• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے سوال اور ہمارے جواب

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
آپ کے سوال اور ہمارے جواب

جواب از شیخ مقبول احمد سلفی

سوال (1): خودکشی کرنے والے کے لئے دعائے رحمت ومغفرت کرسکتے ہیں کہ نہیں ، اگر نہیں کرسکتے تو پھر ان کی تعزیت کی صورت کیا ہوگی ؟
جواب : خود کشی کرنے والا اہل علم کے نزدیک کافر نہیں ہے اس لئے اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی البتہ صاحب علم وتقوی لوگوں کی نصیحت کے لئے اس جنازہ میں شریک نہ ہوں تو بہتر ہے ۔ جب خودکشی کرنے والا کافر نہیں ہے تو اس کے لئے دعائے مغفرت کرنا اورتعزیت کرنا جائز ہے۔
سوال(2): ہمارے یہاں دودھ کی فروخت میں زیادہ فروخت ہونے کے لئے بعض دوکاندارایک پیک پر ایک فری دیتے ہیں کیا اس کے یہاں سے دودھ خرید سکتے ہیں ؟
جواب : دودھ بیچنے والا اگر ایک پیک پر ایک سے زائد بھی فری دے تو اس سے دودھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ، یہ چیز اس کی ہے وہ اپنی مرضی سے جتنے میں چاہے بیچے ۔ ہاں تجارت ومعیشت ہو یا سلوک ومعاملات اسلام کا ایک قاعدہ ہمیشہ یاد رکھیں کسی کو نقصان پہنچانا جائز نہیں ہے ۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ دیا:لا ضررَ ولا ضِرارَ( صحيح ابن ماجه:1910)
ترجمہ: نہ (پہلے پہل) کسی کو نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا جائز ہے، نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا۔
اگر کوئی اپنے دوسرے کسی خاص بھائی کونشانہ بناکرتجارت میں نقصان پہچانے کی غرض سے مہنگا سامان سستا بیچتا ہے تو پھر جائز نہیں ہے البتہ مارکیٹ میں کمپٹیشن کی حد تک کوئی بات نہیں ۔

سوال (3): حمام میں کامل برہنہ ہوکر نہانا کیسا ہے ، یاد رہےکہ آج کل اکثر لوگ ایسا کرتے ہیں ؟
جواب : آدمی کو دوسروں سے ستر چھپانے کا حکم دیا گیا ہےلیکن آدمی کو خود اپنا ستر دیکھنا جائز ہے ۔وہ گھر میں ہو یا حما م میں اگر کوئی دیکھنے والا نہیں تو برہنہ ہوسکتا ہے اور پردے کی جگہ میں برہنہ ہوکر غسل بھی کرسکتا ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ ستر ڈھانپ کر غسل کرے اس میں کامل حیا ہے اور نفسانی خیالات سے بچاؤ بھی ہے۔
سوال (4): ایک عورت کو چالیس سال میں ایک بچہ پیدا ہوا، وہ آپریشن سے ہواجس میں تقریبا تین ساڑھے تین گھنٹے لگے ۔ ڈاکٹر نے کہا کہ آگے کافی کمپلیکیشن ہوسکتے ہیں ، اس کا رحم بھی کمزور ہوگیا ہے تو کیا عورت منصوبہ بندی کرسکتی ہیں ؟۔
جواب : اولاد اللہ کی نعمت ہے بلاضرورت اس نعمت کا سلسلہ منقطع کرنا جائز نہیں لیکن صورت مسئلہ میں منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے ۔اس کے علاوہ بھی عورت کو ایسی کوئی ضرورت پڑجائے جس سے رحم باندھنا یا کاٹنے کی ضرروت ہو تو جائز ہے مثلا رحم میں زخم ہوگیا یا کئی آپریشن کی وجہ سے مزید آپریشن کرنا جان کے لئےپرخطر ہوگیا البتہ شوقیہ ، بلا ضرورت ،بچوں کی کثرت ورزق کے خوف اور کم بچوں کی بہترین تعلیم کے مقصد سے منصوبہ بندی کرنا جائز نہیں ہے ۔
سوال (5): کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذات کے اعتبار سے بشر ہیں اور صفت کے اعتبار سے نور ہیں کیا یہ عقیدہ درست ہے ؟
جواب : نبی ﷺ ذات اور صفات دونوں اعتبار سے بشر ہیں ،آپ ﷺ کی جو صفات ہیں وہ بشری ہیں انہیں صفات کی وجہ سے آپ کو بشر کہا جاتا ہے ۔ اگر صفات نوری ہوں تو آپ کا اطلاق نور پر ہوتا مگر ایسا نہیں ہے ۔ آپ کھاتے ہیں پیتے ہیں ، سوتے اور جاگتے ہیں ، غسل وطہارت کرتے ہیں ، محنت ومشقت کرتے ہیں ، بیویوں کے پاس جاتے ہیں ، تھک جاتے ہیں ، بیمار ہوجاتے ہیں، بازار جاتے ہیں وغیرہ یہ سب اوصاف ہیں اور بشر کے اوصاف ہیں ۔ لہذا آپ ﷺ ذات وصفا ت دونوں اعتبار سے بشر ہیں ۔ یہ بات الگ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو معجزہ کے طور پر بہت سی خصوصیات سے نوازا اور ہرنبی کو اللہ کوئی نہ کوئی معجزہ دیتا ہے جو نبی ہونے کی علامت ہوتی ہے ۔ اس معجزہ کی وجہ سے نبی انسان ہی ہوتے ہیں ۔
سوال (6): جو بچہ ماں کے پیٹ میں فوت ہو جائے اس کے غسل و جنازے کے کیا احکام ہیں؟۔
جواب : اس میں سب کا اتفاق ہے کہ زندہ پیدا ہوکر مرنے والے بچے کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی ، اسی طرح اس بچے کی بھی نماز ادا کی جائے گی جس نے پیدائش کے وقت آواز نکالی ہو۔اختلاف اس میں ہے کہ جو بچہ مرا ہوا پیدا ہوا اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں ؟
اگر بچہ روح پھونکنے کے بعد یعنی چار ماہ کے بعد پیدا ہو تواسے غسل دیا جائے گا، اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اسے قبر میں دفن بھی کیا جائے گا چاہے مرا ہوا پیدا ہو۔تفصیل سے جواب جاننے کے لئے میرے بلاگ پر تشریف لائیں۔

