نجیب اللہ خاں ایاؔز
مبتدی
- شمولیت
- ستمبر 28، 2017
- پیغامات
- 18
- ری ایکشن اسکور
- 0
- پوائنٹ
- 6
مفردات امام راغب ؒ جو اہل علم میں قرآن کریم کی معتبر اور مستند لغت کی کتاب مانی جاتی ہے اس میں لفط ’ختم‘ کے اصل اور مجازی معانوں کے بارہ میں امامؒ فرماتے ہیں:
’’الخَتْمُ والطَّبْع: يقال على وجهين: مصدر خَتَمْتُ وطبعت ، وهو تأثير الشئ كنقش الخاتم والطابع . والثاني: الأثر الحاصل عن النقش ، ويتجوز بذلك تارةً في الإستيثاق من الشئ والمنع منه ، اعتباراً بما يحصل من المنع بالختم على الكتب والأبواب ، نحو: خَتَمَ اللهُ عَلى قُلُوبِهِمْ «البقرة: 7 » وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ «الجاثية: 23 » .وتارةً في تحصيل أثر عن شئ ، اعتباراً بالنقش الحاصل . وتارةً يُعتبر منه بلوغ الآخر ، ومنه قيل:ختمت القرآن ، أي انتهيت إلى آخره .‘‘
ترجمہ: (اصل معانی ) الختم اور الطبع : کے لفظ دو طرح استعمال ہوتے ہیں کبھی تو ختمتُ اور طبعتُ کے مصدر ہوتے ہیں اور اس کے معنیٰ
(1)کسی چیز پر مہر کی طرح نشان لگاناکے ہیں۔اور کبھی
(2)اس نشان کو کہتے ہیں جو مہر لگانے سے بن جاتا ہے ۔
(مجازی معانی) مجازاً (3)کبھی اس سے کسی چیز کے متعلق وثوق حاصل کر لینا اور اسکو محفوظ کر لینا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے کتابوں یا دروازوں پر مہر لگا کر انہیں محفوظ کر دیا جاتا ہے کہ کوئی چیز ان کے اندر داخل نہ ہو۔ قرآن کریم میں ہے :’’خَتَمَ اللهُ عَلى قُلُوبِهِمْ «البقرة: 7 »اللہ نے انکے دلوں پر مہر لگا دی وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ «الجاثية: 23 »اسکے کانوں پر اور دل پر مہر لگا دی ۔
(4) کبھی کسی چیز کا اثر حاصل کر لینے کی طرف اشارہ ہوتا ہے جیسا کہ مہر سے نقش ہو جاتا ہے اور اسی سے ختمت القرآن کا محاورہ ہے یعنی قرآن پاک ختم کر لیا۔
اس سے ’خاتَم النبیین ‘ کے ’’اصلی ‘‘ لغوی معانی ہوئے۔(ا) نبیوں پر مہر لگا کر اپنی چھاپ چھوڑنے والے۔ (ب)وہ نشان جو ہر نبی پر لگا ہو۔
ان معانوں کی رُو سے بہت خوبصورت تشریح آپ ؐ کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپؐ نے فرمایا’’إني عند الله مكتوب: خاتم النبيين وإن آدم لمنجدل في طينته‘‘ (مسند احمد ، مشکوٰۃ، مستدرک، ترمذی و غیرہ ) ترجمہ: میں تو اللہ کے حضور تب سے خاتم النبیین ہوں جب کہ آدم کا خمیر ابھی مٹی سے بن رہا تھا ۔ یعنی آپؐ بطور خاتم تب سے تھے جب کہ ابھی سلسلہ نبوت شروع بھی نہ ہوا تھا ۔ سبحان اللہ ۔تو مراد یہ ہوئی کہ ہر نبی پر آپؐ کی ہی مہر لگی اور ہر نبی آپؐ ہی کا نقش لے کر دنیا میں آیا۔
اس لحاظ سے جو معانی عموماً کئے جاتے ہیں کہ ختم کے معانی اس مہر کے ہیں جو لفافہ پر اس لئے لگائی جائے کہ کوئی چیز نہ اندر جا سکے نہ باہر آ سکے ’ختم ‘ کے اصلی معانی نہیں بلکہ مجازی معانی ٹھہرتے ہیں۔ اصل معانی وہی ہیں کہ جس نبی پر بھی آپکی مہر نہیں وہ نبی نہیں اور جس پر آپکی مہر ہے وہی نبی ٹھہرے گا وہ ماضی میں آ چکا ہو یا مستقبل میں آنے والا ہو۔ اس کلام سے نبی ؐ کی شان کا اندازہ لگائیں کہ آپؐ گویا انبیاء بنانے والے ہیں ۔ جیسا کہ جب کوئی کمپنی اپنا کوئی پراڈکٹ تیار کر لیتی ہے تو اس پر اپنی کمپنی کی مہر لگا دیتے ہیں تاکہ گاہک کو پتہ چل جائے کہ یہ اصل ہے اور وہ نقلی چیز میں امتیاز کر سکے ۔
