• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آسمانی فرشتوں کے بارے میں میرا سوال۔علماءتشریف لائیں

محمدعزیز

مبتدی
شمولیت
جون 14، 2017
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میں علماء سے ایک سوال کرناچاہتاہوں۔مجھے امیدہےکہ مجھے جلد ہی جواب ارسال کیاجائےگا۔
میراسوال یہ ہے کہ
فرشتوں میں سے ایک فرشتے کاقدکتناہوتاہے؟
اگربہت سے فرشتوں کے قد کےبارے میں حدیث شریف ہیں تو سبھی یہاں ارسال کریں
کیاکوئی حدیث مبارکہ اس حوالے سے ہے؟
اگرصحیح احادیث کی کتابوں میں اس بات کاتذکرہ کیاگیاہےاگرہے تو جتنی بھی احادیث ہیں سبھی یہاں ارسال کریں۔
میں ان معلومات کودوسروں کے شئیر کرنےکیلئے پوچھ رہاہوں۔
شکریہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
فرشتوں میں سے ایک فرشتے کاقدکتناہوتاہے؟
ملائکہ کے قد و قامت جاننے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ فرشتے نور سے پیدا کیئے گئے ،
عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُلِقَتْ الْمَلَائِكَةُ مِنْ نُورٍ وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَكُمْ (صحیح مسلم )
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ،فرماتی ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنوں کو آگ کے شعلے سے اورآدم علیہ السلام کو اس(مادے) سے پیدا کیا گیا ہے جس کو تمہارے لئے ج(قرآن میں ) بیان کیا گیا (یعنی انہیں مٹی سے بنایا گیا ) ہے۔"​

تمام فرشتوں کے قد و قامت کے باے تو تفصیل نہیں بتائی گئی ، البتہ جناب جبریل علیہ السلام کے متعلق دو احادیث پیش ہیں :
صحیح بخاری (4856 ) میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ابو إسحاق الشيباني، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ سالت زر بن حبيش، ‏‏‏‏‏‏عن قول الله تعالى:‏‏‏‏ فكان قاب قوسين او ادنى ‏‏‏‏ 9 ‏‏‏‏ فاوحى إلى عبده ما اوحى ‏‏‏‏ 10 ‏‏‏‏ سورة النجم آية 9-10، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حدثنا ابن مسعود:‏‏‏‏ انه راى"جبريل له ست مائة جناح"
ابواسحاق شیبانی نے بیان کیا کہ میں نے زر بن حبیش سے اللہ تعالیٰ کے (سورۃ النجم میں) ارشاد «فكان قاب قوسين أو أدنى * فأوحى إلى عبده ما أوحى‏» کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو (اپنی اصلی صورت میں) دیکھا، تو ان کے چھ سو بازو تھے۔

اسی طرح سیدنا عبداللہ فرماتے ہیں :
عن عبد الله:‏‏‏‏ ما كذب الفؤاد ما راى سورة النجم آية 11، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ " راى رسول الله صلى الله عليه وسلم جبريل في حلة من رفرف قد ملا ما بين السماء والارض ". قال ابو عيسى:‏‏‏‏ هذا حديث حسن صحيح.(سنن الترمذی 3283)
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ اس آیت: «ما كذب الفؤاد ما رأى» کی تفسیر میں کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو باریک ریشمی جوڑا پہنے ہوئے دیکھا۔ آسمان و زمین کی ساری جگہیں ان کے وجود سے بھر گئی تھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
(أخرجہ النسائي في الکبری) امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔​

وفي مسند الإمام أحمد عن عبد الله بن مسعود قال: (رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم جبريل في صورته، وله ستمائة جناح، كل جناح منها قد سدّ الأفق. يسقط من جناحه التهاويل من الدرر واليواقيت)
قال ابن كثير في هذا الحديث: (إسناده جيد)
مسند میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل کو اپنی اصلی صورت میں دیکھا ہے ان کے چھ سو پر تھے ہر ایک ایسا جس میں آسمان کے کنارے پر کر دئیے تھے ان سے زمرد ، موتی اور مروارید جھڑ رہے تھے ۔

اور حاملین عرش کے متعلق حدیث شریف میں آیا ہے کہ :
‏‏‏‏‏‏ ‏‏‏‏‏‏عن جابر بن عبد الله، ‏‏‏‏‏‏عن النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "اذن لي ان احدث عن ملك من ملائكة الله، ‏‏‏‏‏‏من حملة العرش، ‏‏‏‏‏‏إن ما بين شحمة اذنه إلى عاتقه مسيرة سبع مائة عام".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اجازت ملی ہے کہ میں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کا حال بیان کروں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، اس کے کان کی لو سے اس کے مونڈھے تک کا فاصلہ سات سو برس کی مسافت ہے؎“۔​
(سنن ابوداود 4727 )
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اگربہت سے فرشتوں کے قد کےبارے میں حدیث شریف ہیں تو سبھی یہاں ارسال کریں
اس تفصیل کیلئے کتاب و سنت لائیبریری میں کوئی کتاب دیکھ لیں ؛
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ایک مضمون ملا ہے ،شاید آپ کی معلومات میں اضافہ کرے !
