• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آٹھ رکعت تراویح اور عیسیٰ بن جاریہ

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
السلام و علیکم

کیا یہ حدیث ضعیف ہے؟

قال : جاء أبي بن كعب ، فقال : يا رسول الله ، " كان مني الليلة شيء يعني في رمضان ، قال : وما ذاك يا أبي ؟ قال : نسوة في داري ، قلن : إنا لا نقرأ القرآن ، فنصلي بصلاتك ، فصليت بهن ثماني ركعات ، ثم أوترت ، قال : وكان شبه الرضى ولم يقل له شيئا

ابی بن کعب رسول اللہ (ﷺ) کے پاس حاضر ہوئے۔ عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) رمضان ميں آج رات مجھ سے ايك (عجيب) كام ہوا، آپ نے فرمایا وہ کیا؟ عرض کی ہمارے گھر میں عورتوں نے مجھ سے کہا کہ ہم قرآن نہیں پڑھ سکتیں اس لئے ہم تیرے ساتھ نماز پڑھیں گی۔ پس میں نے انہیں آٹھ رکعات (تراویح) پڑھائیں اور ور پڑھے۔ پس راوی کا بیان ہے کہ یہ طریقہ پسند کیا گیا اور آپ نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ حافظ ہیثمی فرماتے ہیں: اس حدیث کی سند حسن ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
آٹھ رکعات تراویح سے متعلق ”عیسی بن جاریہ “کے طریق سے دو روایات منقو ل ہیں ۔
ذیل میں دونوں کی تحقیق ملاحظہ ہو:



امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311)نے کہا:
نا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ، نا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ، نا يَعْقُوبُ، ح وَثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعِجْلِيُّ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، نا يَعْقُوبُ وهو ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُمِّيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَالْوِتْرَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْقَابِلَةِ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ إِلَيْنَا، فَلَمْ نَزَلْ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، فَدَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجَوْنَا أَنْ تَخْرُجَ إِلَيْنَا فَتُصَلِّيَ بِنَا، فَقَالَ: «كَرِهْتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمُ الْوِتْرُ»
جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات تراویح اوروترپڑھائی پھراگلی بارہم مسجدمیں جمع ہوئے اوریہ امیدکی کہ اللہ کے نبی ہمارے پاس(امامت کے لئے)آئیں گے یہاںتک کہ صبح ہوگئی،پھراللہ کے نبی ۖہمارے پاس آئے توہم نے کہا:اے اللہ کے رسولۖ ہمیںامیدتھی کہ آپ ہمارے پاس آئیں گے اورامامت کرائیں گے،توآپ ۖ نے فرمایا:مجھے خدشہ ہوا کہ وترتم پرفرض نہ کردی جائے۔(صحیح ابن خزیمة 2/ 138 رقم 1070)۔

یہ حدیث بالکل صحیح ہے اس کے تمام راوۃ ثقہ ہیں تفصیل ملاحظہ ہو:

عیسی بن جاریہ رحمہ اللہ کا تعارف

جابررضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کرنے والے عیسی بن جاریہ ہیں ،یہ ثقہ ہیں ۔ان کی توثیق پر محدثین کے اقوال ملاحظہ ہوں:

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
لا بأس به
ان میں کوئی حرج کی بات نہیں یعنی یہ ثقہ ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 273]

امام هيثمي رحمه الله نے کہا:
وثقه أبو زرعة
ابوزرعہ نے انہیں ثقہ کہا ہے[مجمع الزوائد للهيثمي: 2/ 88]

امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311)نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے جیساکہ ان کی کتاب صحیح ابن خزیمہ سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے۔

یادرہے کہ ناقد محدث کی طرف سے کسی راوی کی روایت کی تصحیح یا تحسین اس کی توثیق ہوتی ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے: یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ:ص689،نیزص690۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے۔دیکھیں[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 5/ 214]۔
نیزامام ابن حبان رحمہ اللہ نے ان کی اسی حدیث کوصحیح بھی کہا ہے دیکھئے[صحيح ابن حبان: 6/ 169]

