• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل

جوابات از شیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)

سوال(1):کیا عشاء کی نماز کے بعد بغیر سنت پڑھے وتر کی نماز پڑھ سکتے ہیں ؟
جواب : سنن رواتب کی بڑی اہمیت ہے ، نبی ﷺ ان پہ محافظت برتتے تھے اسی سبب یہ سنت مؤکدہ کہلاتی ہیں لہذا ہمیں بھی نبی ﷺ کا اسوہ اپناتے ہوئے پنچ وقتہ نمازوں کی سنن رواتب پہ ہمیشگی برتنی چاہئے ۔ اگر کبھی سنتیں چھوٹ جائے تو اس پہ گناہ نہیں ہے بلکہ ان کے اجر سے محرومی ہے۔ عشاء کی نماز کے بعد کسی نے سنت چھوڑ کےوتر پڑھ لیا تو اپنی جگہ اس کی عشاء نماز بھی درست اور وتر کی بھی نماز درست ہے ، تاہم سنت پڑھنے کا جو اجر تھا وہ اس سے ضائع ہوگیا مگر پھر بھی وہ گنہگار نہیں کہلائے گا۔
سوال(2):کیا بیوی شوہر کے مال سے زکوہ کا پیسہ اپنے والدین کو دے سکتی ہے ؟
جواب : بلاشبہ ایک شخص زکوۃ کے مال سےاپنے سسراور ساس کی مدد کر سکتا ہے ، یہ تعاون دامادکی جانب سے سسر اور ساس کے واسطے ہوگا ۔ شوہر کے مال سے زکوۃ کی رقم بیٹی اپنے ہاتھوں سے اپنے والدین کودیتی ہے تواس میں کوئی حرج نہیں، زکوۃ دینے والا تواصل اس کا شوہر ہے بیوی محض پہنچانے والی ہے۔ ہاں جب بیوی اپنے مال سے زکوۃ نکالے تو وہ اپنے والدین کو نہیں دے سکتی ، اولاد کو اصل مال(غیرزکوۃ) سے والدین پر خرچ کرنا چاہئے۔
سوال(3):بجاج فائننس یا کوئی اور فائننس کمپنی کا زیرو پرسینٹ والا ای ایم آئی والا لون لینا کیسا ہے؟
جواب : سودی کاروبار والے بنکوں اور کمپنیوں سے لون لینا سود کے کام پر تعاون ہے اس وجہ سے زیرو پرسینٹ پر بھی سودی کاروبار والے فائننس کمپنیوں سے لون نہیں لے سکتے۔
سوال(4) : طلاق تفویض کی کیا حقیقت ہے ؟
جواب : مسلم معاشرہ میں ایک غلط رواج نکل پڑا ہے ، بعض جگہوں پرنکاح نامہ میں تحریر ہوتا ہےکہ کیا شوہر نے اپنی بیوی کو طلاق کا حق تفویض کیا یعنی طلاق کا حق سونپ دیا؟ اس سوال کا جواب ہاں یا نہیں میں دینا ہوتا ہے ۔ جس نے ہاں کردیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب بیوی کو اختیار ہے،اپنے شوہر کو جب چاہے طلاق دے سکتی ہے ۔ اس غلط رواج کی وجہ سے لوگوں میں طلاق تفویض کے واقعات ہورہے ہیں ۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں طلاق دینا مرد کا حق ہے وہ اگر نکاح نامہ پر طلاق تفویض کا اقرار بھی کرلے تو طلاق کا حق عورت کو نہیں ملے گا اور اس طرح سے دی گئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اللہ اور اس کے رسول نے فیصلہ کردیا ہے کہ طلاق مرد کا حق ہے ۔ فرمان الہی ہے: لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ(البقرة:236)
ترجمہ:تم پر کوئی گناہ نہیں ہے اگر تم نے عورت کو طلاق دے دیا۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے:أيُّما امرأةٍ سألَت زَوجَها الطَّلاقَ في غيرِ ما بأسٍ ، فحرامٌ علَيها رائحةُ الجنَّةِ(صحيح ابن ماجه:2055)
ترجمہ:جس کسی عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا، تو اس پہ جنت کی خوشبو حرام ہے۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے:يا أيُّها النَّاسُ ، ما بالُ أحدِكم يزوِّجُ عبدَهُ أمتَهُ، ثمَّ يريدُ أن يفرِّقَ بينَهما؟َ إنَّما الطَّلاقُ لمن أخذَ بالسَّاق.(صحيح ابن ماجه:1705)
ترجمہ: لوگو! تمہارا کیا حال ہے کہ تم میں سے ایک شخص اپنے غلام کا نکاح اپنی لونڈی سے کر دیتا ہے، پھر وہ چاہتا ہے کہ ان دونوں میں جدائی کرا دے، طلاق تو اسی کا حق ہے جو عورت کی پنڈلی پکڑے۔
قرآن کی آیت سے معلوم ہوا کہ طلاق دینے والا مرد ہوتا ہے کیونکہ اللہ نے مرد کو خطاب کیا ہے اور پہلی حدیث سے معلوم ہوا کہ بیوی بلاوجہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ نہیں کرے گویا طلاق مرد کا ہی حق ہے اور اسی طرح دوسری حدیث سے معلوم ہورہا ہے کہ مرد کے ہی اختیار میں طلاق کا حق ہے کیونکہ وہی بیوی کے اعضائے مستورہ یعنی پنڈلی وغیرہ کو دیکھ اور چھو سکتا ہے۔ گوکہ اس میں غلام ولونڈی کا ذکر ہے کہ مالک ہی لونڈی کی شادی کسی غلام سے کرسکتا ہے مگر طلاق کا قانون غلام وآزاد دونوں کے لئے یکساں ہے یعنی جس طرح طلاق کا اختیار مالک کو نہیں ہے کہ وہ شادی شدہ غلام ولونڈی میں تفریق کرے اسی طرح بیوی کو بھی نہیں ہے،یہ حق شوہر کا ہے۔

