• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کی امانت آپ کی سیوا میں (یونیکوڈ)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حرفِ چند
ایک نادان بچہ سامنے سے ننگے پیر آ رہا ہو اور اس کا ننھا سا پاؤں سیدھے آگ پر پڑنے جا رہا ہو تو آپ کیا کریں گے؟ آپ فوراً اس بچے کو گود میں اٹھا لیں گے اور اسے آگ سے بچا کر بے انتہا خوشی محسوس کریں گے۔ اسی طرح اگر کوئی انسان آگ میں جھلس جائے یا جل جائے تو آپ تڑپ جاتے ہیں اور اس کے لیے آپ کے دل میں ہم دردی پیدا ہو جاتی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا: آخر ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ تمام انسان ایک ہی ماں باپ۔ آدم و حوا کی اولاد ہیں اور ہر انسان کے سینے میں ایک دھڑکتا ہوا دل ہے، جس میں محبت ہے، ہم دردی ہے، غم گساری ہے۔ وہ دوسروں کے دکھ درد پر تڑپ اٹھتا ہے اور ان کی مدد کر کے خوش ہوتا ہے، اس لیے سچا انسان وہی ہے، جس کے سینے میں پوری انسانیت کے لیے محبت کا جذبہ ہو، جس کا ہر کام انسان کی خدمت کے لیے ہو اور جوکسی کو بھی دکھ درد میں دیکھ کر بے چین ہو جائے اور اس کی مدد اس کی زندگی کا لازمی تقاضا بن جائے۔
اس جہان میں انسان کی یہ زندگی عارضی ہے اور مرنے کے بعد اسے ایک اور زندگی ملنے والی ہے، جو دائمی ہوگی۔ اپنے سچے مالک کی بندگی اور اس کی اطاعت کے بغیر اسے مرنے کے بعد کی زندگی میں جنت حاصل نہیں ہو سکتی، بلکہ اسے ہمیشہ کے لیے دوزخ کا ایندھن بننا پڑے گا۔
آج ہمارے لاکھوں کروڑوں بھائی اَن جانے میں دوزخ کا ایندھن بننے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں اور ایسے راستے پر چل رہے ہیں، جو سیدھا دوزخ کی طرف جاتا ہے۔ اس ماحول میں ان تمام لوگوں کی ذمے داری ہے، جو اللہ واسطے انسانوں سے محبت کرتے ہیں اور سچی انسانیت پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ آگے آئیں اور لوگوں کو دوزخ کی آگ سے بچانے کا اپنا فرض پورا کریں۔
ہمیں خوشی ہے کہ انسانوں سے سچی ہم دردی رکھنے والے اور ان کو دوزخ کی آگ سے بچانے کے دکھ میں گھلنے والے مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب نے آپ کی خدمت میں پیار و محبت کے کچھ پھول پیش کیے ہیں، جس میں انسانیت کے لیے ان کی محبت صاف جھلکتی ہے اور اس کے ذریعے انھوں نے وہ فرض پورا کیا ہے، جو ایک سچے مسلمان ہونے کے ناطے ہم سب پر عائد ہوتا ہے۔
ان الفاظ کے ساتھ دل کے یہ ٹکڑے اور آپ کی امانت آپ کے سامنے پیش ہے۔
وصی سلیمان ندوی​
ایڈیٹر، ماہنامہ ارمغان ولی اللہ​
پھلت ضلع مظفر نگر (یوپی)​
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مجھے معاف کر دیں:
میرے پیارے قارئین!مجھے معاف کر دیجیے، میں اپنی اور اپنی تمام مسلم برادری کی جانب سے آپ سے معذرت چاہتا ہوں، جس نے اس دنیا کے سب سے بڑے شیطان کے بہکاوے میں آ کر آپ کی سب سے بڑی دولت آپ تک نہیں پہنچائی۔ اس شیطان نے گناہ کی جگہ گنہ گار کی بے عزتی دل میں بٹھا کر اس پوری دنیا کو جنگ کا میدان بنا دیا۔ اس غلطی کا خیال کر کے ہی میں نے آج قلم اٹھایا ہے کہ آپ کا حق آپ تک پہنچاؤں اور بغیر کسی لالچ کے محبت اور انسانیت کی باتیں آپ کو بتاؤں۔
وہ سچا مالک جو دلوں کے حال جانتا ہے، گواہ ہے کہ ان صفحات کو آپ تک پہنچانے میں انتہائی اخلاص کے ساتھ میں حقیقی ہم دردی کا حق ادا کرنا چاہتا ہوں۔ ان باتوں کو آپ تک نہ پہنچانے کے غم میں کتنی راتوں کی میری نیند اڑی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ایک محبت بھری بات:
یہ بات کہنے کی نہیں، مگر میری تمنا ہے کہ میری ان محبت بھری باتوں کو آپ پیار کی آنکھوں سے دیکھیں اور پڑھیں۔ اس مالک کے بارے میں جو سارے جہان کو چلانے اور بنانے والا ہے، غور کریں، تاکہ میرے دل اور میری روح کو سکون حاصل ہو کہ میں نے اپنے بھائی یا بہن کی امانت اس تک پہنچائی اور اپنے انسان اور بھائی ہونے کا فرض ادا کر دیا۔
اس جہان میں آنے کے بعد ایک انسان کے لیے جس سچائی کو جاننا اور ماننا ضروری ہے اور جو اس کی سب سے بڑی ذمے داری اور فرض ہے، وہ محبت بھری بات میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
فطرت کا سب سے بڑا سچ:
اس جہان، بلکہ فطرت کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ اس جہان، تمام مخلوقات اور پوری کائنات کو بنانے والا، پیدا کرنے والا، اور اس کا نظام چلانے والا صرف اور صرف ایک اکیلا مالک ہے۔ وہ اپنی ذات، صفات اور اختیارات میں اکیلا ہے۔ دنیا کو بنانے، چلانے، مارنے اور جلانے میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ ایک ایسی طاقت ہے، جو ہر جگہ موجود ہے۔ ہر ایک کی سنتا ہے، ہر ایک کو دیکھتا ہے۔ سارے جہان میں ایک پتّہ بھی اس کی اجازت کے بغیر جنبش نہیں کرسکتا۔ ہر انسان کی روح اس کی گواہی دیتی ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو اور چاہے وہ مورتی کا پجاری ہی کیوں نہ ہو، مگر اندر سے وہ یقین یہی رکھتا ہے کہ پیدا کرنے والا، پالنے والا، رب اور اصلی مالک تو صرف وہی ایک ہے۔
انسان کی عقل میں بھی اس کے علاوہ کوئی اور بات نہیں آتی کہ سارے جہان کا مالک ایک ہی ہے۔ اگر کسی اسکول کے دو پرنسپل ہوں تو اسکول نہیں چل سکتا۔ اگر ایک گاؤں کے دو پردھان ہوں تو گاؤں کا نظام تلپٹ ہو جائے گا۔ کسی ایک دیش کے دو بادشاہ نہیں ہو سکتے تو اتنی بڑی کائنات کا انتظام ایک سے زیادہ خدا یا مالکوں کے ذریعے کیسے چل سکتا ہے اور دنیا کی منتظم کئی ہستیاں کس طرح ہو سکتی ہیں؟!
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ایک دلیل:
قرآن جو اللہ کا کلام ہے، اس نے دنیا کو اپنی حقانیت بتانے کے لیے یہ دعوا کیا ہے کہ
''ہم نے جو کچھ اپنے بندے پر (قرآن) اتارا ہے، اس میں اگر تم کو شک ہے (کہ قرآن اس مالک کا سچا کلام نہیں ہے )تو اس جیسی ایک سورت ہی (بنا)لے آؤ اور چاہو تو اس کام کے لیے اللہ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی (مدد کے لیے) بلا لو، اگر تم سچے ہوo '' (ترجمہ القرآن، البقرة ۲:۳۲)
چودہ سو سال سے آج تک دنیا کے قابل ترین ادیب، عالم اور دانش ور تحقیق اور ریسرچ کر کے عاجز ہو چکے اور اپنا سر جھکا چکے ہیں۔ حقیقت میں کوئی بھی اللہ کے اس چیلنج کا جواب نہ دے سکا اور نہ دے سکے گا۔
اس پاک کتاب میں مالک نے ہماری عقل کو اپیل کرنے کے لیے بہت سی دلیلیں دی ہیں۔ ایک مثال یہ ہے کہ :
''اگر زمین اور آسمانوں میں اللہ کے علاوہ مالک و حاکم ہوتے تو ان دونوں میں بڑی خرابی اور فساد مچ جاتا۔'' (ترجمہ القرآن، الانبیاء۱۲:۲۲)
بات صاف ہے۔ اگر ایک کے علاوہ کئی حاکم و مالک ہوتے تو جھگڑا ہوتا۔ ایک کہتا: اب رات ہوگی، دوسرا کہتا: دن ہوگا۔ ایک کہتا: چھے مہینے کا دن ہوگا، دوسرا کہتا: تین مہینے کا ہوگا۔ ایک کہتا: سورج آج پچھم سے نکلے گا، دوسرا کہتا: نہیں، پورب سے نکلے گا۔ اگر دیوی دیوتاؤں کو یہ حق واقعی ہوتا اور وہ اللہ کے کاموں میں شریک بھی ہوتے تو کبھی ایسا ہوتا کہ ایک غلام نے پوجا ارچنا کر کے بارش کے دیوتا سے اپنی بات منوا لی، تو بڑے مالک کی جانب سے آرڈر آتا کہ ابھی بارش نہیں ہوگی، پھر نیچے والے ہڑتال کر دیتے۔ اب لوگ بیٹھے ہیں کہ دن نہیں نکلا، معلوم ہوا کہ سورج دیوتا نے ہڑتال کر رکھی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سچی گواہی:
سچ یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز گواہی دے رہی ہے، یہ منظم طریقے پر چلتا ہوا کائنات کا نظام گواہی دے رہا ہے کہ جہان کا مالک اکیلا اور صرف ایک ہے۔وہ جب چاہے اور جو چاہے کرسکتا ہے۔ اس کو تصورات اور خیالوں میں نہیں باندھا جاسکتا، اس کی تصویر نہیں بنائی جاسکتی۔ اس مالک نے سارے جہان کو انسانوں کے فائدے اور ان کی خدمت کے لیے پیدا کیا ہے۔ سورج انسان کا خدمت گار، ہوا انسان کی خادم، یہ زمین بھی انسان کی خدمت گار ہے۔ آگ، پانی، جان دار اور بے جان دنیا کی ہر شے انسان کی خدمت کے لیے بنائی گئی ہے۔ اور مالک نے انسان کو اپنا بندہ بنا کر اسے اپنی بندگی اور حکم ماننے کے لیے پیدا کیا ہے، تاکہ وہ اس دنیا کے تمام معاملات صحیح طور سے انجام دے اور ساتھ ہی اس کا مالک و معبود اس سے راضی و خوش ہو جائے۔
انصاف کی بات یہ ہے کہ جب پیدا کرنے والا، زندگی دینے والا، موت دینے والا، کھانا، پانی دینے والا اور زندگی کی ہر ضرورت فراہم کرنے والا وہی ایک ہے تو سچے انسان کو اپنی زندگی اور زندگی سے متعلق تمام معاملات اپنے مالک کی مرضی کے مطابق اس کا فرماں بردار ہو کر پورے کرنے چاہییں۔ اگر کوئی انسان اپنی زندگی اس اکیلے مالک کا حکم مانتے ہوئے نہیں گزار رہا ہے تو صحیح معنوں میں وہ انسان کہلانے کے لائق نہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ایک بڑی سچائی:
اس سچے مالک نے اپنی سچی کتاب قرآنِ مجید میں بہت سی سچائیوں میں سے ایک سچائی ہم کو یہ بتائی ہے:
''ہر ایک نفس (جان دار) کو موت کا مزہ چکھنا ہے، پھر تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گےo '' (ترجمہ القرآن، العنکبوت ۹۲:۷۵)
اس آیت کے دو حصے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ ہر ایک جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ یہ ایسی بات ہے کہ ہر مذہب، ہر طبقے اور ہر جگہ کا آدمی اس بات پر یقین رکھتا ہے، بلکہ جو مذہب کو مانتا بھی نہیں، وہ بھی اس سچائی کے آگے سرجھکاتا ہے اور جان ور تک موت کی سچائی کو سمجھتے ہیں۔ چوہا بلّی کو دیکھتے ہی جان بچا کر بھاگتا ہے اور کتا بھی سڑک پر آتی ہوئی کسی گاڑی کو دیکھ کر اپنے بچاؤ کے لیے تیزی سے ہٹ جاتا ہے، اس لیے کہ ان کو سمجھ ہے کہ اگر انھوں نے ایسا نہ کیا تو ان کی موت یقینی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
موت کے بعد:
اس آیت کے دوسرے حصے میں قرآنِ مجید ایک اور بڑی سچائی کی طرف ہمیں متوجہ کرتا ہے۔ اگر وہ انسان کی سمجھ میں آ جائے تو سارے جہان کا ماحول بدل جائے۔ وہ سچائی یہ ہے کہ تم مرنے کے بعد میری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے اور اس دنیا میں جیسا کام کرو گے، ویسا ہی بدلہ پاؤ گے۔
مرنے کے بعد تم مٹی میں مل جاؤ گے یا گل سڑجاؤ گے اور دوبارہ پیدا نہیں کیے جاؤ گے، ایسا نہیں ہے۔ نہ ہی یہ سچ ہے کہ مرنے کے بعد تمہاری روح کسی اور جسم میں داخل ہو جائے گی، یہ نظریہ کسی بھی اعتبار سے انسانی عقل کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترتا۔
