• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
عقیقہ کرنا کیسا ہے؟
س: کیا عقیقہ کرنا سنت سے ثابت ہے؟

ج: عقیقہ مشہور لفظ ہے۔ نوزائیدہ بچے کے ساتویں دن بال مونڈتے وقت جو جانور ذبح کیا جاتا ہے اسے عقیقہ کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیقہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ سیدہ اُم کرز رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے:
''لڑکے کی طرف سے دو بکریاں عقیقہ میں ذبح کرو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری نر ہو یا مادہ کوئی حرج نہیں۔''

ابو دائود اور ترمذی نے اس کو روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے کہا یہ حدیث صحیح ہے۔ عقیقہ میں قربانی کی کوئی شرط نہیں یعنی اس میں دوندا (دو دانت والا ) ہونا ضروری نہیں۔ (مشکوة۳۶۲)

ایک حدیث میں ہے کہ ہر بچہ اپنے عقیقہ میں گروی ہے ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے یعنی اس کا عقیقہ کیا جائے۔ اس کے سر کے بال منڈوائے جائیں۔ اس حدیث کو احمد، ترمذی، ابو دائود، نسائی نے روایت کیا ہے۔ (مشکوة ص۳۶۲) اور اس کا نام بھی رکھا جائے اور ایک حدیث میں ہے کہ اس کے بال چاندی سے تول کر چاندی صدقہ کی جائے (مشکوة۳۶۲) یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اس حدیث کی سند اگرچہ غیر صحیح مگر ابنِ سنی نے صحیح سند کے ساتھ یہی مسئلہ ذکر کیا ہے۔ نسائی میں بھی سند صحیح سے وارد ہے۔ یہ کہنا کہ لڑکی کی طرف سے اگر عقیقہ نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ ایسا کوئی مسئلہ نہیں بلکہ لڑکی کی طرف سے بھی عقیقہ کیا جائے۔ آپ نے لکھا ہے کہ اگر عقیقہ کے جانور کی قیمت کے واسطے جہاد فنڈ میں بھیج دی جائے تو کیا یہ عمل عقیقہ کے قائم مقام ہو جائے گا۔ جہاد کے لئے صدقہ کرنا بہت افضل ہے۔ مگر عقیقہ کا حکم عقیقہ کرنے سے ہی ادا ہو گا کسی اور فنڈ میں خرچ کرنے سے عقیقہ نہیں ہو گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ذکر اور شہادت میں فرق
س: کیا لاّ الٰہ اللّٰہ محمّد رسول اللّٰہ کا وظیفہ یا ذکر کرنا شرعاً جائز ہے یا ناجائز؟ قرآن و سنت کی رُو سے وضاحت فرمائیں۔

ج: کلمہ طیبہ پڑھنے کے دو موقع ہیں ایک بطورِ اقرار و شہادت اور دوسرا موقع بطورِ ذکر و عبادت اوّل الذکر موقع پر دونوں اجزاء کو ملا کر پڑھنا لازمی و ضروری ہے کیونکہ ان اجزاء کی شہادت کے بغیر انسان مسلمان نہیں ہو سکتااسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جیسا کہ حدیث جبرائیل میں ہے: ''اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔'' (متفق علیہ)

لیکن موقع ذکرو عبادت میں فقط لاّ الٰہ اللّٰہ ہی ہے کیونکہ عبادت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو عبد ہیں معبود نہیں ہیں جیسا کہ عبدہ و رسولہ سے عیاں ہے۔ اور کتب احادیث میں بھی ایسے موقع پر صرف لاّ الٰہ اللّٰہ ہی آیا ہے جیسا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ:
''موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے میرے رب مجھے تو کوئی ایسی چیز سکھا جس کے ذریعے میں تیرا ذکر کروں اور تجھے پکاروں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تُو ( لاّ الٰہ اللّٰہ )کہاکر، موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے میرے رب لاّ الٰہ اللّٰہ تو تیرے تمام بندے کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے موسیٰ ، اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں اور ان کے باشندے بجز میرے ایک پلڑے میں ہوں اور لاّ الٰہ اللّٰہ ایک پلڑے میں تو لاّ الٰہ اللّٰہ اِن پر غالب ہو جائے گا۔'' (رواہ النسائی وابن حبان فی صحیحہ والحاکم ، الترہیب۴۵۸/۲، وصححہ الرمذی وحسّنہ)

