• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
عورت کی امامت کا مسئلہ

س: کیا ایک عورت دوسری عورت کی جماعت کرا سکتی ہے اور اگر کر اسکتی ہے تو اس کا طریق کار کیا ہے ؟

ج: ایک عورت دوسری عورت کی جماعت کار اسکتی ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ باقی عورتوں کے وسط میں کھڑی ہو مردوں کی طرح آگے بڑھ کر کھڑی نہ ہو، امام ابو داؤد نے سنن ابو داؤد مع عون۲/۲۱۱ پر باب امامتہ النساء میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُم روقہ بنت عبداللہ بن حارث کے گھر تشریف لاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے ایک موذن مقرر کیا جو اذان دیتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ :
'' تو اپنے گھر والوں کی امامت کیا کر ۔''

صاحب عون نے لکھا ہے کہ :
'' اس حدیث سے ثبات ہوتا ہے کہ عورتوں کا امات اور جامعت کرانا صحیح اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ثابت ہے ۔ سیدنہ عائشہ اور اُم سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا عورتوں کی فرائض اور تراویح میں امامت کراتی تھیں۔ ابو بکر بن ابی شیبہ اور حاکم نے سیدنا عطا سے بیان کیا ہے کہ :
'' سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا عورتوں کی امامت کراتی تھیں اور ان کے ساتھ ہی صف میں کھڑی ہوتی اور اُم سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں :
'' انہوں نے عورتوں کی امات کرائی اور ان کے وسط میں کھڑی ہوئیں ''۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت عورتوں کی درمیان میں کھڑے ہو کر امامت کرا سکتی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مرد کا عورت کی جماعت کرانا

س: کیا مردا پنی عورت کی جماعت کروا سکتا ہے۔ اگر کروا سکتا ہے تو اس کی صورت کیا ہے ؟

ج: مرد اپنی عورت کو جماعت کروا سکتا ہے اور جماعت کی صورت میں اپنی بیوی کے ساتھ برابر کھڑا نہ کرے بلکہ اسے پیچھے کھڑا کرے کیونکہ عورت اکیلی صف کے حکم میں شمار ہوتی ہے ۔ جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں باب المراۃ و حدھا تکون صفا کا عنوان قائم کر کے واضح کیاہے اور اس ضمن میں ایک حدیث یہ نقل کی ہے :
''انس بن مالک رحمہ اللہ نے کہا، ہمارے گھر میں ایک یتیم لڑکے اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی اور میری ماں اُم سلیم ہمارے پیچھے تھی ۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ استدلال کرتے ہیں کہ عور ت اکیلی ایک صف کے حکم میں ہوتی ہے جیسا کہ اُم سلیم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اکیلے کھڑے ہو کر نماز پڑحی لہٰذا جب عورت اکیلی ایک صف کا حکم رکھتی ہے تو مرد اپنی عورت کے پیچھے کھرا کر کے نماز پڑحا سکتا ہے۔ سلف صالحین سے ازواج کو پیچھے کھڑا کر کے نماز پڑھانے کے واقعات ابو بکر بن ابی شیبہ ، عبدالرزاق، طبرانی، اخبار اصفہان، ابن عساکر وغیرہ میں مذکور ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مشرک امام کی اقتداء کا حکم

س: ایک آمدی کا عقیدہ ہے کہ '' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر، مشکل کشا اور نفع و نقصان کے مالک ہیں۔ شیخ عبدالقادر جیلانی غوث اعظم او رعلی ہجویری داتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ بدعات کا مرتکب ہے کیا ایسے آدمی کی اقتدا میں نماز ہو جاتی ہے یا نہیں ۔ مجلّۃ الدعوۃ میں قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

ج: قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاض ناظر مشکل کشا اور نفع نقصان کےمالک سمجھنا شیخ عبدالقادر جیلانی اور کو غوث اعظم کہنااور علی ہجویری کو داتا ماننا، شرک ہے اور ان امو ر پر اعتقاد رکھنے والا بلا شک مشرک ہے۔ کیونکہ کسی کو نفع و نقصان سے دو چار کرنا یا کسی کی پریشانی دور کرنا، فریاد رسی کرنا، اولاد دینا یہ تمام صفات اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہیں جو اس نے کی اور عطا نہیں کیں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب سید الا نبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فرمایا کہ :
'' اے نبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں کہ میں اپنی جان کیلئے بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں مگر جو اللہ چاہئے''۔(الاعراف:۱۱۸)

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا :
'' کہہ دیجئے میں تو صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا کہہ دیجئے میں تمہارے لئے نقصان اور ہدایت کا مالک نہیں ہوں ''۔(الجن :۲۱،۲۰)

ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اس کے غیر میں نہیں پائی جاتی وہ اپنی ذات و صفات میں یکتا و احد ہ لا شریک ہے ۔ اور جو لوگ اللہ خالق کی صفات اس کی مخلوق میں مانتے ہیں وہ اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں اور مشرک آدمی کے اعمال تباہ و بر باد ہو جاتے ہیں وہ اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہوتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء ؑ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
'' اور اگر یہ لوگ بھی شرک کرتے تو ان کے اعمال بھی ضائع ہو جاتے ''۔(الانعام : ۸۸)

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا :
'' اور تحقیق وحی کی گئی آپ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف جو آپ سے پہلے تھے اگر تو نے شرک کیا تو تیرے عمل ضائع ہو جائیں گے اور البتہ تو خسارہ اپنے والوں میں سے ہو جائے گا ''۔(الزمر:۶۵)

ان ہر دو آیات سے واضح ہوگایا کہ مشرک آدمی کے اعمال اللہ کے ہاں قبال قبول نہیں ، خواہ وہ نماز ہو یا روزہ ، حج ہو یا زکوٰۃ غرض کسی قسم اک اعمل بھی شمرک کا قوبل نہیں بلکہ وہ سارے اعمال اکارت اور ضائع ہو ں گے۔ تو جب امام مشرک ہوگا اور اس کا اپنا عمل اللہ کے ہاں مقبول نہیں توا س کی اقتدار میں ادا کی جانے والی نماز بھی کیونکہ قبول ہو گی ۔ امام کیلئے ضروری ہے کہ وہ صحیح العقیدہ ہو ۔ جس شخص کا عقیدہ صحیح نہیں وہ امامت کے لائق کیسے ہو سکتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
امام سے پہل کرنے کی سزا - اور امام کی پیروی کا صحیح طریقہ

