• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل


جوابات از شیخ مقبول احمد سلفی



1/ کتے کے جھوٹے کو دھونے کا حکم ہے تو کیا شکاری کتے کا جھوٹا بھی دھویا جائے گا؟
جواب : کسی چیز کو نجس یا حرام ماننے کے لئے دلیل چاہئے ، چونکہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اسے سات بار دھوئیں لیکن اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ شکاری کتے کا شکار دھویا جائے ۔ اس وجہ سے شکاری کتا جس جگہ شکار کو کاٹے اسے دھونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے : فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ (المائدة:4)
ترجمہ: پس جس شکار کو وہ تمہارے لئے پکڑ کر روک رکھیں تو تم اس سے کھالو اور اس پر اللہ کے نام کا ذکر کر لیا کرو۔
اللہ نے ہمیں معلم (سکھائے ہوئے ) جانور کے شکار کو کھانے کا حکم دیا ہے ، اگر دھونا ضروری ہوتا تو اللہ تعالی یا اس کے پیغمبر ضرور ہمیں اس بات کا حکم دیتے ۔ حافظ ابن حجر نے تو شکاری کتے کے جھوٹا کو پاک قرار دیا ہے ۔

2/ ایک جگہ حدیث میں جو غالبا مسند احمد میں ہے قرآن سے مت کھاؤ اور دوسری جگہ بخاری میں ہے کہ قرآن سے جو تم لیتے ہو وہ سب سے بہتر ہے ان دونوں میں صحیح کیا ہے کیا قرآن کی تعلیم پر اجرت لینی ہے یا نہیں ؟
جواب : صحیح بخاری کی حدیث سے بالکل واضح ہے کہ قرآن پر اجرت لینا جائز ہے اس لئے صحیح بخاری کی جامع شرح فتح الباری میں اس حدیث کی شرح میں مذکور ہے کہ اس حدیث سے جمہور نے دلیل پکڑی ہے کہ قرآن کی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے ۔ جہاں تک ان نصوص کامعاملہ ہے جن میں قرآن سے اجرت لینا منع ہے ان کی روشنی میں یہ کہا جائے گا کہ افضل اور اولی یہی ہے کہ جن کو اجرت کی ضرورت نہیں وہ بغیر اجرت کے قرآن کی تعلیم دے البتہ جنہیں اجرت لینے کی ضرورت ہے ، جن کے پاس اپنے اور گھروالوں کی ضروریات کی تکمیل کا دوسرا ذریعہ نہ ہو تو ان کے لئے قرآن کی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے ۔ تو تعلیم قرآن پر اجرت لینے کا مسئلہ محض جواز کا ہے افضل نہ لینا ہے۔
3/ بسم اللہ پڑھ کر فائر کرنے سے شکار کرنے سے ذبیحہ شمار ہوگا؟
جواب : سوال کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر بندوق سے شکار کیا جائے تو وہ شکار کھایا جاسکتا ہے کہ نہیں ؟ اس سوال کے جواب میں کئی پہلو ہیں ۔ ایک پہلو تو یہ ہے کہ اگر بندوق کی گولی تیز دھار والی ہے ،اس طرح کہ شکار کو کاٹ کر اندرجسم میں داخل ہوجائے تو بسم اللہ پڑھ کر ایسے بندوق سے کئے گئے شکار کو کھایا جائے گا اگرچہ زخم لگنےسے مرجائے اور یہ زخم جسم کے کسی حصہ پر بھی لگا ہو۔ اس کی دلیل تیر سے شکار کرنے والی حدیث ہے ۔
ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر گولی تیز دھار دار نہ ہو بلکہ اس سے شکار کو قوت سے چوٹ لگے اور مر جائے تو پھر وہ شکار حلال نہیں ہے ، ہاں اگر شکار چوٹ لگنے سے نہیں مرے اور جلدی سے اسے اسلامی طریقہ سے ذبح کرلیا جائے تو پھر کھا سکتے ہیں ۔
ایک تیسر ا پہلو یہ بھی ہے کہ اگرتیز دھار والی کسی چیز سے شکار کرتے وقت بسم اللہ نہیں پڑھا اور شکار مرگیا تو اس کا کھانا حلال نہیں ہے کیونکہ اس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا ہے ۔