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فرشتوں کا تعارف: کتاب و سنت کی روشنی میں
ابوعدنان سعیدالرحمن بن نورالعین سنابلی
فرشتوں پر ایمان لانا انتہائی ضروری ہے:
اللہ تعالی نے فرمایا:”یاایھا الذین آمنوا آمنوا باللہ ورسولہ والکتاب الذی نزل علی رسولہ والکتاب الذی ا ¿نزل من قبل ومن یکفر باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر فقد ضل ضلالا بعیدا“(سورة النسائ136) یعنی اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ پر، اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری ہے اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے اس نے نازل فرمائی ہیں، ایمان لاو ¿!جو شخص اللہ تعالیٰ سے ، اس کے فرشتوں سے اور اس کی کتابوں سے اور اس کے رسولوں سے اور قیامت کے دن سے کفر کرے وہ تو بہت بڑی دور کی گمراہی میں جاپڑا۔
اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث میں فرشتوں پر ایمان لانے کو ایمان کا اہم جزءاور رکن قرار دیا ہے۔چنانچہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث جبریل علیہ السلام میں ہے کہ ہم لوگ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا جس کے کپڑے حددرجہ سفید اور بال بالکل سفید تھے اس نے (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے )کہا: آپ مجھے ایمان کے بارے میں بتائیں؟آپ نے فرمایا : ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر،آخرت کے دن پر اور تقدیر کے اچھا یا برا ہونے پر ایمان لاو ¿“۔ (صحیح مسلم8)
سابقہ قرآنی آیتوں اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ چھ کی چھ چیزیں ایمان کے اساسی ارکان ہیں اور کوئی بھی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ سبھی چھ چیزوں پر ایمان نہ لائے۔اگر کوئی شخص مذکورہ بالا چیزوں میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔
فرشتوں پر ایمان لانے کا مفہوم:
٭فرشتوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم فرشتوں کے وجود کو تسلیم کریں اور اس بات پر ایمان لائیں کہ یہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں اور اللہ کے بتائے ہوئے کاموں پر متعین ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:”عبادمکرمون لایسبقونہ بالقول وھم با ¿مرہ یعملون“ (سورة الا ¿نبیائ26-27) یعنی وہ سب اس کے باعزت بندے ہیں۔کسی بات میں اللہ پر پیش دستی نہیں کرتے بلکہ اس کے فرمان پر کاربند ہیں۔
ایک دوسری جگہ فرمایا:”لایعصون اللہ ماا ¿مرھم ویفعلون ما یو ¿مرون“ (سورة التحریم6)یعنی اللہ تعالیٰ انہیں جو حکم دیتا ہے اس کی وہ نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجالاتے ہیں۔
مزید فرمایا:”لایستکبرون عن عبادتہ ولایستحسرون۔یسبحون اللیل والنھار لایفترون“ (سورة الا ¿نبیائ19-20)یعنی وہ اس کی عبادت سے نہ سرکشی کرتے ہیںاور نہ تھکتے ہیں، وہ دن رات تسبیح بیان کرتے ہیں اور ذرا سی بھی سستی نہیں کرتے۔
٭فرشتوں پر ایمان میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ کتاب و سنت کے ذخیرے میں جن فرشتوں کے نام وارد ہیں جیسے جبرئیل ، میکائیل ، اسرافیل ، مالک اور رضوان وغیرہ ان سبھی ناموں پر ایمان لایا جائے۔
٭ نیز کتاب و سنت میں فرشتوں کے جو اوصاف وارد ہیں ان پر بھی یقین رکھا جائے اور انہیں تسلیم کیا جائے ، جیسا کہ جبرئیل علیہ السلام کے صفات حدیثوں میں وارد ہیں کہ ان کے چھ سو بازو ہیں ۔
٭ اسی طرح ایمان بالملائکہ میں یہ چیز بھی آتی ہے کہ کتاب و سنت کے ذخیرے میں جن فرشتوں کے جو کام وارد ہیں ان پر ایمان لایاجائے ، جیساکہ جبرئیل علیہ السلام کا کام تھا کہ وہ رسولوں کے پاس وحی لے کر تشریف لاتے تھے، اسرافیل علیہ السلام صور پھونکنے پر مامور ہیں،میکائیل علیہ السلام بارش پر متعین ہیں اور مالک جہنم کے داروغہ ہیں وغیرہ۔
ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ فرشتوں کے تعلق سے ان سبھی چار چیزوں پر ایمان رکھے ، کیونکہ ان چار چیزوں کو تسلیم کئے بغیر کسی بھی انسان کا ایمان کامل اور مکمل نہیں ہوسکتا ہے۔
فرشتوں کی تخلیق کب ہوئی؟:
قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ فرشتوں کی تخلیق انسان سے پہلے ہوئی ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا کرنا چاہا تو اس کے بارے میں فرشتوں کو بتایا، جیساکہ قرآن پاک میں موجود ہے:”واذقال ربک للملائکة انی جاعل فی الا ¿رض خلیفة“ (سورة البقرة30) یعنی اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں ۔
نیز آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کا سجدہ کریں ۔چنانچہ ارشاد ربانی ہے:”فاذا سویتہ ونفخت فیہ من روحی فقعوا لہ ساجدین“ (سورة الحجر29) یعنی تو جب میں اسے پورا بناچکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوںتو تم سب اس کے لئے سجدے میں گرپڑنا۔
البتہ فرشتے انسانوں سے کس قدر پہلے پیدا کئے گئے، اس کی تعیین کتاب و سنت کے ذخیرے میں موجود نہیں ہے۔ (ملاحظہ ہو: عالم الملائکة الا ¿برار للدکتور عمر سلیمان الا ¿شقر:ص10)