امیر کی اطاعت تو مدت ہوئی مسلمانوں سے چھن چکی ۔ نہ انکا کوئی امیر المومنین ہے جس کی اطاعت کو وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی سمجھیں نہ انہیں اسے حاصل کرنے کی کوئی فکر ہے۔ الا ما شاء اللہ ۔ لے دے کر نماز کے امام کی صورت میں انہیں پانچ وقت اطاعت کا سبق یا ددلایا جاتا ہے اور ان سے دنیا کے تمام کام چھڑوا کر اور ہر طرف سے توجہ ہٹا کر امام کی اقتداء میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کر دیا جاتاہے کہ اب تمہاری ہر حرکت امام کی حرکت کے بعد ہونی چاہئے۔ اس سے پہلے کوئی حرکت تمہارے لئے جائز نہیں مگر اکثر مسلمان نا فرمانی کرنے کی فکر ہے نہ عقل کے تقاضوں کے خلاف ورزی۔ وہ ہر رکن میں امام سے پہلے حرکت کرتے ہیں او رکرتے ہی چلے جاتے ہیں ۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سخت سزا سے ڈرایا ہے ۔
'' ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص امام سے پہلے اپنا سر اٹھاتا ہے کیا وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کے سر میں بدل دے ''۔ (متفق علیہ ، مشکوٰۃ۱۰۶)
نماز کی حالت میں امام سے پہل کرنا عقل کے تقاضوں کے بھی سرا سر خلاف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ایک نکتہ نقل فرمایا ہے کہ اگر غور کریں تو امام سے آگے بڑھنے کی کوئی وجہ بھی اس کے بغیر نہیں ہو ستکی کہ نماز سے جلدی فراغت حاصل ہو جائے ۔ اس جلد ی بازی کا علاج یہ ہے کہ آدمی سوچے کہ وہ امام کے فارغ ہونے سے پہلے تو نماز سے نکل ہی نہیں سکتا پھر یہ جلد بازی کیوں ؟
امام کی پیروی کی تا کید
امام کی پیروی اور اس سے پہلے نہ کرنی کی چند اور احادیث ملا حظہ فرمائیں :
'' انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہمیں نماز پڑھائی ، نماز سے فارغ ہو کر اپنا چہرہ ہماری طرف پھیر کر فرمایا : لوگو! میں تمہارا امام ہوں ۔ تم مجھ سے نہ رکوع میں پہل کر و نہ سجد میں نہ قیام میں اور نہ منہ پھیرنے میں کیونکہ میں تمہیں اپنے سامنے اور پیچھے سے دیکھتا ہوں ''۔ (راوہ مسلم ، مشکوۃ ص ۱۰۱)

'' ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، امام سے جلدی نہ کرو جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو جب ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو ۔ جب رکوع کرے تو تم رکوع کرو جب سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللھم ربنا لک الحمد کہو اور جب سجدہ کرے تو تم سجدہ کرو اور جب وہ سجدہ نہ کرے تو تم سجدہ نہ کرو ''۔ (بلوغ المرام باب صلوۃ الجماعۃ و الامامہ)

امام کی پیروی کا مطلب نہ امام سے پہلے نہ امام کے برابر حرکت کرے
مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں لکھا ہے ::
'' حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب امام تکبیر کہہ چکے تو مقتدی اس کے بعد تکبیر کہے۔ جب امام سجدے میں چلا جائے تو تم سجدے میں جاو ۔ جب امام سر اٹھا چکے تو تم سر اٹھاؤ جب وہسمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللھم ربنا لک الحمد کہو ۔ اس سے ظاہر ہے کہ مقتدی کو ہر فعل اس وقت کرنا چاہئے جب امام وہ کام کر چکے۔ نہ امام سے پہلے جاناچاہئے نہ اس کے ساتھ بلکہ امام کے بعد وہ رکن ادا کرے۔ متابعت کرے یعنی پیچھے لگے''۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رحمہ اللہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ ارکان ادا کرنے میں امام سے سبقت کر رہا تھا ۔ فرمایا:
'' نہ تم نے تنہا نماز پڑھی نہ امام کی اقتداء میں''۔ (بحوالہ رسالۃ الصلویۃ امام احمد )

نیز عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ : '' انہوں نے ایک شخص کو امام سے سبقت کرتے دیکھا تو فرمایا نہ تم نے اکیلے نماز ادا کی نہ امام کی اقتداء کی ۔ اسے مارا اور کہا نماز لوٹاؤ ''۔ (رسالۃ الصلوٰۃ ص ۳۵۲مجموعہ الحدیث)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ایسی نماز کو ناجائز سمجھتے ہین ۔

امام احمد فرماتے ہیں ( ترجمہ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اذا کبر فکربوا کا یہ مطلب ہے کہ امام کی تکبیر ختم ہو جائے پھر مقتدی تکبیر کہے لوگ جہالت کی وجہ سے غلطی کرتے ہیں اور نمازکے معاملہ کو ہلکا سمجھتے ہیں امام کےساتھ ہی تکبیر کہنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ غلطی ہے۔ (رسالہ الصلوٰۃ لا حمد ص۱۵۴)

امام احمد نے اس مقام پر بڑے بسط ( تفصیل ) سے لکھا ہے کہ امام سے پہلے یا امام کے ساتھ تمام ارکان ادا کرنا غلط ہے ۔ امام جب رکوع و سجود میں چلا جائے اور اس کی تکبیر کی آواز ختم ہو جائے تو مقتدی کو اس وقت رکوع و سجود وغیرہ امرو شروع کرنی چاہئیں۔ ہمارے ملک میں یہ غلطی عام ہے، تمام طبقات یہ غلطی کرتے ہیں۔ اگر سبقت نہ کریں تو امام کے ساتھ ضرور ادا کرتے ہیں حالانکہ یہ صاف حدیث کے خلاف ہے ۔ خطرہ ہے کہ نماز ضائع ہو جائے گی ۔ امام کی اطاعت کا شرعاً یہی مطلب ہے کہ تمام ارکان وغٰرہ امام پہلے ادا کرے مقتدی اس وقت شروع کرے جب امام رکن میں مشغول ہو جائے۔ حدیث کا نمشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ نہ امام سے سبقت درست ہے۔ نہ امام کی معیت بلکہ امام جب رکن میں مشغول ہو جائے تو اس کے بعد مقتدی مام کے ساتھ شریک ہو ۔
تعجب ہے کہ تمام مکاتب فکر اس غلطی میں مبتلا ہیں ۔بریلوی حضرات تو بدعات میں اس قدر محو ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو سنت کی محبت سے خالی کر دیا ہے ۔ وہ ہر وقت نئی سے نئی بد عتوں کی تلاش میں پریشان ہیں ۔ اہل حدیث حضرات اور دوسرے موحد گروہ بھی اس غلطی میں از اول تا آخر مبتلا ہیں الا من رحمہ، امام احمد کا ارشاد کس قدر درست ہے :
'' آپ سو مسجدوں میں نماز ادا فرمائیں ۔ کسی میں بھی انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کے طریق پر آپ کو نماز نہیں ملے گی ''۔ (رسالہ الصلوٰۃ لا حمد ص۱۵۴)
مولانا محمد اسماعیل سلفی کا کلام ختم ہوا ۔

صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کا فہم اور عمل
امام احمد بن جنبل اور مولانا محمد اسماعیل سفلی نے ان احادیث کا جو مطلب بیان کیا ہے ، تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کا یہی مطلب سمجھے ہے اور اس کے مطابق عمل کیا ہے۔
'' براء بن عازب رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمع اللہ لمن حمدہ، کہتے تو ہم میں سے کوئی بھی اپنی پشت نہیں جھکاتا تھا یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پیشانی زمین پر رکھ لیتے ''۔ (بخاری و مسلم )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی صحابی بھی آپ کی زمین پر رپیشانے رکھنے سے پہلے اپنی پیٹ نہیں جھکا تا تھا۔ کیا اب میں کوئی ایس مسجد ملتی ہے جس میں تمام لوگ اتنے حوصلے والے ہوں کہ ایک شخص بھی امام کے زمین پر پیشانی رکھنے تک اپنی پیٹھ کو نہ جھکائے کم از کم مجھے تو نہیں ملی۔ ہاں اللہ کی رحمت سے امید ضرور ہے کہ اگر ہم پوری کوشش کریں اور اپنے بھائیوں کو بار بار سمجھائیں تو اس عمل پر پابندی شروع ہو جائے گی۔
سعید بن مسیب کا حجاج کو جلد بازی سے روکنا
یہ اس وقت کی بات ہے جب حجاج بن یوسف کو مسلمانوں کی حکومت میں کوئی عہدہ حاصل نہیں ہوا تھا۔ ایک دفعہ اس نے سعید بن مسیب کے پہلو میں نماز ادا کی اور امام سے پہلے سر اٹھانا اور اس سے پہلے سجدہ میں گرنا شروع کر دیا۔ جب اس نے سلام پھیرا تو سعید بن مسیب نے اس کی چادر کا کنارہ پکڑ لیا اور نماز کے بعد اذکار پڑھتے رہے۔ حجاج چھڑانے کی کوشش کرتا رہا تا آنکہ سعید نے اپنا ذکر مکمل کر لیا پھر حجاج کی طرف متوجہ ہو کر اسے اس کی جلد بازی پر خوب تنبیہ کی اور ساتھ ہی نماز کے آداب سکھائے ۔ حجاج نے ساری بات خاموشی سے سنی اور جواب میں کچھ نہ کہا۔ آکر ایک وقت آیا کہ وہ حجاز کا حاکم بن گیا ۔ جب مدینہ آیا اور مسجد نبیو صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہو تو سعید بن مسیب کی مجلس کا رُخ کیا اور ان کے سامنے آکر بیٹھ گیا اور کہنے لگا ایک دہ وہ باتیں تم ہی نے کی تھیں ؟ سعید نے اپنے سینے پر ہاتھ مار کر کہا۔ ہاں میں نے ہی کہی تھیں۔ حجاج نے کہا آ پ جیسے معلم اور ادب سکھانے والے کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ کے بعد میں نے جو نماز بھی پڑھی آپ کی بات مجھے ضرور یاد آتی رہی پھر اٹھ کر چلا گیا۔ (الدبیہ و النہایہ ص ۱۹۹، ج۹٩)

اس تا دیب کا اثر تھا کہ کہ گو حجاج کے ہاتھ سے بھلے بھلے لوگ محفوظ نہیں رہے مگر اس نے سعید کے ادب سکھانے کا ہمیشہ خیال رکھ ااو رانہیں کبھی نہ پریشان کیا نہ کوئی تکلیف پہنچائی ۔
ہمیں بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارے ساتھ نماز پڑھنے والا اگر اس قسم کی جلد بازی کرے تو اسے سمجھائیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح فر ما دے اور اس کی درست نمازوں اور نیک دعاؤں میں ہمارا حصہ بھی شامل ہو جائے اگر وہ قوبل نہ بھی کرتے تو ہم ادائے فرض سے سبکدوش ہو جائیں گے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مقیم امام کے پیچھے مسافر کی نماز

س: مسافر مقیم امام کے پیچھے با جماعت نما ادا کرے تو کیا صرف دو رکعت پڑھ سکتا ہے؟ کیونکہ مسافر پر صرف د و رکعت فرض ہے خصوصاً جبکہ وہ امام کے ساتھ آخری دو رکعت میں ملا ہو ۔ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیں ''۔

ج: مسافر پر مقیم امام کے ساتھ پوری نماز پڑھنا واجب ہے خواہ وہ مقیم امام کے ساتھ شرعو نماز میں داخل ہو یا درمیان میں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ـ:
'' اما اس لئے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ ( متفق علیہ )

دوسری حدیث میں ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' جو نماز تم امام کے ساتھ پا لو وہ پڑھو اور جو تم سے رہ گئی تھی اس کو پورا کر لو ''۔ (صحیح بخاری )

یہ دونوں احادیث مسافر اور مقیم دونوں کیلئے عام ہیں ۔ جس طرح مقیم امام کی اقتداء کرتا ہے ۔ اسی طرح مسافر بھی امام کی اقتداء کرے گا۔ اسی طرح جماعت اتھ نماز ادا کرتے ہوئے جو رکعات فوت ہو گئی تھیں ان کو پورا کیا جائے گا۔ مقتدی مسافر ہو یا مقیم کیونکہ یہ حکم عام ہے اور سب کیلئے ہے۔
موسیٰ بن سلمہ کہتے ہیں :
'' ہم مکہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ تھے۔ میں نے پوچھا جب ہم تمہارے ساتھ ہوتے ہیں تو چار رکعات نماز ادا کرتے ہیں اور جب اپنی قیام گاہ کی طرف لوٹتے ہیں تو دو رکعت ادا کرتے ہیں۔ ( ایساکیوں ؟) عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا یہ ابو القاسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے''۔ (مسند الامام احمد ج۱، ص۲۱۶، حدیث نمبر۱۸۶۵)

علامہ ناصر الدین البانی اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ :
'' اس کی سند صحیح ہے اور اس کے رواۃ صحیح کے رواۃ ہیں ''۔( ارواء الغلیل )
ایک روایت کے یہ لفظ ہیں ، عبداللہ بن عبا س رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا گیا کہ مسافر جب اکیلا ہو تو دو رکعت پڑھتا ہے اور جب مقیم کے پیچھے نماز ادا کرے تو پوری پڑھتا ہے۔ یہ کیوں ے ؟ انہوں نے کہا تلک السنۃ یہی سنت ہے ۔ ( مسند احمد )
یہ حدیث اس مسئلہ میں صریح نص ہے کہ مسافر کیلئے مقیم امام کے پیچھے پوری نماز پڑھنا ہی واجب ہے کیونکہ ایک صحابی رسول کا من السنۃ یا تکل ھی النسۃ کہنا مروع حدیث کے حکم سے ہوتا ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیی میں دو رکعت ادا کی۔ آپ کے بعد ابو بکر، عمرب اس پر عمل کرتے رہے۔ اس حدیث کے آکر میں ہے :
'' عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جب امام کے ساتھ نماز پڑھتے تو چار رکعت پڑھتے تھے اور جب اکیلے ہوتے تو دو رکعت پڑھتے ''۔ ( مشکوۃ المصابیح ، کتاب الصلوٰۃ ، باب صلوۃ المسافر ، متفق علیہ )
یہ تھا ایک صحابی رسول کا سنت پر عمل اوریہی عمل کرنے کا وہ دوسروں کو حکم دیتے تھے۔
علامہ البانی حفظ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں سندہ صحیح اس کی سند صحیح ہے ۔ (ارواء الغلیل )
میں نے عبداللہ بن عرم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کہا کہ مسافر مقیم ام کے ساتھ دو رکعت پا لیتا ہے، کیا اس دو رکعت کفایت کر جائیں گی یا جتنی مقیم لوگوں نے نماز ادا کی ہے انتی کرے ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ بات سن کر ہنس ُڑے اور کہا جتنی نماز مقیم لوگوں نے پڑھی ہے، انتی ہی مسافر پڑھے گا ۔
یہ ایک صحابیہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور فتویٰ بھی ہے کہ مسافر مقیم امام کے پیچھے پوری نمازیں ادا کرے گا ۔ خواہ وہ شروع میں امام کے ساتھ مال ہو یا آخری دو رکعتوں میں ۔ اس کے بر عکس اگر مقیم آدمی مسافر امام کے پیچھے ادا کر تا ہے توا سے پوری نماز پڑھنا ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال نماز پڑھائی اور مقیم لوگوں کو کہا تم اپنی نماز پوری کر لو ۔ ہم مسافر ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
امام کے پیچھے قنوت نازلہ میں آمین کہی جائے یا دُعا پڑھی جائے ؟