اس سے معلوم ہوا کہ لاّ الٰہ اللّٰہ ذکراور دُعا ہے جس پر حدیث کے الفاظ (اذکرک بہ و ادعوک بہ) دلالت کرتے ہیں اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ :
''سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے افضل ذکر لاّ الٰہ اللّٰہ ہے اور سب سے افضل دُعا الحمدللہ ہے۔'' (رواہ ابنِ ماجہ والنسائی وابنِ حبان فی صحیحہ والحاکم و الترغیب والترہیب۴۱۵/۲)
اسی طرح کی اور بھی بے شمار احادیث موجود ہیں جن میں ذکر لاّ الٰہ اللّٰہ کو کہا گیا ہے اور ان میں محمّد رسول اللّٰہ کا لفظ نہیں ہے کیونکہ ذکر اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور عبادت اس کے علاوہ کسی کی جائز نہیں ہے۔ ہاں اقرار و شہادت کے وقت محمّد رسول اللّٰہ کہنا ضروری اور لازمی ہے ورنہ اس کے بغیر ایمان قبول نہیں ہو گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
دائیں ہاتھ کی انگلیوں پر تسبیح شمار کرنا
س: تسبیح گننے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ قرآن و سنت کی رُو سے وضاحت کیجئے۔

ج: تسبیح شمار کرنے کا جو مروج طریقہ ہے کہ لوگ کھجور کی گٹھلیوں پر یا کنکریوں پر یا دونوں ہاتھوں پر شمار کرتے ہیں اس کا ذکر کسی صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے۔ انگلیوں پر شمار کرنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے:
''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو حکم دیا کہ وہ ہاتھ کی انگلیوں سے تسبیح شمار کریں بے شک ان انگلیوں سے سوال کیا جائے گا اور یہ بلائی جائیں گی۔''
یہ روایت ابو دائود ، مسند احمد اور مستدرک میں موجود ہے۔ امام حاکم اور امام ذہبی رحمۃ اللہ علیھا نے اسے صحیح کہا ہے یہ حدیث تو مطلق اُنگلیوں پر شمار کرنے کے متعلق تھی اب وہ حدیث ملاحظہ فرمائیں جس میں دائیں ہاتھ کی صراحت موجود ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیںکہ:
''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ سے تسبیح گنتے تھے۔''
(ابو دائود۳۳۵/۱، الاذکار للنووی۲۳، نتائج الافکار۱۸/۱، عمل الیوم واللیلہ۸۱۹)
اس حدیث سے معلوم ہو ا کہ تسبیح شمار کرتے وقت سنت کے مطابق دائیں ہاتھ پر شمار کرنی چاہیے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مکھی کا کھانے میں گرنا
س: اگر کھانے میں مکھی گر جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

ج: اگر کسی آدمی کے کھانے میں مکھی گر کر مر جائے تو وہ اسے پورا ڈبو کر نکال دے اور کھانا کھا لے۔ اس کے کھانے میں کوئی قباحت نہیں ہے اور اس پروہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جب کسی آدمی کے مشروب میں مکھی گر جائے تو وہ اسے ڈبو کر نکال دے کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور دوسرے میں شفاء ہوتی ہے۔'' (بخاری)
لہٰذا اگر کسی آدمی کے کھانے یا پینے والی اشیاء میں مکھی گر جائے تو اس کی مثل اور کوئی چیز گرے تو اس کو نکال کر استعمال لانے میں کوئی حرج نہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
لہسن کھانا کیسا ہے؟
س: بخاری شریف میں ہے:
''کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن پالتو گدھوں کے گوشت اور لہسن کھانے سے منع کر دیا۔ '' (بخاری)
اس حدیث کے مطابق میں نے لہسن تقریباً آدھا ایکڑ کاشت کیا تھا لیکن جب یہ مسئلہ پڑھا تو سب ضائع کر دیا۔ مگر علماء کہتے ہیں کہ کچا لہسن کھانا مکروہ ہے میری سمجھ کے موافق تو دونوں ایک ہی زمرے میں آتے ہیں۔ کیونکہ کچے لہسن والے الفاظ حدیث میں موجود نہیں، اگر اس بارے میں کوئی واضح ثبوت ہے تو آگاہ کریں۔ نہایت مشکور ہوں گا۔


ج: حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مہمان بنے ( ہجرت کے وقت) تو اپنا بچا ہوا کھانا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو بھیج دیتے۔ ایک مرتبہ سارا کھانا واپس کر دیا اور اس میںسے کچھ بھی نہ کھایا۔۔۔ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے ''اس میں لہسن ہے''۔ تو ابو ایوب فوراً بولے کہ ''اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ حرام ہے؟'' تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''نہیں حرام نہیں بلکہ میں اس کی بو کی وجہ سے اسے ناپسند کرتا ہوں۔'' (صحیح سنن الرمذی للالبانی ج۲، ص۱۶۰کتاب الا طعمہ، باب ماجاء فی الرخصہ فی اکل الثوم مطبوخا)

دوسری روایت میں یہ لفظ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو کہا:
''کہ تم اسے کھالو میں تم جیسا نہیں ہوں (یعنی میرے پاس جبریل وحی دینے کے لئے آتا ہے ) میں ڈرتا ہوں کہ میں اپنے ساتھی کو تکلیف نہ دے بیٹھوں۔''(قال الالبانی حسن)