سوال (7): ہم دیکھتے ہیں جمعہ کوجب خطیب ممبر پہ بیٹھ جاتا ہے اور اذان ہونے لگتی ہے تو اس وقت مسجد میں آنے والے لوگ گھڑے ہوجاتے ہیں اور جب اذان ختم ہوجاتی ہے تو نماز پڑھتے ہیں کیا ایسا کرنا صحیح ہے ؟
جواب : بخاری ومسلم میں نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ جب تم مؤذن کی آواز سنو تو اسی طرح جواب دو جس طرح وہ کہہ رہا ہے ۔ اس حدیث کی روشنی میں آدمی کوکام چھوڑ کر اذان کے وقت اس کا جواب دینا چاہئے ۔ اس میں بہت زیادہ اجر بھی ہے ۔ تحیہ المسجد پڑھنا سنت مؤکدہ اور اذان کا جواب دینا مسنون ہے ، خطیب کے ممبر پر بیٹھ جانے اور اذان ہونے کے وقت آدمی کے لئے اذان کا جواب دینا بہتر وافضل ہے ، وہ چاہے تو براہ راست تحیہ المسجد پڑھنا شروع کرسکتا ہے لیکن اذان کا جواب دے کر پڑھے تو دو عملوں کا ثواب ملے گا۔
سوال (8): ماں باپ اپنی زندگی میں ہی اپنی جائداد تقسیم کردینا چاہتے ہیں اس خوف سے کہ بیٹے آپس میں لڑائی نہ کریں یا پھر بیٹیوں کو حصہ نہ ملے کیا اسلام میں اس کی اجازت ہے ؟
جواب : بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان والد کی جائداد کی تقسیم اصل میں ان کی وفات کے بعد ہوگی لیکن کبھی اولاد میں ناگفتہ بہ حالات پیدا ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے میراث کی تقسیم کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہوجاتا ہے ۔ ایسے حالات میں بعض لوگ اپنی زندگی میں ہی اپنی جائداد اولاد میں تقسیم کردیتے ہیں ۔ اس عمل پہ میں یہ کہوں گا کہ شرعا میراث کی تقسیم موت کے بعد ہے لیکن اگر مجبوری کے تحت زندگی میں جائداد تقسیم کرنےکی نوبت آجائے تو تمام اولاد (لڑکے اور لڑکیوں)میں مال برابر برابر تقسیم کریں اس صورت میں میراث کی تقسیم کا قانون نہیں لگے گا بلکہ عطیہ اور ہبہ کا قانون نافذ ہوگا۔
سوال (9): ایک شخص کے والد کا انتقال ہوگیا ہے اس کا عقیقہ نہیں ہوا تھا کیا اس کا بیٹا اپنے وفات یافتہ باپ کی طرف سے عقیقہ کرسکتا ہے ؟
جواب : میت کی طرف سے عقیقہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے ،اگر کسی کا عقیقہ نہیں ہواہو اور وفات پاگیاہوتو اس کی طرف سے اس کےوارث کو عقیقہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
سوال (10):ہنڈی وغیرہ سے پیسہ لگانا کیسا ہے؟
جواب : اگر کسی ملک میں ہنڈی سے پیسہ بھیجنا منع ہو تو یہ کام ملکی آئین کے تحت قانونا جرم ہوگا البتہ شرعا اس کام میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال (11): اگر کسی سے غیبت ہوجائے ،ویسے تو اکثر لوگوں سے غیبت ہوتی رہتی ہے تو اس کا کوئی کفارہ ہے ؟ میں نے سنا ہے کہ اللھم اغفرلنا ولہ پڑھ لے کافی ہے ۔
جواب : غیبت بدترین قسم کا گناہ ہے اور اس کا عذاب بھی سخت ہے اس لئےآدمی کو چاہئےکہ اس گناہ عظیم سے ہمیشہ بچتا رہے لیکن اگر کبھی بھول چوک میں کسی کی غیبت کر بیٹھے اور جس کی غیبت کی گئی اس کو خبر نہیں ہوئی تو استغفار پڑھ لے ۔ ساتھ ہی سچی توبہ کرے لیکن اگر غیبت کی خبر ہوگئی ہے تو اس سے معذرت کرنا ہے اور اگر حق ہے تواسے لوٹانا پڑےگا اور جس کی غیبت کی گئی وہ وفات پاگیا یا مل نہیں رہا اور اسے غیبت کی خبر نہیں ہوئی ہوتو ان صورتوں میں کثرت سے استغفار کرے۔اور اللھم اغفر لنا و لہ سے متعلق مشکوہ اور بیہقی وغیرہ میں روایت ہے مگر ضعیف ہے۔
سوال (12): مرتد کی جائیداد کیسے تقسیم ہوگی یا باپ کی میراث سے مرتد بیٹے کو حصہ ملے گا کہ نہیں ؟
جواب : اگر کوئی مرتد ہوگیا تو باپ کی جائداد سے محروم ہوجائے گا کیونکہ مرتد کے لئے میراث میں حصہ نہیں ہے لیکن اگر کسی مرتد کے پاس خود کی جائداد ہو اوراسے چھوڑ کر مرجائے تو اس کا سارا مال فے ہے اسے بیت المال میں جمع کردیا جائے گا ۔ یہ مسلک امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا ہے۔
سوال (13): کیا ایسا سینٹ یا عطر جس میں الکوحل ملا ہو لگا کر نماز پڑھ سکتے ہیں ؟