فرشتوں کی تخلیق کس چیز سے ہوئی؟:
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی تخلیق نور سے فرمائی ہے۔ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا، جنات کو شعلہ زن آگ سے اور آدم کو اس چیز پیدا کیا گیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمہیں بتادیا ہے یعنی مٹی سے“۔(صحیح مسلم2996)
فرشتوں کو کس نور سے پیدا کیا گیا؟ اس بارے میں مختلف اقوال ملتے ہیں۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں نورعزت سے پیدا کیا گیا جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں ذراعین(دونوںبازو ¿وں )اور صدر (سینہ) کے نور سے پیدا کیا گیا، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ کتاب و سنت میں اس نور کی تفصیل نہیں وارد ہے اور نہ ہی عقلی طور پر اس کا ادراک ممکن ہے۔لہذا، اس تعلق سے سکوت ہی زیادہ اولیٰ اور بہتر ہے ۔(ملاحظہ ہو: سلسلة الا ¿حادیث الصحیحة1197)
فرشتوں کی قدو قامت اورجسمانی شکل و صورت:
قرآن و احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے عظیم مخلوق ہیں۔فرشتوں میں بھی بعض چھوٹے ہیں اور بعض بڑے۔کچھ فرشتے ایسے ہیں جن کے دو ، کچھ کے تین اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کے چھ چھ سو بازوہیں۔اس کی وضاحت قرآن کریم کی اس آیت کریمہ سے ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:”الحمدللہ فاطرالسموات والا ¿رض جاعل الملائکة رسلا ا ¿جنحة مثنی و ثلاث و رباع یزید فی الخلق ما یشاءان اللہ علی کل شی ¿ قدیر“ (سورة فاطر1) یعنی اس اللہ کے لئے تمام تعریفیں سزاوار ہیں جو (ابتداءاََ )آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا اور دو دو تین تین چارچار پروں والے فرشتوں کو اپنا پیغمبر (قاصد) بنانے والا ہے، مخلوق میں جو چاہے اضافہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ یقینا ہر چیز پر قادر ہے۔
نیز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرشتوں کی عظیم جسمانی ہیئت اور قدوقامت کو بیان فرمایا ہے۔جبرئیل علیہ السلام کے بارے میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کو جب ان کی اصلی شکل میں دیکھا تو ان کے چھ سو پر تھے اور ہر پر نے افق کو گھیر رکھا تھا۔ان کے پروں سے مختلف رنگ اور ہیرے اور موتی بکھر رہے تھے۔ (مسند احمد۲۲۸۲، تفسیر ابن کثیر۷۷۲۴) اس حدیث کے بارے میں امام ابن کثیر نے البدایة والنھایة (۱۷۴)میں کہا ہے کہ اس کی سند جید ہے اور علامہ احمد شاکررحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح جو فرشتے عرش اٹھائے ہوئے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس کی جسمانی ضخامت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ مجھے اجازت ملی ہے کہ میں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کا حال بیان کروں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، اس کے کان کی لو سے اس کے مونڈھے تک کا فاصلہ سات سو برس کی مسافت کے برابر ہے“۔ (سنن ابوداود4727، اسے شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔)
سابقہ ذکر کردہ قرآنی آیت اور حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے انتہائی عظیم مخلوق ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیںقدو قامت اور جسمانی ہیئت میں انسانوں کی بہ نسبت انتہا ئی عظیم بنایا ہے۔
اس کے علاوہ بعض ایسی دوسری حدیثیں بھی ہیں جن سے فرشتوں کے بعض عضو جسمانی کا پتا چلتا ہے جن میں بعض درج ذیل ہیں:
٭ فرشتوں کے ہاتھ ہیں:اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:”لو تری اذ الظالمون فی غمرات الموت والملائکة باسطوا ا ¿یدیھم ا ¿خرجوا ا ¿نفسکم“(سورة الا ¿نعام93) یعنی اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو۔
٭ فرشتوں کی ہتھیلیاں ہیں: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! جب ہم آپ کو دیکھتے ہیں تو ہمارے دلوں میں نرمی پیدا ہوجاتی ہے اور ہمیں آخرت کی یاد آتی ہے لیکن جب آپ کے پاس سے واپس لوٹتے ہیں تو دنیا میں مگن ہوجاتے ہیں اور بال بچوں میں کھو جاتے ہیں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر تم لوگ ہروقت ویسے ہی ہوجاو ¿جیسے کہ میرے پاس موجودگی کے وقت ہوتے ہو تو فرشتے اپنی ہتھیلیوں سے تم سے مصافحہ کریں اور وہ تم سے ملنے تمہارے گھروں میں پہنچنے لگیں“۔ (مسند احمد8043، الصحیحة۲۷۵۶)
٭ فرشتوں کے کان اور کندھے بھی ہیں:جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” مجھے اجازت ملی ہے کہ میں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کا حال بیان کروں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، اس کے کان کی لو سے اس کے مونڈھے تک کا فاصلہ سات سو برس کی مسافت کے برابر ہے“۔ (سنن ابوداود4727، اسے شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔)