4/ میرے گاؤں میں ایک بلی ہے جو چوزے کو کھا جاتی ہے اسے مارنا کیسا ہے ؟
جواب : بلی عموما گھروں میں آتی جاتی رہتی ہیں مگر گھروں کو نقصان نہیں پہنچاتی سوائے کھانے پینے کی چیزوں کو جھوٹا کرنے کے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کے جھوٹے کو پاک قرار دیا ہے ۔ بعض بلياں نقصان پہنچاتی ہیں ۔ کبوتروں کو کھاجاتی ہیں یا مرغیوں کو ماردیا کردیتی ہیں ، ایسی صورت میں پہلے بلی کو اس کام سے روکنے کی کوشش کی جائے گی اور بچاؤ کا راستہ اختیار کیا جائے گا تاکہ بلی کو قتل نہ کرنا پڑے لیکن پھر بھی کوئی فائدہ نہ ہو تو ضرررساں بلی کو قتل کرسکتے ہیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی خود نقصان اٹھاؤ۔
5/ ایک شخص باہر ملک گیا وہاں جاکر معلوم ہوا کہ داڑھی کٹائے بغیر کوئی کام نہیں ملے گا اس نے داڑھی کٹائی اس کا کیا گناہ ہے اور ایسا کرنا چاہئے کہ نہیں ؟
جواب : نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں کی جائے خواہ وہ وقت کا حاکم ہوکفیل ہو یا والدین ۔ اسی طرح معصیت کا کام کرکے روزی کمانا بھی جائز نہیں ہے ۔ داڑھی رکھنا اسلام میں فرض ہے جواس فریضہ کو روزی کے لئے ترک کرتا ہے وہ گنہگار ہے اسے چاہئے کہ گزشتہ گناہوں کی اللہ سے معافی مانگے اور فرمان رسول کے مطابق داڑھی کو معاف کرے چاہے اس کو نوکری چھوڑنا پڑے ۔ اللہ نے بہت وسیع دنیا بنائی اور ہزاروں حلال ذرائع معیشت ہمارے مہیا فرمائے ہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے کہ جو تقوی اختیار کرتا ہے اس کے لئے نجات کا راستہ پیدا کرتا ہے ۔ اللہ پر اور اس کے کلام پر کامل توکل کریں اور اس کی زمین میں تقوی کے ساتھ حلال روزی تلاش کریں وہی اکیلا سب کی روزی کا مالک ہے یقینا اپنے متقی بندوں کے لئے روزی کا دروازہ کھول دے گا۔
6/ کیا عورت زور سے آمین کہہ سکتی ہے ؟
جواب : عورتوں کے لئے جس طرح اجانب کی موجودگی میں نماز میں آواز پست رکھنا ہے اسی طرح آمین بھی سرا کہنا ہے لیکن اگر اجانب موجود نہ ہوں تو جہری نمازوں میں یا عورتوں کی جماعت میں یا اپنے گھر (جہاں اجنبی نہ ہو) میں بلند آواز سے آمین کہہ سکتی ہے۔
7/ جس مکان کا کرایہ ادا کیا جارہاہو اس کو ہیوی ڈپازٹ پہ لینا کیسا ہے ؟
جواب : ڈپازت امانت کے درجہ میں ہے جو عموما سوسائٹی میں رائج رقم کی طرح ہو مگر ہیوی ڈپازٹ کے نام پر مکان مالک کرایہ دار سے خطیر رقم وصول کرتا ہے اور اسے اپنے کام میں صرف کرتا ہے جو قطعا درست نہیں ہے ۔ اس کا ایک صحیح بدل یہ ممکن ہے کہ مکان مالک کرایہ دار سے چند مہینوں کا کرایہ اڈوانس میں لے لے مگر اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے کرایہ دار سے موٹی رقم وصول کرنا جائز نہیں ہے۔
8/ کھڑے ہوکر کھانا کھانا کیسا ہے ؟
جواب : ایک طرف احادیث میں کھڑے ہوکر کھانے پینے کی ممانعت ہے تو دوسری طرف کھڑے ہوکر کھانے پینے کی دلیل بھی ملتی ہے۔ ان دونوں اقسام کی حدیثوں میں تطبیق یہ ہے کہ ممانعت والی حدیث کراہت پر محمول ہوگی یعنی کھڑے ہوکر کھانا پینا بکراہت جائز ہے اور بیٹھ کر کھانا پینا افضل واحسن ہے۔
9/ سجدے میں قرآن پڑھنا منع ہے تو کیا ہم اس میں قرآن کی دعا بھی نہیں پڑھ سکتے ہیں ؟
جواب : صحیح مسلم میں وارد ہے کہ نبی ﷺ نے رکوع اور سجدہ میں تلاوت کرنے سے منع کیا ہے اس لئے رکوع اور سجدہ میں قرآن کی تلاوت نہیں کریں گے لیکن سجدہ میں دعاکی ترغیب آئی ہے اس لئے سجدہ میں قرآنی دعاؤں کو تلاوت کی نیت سے نہیں بلکہ دعا کی نیت سے پڑھ سکتے ہیں ۔
10/ ایک شخص پردیس سے اپنا ملک لوٹ کر گیا اور اس نے اپنی بیوی سے پچھلی شرمگاہ میں مباشرت کرلی ،اب اس کو دوست واحباب نے بتلایا کہ اس کا نکاح ٹوٹ گیا قرآن وحدیث اس سلسلے میں کیا کہتا ہے ؟