س: نماز میں جب قنوتِ نازلہ پڑھی جاتی ہے تو مقتدی بھی اسی طرح دُعا پڑھیں یا آمین کہیں؟ اس کا ثبوت قرآن اور حدیث میں بیان کریں ؟

ج: جب امام رکوع کے بعد نماز میں قنوتِ نازلہ ُڑھتا ہے تو مقتدی اس پر آمین کہیں گے جیسا کہ سنن ابو داؤد میں صحیح حدیث ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں :
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ پانچوں نمازوں کی آخری رکعت میں سمع اللہ لم حمدہ کہنے کے بعد نبی سلیم کے قبیل رعل ، ذکوان، عصیہ کے خلاف دُ عا کی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے، وہ آمین کہتے تھے ''
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقتدی صرف آمین کہے گا ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
جماعت میں اکیلے کھڑے ہونے کا حکم

س: نماز کی جماعت ہو رہی ہو اور کوئی آدمی بعد میں آئے او ر وہ پیچھے اکیلا کھڑا ہو کر نماز پڑھ لے تو کیا اس کی نماز ہو جائے گی یا اسے لوٹانے پڑے گی ؟ کیا اگلی صف سے کسی آدمی کو کھینچ کر پیچھے لانا حدیث سے ثابت ہے ۔

ج: اگلی صف میں اگر جگہ ہو تو پیچھے اکیلے کھڑے ہو کر نماز ادا نہیں کرنی چاہئے اگر کوئی آدمی اس صورت میں نماز ادا کرے تو اسے نماز دہرانی چاہئے۔
حدیث میں آتا ہے کہ :
مصنف بن ابی شیبہ ۲٢/۹۲، ابو داؤد ۶۸۳٨٣، تر مذی ۳۳۱١،ابن ماجہ ۱۰۰۴٤)
'' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ نے اس کو نماز لوٹانے کا حکم دیا ''
صف میں کسی کو پیچھے کھینچ لانے کے متعلق حدیث صحیح ثابت نہیں ۔

ابنِ عباس سے طبرانی اوسط میں جو روایت پیچھے کھینچ کر لانے کے متعلق ہے اس کی سند میں بشر بن ابراہیم روای نہایت ضعیف ہے جیسا کہ علامہ ابن حجر نے تلخیص الجبیر ٢۲/۳۷٣میں اور امام ہیثمی نے مجمع الزوائد ۲٢/۹۶ میں ذکر کیا ہے۔
ہمارے معاشرے میں عام طور پر جو یہ بات معروف ہو رہی ہے کہ جماعت ہو رہ ہو اور صف میں جگہ نہ ہو تو اگلی صف میں سے ایک آدمی نماز کیلئے پیچھے کھینچ کر ساتھ ملا لیں۔ اس کا ثبوت صحیح حدیث میں نہیں اور صف کا منقطع کرنا درست نہیں کیونکہ حدیث صحیح میں ہے کہ :
'' جس نے صف کو ملایا اللہ اس کو ملائے گا اور جس نے اسے منقطع کیا اللہ اسے توڑ دےگا'' ۔ ( ابو داؤد )

اور اعادہ صلوۃ والی حدیث اس معنی پر ہی محمول ہے کہ اگلی صف میں جگہ نہ ملے تو پیچھے انفرادی نماز ادا کرے ان شاء اللہ نماز صحیح ہو گی اور اگر اگلی صف میں جگہ موجود ہو اور پیچھے کھڑا ہو جائے تو نماز کا اعادہ کرے۔ شیخ ابن با زاور علامہ البانی حفطھما اللہ نے یہی موقف اپنا یا ہے اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف نقل کیا ہے۔ ملا حظہ ہو فتح الباری ٢۲/۲۱۳ ، سلسلۃ الا حدیث الضعیفہ و الموضوعہ ۲٢/۳۲۲ ، امام مالک ، احمد، اوزاعی، اسحاق، ابو حنیفہ اور داؤد ظہایری کا یہی یمذہب کہ صف سے آدمی نہ کھینچا جائے۔ المجموع ۴٤/۲۹۹ )
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ایک مسجد میں دوبارہ جماعت کا حکم

س: کیا ایک مسجد میں دو جماعتیں ہو سکتی ہیں یا صرف ایک ہی جماعت کا حکم ہے ؟

ج: ایک ہی مسجد میں دوبارہ جماعت کرانے کا جوا زصحیح احادیث میں موجود ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم ، تابعین عظام اور فقہاء محدثین رحمہم اللہ کا اس پر عمل رہا ہے۔ سنن ابو داؤد میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
'' رسول اللہ ؑ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ اکیلا نماز پڑ ھ رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا ایسا کوئی آدمی نہیں جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے ۔'' (سنن ابو داؤد ١۱/ ۱۵۷، ترمذی ۱١ /۴۱۷ )

ترمذی میں یہ الفاظ مروی ہیں :
'' تم میں سے کون شخص ہے جو اس کے ساتھ اُجر ت میں شریک ہو ؟ ایک آمدی کھڑا ہو ااور اُ س نے اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھی''۔
یہ روایت کئی طرق سے مروی ہے اور مسدن احمد ٣۳/٥۵، ٤٥۴۵، ٨۸۵ ۔ سنن درامی ۱/۳۱۸ ٣١٨ مستدرک حاکم، محلی ابن حز ۴٤/ ۲۳۸٢٣٨ ۔ امام حاکم نے مستدرک حاکم میں اس روایت کو صحیح کہا ہے اور تلخیص میں امام ذہبی نے حاکم کی موافقت کی ہے ۔ علامہ زیلعی حنفی نے صب رایہ مٰں اور علامہ سیوطی نے فوت المغتذی میں لکھا ہے کہ جس آدمی نے ساتھ کھڑے ہو کر نماز ادا کی تھی وہ ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جماعت ثانیہ مسجد میں جائز ہے اور اگر کوئی شخص اس وقت مسجد میں آجائے جب جماعت ہو چکی ہو تو وہ دوبارہ کسی کے ساتھ مل کر جماعت کی صورت میں نماز ادا کرے تو یہ صحیح مشروع اور جائز ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ( ایکم یتجر علی ھذا الا رجل یتصدق علی ھذا )اس پر شاہد ہیں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بھی اس حدیث کا یہی مفوہم سمجھا اور وہ دوسری جماعت کے قائل و فاعل تھے۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں لکھاہے کہ :
'' سید نا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ مسجد میں آئے جماعت فوت ہو چکی تھی تو انہوں نے اذان و اقامت کہی اور جماعت سے نماز پڑھی ۔ '' ان کا یہ اثر ابن شیبہ ١۱/۱۴۸ ١٤٨ ابو یعلیٰ اور بیہقی میں موصولاً مروی ہے اس کی سند صحیح ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ایک مسجد میں دوسری جماعت