امام أبو يعلى الخليلي رحمه الله (المتوفى446)نے کہا:
عِيسَى بْنُ جَارِيَةَ تَابِعِيُّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَرَوَى عَنْهُ الْعُلَمَاءُ مَحِلُّهُ الصِّدْقُ
عیسی بن جاریہ تابعی ہیں ،ان سے علماء نے روایت کیا ہے یہ سچے ہیں[الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي: 2/ 785]۔

امام منذري رحمه الله (المتوفى656)ان کی ایک روایت کے بارے میں کہا:
رواه أبو يعلى بإسناد جيد وابن حبان في صحيحه
اسے ابویعلی نے جید سند سے روایت کیا ہے اورابن حبان نے اسے اپنی ”صحیح “ میں روایت کیا ہے[الترغيب والترهيب للمنذري 1/ 293 رقم 1081]
نیزدیکھیں :الترغيب والترهيب ،ط، مکتبہ المعارف : ص328 رقم 1047۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے ان کی اسی روایت کے بارے میں کہا:
إسناده وسط
اس کی سند اوسط درجے کی ہے [ميزان الاعتدال للذهبي: 3/ 311]

امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)ان کی ایک روایت کے بعد کہا:
رواه أبو يعلى والطبراني في الأوسط بنحوه وفي الكبير باختصار ورجال أبي يعلى ثقات.
اسے ابویعلی نے روایت کیا ہے اورطبرانی نے اوسط میں اسی جیساروایت کیا ہے اورکبیر میں اختصارکے ساتھ روایت کیا ہے اور ابویعلی کے رجال ثقہ ہیں[مجمع الزوائد للهيثمي: 2/ 219]

امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840)نے ان کی ایک روایت کے بارے میں کہا:
هَذَا إِسْنَاد حسن يَعْقُوب مُخْتَلف فِيهِ وَالْبَاقِي ثِقَات
یہ سند حسن ہے یعقوب مختلف فیہ ہے اور باقی رجال ثقہ ہیں[مصباح الزجاجة للبوصيري: 4/ 245]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے ان کی ایک روایت کے بارے میں کہا:
رجاله ثقات
اس کے رجال ثقہ ہیں[الإصابة لابن حجر: 3/ 349 رقم 3913 ]

احناف نے بھی اس راوی کو ثقہ مانا ہے چنانچہ ان کی ایک روایت نقل کرکےنیموی حنفی نے کہا:
اسنادہ صحیح
اس کی سند صحیح ہے[آثارالسنن :961]۔

بلکہ احناف نے ان کی اس حدیث کو بھی صحیح تسلیم کیا ہے چنانچہ:

ملا علي القاري (المتوفى1014)نے کہا:
فإنه صح عنه أنه صلى بهم ثماني ركعات والوتر
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بسندصحیح ثابت ہے کہ آپ نے صحابہ کو آٹھ رکعات اوروترپڑھائی[مرقاة المفاتيح للملا القاري: 3/ 971]

أنور شاه رحمه الله (المتوفى1353):
وفي الصحاح صلاة تراويحه عليه الصلاة والسلام ثماني ركعات
اورصحیح حدیث کی کتب میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح آٹھ رکعات تھی ۔[العرف الشذي للكشميري: 1/ 412]


جارحین کے اقوال کاجائزہ



امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
عيسى بن جارية عنده أحاديث مناكير
عیسی بن جاریہ ،ان کے پاس منکر احادیث ہیں[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 369]

ان الفاظ میں عیسی بن جاریہ پر براہ راست جرح نہیں ہے کیونکہ امام ابن معین نے کہا ہے کہ ان کے پاس منکر احادیث ہیں ،اورکسی کے پاس محض منکراحادیث کا ہونا اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ وہ راوی منکرالحدیث ہے ۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ما كل من روى المناكير يضعف
ایسانہیں ہے کہ جس کسی نے بھی منکراحادیث روایت کی وہ ضعیف قرارپائے گا[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 118]

