• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آدم علیہ السلام کو ہر چیز بنانا سیکھائی یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
خضرت ابو موسی الشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔انہوں نے فرمایا جب آدم علیہ السلام کو جنت سے زمیں پر اتارتو آپ کو ہر چیز بنانا سکھایا اور جنت کے پھل بھی عطا فرمائے۔ تمہاے یہ( زمینی) پھل جنت کے پھلوں میں سے ہیں۔فرق یہ ہے کہ ان میں تبدیلی آتی ہے اور ان میں تبدیلی نہیں آتی ۔
اگر یہ حدیث صحیح ہے تو ہر چیز بنانا سکھایا سے کیا مراد ہے اس کی شرح بھی فرمادیجے
مصنف عبدالرزاق والمستدرک حکم 543/2حدیث 3996
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
خضرت ابو موسی الشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔انہوں نے فرمایا جب آدم علیہ السلام کو جنت سے زمیں پر اتارتو آپ کو ہر چیز بنانا سکھایا اور جنت کے پھل بھی عطا فرمائے۔ تمہاے یہ( زمینی) پھل جنت کے پھلوں میں سے ہیں۔فرق یہ ہے کہ ان میں تبدیلی آتی ہے اور ان میں تبدیلی نہیں آتی ۔
اگر یہ حدیث صحیح ہے تو ہر چیز بنانا سکھایا سے کیا مراد ہے اس کی شرح بھی فرمادیجے
مصنف عبدالرزاق والمستدرک حکم 543/2حدیث 3996
@خضر حیات
@اسحاق سلفی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
خضرت ابو موسی الشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔انہوں نے فرمایا جب آدم علیہ السلام کو جنت سے زمیں پر اتارتو آپ کو ہر چیز بنانا سکھایا اور جنت کے پھل بھی عطا فرمائے۔ تمہاے یہ( زمینی) پھل جنت کے پھلوں میں سے ہیں۔فرق یہ ہے کہ ان میں تبدیلی آتی ہے اور ان میں تبدیلی نہیں آتی ۔
اگر یہ حدیث صحیح ہے تو ہر چیز بنانا سکھایا سے کیا مراد ہے اس کی شرح بھی فرمادیجے
مصنف عبدالرزاق والمستدرک حکم 543/2حدیث 3996
محترم بھائی یہ موقوف روایت ( یعنی صحابی کا قول ) مستدرک حاکم میں درج ذیل الفاظ سے موجود ہے :
حدثنا محمد بن صالح بن هانئ ، ثنا الحسين بن الفضل ، ثنا هوذة بن خليفة ، ثنا عوف ، عن قسامة بن زهير ، عن أبي بكر بن أبي موسى الأشعري ، قال: " إن الله لما أخرج آدم من الجنة زوده من ثمار الجنة ، وعلمه صنعة كل شيء فثماركم هذه من ثمار الجنة غير أن هذه تغير وتلك لا تغير "
" صحيح الإسناد ولم يخرجاه " ووافقہ الذہبی
( المستدرک 4054 )
ترجمہ :
سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےوہ فرماتے ہیں : اللہ تعالی نے جب آدم علیہ السلام کو جنت سے نکالا تو انہیں جنت کے کچھ پھل ساتھ دے کر بھیجا ، اور انہیں ہر چیز بنانا سکھایا ۔ تو تمہاے یہ( زمینی) پھل جنت کے پھلوں میں سے ہیں۔فرق یہ ہے کہ یہ زمینی پھل خراب ہوجاتے ہیں ، جبکہ وہ جنت کے ( اصلی پھل ) خراب نہیں ہوتے ۔
امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے ، اور امام الذہبی نے انکی موافقت کی ہے
جبکہ علامہ البانی نے بھی اس اثر کو صحیح کہا ہے ( دیکھئے ؛ سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب رہی بات کہ اللہ نے انہیں ( ہر چیز بنانی سکھائی ) کا مطلب ، تو ملحوظ رہے کہ اس روایت میں لفظ ( صنع ) استعمال ہوا ہے
(وعلمه صنعة كل شيء ) اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ نے انہیں ہر وہ کام جو انسانی ضرورت کا ہے وہ بہترین طریقہ سے کرنا سکھلایا
علامہ راغب اصفہانی فرماتے ہیں :
الصُّنْعُ: إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ، وليس كلّ فعل صُنْعاً،
یعنی ( الصنع ) کے معنی کسی کام کو کمال مہارت اوراچھی طرح کرنے کے ہیں ، اس لئے ہر (صنع ) کو فعل کہہ سکتے ہیں ، لیکن ہر فعل ـ صنع۔ نہیں کہہ سکتے ۔‘‘
مثلاً دیکھئے اللہ تعالی نے سیدنا داود علیہ السلام پر ایک خصوصی نعمت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :
وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِنْ بَأْسِكُمْ ( ہم نے داود کو تمہارے لئے ( جنگی ) لباس بنانا سکھلایا ،تاکہ وہ لباس لڑائی میں تمہاری ڈھال بنے ‘‘
یعنی : ہم نے اس کو تمہارے لیے زرہ بنانے کی صنعت سکھا دی کہ تمہارے لیے جنگ کے موقع پر تحفظ کا سامان ہو۔ پھر کیا تم شکر گزار ہو ‘‘
اسی طرح نوح علیہ السلام کو کشتی بنانا سکھائی ( وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ )
تو اللہ تعالی نے سیدنا آدم علیہ السلام دنیاوی کام اور مختلف چیزیں بنانا سکھلادیں ، جس طرح آج بھی مختلف مادوں سے انسان بے شمار چیزیں بناتے ہیں،
یہ وہ بنانا یعنی تخلیق کرنا نہیں جو صرف اللہ کی صفت ہے ، بلکہ اس دنیا میں اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں سے ایک چیز سے دوسری چیز بنانا ، جیسے کسی دھات سے جہاز بنانا ، مٹی سے برتن بنانا وغیرہ۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
نہیں سمجھ سکا
اب درست کردیا ہے ، ان شاء اللہ سمجھ آئے گا،
دراصل آج کل کمپیوٹر ساتھ نہیں دے رہا ، اسلئے جلدی جلدی لکھنے اور پوسٹ کرنے کے سبب ایسا ہوا ،
جبکہ علامہ البانی نے بھی اس اثر کو صحیح کہا ہے ( دیکھئے ؛ سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ )
لما أخرج اللهُ آدمَ من الجنة؛ زوده من ثمار الجنة، وعلمه
صَنعَْةَ كل شيء؛ فثماركم هذه من ثمار الجنة، غير أن هذه تَغَيَّرُ،
وتلك لا تَغَيَّرُ) .
