• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آیت ِتحکیم کی صحیح تفسیر اور حکمرانوں کی غلط تکفیر : فضیلۃ الشیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم

آیت ِتحکیم کی صحیح تفسیر اور حکمرانوں کی غلط تکفیر

فضیلۃ الشیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ


" وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ )، و ( الظَّالِمُونَ )، و ( الْفَاسِقُونَ )[المائدۃ: 45،46،47]


یہ تمام آیتیں کافروں کے حق میں نازل ہوئی ہیں، جیسا کہ اس کے شان نزول میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث[1]ہے ۔ ایک مسلمان کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے کافر نہیں ہوتا۔ بعض نے کہا کہ اس کلام میں اضمار ہے اسی لئے پورے کلام کو اس طرح سمجھنا چاہیے:


"ومن لکم یحکم بما انزل اللہ ردا للقرآن وجحرا لقول الرسول ﷺ فھو کافر"

’’جو شخص قرآن کریم کا رد اور رسول اللہ ﷺ کے قول کا انکار یا بالکل ترک کرتے ہوئے اللہ تعالی کےنازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کرے تو وہ کافر ہے۔‘‘

یہی قول ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔

چنانچہ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابیحاتم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:


"ومن لم یحکم بما انزل اللہ فقد کفر ومن اقر بہ ولم یحکم بہ فھو ظالم فاسق"۔

’’ جو اللہ تعالی کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو وہ کافر ہے لیکن جو حکم الہی کا اقرار تو کرتا ہے مگر (کسی مجبوری کے سبب)اس کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو وہ ظالم اور فاسق ہے۔‘‘

یعنی کافر نہیں ہے۔ سعید بن منصور، فریابی، ابن منذر، ابن ابی حاتم، حاکم اور بیہقی میں انہی سے روایت ہے کہ ان تینوں آیتوں میں اصل کفر یا ظلم یا فسق مراد نہیں یعنی کفر سے کم تر کفر جس سے خروج عن الملۃ(ملت اسلامیہ سے خروج) نہیں ہوتا، ظلم سے کم تر ظلم اور فسق سے کم ترفسق مراد ہے۔
(در منثور، ص ٢٨٦، ج ٢)


ابن جریر ،ص:256، ج:6میں امام طاؤوس رحمۃ اللہ علیہسے روایت لاتے ہیں کہ
"لیس بکفر ینقل عن الملۃ" یعنی ’’یہ وہ کفر نہیں جو(ملت اسلامیہ) سے خارج کرتا ہے۔‘‘ اس اعتبار سے آیت عام ہے۔


ابن مسعودرضی اللہ عنہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :


’’یہ آیتیں سب کے لئے عام ہیں، خواہ مسلمان ہوں یا اہل کتاب اس معنی کے اعتبار سے تو جو کوئی بھی غیراللہ کے حکم کے صحیح ہونے کا اعتقاد رکھے اور اس قانون کو حلال سمجھتا ہے تواس کے لئے یہ حکم ہے لیکن جو شخص اس کو حرام سمجھتے ہوئے بھی اس کا ارتکاب کرے تو وہ فاسق مسلمانوں میں سے ہے اور اس کا معاملہ اللہتعالی کے سپرد ہے چاہے تو اسے عذاب کرے یا چاہے تو بخش دے‘‘۔
[ القرطبی، ص:170، ج:6،تشریح کے ساتھ]

ناظرین! اللہ تعالی کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ جسے امام ذہبی نے’’ الکبائر‘‘ ، ص :146، کبیرہ:31،میں بیان کیا ہے۔ لیکن کبیرہ گناہ کے بسبب کسی مسلمان کو اسلام سے خارج نہیں کہہ سکتے جبتک کہ وہ اپنے اس کئے گئے فعل کے صحیح ہونے یا برحق ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتا، بلکہ اسے غلط سمجھتا ہے لیکن کسی مجبوری کی وجہ سے قضاء الہی کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو وہ ظالم اور فاسق تو ضرور ہے مگر اسے کافر یا اسلام سےخارج نہیں کہہ سکتے۔

