• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کا جوتا، آپ کا سر

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
آپ کا جوتا، آپ کا سر


نماز میں رفع الیدین کرنا، نہ کرنا اہل حدیث اور احناف کے مابین انتہائی معرکتہ الآراء مسئلہ ہے جس پر جانبین کی جانب سے متعدددھواں دھار تصانیف منصہ شہو د پر جلوہ گر ہوچکیں ہیں۔رفع الیدین کے اثبات میں دلائل کی مضبوطی نے حنفیوں کو اس قدر مخبوط الحواس کر دیا ہے کہ آج تک یہ لوگ رفع الیدین کے حکم سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرسکے بلکہ دفع الوقتی کے تحت مختلف اور متصادم حیلوں، بہانوں اور بودی تاویلوں کے سہارے اس سنت متواترہ سے انکار کرکے جان چھڑانے کی فکر میں رہتے ہیں۔

1۔ کبھی کہتے ہیں کہ رفع الیدین اور ترک رفع الیدین دونوں سنت ہیں۔

۱۔ جیسے شاہ ولی اللہ حنفی کہتے ہیں: میرے نزدیک حق بات یہ ہے کہ رفع الیدین کرنا یا نہ کرنا دونوں طرح سنت ہے۔(حجتہ اللہ بالغہ)

۲۔ اسی طرح یوسف لدھیانوی دیوبندی رفع الیدین اور ترک رفع الیدین کے مسئلے میں بحث کرتے ہوئے دونوں کو سنت کہتے ہوئے لکھتے ہیں: اسی طرح امام ابوحنیفہ و مالک اور ان کے متبعین نے بھی ان صورتوں میں سے سنت ہی کی ایک صورت کو اختیار کیا ہے۔ اس لئے ان کوبھی ترک سنت کا الزام دینا صحیح نہیں۔(اختلاف امت اور صراط مستقیم، صفحہ 365)

۳۔ ریاست علی بجنوری دیوبندی مسئلہ رفع الیدین سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے رفع الیدین اور ترک رفع الیدین دونو ں کے سنت ہونے کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جن فروعی مسائل میں ایک سے زائد طریقے ثابت بالسنتہ ہیں۔(رفع یدین صحیح بخاری میں پیش کردہ دلائل کی روشنی میں،صفحہ 3)

۴۔ ترک اور رفع یدین سے متعلق شاہ عبدالقادر دہلوی کا موقف بھی دونوں کے سنت ہونے کا ہے۔فرماتے ہیں: جس طرح رفع یدین سنت ہے اسی طرح ارسال بھی سنت ہے۔(ارواح ثلاثہ، صفحہ 114)

۵۔ سید فخر الدین احمد دیوبندی کے اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی رفع الیدین اور ترک رفع الیدین دونوں سنت ہیں۔ملاحظہ کیجئے : رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع یدین سنت ہے، امام بخاری کا مسلک یہی ہے .....ان کا دعویٰ ہے کہ ترک رفع حدیث سے ثابت نہیں جبکہ واقعہ یہ ہے کہ دونوں مسلک حدیث ہی سے ثابت ہیں۔(رفع یدین صحیح بخاری میں پیش کردہ دلائل کی روشنی میں،صفحہ 11)

غیر ثابت شدہ ترک رفع الیدین کو بھی زبردستی سنت کہنااصل میں رفع الیدین کی ثابت شدہ سنت سے انکار کی ایک کوشش ہے۔تاکہ حنفی عوام ایک خلاف سنت اور بدعی عمل کو سنت سمجھ کر سینے سے لگائے رکھیں اور ترک رفع الیدین کے ترک کی نوبت نہ آئے۔

2۔ اور کبھی رفع الیدین کو متروک و منسوخ قرارد یتے ہیں۔

۱۔ عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی رفع الیدین کوبزعم خویش منسوخ ثابت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ یہ روایت (رفع الیدین والی....راقم)منسوخ ہے...ورنہ حضرت ابن عمر ؓ کبھی اس پر عمل ترک نہ کرتے۔(شادی کی پہلی دس راتیں،صفحہ30)

