• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل

جواب از شیخ مقبول احمد سلفی

1/ کیا دینی کام کے لئے جمعیت بنانا یا مدرسہ کھولنا ضروری ہے جبکہ سماج کی خدمات کے لئے دینی ادارے موجود ہیں ؟
جواب : دینی خدمات انجام دینے کے لئے نہ مدرسہ قائم کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کوئی ٹرسٹ بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت اکثر وبیشتر جگہوں پر کئی کئی مدارس اور ادارےقائم ہیں ۔ جوادارہ مخلصانہ طور پر سماجی خدمات انجام دے رہاہو اس ادارے سے جڑ کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثر لوگوں میں کسی کے ساتھ مل کر کام کرنے کا جذبہ نہیں ملتا ،سبھی چاہتے کہ ان کا اپنا ادارہ ہو، وہ ادارے کا رئیس کہلائیں ۔ کام ہو نہ ہو نام اونچا رہے ۔ اسی سبب آج ہماری جماعت میں انتشار ہے۔ جہاں ضرورت ہو دینی خدمات انجام دینے کے لئے ادارہ قائم کرنا کوئی معیوب نہیں ہے لیکن بلاضرورت مالی منفعت کے حصول ، شہرت طلبی، دوسرے ادارے یا ذاتی رنجش کی وجہ سے ادارہ والوں کو نیچا ثابت کرنے کے لئے ادارے کا قیام خدمت نہیں فساد امت ہے ۔ جہاں جہاں ایسا فساد برپا ہو اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
2/ کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟
"علماء سے بغض رکھنے پر چار قسم کے عذاب "حضرت علیؓ فرماتےہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ: جب میری امت اپنے علماء سے بغض رکھنے لگے گی اور بازاروں کی عمارتوں کو بلند اور غالب کرنے لگے گی تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان پر چار قسم کے عذاب مسلط فرمادیں گے۔قحط سالی ہوگی حاکم وقت کی طرف سے مظالم ہوں گےحکام خیانت کرنے لگیں گےدشمنوں کے پےدرپے حملے ہوں گے۔ (فتاوی رحیمیہ 2/82-83، کتاب الایمان ، معاصی اور توبہ کا بیان )
جواب : یہ روایت مستدرکم حاکم میں بایں الفاظ موجود ہے ۔
إذا أبغضَ المسلِمونَ علماءَهُم ، وأظهَروا عمارةَ أسواقِهِم ، وتناكَحوا علَى جمعِ الدَّراهمِ ، رماهمُ اللهُ عزَّ وجلَّ بأربعِ خصالٍ : بالقَحطِ منَ الزَّمانِ والجَورِ منَ السُّلطانِ والخيانَةِ مِن ولاةِ الأحكامِ ، والصَّولةِ من العدوِّ(مستدرک حاکم : 7923)
اسے شیخ البانی نے منکر کہا ہے ۔ ( السلسلة الضعيفة:1528)

3/ کیا حاملہ اور مرضعہ پر روزوں کی قضا نہیں ہے ؟
جواب : دودھ پلانے والی عورت اور حاملہ عورت کو جب اپنے لئے یا بچے کےلئے روزہ کے سبب خطرہ لاحق ہو تو روزہ چھوڑ سکتی ہے ۔ بلاضرر روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے ۔ نبی ﷺ کے اس فرمان کا یہی مطلب ہے ۔
إنَّ اللَّهَ عزَّ وجلَّ وضعَ للمسافرِ الصَّومَ وشطرَ الصَّلاةِ ، وعنِ الحُبلَى والمُرضِعِ( صحيح النسائي:2314)
ترجمہ: اللہ تعالی نے مسافر کے لئے آدھی نماز معاف فرما دی اور مسافر اور حاملہ اور دودھ پلانے والی کو روزے معاف فرما دیئے۔
جب عذر کی وجہ سے عورت روزہ چھوڑدے تو بعد میں اس کی قضا کرے۔حاملہ اور مرضعہ کے تعلق سے بعض اہل علم بوڑھےعاجز شخص پر قیاس کرکے چھوٹے روزوں کے بدلے مسکین کو کھانا کھلانا کہا ہے مگر حقیقت میں مریض و مسافر کا اعتبار کرکے روزوں کی قضا کرنی ہے یہی قوی موقف ہے جیساکہ اوپر والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ والی روایت حاملہ اور مرضعہ کی جانب سے کھانا کھلانے کے متعلق مرجوح قرار پائے گی۔