یہی اہل سنت کا اجماعی مسئلہ ہے جو شروع سے چلا آرہا ہے۔ لیکن خوارج ہر گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر کہتے ہیں جس کا بیان کچھ تو مقدمہ میں اور کچھ تفسیر فاتحہ کے اختتام باب:2 میں ہوا۔ وہ (خوارج) انہیں آیتوں سے استدلال کرتے ہیں اور دوسری طرف کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں، جیسا کہ اہل بدعت کا ہمیشہ سے یہی وطیرہ وطریقۂ کار رہا ہے۔ لیکن اہلسنت کہتے ہیں کہ کفر اور اسلام سے خارج ہونے کا حکم اس کے لئے ہے جو باوجود امکان کے اللہ تعالی کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرے یا پھر اس کے لئے اللہ تعالی کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنا ممکن نہ ہو مگر یہ اس صورت میں کہ وہ وضعی وخود ساختہ قانون کو برحق سمجھ کر اس کے مطابق فیصلہ کرے۔

اس نقطہ کو نا سمجھنے کی وجہ سے کتنے ہی بیچارے بے سمجھ لوگ، جن میں جوش تو بہت ہوتا ہے مگر ہوش کم، وہ بعض حکام پر اپنے گھر بیٹھے بیٹھے کفر کا فتویٰ لگانے کے لئےتیار ہوجاتے ہیں، جبکہ ان کے پاس حکومت کی باگ ڈور نہیں لہذا اس طرح کی جلدبازی صحیح نہیں۔ کیونکہ کفر کا فتویٰ لگانا بہت خطرناک کام ہے جس کا ذکر حدیث میں آیا ہے کہ:

"ایما امریء قال لاخیہ کافر فقد باء بھا احدھما ان کان کما قال والا رجعت علیہ."
(مسلم، ص:57، ج:1 شرح نووی کے ساتھ)

رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ:

’’ جس نے اپنے بھائی(مسلمان) کو کافر کہا تو اس کلمہ کا ان میں سے کوئی ایک مصداق بنے گا۔ اگر اس کا ایسا کہنا واقعی صحیح ہے تو فبہا ورنہ یہ فتوی خود اس کے سر لوٹ آئے گا۔‘‘


اسی لئے ایسے فیصلوں میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ بعض حالات میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ حکام شرعی فیصلوں کو برحق اور واجب الاتباع سمجھتے ہیں مگر کسی مجبوری کی وجہ سے اسے نافذ کرنے سے عاجز ہیں، حالانکہ وہ غیرشرعی فیصلے پر کسی قسم کا یقین نہیں رکھتے لیکن لاچار انہیں نافذ کرنا پڑتا ہے۔ ان کی نیت پر فوراً حملہ کرنا دانشمندی نہیں۔


اگرچہ وہ شرعی حکم نافذ نہیں کرسکتے لیکن مسلمانوں کو بہت سا فائدہ پہنچا سکتے اور ان کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ ان کی مخالفت کرکے انہیں ہٹانے سے دوسرے ذیادہ (بڑے) نقصانات کا اندیشہ ہے اسی لئے ہمارے دوستوں کو اس معاملے میں سنبھل کرقدم اٹھانا چاہیے۔

[بدیع التفاسیر جلد:7 تفسیر سورۂ مائدۃ ایڈیشن جنوری:1998،صفحہ:238]
فضیلۃ الشیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمۃ اللہ


[1]یہودیوں کا زانی کے سنگسار کی سزا کو بدل ڈالنے والے واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ [مترجم]
 

kh.is

مبتدی
شمولیت
جون 09، 2015
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
بسم اللہ الرحمن الرحیم

آیت ِتحکیم کی صحیح تفسیر اور حکمرانوں کی غلط تکفیر

فضیلۃ الشیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ


" وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ )، و ( الظَّالِمُونَ )، و ( الْفَاسِقُونَ )[المائدۃ: 45،46،47]