۲۔ انوار خورشید دیوبندی کے نزدیک رفع الیدین متروک ہے۔چناچہ لکھتے ہیں: ملاحظہ فرمایئے: احادیث و آثار سے تو ثابت ہو رہا ہے کہ رکوع والا رفع الیدین باقی نہیں رہا۔(حدیث اور اہلحدیث، صفحہ426)

۳۔ یوسف لدھیانوی دیوبندی بھی اس سنت ثابتہ کوسنت متروکہ کہتے ہوئے رقم کرتے ہیں: ان تما م امورسے معلوم ہوتا ہے کہ رفع الیدین آپ کی سنت دائمہ نہیں بلکہ سنت متروکہ ہے۔(اختلاف امت اور صراط مستقیم، صفحہ 390)

۴۔ رفع الیدین کی سنت سے تقلیدیوں کو سخت چڑ ہے اسی لئے امین اوکاڑوی اس سنت رسولﷺ کا تمسخرانہ انداز میں ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: معلوم ہوا کہ خیرالقرون میں رفع یدین کرکے نماز پڑھنے والا شخص عجائب گھر میں رکھنے کے لئے بھی نہ ملتا تھا۔اور رفع یدین کی تمام روایات اس پاک دور میں متروک العمل تھیں۔ (تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ 353)
ایک اور مقام پر رفع الیدین کی سنت سے اپنے بغض کا اظہار اس طرح کرتا ہے: کسی زمانہ میں یہ رفع یدین حضرت نے کی تو تھی مگر پھر ایسی متروک ہوئی کہ بعض متاخر الاسلام صحابہ کو اس کا علم تک نہ تھا۔(تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ 297)

3۔ کبھی رفع الیدین کو ناپسندیدہ یعنی مکروہ اور خلاف اولیٰ کہتے ہیں۔

۱۔ محمود الحسن دیوبندی صاحب فرماتے ہیں: حنفیہ کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا مکروہ یعنی خلاف اولیٰ ہے۔ (ادلہ کاملہ، صفحہ 25)

۲۔ محمد یوسف لدھیانوی صاحب کہتے ہیں: البتہ ان (حنفیہ) کے نزدیک یہ عمل سنت متروکہ ہونے کی وجہ سے خلاف اولیٰ ہے۔(اختلاف امت اور صراط مستقیم، صفحہ 391)

۳۔ حبیب الرحمنٰ اعظمی دیوبندی لکھتے ہیں: تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین کا خلاف اولیٰ ہونا بالکل ظاہر ہے۔(تحقیق مسئلہ رفع یدین، صفحہ 14)

4۔ کبھی تو یہ عاقبت نا اندیش حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کو بدعت بھی کہہ دیتے ہیں۔

۱۔ پرائمری اسکول ماسٹر امین اوکاڑوی کی زندگی میں بہت ہی کم ایسے مواقع آئے ہونگے جب دین کے معاملے میں اس مشہور کذاب نے سچ بولا ہوگا ورنہ یہ شخص کثرت سے جھوٹ بولنے کا عادی تھا۔ رفع الیدین کے بارے میں بہت بڑا جھوٹ بولتے ہوئے صحابہ و تابعین پر بہتان گھڑتا ہے: اس سے معلوم ہوا کہ خیرالقرون میں نہ کوئی رفع یدین کرتاتھا۔ بلکہ عمل کرنا تو کجا صحابہ وتابعین نے کبھی یہ مسئلہ سنا نہ تھا۔ (تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ 358)
تو گویا رفع الیدین کرنا بدعت ہوئی ! لاحول ولاقوۃ

امین اوکاڑوی دجلیات صفدر (تجلیات صفدر)میں ایک جگہ واضح طور پر اس سنت کو بدعت کہہ کر اپنا نامہ اعمال مزید سیاہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: تکبیر تحریمہ کے علاوہ دوسرے مواضع میں رفع یدین کرنا تعارض روایات کی وجہ سے سنیت اور نسخ سنیت میں دائر ہے، اور جب کوئی چیز سنیت اور بدعت میں دائر ہو یعنی اس کے سنت یا بدعت ہونے میں شبہ ہو تو اسکے بدعت ہونے کے پہلو کو راجح قرار دیاجاتا ہے۔ (تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ 372)