٭ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو دو کان بھی دیئے ہیں: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”صاحب صور(اسرافیل علیہ السلام) جب سے اس کام پر متعین ہوئے ہیں ان کی نظریں عرش پر ٹکی ہوئی ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہوں کہ ان کی نگاہ کہیں اور ہو اور انہیںصور میں پھونکنے کا حکم دیا جائے، گویا کہ ان کی دونوں آنکھیں چمکتے ستارے ہوں“۔(مستدرک حاکم۴۳۰۶، اسے حافظ ابن حجر نے فتح الباری(۱۱۸۶۳) میں حسن قرار دیا ہے۔
فرشتوں کی جنس کیا ہے؟:
کفار مکہ فرشتوں کو مو ¿نث تصور کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیںچنانچہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے اس وہم کو ذکر کیا ہے اور سختی سے اس کی نفی فرمائی ہے۔چنانچہ فرمایا:”فاستفتھم ا ¿لربک البنات ولھم البنون ، ا ¿م خلقنا الملائکة اناثا وھم شاھدون، ا ¿لا انھم من افکھم لیقولون ، ولد اللہ و انھم لکاذبون، اصطفی البنات علی البنین، مالکم کیف تحکمون، ا ¿فلا تذکرون، ا ¿م لکم سلطان مبین“ (سورة الصافات149-156) یعنی ان سے دریافت کیجئے! کہ کیا آپ کے رب کی تو بیٹیاں ہیں اور ان کے بیٹے ہیں۔یا یہ اس وقت موجود تھے جبکہ ہم نے فرشتوں کو مو ¿نث پیدا کیا۔آگاہ رہو! کہ یہ لوگ صرف اپنی افتراپردازی سے کہہ رہے ہیںکہ اللہ کی اولاد ہے۔یقینا یہ محض جھوٹے ہیں۔کیا اللہ نے اپنے لئے بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی۔تمہیں کیا ہوگیا ہے۔کیسے حکم لگاتے پھرتے ہو؟کیا تم اس قدر بھی نہیں سمجھتے یا تمہارے پاس اس کی کوئی صاف دلیل ہے۔
اس آیت کریمہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فرشتے مو ¿نث نہیں ہیں اور جولوگ انہیں مو ¿نث بتاتے ہیں، وہ اپنے دعوی میں غلط اور جھوٹے ہیں۔ اب رہی بات کہ کیا فرشتے مذکر ہیں؟ تو اس تعلق سے صحیح بات یہ ہے کہ کتاب و سنت میں فرشتوںکو کہیں بھی مذکر نہیں کہا گیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ”عبادالرحمن“ یعنی اللہ کے بندے کہا ہے۔لہذا، ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں جو کہا ہے ، اسی پر اکتفاءکیا جائے اور اپنی طرف سے انہیں مذکر یا مونث نہ کہاجائے، کیونکہ غیبی امور میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے حد متعین کردیا ہے کہ کتاب و سنت میں جو کچھ وارد ہے ، اسی پر اکتفاءکرنا ضروری ہے اور اپنی طرف سے کچھ کہنا جائز نہیں ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم
جب یہ بات ثابت ہوئی کہ فرشتے مذکر و مو ¿نث نہیں ہیں تو پھر یہاں یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ان کے درمیان شادی بیاہ نہیں ہوتی، اس وجہ سے کہ شادی بیاہ کی ضرورت مذکر ومو ¿نث کو ہوا کرتی ہے اور جب شادی بیاہ نہیں ہوگی تو پھر ان کواولاد نہیںہوگی۔
بعض فرشتے خوبصورت ہیں تو بعض ڈراو ¿نے اور ہیبت ناک بھی:
قرآن و سنت کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مجموعی طور پر فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے خوبصورت اور وجیہ پیدا کیا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:”علمہ شدید القویٰ ،ذو مرة فاستویٰ“(سورة النجم ۵-۶) یعنی اسے پوری طاقت والے فرشتے نہیں سکھایا ہے جو زور آور ہے پھر وہ سیدھا کھڑا ہوگیا۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بقول : آیت کریمہ میں ”ذومرة “ سے مراد وجیہ اور خوبصورت شکل و صورت ہے۔اسی طرح سے ”ذومرة“ کا مطلب قوی اور طاقتور بھی بتایا گیا ہے اور دونوں اقوال میں تعارض نہیں ہے بلکہ فرشتے طاقتور بھی ہیں اور حسین و جمیل بھی۔
اسی طرح نیک انسان کی روح قبض کرنے والے فرشتوںکے بارے میںرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ایسے انسان کے پاس ایسے فرشتے آتے ہیں جن کے چہرے سورج کے مانند روشن ہوتے ہیں (مسند احمد۴۷۸۲)
فرشتوں کا تذکرہ ہوتو پہلی فرصت میں یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ وہ انتہائی خوبصورت اور حسین و جمیل مخلوق ہے لیکن بعض حدیثوں میں اس بات کا بھی تذکرہ موجود ہے کہ بعض فرشتے انتہائی ڈراو ¿نی شکل و صورت اورحددرجہ ہیبت ناک ہیں۔چنانچہ منکر نکیر کے بارے میں حدیثوں میں وارد ہے کہ وہ سیارہ رنگ ہیں اور ان کی آنکھیں نیلی ہیں۔(سنن ترمذی1071)
انہی فرشتوں کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ سے مصنف عبدالرزاق 6738میں وارد ہے کہ ان کی آنکھیں تانبے کی دیگچیوں کے برابرہیں، دانت گائے کے سینگ کی طرح اور آواز بجلی کی کڑک کی طرح(گرج دار) ہے۔(اس حدیث کی سند ضعیف ہے لیکن فریح بن صالح بہلال نے ”الاعتقاد للبیہقی ص254کی تحقیق میں شواہد کی بنیاد پر حسن قرار دیا ہے۔
