• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آزادی اور غلامی :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
آزادی اور غلامی :

(14اگست 2009کے جرار سے انتخاب)
تحریر: مصعب احمد


گزشتہ دو تین سالوں سے جب بھی چودہ اگست قریب آتا ہے میڈیا میں منظم انداز میں یہ مہم چلائی جاتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے لوگوں نے انگریز کے خلاف مل کر آزادی کی تحریک چلائی لہٰذا ہمیں ”مشترکہ یوم آزادی“ چودہ اگست کی بجائے پندرہ اگست کو منانا چاہیے۔ بھارت سے ثقافتی طائفوں کی آمد اگست کا سورج طلوع ہوتے ہی شروع ہوجاتی ہے جو پاکستان آکر یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ہم سب ایک ہیں۔ ہمارا خون ایک ہے، ہمارے آبا واجداد ایک ہیں۔ ہماری ثقافت، رسم ورواج، رنگ وزبان ایک ہے۔ ہمیں تمام دوریاں مٹاکر یوم آزادی بھی ایک کردینا چاہیے۔ اسی پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے کہ چند روز سے واہگہ بارڈر پر کچھ نوجوانوں کی ٹولیاں نظر آرہی ہیں جو یہ نعرے لگاتے ہیں کہ سرحدوں کی قید کو توڑکر ہمیں ایک ہوجانا چاہیے۔ ایسے لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے اور نسل نو کو ہندو کی اصلیت سے آگاہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تقسیم کے دوران پیش آنے والے ان روح فرسا واقعات کو پیش کیا جائے۔ مظالم کی داستانیں، آگ وخون کا دریا اور آج ایک ہونے کی بات کہنے والوں کے بھیانک کردار کو بے نقاب کرنے کے ساتھ نظریہ¿ پاکستان کی ضرورت واہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ آزادی کی ان لہو لہو داستانوں میں ایک داستان آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔

ابو جواد جو ہندوستان کی مختلف جیلوں میں نو سال تک رہے اور رہائی کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے جنوبی ایشیا کے شعبہ ریسرچ کے انچارج رہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ جب وہ پاکستان کی سرحد کے بالکل قریب پہنچ گئے تو وہاں موجود دو سکھ فوجیوں نے انہیں گرفتار کرلیا اور قریب ایک کوٹھڑی میں بند کردیا۔ ان لوگوں نے اس پر اس قدر تشدد کیا کہ ابو جواد پر غشی کے دورے شروع ہوگئے۔ بھوک پیاس سے بھی حالت بہت بری تھی۔ اسی اثنا میں ایک ادھیڑ عمر خاتون کھانا لے کر آئی اور کوٹھڑی کی سلاخوں سے مخاطب کرکے کہا: ”بیٹا یہ کھانا کھالو۔“ وہ کہتے ہیں میں سوچنے لگ گیا کہ جس عورت کے خاوند نے مجھ پر اتنا ظلم کیا ہے وہ مجھے اتنی اپنائیت سے بیٹا کہہ رہی ہے۔ میں نے عورت سے کھانا پکڑتے ہوئے ساتھ ہی یہ سوال کردیا کہ آپ کے خاوند نے تو مجھے مار مار کر بے حال کردیا مگر آپ نے مجھے بلایا تو آواز میں ماں کی مامتا کا پیار تھا۔ عورت نے کہا: بیٹا تم اس بات کو چھوڑو تمہیں بھوک لگی ہے تم کھانا کھالو۔ میں نے کہا میں اس وقتتک کھانا نہ کھاو¿ں گا جب تک آپ مجھے حقیقت حال نہیں بتائیں گی؟ اس دکھیاری عورت نے کہنا شروع کیا: میرا باپ علاقے کا زمیندار اور اپنے گاو¿ں کا نمبردار تھا۔ مہاجر قافلے کے ساتھ پاکستان جانے کے لیے ہم بھی نکلے۔ راستے میں سکھوں اور ہندوو¿ں نے حملہ کردیا۔ اچانک حملے سے نہتے لوگوں میں مقابلے کی سکت نہ تھی کیوںکہ وہ لڑنے کے لیے گھر سے نہ نکلے تھے۔ ہندوو¿ں اور سکھوں نے مردوں، بچوں، بوڑھوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا شروع کردیا۔ یہ درندے ماو¿ں کی گودوں سے معصوم بچوں کو چھینتے، ہوا میں لہراتے، نیزوں اور برچھیوں میں پرو ڈالتے۔ اپنے ماں باپ کی لاڈلی اولاد ہم دونوں بہن بھائی تھے۔ میری عمر دس سال تھی اور میرے چھوٹے بھائی کی عمر پانچ سال تھی۔ سکھ بلوائی جب میری ماں کی طرف بڑھے تو باپ نے اس کو بچانے کی کوشش کی جس کی پاداش میں وہ شہید کردےے گئے۔ اب میری ماں جس نے اپنے چاند سے بیٹے کو چھاتی سے لگایا ہوا تھا۔ ایک سکھ نے میرے بھائی کو چھین لیا۔ اس ظالم نے اسے ہوا میں لہرایا اور نیچے سے برچھا کردیا۔ خون کے فوارے پھوٹے اور پھر اس کی چیخیں فضاو¿ں میں گم ہوگئیں۔ میں خوف سے اپنی ماں سے چمٹ گئی تو ان ظالموںنے مجھے میری ماں سے چھین لیا۔ میرے سامنے میری ماں کے کپڑے تار تار کردےے اور جسم کا ایک ایک عضو کاٹ کر یہ قہقہے لگاتے۔ انہوں نے ظلم وستم کی انتہا کردی۔ ماں، باپ اور بھائی کی شہادت کے بعد میرا اس دنیا میںکوئی نہیں تھا۔ ان لوگوں نے مجھے بھی خوب مارا پیٹا اور پھر ایک کمرے میں لاکر بند کردیا اور زبردستی مجھے ایک سکھ کی بیوی بنادیا گیا۔ اب میں پانچ بیٹیاں اس سکھ سے جنم دے چکی ہوں۔ کئی دفعہ سوچا کہ یہاں سے بھاگ جاوں مگر ان بچیوں کو چھوڑکر جاوں تو کہاں جاوں؟