ان احادیث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام نہیں قرار دیا بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کھانے کے لئے بھی کہا۔ اور اپنے لئے صرف اس لئے نا پسند کیا کہ اس میں بو ہے اور امت کو بھی روک دیا کہ کچا لہسن کھا کر مسجد میں نہ آئیں ، کیونکہ فرشتے بھی با جماعت نماز کے لئے حاضر ہوتے ہیں تو انہیں ان کی بو سے تکلیف ہوتی ہے۔ یا نماز کے وقت سے اتنی دیر پہلے کھا لے کہ نماز کے وقت تک اس کی بو جاتی رہے جیسا کہ ابو دائود کی حدیث میں ہے:
''کہ جو اس درخت (لہسن) سے کھالے وہ اس وقت تک ہمارے پاس نہ آئے جب تک اس کی بو ختم نہیں ہو جاتی۔'' (صحیح سنن ابی دائود کتاب الاطعمہ باب فی اکل الثوم)

دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
''کہ جوشخص ان دونوں (لہسن اور پیاز ) کو کھالے وہ ہماری مسجد کے قریب تک نہ آئے اور کہا اگر تم اس کو ضروری کھانا چاہتے ہو تو پکا کر ان کی بو کو ختم کر لو۔'' (قال الالبانی صحیح)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بھی روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ''کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لہسن کھانے سے منع کر دیا سوائے پکے ہوئے کے۔''

ان سب احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ بخاری شریف کی حدیث میں جو ممانعت ہے، وہ اس کے حرام ہونے کی وجہ سے نہیں ، صرف بو کی وجہ سے ہے اور اگر بو پکا کر ختم ہو جائے تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ اور عام آدمی ایسے وقت میں استعمال کر سکتا ہے کہ نماز کا وقت ابھی دور ہو اور نماز کے وقت تک اس کی بو ختم ہو سکتی ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
اہل کتاب کے ساتھ کھانا پینا
س: کیا مسلمان عیسائی سے کوئی چیز لے کر یا عیسائی کے ساتھ بیٹھ کر کوئی چیز کھا سکتا ہے؟

ج: اہل کتاب ، عیسائیوں اور یہودیوں سے کوئی چیز لے کر کھانا اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''اہل کتاب کا کھانا (ذبیحہ ) تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے۔''(المائدہ :۵)

اسی آیت میں مزید فرمایا کہ اہل کتاب کی پاک دامن عورتوں سے نکاح تمہارے لئے حلال ہے۔ تو ظاہر ہے بیوی کھانا بھی پکائے گی اور اس کے ساتھ مل کر کھانا کھایا بھی جائے گا۔ البتہ سنن دائود (حدیث۳۸۳۹) میں صحیح سند کے ساتھ ابو ثعلبہ خشنی سے روایت ہے کہ ''میں نے عرض کی: ہم اہل کتاب کی ہمسائیگی میں رہتے ہیںاور وہ اپنی ہانڈیوں میں خنزیر پکاتے اوراپنے برتنوں میں شراب پیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہیں ان کے علاوہ برتن مل جائیں تو انہی میں کھائو اور اگر ان کے علاوہ نہ ملیں تو ان کو پانی سے دھو لو اور ان میں کھائو۔''(ارواء الغلیل ص۷۵، ج۱)

صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مشرکہ عورت کا مشکیزہ لے کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرمایا کہ خود بھی پیو اور جانوروں کو بھی پلائو۔'' (صفحہ۴۹، ج۱)

اس حدیث پر حافظ ابنِ حجر فرماتے ہیں : اس حدیث سے استدلال کیا جاسکتا ہے کہ مشرکین کے برتنوں میں اگر نجاست نہ ہو اور اس میں یقین ہو تو ان کا استعمال جائز ہے ۔ خلاصہ یہ کہ کسی بھی غیر مسلم سے کھانے ک چیز لے کر کھانا (جس میں نجاست نہ ہونے کا یقین ہو) جائز ہے ۔ البتہ ذبیحہ صرف اہل کتاب کا جائز ہے۔ مشرکین کا ذبیحہ جائز نہیں۔ کفار سے لی ہوئی عام اشیاء اگر ان کے پاک ہونے کا یقین نہ ہو تو وہ کھانا جائز نہیں۔ وہ برتن ضرورت کے بغیر دھونے کے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں۔ واللہ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کھانا کھاتے وقت بسم اللہ یا بسم اللہ الرحمن الرحیم؟
س: کیا کھانا وغیرہ کھاتے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم مکمل پڑھی جائے یا صرف بسم اللہ کہا جائے؟ صحیح احادیث کی رو سے وضاحت فرمائیں۔