فرشتے نہ تو کھاتے ہیں اور نہ ہی پیتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو کھانے پینے سے بے نیاز کردیا ہے، جس طرح سے ان میں شادی بیاہ کی حاجت نہیں ہے۔ اس کی وضاحت قرآن پاک میں مذکور اس واقعہ سے ہوئی ہے جس میں ہے کہ ابرہیم خلیل اللہ کے حضور فرشتے تشریف لائے تو انہوں نے ایک بچھڑا ذبح کیا اور فرشتوں کے سامنے پیش کیا مگر انہوں نے اسے نہیں کھایا۔اسی واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:”ولقد جاءت رسلنا ابراہیم بالبشریٰ قالوا سلما فما لبث ا ¿ن جاءبعجل حنیذ فلما راٰا ¿یدیھم لا تصل الیہ نکرھم وا ¿وجس منھم خیفة قالوا لاتخف انا ا ¿رسلنا الی قوم لوط“(سورة ھود69-70) یعنی اور ہمارے بھیجے ہوئے پیغامبر ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر پہنچے اور سلام کہا۔ انہوں نے بھی سلام کا جواب دیا اور بغیر کسی تاخیر کے گائے کا بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔اب جو دیکھا کہ ان کے تو ہاتھ بھی اس کی طرف نہیں پہنچ رہے ہیں تو ان سے اجنبیت محسوس کرکے دل ہی دل میں ان سے خوف کرنے لگے۔انہوں نے کہا: ڈرو نہیںہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے ہوئے آئے ہیں۔
فرشتے تھکان اور اکتاہٹ کے شکار نہیں ہوتے:
فرشتے دن رات حکم الٰہی کی تعمیل میں اپنے کاموں میں لگے رہتے ہیںاور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں ۔وہ تھکان، اگتاہٹ، سستی، کاہلی، بیماری، دکھ اور تکلیف وغیرہ کے شکار نہیں ہوتے بلکہ ان سبھی چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:”یسبحون اللیل والنھار ولایفترون“(سورة الا ¿نبیائ20) یعنی وہ دن رات تسبیح بیان کرتے ہیں اور ذرا سی بھی سستی نہیں کرتے۔
”یفترون“ کی تفسیر میں مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ”لایضعفون“ یعنی وہ کمزوری کے شکار نہیں ہوتے۔
ایک دوسری آیت میں ہے :”فالذین عندربک یسبحون لہ باللیل والنھار وھم لا یسئمون“(سورة فصلت38) یعنی تو وہ فرشتے جو آپ کی رب کے پاس ہیں وہ تو رات دن اس کی تسبیح بیان کررہے ہیں اور کسی وقت بھی نہیں اکتاتے۔
یہاں یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ جب فرشتے تھکان کے شکار نہیں ہوتے توپھر انہیں آرام کرنے اور سونے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ ہرلمحہ اللہ کی تسبیح و تہلیل اور تحمید و تمجید کیا کرتے ہیں۔
فرشتوں کے رہنے کی جگہ:
فرشتے آسمانوں میں رہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے مختلف کاموں کی خاطر زمین میں بھی تشریف لاتے ہیں اور اپنے کاموں کی تکمیل کے بعد دوبارہ آسمانوں میں چلے جاتے ہیں۔ فرشتوں کے آسمانوں میں رہنے کی بہت ساری دلیلیں ہیں۔انہی میں سے ایک وہ آیت کریمہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:”تکاد السموات یتفطرن من فوقھن والملائکة یسبحون بحمد ربھم“(سورة الشوریٰ5)یعنی قریب ہے آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں اور تمام فرشتے اپنے رب کی پاکی تعریف کے ساتھ بیان کررہے ہیں۔
نیز اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے بارے میں قرآن مجید میں کہا ہے کہ فرشتے اس کے پاس موجود ہیں۔چنانچہ فرمایا:”فان استکبروا فالذین عندربک یسبحون لہ باللیل والنھار وھم لا یسئمون“(سورة فصلت38) یعنی پھر بھی اگر یہ غرور کریں تووہ فرشتے جو آپ کی رب کے پاس ہیں وہ تو رات دن اس کی تسبیح بیان کررہے ہیں اور کسی وقت بھی نہیں اکتاتے۔
گویاکہ عام طور پر فرشتے آسمانوں ہی میں رہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین میں تشریف لاتے ہیں جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان کیا ہے:”ومانتنزل الا با ¿مرربک“(سورة مریم64) یعنی ہم بغیر تیرے رب کے اتر نہیں سکتے۔
فرشتوں کی تعداد:
فرشتوں کی تعداد کے تعلق سے جب ہم قرآن و سنت کی ورق گردانی کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جس کا علم صرف اور صرف اللہ رب العزت کو ہی ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:”وما یعلم جنود ربک الا ھو“ (سورة المدثر31) یعنی تےرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
فرشتوں کی کثرت کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے جس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں آسمان پر موجود بیت معمور کے بارے میں بیان کیا ہے کہ اس میں سترہزار فرشتے روزانہ نماز پڑھتے ہیںاور ایک مرتبہ جو فرشتہ نماز پڑھ کر اس سے نکل جاتا ہے تو پھر کبھی داخل نہیں ہوپائے گا۔(صحیح بخاری3207)، صحیح مسلم162)
نیز ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”آسمان چرچرا رہا ہے اور اسے چرچرانے کا حق بھی ہے، اس وجہ سے کہ آسمان میں کہیں چار انگلی بھر کی ایسی جگہ نہیں ہے مگر اس پر کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنی پیشانی رکھے ہوئے موجود ہے“۔ (سنن ترمذی2312، سنن ابن ماجہ4190)
ان حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی تعداد انتہائی زیادہ ہے اور ان کی کثرت تعداد کا اندازہ لگانا انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔
فرشتوں کا موت سے دوچار ہونا:
انسان جس طرح سے ولادت و وفات کے مراحل سے گزرتے ہیں ، فرشتے ان مراحل سے نہیں گزرتے ہیں بلکہ جب سے اللہ نے انہیں پیدا فرمایا ہے وہ اچھے ڈھنگ سے اپنی ذمہ داریوں کو نباہ رہے ہیںلیکن جب قیامت قائم ہوگی تو پوری کائنات کے ساتھ ساتھ یہ فرشتے بھی موت سے دوچار ہوں گے اور فانی ہوجائیں گے، جس کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں کھینچا ہے۔چنانچہ فرمایا:”کل نفس ذائقة الموت“ (سورة آل عمران185) یعنی ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔
نیز فرمایا:”کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام“(سورة الرحمن۶۲-۷۲) یعنی زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں، صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی۔
ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جب قیامت آئے گی تو فرشتے بھی موت سے دوچار ہوجائیں گے۔
فرشتے اللہ تعالیٰ کے انتہائی پاک باز اور نیکو کار مخلوق ہیں:
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں متعدد موقعوں پرفرشتوں کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ اللہ کے انتہائی پاک باز و نیکو کار اور معز ز و مکرم بندے ہیں۔ اسی طرح سے وہ اللہ کے حددرجہ مطیع و فرماں بردار بھی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انہیں جو ذمہ داری سونپی ہے، اس کوبڑے انہماک سے بغیر کاہلی، سستی اور اگتاہٹ کے شکار ہوئے انجام دیتے ہیں۔ بعض فرشتے ایسے ہیں جو اپنی خلقت کے یوم سے ہی رکوع اور سجدے میں ہیں۔ وہ ہمہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے ہیں۔فرشتوں کے تعلق سے قرآن پاک میں ارشاد ہے:”با ¿یدی سفرة، کرام بررة “ (سورة عبس۵۱-۶۱) یعنی ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہے جو بزرگ اور پاک باز ہیں۔
دوسری جگہ فرمایا:”انہ لقرآن کریم فی کتب مکنون لایمسہ الا المطھرون“(سورة الواقعة77-79)یعنی بے شک یہ قرآن بہت بڑی عزت والا ہے جو ایک محفوظ کتاب میں درج ہے، جسے صرف پاک لوگ ہی چھوسکتے ہیں۔
نیز فرمایا:”لایعصون اللہ ما ا ¿مرھم و یفعلون مایو ¿مرون“ (سورة التحریم6) یعنی اللہ تعالیٰ انہیں جو حکم دیتا ہے اس کی وہ نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجالاتے ہیں۔
ایک جگہ اور فرمایا:”لایسبقونہ بالقول وھم با ¿مرہ یعملون“ (سورة الا ¿نبیائ27) یعنی کسی بات میں اللہ پر پیش دستی نہیں کرتے بلکہ اس کے فرمان پر کاربند ہیں۔
نیز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس میں ماہر بھی ہوتا ہے تو وہ پاک باز اور نیک فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو شخص پڑھتا ہے اور اسے پڑھنے میں تکلیف ہوتی ہے تو اسے دوہرا اجر و ثواب حاصل ہوگا“۔ (ا ¿خرجہ الجماعة)
فرشتوں کے بارے میں اوپر ذکر کی گئی آیات و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے ہر طرح کے گناہوں سے پاک صاف ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ جس کی یہ صفت ہوگی کہ وہ ہر طرح کے گناہوں سے پاک صاف ہوگا وہ انتہائی نیک، صالح، معزز اور مکرم شمار کیا جائے گا، نیز فرشتوں کی صالحیت، پاکبازی اور بہتری کی گواہی تو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں دی ہے۔
فرشتے شرم و حیاءسے متصف ہیں:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرشتوں کی جن صفات کے بارے میں بتایا ہے ، ان میں ایک عمدہ صفت یہ ہے کہ فرشتے شرم و حیاءکی صفت سے متصف ہیں۔چنانچہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور آپ کی رانوں یا پنڈلیوں سے کپڑا ہٹا ہوا تھا۔اس دوران ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت دے دی ۔چنانچہ آپ نے اسی حال میں اجازت دے دی اور ان سے گفتگو شروع کردی۔اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی اجازت دے دی اور ان سے گفتگوشروع کردی۔پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنا کپڑا درست کرلیا۔اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ داخل ہوئے اور آپ نے ان سے گفتگو کی۔عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما تشریف لائے تو آپ نے اپنی حالت بدلنے کی طرف توجہ نہیں دی مگر جب عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ فورا اٹھ کر بیٹھ گئے اور کپڑے بھی درست کرلئے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس شخص سے فرشتے شرم و حیاءکرتے ہیں، اس سے بھلا میں کیوں نے حیا کروں“۔ (صحیح مسلم2401)
فرشتوں کی سرعت رفتاری:
دنیا میں سب سے تیز رفتار روشنی تسلیم کی جاتی ہے جو ایک سکنڈ میں 186میل کی رفتار سے چلتی ہے، لیکن فرشتوں کی رفتار اس سے کہیں زیادہ ہے اور ان کی رفتار کو دنیا کے کسی بھی آلے پر ناپا نہیں جاسکتا ہے۔فرشتوں کی سرعت رفتاری کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگ مسائل دریافت کرنے تشریف لایا کرتے تھے، وہ اپنے سوالات سے فارغ نہیں ہوتے کہ جبرئیل علیہ السلام رب باری تعالیٰ کے پاس سے جواب لے کر حاضر ہوتے، اس کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ان میں ایک مشہور حدیث وہ ہے جس میں ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے اور اس کا علم عبداللہ بن سلام کو ہوا تو وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میں آپ سے تین سوال پوچھوں گا، اگر آپ ان سوالوں کے جواب دے دیں گے تو میں آپ پر ایمان لے آو ¿ں گا۔ جب وہ سوال کرکے فارغ ہوئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ تمہارے سوالوں کے جواب ابھی جبرئیل علیہ السلام بتاکر گئے ہیں۔ اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبھی سوالوں کے جواب بتلائے ، جس سے متاثر ہوکر عبداللہ بن سلام مشرف بہ اسلام ہوگئے۔(صحیح بخاری3329)
فرشتوں کا علم:
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بے شمار علم سے نوازا ہے، لیکن ان کا یہ علم وہبی ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں بغیر محنت و مشقت کے ان کے منصب کے حساب سے عطا کیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں جو علم عطا کیا ہے ، اس سے زیادہ نہ تو وہ جانتے ہیں اور نہ ہی اللہ کی اجازت کے بغیر حاصل ہی کرسکتے ہیں۔اس کا اندازہ اس آیت کریمہ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو چند چیزوں کے نام سکھائے اور ان کے بارے میں پہلے فرشتوں سے پوچھا، مگر وہ سب ان چیزوں کے نام بتانے سے قاصر رہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”وعلم آدم الا ¿سماءکلھا ثم عرضھم علی الملائکة فقال ا ¿نبﺅنی با ¿سماءھو ¿لاءان کنتم صادقین۔ قالوا: سبحانک لاعلم لنا الا ماعلمتنا انک ا ¿نت العلیم الحکیم“(سورة البقرة۱۳-۲۳)یعنی اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام نام سکھاکر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا:اگر تم سچے ہوتو ان چیزوں کے نام بتاو ¿۔ ان سب نے کہا: اے اللہ! تیری ذات پاک ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتناتونے ہمیں سکھارکھا ہے، پورا علم و حکمت والاتوتوہی ہے۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ علم سے نوازا تو ہے لیکن ان کا علم اپنے منصب و ذمہ داری سے متعلق ہے، عمومی چیزوں کا علم نہیں ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے انہیں جو علم دیا ہے، اس سے زیادہ نہ تو وہ جانتے ہیں اور نہ ہی جان سکتے ہیں۔
فرشتوں کا باہم بحث و تکرار کرنا:
فرشتے باہم مذاکرہ اور بحث کیا کرتے ہیں اور وحیِ الٰہی کے تعلق سے گفتگو کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”رات اللہ تعالیٰ میرے پاس اپنے بہترین شکل و صورت میں آیا اور دریافت کیا: اے محمد ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ فرشتے کس چیز کے بارے میں ملا ¿ اعلیٰ سے بحث کررہے ہیں؟میں نے کہا: نہیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ کو میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا،حتی کہ میں اس کی ٹھنڈک کو اپنے سینہ میں محسوس کیا۔اس کے بعد آسمان و زمین میں موجود چیزوں کا علم حاصل ہوگیا۔اس کے بعد پھر دریافت کیا:محمد! کیا تجھے معلوم ہے کہ فرشتے کس چیز کے تعلق سے ملا اعلیٰ سے ہم کلام ہیں؟ میں نے کہا: ہاں،گناہوں کو مٹانے والے اعمال ”کفارات“اور درجات کو بلند کرنے والے اعمال کے بارے میں۔گناہوں کو مٹانے والے اعمال نمازوں کے بعد مسجدوں میں ٹھہرنا اور پیدل چل کر جماعت کے لئے جانا اور انتہائی پریشانی کے عالم میں بھی اعضاءوضو کو بہتر ڈھنگ سے دھونا۔اس پر اللہ نے کہا: محمد! تم سچ کہہ رہے ہو۔جو کوئی شخص ایسا کرے گا وہ بھلائی کے ساتھ جئے گا اور بھلائی کے ساتھ مرے گااور گناہوں سے ویسے ہی پاک ہوجائے گا جیسے وہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔
پھر پوچھا: اے محمد! نماز پڑھتے وقت یہ دعا پڑھا کرو:”اللھم انی ا ¿سا ¿لک فعل الخیرات، وترک المنکرات و حب المساکین و تغفرلی و ترحمنی و تتوب علی و اذا ا ¿ردت بعبادک فتنة فاقبضنی الیک غیر مفتون“۔
اور درجات کوبلند کرنے والے اعمال یہ ہیں: سلام کو پھیلانا، کھانا کھلانا اورلوگوں کے سونے کے عالم میں نماز کا اہتمام کرنا۔(صحیح الجامع۱۲۷)
نیز فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے اس وقت بھی بحث و تکرار کی تھی جبکہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تھا، جس کی طرف قرآن مجید میں یوں اشارہ کیا گیا ہے:”ماکان لی من علم بالملا ¿ الا ¿علی اذ یختصمون ان یوحی الی ا ¿نما ا ¿نا نذیر مبین“ (سورة ص۹۶-۰۷)یعنی مجھے ان بلند قدر فرشتوں کی بات چیت کا کوئی علم ہی نہیں جبکہ وہ تکرار کررہے تھے۔میرے طرف فقط یہی وحی کی جاتی ہے کہ میں تو صاف صاف آگاہ کردینے والا ہوں۔
جمہور مفسرین کے بقول : اس آیت کریمہ میں وہی بحث و تکرار مقصور ہے جو اللہ اور فرشتوں کے درمیان تخلیق آدم علیہ السلام کے بارے میں ہوئی تھی۔(تفسیر ابن کثیر۶۳۷-۴۷)
فرشتوں کی عبادت:
٭ تسبیح و تحمید: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:”یسبحون اللیل والنھار لایفترون“(سورة الا ¿نبیائ20) یعنی اللہ تعالیٰ انہیں جو حکم دیتا ہے اس کی وہ نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجالاتے ہیں۔
٭ رکوع و سجود: حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ہمراہ تھے۔ آپ نے صحابہ کرام سے پوچھا: کیا تم لوگ بھی وہ آواز سن رہے ہو جو میں سن رہا ہوں۔صحابہ کرام نے کہا: ہم لوگوں کو تو کوئی آواز نہیں سنائی دے رہی ہے؟آپ نے فرمایا:”میں آسمان کے چرچرانے کی آواز سن رہا ہوں اور اس کا چرچرانا کوئی معیوب بھی نہیں کیونکہ آسمان میں کہیں ایک ہاتھ کے برابربھی ایسی جگہ نہیں جہاں کوئی فرشتہ سجدہ ریز یا حالت قیام میں نہ ہو“۔ (سلسلة الاحادیث الصحیحة852)
٭ حج و طواف: انسان جس طرح سے خانہ کعبہ کا حج اور طواف کرتا ہے ، اسی طرح فرشتوں کا کعبہ بھی ساتویں آسمان پر بیت معمور کے نام سے ہے جہاں فرشتے جاتے ہیں اور حج اور طواف کیا کرتے ہیں۔بیت معمور کے بارے میں آیا ہے کہ اس میں روزانہ سترہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور جو ایک بار چلاجاتا ہے پھر قیامت تک اس کی باری نہیں آئے گی(صحیح بخاری3207، صحیح مسلم162)
بیت معمور خانہ کعبہ کی سدھائی پرساتویں آسمان میں موجود ہے جیساکہ تفسیر طبری میں علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے اور اسے شیخ البانی نے شواہد کی بنیاد پر ”الصحیحة ۱۶۳۲“ میں ثابت قرار دیا ہے۔
اس کے علاوہ مختلف حدیثوں میں فرشتوں کے آمین کہنے اور صف بستہ ہونے وغیرہ کی باتیں ثابت ہیں۔
فرشتوں کی صفات اور احوال کے تعلق سے یہ رہیں چند باتیں، یقینی طور پر فرشتے اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظیم مخلوق ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے مختلف کاموں پر لگارکھا ہے۔ہر مسلمان کو چاہئے کہ فرشتوں کے بارے میں وارد ان سبھی چیزوں کو من و عن تسلیم کرے، کیونکہ جب ایک انسان فرشتوں پر ایمان رکھتا ہے تو وہ کئی فوائد و ثمرات سے محظوظ ہوتا ہے۔ فرشتوں پر ایمان لاکر جہاںاللہ تعالیٰ کے حکم کی فرماں برداری کی جاتی ہے۔وہیںایمان بالملائکہ سے اللہ تعالیٰ کی مخلوقات کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے، نیز ایک انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا کس حدتک خیال رکھتا ہے کہ ان کی حفاظت و صیانت کی خاطرفرشتوں کو متعین کررکھا ہے اور دنیوی و اخروی فوائد کے لئے کتابت اعمال پر فرشتوں کو مامور کیا ہے ۔ اسی طرح جب انسان کوفرشتوں کے کاموں اور ان کی پاک بازی کا علم ہوتا ہے تو اس کے دل میں بھی نیک بننے کی خواہش پیداہوتی ہے اور وہ بھی رب تعالیٰ کی عبادت کا اہتمام کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ جب انسان اپنے متعلق فرشتوں کے کاموں کو جانتا ہے تو اس کے دل میں فرشتوں کے تئیں پیار و محبت اورعزت پیدا ہوتی ہے۔
بعض اہم مصادر و مراجع:
۱- عالم الملائکة الا ¿برار للدکتور عمر سلیمان الاشقر
۲- الحبائک فی ا ¿خبارالملائک للامام السیوطی
۳- فرشتوں کے عجیب حالات ترجمہ : الحبائک فی ا ¿خبار الملائک للسیوطی ، مترجم: مولانا امداد اللہ انور
۴- انسان اور فرشتے تالیف: حافظ مبشر حسین حفظہ اللہ
۵- حقیقة الملائکة للشیخ ا حمد بن محمد الصادق النجار
فرشتے اللہ تعالیٰ کے انتہائی پاک باز، بے حد نیک، حددرجہ معزز اور اعلیٰ درجہ کے مکرم مخلوق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نور سے پیدا فرمایا ہے اور مختلف کاموں پر مامور کردیا ہے۔فرشتے اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے ہیں اور ہمہ وقت تسبیح و تحمید، رکوع و سجود اور حج و طواف میں مشغول رہتے ہیں، وہ کبھی بھی اگتاہٹ، سستی و کاہلی اور تھکان کے شکار نہیں ہوتے۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے فرشتوں پر ایمان لانے کو ایمان کا ایک اہم رکن قرار دیا ہے۔چونکہ فرشتے ایک نورانی مخلوق ہیں اور مسلم سماج میں فرشتوں کے بارے میں کم معلومات موجود ہیں ۔لہذا، زیر نظرمضمون میں فرشتوں کے تعارف اور ان کی صفات کے تعلق سے چند ضروری باتیں ذکر کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم مخلوق کے بارے میں جانیں اور اس پر ایمان لائیں:
ارکان ایمان چھ ہیں۔ ان میں سے ایک اہم رکن فرشتوں پر ایمان لانا بھی ہے۔ کوئی شخص ایمان کے پانچ ارکان پر ایمان لاتا ہے اور فرشتوں کا انکار کرتا ہے تووہ مسلمان نہیں ہوسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندر جابجا اس چیز کو بیان کیا ہے۔چنانچہ فرمایا:”لیس البر ا ¿ن تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من آمن باللہ والیوم الآخر والملائکة والکتب والنبیین“ (سورة البقرة177) یعنی ساری اچھائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتاََ اچھا وہ شخص ہے جو اللہ پر،قیامت کے دن پر،فرشتوں پر،کتاب اللہ پراور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو۔
 
Top