یہ تمام آیتیں کافروں کے حق میں نازل ہوئی ہیں، جیسا کہ اس کے شان نزول میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث[1]ہے ۔ ایک مسلمان کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے کافر نہیں ہوتا۔ بعض نے کہا کہ اس کلام میں اضمار ہے اسی لئے پورے کلام کو اس طرح سمجھنا چاہیے:


"ومن لکم یحکم بما انزل اللہ ردا للقرآن وجحرا لقول الرسول ﷺ فھو کافر"

’’جو شخص قرآن کریم کا رد اور رسول اللہ ﷺ کے قول کا انکار یا بالکل ترک کرتے ہوئے اللہ تعالی کےنازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کرے تو وہ کافر ہے۔‘‘

یہی قول ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔

چنانچہ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابیحاتم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:


"ومن لم یحکم بما انزل اللہ فقد کفر ومن اقر بہ ولم یحکم بہ فھو ظالم فاسق"۔

’’ جو اللہ تعالی کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو وہ کافر ہے لیکن جو حکم الہی کا اقرار تو کرتا ہے مگر (کسی مجبوری کے سبب)اس کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو وہ ظالم اور فاسق ہے۔‘‘

یعنی کافر نہیں ہے۔ سعید بن منصور، فریابی، ابن منذر، ابن ابی حاتم، حاکم اور بیہقی میں انہی سے روایت ہے کہ ان تینوں آیتوں میں اصل کفر یا ظلم یا فسق مراد نہیں یعنی کفر سے کم تر کفر جس سے خروج عن الملۃ(ملت اسلامیہ سے خروج) نہیں ہوتا، ظلم سے کم تر ظلم اور فسق سے کم ترفسق مراد ہے۔
(در منثور، ص ٢٨٦، ج ٢)


ابن جریر ،ص:256، ج:6میں امام طاؤوس رحمۃ اللہ علیہسے روایت لاتے ہیں کہ
"لیس بکفر ینقل عن الملۃ" یعنی ’’یہ وہ کفر نہیں جو(ملت اسلامیہ) سے خارج کرتا ہے۔‘‘ اس اعتبار سے آیت عام ہے۔


ابن مسعودرضی اللہ عنہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :


’’یہ آیتیں سب کے لئے عام ہیں، خواہ مسلمان ہوں یا اہل کتاب اس معنی کے اعتبار سے تو جو کوئی بھی غیراللہ کے حکم کے صحیح ہونے کا اعتقاد رکھے اور اس قانون کو حلال سمجھتا ہے تواس کے لئے یہ حکم ہے لیکن جو شخص اس کو حرام سمجھتے ہوئے بھی اس کا ارتکاب کرے تو وہ فاسق مسلمانوں میں سے ہے اور اس کا معاملہ اللہتعالی کے سپرد ہے چاہے تو اسے عذاب کرے یا چاہے تو بخش دے‘‘۔
[ القرطبی، ص:170، ج:6،تشریح کے ساتھ]

ناظرین! اللہ تعالی کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ جسے امام ذہبی نے’’ الکبائر‘‘ ، ص :146، کبیرہ:31،میں بیان کیا ہے۔ لیکن کبیرہ گناہ کے بسبب کسی مسلمان کو اسلام سے خارج نہیں کہہ سکتے جبتک کہ وہ اپنے اس کئے گئے فعل کے صحیح ہونے یا برحق ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتا، بلکہ اسے غلط سمجھتا ہے لیکن کسی مجبوری کی وجہ سے قضاء الہی کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو وہ ظالم اور فاسق تو ضرور ہے مگر اسے کافر یا اسلام سےخارج نہیں کہہ سکتے۔

یہی اہل سنت کا اجماعی مسئلہ ہے جو شروع سے چلا آرہا ہے۔ لیکن خوارج ہر گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر کہتے ہیں جس کا بیان کچھ تو مقدمہ میں اور کچھ تفسیر فاتحہ کے اختتام باب:2 میں ہوا۔ وہ (خوارج) انہیں آیتوں سے استدلال کرتے ہیں اور دوسری طرف کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں، جیسا کہ اہل بدعت کا ہمیشہ سے یہی وطیرہ وطریقۂ کار رہا ہے۔ لیکن اہلسنت کہتے ہیں کہ کفر اور اسلام سے خارج ہونے کا حکم اس کے لئے ہے جو باوجود امکان کے اللہ تعالی کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرے یا پھر اس کے لئے اللہ تعالی کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنا ممکن نہ ہو مگر یہ اس صورت میں کہ وہ وضعی وخود ساختہ قانون کو برحق سمجھ کر اس کے مطابق فیصلہ کرے۔

