• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آزمائشیں اور قید و بند - - - ربّانی سنت ہے!

شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
آزمائشیں اور قید و بند - - - ربّانی سنت ہے!
احمد الحمدان

ہم نے یہ مضمون اپنے بھائیوں اور جھاد فی سبیل اللہ کے راستے پر چلنے والوں کی توجہ آزمائشوں کی جانب مبذول کرانے کی خاطر قلمبند کیا ہے، یہاں تک کہ اللہ جلِ شانہُ کا حکم آ پہنچے اور انہیں قید و بند کی آزمائش گھیر لے. اور وہ یہ جان لیں کہ انکی آزمائش کوئی نئی نہیں ہے اور نہ ہی انکا یہ مغالطہ درست ہے کہ اسیری، راہِ حق کا کوئی خاص ثبوت نہیں. مضمون کا مقصد یہ بھی ہے کہ وہ جان لیں کہ یہ راستہ انبیاء و صالحین کا ہے. اگر کوئی شخص قید کیا گیا ہے تو اس سے پہلے انبیاء کرام بھی قید کیے گئے تھے. اور ہمارے دور کا کوئی ایک شخص بھی انبیاء کرام سے زیادہ اللہ کا مقرب بندہ نہیں ہے.

ورقہ بن نوفل نے جبریل کی آمد کا واقعہ سن کر رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم کو اسی مستقل نبوی خصوصیت سے آگاہ کیا کہ تمام انبیاء اور اہلِ حق کو ان دشمنیوں سے سامنا کرنا پڑتا ہے.
"جب بھی کوئی نبی و رسول وہ پیغام لے کر آیا جسے لے کر آپ آئے ہیں تو اس کے ساتھ دشمنی کی گئی."( صحیحین )

مسلمانوں کا کفار و مشرکین کی دشمنی کا سامنا کرنا، ایک سنتِ الہیہ ہے. جو ہرگز بھی تبدیل نہیں ہوتی. اور کفار کے لیے سب سے اہم ھدف یعنی مسلمانوں کو کفر و شرک میں لے جانے کے لئے نہایت گھناؤنے اور تکلیف دہ طریقے استعمال کرنے میں کچھ بھی مانع نہیں ہے. جیسا کہ اللہ جلِ شانہُ نے فرما دیا،
... وَ لَا یَزَالُوۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ حَتّٰی یَرُدُّوۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِکُمۡ اِنِ اسۡتَطَاعُوۡا ؕ... ﴿البقرة ۲۱۷﴾
... یہ لوگ تم سے لڑائی بھڑائی کرتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہوسکے تو تمہیں تمہارے دین سے مرتد کردیں...

سید قطب فرماتے ہیں؛ "یہ اللہ العلیم کی طرف سے رحمت ہے کہ اس نے ہمیں دشمنوں کی بدباطنی پر مُصر رہنے کی خبر دے دی ہے اور دشمنانِ اسلام کے اس مستقل ہدف کی وضاحت کر کے مسلمانوں کے عقیدے کی جانچ پڑتال بھی کر لی. دشمنانِ اسلام کا یہی وہ مستقل ہدف ہے جس کا سامنا تمام مسلم دنیا اور آنے والی تمام مسلم نسلوں کو کرنا ہے. مسلمانوں کو قتل کرنے کے ذرائع اور طریقے تو مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیرنے کا ہدف ایک مستقل ہدف ہے."( قرآن کے سایے میں، صفحہ ٢٢٧-٢٢٨ )

مسلمانوں کو انکے دین سے پھیرنے کا ایک طریقہ قید و بند اور جیل ہے:
اللہ تعالٰی نے بیان کیا ہے کہ جیل اور قید و بند ایک ایسی آزمائش ہے جس میں ایک نبی حضرت یوسف علیہ السلام بھی آزمائے گئے. سورہ یوسف میں ارشاد باری تعالٰی ہے.
ثُمَّ بَدَا لَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا رَاَوُا الۡاٰیٰتِ لَیَسۡجُنُنَّہٗ حَتّٰی حِیۡنٍ ﴿یوسف ٪۳۵﴾
"پھر ان تمام نشانیوں کے دیکھ لینے کے بعد بھی انہیں یہی مصلحت معلوم ہوئی کہ یوسف کو کچھ مدت کے لئے قید خانہ میں رکھیں."