س: جب ایک مسجد میں نماز با جماعت ادا ہو جائے ، پھر اس کے بعد کچھ اور لوگ آجائیں تو کیا دوبارہ جماعت کروا سکتے ہیں کتاب و سنت کی رو سے واضح کریں ؟

ج: ایک مسجد میں دوسری جماعت کر وانے کے متعلق سلف صالحین میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض ائمہ مثلا امام احمد بن جنبل رحمہ اللہ اور امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ اس بات کی طرف گئے ہیں کہ دوسری جماعت کرانا جائز ہے جبکہ امام مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ ، اور اصحاب الرائے وغیرہ کا موقف یہ ہے کہ دوسری جماعت مکروہ ہے۔ امام شافعی کا کہنا ہے کہ جس مسجد میں امام اور موذن مقرر ہوں وہاں دوسری جماعت کرانا مکروہ ہے ۔ اگر جماعت کر الیں تو کفایت کرتی ہے ۔ ملاحظہ ہو کتاب الام للشافعی ( ١۱/۱۳۶٣٦،۱۳۷٣) جبکہ اصحاب الرائے احناف کا کہنا ہے کہ مکروہ تحریمی ہے جیسا کہ فتاویٰ شامی وغیرہ میں مذکرو ہے۔
فریق اول کے دلائل درج ذیل ہیں ۔
ابو سعید خدوی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا جو مسجد میں اکیلا نماز پڑھ رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون اس کے ساتھ تجارت میں شریک ہوگا کہ اس کے ہمراہ نماز ادا کرے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ ایک آدمی مسجد میں اس وقت داخل ہوا جب جماعت ہو چکی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' کون اس پر صدقہ کرے گا کہ اس کے ساتھ نماز ادا کرے ؟ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کھڑے ہو کر اس کے ساتھ نماز ادا کی''
بیہقی میں ہے کہ ابو بکر نے اس کے ساتھ نماز ادا کی ۔ ( ملاحظہ ہو ( المنتقی لا بن جا رود ( ٣٣۳۳۰٠) ابو داؤد، (٥٧۵۷۴٤) ترمذی (٢٢٠۲۲۰) دارمی ١۱/ ۲۵۸، مسند احمد ۳٣/ ۶۴،٨۸۵٥،٥۵/ ۴۵٥ مسند ابی یعلی ٢۲/ ۳۲۱٣ ابن حبان (٤۴۳۶٣٦، ۴۳۷٤٣٧، ۴۳۸٤٣٨) ، طبرانی صغیر ١۱/ ۲۱۸٢٨،٢۲۳۸٣٨)بہیقی ۳٣/ ۶۹٦، المحلی ۴٤/ ۲۳۸٢٨، حاکم ١۱/ ۲۰۹، شرح السنۃ ۳٣/۴۳۶ ٣ابن ابی شیبہ ۲٢/۳۲۲٢٢،ابن خزیمہ (١۱۶۳۲٢)، نصب الرایۃ ۲٢/ ۵۷) التدوین فی اخبار قوین للرافعی ٢۲/ ۲۵۸)

یہی حدیث انس بن مالک سے سنن دار قطنی ۱١/۲۷۷ میں مروی ہے جس کے بارے میں علامی نیومی حنفی نے آثار السنن ١۱/ ۲۶۷٢ لکھا '' اسنادہ، صحیح ''علامہ زیلعی نے نصب الرایہ میں ٢۲/ ۵۸٨ پر لکھا ( وسندہ جیدا ) اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی نے الداریہ ١/ ١٧٣ پر اس کی سند کو جید قرار دیا ہے۔
ابو سیعد خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث کو امام ترمذی نے حسن، یامام حاکم و امام ذہبی اور امام ابن حزم رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے ۔ امام بغوی رحمہ اللہ شرح السنہ میں اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں :
'' یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس آدمی نے ایک دفعہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لی ہو ، اس کیلئے جائز ہے کہ وہ دوسری مرتبہ دوسرے لوگوں کے ساتھ نماز ادا کر لے ۔ اسی طرح مجسد میں دوبارہ جماعت قائم کرنا بھی جائز ہے۔ یہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ کا قول ہے''
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرامتے ہیں :
'' ایک مسجد میں جماعت کا اعادہ کران مکرو ہ نہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب محلے کے امام نے نماز پڑھ لی اور دوسری جماعت حاضر ہو گی تو اس کیلئے مستحب ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں ۔ یہ قول عبداللہ بن مسعود، عطاء ، نخعی، حسن، قتادہ، اور اسحق بن راوھویہ رحمہ اللہ کا ہے ''۔ ( المغنی ٣۳/۱۰ ١٠)

پھر امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے اس کے بعد حدیث ابی سعید بھی ذکری کی :
دوسری دلیل
'' ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جماعت کی نماز کی فضیلت اکیلئے آدمی کی نماز پر ۲۵ درجے زیاد ہے ''۔
(بخاری مع فتح الباری ۲٢/۳۹۹ ٣٩٩، مسلم ۵٥/ ۱۵۱١، مع نووی موطا ۱١/۲۹ ٩، نسائی ١۱/ ۲۴۱، ۲٢/ ۱۰۳١٠٣، ترمذی (٢۲۱۶١٦) ، ابن ماجہ (٧۷۸۷٨٧)، دارمی ١۱/۲۳۵٣٥، ابو عوانہ ۲٢/۲ ٢، ابن خزیمہ ٢۲/۳۶۴ ٤، ابن حبان ٣۳/ ۳۱۸١، ٣٨٢۳۸۲، بیہقی ۳٣/۶۰ ٦٠، شرح السنہ ۳٣/۳۴۰ ٣٤٠)۔
اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی حدیث میں ٢۲۷٧ درجے فضیلت کا ذکر ہے۔
(ملاحظہ ہو بخاری مع فتح الباری ٢۲/۱۳۱٣١)
یہ حدیث اپنے عموم کے اعتبار سے پہلی اور دوسری دونوں جماعتوں کو شامل ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی آدمی کی پہلی جماعت فوت ہو جائے توہ دوسری جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے تو مذکورہ فضیلت پا لے گا۔