اس نقطہ کو نا سمجھنے کی وجہ سے کتنے ہی بیچارے بے سمجھ لوگ، جن میں جوش تو بہت ہوتا ہے مگر ہوش کم، وہ بعض حکام پر اپنے گھر بیٹھے بیٹھے کفر کا فتویٰ لگانے کے لئےتیار ہوجاتے ہیں، جبکہ ان کے پاس حکومت کی باگ ڈور نہیں لہذا اس طرح کی جلدبازی صحیح نہیں۔ کیونکہ کفر کا فتویٰ لگانا بہت خطرناک کام ہے جس کا ذکر حدیث میں آیا ہے کہ:

"ایما امریء قال لاخیہ کافر فقد باء بھا احدھما ان کان کما قال والا رجعت علیہ."
(مسلم، ص:57، ج:1 شرح نووی کے ساتھ)

رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ:

’’ جس نے اپنے بھائی(مسلمان) کو کافر کہا تو اس کلمہ کا ان میں سے کوئی ایک مصداق بنے گا۔ اگر اس کا ایسا کہنا واقعی صحیح ہے تو فبہا ورنہ یہ فتوی خود اس کے سر لوٹ آئے گا۔‘‘


اسی لئے ایسے فیصلوں میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ بعض حالات میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ حکام شرعی فیصلوں کو برحق اور واجب الاتباع سمجھتے ہیں مگر کسی مجبوری کی وجہ سے اسے نافذ کرنے سے عاجز ہیں، حالانکہ وہ غیرشرعی فیصلے پر کسی قسم کا یقین نہیں رکھتے لیکن لاچار انہیں نافذ کرنا پڑتا ہے۔ ان کی نیت پر فوراً حملہ کرنا دانشمندی نہیں۔


اگرچہ وہ شرعی حکم نافذ نہیں کرسکتے لیکن مسلمانوں کو بہت سا فائدہ پہنچا سکتے اور ان کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ ان کی مخالفت کرکے انہیں ہٹانے سے دوسرے ذیادہ (بڑے) نقصانات کا اندیشہ ہے اسی لئے ہمارے دوستوں کو اس معاملے میں سنبھل کرقدم اٹھانا چاہیے۔

[بدیع التفاسیر جلد:7 تفسیر سورۂ مائدۃ ایڈیشن جنوری:1998،صفحہ:238]
فضیلۃ الشیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمۃ اللہ


[1]یہودیوں کا زانی کے سنگسار کی سزا کو بدل ڈالنے والے واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ [مترجم]
شیخ عبدالرحیم مسلم دوست الافغانی حفظہ اللہ-آپ کو شیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ سے تفسیر اور حدیث میں سندو اجازت حاصل ہے –تنظیم القاعدہ میں کئی علماء نے آپ سے سند حدیث و تفسیر حاصل کی ہے-آپ عربی اور پشتو مین 58 کتابوں کے مصنّف ہیں – اور جہادی میدانوں میں آپکا علم اور کردار مسلّم ہے-1979میں افغانستان پر روس کے حملے کے بعد پشاور ہجرت کی اور روس کے خلاف جہاد میں مصروف رہے-2001 میں امریکا پر حملے کے بعدگرفتار ہوئے اور 4 سال گوانٹانامو بے کے قید خانے میں گزار کر 2005 میں رہا ہوئے-گوانٹا نامو بے سے رہائی کے بعد”گوانٹانامو کی ٹوٹی زنجیریں ” کے نام سے قید کی آپ بیتی لکھی جس کی وجہ سے آئی ایس آئی نے گرفتار کر لیا اور تین سال بعد قیدیوں کے تبادلے میں رہا ہئے-رہائی کے بعد قبائل و افغانستان ہجرت کی اور مجاہدین میں دعوت و ارشاد اورعسکری عملیات کا کام سنبھالا-
گوانتانامو میں قید کے دوران 1423ہجری میں آپ نے خواب میں ایک محل دیکھا جسکا دروازہ بند تھا ،دروازہ کے اوپر گھڑی لگی ہوئی تھی اور اسمیں ٹائم12 بجنے میں 12 منٹ کم تھا-خواب میں انکو کہا گیا کہ یہ دارالخلافہ ہے-شیخ مسلم دوست نے اسکی تعبیر یہ نکالی کہ خلافت بارہ سالوں بعد قائم ہوگی-یہ تعبیر بفضل اللہ سچ ثابت ہوئی جب الدولۃ الاسلامیہ کی شورٰی نے بارہ سالوں بعد 1435 ہجری میں اعلان خلافت کیا-و للہ الحمد والمنہ
آپ نے اعلان خلافت کے بعد الدولۃ الاسلامیہ کی بیعت کی