ج: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ کی رو سے کھانا کھاتے وقت یا وضو وغیرہ کرتے وقت صرف بسم اللہ ہی پڑھنا ثابت ہے۔ مکمل بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا آپ کے قول و عمل سے ثابت نہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق صرف دو مقامات پر بسم اللہ الرحمن الرحیم مکمل پڑھنا ثابت ہے۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں:
''عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، اے لڑکے اللہ کا نام لو اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھائو۔''(بخاری۴۹۲/۳، مسلم۱۰۹، مسند احمد (۱۵۸۹۶)۶۰۶ طبع قدیم ص۲۶/۴)
اس حدیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن ابی سلمہ کو جو فرمایا (بسم اللہ ) ''اللہ کا نام لو۔''
اس اجمال کی تفصیل طبرانی کبیر ١٤٩ اور کتاب الدعا للطبرانی (۸۸۶) کی روایت سے معلوم ہو جاتی ہے۔ طبرانی میں ہے ''اے لڑکے جب تو کھانے لگے تو ''بسم اللہ '' کہہ۔ بقول علامہ البانی حفظہ اللہ ارواء الغلیل ٣١٧ اسنادہ صحیح علی شرط الشیخیں'' اس حدیث کی سند شیخیں کی شرط پر صحیح ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں:
''جو بات مطلق بیان ہوئی تھی ، دیگر روایات میں اس کی وضاحت موجود ہے (اور اس میں یہ بھی ہے کہ )کھاتے وقت ''بسم اللہ '' مختصر پڑھنا ہی مسنون ہے۔ اس کی تائید حدیث نمبر ۱۹۶۵سے بھی ہوتی ہے اس بات کو اچھی طرح یاد کر لو کیونکہ یہ ان افراد کے نزدیک بڑی اہمیت ک حامل ہے جو سنت کی تعظیم کرتے ہین اور اس پر کسی قسم کا اضافہ و زیادتی نہیں سمجھتے۔''
وہ حدیث جس کی طرف علامہ البانی حفظہ نے اشارہ کیا ہے درج ذیل ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مرفوعاً مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھانے لگے تو اسے اللہ کا ذکر کرنا چاہیے اگر کھانے کی ابتداء میں اللہ کا ذکر کرنا بھول جائے تو ''بسم اللّٰہ اوّلہ واٰخرہ''بھی وارد ہے۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ کھانے کے وقت صرف بسم اللہ پڑھا جائے کیونکہ اس کے ساتھ الرحمن الرحیم کا اضافہ مسنون ہوتا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام اس مقام پر ضرور سکھاتے کیونکہ یہ مقام تعلیم تھا اور اصولیین نے یہ قاعدہ ذکر کیا ہے۔
''ضرورت کے وقت بیان (تفصیل ) سے تاخیر جائز نہیں۔''
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (تو ضّووابسم اللہ) ''بسم اللہ کہتے ہوئے وضو کرو۔'' (ابنِ خزیمہ۴۷/۱ نسائی) لہٰذا کھانا کھاتے وقت اور وجوء کرتے وقت ہمیں صرف بسم اللہ پڑھنا چاہئے۔ یہی مسنون ہے۔ اس میں اضافہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے:
''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب میں تم سے کوئی حدیث بیان کروں تو اس پر ہر گز اضافہ نہ کرنا۔'' (مسند احمد (۱۹۲۱۸)۲۳۸/۵، قدیم ص۱۱/۵)
وہ دو مقامات جہاں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم مکمل پڑھنی چاہیے یہ ہیں:
۱) قر آن مجید کی تلاوت کے وقت، جب تلاوت کی ابتداء کسی سورت سے کی جائے تو تعوذ کے بعد بسم اللہ الرحمن الرحیم مکمل پڑھی جائے۔
۲) اسی طرح جب خطوط و رسائل لکھے جائیں تو مکمل بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنی چاہیے جیسا کہ قرآن مجید میں سورة نمل آیت ٣٠ میں سلیمان علیہ السلام کا ملکہ بلقیس کے نام خط میں مکمل بسم اللہ الرحمن الرحیم درج ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قل کے نام جو خط لکھا اس میں بھی مکمل بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا۔ (ملاحظہ ہو صحیح بخاری کتاب الوحی اور کتاب الشروط باب الشروط فی الجھاد)
اس مسئلہ کی مکمل تفصیل ہمارے بھائی حافظ عبدالرؤف عبدالحنان نے اپنی کتاب ''مسنون تسمیہ '' میں بڑے احسن انداز سے ذکر کی ہے۔ مزید تفصیل کا طالب اس کتاب کا مطالعہ کرے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کیا آدمی روزانہ بالوں کو کنگھی کر سکتا ہے؟
س: روزانہ کنگھی کرنا منع ہے ، ناپسندیدہ ہے یا روزانہ کر سکتے ہیں؟ دلیل مع حوالہ لکھیں کچھ ساتھیوں کو حوالے دکھانے ہیں۔

ج: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالوں کو سنوار کر رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جس کے بال ہوں وہ ان کی عزت کرے۔'' (ابو دائود ، کتاب الترجل)

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ایک پراگندہ سر آدمی دیکھا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے تو فرمایا:
''کیا اسے کوئی چیز نہیں ملتی تھی جس سے اپنے ساکن کر لے (یعنی بکھرنے سے روک لے )۔''

ایک اور آدمی دیکھا جس نے میلے کپڑے پہنے ہوئے تھے تو فرمایا: ''کیا اسے پانی نہیں ملتا تھا کہ اس سے اپنے کپڑے دھو لیتا۔'' (ابودائود کتاب اللباس باب فی غسل الثوب)

حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث بخاری مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور ذہبی نے بھی ان کی موافقت فرمائی ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ کپڑے صاف ستھرے رکھنے چاہیے اور بال بھی سنوار کر رکھنے چاہیے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو بھی پسند نہیں فرمایا کہ آدمی زیب و زینت اور بنائو سنگھار میں لگا رہے اور ہر وقت بالوں کی آرائش میں ہی الجھا رہے بلکہ آپ نے روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ عبداللہ بن شفیق رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ مصر کے عمال (امیر ) تھے ان کے پاس ان کا ایک ساتھی آیا تو ان کے بال بکھرے ہوئے ہیں۔ پوچھا کیا بات ہے کہ میں آپ کے بال بکھرے ہوئے دیکھ رہا ہوں حالانکہ آپ امیر ہیں تو انہوں نے جواب دیا : 'اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ارفاہ اور آرام طلبی (نزاکت) سے منع فرماتے تھے۔'' ہم نے پوچھا ارفاہ کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ''روزانہ کنگھی کرنا۔'' (نسائی باب الترجل)

شیخ ناصر الدین البانی نے سلسلہ صحیحہ میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
مصر کے یہ امیر فضالہ بن عبید تھے ۔ چنانچہ ابو دائود میں ہے کہ عبداللہ بن بریدہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے فضالہ بن عبید کی طرف سفر کیا جب کہ وہ مصر میں تھے۔ان کے پاس پہنچے تو کہا کہ میں تمہاری زیارت (ملاقات) کے لئے نہیں آیا بلکہ میں نے اور آپ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی تھی مجھے امید ہے آپ کے پاس اس کا علم ہو گا انہوں نے پوچھا کونسی حدیث ؟ تو انہوں نے حدیث بتائی۔ اس صحابی نے فضالہ سے پوچھا کیا بات ہے کہ آپ کے بکھرے ہوئے بالوں والا دیکھ رہا ہوں حالانکہ آپ اس علاقے کے امیر ہیں تو انہوں نے فرمایا: ''رسول اللہ ہمیں ارفاہ (آرام طلبی اور نزاکت) سے منع فرمایا کرتے تھے۔''
پوچھا کیا بات ہے آپ کو جوتا پہنے ہوئے نہیں دیکھ رہا ہوں تو انہوں نے کہا کہ: ''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ کبھی کبھی ہم ننگے پائوں چلا کریں۔''(ابو دائود اوّل کتاب الرجل)
شیخ البانی نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند بھی بخاری مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔

عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنگھی کرنے سے منع فرمایا مگر ناغے سے۔'' (نسائی باب الرجل غبا)

اس کے علاوہ یہ حدیث ابودائود ترمذی ، احمد ابنِ حبان اور بہت سے محدثین نے ذکر فرمائی ہے ۔ ترمذی نے فرمایا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ شیخ ناصر الدین البانی نے فرمایا کہ اس کے راوی بخاری مسلم کے راوی ہیں مگر حسن بصری مدلس ہیں اور انہوں نے تمام سندوں میں ''عَنْ''کے لفظ سے روایت کی ہے لیکن اس کے شاہد موجود ہیں جو اسے قوی کرتے ہیں ۔ فضالہ بن عبید کی روایت اوپر گزر چکی ہے۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بالوں کو روزانہ کنگھی نہیں کرنی چاہیے لیکن نسائی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بال بہت زیادہ بکھرے ہوں تو روزانہ کنگھی کی اجازت ہے:
''ابو قتادہ سے روایت ہے کہ ان کے سر پر بھاری بال تھے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ بالوں سے اچھا سلوک کریں اور ہر روز کنگھی کریں ۔'' (سنن نسائی باب الرجل)