سوال (5): پراویڈنٹ فنڈ سے حج وعمرہ کرنا کیسا ہے ؟
جواب : رٹائرمنٹ پہ ملنے والی رقم کو پراویڈنٹ یا جی پی فنڈ کہتے ہیں ۔ یہ دراصل حکومت کی جانب سے ملازمین کے لئے ان کی عمر کے آخری وقت میں بطور انعام وعطیہ ہوتی ہےاس کے لینے میں ، اس سے فائدہ اٹھانے میں اور اس رقم سے حج وعمرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ تنخواہ سے کٹوتی ہونے والی معمولی رقم کے عوض خطیر رقم لینا سود میں داخل ہے، اسی طرح یہ شبہ بھی کہ حکومت کٹوتی والی رقم کو سودی کاروبار میں لگاتی ہے اسی سے رٹائرمنٹ پہ معاوضہ دیتی ہے۔ اس پہ عرض یہ ہے کہ حکومت کا ملازم کے ساتھ رٹائرمنٹ پہ حق خدمت دینا طے ہوتا ہے جس طرح حکومت سے ہماری تنخواہیں طے ہوتی ہیں۔ حکومت کے پاس ہزاروں ذرائع آمدنی حرام اور سودکے ہیں کیا ہم تنخواہیں نہیں لیتے ؟
پنشن کے جواز سے متعلق اپنے ایک فتوی میں شیخ محمد بن صالح المنجد نے کئی اقوال ذکر کئے ہیں ۔شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ پر ملنے والی پنشن میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر وہبہ زحیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں: مذکورہ جتنی جانب سے بھی رقوم جمع ہوئی ہیں انہیں سود کی نظر سے نہیں دیکھا جائے گا کہ ملازم یا مزدور نے کم پیسے دیکر زیادہ وصول کیے ہیں کیونکہ ملازم یا مزدور کو ملنے والی یہ رقم حقیقت میں مالی تعاون ، عطیہ یا تحفہ ہے۔اسلامی فقہ اکیڈمی کی قرار دادوں میں یہ بھی ہے کہ ریٹائرمنٹ کے وقت دی جانے والی رقم کا حکومت پہلے ہی اقرار کر چکی ہوتی ہے کہ یہ رقم اس نے اپنی رعایا کو دینی ہے کیونکہ حکومت رعایا کی ذمہ دار ہے۔(بحوالہ الاسلام سوال وجواب، رقم:243216)