جواب : معمولی مقدار میں کپڑے میں الکوحل لگا ہو تو اس میں پڑھی گئی نماز درست ہے ۔ الکوحل شراب ہے اور اسے پینے کی ممانعت ہے لیکن اسے بطور شراب نہ استعمال کرکے اس کی معمولی مقدار سینٹ یا عطر میں استعمال کیا جائے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اس کا اثر تحلیل ہوجائے گا تاہم پرہیز کرنا ہی بہتر ہےکیونکہ اسلام ہمیں شبہات سے بھی بچنے کی تعلیم دیتا ہے ۔
سوال (14): کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ ایک عورت اپنے ساتھ چار مردوں کو جہنم میں لے جائے گی ؟
جواب : ایسی کوئی حدیث رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں ہے کہ ایک عورت اپنے ساتھ چار مردوں کو جہنم میں لے جائے گی ۔ ہرکوئی اپنے عمل کا ذمہ دار ہے اور آخرت میں کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ لہذا لوگوں میں پھیلی یہ بات سراسر جھوٹ ہے ۔ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ عورت کے حجاب سے متعلق چار مردوں سے سوال کیا جائے گا اس کے باپ ، اس کے بھائی ، اس کے شوہر اور اس کے بیٹے سے ۔ یہ بھی کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے ،ہاں اسلام کی دوسری تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں جو عورت جس مرد کی نگرانی میں ہو اسے چاہئے کہ وہ اپنی عورتوں سے پردہ کرائے ، مرد اگر اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کیا ہوگا تو اس ذمہ داری کے متعلق قیامت میں پوچھ ہوگی ۔
سوال (15): اگرامام کے ساتھ کسی کی ظہر کی دو رکعت نماز چھوٹ جائے تو مقتدی کوملنے والی دورکعتیں شروعاتی ہوں گی یا آخر کی ؟
جواب : اس مسئلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے اور راحج یہ معلوم ہوتا ہے کہ مقتدی امام کے ساتھ ملنے والی رکعات کو شروعاتی شمار کرے ۔
سوال (16): ولی کا لڑکی کو جبرا شادی کرادینے کا کیا حکم ہے اور اگر ایسی شادی ہوگئی مگر زوجین میں اتفاق نہیں تو اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : لڑکی کو جبرا شادی کرانا ولی کی طرف سے صریح ظلم ہے ، ایساکرنے والا ظالم ہے بطور خاص جب دنیاوی کوئی مفاد پوشیدہو۔ جہاں تک جبری شادی کا معاملہ ہے تو یہ لڑکی کی مرضی پر موقوف ہے اگرلڑکی شوہر کو قبول کرلے اور اس شادی پر راضی ہوجائے تو ٹھیک ہے ورنہ نکاح فسح کردیا جائے گا۔
سوال(17): کیا حج میں طواف و سعی کے دوران عورت کا مرد کے دوڑنے کے برخلاف آہستہ چلنا کس حدیث سے ثابت ہے، حدیث دیں،اگر نہیں ہے تو بنا دلیل اس عمل کی کیا حیثیت ہے؟
جواب : طواف وسعی میں رمل مسنون ہے اور یہ صرف مردوں کے حق میں ہے اگر کسی مرد سےرمل چھوٹ جائے تو طواف وسعی صحیح ہے ۔ ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں ابن عمررضی اللہ عنہما کے متعلق مذکور ہے کہ وہ صفا ومروہ کی سعی میں عام چال چلتے پوچھا گیا تو انہوں جواب دیا اگر میں دوڑ وں تو میں نے رسول اللہﷺ کودوڑتے بھی دیکھا ہےاور اگر میں عام چال چلوں تو میں نے رسول اللہﷺ کو عام چال چلتے بھی دیکھا ہے اور میں کافی بوڑھاہوں ۔
عورتوں پر طواف وسعی میں رمل نہیں ہے ، یہ متعدد آثار سے ثابت ہے بلکہ اس پر بعض اہل علم سے اجماع ہونا بھی منقول ہے ۔بیہقی میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ، مصنف ابن ابی شیبہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما ، ابن عباس رضی اللہ عنہمااور حسن وعطاء سے مروی ہے کہ عورتوں پر رمل نہیں ۔ امام شافعی ؒ نے کتاب الام میں ذکر کیا ہے کہ عورتوں پر سعی بین الصفا والمروہ میں رمل نہیں اور نہ ہی اضطباع ہے ، امام نووی نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورتوں کے حق میں رمل مشروع نہیں ہے اور حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ رمل مردوں کی خصوصیت ہے عورتوں پر رمل نہیں ہے اور ابن المنذر نے اجماع نقل کیا ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھیں ۔(جامع احکام النساء از مصطفی عدوی)