اس حدیث کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض حضرات نے یہ تطبیق دی ہے کہ اگر بھاری بال ہوں تو روزانہ کی اجازت ہے ورنہ روزانہ کنگھی کرنا ناجائز ہے۔ لیکن شیخ ناصر الدین البانی نے سلسلة الاحادیث الصحیحہ کی حدیث۲۲۵۲ کے تحت فرمایا ہے کہ ابو قتادہ کی طرف منسوب یہ روایت جس میں انہیں روزانہ کنگھی کرنے کا حکم دیا ہے صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ ان احادیث کے خلاف ہے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزانہ کنگھی سے منع فرمایا ہے۔ اس کی سند میں کئی خرابیاں ہیں نسائی کی سند اس طرح ہے:
شیخ ناصر الدین حفظہ اللہ نے جو خرابیاں بیان کی ہیں ان میں سے موٹی چند خرابیاں بیان کی جاتی ہیں پوری تفصیل سلسلہ صحیحہ کی پانچویں جلد میں دیکھیں۔
۱) محمد بن المنکدر اور ابو قتادہ کے درمیان سند کٹی ہوئی ہے کیونکہ محمد بن المنکدر نے ابوقتادہ سے سنا نہیں ہے جیسا کہ حافظ ابنِ جریر نے التہذیب میں تحقیق بیان فرمائی ہے۔
۲) عمر بن علی بن مقدم کی تدلیس ہے۔ یہ ابنِ مقدم عجیب تدلیس کرتے تھے جو علماء کے نزدیک تدلیس سکوت کے نام سے معروف ہے ۔ تہذیب میں ان کے حالات کا مطالعہ فرمائیے۔
۳) محمد بن منکدر سے عمر بن علی بن مقدم کے علاوہ سفیان (ثوری) نے بھی یہ حدیث بیان کی ہے مگر اس میں ''ابو قتادہ ایک دن بالوں کو تیل لگاتے تھے اور ایک دن چھوڑ دیتے تھے۔'' یہ روایت بیہقی میں ہے۔
سفیان ثوری کی روایت صحیح احادیث کے مطابق ہے کہ روزانہ کنگھی نہیں کرنی چاہیے اور اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ عمر بن علی بن مقدم کی روایت منکر ہے اور ابو قتادہ جیسے جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ کے متعلق گمان بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ صحیح احادیث کے مطابق ناغے سے ہی کنگھی کرتے ہوں گے ۔ خلاصہ یہ ہوا کہ صحیح مسئلہ کے مطابق روزانہ کنگھی کرنی چاہیے۔ روزانہ کنگھی کرنے کے جواز کی کوئی حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ واللہ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
جھک کر یا کھڑے ہو کر سلام کرنا اور دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا
س: اپنے بڑوں کو جھک کر سلام کرنا یا کھڑے ہو کر سلام کرنا یا اپنے اساتذہ کے احترام میں کھڑے ہونا اور دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا ، یہ سب افعال قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں کیسے ہیں؟

ج: سلام کرتے وقت جھکنا درست نہیں کیونکہ اس کی مشابہت رکوع کے ساتھ ہے اور وہ صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ اس کے علاوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رجی اللہ عنہم میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں کہ وہ ایک دوسرے کو سلام کرتے وقت جھکتے ہوں ۔ اسی طرح کسی شخص کے احترام یا تعظیم کے لئے کھڑا ہونا جائز نہیں، جیسا کہ آج کل استاد ، جج یا کسی بڑے آدمی کی آمد پر سب لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں۔

معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو پسند ہو کہ لوگ اس کے لئے تصویر بن کر کھڑے ہوں، وہ اپنا ٹھکانہ آگ میں بنا لے۔ (ترمذی ، ابو دائود مشکوٰة ، باب القیام) یہ حدیث صحیح ہے۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی شخص محبوب نہیں تھا اور وہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے۔ کیونکہ وہ جناتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند فرماتے ہیں۔ اسے ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ البتہ آگے بڑھ کر استقبال کرنا یا اٹھ کر ملنا اور بٹھا نا درست ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کا فیصلہ کرنے کے لئے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بلوایا۔ جب وہ قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا: ''اپنے سردار کی طرف اٹھو۔'' (بخاری ، مسلم ، مشکوٰة، باب القیام)
مصافحہ کا معنی عربی زبان میں ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ کا صفحہ (کنارہ) ملانا ہے۔ جب ایک ہاتھ کا صفحہ دوسرے شخص کے ہاتھ سے مل گیا تو مصافحہ ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مصافحہ کرتے وقت اور بیعت لیتے وقت دایاں ہاتھ استعمال کرتے تھے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں ، تحفہ الاھوذی ص۳۹۷، ج۳)

صحیح بخاری میں جو حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو تشہد کی تعلیم دی تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہتھیلی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھی تو یہ تعلیم دیتے وقت متوجہ کرنے کے لئے تھا۔ اس سے ملاقات کا مصافحہ مراد نہیں ورنہ لازم آئے گا کہ ملاقات کے وقت چھوٹے کو ایک ہاتھ سے اور بڑے کو دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا چاہیے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مصافحہ ایک ہاتھ سے یا دونوں ہاتھوں سے؟
س: ہمارے ہاں رواج ہے کہ لوگ ملاقات کے وقت دو ہاتھ سے مصافحہ کرتے ہیں۔ ہمیں ایک دوست نے بتایا کہ مصافحہ ایک ہاتھ سے کرنا چاہیے یہی سنت ہے۔ لہٰذا آپ ہماری کتاب و سنت کی ر و سے راہنمائی کریں۔

ج: ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان سے ملاقات کرے تو ان دونوں کو آپس میں دائیں ہاتھ سے مصافحہ کرنا چاہیے اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ حدیث میں ہے:
''براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں ، مصافحہ کرتے ہیں تو جدا ہونے سے قبل ان کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔'' (ابنِ ماجہ۱۲۲۰/۲(۳۷۰۳)، ترمذی(۲۷۲۷)ابو دائود۳۵۴/۴(۵۲۱۲)، مسند احمد ۴/۲۸۹،۳۰۳)