امین اوکاڑوی دیوبندی کے اس مکذبانہ دعویٰ کی تردید میں اتنا ہی کافی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: نبی ﷺ کے صحابہ میں سے کسی ایک سے بھی یہ ثابت نہیں کہ وہ رفع یدین نہیں کرتا تھا۔ (جز رفع الیدین، صفحہ 86)

5۔ کبھی ان کے ہاں رفع الیدین ایک اختلافی مسئلہ بن جاتا ہے۔

۱۔ محمود الحسن دیوبندی صاحب لکھتے ہیں: رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین سنت ہے یا نہیں؟ اس میں امت کا اختلاف ہے۔(ادلہ کاملہ، صفحہ 25)

۲۔ یوسف لدھیانوی دیوبندی رقم طراز ہیں: رفع الیدین کے باب میں جو احادیث مروی ہیں ان میں اختلاف و اضطراب ہے۔(اختلاف امت اور صراط مستقیم، صفحہ 390)

۳۔ محمد پالن حقانی دیوبندی کے نزدیک بھی رفع الیدین ایک اختلافی مسئلہ ہے اور وہ بھی کسی اور کے درمیان نہیں بلکہ صحابہ کرام کے مابین، چناچہ موصوف لکھتے ہیں: یہ ہے اختلاف۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بار بار ہا تھ اٹھاتے تھے یعنی رفع یدین کرتے تھے اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی نیت کرنے کے بعد نماز شروع کرتے وقت صرف ایک مرتبہ ہاتھ اٹھایا ہے بار بار نہیں اٹھایا ہے یعنی رفع یدین نہیں کیا ہے۔ واضح ہو کہ یہ اختلاف صحابہ کرام کا ہے اماموں کا نہیں۔(شریعت و جہالت، صفحہ 174)

۴۔ ریاست علی بجنوری دیوبندی رقمطراز ہیں: رفع یدین کا مسئلہ عہد صحابہؓ سے اختلافی ہے۔(رفع یدین صحیح بخاری میں پیش کردہ دلائل کی روشنی میں،صفحہ 5)

۵۔ نورالصباح نامی کتاب کے مقدمہ میں سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں: ان فروعی اختلافات میں سے ایک مسئلہ رفع الیدین عند الرکوع و عندرفع الراس من الرکوع بھی ہے جو آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اور حضرات صحابہ کرامؓ کے مبارک عہد سے تاہنوذ چلا آرہا ہے۔(نورالصباح، صفحہ 11)

سچ ہے کہ جھوٹے آدمی کی عقل نہیں ہوتی۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ نبی کریمﷺ کی موجودگی اور زمانہ مبارک میں ہی کسی مسئلہ پر صحابہ کرام کا اختلاف واقع ہوا ہو اور صحابہ نے اس اختلاف کا حل رسول اللہ ﷺ سے دریافت نہ کیا ہو اور نتیجتاً وہ اختلاف رفع نہ ہوگیا ہو؟! اصل حقیقت یہ ہے کہ ایسا کوئی اختلاف نہ تو رسول اللہ ﷺ کی عہد مبارک میں اور نہ ہی ان کے بعد صحابہ کے دور میں واقع ہوا ہے یہ یار لوگوں کی اختراع ہے جو انہوں نے ترک رفع یدین کو ثابت کرنے کے لئے گھڑی ہے۔اس ایک حوالے میں دیوبندیوں کے ’’امام اہل سنت‘‘ سرفراز خان صفدر نے رسول اللہ ﷺ اور ا ن کے تمام صحابہ پرسیاہ جھوٹ بولا ہے۔

6۔ کبھی تمام حدود پھلانگ کر کہتے ہیں کہ نماز میں رفع الیدین کرنا باعث فساد ہے۔

۱۔ شیخ محمد بن حیات سندھی حنفی رفع یدین کے بارے میں احناف کا موقف تحریر کرتے ہوئے رقم کرتے ہیں: اس میں چار اقوال ہیں۔ اور راجح یہ ہے کہ یہ جائز نہیں ہے کیونکہ نماز میں رفع یدین کرنا نماز کے مفسدات میں سے ہے۔(غایۃ التحقیق و نہایۃ التدقیق، صفحہ 3، بحوالہ تحفتہ المناظر از امین اللہ پشاوری، صفحہ150)