یہ تو ایک خاندان کی دکھ بھری داستان تھی۔ نہ جانے ایسے ہزاروں خاندان ہوںگے جو گھروں سے پاکستان کی سرزمین کا دیدار کرنے کے لیے نکلے تھے مگر ہندوو¿ں کی سربریت کا شکار ہوگئے۔ کتنے ہی ایسے نوجوان، بزرگ تھے جنہوں نے پاکستان کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن انہیں اس سرزمین پر پہنچنے سے پہلے شہید کردیاگیا اور ان کی لاشوں سے اٹی ہوئی ریل گاڑیاں پاکستان پہنچتی رہیں۔آج ان لوگوں کو جو یوم آزادی ایک دن منانے کے لیے بہت بے چین ہیں اور جنہیں پاکستان کی سرحدیں قید خانہ محسوس ہوتی ہیں، ذرا ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار پر نظر کرنی چاہیے۔ اگر ہندوو¿ں کی تمناو¿ں کے مطابق یہ پاکستان نہ بنتا تو ہماری حالت آج کتنی بدتر ہوتی اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ممبئی اور گجرات میں مسلمانوں پر بیتنے والی قیامت صغریٰ ہی ہماری آنکھوں پر بندھی پٹی کھولنے کے لیے کافی تھی۔ ہندوستان میں اس وقت مسلمانوں کی تعداد بیس فیصد بتائی جاتی ہے لیکن وہاں فوج اور سرکاری ملازمتوں میں ان کا تناسب ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ محمد افتخارالدین احمد ایڈوکیٹ ہائی کورٹ صدر مسلم ریزرویشن فرنٹ نے ایک پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’ہندوستان کی آزادی کے چھ عشرے گزرنے کے باوجود بھی 80 فیصد مسلمان آج ذاتی مکان سے محروم ہیں۔ 90 فیصد مسلمان خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ 84 فیصد مسلمان بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔“

