حرفِ چند
ایک نادان بچہ سامنے سے ننگے پیر آ رہا ہو اور اس کا ننھا سا پاؤں سیدھے آگ پر پڑنے جا رہا ہو تو آپ کیا کریں گے؟ آپ فوراً اس بچے کو گود میں اٹھا لیں گے اور اسے آگ سے بچا کر بے انتہا خوشی محسوس کریں گے۔ اسی طرح اگر کوئی انسان آگ میں جھلس جائے یا جل جائے تو آپ تڑپ جاتے ہیں اور اس کے لیے آپ کے دل میں ہم دردی پیدا ہو جاتی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا: آخر ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ تمام انسان ایک ہی ماں باپ۔ آدم و حوا کی اولاد ہیں اور ہر انسان کے سینے میں ایک دھڑکتا ہوا دل ہے، جس میں محبت ہے، ہم دردی ہے، غم گساری ہے۔ وہ دوسروں کے دکھ درد پر تڑپ اٹھتا ہے اور ان کی مدد کر کے خوش ہوتا ہے، اس لیے سچا انسان وہی ہے، جس کے سینے میں پوری انسانیت کے لیے محبت کا جذبہ ہو، جس کا ہر کام انسان کی خدمت کے لیے ہو اور جوکسی کو بھی دکھ درد میں دیکھ کر بے چین ہو جائے اور اس کی مدد اس کی زندگی کا لازمی تقاضا بن جائے۔
اس جہان میں انسان کی یہ زندگی عارضی ہے اور مرنے کے بعد اسے ایک اور زندگی ملنے والی ہے، جو دائمی ہوگی۔ اپنے سچے مالک کی بندگی اور اس کی اطاعت کے بغیر اسے مرنے کے بعد کی زندگی میں جنت حاصل نہیں ہو سکتی، بلکہ اسے ہمیشہ کے لیے دوزخ کا ایندھن بننا پڑے گا۔
آج ہمارے لاکھوں کروڑوں بھائی اَن جانے میں دوزخ کا ایندھن بننے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں اور ایسے راستے پر چل رہے ہیں، جو سیدھا دوزخ کی طرف جاتا ہے۔ اس ماحول میں ان تمام لوگوں کی ذمے داری ہے، جو اللہ واسطے انسانوں سے محبت کرتے ہیں اور سچی انسانیت پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ آگے آئیں اور لوگوں کو دوزخ کی آگ سے بچانے کا اپنا فرض پورا کریں۔
ہمیں خوشی ہے کہ انسانوں سے سچی ہم دردی رکھنے والے اور ان کو دوزخ کی آگ سے بچانے کے دکھ میں گھلنے والے مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب نے آپ کی خدمت میں پیار و محبت کے کچھ پھول پیش کیے ہیں، جس میں انسانیت کے لیے ان کی محبت صاف جھلکتی ہے اور اس کے ذریعے انھوں نے وہ فرض پورا کیا ہے، جو ایک سچے مسلمان ہونے کے ناطے ہم سب پر عائد ہوتا ہے۔
ان الفاظ کے ساتھ دل کے یہ ٹکڑے اور آپ کی امانت آپ کے سامنے پیش ہے۔
وصی سلیمان ندوی
ایڈیٹر، ماہنامہ ارمغان ولی اللہ
پھلت ضلع مظفر نگر (یوپی)