ابن کثیر فرماتے ہیں: "یوسف علیہ السلام کی پاکبازی عیاں ہونے کے بعد بھی انہوں نے کچھ مدت کے لئے حضرت یوسف کو قید کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ لوگ اس پر زیادہ گفتگو نہ کریں اور عزیز مصر کی بیوی بے قصور رھے اور لوگ یہی سمجھیں کہ یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر کی بیوی کو بہلایا پھسلایا تھا اور اسی وجہ سے انکو قید میں ڈالا گیا. پس، انہوں نے ظلم و عداوت کے باعث یوسف علیہ السلام کو قید میں ڈالا. "(قصص الأنبياء، ص ٢٢٧ )

اور ظلم کی بنا پر یوسف علیہ السلام کو جیل میں ڈالنا، انکے خلاف کذب بیانی اور لوگوں کی نظر میں انکا کردار مشکوک بنانا ہی کافی نہیں تھا، بلکہ مفسرین نے قرآن کے ان الفاظ "حَتّٰی حِیۡنٍ" کی تفسیر میں بیان کیا ہے : " یہ مدت غیر معینہ تھی"
(النقاط والعيون للمواردي ٣/٣٥)

یعنی بغیر کسی عدالتی فیصلے کے جیسے کہ ہمارے موجودہ دور میں ہوتا ہے، حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے کوئی ایک بھی ثالث نہیں تھا جو ان کی رہائی کے لیے کچھ کرے؛ یعنی تمام راستے مسدود ہیں!

تو اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے کیا کِیا - - - ؟!
اللہ عزوجل نے اپنے نبی کے وہ الفاظ قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں جو یوسف علیہ السلام نے اپنی ساتھی قیدیوں دعوت توحید دیتے ہوئے کہے تھے:
... اِنِّیۡ تَرَکۡتُ مِلَّۃَ قَوۡمٍ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ ہُمۡ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ ﴿یوسف ۳۷﴾
"... میں نے ان لوگوں کا مذہب چھوڑ دیا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں."


وَ اتَّبَعۡتُ مِلَّۃَ اٰبَآءِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ ؕ مَا کَانَ لَنَاۤ اَنۡ نُّشۡرِکَ بِاللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ عَلَیۡنَا وَ عَلَی النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَشۡکُرُوۡنَ ﴿یوسف ۳۸﴾
"میں اپنے باپ دادوں کے دین کا پابند ہوں، یعنی ابراہیم واسحاق اور یعقوب کے دین کا، ہمیں ہرگز یہ سزاوار نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو بھی شریک کریں، ہم پر اور تمام اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں."

یٰصَاحِبَیِ السِّجۡنِ ءَاَرۡبَابٌ مُّتَفَرِّقُوۡنَ خَیۡرٌ اَمِ اللّٰہُ الۡوَاحِدُ الۡقَہَّارُ ﴿ؕؕیوسف ۳۹﴾
"اے میرے قید خانے کے ساتھیو! کیا متفرق کئی ایک پروردگار بہتر ہیں؟ یا ایک اللہ زبردست طاقتور؟"

مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِلَّاۤ اَسۡمَآءً سَمَّیۡتُمُوۡہَاۤ اَنۡتُمۡ وَ اٰبَآؤُکُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنۡ سُلۡطٰنٍ ؕ اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ اَمَرَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿یوسف ۴۰﴾
"اس کے سوا تم جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو وه سب نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی گھڑ لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی، فرمانروائی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے، اس کا فرمان ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو، یہی دین درست ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے."