سوال(18): قرآن میں کہیں روح تو کہیں نفس کا تذکرہ ہے ، ان دونوں کی حقیقت بتائیں ۔
جواب : شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے ذکر کیا کہ روح ہی نفس ہے اور نفس ہی روح ہے ۔
سوال (19): پولیو کا ٹیکہ لگانا کیسا ہے ؟
جواب : پولیو کا ٹیکہ احتیاطی تدابیر کے طور پرہے اس میں شرعی کوئی رکاوٹ نہیں ہے، علماء نے اسے جائز قرار دیا ہے ۔ اگر یہ دوا صحت کے لئے مضر نہیں ہےتو اس کے استعمال میں قطعی کوئی حرج نہیں ہے ۔ وبا پھیلنے والے بہت سارے کاموں میں احتیاطا دوا کا استعمال کیا جاتا ہے مثلا حج کے لئے ٹیکہ لگتا ہے اسی طرح جانوروں کی پرورش والے مختلف فارموں میں احتیاطی دوائیں استعمال ہوتی ہیں ۔اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
سوال (20): آب زمزم پینے کی یہ دعا کیسی ہے ؟
اَللّٰھُمَّ اِنی اَسْئَلُکَ عِلْماً نَافِعاً وَرِزْقاً وَاسِعاً وَشِفاءً مِنْ کُلِّ دَاءٍ)مستدرک حاکم:۱/۴۷۳،حصن:۳۰۴(
ترجمہ:اے اللہ میں تجھ سے نفع بخش علم کا کشادہ رزق کا اورہر بیماری سے شفا کا سوال کرتا ہوں۔
جواب : ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس اثر کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل میں ضعیف قرار دیا ہے۔