تیسری دلیل
'' ابو عثمان الجعد سے مروی ہے کی بنو ثعلبہ کی مسجد میں انس بن مالک ہمارے پاس سے گزرے تو کہا کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے ؟ تو کہتے ہیں کہ میں نے کہا ہاں اور وہ صبح کی نماز تھی ۔ آپ نے ایک آدمی کو حکم کیا، اس نے اذان و اقامت کہی ، پھر اپنے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی '' ( یہ خبر بخاری میں تعلقیاً ۲٢/ ۱۳۱١٣١ مع فتح الباری اور مسند ابی یعلی(٤٣۴۳۵۵٥٥) ٨۷/ ۳۱۵، ابن ابی شیبہ ۲٢/۳۲۱٢١، بیہقی ٣۳/ ۷۰، مجمع الزوائد٢۲/۴ ٤، المطالب العالیہ ١۱/ ۱۱۸(٤۴۲۶٢٦) تغلیق التعلیق ٢۲/۲۷۶ ٦، عبدالرزاق ۲٢/۲۹۱ ٢٩١ طبقات المحدثین لابی الشیخ ١۱/۴۰۲٠٢ ، ۴۰۳٣ میں موصولاً مروی ہے۔ )
چوتھی دلیل ابن ابی شیبہ میں ہے کہ :
'' عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگوں نے نماز پڑھ لی تھی تو آپ نے علقمہ ، مسروق اور اسود کو جماعت کرائی ''۔
(ابکار المنن ص ٢۲۵۳٣، اس کی سند صحیح ہے ۔ مر عاۃ شرح مشکوۃ ٤/ ١٠٤)
مذکورہ بالا احادیث و آثار صریحہ سے معلوم ہوا کہ مسجد میں دوسری جماعت کرا لینا بلا کراہت جائز و درست ہے اور یہ موقف اکابر صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کا تھا۔
مکروہ سمجھنے والوں کے دلائل
ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ :
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے اطرف سے آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کرانا چاہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر والوں کو جمع کیا، پھر ان کے ساتھ نماز ُپڑھی ''
(الکامل لا بن عدی ٦۶/ ۳۲۹۸، مجمع الزوائد٢۲/۴۸٨، طبرانی اوسط (٤۴۷۳۹٣٩) علامہ البانی نے اس سند کو حسن قرار دیا ہے تمام المنہ ۱١/۱۵۵٥)
اور علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس کو طبرانی نے معجم کبیر و اوسط میں بیان کیا ہے۔ اس کے رجال ثقہ ہیں ۔ اس سے یہ دلیل کی جاتی ہے کہ اگر دوسری جماعت بلا کر اہت جائز ہوتی ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کی فضیلت کو ترک نہ کرتے یعنی مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کی فضیلت عام مسجد میں نماز ادا کرنے سے بہت زیادہ ہے۔
ج= اولاً: مولانا عبید اللہ مبارک پوری رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں ' اس حدیث سے دوسری جماعت کی مکروہیت پر دلیل پکڑنا محل نظر ہے۔ اسلئے کہ یہ حدیث اس بارے میں نص نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں نماز پڑھائی ہو بلکہ اس با ت کا بھی احتمال موجود ہے کہ آپ نے انہیں نماز مسجد میں پڑھائی ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر کی طرف جانا گھر والوں کو جمع کرنے کیلئے تھا، نہ کہ گھر میں جماعت کروانے کیلئے ، توا س صورت میں حدیث اس مسجد میں جس کا موذن و امام متعین ہو، دوسری جماعت کے استحاباب کی دلیل ہو گی ۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں جماعت کروانے کیلئے، تو اس صورت میں یہ حدیث اس مسجد میں جس کا موذن و امام متعین ہو، دوسری جماعت کے استحباب کی دلیل ہو گی۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو گھر میں ہی جماعت کرائی تو اس سے مسجد میں دوبارہ جماعت کی کراہت ثابت نہیں ہوتی بلکہ اتنہائی آخری بات جو ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک آدمی ایسی مسجد میں آئے جس میں جماعت ہو چکی ہو تو اس کو چاہئے کہ اس مسجد میں نماز نہ پڑھے بلکہ اس سے نکل کر گھر چلا جائے تو گھر میں اپنے اہل کے ساتھ نماز پڑھے۔
بہر حال اس کیلئے مسجد میں دوسری جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کو مکروہ کہنا اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ یہ حدیث کے بعد میں آنے والے اکیلے آدمی کی اس مسجد میں نماز کی کراہت پر دلالت نہیں کرتی ۔ اگر اس حدیث سے مسجد میں دوبارہ جماعت کے مکروہ ہونے پر دلیل کی جائے تو پھر اس سے یہ بھی ثابت ہو گا کہ اکیلے بھی اس مسجد میں نماز نہ پڑھے ۔ ( مر عاۃ ۴٤/۱۰۵ ٥)
دوسری دلیل:
ثنایاً: اگر چہ علامہ البانی نے اس کی سند کو حسن کہا ہے مگر یہ محل نظر ہے کیونکہ اس کی سند میں بقیہ بن الولید مدلس راوی ہیں اور یہ تدلیس التسویہ کرتا ہے جو کہ انتہائی بڑی تدلیس ہے اور اس کی تصریح بالسماع مسلسل نہیں ہے۔
'' ابراہیم نخفی سے مروی ہے کہ علقمہ اور اسود عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ مسجد کی طر ف آئے تو لوگ انہیں اس حالت میں ملے کہ انہوں نے نماز پڑھ لی تھی توابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ان دونوں کے ساتھ گھر کی طرف چلے گئے، انہوں نے ایک کو دائیں جانب اور دوسری کو بائیں جانب کیا پھر ان کو نماز پڑھائی '' (عبدالرزاق ٣٨۳۸۸۳٨٣)٢۲/ ۴۰۹، طبرانی کبیر(٩۹۳۸۰٣٨٠)