دوسرا پہلو :
لفظ ’خاتَم ‘ اسم آلہ ہے جسکے معانی ہیں نشان لگانے کا ذریعہ یعنی مہر ۔ اور ’خاتِم ‘اسم فاعل ہے جسکے معانی ہیں نشان لگانے والا یعنی مہر لگانے والا۔لغتِ عربی اور عربی محاورہ کی کی رُو سے جب اسم آلہ (جیسا کہ آیت میں ’خاتَم‘ آیا ہے ) جمع کی طرف (جیسا کہ آیت میں ’النبیین ‘ جمع کا صیغہ ہے ) مضاف کیا جائے تو اسکے معانی ہونگے نبیوں پر چھاپ چھوڑنے والا ایسا نبی جسکی تاثیر سےانبیاء ظہور میں آئیں۔ ایسے نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ مرتبہ میں سب سے بڑھ کر ہو اور افضل ترین ہو۔ یعنی خاتَم ہونا مقام مدح ہے ۔
حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ کے نزدیک بھی آپؐ کی خاتمیت مرتبہ کے لحاظ سے تھی نہ کہ زمانی فرماتے ہیں :-
عوام کے خیال میں تو رسول اللہ ؐ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپؐ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپؐ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل علم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخّر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں ولٰکن رسول اللہ و خاتَم النبیین فرمانا اس صورت (یعنی آپؐ کو زمانی طور پر آخری ماننا ) میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے ۔(تحذیر الناس صفحہ 3 )
’’الخَتْمُ والطَّبْع: يقال على وجهين: مصدر خَتَمْتُ وطبعت ، وهو تأثير الشئ كنقش الخاتم والطابع . والثاني: الأثر الحاصل عن النقش ، ويتجوز بذلك تارةً في الإستيثاق من الشئ والمنع منه ، اعتباراً بما يحصل من المنع بالختم على الكتب والأبواب ، نحو: خَتَمَ اللهُ عَلى قُلُوبِهِمْ «البقرة: 7 » وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ «الجاثية: 23 » .وتارةً في تحصيل أثر عن شئ ، اعتباراً بالنقش الحاصل . وتارةً يُعتبر منه بلوغ الآخر ، ومنه قيل:ختمت القرآن ، أي انتهيت إلى آخره .‘‘
ترجمہ: (اصل معانی ) الختم اور الطبع : کے لفظ دو طرح استعمال ہوتے ہیں کبھی تو ختمتُ اور طبعتُ کے مصدر ہوتے ہیں اور اس کے معنیٰ
(1)کسی چیز پر مہر کی طرح نشان لگاناکے ہیں۔اور کبھی
(2)اس نشان کو کہتے ہیں جو مہر لگانے سے بن جاتا ہے ۔
(مجازی معانی) مجازاً (3)کبھی اس سے کسی چیز کے متعلق وثوق حاصل کر لینا اور اسکو محفوظ کر لینا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے کتابوں یا دروازوں پر مہر لگا کر انہیں محفوظ کر دیا جاتا ہے کہ کوئی چیز ان کے اندر داخل نہ ہو۔ قرآن کریم میں ہے :’’خَتَمَ اللهُ عَلى قُلُوبِهِمْ «البقرة: 7 »اللہ نے انکے دلوں پر مہر لگا دی وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ «الجاثية: 23 »اسکے کانوں پر اور دل پر مہر لگا دی ۔