سوال(6): شیطان کہاں کہاں انسان کو چیلنج کرتا ہے اور کہاں کہاں اسے امیدیں دلاتا ہے ؟
جواب: شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے اس لئے اسے دشمن سمجھیں اور ہمیشہ اس کےشر سے محتاط رہیں، اللہ کا فرمان ہے:
إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا
ۚ إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ (فاطر:6)
ترجمہ: بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے، تم اسے دشمن جانو۔وہ تو اپنے گروہ کو صرف اس لئے ہی بلاتا ہے تاکہ وہ سب جہنم واصل ہو جائیں۔
یہ شیطان ہمارے اوپر اس طرح مسلط نہیں ہے کہ نیکی کرنے پر ہاتھ پکڑلے یا ہمیں گھسیٹ کر برائی کی طرف لے جائے بلکہ وہ نیکی سے روکنے کے لئے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے اور برائی کے کرنے کی دعوت دیتا ہے، اس لئے اللہ نے ایسے موقع پر اپنی پناہ طلب کرنے کا حکم ہے، فرمان الہی ہے:
وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ
ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (فصلت:36)
ترجمہ:اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو، یقینا وہ بہت ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔
گناہ کرنے والا یہ نہ کہے کہ شیطان نے ہمیں پکڑ کر زبردستی گناہ کروایا ، شیطان تو ہمیں بس ورغلاتا ہے ،غلطی انسان کی ہے جو اس کے بہکاوے میں آتا ہے۔ شیطان جہنمیوں سے کہے گا:وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي
ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ(ابراھیم:22)
ترجمہ: میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا ہی نہیں ، ہاں میں نے تمہیں دعوت دی اور تم نے میری مان لی پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو۔
شیطان برائی کی دعوت لیکر ہمارے چاروں طرف سے حملہ کرتا ہے اور بہکانے کے واسطے ہر ایک حربہ استعمال کرتا ہے جس کا ذکر اللہ نے کیا ہے:ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ
ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ (الاعراف:17)
ترجمہ: پھر ان پر حملہ کروں گا ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی اور ان کی داہنی جانب سے بھی اوران کی بائیں جانب سے بھی اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پاؤگے۔
اعراف کی اس سے پہلی والی آیت میں اللہ فرماتا ہے: قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (الاعراف:16)
ترجمہ: اس نے کہا کہ بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراہ کیا ہے ، میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لئے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان ہمیں ہر نیکی کے کام سے بہکانے کی کوشش کرتا ہے ۔ ابن حبان ، الجامع الصغیر اور سنن نسائی وغیرہ میں اس کی کچھ تفصیل بھی ذکر ہے کہ شیطان اسلام سے اورجہاد سے کس طرح بہکاتا ہے؟۔ فرمان نبوی ہے:إنَّ الشَّيطانَ قعدَ لابنِ آدمَ بأطرُقِهِ ، فقعدَ لَهُ بطريقِ الإسلامِ۔
ترجمہ: شیطان انسان (کو گمراہ کرنے کے لیے اس) کے سب راستوں پر بیٹھتا ہے۔ وہ اس (کوگمراہ کرنے) کے لیے اسلام کے راستے پر بیٹھتا ہے۔
لمبی سی حدیث ہے ، اس میں آگے ہے : ثمَّ قعدَ لَهُ بطريقِ الجِهادِ ، فقالَ : تُجاهدُ فَهوَ جَهْدُ النَّفسِ والمالِ ، فتُقاتلُ فتُقتَلُ ، فتُنكَحُ المرأةُ ، ويُقسَمُ المالُ ، فعصاهُ فجاهدَ۔
ترجمہ: پھر شیطان اس کے سامنے جہاد کے راستے پر آکر بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ تو جہاد کرے گا؟ یہ تو جان ومال کی مشقت کا نام ہےپھر تو لڑائی کرے گا،تو مارا جائے گا۔ تیری عورت سے کوئی دوسرا شخص شادی کرلے گا اور تیرا مال وارثوں میں تقسیم کردیا جائے گالیکن مومن اس کی نافرمانی کرتا ہے اور جہاد کرتا ہے۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے۔(صحيح النسائي:3134)
تمام نصوص کو سامنے رکھتے ہوئے دولفظوں میں مذکورہ سوال کا جواب یہ بنتا ہے کہ ہر نیک کام کرنے میں شیطان کا چیلنج ہے اور ہربرائی میں شیطان کی مدد و امیدہے۔ اگر نیکی کی طرف آپ رغبت کریں گے تو شیطان اس سے روکنے کے لئے ہر قسم کا ہتھکنڈا اپنا سکتا ہے یعنی نیکی کے ہرراستے میں اس کا چیلنج ہے اور برائی کرنے جائیں گے تو شیطان تمام تر دلفریبیوں کے ساتھ ظاہر ہوگا اور برائی کی انجام دہی میں مدد دے کر لمبے وعدے اوراچھی امیدیں دلائےگا۔ اللہ کا فرمان ہے: يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ
ۖ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا (النساء:120)
ترجمہ: وہ ان سے وعدے کرتا رہے گا اور امیدیں دتالا رہے گا مگر یاد رکھو شیطان کے جو وعدے ان سے ہیں وہ سراسر فریب ہیں۔
اس وجہ سے شیطان سے حفاظت کے جو طریقے اسلام نے بتلائے ہیں انہیں اپنانا چاہئے۔