اس روایت کی سند میں حماد بن ابی سلیمان ہیں جو مختلط اور مدلس تھے۔ ملاحظہ ہو طبقات المدلسین ٣٠ اور یہ روایت معنعن ہے اور مدلس کی عن عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ نبیز حماد کے اختلاف سے قبل تین راویوں کی روایت حجت ہوتی ہے۔ علامہ ہیثمی فرماتے ہیں:
'' حماد بن ابی سلیمان کی وہ روایت قبول کی جائے جو اس سے قدماء یعنی اختلاط سے پہلے والے راویوں کی رویات ہوگی جیسے شعبہ ، سفیان ثوری اور ہشام دستوائی اور جو ان کے علاوہ اس سے روایت کریں وہ بعد از ختلاف ہے ۔''
تقریباً یہی بات امام احمد بن جنبل رحمہ اللہ سے منقول ہے۔ ملا حظہ ہو شرح علل ترمذی لا بن رجب ص ٣۳۲۶٦ وغیرہ اور یہ روایت حماد سے معمر نے بیان کی ہے لہٰذ ایہ بھی قابل حجت نہیں ۔د وسری بات یہ ہے کہ اس میں ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دونوں شا گردوں کوئی دائیں بائیں کھڑا کر کے جماعت کروائی اور یہ بات احناف کو مسلم نہیں جیسا کہ محمد بن حسن شیبانی شاگرد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الآثار ص ٦۶۹٩ مترجم میں ذکر کیا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اوپر ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مسجد میں دوبارہ جماعت کروانا صحیح سند کے ساتھ نقل ہوا ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا توضیحات سے معلوم ہوا کہ دوسری جماعت میں کراہت کے بارے میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں بلکہ صحیح روایت سے دوسری جماعت کا جواز نکلتا ہے ۔ اویرہی جواز والا مذہب ا قرب الی الصواب ہے ۔ مولانا عبدی اللہ رحمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔
'' ہمارے نزدیک راحج قول یہ ہے کہ جو آدمی مسجد میں اس حال میں پہنچا کہ امام معین کے ساتھ نماز ادا ہو چکی ہواور اس نے وہ نماز نہیں پڑھی اور عذر کی بناء پر اس کی جماعت فوت ہو گئی تو اس کیلئے جائز و مباح ہے کہ وہ جماعت ثانیہ کے ساتھ نماز ادا کر لے ''۔
بہر صورت یہ یاد رہے کہ بغیر عزر کے جماعت سے پیچھے رہنا اور خواہ مخواہ سستی اور کاہلی کا شکار ہو کر دوسری جماعت کا رواج ڈالنا درست نہیں کیونکہ دوسری جانب جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی بہت تاکیدوار دہوئی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے تھے کہ مومنوں کی نماز اکھٹی ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
'' مجھ یہ پسند ہے کہ مومنوں کی نماز ایک ہو یہاں تک کہ میں نےا رادہ کیا ہے کہ کچھ آدمیوں کو محلوں میں پھیلا دوں اور وہ لوگوں کو نماز کے وقت کی اطلاع دیں ۔''

اس کے علاوہ بھی جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی تاکید میں کئی ایک احادیث صحیحہ صریحہ وارد ہوئی ہیں جن سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہمیں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ سوائے عذر شرعی کے جماعت سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے کیونکہ اگر ہم گھر سے نماز با جامعت کے ادارے سے نکلتے ہیں اور ہمارے آتے آتے نماز فوت ہو جاتی ہےتومسجد میں آکر ادا کرنے سے جماعت کاثواب مل جائے گا، جیسا کہ حدیث صحیحہ میں وار دہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' جس نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا، پھر چل پڑ ا( مسجد کی طر ف) اُس نے لوگوں کو پایا کہ انہوں نے نماز پڑھ لی ہے تو اللہ تعالیٰ اس آدمی کو نماز با جماعت ادا کرنے اور اس میں حاضر ہونے والے کی طرح اجر دے گا۔ ان کے اجروں سے کچھ کمی نہیں کرے گا''۔
(سنن ابو داؤد (٥۵۶۴٦٤)، نسائی ٢۲/۱۱۱ ١، شرح السنہ ۳٣/۳۴۲٤٢، مستدرک ۱١/۲۰۸٠٨، امام حاکم نے مسلم کی شرط پر صحیح کہا اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ مسند احمد۲ ٢/۸۰ ٨٠ تاریخ کبیر للبخاری ق۲ ٢، ج ۸٨ ص ۴۶٢٦)
یہ روایت حسن ہے۔ نیل المقصود ( ٥٦۵۶۴٤) اور اس کا ابو داؤد میں ایک شاہد بھی ہے۔ ملا حظہ ہو (٥۵۶۳٦٣) لہٰذا بغیر عذر شرعی کے جماعت سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے اور اگر کسی عذر کی بنا پر جماعت سے رہ گیا تو اور افراد کے ساتھ مل کر دوسری جماعت کرا لی تو بلا کراہت جائز ہے ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قنوتِ نازلہ کیا اور کیوں ؟

س: قنوتِ نازلہ کیا ہے اور یہ کیوں کی جاتی ہے ۔ یہ قنوت کچھ مدت کیلئے تھی یا ہمیشہ جاری رہی اور اسی طرح اب ضرورت کے تحت قنوت ہو گی یا ہمیشہ جاری رکھی جائے گی ؟ قنوت کیلئے کوئی منسون دُعا ہے یا حالات کے تحت کمی بیشی ممکن ہے۔ اس کی دلیل کیا ہے بعض لوگ دعا میں اپنی ذاتی دعائیں بھی شامل کر لیتے ہیں آخر میں صلی اللہ علی النبی پڑھتے ہیں اس کی کوئی دلیل ہے ؟

س: قنوت دُعا کو کہتے ہیں اور نازلہ کا معنی مصیبت میں گرفتار ہونا ہے ۔ زمانے کے حواد ثات میں پھنس جانے کے وقت نماز میں اللہ تعالیٰ سے گریہ و زاری کر کے ان حواد ثات وو قائع کے دفیعہ کیلئے التجا کرنا اور نہ عجز و انکساری ان واقعات سے نجات پانے کیلئے دعائیں مانگنا قنوت نازلہ کہلاتا ہے ۔
دنیا میں مصائب و آلام کئی طرح کے ہوتے ہیں مثلا دنیا کے کسی خطہ میں رات کو ان پریشانیوں میں مبتلا کر رہے ہیں ان کو قوید و بند کی صعوبتوں میں مبتال کر دیتے ہیں اور کمزور و لا غر مسلمان ان کے ظلم و ستم کا تختہ مشق بنے ہوئے ہیں وغیرہ تو ان تمام حالات میں قنوتِ نازلہ کی جاتی ہے اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم تابعین عظام، فقہاء محدثین اور سلف صالحین رحمہ اللہ کا طریقہ رہا ہے ۔ اس دُعا کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے انہتائی تذلل اور عجز و انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں کہ یا اللہ ہمیں ان مصائب و آلام سے محفوظ فرما ۔ ہمارے گناہوں کوبخش دے ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مروی ہے کہ سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں قنو ت کیلئے کرتا ہوں تاکہ تم اپنے پر وردگار کو پکارو اور میں اس سے اپنی ضروریات کے بارے میں سوال کرو ۔
( مجمع الزوائد ۲٢/ ۱۳۸٨)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیب پریشانی رنج و غم کے پیش نظر کبھی پانچوں نمازوں میں قنوت کی اور کبھی بعض نمازوں میں ۔ چنانچہ صحیح١۱/ ٢٣۲۳۷٧ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں :
آخر میں صلی اللہ علی النبی پڑھتے ہیں اس کی کوئی دلیل ہے؟