سوال (21): کیا لڑکا کی طرف سے ایک بکرا عقیقہ کرسکتے ہیں ؟
جواب : مسنون یہ ہے کہ لڑکا کی طرف سے دو جانور پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ میں ذبح کیا جائے لیکن اگر کسی کو دو جانور کی بروقت طاقت نہیں تو ابھی ایک جانور ذبح کرلے اور جب طاقت ہوتو دوسرا جانور بھی ذبح کرلے ۔ ویسے عقیقہ سنت مؤکدہ ہے جسے عقیقہ دینے کی طاقت ہو وہی عقیقہ کرے اور جسے طاقت نہ ہو اس کے ذمہ عقیقہ نہیں ہے تاہم عقیقہ کی بیحد تاکید آنے کی وجہ سے پیدائش کے دو چار مہینے یا سال دو سال بعد بھی عقیقہ کرسکتے ہیں ۔
سوال (22): عورتوں کا بلاضرورت سیروتفریح کے لئے گھر سے نکلنا کیسا ہے اگر ساتھ میں محرم بھی ہو؟
جواب : عورت کو گھر میں سکونت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہی حکم اس کی عفت وعصمت کی حفاظت کے عین مطابق ہےلیکن ضرورت کے تحت محر م کے ساتھ سفر کرسکتی ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گھر میں زیادہ دن تک ٹھہرنے سے انسان اکتاجاتا ہےاس وجہ سے کبھی کبھار مناسب جگہوں کی سیروتفریح میں عورت کے لئے حرج نہیں ہے جبکہ اس کے ساتھ محرم بھی ہو،رسول اللہ ﷺ کا اپنی بیویوں کے ساتھ سفر پہ نکلنا یا گھر سے نکل کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ لگانا اس بات پر دال ہے۔ ہاں بلا کسی وجہ کے منکرات والی جگہوں پہ آنا جانا یا گھر چھوڑ کے اکثر باہر وقت گزارنا عورت کے لئے قطعی مناسب نہیں ہے خواہ وہ اکیلی ہو یا محرم کے ساتھ ۔
سوال (23): عورت کا تعلیم کے لئے فارن کنٹری جانا اور تعلیم یافتہ عورت کا نوکری کرنا کیسا ہے ؟
جواب : دونوں کام صحیح ہیں بشرطیکہ اسلامی حدود میں ہوں۔ باہری ملک سفر کرنے کے لئے ساتھ میں محرم چاہئے اور اسکول میں تعلیمی نظا م علاحدہ ہونا چاہئے مخلوط نہ ہو اور نوکری کے لئے ضروری ہے کہ حجاب کی آزادی، عزت وآبروکی حفاظت اور اجنبی مردوں سے اختلاط نہ ہو۔
سوال (24): ایک عورت نے ہرماہ تین روزے ایام بیض کے رکھنے کی نیت تھی اور وہ رکھتی بھی رہی لیکن اب بوڑھی ہوگئی نہیں رکھ سکتی تو کیا کرے ؟
جواب : کسی کو بھی ایسی نذر نہیں ماننی چاہئے جس کی ادائیگی مشکل ہو لیکن اگر کسی نے ایسی نذر مان لی جس کی ادائیگی بعد میں مشکل ہوگئی تو اس کا کفارہ ادا کردے نذر پوری ہوجائے گی ۔ صحیح مسلم میں ہے نذر کاکفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے ۔لہذا اس عورت کو قسم کا کفارہ ادا کرنا چاہئے اور وہ یہ ہے دس مسکینوں کو کھانا کھلانا، یا انہیں کپڑا پہنانا، یا ایک غلام آزاد کرنا،ان تینوں میں سے جس کی سہولت ہو کرسکتی ہے اور ان تینوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو تین روزے رکھے ۔
سوال (25): کیا اپنے رشتہ دار کی بیٹی سے اپنے بیٹے کا رشتہ نہ کرنا بھی قطع رحمی یعنی رشتہ توڑنا ہے ؟
جواب : یہ لوگوں کی غلط فہمی ہے کہ اگر اپنے رشتہ داروں میں شادی بیاہ کا پیغام دیا جائے اور دوسری جانب سے پیغام کا انکار ہوجائے تو اسے دشمنی پرمحمول کرتے ہیں اور آپس میں قطع تعلق کرلیتے ہیں ۔ شادی کا پیغام قبول نہ کرنا ہرگزقطع رحمی نہیں ہے اس لئے ہمیں اپنے سماج سے اس کج فکری کو دور کرنا چاہئے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
سوال (8): ماں باپ اپنی زندگی میں ہی اپنی جائداد تقسیم کردینا چاہتے ہیں اس خوف سے کہ بیٹے آپس میں لڑائی نہ کریں یا پھر بیٹیوں کو حصہ نہ ملے کیا اسلام میں اس کی اجازت ہے ؟
جواب : بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان والد کی جائداد کی تقسیم اصل میں ان کی وفات کے بعد ہوگی لیکن کبھی اولاد میں ناگفتہ بہ حالات پیدا ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے میراث کی تقسیم کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہوجاتا ہے ۔ ایسے حالات میں بعض لوگ اپنی زندگی میں ہی اپنی جائداد اولاد میں تقسیم کردیتے ہیں ۔ اس عمل پہ میں یہ کہوں گا کہ شرعا میراث کی تقسیم موت کے بعد ہے لیکن
اگر مجبوری کے تحت زندگی میں جائداد تقسیم کرنےکی نوبت آجائے تو تمام اولاد (لڑکے اور لڑکیوں)میں مال برابر برابر تقسیم کریں اس صورت میں میراث کی تقسیم کا قانون نہیں لگے گا بلکہ عطیہ اور ہبہ کا قانون نافذ ہوگا
۔


السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اس جواب پر کچھ ذیلی سوالات ہیں۔ امید ہے کہ فرصت ملنے پر جواب عنایت فرمائیں گے۔

۱۔ اگر کوئی مجبوری نہ تو کیا تب بھی جائیداد اپنی زندگی میں تقسیم کی جاسکتی ہے۔ یا جائیداد کا بیشتر حصہ اولاد میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

۲۔ جائیداد اگر کیش نہیں بلکہ عمارات کی شکل میں ہو تو صد فیصد برابری ممکن نہیں ہوتی۔ کیا سب کو مطمئن کرتے ہوئے ان کی ضرورتوں کے مطابق انہیں الگ الگ مکانات یا دکان وغیرہ ہبہ کیا جاسکتا ہے۔

۳۔ اگر کسی ایک اولاد کو دینی تعلیم کے لئے وقف کیا جائے (اور بقیہ کی دنیوی تعلیم پر اچھا خاصا خرچ ہوا ہو) تو دینی طالب علم کو (دنیوی تعلیمی اخراجات کے بدلہ میں) اضافی پراپرٹی دی جاسکتی ہے تاکہ اس سے اس کے روزگار کا انتطام ہو سکے۔ اور یہ طالب علم دینی تعلیم کو روزگار کے لئے نہیں بلکہ فی سبیل اللہ استعمال کرسکے۔ کیا ایسا کرنے کے لئے بقیہ اولاد کی رضامندی ضروری ہے؟