پھر یوسف علیہ السلام نے کہا،
وَ قَالَ لِلَّذِیۡ ظَنَّ اَنَّہٗ نَاجٍ مِّنۡہُمَا اذۡکُرۡنِیۡ عِنۡدَ رَبِّکَ ۫﴿ؕؕیوسف ٪۴۲﴾
" اور جس کی نسبت یوسف کا گمان تھا کہ ان دونوں میں سے یہ چھوٹ جائے گا اس سے کہا کہ اپنے بادشاه سے میرا ذکر بھی کر دینا..."


اللہ کے نبی کی سنت جانتے ہوئے بھی ہم نے پہلے جن باتوں کا ذکر کیا:
▪
ظلم
▪ انکا کردار مسخ کیا گیا
▪ انکی اسیری غیر معینہ مدت کے لئے تھی.


اس سب کے باوجود یوسف علیہ السلام نے اپنے ذاتی مسئلہ پر توحید اور کافروں سے برأت کے معاملے کو ترجیح دی.
اسی طرح، اللہ کے نبی حضرت یوسف علیہ السلام کو دو باتوں کا علم تھا جو قید میں انکی ثابت قدمی اور انکے وقار کی بھی وجہ بنا. جیسا کہ سورۃ یوسف میں اللہ تعالٰی بیان کرتے ہیں :

اِنَّہٗ مَنۡ یَّـتَّقِ وَ یَصۡبِرۡ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿یوسف ۹۰﴾
...بات یہ ہے کہ جو بھی پرہیز گاری اور صبر کرے تو اللہ تعالیٰ کسی نیکوکار کا اجر ضائع نہیں کرتا."

إبن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: " انہوں نے اپنے تقوی اور صبر کے ذریعے سے رہائی اور مقام و مرتبہ حاصل کیا." (تفسیر الکبیر ٥/٥٨ )

یہاں تک کہ یوسف علیہ السلام بادشاہ کے وزیر بنا دئیے گئے :

وَ قَالَ الۡمَلِکُ ائۡتُوۡنِیۡ بِہٖۤ اَسۡتَخۡلِصۡہُ لِنَفۡسِیۡ ۚ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الۡیَوۡمَ لَدَیۡنَا مَکِیۡنٌ اَمِیۡنٌ ﴿یوسف ۵۴﴾
" بادشاه نے کہا اسے میرے پاس لاؤ کہ میں اسے اپنے خاص کاموں کے لئے مقرر کر لوں، پھر جب اس سے بات چیت کی تو کہنے لگا کہ آپ ہمارے ہاں آج سے ذی عزت اور امانت دار ہیں."

إبن کثیر کہتے ہیں : "بادشاہ نے یوسف علیہ السلام کو اپنی قوم میں اعلی ترین منصب پر فائز کیا جو طبقہ اشرافیہ سمجھا جاتا ہے." ( قصص الأنبي،ص ٢٣٣)

* * *
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66

اور اللہ تعالٰی نے واضح کیا ہے کہ قید و بند اور جیل، مختلف انواع کی ابتلاء و آزمائشوں میں سے ہے، جن میں مخلوق کے سب سے بہترین افراد یعنی انبیاء بھی مبتلا کیے جا سکتے ہیں.
اللہ تعالٰی کا فرمان ہے :
وَ اِذۡ یَمۡکُرُ بِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِیُثۡبِتُوۡکَ اَوۡ یَقۡتُلُوۡکَ اَوۡ یُخۡرِجُوۡکَ ؕ... ﴿الأنفال ۳۰﴾
"اور اس واقعہ کا بھی ذکر کیجئے! جب کہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر لیں، یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو خارج وطن کر دیں..."