مزید یہ کہ بعض محدثین محض تفرد کے معنی میں بھی نکارت کی جرح کرتے ہیں یعنی منکر کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلاں راوی کے پاس ایسی احادیث ہیں جن کی متابعت نہیں ملتی۔ اورمحض اس چیز سے راوی پرلازمی جرح ثابت نہیں ہوتی ہے۔دیکھئے:شفاء العليل بألفاظ وقواعد الجرح والتعديل: ص310 تا 311۔
ہم عیسی بن جاریہ ہی سے متعلق امام ابن معین رحمہ اللہ کے دیگراقوال دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امام ابن معین رحمہ اللہ نے تفرد کے معنی میں ہی ان کی احادیث کو منکر کہا ہے چنانچہ ایک دوسرے موقع پر امام ابن معین رحمہ اللہ نے کہا:
روى عنه يعقوب القمي لا نعلم أحدا روى عنه غيره وحديثه ليس بذاك
ان سے یعقوب القمی نے روایت کیا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ ان کے علاوہ بھی کسی نے ان سے روایت کیا ہے اور ان کی حدیث اعلی درجے کی حدیث نہیں ہے[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 365]

امام ابن معین رحمہ اللہ کے اس قو ل سے یہ بات صاف ہوگئی کہ انہوں نے تفرد کے معنی میں ہی ان کی احادیث کو منکرکہا ہے اور اس معنی میں اگر کسی راوی کی احادیث کو منکر کہا جائے تو اس سے راوی کی تضعیف لازم نہیں آتی۔
علاوہ بریں امام ابن معین رحمہ اللہ نے ان کی حدیث کو ”لیس بذاک“ بھی کہا ہے ۔اوراس صیغہ سے حدیث کی تضعیف نہیں ہوتی ہے بلکہ اعلی درجہ کی صحت کی نفی ہوتی ہے۔لہذا ایک طرف ابن معین رحمہ اللہ کا ان کی حدیث کو ”منکر“کہنا اور دوسری طرف ان کی حدیث کو”لیس بذاک“ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ امام ابن معین کی نظر میں یہاں منکر سے مراد حدیث کی تضعیف نہیں بلکہ اعلی درجے کی صحت کی نفی ہے ،اسی طرح عیسی بن جاریہ رحمہ اللہ ان کے نزدیک ضعیف نہیں بلکہ اعلی درجہ کے ثقہ نہیں ہیں۔

نیزامام ابن معین رحمہ اللہ نےان کے بارے میں جو یہ کہا:
ليس بشيء
ان کا کوئی مقام نہیں [سؤالات ابن الجنيد لابن معين: ص: 302]
تو اس سے امام ابن معین رحمہ اللہ کی مراد جرح نہیں بلکہ ان کا قلیل الحدیث ہونا ہے کیونکہ امام ابن معین رحمہ اللہ قلیل الحدیث کے معنی میں بھی ”لیس بشی“کے الفاظ بولتے ہیں ۔دیکھیے:[التعریف برجال الموطا:ج3ص812،فتح المغیث :ج2ص123،التنکیل:ص54]۔
اوریہاں اس معنی کے لئے قرینہ امام ابن معین رحمہ اللہ کا یہ فرماناہے کہ میں نہیں جانتا کہ یعقوب قمی کے علاوہ کسی اور نے ان سے روایت کیا ہےکمامضی۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام ابن معین رحمہ اللہ کی نظر میں یہ قلیل الروایۃ تھے اور اسی سبب امام ابن معین رحمہ اللہ نے انہیں ”لیس بشی“کہاہے۔

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
منكر الحديث
یہ منکر الحدیث ہے[تهذيب الكمال للمزي: 22/ 589]

عرض ہے کہ امام مزی نے امام ابوداؤد ہی سے یہ بھی نقل کیا کہ:
وَقَال في موضع آخر : ما أعرفه ، روى مناكير.
امام ابوداؤد نے دوسرے مقام پر کہا کہ: میں اسے نہیں جانتا اس نے منکر روایات نقل کی ہیں[تهذيب الكمال للمزي: 22/ 590]