۴۔ اگر تمام اولاد اور بیوی کو بھی تقریبا یکساں پراپرٹی دیدی ہو تو کیا اپنے پاس موجود بقیہ کل جائیداد کو فی سبیل اللہ اس طرح وقف کرسکتا ہے کہ اپنی زندگی میں تو خود استفادہ کرے اور بعد از موت یہ عمارت یا اس کی آمدنی ٹرسٹ کی صورت میں صرف ویلفیئر یا دینی کام کے لئے وقف ہوجائے اور ورثاٗ اس پر حق نہ جماسکیں۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
۱۔ اگر کوئی مجبوری نہ تو کیا تب بھی جائیداد اپنی زندگی میں تقسیم کی جاسکتی ہے۔ یا جائیداد کا بیشتر حصہ اولاد میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
اگر کوئی مجبوری نہیں تو جائداد نہیں تقسیم کرنی چاہئے۔
۲۔ جائیداد اگر کیش نہیں بلکہ عمارات کی شکل میں ہو تو صد فیصد برابری ممکن نہیں ہوتی۔ کیا سب کو مطمئن کرتے ہوئے ان کی ضرورتوں کے مطابق انہیں الگ الگ مکانات یا دکان وغیرہ ہبہ کیا جاسکتا ہے۔
ویسے تو برابر برابر ہی جائداد تقسیم کرنی چاہئے لیکن اگر اس کا امکان نہیں تو امکان کی حد تک برابر تقسیم کرے، ضرورت کے تئیں معمولی کمی بیشی میں میرے نزدیک حرج نہیں ہے۔
۳۔ اگر کسی ایک اولاد کو دینی تعلیم کے لئے وقف کیا جائے (اور بقیہ کی دنیوی تعلیم پر اچھا خاصا خرچ ہوا ہو) تو دینی طالب علم کو (دنیوی تعلیمی اخراجات کے بدلہ میں) اضافی پراپرٹی دی جاسکتی ہے تاکہ اس سے اس کے روزگار کا انتطام ہو سکے۔ اور یہ طالب علم دینی تعلیم کو روزگار کے لئے نہیں بلکہ فی سبیل اللہ استعمال کرسکے۔ کیا ایسا کرنے کے لئے بقیہ اولاد کی رضامندی ضروری ہے؟
جس نے عصری تعلیم حاصل کی اسے اچھی نوکری ملے گی اور جس نے دینی تعلیم حاصل کی اس کی معیشت بہرحال کمزور ہوسکتی ہے،صورت مذکورہ کو مدنظر رکھتے ہوئے حست ضرورت جائداد کی تقسیم کرنی چاہئےتاکہ بعد والی سب کی زندگی بہتر ہو۔اس میں اولاد کی رضامندی ضروری نہیں ہے کیونکہ مال باپ کا ہے تاہم مطمئن کرلے تو بہتر ہے ۔
۴۔ اگر تمام اولاد اور بیوی کو بھی تقریبا یکساں پراپرٹی دیدی ہو تو کیا اپنے پاس موجود بقیہ کل جائیداد کو فی سبیل اللہ اس طرح وقف کرسکتا ہے کہ اپنی زندگی میں تو خود استفادہ کرے اور بعد از موت یہ عمارت یا اس کی آمدنی ٹرسٹ کی صورت میں صرف ویلفیئر یا دینی کام کے لئے وقف ہوجائے اور ورثاٗ اس پر حق نہ جماسکیں۔
آدمی کو اپنے تہائی مال تک کی وصیت کا حق ہے لہذا اس مال کو جس طرح چاہے کار خیر میں لگائے کوئی حرج نہیں ہے جو صورت آپ نے ذکر کی وہ بھی اختیار کی جاسکتی ہے بشرطیکہ اس کی مالیت تہائی مال سے متجاوز نہ ہو۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۱۔ اگر کوئی مجبوری نہ تو کیا تب بھی جائیداد اپنی زندگی میں تقسیم کی جاسکتی ہے۔ یا جائیداد کا بیشتر حصہ اولاد میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

۲۔ جائیداد اگر کیش نہیں بلکہ عمارات کی شکل میں ہو تو صد فیصد برابری ممکن نہیں ہوتی۔ کیا سب کو مطمئن کرتے ہوئے ان کی ضرورتوں کے مطابق انہیں الگ الگ مکانات یا دکان وغیرہ ہبہ کیا جاسکتا ہے۔
دو مہینہ پہلے پاکستان جانا ہوا تو اس پر جاننے کا موقع ملا۔

زندگی میں بانٹا کیش اس پر تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔

پراپرٹی گھر یا پلاٹ کی شکل میں اگر بانٹ دی تو وفات کے بعد کوئی بھی اس پر کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔

وفات کے بعد پراپرٹی حکومت کے قانون کے مطابق آٹومیٹک وراثت میں آ جاتی ہے۔ اگر کسی کے ہاتھ میں کوئی پلاٹ کا کاغذ لگ جائے تو وہ اسے اپنے نام نہیں کروا سکتا۔

بینکوں میں پڑی رقم سیل ہو جاتی ہے جو صرف اہلیہ کے نام پر ٹرانسفر ہو سکتی ہے یا اہلیہ کا انتقال ہوا تو وہ خاوند کے نام پر ٹرانسفر ہو سکتی ہے، اگر اہلیہ کے نام پر پراپرٹی ہے تو وہ خاوند کے نام پر ٹرانسفر نہیں ہو گی وہ وراثت میں چلی جائے گی، اولاد پر کورٹ کی تقسم کے مطابق سب کے اکاؤنٹس میں رقم ٹرانسفر ہوتی ہے، خیال رہے کیس میں ادا نہیں ہوتی۔ اور پراپرٹی چاہیں تو ماں کے نام والی اسی وقت وراثت سے تقسم کروا سکتے ہیں یا چاہیں تو قیمت لگوا کر اسے بیچ دیں اور کیش سب کو وہیں بانٹ دیا جاتا ہے۔

والسلام
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

پراپرٹی گھر یا پلاٹ کی شکل میں اگر بانٹ دی تو وفات کے بعد کوئی بھی اس پر کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔


والسلام
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ جب تک میں زندہ ہوں، قانونا" اور شرعا" سب کچھ میرا ہے۔ میں اپنی تمام جائیداد قانونا کسی کو بھی گفٹ کرسکتا ہوں۔ قانون مجھے ایسا کرنے سے کیسے روک سکتا ہے اور میرے مرنے کے بعد کوئی بھی وارث کورٹ میں جا تو سکتا ہے، مگر عدالت میری گفٹ ڈیڈ کو کینسل نہیں کرسکتی۔

