ضدی
رکن
- شمولیت
- اگست 23، 2013
- پیغامات
- 290
- ری ایکشن اسکور
- 275
- پوائنٹ
- 76
آرزوئیں انسان کو بے بس کردیتی ہیں انسان انہی آرزؤوں کے حصار میں اس طرح جکڑ جاتا ہے کہ جس طرح شہد میں مکھی اور پھر انسان ڈوبتا ہی جاتا ہے ایک آرزو کا تعاقت دوسری آرزو سے متعارف کراتا ہے اور اس طرح سلسلہ در سلسلہ زنجیر بنتی چلتی جاتی ہے۔
یہ قفس ہے جو جلتا ہے اور اپنی راکھ سے نئے قفس کو جنم دیتا ہے غرضیکہ ایک طرف آرزوؤں کا لامتناہی اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے تو دوسری طرف اللہ سبحان وتعالٰی کا فیصلہ۔
بہت دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ ابھی آرزؤئیں ناتمام ہی ہوتی ہیں کہ موت کا آہنی پنجہ آدمی کو اپنے شکنجے میں گس لیتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار کی مجال نہیں ہوسکتی۔
اللہ تعالٰی نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرمایا
یہ قفس ہے جو جلتا ہے اور اپنی راکھ سے نئے قفس کو جنم دیتا ہے غرضیکہ ایک طرف آرزوؤں کا لامتناہی اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے تو دوسری طرف اللہ سبحان وتعالٰی کا فیصلہ۔
لیکن انسان ہے کہ ہر چیز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آرزوؤں کے ناہموار راستے پر دوڑتا ہی جارہا ہے اس سارے سفر میں جو حاصل ہوجائے اس کی تمنا ختم ہوجاتی ہے اور جو حاصل نہ ہوسکے وہ ایک حسرت ناتمام بن کر دم توڑ دیتی ہے۔اور کوئی جاندار یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کو کیا کرے گا (سورہ لقمان 34)۔
بہت دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ ابھی آرزؤئیں ناتمام ہی ہوتی ہیں کہ موت کا آہنی پنجہ آدمی کو اپنے شکنجے میں گس لیتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار کی مجال نہیں ہوسکتی۔
دنیا کی حقیقت کو جاننے کے باوجود بھی عموما انسان کی تمام تر آرزوئیں دنیا ہی سے متعلق ہوتی ہیں وہی دنیاوی جاہ وجلال اقتدار کی حرص شہرت کی ہوس اور عیش وعشرت کی خواہش اور اس کے مقابلے میں اُخروی زندگی کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ہر نفس نے موت سے ہمکنار ہونا ہے اور تم اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو دراصل کامیاب وہ ہے جو آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کریدیا جائے یہ دنیا تو محض ایک فریب ہے (آل عمران185)۔
اللہ تعالٰی نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرمایا
یعنی تم دنیا کی زندگی کو آخرت پر مقدم رکھتے ہو اور آخرت کے مقابلے میں ختم ہونے والی مکدر کرنے والی زائل ہوجانے والی نعمتوں کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت ہر وصف مطلوب میں دنیا سے بہتر اور زیادہ باقی رہنے والی ہے کیونکہ آخرت دارالخلد اور دارالبقا ہے اور دنیا دارالفنا ہے او ایک عقل مند مومن عمدہ کے مقابلے میں ردی کا منتخب کرے گا نہ ایک گھڑی کی لذت کے لئے ابدی رنج وغم کو خریدے گا پس دنیا کی محبت اور اس کو آخرت پر ترجیح دینا ہرگناہ کی جڑ ہے (تفسیر السعدی3\2939)۔