سوال(7) : جمعہ کا خطبہ کوئی اور دے اور نماز جمعہ کوئی اور پڑھائے سلف سے ایسی کوئی مثال ملتی ہے اور ہمارے لئے اس مسئلہ میں کہاں تک گنجائش ہے؟
جواب : سنت تو یہی ہے کہ جو خطبہ دے وہی جمعہ کی نماز پڑھائے کیونکہ نبی اکرم ﷺ سے اسی کا ثبوت ملتا ہے اور اسی سنت پر اسلاف کا عمل رہاہے مجھے اس کے برخلاف کوئی ثبوت نہیں معلوم ہے لیکن اگر ایک شخص نے خطبہ دیا اور دوسرے سے نماز پڑھائی تو اس کا جواز بھی علماء نے ذکر کیا ہے، ان میں امام احمد اور شیخ ابن باز بھی ہیں۔
سوال (8): اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی کس طرح نماز ادا کرے؟
جواب : بہتر ہے کہ مریض امامت نہ کرائے تاکہ اس مریض کو اور اس کے پیچھے دیگر نمازی کو تکلیف نہ ہوتاہم اس کی امامت میں نماز جائز ہے۔ جب کوئی امام کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے تو اس کے پیچھے نمازی بھی بیٹھ کر نماز پڑھے کیونکہ مقتدی کوامام کی متابعت کا حکم دیا گیا ہے۔نبی ﷺکا فرمان ہے : وإذا صلى قاعدًا فصلوا قعودًا أجمعون(صحيح مسلم:411)
ترجمہ: اور جب امام نماز بیٹھ کر پڑھائے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔
بعض علماءمقتدی کےلئے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کے قائل ہیں مگر قوی موقف بیٹھ کر پڑھنا ہی جیساکہ فرمان رسول سے ظاہر ہوتا ہے البتہ مقتدی نے کھڑے ہوکر بھی نماز ادا کرلی تو اس کی نماز صحیح ہے۔

سوال(9): آپ کا ایک مضمون قطع تعلق سے متعلق پڑھا بڑا جامع اور مؤثر ہے ، اس کی روشنی میں میرا یہ سوال ہے کہ کیا بدعتی اور مشرک رشتہ داروں سے بھی قطع تعلق نہیں کرسکتے ؟
جواب : فسق وفجور اور شرک وبدعت کرنے والوں سے قطع تعلق کرسکتے ہیں ، یہ تو دین کے واسطے ہوا اور رشتہ داروں سے قطع تعلق کی جوممنوع صورت ہے وہ ذاتی غر ض اور دنیاوی منفعت کے سبب ہے۔ کوئی اللہ کی رضا کے لئے اہل شرک وبدعت سے مقاطعہ کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔
سوال(10) : میں باہر گھوم کر کام کرنے والا ہوں ، نماز کے وقت عموما بریلویوں کی مسجد ملتی ہے کیا اس میں جماعت کےساتھ نماز پڑھوں یا اکیلے؟
جواب : بریلویوں کے عقائد گمراہ کن ہیں اور کھلے طور پر شر ک وبدعت کا ارتکاب کرتے ہیں ، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ اکیلے پڑھی جائے۔ اور اگر وہ وہابی سمجھ کر اپنی مسجد میں گھسنے نہیں دیتے جیساکہ بہت ساری جگہوں پر ایسا ہوتا ہے تو اللہ نے ساری زمین مسجد بنادی ہے، مسجد سے باہر کسی بھی جگہ اپنی نماز ادا سکتے ہیں خواہ گھر ہو، ہوٹل ہو،گاڑی ہو، دوکان ہویا کھلی زمین ہو۔
 
Top