پہلی بات یہ ہے کہ آوا گمن کا یہ مفروضہ ویدوں میں موجود نہیں ہے۔ بعد کے پرانوں (دیومالائی کہانیوں) میں اس کا بیان ہے۔ اس نظریے کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ شیطان نے مذہب کے نام پر لوگوں کو اونچ نیچ میں جکڑ دیا۔ مذہب کے نام پر شودروں سے خدمت لینے اور ان کو نیچ اور رذیل سمجھنے والے مذہب کے ٹھیکے داروں سے سماج کے دبے کچلے طبقے کے لوگوں نے جب یہ سوال کیا کہ جب ہمارا پیدا کرنے والا خدا ہے اور اس نے سب انسانوں کو آنکھ، کان، ناک ہر چیز میں برابر بنایا ہے تو آپ لوگ اپنے آپ کو اونچا اور ہمیں نیچا اور رذیل کیوں سمجھتے ہیں؟ اس کا انھوں نے آوا گمن کا سہارا لے کر یہ جواب دیا کہ تمہاری پچھلی زندگی کے برے کاموں نے تمہیں اس جنم میں نیچ اور رذیل بنایا ہے۔
اس نظریے کے مطابق ساری روحیں دوبارہ پیدا ہوتی ہیں۔ اور اپنے کاموں کے حساب سے جسم بدل بدل کر آتی ہیں۔ زیادہ برے کام کرنے والے لوگ جانوروں کے جسموں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان سے زیادہ برے کام کرنے والے نباتات کے قالب میں چلے جاتے ہیں۔ جن کے کام اچھے ہوتے ہیں، وہ آوا گمن کے چکر سے نجات حاصل کر لیتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
آوا گمن کے خلاف تین دلائل:
۱-اس سلسلے میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس زمین پر سب سے پہلے نباتات پیدا ہوئیں، پھر جان ور پیدا ہوئے اور اس کے کروڑوں سال بعد انسان کی پیدائش ہوئی۔ اب جب کہ انسان ابھی اس زمین پر پیدا ہی نہیں ہوا تھا اور کسی انسانی روح نے ابھی برا کام ہی نہیں کیا تھا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس کی روحیں تھیں، جنھوں نے ان گنت بے حدوحساب جان وروں اور پیڑ پودوں کی صورت میں جنم لیا؟
۲-دوسری بات یہ ہے کہ اس نظریے کو مان لینے کے بعد تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ زمین پر جان داروں کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہوتی۔ جو روحیں آواگون سے نجات حاصل کر لیتیں، ان کی تعداد کم ہوتی رہنی چاہیے تھی، جب کہ یہ حقیقت ہمارے سامنے ہے کہ زمین پر انسانوں، جان وروں اور نباتات ہر قسم کے جان داروں کی تعداد میں لگاتار بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔
۳- تیسری بات یہ ہے کہ اس دنیا میں پیدا ہونے والوں اور مرنے والوں کی تعداد میں زمین آسمان کا فرق دکھائی دیتا ہے۔ مرنے والوں کے مقابلے میں پیدا ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ کھرب ہا کھرب ان گنت مچھر پیدا ہو جاتے ہیں، جب کہ مرنے والے اس سے بہت کم ہوتے ہیں۔
کبھی اپنے دیش میں کچھ بچوں کے بارے میں یہ مشہور ہو جاتا ہے کہ وہ اس جگہ کو پہچان رہا ہے، جہاں وہ پچھلے جنم میں رہتا تھا، اپنا پرانا نام بھی بتا رہا ہے۔ اور یہ بھی کہ اس نے دوبارہ جنم لیا ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ ان تمام باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس قسم کی چیزیں مختلف قسم کی نفسیاتی و دماغی امراض یا روحانی و سماجی و ماحولیاتی رد عمل کا نتیجہ ہوتی ہیں، جس کا مناسب انداز میں علاج کرایا جانا چاہیے۔ اصل حقیقت سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ یہ سچائی مرنے کے بعد ہر انسان کے سامنے آ جائے گی کہ انسان مرنے کے بعد اپنے پیدا کرنے والے مالک کے پاس جاتا ہے، او ر اس نے اس جہان میں جیسے اچھے برے کام کیے ہوں گے، اس کے حساب سے قیامت میں سزا یا اچھا بدلہ پائے گا۔
 
Top