7۔ اور کبھی رفع الیدین کی سنت مبارکہ کو قابل نفرت قرار دیتے ہیں۔

اوکاڑی کی زبانی سنیے فرماتے ہیں: سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ نے 20 مرتبہ بصرہ کا علمی سفر کیا، 55 حج کیے 6 سال مستقل مکہ مکرمہ میں قیام پذیر رہے۔ آپ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اس رفع یدین سے نفرت کا اظہار فرماتے تھے۔(تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ 313)

اپنی بے دلیل بات میں وزن پید اکرنے کے لئے اوکاڑوی دوہرا جرم کرتا ہے ۔ پہلے ایک جھوٹ گھڑتا ہے پھر اس جھوٹ کو نبی ﷺ کے ذمہ لگا دیتا ہے۔استغفراللہ!

8۔ کبھی کہتے ہیں کہ رفع الیدین شاذ ہے۔

۱۔ امین اوکاڑوی دیوبندی رقم طراز ہے: الغرض عدم رفع تعاملاً متواتر تھی اور رفع یدین عملاً شاذ۔ (تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ266)
رفع یدین کے بارے میں شاذ کا موقف دہراتے ہوئے امین اوکاڑوی لکھتا ہے: اور رفع یدین شاذ یا منکر ۔ (تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ376)

9۔ کبھی رسول اللہ ﷺ کی اس پیاری سنت کو جسے اللہ کے رسول ﷺ نے کبھی ترک نہیں کیا ، جانوروں کا فعل کہتے ہیں۔

دیوبندیوں کا مناظر ’’اسلام‘‘ امین اوکاڑوی لکھتا ہے: اس رفع یدین پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار بھی فرمایا اور اسے جانوروں کے فعل سے تشبیہ بھی دی۔ (تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ350)

اس عبارت میں اوکاڑوی نے ناپاک جسارت کرتے ہوئے دوانتہائی خطرناک جھوٹ بولے ہیں پہلارفع یدین کو جانوروں کے فعل سے تشبیہ دینے کا اور دوسرااپنی گھڑی ہوئی جھوٹی بات کو نبی ﷺ سے منسوب کرنے کا۔

10۔ کبھی کبھی تو شرم وحیا کو بالائے طاق رکھ کر،بے غیرتی کا لبادہ اوڑھ کر اور دیانت و امانت کا سر عام جنازہ نکال کر رفع الیدین کرنے والے کو کافر کہتے ہیں۔ نعوذ باللہ من ذالک

محمد عاشق الہی میرٹھی دیوبندی لکھتے ہیں: اصل بات یہ تھی کہ بعض حنفیوں نے اہل حدیث یعنی غیر مقلدین زمانہ کو رفع یدین پر کافر کہنا شروع کردیا تھا۔ (تذکرۃ الخلیل ، حاشیہ صفحہ 132 تا 133)

آپ نے رفع الیدین کے حکم کے تعین میں تقلیدیوں کا اختلاف ملاحظہ کیا اب ہم انہیں کے بنائے ہوئے اصول آپ کی خدمت میں رکھتے ہیں دیکھئے کہ کس طرح ان کے اصول ان کی بے اصولیوں کے سبب ان ہی کے گلے پڑ گئے ہیں۔

غیر عالم اسکول ماسٹر امین اوکاڑوی (جوکہ دیوبندیوں کا مناظر اسلام تھا) نے جھوٹی بنیاد پراہل حدیث کے خلاف ایک اصول ذکر کیا ہے۔ لکھتا ہے: بعض غیر مقلدین سجدہ کی رفع یدین کو سنت کہتے ہیں ابو حفص عثمانی وغیرہ اور عام غیر مقلدین اس کے سنت ہونے کے منکر ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ سنت کا منکر بھی لعنتی ہوتا ہے اور غیر سنت کو سنت کہنے والا بھی لعنتی ہوتا ہے۔ (تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ371)