علماء کرام نے لِیُثۡبِتُوۡکَ کی تفسیر "آپکو قید کریں، حراست میں لے لیں" بیان کی ہے.
ابن عباس اور مجاہد نے اسکی تفسیر بیان کی ہے: "آپکو بیڑیاں ڈال کر قید کریں"
اور عطاء :" آپکو جیل میں قید کریں"
السدی نے فرمایا: لِیُثۡبِتُو یعنی جیل میں قید کرنا اور بیڑیاں ڈال دینا،
( تفسیر قُرطبی، کتاب ١٣،ص ٤٩١،٤٩٢ )

چنانچہ ہجرت مدینہ سے پہلے، قریش نے محمد ﷺ کے خلاف سازش کرتے ہوئے انکو گرفتار کرنے کی کوشش کی، اور رسول اللہ ﷺ انکے درمیان سے نکلنے کا فیصلہ کیا. پھر قریش نے ان دو اشخاص یعنی نبی کریم ﷺ اور أبو بكر الصديق رضی اللہ عنہ کو پکڑنے کے دوسرے طریقے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا. پس انہوں نے مکہ کے تمام داخلی راستوں پر سخت اور مسلح پہرے بٹھا دیے اور دونوں أشخاص کو زندہ یا مردہ پکڑنے پر بھاری انعام کی شرط رکھی یعنی 100 اونٹ فی کس جو بندہ بھی شرط پوری کرے گا.
(الرحیق المختوم، ص ١٦٥)

* * *
اسی طرح جو بھی انبیاء کرام علیہم السلام کے راستے پر چلے گا تو اسے انہی آزمائشوں سے دوچار پونا پڑے گا جس سے انبیاء آزمائے گئے.
نبی کریم ﷺ سے سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سب سے زیادہ مصیبت کس پر آتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”انبیاء و رسل پر، پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں، بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر بندہ اپنے دین میں سخت ہے تو اس کی مصیبت بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں نرم ہوتا ہے تو اس کے دین کے مطابق مصیبت بھی ہوتی ہے، پھر مصیبت بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے، یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا“۔
(الترمذی ٢٣٩٨ )

چنانچہ، مسلم امت کے سب سے بہترین أصحاب، أصحاب الرسول ﷺ بھی تشدد اور قید و بند کی سخت آزمائشوں سے گزارے گئے ہیں... اسی ایک مثال حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ ہیں، جنہیں قریش بدترین تشدد کا نشانہ بناتے تھے.

"قریش کے لوگ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو تپتی دوپہر میں ریت پر لٹایا کرتے تھے جب ریت آگ جیسی گرم ہوتی تھی، انہیں بے لباس کر کے ان کو گرم سلگتی کنکریوں پر پھینک دیتے تھے اور اوپر سے چند آدمی بھڑکتے جلتے پتھر بلال رضی اللہ عنہ کے سینے اور جسم پر رکھتے تھے.

اور بلال رضی اللہ عنہ پر یہ وحشیانہ تشدد روزانہ کیا جاتا تھا یہاں تک کہ انکی تکلیف اور توحید پر ثبات دیکھ کر ان پر تشدد کرنے والوں کے دل نرم پڑ گئے. بالآخر انہوں نے بلال رضی اللہ عنہ کو آزاد کرنے کا فیصلہ کر لیا. اگر بلال رضی اللہ عنہ انکے بتوں کے بارے میں ایک لفظ بھی اچھائی کا کہہ دیتے تو قریش کبھی بھی اپنے اس غلام کی ثابت قدمی اور صبر کے آگے اپنے ظلم و ستم سے پسپائی اختیار نہ کرتے.

بتوں کے حق میں صرف ایک کلمہ بولنے پر، بلال رضی اللہ عنہ خود کو بچا سکتے تھے، اپنا ایمان ضائع کیے بغیر، اپنا عقیدہ چھوڑے بغیر،،،
لیکن بلال بن رباح رضی اللہ عنہ نے باطل کے حق میں ایک لفظ بولنے سے بھی انکار کیا! بلکہ اسکی جگہ "احد احد" پکارتے رھے."(أصحاب الرسول ﷺ از خالد محمد خالد، ص ١٠٧،١٠٨ )

اتنے شدید شدد کے بعد بھی بلال رضی اللہ عنہ ان سے فرماتے،" اللہ کی قسم! احد کے لفظ سے بڑھ کر بھی اگر کوئی لفظ تمہیں اشتعال دلاتا تو ضرور میں وہ بولتا. "
( تفسیر ابن کثیر)

پس اس ثابت قدمی کے کیا نتائج نکلے اور کس کے حق میں؟! مکہ کے مضافات میں تشدد کا نشانہ بننے والے بلال بن رباح رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ کے قلب میں بیت اللہ کے مؤذن بنائے گئے اور قریش کے اعلٰی زعماء میں شامل ہوئے اور جو ان پر ظلم و ستم ڈھاتے تھے، وہ تاریخ کے کوڑا دان میں گم ہو کر رہ گئے.