امام ابوداؤد کے اس دوسرے قول سے واضح ہوگیا کہ اما م ابوداؤد نے اس راوی کو منکرالحدیث صرف اس معنی میں کہا ہے کہ انہوں نے منکر روایات نقل کی ہیں اور صرف اتنی بات سے کسی راوی کی تضعیف ثابت نہیں ہوتی کیونکہ کسی راوی کا منکر الحدیث ہونا اور کسی راوی کا منکر روایات بیان کرنا دونوں میں فرق ہے کمامضیٰ۔

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
عيسى بن جارية يروي عنه يعقوب القمي منكر
عیسی بن جاریہ ،ان سے یعقوب القمی روایت کرتے ہیں یہ منکر ہے۔[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 76]

عرض ہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ تفرد کے معنی بھی منکر بول دیتے ہیں اور عیسی بن جاریہ رحمہ اللہ کئی روایات میں منفرد ہیں اس لئے بہت ممکن ہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے تفرد کے معنی میں نکارت کی جرح کی ہو ۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
فقد أطلق الإمام أحمد والنسائي وغير واحد من النقاد لفظ المنكر على مجرد التفرد
امام احمد اور امام نسائی وغیرہ ناقدین نے لفظ منکرکو محض تفرد کے معنی میں استعمال کیا ہے[النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر 2/ 674]
علاوہ بریں امام نسائی رحمہ اللہ متشددین میں سے بھی ہیں ۔جیساکہ امام ذہبی اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا ہے دیکھئے :[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 437، مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 387]

واضح رہے کہ بعض لوگ امام نسائی سے اس روای سے متعلق ”منکرالحدیث“ اور ”متروک“ کی جرح نقل کرتے ہیں لیکن یہ الفاظ امام نسائی سے ثابت نہیں ۔
امام نسائی کی کتاب میں صرف منکر کالفظ ہے غالبا بعض اہل علم نے اسے منکرالحدیث کے معنی میں سمجھ کرمعنوی طور پر منکرالحدیث نقل کردیا ہے۔
اور متروک کا لفظ امام نسائی نےاپنی کتاب میں اس سے قبل والے راوی کے ”عيسى بن عبد الرحمن“ کے بارے میں کہا دیکھئے:[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 76]
اوربعض لوگوں نے سبقت نظر کے سبب اس جرح کو بعد والے راوی”عیسی بن جاریہ“کے بارے میں سمجھ لیا ۔اس طرح کی مزید مثالوں کے لئے دیکھئے ہماری کتاب : انوارالبدر فی وضع الیدین علی الصدر۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
كلها غير محفوظة
اس کی مذکورہ تمام احدیث غیرمحفوظ ہیں[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 6/ 438]

عرض ہے کہ امام ابن عدی نےیہ تبصرہ کرنے سے قبل عیسی بن جاریہ پر بعض محدثین سے نکارت کی جرح نقل کی ہے جو ثابت نہیں ہیں ،جس سے معلوم ہوا کہ امام ابن عدی کی جرح کی بنیاد غیرثابت اقوال ہیں لہٰذا امام ابن عدی کی جرح غیرمسموع ہے۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
فيه لين
ان میں کمزوری ہے [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5288]

یہ بہت ہلکی جرح ہے جس سے تضعیف لازم نہیں آتی ہے یہی وجہ ہے کہ دوسرے مقام پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا:
رجاله ثقات
اس کے رجال ثقہ ہیں[الإصابة لابن حجر: 3/ 349]

اور ایک دوسرے مقام پر ان کی ایک روایت کو حسن قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں:
كما أخرجه أبو يعلى بإسناد حسن من رواية عيسى بن جارية
جیساکہ ابویعلی نے عیسی بن جاریہ کی روایت حسن سند سے نقل کی ہے[فتح الباري - ابن حجر - دار المعرفة 2/ 198]