https://twitter.com/AlnidhalOrg

انکی بیعت کا ویڈیو ثبوت دیکھنے کے لیے

http://bit.ly/1m5dV0c
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے اسد!
شیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کی تحریر اور مؤقف کو رد کرنے کے لئے یہ بتلایا جا رہا ہے کہ ان کے ایک شاگرد نے نام نہاد دولت اسلامیہ کے خلیفہ کی بیعت کر لی ہے!!
یہ تو ایسے ہوا کہ کوئی حسن بصری کے اعتزال کے رد میں وارد اقوال کو رد کرنے کے لئے کہے کہ واصل بن عطاء المخزومی حسن بصری کا شاگرد تھا، اور اس نے اعتزال کا عقیدہ اپنا لیا ہے، یہ کیسے غلط ہو سکتا ہے!!
 
Last edited:
شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37
بسم اللہ الرحمن الرحیم

آیت ِتحکیم کی صحیح تفسیر اور حکمرانوں کی غلط تکفیر

فضیلۃ الشیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ


" وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ )، و ( الظَّالِمُونَ )، و ( الْفَاسِقُونَ )[المائدۃ: 45،46،47]


یہ تمام آیتیں کافروں کے حق میں نازل ہوئی ہیں، جیسا کہ اس کے شان نزول میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث[1]ہے ۔ ایک مسلمان کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے کافر نہیں ہوتا۔ بعض نے کہا کہ اس کلام میں اضمار ہے اسی لئے پورے کلام کو اس طرح سمجھنا چاہیے:

"ومن لکم یحکم بما انزل اللہ ردا للقرآن وجحرا لقول الرسول ﷺ فھو کافر"

’’جو شخص قرآن کریم کا رد اور رسول اللہ ﷺ کے قول کا انکار یا بالکل ترک کرتے ہوئے اللہ تعالی کےنازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کرے تو وہ کافر ہے۔‘‘

یہی قول ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔

چنانچہ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابیحاتم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:


"ومن لم یحکم بما انزل اللہ فقد کفر ومن اقر بہ ولم یحکم بہ فھو ظالم فاسق"۔

’’ جو اللہ تعالی کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو وہ کافر ہے لیکن جو حکم الہی کا اقرار تو کرتا ہے مگر (کسی مجبوری کے سبب)اس کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو وہ ظالم اور فاسق ہے۔‘‘

یعنی کافر نہیں ہے۔ سعید بن منصور، فریابی، ابن منذر، ابن ابی حاتم، حاکم اور بیہقی میں انہی سے روایت ہے کہ ان تینوں آیتوں میں اصل کفر یا ظلم یا فسق مراد نہیں یعنی کفر سے کم تر کفر جس سے خروج عن الملۃ(ملت اسلامیہ سے خروج) نہیں ہوتا، ظلم سے کم تر ظلم اور فسق سے کم ترفسق مراد ہے۔
(در منثور، ص ٢٨٦، ج ٢)