لہٰذا جو عمل اتنی اہمیت کا حامل ہو اور اتنے فضائل والا ہو، اس کو صحیح سنت کے مطابق ادا کریں گے تو یہ اجر ملے گا۔ اگر خلاف سنت عمل کریں گے تو اجر برباد ہو گا۔ مصافحہ کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے ملاقات کرتے وقت دائیں ہاتھ کے ساتھ مصافحہ کرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی معمول تھا۔ اس ضمن میں بہت سی احادیث ہیں چند ایک ملاحظہ فرمائیں:
''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ ملاقات کی اور میں جنبی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا (ایک نسخہ میں ہے کہ میرا دایاں ہاتھ پکڑا) پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے پس میں کھسک گیا۔'' (الحدیث بخاری۱/۴۲)

۲) امام طحاوی نے شرح معانی الاثار۱۶/۱ پر یہ الفاظ ذکر کئے ہیں:
''میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حالتِ جنابت میں ملاقات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔ میں نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا اور کہا میں جنبی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (سبحان اللہ) مسلم نجس نہیں ہوتا۔''
یہ حدیث ایک ہاتھ کے مصافحہ پر نص قطعی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاقات کے وقت مصافحہ کے لئے اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھایا اور صحابی رسول سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنا ایک ہاتھ جو مصافحہ کے لئے بڑھانا تھا پیچھے کھینچا اور عذر پیش کیا کہ میں جنبی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ مسلم نجس نہیں ہوتا۔

''عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم لوگ میری اس ہتھیلی کو دیکھتے ہو میں نے اس ہتھیلی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی پر رکھا ہے۔'' مسند احمد۴/۸۹، موارد الظلمآن (۹۴۰)

''انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی یا دوست سے ملاقات کرے ۔ کیا س کے لئے جھکے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! نہیں۔ اس نے کہا ، کیا اس سے چمٹ جائے؟ اور اس کو بوسہ دے؟ فرمایا نہیں پھر اُس نے کہا، کیا اس کا ہاتھ پکڑے اور مصافحہ کرے؟ فرمایا! ہاں۔ امام ترمذی نے فرمایا، یہ حدیث حسن ہے۔'' (ترمذی ۷۰/۵(۲۷۲۸)، ابن ماجہ۱۲۲۰/۲(۳۷۰۲)

علامہ البانی نے متعدد طرق کی بنا پر اس حدیث کو سلسلة الادیث الصحیحہ ٨٨١ پر درج کیا ہے۔ تا ہم حدیث سے معانقے کی ممانعت نہیں نکلتی جو کہ چمٹ کر ملنے سے مختلف ہے۔
''انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ ان کی دعائوں میں موجود رہے اور ان کے ہاتھ علیحدہ ہونے سے پہلے ان کو ۔۔۔بخش دے۔'' (مسند احمد۱۴۲/۳، کشف الاستارص۴۱۹)

مذکورہ بالا پانچ احادیث سے معلوم ہوا کہ مصافحہ ایک ہاتھ کے ساتھ کرنا سنت ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کی تعلیم دیتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسی سنت پر عامل تھے۔ ویسے مصافحہ کے معنی میں بھی یہ بات شامل ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی کے ساتھ ملایا جائے جیسا کہ امام بن اثیر جزری النہایہ فی غریب الحدیث والا ثر ص ٤٣٣ پر رقم طراز ہیں:
''صفح لفظ سے ملاقات کے بعد مصافحہ کی حدیث بھی ہے مصافحہ باب مفاعلہ سے بطن ہتھیلی کو بطن ہتھیلی سے ملانا ہے۔''