* * *
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
اور اسی طرح ہمارے اسلاف میں ایسی بے تحاشا مثالیں موجود ہیں. امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی مثال ہمارے سامنے ہے. جن کے بارے میں اہلِ سنت کے امام کا قول ہے:
"اللہ سبحان و تعالٰی نے اس دین کو دو آدمیوں کے ذریعے بلند کیا ہے، جس میں کوئی تیسرا شامل نہیں، ایک، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، جو مرتدین کے خلاف محاذ آرا ہوئے، اور دوسرے، احمد بن حنبل، جنہیں خلق قرآن کے باطل عقیدہ کے انکار پر سخت ترین آزمائش سے گزرنا پڑا."
( طبقاتِ حنابلہ ، ص ٢٨ از قاضی ابی یعلی)

جب المامون نے مسند خلافت سنبھالی تو خلق القرآن جیسے ایک فتنہ نے سر اٹھایا اور یہ پہلا فتنہ تھا جو سرکاری سطح پر ابھرا تھا. اس سے پہلے، ابلیسیت اور گمراہی کے داعیان، البشر المارصی نے اس گمراہ عقیدہ کی طرف بلایا تھا جو الرشید کے دور خلافت میں بیس سال تک چھپے رہے تھے.
(سيار أعلام النباله جلد ١١،ص ٢٣٧)

کیونکہ المامون فرقہ معتزلہ کے عقائد کا معترف ہو چکا تھا، انہوں نے ہی خلق القرآن کا فتنہ اٹھایا تھا اور المامون نے اسکی تائید کی تھی تاہم وہ لوگوں کے سامنے یہ عقیدہ لانے سے گھبراتا تھا - یعنی: لوگوں کو یہ قبول کرنا چاہیے کہ قرآن مخلوق ہے، تب ہی اسکے ارارے ثبات پکڑ سکیں گے. چنانچہ اس نے لوگوں کو یہ باطل عقیدہ ماننے پر مجبور کیا. اور المامون نے بغداد کے چیف پولیس اسحاق ابن ابراہیم کو پیغام بھیجا کہ وہ قاضیوں، علماء قور محدثین کی اس معاملے میں جانچ پڑتال کرے. اور اس نے کی بھی.

چنانچہ یہ بدعت تسلیم نہ کرنے اور علماء کی اکثریت کی طرح تقیہ کے ساتھ جواب نہ دینے پر أمام أحمد بن حنبل کو جیل بھجوا دیا گیا. أمام احمد بن حنبل نے کھلم کھلا حق کے ساتھ اس بات کہ وضاحت کی کہ قرآن اللہ پاک کا کلام ہے، مخلوق نہیں ہے.

قید و بند اور جیل میں أمام احمد بن حنبل کی ثابت قدمی کے عوامل کچھ یوں ہیں :
▪ امام احمد بن حنبل نے رجوع کرنے کی بجائے، موت کو ترجیح دی: ابو بکر الأحوال نے کہا: "اے ابو عبداللہ! اگر تلواریں آپکی طرف سونت لی جائیں تو کیا آپ اپنی بات سے ہٹیں گے؟ - - - امام احمد بن حنبل نے کہا، "ہرگز نہیں "
(مناقب أمام احمد بن حنبل، ص ٤٢١ )