(4) کبھی کسی چیز کا اثر حاصل کر لینے کی طرف اشارہ ہوتا ہے جیسا کہ مہر سے نقش ہو جاتا ہے اور اسی سے ختمت القرآن کا محاورہ ہے یعنی قرآن پاک ختم کر لیا۔
اس سے ’خاتَم النبیین ‘ کے ’’اصلی ‘‘ لغوی معانی ہوئے۔(ا) نبیوں پر مہر لگا کر اپنی چھاپ چھوڑنے والے۔ (ب)وہ نشان جو ہر نبی پر لگا ہو۔
ان معانوں کی رُو سے بہت خوبصورت تشریح آپ ؐ کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپؐ نے فرمایا’’إني عند الله مكتوب: خاتم النبيين وإن آدم لمنجدل في طينته‘‘ (مسند احمد ، مشکوٰۃ، مستدرک، ترمذی و غیرہ ) ترجمہ: میں تو اللہ کے حضور تب سے خاتم النبیین ہوں جب کہ آدم کا خمیر ابھی مٹی سے بن رہا تھا ۔ یعنی آپؐ بطور خاتم تب سے تھے جب کہ ابھی سلسلہ نبوت شروع بھی نہ ہوا تھا ۔ سبحان اللہ ۔تو مراد یہ ہوئی کہ ہر نبی پر آپؐ کی ہی مہر لگی اور ہر نبی آپؐ ہی کا نقش لے کر دنیا میں آیا۔
اس لحاظ سے جو معانی عموماً کئے جاتے ہیں کہ ختم کے معانی اس مہر کے ہیں جو لفافہ پر اس لئے لگائی جائے کہ کوئی چیز نہ اندر جا سکے نہ باہر آ سکے ’ختم ‘ کے اصلی معانی نہیں بلکہ مجازی معانی ٹھہرتے ہیں۔ اصل معانی وہی ہیں کہ جس نبی پر بھی آپکی مہر نہیں وہ نبی نہیں اور جس پر آپکی مہر ہے وہی نبی ٹھہرے گا وہ ماضی میں آ چکا ہو یا مستقبل میں آنے والا ہو۔ اس کلام سے نبی ؐ کی شان کا اندازہ لگائیں کہ آپؐ گویا انبیاء بنانے والے ہیں ۔ جیسا کہ جب کوئی کمپنی اپنا کوئی پراڈکٹ تیار کر لیتی ہے تو اس پر اپنی کمپنی کی مہر لگا دیتے ہیں تاکہ گاہک کو پتہ چل جائے کہ یہ اصل ہے اور وہ نقلی چیز میں امتیاز کر سکے ۔
دوسرا پہلو :
لفظ ’خاتَم ‘ اسم آلہ ہے جسکے معانی ہیں نشان لگانے کا ذریعہ یعنی مہر ۔ اور ’خاتِم ‘اسم فاعل ہے جسکے معانی ہیں نشان لگانے والا یعنی مہر لگانے والا۔لغتِ عربی اور عربی محاورہ کی کی رُو سے جب اسم آلہ (جیسا کہ آیت میں ’خاتَم‘ آیا ہے ) جمع کی طرف (جیسا کہ آیت میں ’النبیین ‘ جمع کا صیغہ ہے ) مضاف کیا جائے تو اسکے معانی ہونگے نبیوں پر چھاپ چھوڑنے والا ایسا نبی جسکی تاثیر سےانبیاء ظہور میں آئیں۔ ایسے نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ مرتبہ میں سب سے بڑھ کر ہو اور افضل ترین ہو۔ یعنی خاتَم ہونا مقام مدح ہے ۔
حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ کے نزدیک بھی آپؐ کی خاتمیت مرتبہ کے لحاظ سے تھی نہ کہ زمانی فرماتے ہیں :-
عوام کے خیال میں تو رسول اللہ ؐ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپؐ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپؐ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل علم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخّر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں ولٰکن رسول اللہ و خاتَم النبیین فرمانا اس صورت (یعنی آپؐ کو زمانی طور پر آخری ماننا ) میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے ۔(تحذیر الناس صفحہ 3 )