جواب : یہ بات صحیح نہیں ہے کہ بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں وطی کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے یونہی لوگوں میں پھیلی ایک غلط فہمی ہے البتہ یہ کام بہت ہی گھناؤنا ہے اس کی وجہ سے آدمی ملعون قرار پاتا ہے ۔ جس نے بھی ایسا لعنتی کام کیا ہے اسے چاہئے کہ سچے دل سے اللہ سے توبہ کرے اور آئندہ اس سے پرہیز کرے ۔
11/ کسی کو ویزا فری میں ملتا ہے وہ آگے پیسا لیکر بیچتا ہے ایسا کرنا کیسا ہے ؟
جواب : اگر کسی شخص کو فری میں ویزا ملا یہ کہہ کر کہ مجھے عامل چاہئے تو اس ویزا کو بیچنا جائز نہیں ہے لیکن اگر ویزا کے حصول میں محنت اور پیسے صرف ہوئے ہوں تو اس کے بقدر پیسہ لے سکتا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی معلوم رہے کہ ویزا کی فیس سعودی حکومت کے قانون کے مطابق کفیل کو برداشت کرنا ہے۔ ویزا کی ایک نوعیت یہ بھی ہے کہ کسی کفیل کو عامل نہیں چاہئے ہوتا ہے بلکہ اسے ویزا سے زیادہ پیسہ کمانا مقصود ہوتا ہے اور عامل کو آزاد چھوڑ دیتا ہے۔ کفیل ویزا مثلا دوہزار ریال میں حکومت سے حاصل کرتا ہے تو اسے کئی کئی ہزار ریال میں آگے فروخت کرتا ہے پھر اس کے خریدار اس میں اضافہ کے ساتھ آگے بیچتے ہیں۔ اس قسم کے ویزا کی خرید بکری سراسر ناجائز اورحکومت کے ساتھ دھوکہ ہے کیونکہ حکومت کے نزدیک نہ اس عمل کی اجازت ہے اور نہ ہی حکومت کے قانون کے حساب سے ویزا بیچنے کی اجازت ہے۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوا ل کیا گیا کہ بعض لوگ مثلا تین ہزار ریال میں ویزا نکالتے ہیں پھر اسے آٹھ دس ہزارریال میں بیچ دیتے ہیں تاکہ وہ دوسرے کے نزدیک کام کرے اس کا کیا حکم ہے ؟ توشیخ نے جواب دیا کہ ویزا لائسنس ہے یعنی منسٹری سے لائسنس لیتا ہے تاکہ عامل منگائے پھر وہ دوسرے کے ہاتھ لائسنس بیچ دیتا ہے تاکہ دوسرا شخص عامل بلائے یہ سراسر حرام اور ناجائز ہے۔ میرا کہنا ہے کہ اگر تمہیں عامل کی ضرورت ہے تو ویزا تمہارے ہاتھ میں ہے اور عامل کی ضرورت نہیں ہے تو جہاں سے ویزا لیا تھا وہاں لوٹا دو اس کا بیچنا تمہارے لئے حلال نہیں ہے۔
12/ کیا ایسی حدیث ثابت ہے کہ عشاء کے بعد چار رکعت نفل پڑھنے سے شب قدر کے قیام کا اجر ملتا ہے ؟
جواب : کئی مرفوع روایات میں اس کا ذکر ہے کہ عشاء کے بعد چار رکعت لیلۃ القدر کے برابر ہے مگر کوئی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں البتہ بعض آثار صحیح سند سے مروی ہیں ۔ مثلا
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بن مسعود رضي الله عنه قَالَ : مَنْ صَلَّى أَرْبَعًا بَعْدَ الْعِشَاءِ لَا يَفْصِلُ بَيْنَهُنَّ بِتَسْلِيمٍ، عَدَلْنَ بِمِثْلِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ .( المصنف :2/127)
ترجمہ: ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ جو عشاء کے بعد ایک سلام سے چار رکعت پڑھے تو یہ لیلۃ القدر کے برابر ہے۔
عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال : مَنْ صَلَّى أَرْبَعًا بَعْدَ الْعِشَاءِ كُنَّ كَقَدْرِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ.( المصنف :2/127))
ترجمہ: ابن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جس نے عشاء کے بعد چار رکعت پڑھی اس کا اجر لیلہ القدر کی طرح ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : أَرْبَعٌ بَعْدَ الْعِشَاءِ يَعْدِلْنَ بِمِثْلِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ.(( المصنف :2/127))
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ عشاء کے بعد چار رکعت لیلۃ القدر کے برابر ہے۔
شیخ البانی نے ان آثار کے متعلق کہا ہے کہ گویہ یہ موقوف روایات ہیں مگر مرفوع کے حکم میں ہے کیونکہ یہ بات اجتہاد سے نہیں کہی جاسکتی ہے جیساکہ ظاہر ہے۔