▪ جیل کی قید بھی امام احمد بن حنبل کو حق اور تکفیر معین کی علی الإعلان وضاحت سے رکاوٹ نہیں بنی: أمام احمد بن حنبل کہتے ہیں؛ دو آدمی روزانہ میرے پاس جیل میں آتے تھے اور مجھ سے مباحثہ جاری رکھتے تھے، یہاں تک کہ وہ خود جانے پر مجبور ہو جاتے : بیڑیاں لا کر مجھے ان میں اور بھی سختی سے باندھ دیا گیا، صرف میری دونوں ٹانگوں پر چار بیڑیاں تھیں. تیسرے دن پھر ایک آدمی میرے پاس آ کر مجھ سے مباحثہ کرنے لگا. چنانچہ میں نے اسے کہا: تم اللہ کے علم کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو؟
اس نے کہا، "اللہ کا علم بھی تخلیق کیا گیا ہے."
پھر میں نے اسے جواب دیا، "تم نے اللہ پر کفر باندھا ہے."
اسحاق بن إبراهيم کا بھیجا ہوا قاصد ہمارے پاس ہی موجود تھا، اس نے کہا، "یہ امیر المومنین کا پیغام رساں ہے!!"
میں نے اسے کہا، "اسی نے تو کفر کیا ہے."
(سيار أعلام النباله جلد ١١، ص ٢٤٣)

▪ بوجہ تشدد جلد پھٹنے کی وجہ سے بھی انکے پائہ استقلال میں بالکل فرق نہ آیا:
المعتصم نے امام احمد بن حنبل کو کوڑے مارنے کا حکم دیا. سترہ کوڑے برسانے کے بعد اس نے امام احمد بن حنبل سے کہا: اے بدقسمت! مجھے جواب دے تاکہ میں تم پر یہ تشدد روک دوں.
اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بغیر کسی جھکاؤ کے اس سے کہتے جاتے : کلام اللہ سے یا اسکے پیغمبر ﷺ کی احادیث سے ایک بھی دلیل لا کر دو تو میں بات کروں - یعنی قرآن و حدیث سے ایک بھی ایسی دلیل پیش کر دو جو تمہاری اس بات کی تصدیق کر دے تو میں رجوع کر لوں گا، اسکے علاوہ میں ہرگز کسی بات پر ایمان نہیں رکھتا.... پس، ان پر کوڑے برستے رھے یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو گئے. جیسا کہ وہ خود بیان کرتے ہیں، "تشدد بڑھتا گیا اور کوڑے مجھ پر برستے رھے حتی کہ میرے حواس گم ہو گئے اور مجھے اسکے بہت دیر بعد ہوش آیا."
( مناقب الإمام أحمد بن حنبل، ص ٤٤٣)

اور وہ لوگ ان پر کوڑے مارتے رہے حتی کہ انکی جلد پھٹ گئی.
(الکامل التاريخ، جلد ٥، ص١٧)

ایک آدمی أمام أحمد بن حنبل کی مرہم پٹی کرنے آیا تو اس نے کہا کہ :" میں نے ایک شخص دیکھا تھا جس کو ایک ہزار کوڑے لگائے گئے تھے، لیکن کوڑے برسانے کے ایسے زخم پہلے نہ دیکھے تھے."
(مهنة الإمام أحمد بن حنبل از امام عبدالغنی المقدسی، ص ١٧)

المعتصم نے ایک بار پھر أمام احمد بن حنبل کا امتحان لیا اور کہا: "میں اللہ کے نبی کی رشتہ داری کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم پر کوڑے برستے رہیں گے جب تک کہ تم وہی کچھ تسلیم نہیں کرتے جو میں کہہ رھا ہوں."
پھر اس نے جلاد کو حکم دیا کہ امام احمد کو اپنے ساتھ لے جائے اور ان پر تشدد جاری رکھے. جلاد نے اسّی کوڑے امام احمد بن حنبل کو مارے اور کہا: اگر میں ایک ہاتھی کو اتنا مارتا تو شاید اسکے ٹکڑے کر دیتا.
(مناقب الامام أحمد بن حنبل از ابن الجوزی، ص ٤٥٠)