مصافحہ کا یہی معنی لغت کی کتب قاموس تاج العروس وغیرہ میں منقول ہے۔ لہٰذا مصافحہ کی جو تعریف ہے وہ بھی اہل حدیث کے مصافحہ پر پوری طرح صادق آتی ہے اور جو مصافحہ احناف کے ہاں رائج ہے، اس پر یہ تعریف صادق نہیں آتی۔ بعض لوگ دونوں ہاتھوں کے ساتھ مصافحہ کرنے کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں:
''ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا کہ میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کے بیچ میں تھا۔'' (بخاری۹۲۶/۲)
۱) اس حدیث کا ملاقات کے وقت مصافحہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو تشہد سکھا رہے تھے اور تعلیم کے وقت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہاتھوں کے درمیان تھا۔ اگر اس مصافحہ ملاقات پر محمول کریں تو اس کی صورت یہ بنے گی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہاتھوں میں ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ تھا یعنی تین ہاتھ کا مصافحہ ۔جس طرح کسی اہل حدیث کا حنفی حضرات سے مصافحہ ہو تو حنفی کے دو ہاتھ ہوتے ہیں اور اہل حدیث کا ایک ہاتھ اور حنفی بھائی اس مصافحہ کو نا پسند کرتے ہیں۔ ان مقلدین بھائیوں پر سخت تعجب ہے کہ جو مصافحہ صحیح احادیث سے ثابت ہے وہ انہیں پسند نہیں اور جو مصافحہ یعنی چار ہاتھوں کا ثابت نہیں اس پر اصرار کرتے ہیں۔ اس حدیث سے قطعاً یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے دو ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہاتھوں سے ملے ہوئے تھے۔
اگر بفرضِ محال اس حدیث کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ دونوں طرف سے دونوں ہاتھوں کا مصافحہ ہے اور ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کَفِّی اسم جنس سے ان کی دونوں ہتھیلیاں مراد لی جائیں تو اس صورت میں کَفِّیْ بَیْنَ کَفَّیْہِ کا مطلب یہ ہو گا کہ میری دو ہتھیلیاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیوں کے درمیان میں تھیں اور جو لوگ دو ہاتھ سے مصافحہ کرتے ہیں ، ان کی یہ صورت نہیں ہوتی۔ لہٰذا اس حدیث سے ان کا استدلال باطل ہے۔
حنفی مذہب کے جید علماء کو یہ بات مسلم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی ہتھیلی کو اپنی دونوں ہتھیلیوں میں پکڑنا مزید اہتمام اور تعلیم کی تاکید کے لئے تھا۔ حنفی مذہب کی فقہ کی مشہور داخل نصاب کتاب ہدایہ۹۳/۱ کتاب الصلوة کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اس لئے تھاما تھا تا کہ ان کا دماغ حاضر رہے اور کوئی چیز ان سے فوت نہ ہو جائے۔
علامہ زیلعی حنفی ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے تشہد کی ابنِ عباس رضی اللہ عنہ والے تشہد پر ترجیح ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
''ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ والے تشہد پر راجح ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا اور میری ہتھیلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیوں کے درمیان میں تھی اور یہ بات ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے تشہد میں نہیں۔ اس نے مزید توجہ اور اہتمام پر دلالت کی۔''(نصب الرایہ۴۲۱/۱، کتاب الصلوة)
یہی بات ابنِ ہمام حنفی نے ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں لکھی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کو پکڑنا علی سبیل المصافحہ نہیں تھا بلکہ مزید اہتمام و تاکید کے لئے تھا۔
مولوی عبدالحی لکھوی حنفی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
ابنِ مسعود والی حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے مصافحہ جو ملاقات کے وقت کیا جاتا ہے، مراد نہیں ہے بلکہ یہ ہاتھ میں ہاتھ لینا ویسا ہے جیسا کہ الفتاوی اردو ۱۳۴/۱، کتاب العلم والعلمائ)

اور کئی احادیث سے ہاتھ میں ہاتھ پکڑ کر تعلیم دینا ثابت ہے۔ ایک حدیث لکھی جاتی ہے:
''معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا، اے معاذ اللہ کی قسم میں تمہیں دوست رکھتا ہوں میں نے کہا ، اللہ کی قسم میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوست رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے معاذ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھنا نہ چھوڑنا ۔'' (ابو دائود (۱۵۲۲)۸۶/۲، نسائی۵۳/۳، عمل الیوم والیلہ (۱۰۹)، الادب المفرد (۶۱۹)، مسند احمد۲۴۴/۵،۲۴۷، ابنِ خزیمہ (۷۵۱)، ابنِ حبان (۲۴۵)، حاکم۲۷۳/۱،۲۷۲/۳)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ تعلیم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مُتَعَلِّمْ کا ہاتھ پکڑ کر اسے سمجھایا جائے تا کہ اس کا دھیان اور توجہ مسئلہ مذکورہ کی طرف ہو۔ حنفی حضرات کی مزید تسلی کے لئے ایک روایت درج کی جاتی ہے ۔ علامہ جلال الدین خوارزمی حنفی ہدایہ کہ شریہ کفایہ میں ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ والی اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث تاکید تعلیم پر محمول ہے۔ اس لئے کہ محمد بن حسن شیبانی سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا اور ابو یوسف نے کہا امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا اور امام ابو حنیفہ نے کہا حماد بن ابی سلیمان رحمة اللہ علیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا۔ امام حماد کہتے ہیں علقمہ رحمة اللہ علیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا۔ علقمہ کہتے ہیں ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑ کے مجھے تشہد سکھایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جبرائیل نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا۔'' (الکفایہ شرح ہدایہ۲۷۳/۱)

مذکورہ بالا حنفی روایت سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کا دو ہاتھوں کے ساتھ مصافحہ کرنے سے تعلق نہیں بلکہ یہ طریقۂ تعلیم پر محمول ہے جو کہ طالب علم کو مزید تاکید سے اہتمام و توجہ دلانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ اب تو حنفی حضرات کو اس حدیث سے مروجہ مصافحہ پر استدلال نہیں کرنا چاہیے بلکہ مذکورہ بالا صحیح احادیث کی رو سے دائیں ہاتھ کے ساتھ مصافحہ کرنا چاہیے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہی ہے اور یہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل تھا۔ واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واکمل
 
Top