13/ والدین کو بیٹا زکوۃ دے سکتا ہے اور اسی طرح والدین بیٹے پر زکوۃ صرف کرسکتے ہیں ؟
جواب : نہ باپ بیٹے پر زکوۃ کا مال صرف کرسکتا ہے اور نہ ہی بیٹا باپ پر ۔
14/ دادا کے مال میں یتیم پوتے کا حصہ ہے یا نہیں؟
جواب : اگر دادا کا انتقال ہوجائے اور اپنے پیچھے اولاد چھوڑ جائے تو پوتا پوتی کا حصہ نہیں بنتا۔
15/ رمضان کے قضا روزے اور شوال کے چھ روزے ایک نیت سے رکھے جاسکتے ہیں کہ نہیں ؟
جواب : چونکہ شوال کےچھ روزوں کا اجررمضان کے روزوں کی تکمیل کے بعد ہے اس لئے ایک نیت سے قضا اور نفلی روزے نہیں رکھے جاسکتے ۔ جیسے قضا روزوں کی تکمیل سے پہلے شوال کے چھ روزے نہیں رکھ سکتے ویسے ہی ایک نیت سے قضا اور شوال کے نفلی روزوں کو جمع نہیں کرسکتے ۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
یہ بات صحیح نہیں ہے کہ بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں وطی کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے
محترم،
یہ بات اس قبیل سے ہے کہ" نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنی بیوی سے قوم لوط والا فعل کیا وہ بری ہوا اس دین سے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا" سنن ابو داود
جب مسلمان نہیں رہا تو نکاح کیسے قائم رہ سکتا ہے باقی آپ اس میں مزید رہنمائی فرمائیں۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
محترم،
یہ بات اس قبیل سے ہے کہ" نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنی بیوی سے قوم لوط والا فعل کیا وہ بری ہوا اس دین سے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا" سنن ابو داود
جب مسلمان نہیں رہا تو نکاح کیسے قائم رہ سکتا ہے باقی آپ اس میں مزید رہنمائی فرمائیں۔
یہ حدیث ابوداؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں ہے ان الفاظ کے ساتھ ہے ۔
سنن أبي داؤد: كِتَابُ الكَهَانَةِ وَالتَطَيُّرِ (بَابٌ فِي الْكُهَّانِ)
حکم : صحیح (الألباني)
سنن ابو داؤد​
:
کتاب: کہانت اور بدفالی سے متعلق احکام و مسائل​
(باب: غیب کی باتیں بتانے والے ( کاہن ) کے پاس جانا)
مترجم: ١. فضیلۃ الشیخ ابو عمار عمر فاروق سعیدی (دار السلام)
3921 . حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ح و حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ حَكِيمٍ الْأَثْرَمِ عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَتَى كَاهِنًا قَالَ مُوسَى فِي حَدِيثِهِ فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ ثُمَّ اتَّفَقَا أَوْ أَتَى امْرَأَةً قَالَ مُسَدَّدٌ امْرَأَتَهُ حَائِضًا أَوْ أَتَى امْرَأَةً قَالَ مُسَدَّدٌ امْرَأَتَهُ فِي دُبُرِهَا فَقَدْ بَرِئَ مِمَّا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ​
3921 . سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جو شخص کسی کاہن کے پاس گیا جو غیب کی خبریں دیتا ہو اور پھر اس کی تصدیق کی ‘ یا اپنی بیوی کے پاس اس کے ایام حیض میں گیا ‘ یا اس کی دبر میں مباشرت کی تو وہ محمد ﷺ پر نازل کردہ دین سے بری ہوا ۔ “​
اس حدیث کو پڑھیں اور دیکھیں اس میں تین چیزوں کا بیان ہے جن کے کرنے پر شریعت محمدیہ کی برأت کی بات کی گئی ہے ۔یہاں برأت سے مراد کفر اکبر نہیں ہے جس سے آدمی دین سے خارج ہوجاتا ہے ۔ اگر ایسی بات ہوتی تو حائضہ سے مباشرت پہ ایک دینار صدقہ کا حکم نہیں ہوتا۔​
امام ترمذی نے اس روایت کی شرح میں لکھا ہے کہ یہ تغلیظ و تشدید پر محمول ہے کیونکہ حائضہ سے جماع پر ایک دینار کے صدقہ کا حکم ہے ۔​
ترمذی کی بھی روایت دیکھ لیں ۔​
جامع الترمذي: أَبْوَابُ الطَّهَارَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ إِتْيَانِ الْحَائِضِ)
حکم : صحیح (الألباني)
جامع ترمذی​
:
كتاب: طہارت کے احکام ومسائل​
(باب: حائضہ سے جماع کے جائزنہ ہونے کا بیان)
مترجم: ١. فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی ومجلس علمی(دار الدعوۃ، نئی دہلی)
137 . حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَبَهْزُ بْنُ أَسَدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا حَمَادُ بْنُ سَلَمَةِ عَنْ حَكِيمٍ الْأَثْرَمِ عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الهُجَيْمِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَتَى حَائِضًا أَوْ امْرَأَةً فِي دُبُرِهَا أَوْ كَاهِنًا فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَى لَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَكِيمٍ الْأَثْرَمِ عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَإِنَّمَا مَعْنَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى التَّغْلِيظِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَتَى حَائِضًا فَلْيَتَصَدَّقْ بِدِينَارٍ فَلَوْ كَانَ إِتْيَانُ الْحَائِضِ كُفْرًا لَمْ يُؤْمَرْ فِيهِ بِالْكَفَّارَةِ وَضَعَّفَ مُحَمَّدٌ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِهِ وَأَبُو تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ اسْمُهُ طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ​
137 . ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: 'جوکسی حائضہ کے پاس آیایعنی اس سے جماع کیا یاکسی عورت کے پاس پیچھے کے راستے سے آیا، یاکسی کاہن نجومی کے پاس (غیب کاحال جاننے کے لیے)آیا توا س نے ان چیزوں کا انکار کیا جو محمد (ﷺ) پر نازل کی گئی ہیں' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اہل علم کے نزدیک نبی اکرم ﷺکے اس فرمان کا مطلب تغلیظ ہے، نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : 'جس نے کسی حائضہ سے صحبت کی تو وہ ایک دینار صدقہ کرے، اگر حائضہ سے صحبت کا ارتکاب کفرہوتا تو اس میں کفارے کا حکم نہ دیا جاتا'، ۲- محمدبن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو سنداً ضعیف قراردیاہے ۔​
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
یہ حدیث ابوداؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں ہے ان الفاظ کے ساتھ ہے ۔
سنن أبي داؤد: كِتَابُ الكَهَانَةِ وَالتَطَيُّرِ (بَابٌ فِي الْكُهَّانِ)
حکم : صحیح (الألباني)