امین اوکاڑوی کسی معتبر اہل حدیث عالم سے سجدہ کی رفع الیدین کے سنت ہونے کا موقف ثابت نہیں کرسکا بلکہ صرف کسی ابوحفص عثمانی نامی مجہول شخص کا تذکرہ کرکے موصوف نے دھوکہ دینے کی نامراد سعی کی ہے۔چونکہ سجدہ کے رفع یدین کا کوئی ثبوت رسول اللہ ﷺ سے نہیں ملتا اسی لئے ایک معدوم عمل کے لئے سنت اور غیر سنت کی بحث تقلیدیوں کی فضول شعبدہ بازی ہے۔اس کے برعکس ہم نے آل تقلید کے مستند اور معتبر علماء سے رفع الیدین کے مسئلہ میں ان کا شدید اختلاف ثابت کیا ہے۔لہذاامین اوکاڑوی صاحب کا اصول اہل حدیث پر تو فٹ نہیں ہوتا الٹا ان کی اپنی گردن اس اصول کے شکنجے میں جکڑ گئی ہے۔ اگر رفع الیدین سنت ہے تو اس سنت کو بدعت، شاذ، متروک، منسوخ، مکروہ وغیرہ کہنے والے دیوبندی و حنفی لعنتی ہیں اور اگر رفع الیدین مکروہ، مفسد نماز اور جانوروں کا عمل ہے تو اس کو سنت کہنے والے دیوبندی و حنفی علماء و عوام یقینی لعنتی ہیں یعنی ہر دو صورتوں میں آل تقلید اپنے اصولوں کی لعنت و پھٹکار سے کسی صورت بچ نہیں سکتے۔ والحمداللہ

قرآن وحدیث کو ترک کرکے رجال کے اقوال و آرا میں جائے پناہ ڈھونڈنے والے دنیا میں بھی ذلیل و رسواء ہیں اور آخرت میں ذلیل و رسواء ہونگے ۔ان شاء اللہ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ واحد اصول نہیں تھا جس کی زد میں آکر تقلیدیو ں نے ذلت اٹھائی ہے ابھی اس سے بڑھکر ایک اصول اور باقی ہے۔مفتی عبدالشکورقاسمی دیوبندی رقم طراز ہیں: جس شخص نے حدیث متواتر کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا۔(کفریہ الفاظ اور ان کے احکامات مع گناہ کبیرہ و صغیرہ کا بیان، صفحہ45)

رفع الیدین کی احادیث متواتر ہیں اس کا اقرار دیوبندیوں کو بھی ہے۔ انور شاہ کشمیری دیوبندی ارشاد فرماتے ہیں: اور یہ جاننا چاہیے کہ رفع یدین بلحاظ سنداور عمل دونوں متواتر ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے اور رفع یدین بالکل منسوخ نہیں ہوابلکہ اس کا ایک حرف بھی منسوخ نہیں ہوا۔(نیل الفرقدین، صفحہ 24، فیض الباری، جلد دوم، صفحہ 455)
تنبیہ: انور شاہ کشمیری کا رفع یدین کو سنداً متواتر کہنا رفع الیدین کی احادیث کو متواتر تسلیم کرنا ہے۔

انور شاہ کشمیری کی اس شہادت سے ایک جانب تو وہ تمام دیوبندی و حنفی علماء جھوٹے ثابت ہوتے ہیں جومتواتر رفع یدین کو منسوخ و متروک کہتے نہیں تھکتے اور دوسری جانب اس سنت غیر منسوخہ اور متواترہ کا مختلف حیلوں اور بہانوں سے انکار کرکے یہ لوگ اپنے ہی اصول کی زد میں آکر کافر قرار پاتے ہیں کیونکہ احادیث سے ایک ثابت شدہ سنت کو منسوخ، متروک ، مکروہ، خلاف اولیٰ ، بدعت،شاذ، اختلافی مسئلہ، مفسدات نماز، قابل نفرت عمل اور حیوانوں کا فعل قرار دینا ہی اصل میں رفع الیدین کی سنت متواترہ کے انکار کی ایک زوردارکوشش ہے۔

ہوسکتا ہے کہ کوئی کہے کہ رفع الیدین کو منسوخ و متروک وغیرہ قرار دینا متواتررفع الیدین کا انکار نہیں ہے۔ایسے لوگوں کی خدمت میں آل تقلید کا صاف انکار بھی پیش خدمت ہے۔ امین اوکاڑوی دیوبندی رقم طراز ہے: دوسری بات ابراہیم نخعی کے ارشاد سے یہ ثابت ہوئی کہ رفع یدین کی حدیث نہ سنداً متواتر ہے اور نہ عملاً۔ (تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ435)