امام عقیلی نے ضعفاء میں اس راوی کا تذکرہ کیا ہے ۔لیکن خود کوئی جرح نہیں کی ہے۔ اور محض ضعفاء والی کتاب میں کسی راوی کے تذکرہ سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہے کہ ضعفاء کے مؤلف کی نظر میں یہ راوی ضعیف ہے۔یہی معاملہ ابن الجوزی اور امام ساجی کا بھی ہے ۔دیکھئے ہماری کتاب :یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ: ص 675 تا 677

خلاصہ یہ کہ عیسی بن جاریہ پر کوئی بھی معتبر جرح ثابت نہیں ہے لہٰذا یہ ثقہ ہیں کیونکہ بہت سارے محدثین نے ان کی توثیق کی ہے جیساکہ ماقبل میں تفصیل پیش کی گئی۔


يعقوب بن عبد الله القمي کا تعارف

عیسی بن جاریہ سے اس حدیث کو نقل کرنے والے ”یعقوب بن عبداللہ القمی “ہیں ،آپ بخاری تعلیقا اور سنن اربعہ کے ثقہ راوی ہیں۔

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ثقة
یہ ثقہ ہیں[سؤالات ابن الجنيد لابن معين: ص: 411]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے انہیں ثقات میں ذکر کرتے ہوئے کہا:
يعقوب بن عبد الله بن سعد الأشعري القمي۔۔۔[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 7/ 645]

امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)ان کی یہی حدیث نقل کرکے کہا:
ثقة
یہ ثقہ ہیں[المعجم الصغير للطبراني 1/ 317]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
صدوق
یہ صدوق ہیں[الكاشف للذهبي: 2/ 394]
اور ایک دسری کتاب میں کہا:
الإمام، المحدث، المفسر
آپ امام ،محدث اور مفسر ہیں[سير أعلام النبلاء للذهبي: 8/ 299]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ضعيف
یعقوب ضعیف ہیں[علل الدارقطني 13/ 116]

عرض ہے کہ ضعیف غیرمفسر جرح ہے امام دارقطنی ہی کے دوسرے قول میں اس کی تفسیر آگئی ہے چنانچہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کہا:
ليس بالقوي
یہ بہت زیادہ قوی نہیں ہیں[علل الدارقطني: 3/ 92]

عرض ہے کہ ”لیس بالقوی“ کی جرح قادح نہیں ہے اور اسے راوی کا عام معنی میں ضعیف ہونا ثابت نہیں ہوتا جیساکہ ہم نے اس کی پوری تفصیل اپنی کتاب ''یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ: ص 677 تا 679 '' میں پیش کی ہے۔
الغرض یہ کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کے اس دوسرے قول سے معلوم ہوا کہ ضعیف کہنے سے امام دارقطنی رحمہ اللہ کی مراد حافظہ میں معمولی کمی ہےبتلانا ہے ، نہ کہ عام معنی میں ضعیف بتلاناہے۔


مالك بن إسماعيل النهدي کاتعارف

یعقوب سے اس روایت کو کئی ثقہ رواۃ نے نقل کیاہے، امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے یعقوب سے نیچے دوسند ذکر کی ہے اور دونوں صحیح ہے بلکہ پہلی سندکے سارے رجال بخاری یامسلم کے ہیں ۔ اس سند میں یعقوب سے اس روایت کو نقل کرنے والے ”مالك بن إسماعيل النهدي“ہیں ۔
آپ بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں اور بالاتفاق ثقہ ہیں ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے آپ کے بارے میں ناقدین کے اقوال کاخلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا:
ثقة متقن صحيح الكتاب عابد
آپ ثقہ متقن ، صحیح الکتاب اور عابد ہیں [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم6424]

محمد بن العلاء الهمداني کا تعارف

آپ بھی بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں۔اوربالاتفاق ثقہ حافظ ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے آپ کے بارے میں ناقدین کے اقوال کاخلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا:
ثقة حافظ
آپ ثقہ متقن ، صحیح الکتاب اور عابد ہیں [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم6204]