سنن ابو داؤد
:
کتاب: کہانت اور بدفالی سے متعلق احکام و مسائل
(باب: غیب کی باتیں بتانے والے ( کاہن ) کے پاس جانا)
مترجم: ١. فضیلۃ الشیخ ابو عمار عمر فاروق سعیدی (دار السلام)
3921 . حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ح و حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ حَكِيمٍ الْأَثْرَمِ عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَتَى كَاهِنًا قَالَ مُوسَى فِي حَدِيثِهِ فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ ثُمَّ اتَّفَقَا أَوْ أَتَى امْرَأَةً قَالَ مُسَدَّدٌ امْرَأَتَهُ حَائِضًا أَوْ أَتَى امْرَأَةً قَالَ مُسَدَّدٌ امْرَأَتَهُ فِي دُبُرِهَا فَقَدْ بَرِئَ مِمَّا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ
3921 . سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جو شخص کسی کاہن کے پاس گیا جو غیب کی خبریں دیتا ہو اور پھر اس کی تصدیق کی ‘ یا اپنی بیوی کے پاس اس کے ایام حیض میں گیا ‘ یا اس کی دبر میں مباشرت کی تو وہ محمد ﷺ پر نازل کردہ دین سے بری ہوا ۔ “

اس حدیث کو پڑھیں اور دیکھیں اس میں تین چیزوں کا بیان ہے جن کے کرنے پر شریعت محمدیہ کی برأت کی بات کی گئی ہے ۔یہاں برأت سے مراد کفر اکبر نہیں ہے جس سے آدمی دین سے خارج ہوجاتا ہے ۔ اگر ایسی بات ہوتی تو حائضہ سے مباشرت پہ ایک دینار صدقہ کا حکم نہیں ہوتا۔