بالی ووڈ اور کرکٹ بھارت کے لوگوں کے ایسے شوق ہیں جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ ان شعبوں میں مسلمانوں کی خاصی تعداد مل جاتی ہے۔ جو خود کو مسلمان سے زیادہ سیکولر کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔ شبانہ اعظمی بھی ان گنے چنے سیکولروں میں شمار ہوتی ہے۔ جس نے ہندوو¿ں کو خوش کرنے کے لیے کیا کچھ نہ کیا.... لیکن جب اسے بمبئی میں کرایہ پر گھر کی ضرورت پڑی تو ہندوو¿ں نے یہ کہہ کر اسے گھر دینے سے انکار کردیا کہ وہ مسلمان ہے۔ اسی طرح تازہ واقعہ ایک اور اداکار عمران ہاشمی کے ساتھ پیش آیا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو حکومت جان بوجھ کر پسماندہ رکھتی ہے۔ ان کی ترقی کسی شعبے میں بھی نظر نہیں آتی۔ ہاں اگر انہوں نے کسی شعبے میں ترقی کی ہے تو وہ جیلیں ہیں۔ اس وقت مہاراشٹر میں مسلمانوں کی آبادی 10.6 فیصد ہے جبکہ جیلوں میں ان کی تعداد 32.4 فیصد ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کی تعداد 9.06 فیصد اور جیلوں میں ان کی تعداد 25 فیصد ہے۔ نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں 14 ہزار 328 قیدیوں میں سے مسلمان 5 ہزار 620 ہیں۔ بھارت کے ایک سینئر صحافی ”پرفل بدوائی“ کہتے ہیں: ”ہندوستان میں 15 فیصد مسلمان ہیں جبکہ جیلوں میں ان کی تعداد 40 فیصد ہے۔ مسلمانوں کو قتل کرنے والے ہندوو¿ں کے ”تہلکہ ڈاٹ کام“ پر برملا اقرار کرنے کے باوجود آج تک کسی ہندو کو سزا نہیںمل سکی۔ ادھر مسلمانوں کے لیے ”ٹاڈا“ اور ”پوٹا“ جیسے ظالمانہ قوانین تیار کیے گئے ہیں۔ سمجھوتہ ایکسپریس میںدھماکوں کے مجرم جنرل پرساد پروہت کو گرفتار کیا جاچکا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کے ان مسافروں کو جو اس ٹرین میں سوار تھے، مجرم قرار دے کر آج بھی بھارت نے جیل میں بند کررکھا ہے۔ ہم نے جذبہ خیر سگالی کے تحت کشمیر سنگھ سمیت کئی خطرناک مجرموں کو رہا کرکے بھارت کے حوالے کےے لیکن ہمیں جواب میں محمد خالد سمیت کئی لاشوں کے تابوت تحفے میں دیئے گئے۔

آزادی کا جشن منانا چاہیے کہ یہ بہت بڑی نعمت ہے لیکن جشن آزادی منانے کی بات کرنے والوں کو کشمیر میں بھارت کے مظالم پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ انہیں وہ زخم کیوں نہیں بھولتا جو بھارت نے ہمیں 1971ءمیں لگایا تھا۔ انہیں یونیورسٹی گراو¿نڈ کا وہ منظر اور اندراگاندھی کے وہ الفاظ کیوں یاد نہیں رہتے جب اس نے مشرقی پاکستان میں ایک لاکھ فوجیوں کو قیدی بناکر کہا تھا کہ ہم نے دو قومی نظریئے کو بحرہند میں ڈبودیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان نے پاکستان کو توڑ کر بنگلہ دیش بنادیا لیکن بقول بدر منیر (معروف صحافی نوائے وقت) دو

قومی نظریئے کی شکست تو یہ تھی کہ مشرقی پاکستان میں سے مسجدیں ختم ہوجاتیں، مندر آباد ہوجاتے۔ اذانوں کی صدائیں ختم ہو جاتیں۔ مسجدیں بھی اسی طرح آباد اور اذانیں بھی گونج رہی ہیں۔ لوگوں کے نام آج بھی اسلامی ہیں۔ گائے کی قربانی اسی طرح سرعام ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش کے لوگ اسلام سے روگرداں نہیں ہوئے۔ ہندو سے نفرت ان کے خون کا حصہ ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دو قومی نظریہ زندہ ہے۔ بانی¿ پاکستان کے مطابق دوقومی نظریے کی