اور امام احمد بن حنبل نے ابتلاء و آزمائش اور حتی کہ سنہرے للالچ کے باوجود بھی حکومتی مطالبہ تسلیم نہیں کیا.
احمد ابن داؤد الواسطی، امام احمد سے ملنے جیل گیا اور انہیں مطالبہ مان کر اپنے نظریہ سے ہٹ جانے کو کہا؛ اور اس نے امام احمد کو انکے اہل و عیال اور خاندان کے بارے میں یاد دلانا شروع کر دیا : "اے ابو عبداللہ ،تمہاری ایک زوجہ بھی ہے اور بچے بھی ہیں اور تمہارے پاس تو عذر بھی ہے."
امام احمد بن حنبل نے جواب دیا: "اگر تمہاری ذہنی سطح اتنی ہی ہے ابو سعید، تو تم آرام کرتے رہو."
(طبقات حنابلہ، جلد ١، ص ٩٤)
- یعنی اگر تمہیں صرف اپنے اہل و عیال کی ہی فکر ہے تو جا کر پرسکون زندگی بسر کرو، اور جو لوگ اپنے دین کی نصرت کرنے کو اہمیت دیتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ آرام کیا ہوتا ہے!

▪ اور کیا نتائج برآمد ہوئے؟!
جب المتوکلی نے خلافت سنبھالی تو لوگ خوشحال رہنا شروع ہو گئے کیونکہ وہ اور اسکی عوام سنت رسول ﷺ سے محبت کرتے تھے. بہت جلد اس نے اس فتنہ کی طرف توجہ کر کے اسکا خاتمہ کیا اور آئندہ درپیش امکانات کو روکنے کا حکم دیا: کہ آئندہ سے خلق القرآن کے بارے میں کوئی بھی بات نہیں کرے گا اور اس نے امام احمد بن حنبل کو عظیم المرتبت امام کا درجہ دیا.( امام احمد بن حنبل، السیرہ والماثورہ، ص ١٤٦،١٤٧)

ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میرے والد امام ابو حاتم الرازی بیان کرتے ہیں : اللہ عزوجل نے امام احمد بن حنبل کو انکی سخت آزمائش کے بعد انکا رتبہ بلند کیا اور لوگوں میں انکو سرفراز و ممتاز کیا.
(ابو زارا الرازی و جهده في السنه النبوية، جلد ٣،ص ٩٧٨ )

* * *
اب ان تمام تاریخی واقعات میں کئی ایک مماثلات ہیں :
▪ عقیدہ و منہج پر ثبات
▪ مصائب پر صبر
▪ نتائج کا انکے حق میں نکلنا

اور میں آخر میں شیخ ابو محمد المقدسی کے لفظوں کے ساتھ نتیجہ برآمد کروں گا:
"یہ حق کا راستہ ہے، پس کوئی شخص بھی یہ گمان نہ کرے کہ یہراستہ پھولوں اور ریحان سے سجا ہوا ہے یا سکون اور نرماہٹ سے بھرپور ہے، بلکہ! اللہ کی قسم یہ راستہ مخالفتوں اور آزمائشوں سے گھِرا ہوا ہے. اسی راستے پر انبیاء کرام علیہم السلام کو سب سے زیادہ آزمایا گیا، پھر جو انکے وارث حق کے اسی راستے پر رواں دواں رھے اور ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر چلنے والے، کلمة اللہ کی سربلندی کے لیے انبیاء کے راستے پر سخت ترین آزمائشوں کے باوجود آگے بڑھتے ہیں...
(ملة إبراهيم، ص ٣٧)

پس جو انبیاء کرام کے ورثاء ہونے کے خواب بھی دیکھتے ہیں اور لوگوں اور حکمران کی قربتیں بھی چاہتے ہیں، وہ ہرگز بھی اس راہِ حق کی حقیقت کو نہیں پا سکتے.

پس، اگر آپ گرفتار کر لیے جاتے ہیں تو جان لیجیے اور یہ ذھن نشین کر لیجیے کہ آپ حضرت یوسف علیہ السلام اور انکے ساتھیوں اور اسلاف سے بہتر نہیں ہیں جنہوں نے قید و بند اور تشدد کی سختیوں کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا.

و آخر دعونا ان الحمد لله رب العالمين.
 
Top