ج: قنوت دُعا کو کہتے ہین اور نازلہ کا معنی مصیبت میں گرفتار ہونا ہے۔ زمانے کی حواد ثات میں پھنس جانے کے وقت نماز میں اللہ تعالیٰ سے گریہ وزاری کر ان حواد ثات ووقائع کے دفعیہ کیلئے التجا کرنا اورنہ عجو انکساری ان واقعات سے نجات پانے کیلئے دعائیں مانگنا قنوتِ نازلہ کہلاتا ہے۔
دُنیا میں مصائب و آلام کئی طرح کے ہوتے ہیں مثلاً دنیا کے کسی خطہ میں مسلمانوں پر کفار و مشرکین یا یہودی یا عیسائی ظلم و ستم کے پہاڑ تو ڑ ررہے ہیں۔ دن رات ان کو پریشانیوں میں متبلا کر رہے ہیں ۔ ان کو قید و بند کی صعو بتوں میں مبتلا کر دیتے ہیں اور کمزور و لا غر مسلمان ان کے ظلم و ستم کا تختہ مشق بنے ہوئے ہیں وغیرہ تو ان تمام حالات میں قنوتِ نازلہ کی جاتی ہے اوریہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم تابعین عظام، فقہاء محدثین اور سلف صالحین رحمہ اللہ کا طریقہ رہا ہے۔ اس دعا کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے انتہائی تذلل اور عجز و انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں کہ یا اللہ ہمیں ان مصائب و آلام سے محفوظ فرما۔ ہمارے گناہوں کو بخش دے ۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں قنوت اس لئے کرتا ہوں تاکہ تم اپنے پر رودگار کو پکارو اور اور اسے اپنی ضروریات کے بارے میں سوال کرو ۔ ( مجمع الزوائد ۲٢/ ۱۳۸)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبت پریشانی اور رنج و غم کے پیش نظر کبھی پانچوں نمازوں میں ۔ چنانچہ صحیح مسلم ١۱/ ۲۳۷٢ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں ۔
'' اللہ کی قسم ! میں تمہارے قریب وہ نمازا دا کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے ۔ پس سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ظہر، عشاء اور فجر کی نماز مین قنوت کرتے تھے اور مومنوں کیلئے دُعا کرتے اور کافروں پر لعنت کرتے تھے ''۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح اور مغرب کی نماز میں قنوت کرتے تھے ۔ ( مسلم ١۱/ ۲۳۷٢)

رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں ایک ماہ قنوت کیا ۔
'' ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متواتر ایک مہینہ ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور صبح کی ہر نماز مین جب اخیر رکعت میں سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو قنوت کرتے اور بنو سلیم کے چند قبیلوں رعل، ذکوان اور عصیہ پر بد دعا کرتے اور مقتدی آمین کہتے ''۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کبھی ایک نماز میں ، کبھی دو تین اور کبھی اکٹھی پانچ نمازوں میں قنوت کرتے تھے۔ تو ہمیں بھی حالات و واقعات کے تقاضے کے مطابق ایسا کرنا چاہئے اور یہ معاملہ اس وقت تک جاری ر ہے جب تک دشمنوں کی مکمل سر کوبی نہیں ہوتی اور مسلمانوں کے مسائل و آلام میں کمی واقع نہیں ہوتی ۔ صحیح مسلم میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ :
'' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک رکوع کے بعد قنوت کیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو پانی قنوت میں کہتے ۔ اے اللہ ولید بن ولید کو نجات دے۔ اے اللہ سلمہ بن ہشام کو نجات دے۔ اے اللہ عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے۔ اے اللہ ضعیف مومنوں کو نجات دے۔ اے اللہ اپنا عذاب قبیلہ مضر پر سخت کر ۔ اے اللہ ان پر یوسفؑ کے زمان جیسا قحط ڈال دے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے دُعا کرنا چھوڑ دی تو لوگوں نے کہا تم دیکھتے نہیں جن کیلئے رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دُعا کرتے تھے وہ آ گئے ہیں ۔ یعنی کفار کے غلبہ سے انہیں نجات مل گئی ہے ۔ ''

موجودہ حالات میں چونکہ مسلمان کئی ممالک میں ( بوسینا فلسطین، کمشیر، الجزائر وغیرہ ) سفاک و خونخوار دشمن کے ظلم و ستم اور جرب واستدباد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور کئی ممالک میں مسلمان سالہا سال جو رو جفا کی چکی میں پس رہے ہیں توا نکی نصرت اور علائے کلمۃ اللہ کیلئے جب ہم جہاد بالسیف وغیرہ جیسی تدابیر کے ساتھ صف آراستہ ہیں تو ہمیں قنوت نازلہ جیسے مجرب ہتھیار سے بھی کام لینا چاہئے۔ تمام مسلمان اپنی نمازوں میں رکوع کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر سجدے میں جانے سے قبل ان کیلئے دعا کریں۔ دُعا کرتے وقت امام مختلف ادعیہ جب پڑھے تو پیچھے مقتدی آمین کہتے جائیں جیسا کہ اوپرابوداؤد کے حوالے سے صحیح گذر چکی ہے قنوت نازلہ سے مقصو دمظلوم و مقہور مسلمانوں کی نصر و کامیابی اور سفاک و جابر دشمن کی ہلاکت و بربادی ہے اسلئے اس مقصد کو جو دعابھی پورا کرے وہ مانگی جا سکتی ہے ۔ امام نووی نےشرح مسلم ١۱/۲۳۷٢ میں لکھا ہے کہ :
'' صحیح بات یہ ہے کہ اس بارے میں کوئی مخصوص دُعا متعین نہیں بلکہ رہا س دُعا کو پڑھا جا سکتا ہے جس سے یہ مقصود حاصل ہوتا ہے اور اللھم اھدنی فیمن ھدیت آخرتک پڑھنا مستحب ہے شر ط نہیں ۔
یاد رہے :اولیٰ اور بہتریہ ہے کہ یہ مذکورہ دُعا بھی پڑھی جائے اور اسکے بعد ہو دعائیں بھی پڑھی جائیں جو اسی معنی کی قرآن مجید اور حدیث نمبوی میں موجو دہیں مختلف دعائیں مانگنا صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اور سلف صالحین رحمہ اللہ سے ثابت ہیں جیسا کہ سیدنا ابی کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ جب رمضان لامبارک میں تراویح پڑھاتے تو ہنگامی حالات کے پیش نظر مخالفین اسلام کیلئے بد دعا کرتے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور مسلمانوں کیلئے استغفار کرتے تھے۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی صحیح ابن خیزمہ ۲/۱۵۵۔۱۵۶ ١٥٥۔١٥٦ کے حوالہ سے علامہ البانی حفظہ اللہ نے قیام رمضان /۳۲٢ پر لکھا ہے کہ :
'' نصف رمضان میں کافروں پر لعنت کرتے اور کہتے اے اللہ ان کافروں کو جو تیرے راستے سےر کوتے ہیں اورتیرے رسولوں کی تکذیب کرتے ہیں اور تیرے وعدوں پر ایمان نہیں لاتے تباہ کر دے اور ان کے کلمات میں مخالفت ڈال دے اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دے اور ان پر عذاب و سزا ڈال دے ''
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے اور مسلمانوں کیلئے اپنی استطاعت سے بھلائی کی دعا کرتے اور مومنوں کیلئے استغفار کرتے ۔
نوٹ : ائمہ مساجد اور قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ کافروں سے بر سر پیکار دُنیا بھر کے مجاہدین کی نصرت و کامیابی اور ان کے مصائب میں کمی کیلئے اپنی نمازوں میں قنوت نازلہ کا اہتمام کریں اور جو لوگ جہاد میں شریک نہیں ، مجاہدین کی یہ اعانت ان پر فرض ہے ۔
 
Top