ابن جریر ،ص:256، ج:6میں امام طاؤوس رحمۃ اللہ علیہسے روایت لاتے ہیں کہ
"لیس بکفر ینقل عن الملۃ" یعنی ’’یہ وہ کفر نہیں جو(ملت اسلامیہ) سے خارج کرتا ہے۔‘‘ اس اعتبار سے آیت عام ہے۔


ابن مسعودرضی اللہ عنہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :


’’یہ آیتیں سب کے لئے عام ہیں، خواہ مسلمان ہوں یا اہل کتاب اس معنی کے اعتبار سے تو جو کوئی بھی غیراللہ کے حکم کے صحیح ہونے کا اعتقاد رکھے اور اس قانون کو حلال سمجھتا ہے تواس کے لئے یہ حکم ہے لیکن جو شخص اس کو حرام سمجھتے ہوئے بھی اس کا ارتکاب کرے تو وہ فاسق مسلمانوں میں سے ہے اور اس کا معاملہ اللہتعالی کے سپرد ہے چاہے تو اسے عذاب کرے یا چاہے تو بخش دے‘‘۔
[ القرطبی، ص:170، ج:6،تشریح کے ساتھ]


ناظرین! اللہ تعالی کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ جسے امام ذہبی نے’’ الکبائر‘‘ ، ص :146، کبیرہ:31،میں بیان کیا ہے۔ لیکن کبیرہ گناہ کے بسبب کسی مسلمان کو اسلام سے خارج نہیں کہہ سکتے جبتک کہ وہ اپنے اس کئے گئے فعل کے صحیح ہونے یا برحق ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتا، بلکہ اسے غلط سمجھتا ہے لیکن کسی مجبوری کی وجہ سے قضاء الہی کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو وہ ظالم اور فاسق تو ضرور ہے مگر اسے کافر یا اسلام سےخارج نہیں کہہ سکتے۔

یہی اہل سنت کا اجماعی مسئلہ ہے جو شروع سے چلا آرہا ہے۔ لیکن خوارج ہر گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر کہتے ہیں جس کا بیان کچھ تو مقدمہ میں اور کچھ تفسیر فاتحہ کے اختتام باب:2 میں ہوا۔ وہ (خوارج) انہیں آیتوں سے استدلال کرتے ہیں اور دوسری طرف کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں، جیسا کہ اہل بدعت کا ہمیشہ سے یہی وطیرہ وطریقۂ کار رہا ہے۔ لیکن اہلسنت کہتے ہیں کہ کفر اور اسلام سے خارج ہونے کا حکم اس کے لئے ہے جو باوجود امکان کے اللہ تعالی کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرے یا پھر اس کے لئے اللہ تعالی کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنا ممکن نہ ہو مگر یہ اس صورت میں کہ وہ وضعی وخود ساختہ قانون کو برحق سمجھ کر اس کے مطابق فیصلہ کرے۔

اس نقطہ کو نا سمجھنے کی وجہ سے کتنے ہی بیچارے بے سمجھ لوگ، جن میں جوش تو بہت ہوتا ہے مگر ہوش کم، وہ بعض حکام پر اپنے گھر بیٹھے بیٹھے کفر کا فتویٰ لگانے کے لئےتیار ہوجاتے ہیں، جبکہ ان کے پاس حکومت کی باگ ڈور نہیں لہذا اس طرح کی جلدبازی صحیح نہیں۔ کیونکہ کفر کا فتویٰ لگانا بہت خطرناک کام ہے جس کا ذکر حدیث میں آیا ہے کہ:

"ایما امریء قال لاخیہ کافر فقد باء بھا احدھما ان کان کما قال والا رجعت علیہ."