بنیاد اسی دن پڑگئی تھی جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ الحمدللہ! آج ہندوستان میں ہندو بتوں سے ناامید ہوچکے ہیں اور بڑی تیزی سے لوگ مسلمان ہورہے ہیں۔ جس سے دو قومی نظریے کی اہمیت مزید واضح ہوتی ہے۔ ہمارے دانشوروں اور میڈیا کو بھارت کے ساتھ جشن آزادی منانے والوں کی ہر قدم پر حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ دو قومی نظریہ نے ہمیں اپنی الگ شناخت اور پہچان دی ہے۔ ہمیں پاکستان کی صورت میں آزاد وطن ملا ہے جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے۔ بھارت جہاں آج بھی آدھی سے زیادہ آبادی بھوک اور قحط کا شکار ہے جبکہ پاکستان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مالا مال ہے۔ پاکستان دنیا کا ساتواں ایٹمی ملک ہے۔ یہاں سونے چاندی اور گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان میں سودی عرب کے تیل کی مقدار سے زیادہ کوئلے کے ذخائر ہیں۔ ہوا کے چار بڑے چیتل ہیں اور یہاں زبردست شمسی توانائی موجود ہے۔ چند روز قبل یہاں بھارت سے سکھ زائرین آئے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک سکھ خاندان ریلوے اسٹیشن سے انارکلی آرہا تھا۔ یہ لوگ رکشہ میں سوارتھے۔ راستے میں نئے نئے ماڈل کی کاریں اور گاڑیاں دیکھ کر ایک سکھ کہنے لگا ہم نے تو سنا تھا پاکستان بہت غریب ملک ہے لیکن یہاں آکر دیکھا کہ پاکستان بھارت سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ یہاں کے لوگ ہندوستانیوں سے زیادہ خوشحال ہیں۔ یہاں ہر شخص کے پاس اپنی کار ہے جبکہ بھارت میں ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔

ہمیں بھارت کے ساتھ مل کر جشن آزادی منانے کی بجائے بنگلہ دیش سے ملکر اکھنڈ پاکستان کی کوشش کرنی چاہیے۔ بنگلہ دیش بنے 31 سال ہوچکے ہیں لیکن جدا ہونے کا غم اور قریب ہونے کا احساس آج بھی ہے۔ اس وقت تو دونوں حصوں کا پھر سے ایک ہونا ضروری ہے تاکہ ہم بھارت میں آزادی کی تحریکوں کی کامیابی کی صورت میں فعال کردار ادا کرسکیں۔ ہندو سے تو کبھی اتحاد کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ بانی¿ پاکستان نے اپنے خطاب میں کہا تھا: ”ہندو اور مسلمان دو علیحدہ مذاہب ہیں جو بالکل مختلف عقائد پر قائم ہیں۔ دونوں قوموں کے ہیروز اور رزمیہ واقعات ایک دوسرے سے مختلف ہیں لہٰذا دونوں قوموں کو ایک لڑی میں پرونے کا مقصد برصغیر کی تباہی ہے۔ اس لیے چاہیے کہ مسلمانوں کے پاس الگ قومی وطن ہو۔ جہاں وہ اپنے نظریہ کے مطابق آزادی سے زندگی گزار سکیں۔“ آئیے! آج ہم بھی ”جشن آزادی“ کے اس دن عمل کی طرف لوٹنے کا عہد کریں۔ اپنے دوست اور دشمن کو پہچانیں۔ آزاد ی اور غلامی کا فرق محسوس کریں اور ایک ایسا پاکستان تشکیل دینے کے لیے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں جو اسلامی اور فلاحی ریاست کی جیتی جاگتی تصویر ہو۔


https://www.facebook.com/jarrarofficial/photos/a.127810750750487.1073741828.127800260751536/380516695479890/?type=1&theater
 
Top