4/ کیا صحاح ستہ کے علاوہ مارکیٹ میں ایسی کوئی حدیث کی کتاب ہے جو تخریج شدہ ہو؟
جواب : آپ کا سوال سوشل میڈیا کے ذریعہ ہے اس لئے اسی مناسبت سے میرا جواب ہے کہ موبائل میں پلے اسٹور سے اسلام 360 لوڈ کرلیں ، اس میں صحاح ستہ کے علاوہ مسند امام احمد اور مشکوۃ کی تحقیق وتخریج کے ساتھ شیخ البانی ؒ کا سلسلہ صحیحہ بھی شامل ہے ۔
5/ کیا زندہ آدمی کی جانب سے عمرہ کرسکتے ہیں؟
جواب : زندہ آدمی کی طرف سے عمرہ اس صورت میں کر سکتے ہیں جب کسی کو عمرہ کرنے کی مالی طاقت ہو مگر جسمانی طور پر معذور ہو تو اس کی جانب سے عمرہ کرسکتے ہیں ، اور اسی طرح عورت کا محرم نہ ہو جو سفر میں ساتھ رہے تو اس کی جانب سے اور اس کے مال سے کرسکتے ہیں ۔ عمرہ بدل کے لئے ضروری ہے کہ آدمی پہلے اپنا عمرہ کرچکا ہو۔ لوگوں میں مشہور زندہ کی طرف سے طواف کرنا چاہئے غلط ہے۔
6/ قرآن میں مکمل پندرہ سجدے ہیں ۔ پارہ نمبر سترہ میں دو سجدے ہیں امام شافعی ؒ کے نزدیک جبکہ امام ابوحنیفہ ایک ہی مانتے ہیں اس وجہ سے احناف کے یہاں صرف چودہ سجدے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے ؟
جواب: احناف کی طرح شافعیہ کے نزدیک بھی چودے سجدے ہیں البتہ سورہ حج میں شافعیہ کے نزدیک دو سجدے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایک سجدہ ہے ۔
اہل الحدیث پندرہ سجدے مانتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ابوداؤد میں حدیث ہے ۔
‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَهُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَجْدَةً فِي الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهَا ثَلَاثٌ فِي الْمُفَصَّلِ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي سُورَةِ الْحَجِّ سَجْدَتَانِ (سنن ابی داؤد: 1401)
ترجمہ: عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قرآن مجید میں (۱۵) سجدے پڑھائے: ان میں سے تین مفصل میں اور دو سورۃ الحج میں ۔
اس حدیث کو امام نووی نے الخلاصہ میں حسن ، ابن الملقن نے تحفۃ المحتاج میں صحیح یا حسن ، ابن القیم نے اعلام الموقعین میں صحیح اور صاحب تحفۃ الاحوذی نے حسن کہا ہے۔
حنفی کے مشہور عالم علامہ بدرالدین عینی نے بخاری کی شرح عمدۃ القاری میں مندرجہ ذیل روایت کو نقل کرکے صحیح کہا ہے۔
عن عمرِو بنِ العاصِ أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أقرأَهُ خمسَ عشرةَ سجدةً في القرآنِ العظيمِ مِنْهَا ثلاثةٌ في المُفَصَّلِ
(عمدة القاري:7/139 )
ترجمہ: عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قرآن مجید میں (۱۵) سجدے پڑھائے: ان میں سے تین مفصل میں۔
گویا حنفی عالم سے پندرہ سجدوں کا ثبوت مل رہا ہے اور سورہ حج میں دو سجدے ہونے کا صحیح حدیث سے ثبوت ملتا ہے ۔
ان عقبة بن عامر حدثه ، قال : قلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم : افي سورة الحج سجدتان ؟ قال : " نعم ، ومن لم يسجدهما فلا يقراهما ".
ترجمہ: عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا سورۃ الحج میں دو سجدے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں اور جو یہ دونوں سجدے نہ کرے وہ انہیں نہ پڑھے۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے حسن کہا ہے ۔( صحيح أبي داود: 1402)

7/ بعض اہل علم سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں:جب مجلس میں آدمی ایک بار رسول اللہ ﷺ پر درود بھیج دے تواس مجلس میں چاہے جتنی بار آپ کانام آئے ایک بار درود بھیج دینا ہر بار کے لیے کافی ہوگا؟ کیا یہ درست ہے؟
جواب : کسی طویل مجلس میں اگر بیٹھا جائے تو ایک بار کم ازکم نبی ﷺ پر درود پڑھنا ہی چاہئے خواہ آپ ﷺ کا اسم گرامی آئے یا نہ آئے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے:
أيُّما قومٍ جَلَسُوا ، فَأَطَالوا الجُلوسَ ، ثُمَّ تَفَرَّقُوا قبلَ أنْ يَذْكُرُوا اللهَ تعالى ، أوْ يُصلُّوا على نبيِّهِ كانَتْ عليهم تِرَةٌ مِنَ اللهِ ، و إنْ شاءَ عَذَّبَهُمْ ، و إنْ شاءَ غفرَ لهُمْ(صحيح الجامع:2738)
ترجمہ: جو لوگ کافی دیر کہیں بیٹھیں اور پھر اللہ کا ذکر کیے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے بغیر منتشر ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر حسرت رہے گی۔ اگر اللہ چاہے تو انہیں عذاب کرے گا اور چاہے تو انہیں معاف کر دے گا۔
اور مستحب ہے کہ آپ ﷺ کاجب جب نام لیا جائے ﷺ کہنا چاہئے اس کے بے شمار اجر ہیں ، جو اس میں بخیلی کرتا ہے وہ خیرکثیر سے محروم رہتا ہے۔ چونکہ آپ کے ذکر پر درود وسلام پڑھنا مستحب ہے اس لئے بسااوقات چھوٹ جائے یا بکثرت نام آنے پر کبھی کبھار پڑھ لے اور کبھی ترک ہوجائے کوئی حرج نہیں ہےتاہم ہماری کوشش یہی ہو کہ جب جب اسم نبی آئے درود پڑھیں ۔