ہاں اگر میں اولاد کا حق مارکر کسی کو سب کچھ دے دوں تو شرعا" یہ ظلم ہوگا اور اس کی جوابدہی مجھے کرنی ہوگی۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ



دو مہینہ پہلے پاکستان جانا ہوا تو اس پر جاننے کا موقع ملا۔

زندگی میں بانٹا کیش اس پر تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔

پراپرٹی گھر یا پلاٹ کی شکل میں اگر بانٹ دی تو وفات کے بعد کوئی بھی اس پر کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔

وفات کے بعد پراپرٹی حکومت کے قانون کے مطابق آٹومیٹک وراثت میں آ جاتی ہے۔ اگر کسی کے ہاتھ میں کوئی پلاٹ کا کاغذ لگ جائے تو وہ اسے اپنے نام نہیں کروا سکتا۔

بینکوں میں پڑی رقم سیل ہو جاتی ہے جو صرف اہلیہ کے نام پر ٹرانسفر ہو سکتی ہے یا اہلیہ کا انتقال ہوا تو وہ خاوند کے نام پر ٹرانسفر ہو سکتی ہے، اگر اہلیہ کے نام پر پراپرٹی ہے تو وہ خاوند کے نام پر ٹرانسفر نہیں ہو گی وہ وراثت میں چلی جائے گی، اولاد پر کورٹ کی تقسم کے مطابق سب کے اکاؤنٹس میں رقم ٹرانسفر ہوتی ہے، خیال رہے کیس میں ادا نہیں ہوتی۔ اور پراپرٹی چاہیں تو ماں کے نام والی اسی وقت وراثت سے تقسم کروا سکتے ہیں یا چاہیں تو قیمت لگوا کر اسے بیچ دیں اور کیش سب کو وہیں بانٹ دیا جاتا ہے۔

والسلام
اگر حکومتی نظام ایسا ہے تو پھریہ اسلامی قانون ہبہ سے متصادم ہے ملک کے علماء کو اس مسئلہ کے حل کے لئے غوروفکر کرنا چاہئے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ جب تک میں زندہ ہوں، قانونا" اور شرعا" سب کچھ میرا ہے۔ میں اپنی تمام جائیداد قانونا کسی کو بھی گفٹ کرسکتا ہوں۔ قانون مجھے ایسا کرنے سے کیسے روک سکتا ہے اور میرے مرنے کے بعد کوئی بھی وارث کورٹ میں جا تو سکتا ہے، مگر عدالت میری گفٹ ڈیڈ کو کینسل نہیں کرسکتی۔

ہاں اگر میں اولاد کا حق مارکر کسی کو سب کچھ دے دوں تو شرعا" یہ ظلم ہوگا اور اس کی جوابدہی مجھے کرنی ہوگی۔
میری رائے جو حالیہ واقعہ سے سامنے آئی وہ ہے اگر آپ چاہیں تو کسی وکیل سے مشورہ کر سکتے ہیں۔

مثال سے! گفٹ کرنا جیسے بیس بیس گز کے 4 پلاٹ باپ یا ماں کے نام ہیں اور وہ 4 بچوں کے نام گفٹ کر دئے۔ یا کسی کو پلاٹ گفٹ کیا ور کسی کو بنا بنایا گھر یا فلیٹ یا دکان، یہ وراثت میں آئیں گے۔

یہ پلاٹ بچوں کے نام سے خریدے جائیں یعنی ان کے نام پر رجسٹرڈ ہوں یا اپنے نام ہیں انہیں ان کے نام ٹرانسفر کریں تو تقسیم تو 20 گز کے حساب سے برابر کی ہے مگر اس پر حالیہ قیمت سب کی مختلف آ رہی ہے، کسی پلاٹ کی قیمت کم اور کسی پلاٹ کی قیمت زیادہ آ رہی ہے۔

اولاد والدین کی زندگی میں تو بہتر مگر بعد میں ان پر پڑے بوجھ کی وجہ سے اگر ایک بھی اس پر ناخوش ہے تو وہ کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے اس پر کچھ گراؤنڈز ہیں اس کا سہارا لے کر۔

آپ نے برابر کی تقسیم کی مگر بعد میں حالات کی پیش نظر اگر کوئی اس تقسیم سے متفق نہیں تو اس صورت میں، ورنہ سب پہلے جیسا چلتا رہے گا جو تقسیم آپنے کی ہو گی۔

والسلام
 
Top