معلوم ہوا کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے ۔اسی لئے درج ذیل علماء نے اسے صحیح قراردیاہے۔

امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311):
آپ نے اپنی کتاب ”صحیح ابن خزیہ “میں اسے نقل کیا یعنی آپ نے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے۔
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354):
آپ نے اپنی کتاب ”صحیح ابن حبان“میں اسے نقل کیا یعنی آپ نے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے۔دیکھئے[صحيح ابن حبان: 6/ 169]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852):
آپ نے فتح الباری میں اس حدیث کو نقل کیا ہے[فتح الباري لابن حجر 3/ 12]اوراس پر سکو ت اختیارکیا ہے ا ورفتح الباری میں کسی حدیث پر آپ کا سکوت آپ کے نزدیک اس حدیث کے صحیح یاحسن ہونے کی دلیل ہے ۔ دیکھئے: انوارالبدرفی وضع الیدین علی الصدر۔

بلکہ احناف نے بھی اسے صحیح کہا ہے ملاحظہ ہو:
ملا علي القاري (المتوفى1014):
آپ نے کہا:
فإنه صح عنه أنه صلى بهم ثماني ركعات والوتر
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بسندصحیح ثابت ہے کہ آپ نے صحابہ کو آٹھ رکعات اوروترپڑھائی[مرقاة المفاتيح للملا القاري: 3/ 971]
أنور شاه رحمه الله (المتوفى1353):
آپ نے کہا:
وفي الصحاح صلاة تراويحه عليه الصلاة والسلام ثماني ركعات
اورصحیح حدیث کی کتب میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح آٹھ رکعات تھی ۔[العرف الشذي للكشميري: 1/ 412]
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام أبو يعلى رحمه الله (المتوفى307)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: جَاءَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ يَعْنِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: «وَمَا ذَاكَ يَا أُبَيُّ؟»، قَالَ: نِسْوَةٌ فِي دَارِي، قُلْنَ: إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَنُصَلِّي بِصَلَاتِكَ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ بِهِنَّ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرْتُ، قَالَ: فَكَانَ شِبْهُ الرِّضَا وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا
جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورکہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گذشتہ رات (یعنی رمضان کی رات) مجھ سے ایک چیز سرزد ہوئی ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا وہ کیا چیز ہے ؟ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے گھر میں خواتین نے مجھ سے کہا کہ ہم قران نہیں پڑھ سکتیں لہٰذا ہماری خواہش ہے کہ آپ کی اقتداء میں نماز پڑھیں ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے انہیں آٹھ رکعات تراویح جماعت سے پڑھائی پھر وتر پڑھایا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پرکوئی نکیر نہ کی گویا اسے منظور فرمایا۔[مسند أبي يعلى الموصلي 3/ 336]

یہ حدیث بھی صحیح ہے۔
عیسی بن جاریہ اور یعقوب القمی کا تعارف گذشتہ روایت کے تحت ہوچکا ہے۔
اور”عبد الأعلى بن حماد الباهلي“بخاری ،مسلم ،اورابوداؤدوغیرہ کے رجال میں سے ہیں،اوربالاتفاق ثقہ ہیں کسی بھی امام نے ان پر کوئی جرح نہیں کی ہے اور :
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
المحدث الثبت
یہ محدث اورثبت ہیں[الكاشف للذهبي: 1/ 610]

معلوم ہوا کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔
اسی لئے امام ابن حبان رحمہ اللہ اسی سند سے اسے ”صحیح ابن حبان“میں روایت کیا ہے دیکھئے:[صحيح ابن حبان: 6/ 290]۔

امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
رواه أبو يعلى والطبراني بنحوه في الأوسط وإسناده حسن
اسے ابویعلی اور طبرانی نے اسی طرح اوسط میں روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے[مجمع الزوائد للهيثمي: 2/ 91]
 
Top