8/ کیا ایسی کوئی حدیث ہے کہ اللہ کا اتنا ذکر کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہیں ؟
جواب : ہاں ایسی حدیث موجود ہے" أَكثِروا ذكرَ اللهِ حتى يقولوا : مجنونٌ"
ترجمہ: اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ لوگ یوانہ کہنے لگیں ۔
تخریج : (مسند أحمد:3/ 68 ، صحیح ابن حبان:3/ 99،مستدرك حاکم:1/ 677).
حکم : اس روایت کو شیخ البانی نے منکر کہا ہے۔ (السلسلة الضعيفة:7042)

9/ غربت کی وجہ سے جس کے والدین نے بچپن میں عقیقہ نہیں کیا تو کیا وہ شخص اپنا عقیقہ خود سے جوانی یا بڑھاپا میں کر سکتا ہے ؟
جواب : عقیقہ بعد میں بھی کر سکتے ہیں اس وجہ سے جب عقیقہ کرنے کی استطاعت ہوجائے کیا جاسکتا ہے ۔ جس کے والد نے اس کی طرف سے عقیقہ نہ کیا ہو وہ خود بھی اپنا عقیقہ کرسکتا ہے گوکہ یہ کام والد کے ذمہ تھا مگر ان کے پاس اس کی استطاعت نہیں تھی ۔
10/ حاجی حج کے دوران کب تک نماز قصر کرے گا؟
جواب : حاجی ایام حج میں منی ، مزدلفہ اور عرفات میں قصر کے ساتھ نماز ادا کریں گے یعنی یوم الترویہ سے لیکر ایام تشریق تک قصر کرنا ہے۔
11/ جو لوگ باہری ملک سے حج پہ آئے ہیں وہ ایک عمرہ کرنے کے بعد دوسرا عمرہ کے لئے مسجد عائشہ جائیں گے یا میقات پر؟
جواب : حج میں ایک ہی عمرہ ہوتا ہے جس حاجی نے اپنے حج کے لئے ایک عمرہ کرلیا ہے اسے دوبارہ عمرہ نہیں کرنا چاہئے ۔وہ حج شروع ہونے تک انتظار کریں اور اپنے اوقات طواف ، نفلی عبادات ، تلاوت واذکار اور دعاو استغفار میں گزاریں ۔
12/ حضرت علی کا بتلایا دماغ تیز کرنے کا وظیفہ یا علیم یااللہ کیسا ہے ؟
جواب : انٹرنیٹ پہ بڑے پیمانے پر یہ بات پھیلی ہوئی ہے کہ ایک سائل حضرت علی کی خدمت میں آیا اور بھولنے کی شکایت کیا تو آپ نے اس سے کہا رزق حلال کھاؤ اور اس پر ایک مرتبہ یاعلیم یااللہ کہو تمہارا دماغ تیز ہوجائے گا اور فجرکی نمازکے بعد آسمان کی طرف دیکھ کے یاعلیم یااللہ کا ورد کرکے دعا کرو باتیں کبھی نہیں بھولو گے ۔ اس قصہ کو بیان کرکے پھر ایک وظیفہ تیار کیا جاتا ہے اول وآخر سات بار درود شریف پڑھا جائے اور 33 بار یاعلیم یااللہ کا ورد کیا جائے ۔ دس دن تک یہ عمل ہو تاکہ 330 کی تعداد مکمل ہوجائے ۔ کوئی چاہے تو یہ عمل ایک دن یا پانچ دن میں بھی کرسکتا ہے لیکن 330 کی تعداد مکمل کرنی ہے۔ بچوں کو بھی مٹھائی وغیرہ پہ پڑھ کر کھلاسکتے ہیں ۔
اس وظیفہ کا قرآن وحدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے ، یہ بناوٹی ہے اور بدعتی کام ہے ۔ اس سے بجائے قوت حافظہ تیز ہونے کے گناہ ملے گا کیونکہ ہمیں اللہ تعالی نے اور اس کے پیغمبر محمد ﷺ نے ایسا کوئی وظیفہ نہیں بتلایا ہے ۔ دین نام ہے جو کچھ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ میں ہے۔
 
Top