دیکھا آپ نے! انورشاہ کشمیری صاحب نے صاف صاف اقرار کیا کہ رفع یدین کی احادیث بھی متواتر ہیں اور عملی طور پر بھی رفع یدین متواتر ہے اور مفتی عبدالشکورقاسمی صاحب نے ایک اصول ذکر کیا کہ متواتر احادیث کا انکار کرنے والا کا فر ہے اور امین اوکاڑوی صاحب نے واضح طور پر رفع الیدین کی احادیث کے متواتر ہونے کا انکار کرکے کفر کا طوق اپنی گردن میں پہن لیا۔

مفتی عبدالشکورقاسمی دیوبندی نے اپنی کتاب کے ایک اور مقام پرتواتر کے ردکو کفرکہا ہے: اگر کوئی رکوع اور سجدوں کی فرضیت کا بالکلیہ انکار کرے گا تو وہ کافر ہوجائے گا حتیٰ کہ اگر صرف دوسرے سجدے کی فرضیت کا بھی انکار کرے گا تو وہ کافر ہوگا اس لئے کہ اس نے اجماع اور تواتر کا رد کیا ہے ۔(کفریہ الفاظ اور ان کے احکامات مع گناہ کبیرہ و صغیرہ کا بیان، صفحہ53)

اس حوالے میں اس شخص کے کافر ہونے کی اصل وجہ اجماع اور تواتر کا رد و انکار بیان ہوا ہے اورانور شاہ کشمیری کی زبانی رفع الیدین کا سنداً اور عملاً متواتر ہونا سطور بالا میں ذکر کیا جاچکا ہے اور دیوبندی علماء رفع یدین کو منسوخ ، متروک و معدوم مان کر رفع یدین کے عملی تواتر کا ردکرتے ہیں بلکہ سرے سے رفع الیدین کے تواتر کے منکر ہیں۔

امین اوکاڑوی دیوبندی نے لکھا: غیرمقلدین یہ بھی جھوٹ بولا کرتے ہیں کہ اختلافی رفع یدین کی حدیث متواتر ہے...یہ ایک دفعہ بھی اللہ کے نبیﷺ، کسی صحابی اور کسی ایک تابعی سے ثابت نہیں، چہ جائیکہ متواتر ہو۔ (تجلیات صفدر، جلدچہارم، صفحہ126)

پرائمری اسکو ل ماسٹر امین اوکاڑی ہی نے لکھا ہے: لا مذہبوں کا دعویٰ ہے کہ اس رفع یدین کی حدیث متواتر ہے اگر ان کا یہ دعویٰ صحیح ہوتا...الخ (تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ387)

محمد حبیب اللہ ڈیروی دیوبندی لکھتا ہے: معلوم ہوا کہ حضرات صحابہ کرام کاترک رفع الیدین پر اجماع تھا۔(نورالصباح، صفحہ 170)

حبیب اللہ ڈیروی کے خود ساختہ اجماع اور امین اوکاڑوی دیوبندی کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک رفع الیدین متواتر نہیں ہے جبکہ ان ہی کے محدث انورشاہ کشمیری کے نزدیک رفع الیدین متواتر ہے حتی کہ اس کا ایک حرف بھی منسوخ نہیں ہوا۔ پس دیوبندی رفع یدین کے تواتر کا انکار کرکے اپنے ہی اصولوں کی روشنی میں دائرہ کفر میں داخل ہوگئے ہیں۔انا اللہ وانا الیہ راجعون

اصل میں یہ نتیجہ ہے جھوٹ بولنے کااور سنتوں کو اپنانے کے بجائے ان سے دشمنی رکھنے کا۔ اگر تقلیدی تعصب انکی عقلیں زائل نہ کردیتا تو اصولوں کی شکل میں انہیں کے جوتے انہیں کے سروں پر نہ پڑتے ۔اللہ ہمیں تقلیدی و مذہبی تعصب سے محفوظ رکھے جوراہ حق میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے۔آمین یا رب العالمین۔
 
Top