ضعيف مرفوعاً، صحيح موقوفاً.
أخرجه البزار في "مسنده " (3/102/2344)

(سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة ۶۱۹۳ )
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
جزاکم اللہ خیرا محترم شیخ
اللہ آپکے علم میں اضافہ عطا فرمائے آمین
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
محترم بھائی یہ موقوف روایت ( یعنی صحابی کا قول ) مستدرک حاکم میں درج ذیل الفاظ سے موجود ہے :
حدثنا محمد بن صالح بن هانئ ، ثنا الحسين بن الفضل ، ثنا هوذة بن خليفة ، ثنا عوف ، عن قسامة بن زهير ، عن أبي بكر بن أبي موسى الأشعري ، قال: " إن الله لما أخرج آدم من الجنة زوده من ثمار الجنة ، وعلمه صنعة كل شيء فثماركم هذه من ثمار الجنة غير أن هذه تغير وتلك لا تغير "
" صحيح الإسناد ولم يخرجاه " ووافقہ الذہبی
( المستدرک 4054 )
ترجمہ :
سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےوہ فرماتے ہیں : اللہ تعالی نے جب آدم علیہ السلام کو جنت سے نکالا تو انہیں جنت کے کچھ پھل ساتھ دے کر بھیجا ، اور انہیں ہر چیز بنانا سکھایا ۔ تو تمہاے یہ( زمینی) پھل جنت کے پھلوں میں سے ہیں۔فرق یہ ہے کہ یہ زمینی پھل خراب ہوجاتے ہیں ، جبکہ وہ جنت کے ( اصلی پھل ) خراب نہیں ہوتے ۔
امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے ، اور امام الذہبی نے انکی موافقت کی ہے
جبکہ علامہ البانی نے بھی اس اثر کو صحیح کہا ہے ( دیکھئے ؛ سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب رہی بات کہ اللہ نے انہیں ( ہر چیز بنانی سکھائی ) کا مطلب ، تو ملحوظ رہے کہ اس روایت میں لفظ ( صنع ) استعمال ہوا ہے
(وعلمه صنعة كل شيء ) اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ نے انہیں ہر وہ کام جو انسانی ضرورت کا ہے وہ بہترین طریقہ سے کرنا سکھلایا
علامہ راغب اصفہانی فرماتے ہیں :
الصُّنْعُ: إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ، وليس كلّ فعل صُنْعاً،
یعنی ( الصنع ) کے معنی کسی کام کو کمال مہارت اوراچھی طرح کرنے کے ہیں ، اس لئے ہر (صنع ) کو فعل کہہ سکتے ہیں ، لیکن ہر فعل ـ صنع۔ نہیں کہہ سکتے ۔‘‘
مثلاً دیکھئے اللہ تعالی نے سیدنا داود علیہ السلام پر ایک خصوصی نعمت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :
وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِنْ بَأْسِكُمْ ( ہم نے داود کو تمہارے لئے ( جنگی ) لباس بنانا سکھلایا ،تاکہ وہ لباس لڑائی میں تمہاری ڈھال بنے ‘‘
یعنی : ہم نے اس کو تمہارے لیے زرہ بنانے کی صنعت سکھا دی کہ تمہارے لیے جنگ کے موقع پر تحفظ کا سامان ہو۔ پھر کیا تم شکر گزار ہو ‘‘
اسی طرح نوح علیہ السلام کو کشتی بنانا سکھائی ( وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ )
تو اللہ تعالی نے سیدنا آدم علیہ السلام دنیاوی کام اور مختلف چیزیں بنانا سکھلادیں ، جس طرح آج بھی مختلف مادوں سے انسان بے شمار چیزیں بناتے ہیں،
یہ وہ بنانا یعنی تخلیق کرنا نہیں جو صرف اللہ کی صفت ہے ، بلکہ اس دنیا میں اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں سے ایک چیز سے دوسری چیز بنانا ، جیسے کسی دھات سے جہاز بنانا ، مٹی سے برتن بنانا وغیرہ۔
 
Top