل صُنْعاً،
یعنی ( الصنع ) کے معنی کسی کام کو کمال مہارت اوراچھی طرح کرنے کے ہیں ، اس لئے ہر (صنع ) کو فعل کہہ سکتے ہیں ، لیکن ہر فعل ـ صنع۔ نہیں کہہ سکتے ۔‘‘
مثلاً دیکھئے اللہ تعالی نے سیدنا داود علیہ السلام پر ایک خصوصی نعمت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :
وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِنْ بَأْسِكُمْ ( ہم نے داود کو تمہارے لئے ( جنگی ) لباس بنانا سکھلایا ،تاکہ وہ لباس لڑائی میں تمہاری ڈھال بنے ‘‘
یعنی : ہم نے اس کو تمہارے لیے زرہ بنانے کی صنعت سکھا دی کہ تمہارے لیے جنگ کے موقع پر تحفظ کا سامان ہو۔ پھر کیا تم شکر گزار ہو ‘‘
اسی طرح نوح علیہ السلام کو کشتی بنانا سکھائی
( وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ )
تو اللہ تعالی نے سیدنا آدم علیہ السلام دنیاوی کام اور مختلف چیزیں بنانا سکھلادیں ، جس طرح آج بھی مختلف مادوں سے انسان بے شمار چیزیں بناتے ہیں،
یہ وہ بنانا یعنی تخلیق کرنا نہیں جو صرف اللہ کی صفت ہے ، بلکہ اس دنیا میں اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں سے ایک چیز سے دوسری چیز بنانا ، جیسے کسی دھات سے جہاز بنانا ، مٹی سے برتن بنانا وغیرہ۔