امام ترمذی نے اس روایت کی شرح میں لکھا ہے کہ یہ تغلیظ و تشدید پر محمول ہے کیونکہ حائضہ سے جماع پر ایک دینار کے صدقہ کا حکم ہے ۔


ترمذی کی بھی روایت دیکھ لیں ۔

جامع الترمذي: أَبْوَابُ الطَّهَارَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ إِتْيَانِ الْحَائِضِ)
حکم : صحیح (الألباني)
جامع ترمذی
:
كتاب: طہارت کے احکام ومسائل
(باب: حائضہ سے جماع کے جائزنہ ہونے کا بیان)
مترجم: ١. فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی ومجلس علمی(دار الدعوۃ، نئی دہلی)
137 . حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَبَهْزُ بْنُ أَسَدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا حَمَادُ بْنُ سَلَمَةِ عَنْ حَكِيمٍ الْأَثْرَمِ عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الهُجَيْمِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَتَى حَائِضًا أَوْ امْرَأَةً فِي دُبُرِهَا أَوْ كَاهِنًا فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَى لَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَكِيمٍ الْأَثْرَمِ عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَإِنَّمَا مَعْنَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى التَّغْلِيظِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَتَى حَائِضًا فَلْيَتَصَدَّقْ بِدِينَارٍ فَلَوْ كَانَ إِتْيَانُ الْحَائِضِ كُفْرًا لَمْ يُؤْمَرْ فِيهِ بِالْكَفَّارَةِ وَضَعَّفَ مُحَمَّدٌ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِهِ وَأَبُو تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ اسْمُهُ طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ
137 . ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: 'جوکسی حائضہ کے پاس آیایعنی اس سے جماع کیا یاکسی عورت کے پاس پیچھے کے راستے سے آیا، یاکسی کاہن نجومی کے پاس (غیب کاحال جاننے کے لیے)آیا توا س نے ان چیزوں کا انکار کیا جو محمد (ﷺ) پر نازل کی گئی ہیں' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اہل علم کے نزدیک نبی اکرم ﷺکے اس فرمان کا مطلب تغلیظ ہے، نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : 'جس نے کسی حائضہ سے صحبت کی تو وہ ایک دینار صدقہ کرے، اگر حائضہ سے صحبت کا ارتکاب کفرہوتا تو اس میں کفارے کا حکم نہ دیا جاتا'، ۲- محمدبن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو سنداً ضعیف قراردیاہے ۔
جزاک اللہ
 
Top