(مسلم، ص:57، ج:1 شرح نووی کے ساتھ)

رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ:

’’ جس نے اپنے بھائی(مسلمان) کو کافر کہا تو اس کلمہ کا ان میں سے کوئی ایک مصداق بنے گا۔ اگر اس کا ایسا کہنا واقعی صحیح ہے تو فبہا ورنہ یہ فتوی خود اس کے سر لوٹ آئے گا۔‘‘


اسی لئے ایسے فیصلوں میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ بعض حالات میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ حکام شرعی فیصلوں کو برحق اور واجب الاتباع سمجھتے ہیں مگر کسی مجبوری کی وجہ سے اسے نافذ کرنے سے عاجز ہیں، حالانکہ وہ غیرشرعی فیصلے پر کسی قسم کا یقین نہیں رکھتے لیکن لاچار انہیں نافذ کرنا پڑتا ہے۔ ان کی نیت پر فوراً حملہ کرنا دانشمندی نہیں۔

اگرچہ وہ شرعی حکم نافذ نہیں کرسکتے لیکن مسلمانوں کو بہت سا فائدہ پہنچا سکتے اور ان کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ ان کی مخالفت کرکے انہیں ہٹانے سے دوسرے ذیادہ (بڑے) نقصانات کا اندیشہ ہے اسی لئے ہمارے دوستوں کو اس معاملے میں سنبھل کرقدم اٹھانا چاہیے۔

[بدیع التفاسیر جلد:7 تفسیر سورۂ مائدۃ ایڈیشن جنوری:1998،صفحہ:238]

فضیلۃ الشیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمۃ اللہ

[1]یہودیوں کا زانی کے سنگسار کی سزا کو بدل ڈالنے والے واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ [مترجم]
کیا وضعی قوانین کی تنفیذ کے کفر ہونے اور اللہ کی حاکمیت میں شرک کے حوالے سے پورے قرآن میں صرف یہی آیت
﴿وَمَن لَّمْ یَحْکُم ………﴾
موجود ہے؟

کیا جہاں جہاں قرآن میں تحکیم والی آیات آئی ہیں.وہاں وہاں یہی تفسیر قابل حجت ہوگی؟

کیا قرآن کی درج ذیل آیات میں یہ مسئلہ بیان نہیں ہوا؟

کیا آپ ان کی تفسیر بھی ’’کفردون کفر‘‘سے کریں گے؟

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
◆﴿وَّلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖٓ اَحَدًا ﴾

الکہف18:26.دیکھیے تفسیر أضواء البیان.
◆﴿اَمْ لَھُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَھُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ م بِہِ اللّٰہُ ط﴾

سورة الشوریٰ42:21.
◆﴿وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْجوَاِنْ اَطَعْتُمُوْھُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْن ﴾

الانعام6:121دیکھئے تفسیر أضواء البیان.
◆﴿اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ………﴾

سورة التوبہ 9:31 دیکھئے تفسیر ابنِ کثیر.
◆﴿اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ ط وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ™﴾

سورة المائدہ5:50،دیکھئے تفسیر ابن کثیر.
◆﴿فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا™﴾

سورة النساء4:65،دیکھئے،تفسیر احکام القرآن للجصاص:213-214/2.
◆﴿اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖطوَیُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًام بَعِیْدًا™﴾

سورة النساء4:60.
◆﴿اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾

سورة یوسف12:40.
◆﴿اِنَّ الَّذِیْنَ ارْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِھِمْ مِّنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمُ الْھُدَیلا الشَّیْطٰنُ سَوَّلَ لَھُمْ ط وَاَمْلٰی لَھُمْ™ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ کَرِھُوْا مَا نَزَّلَ اللّٰہُ سَنُطِیْعُکُمْ فِیْ بَعْضِ الْاَمْرِج وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِسْرَارَھمْ™﴾

سورة محمد47: 25-26.دیکھئے، الفصل فی الملل والاھواء والنحل لابن حزم:241-240/2، واضواء البیان للشنقیطی:389-393/7.
◆﴿ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَرِھُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَھُمْ™﴾

محمد47:9.
 
شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے اسد!
شیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کی تحریر اور مؤقف کو رد کرنے کے لئے یہ بتلایا جا رہا ہے کہ ان کے ایک شاگرد نے نام نہاد دولت اسلامیہ کے خلیفہ کی بیعت کر لی ہے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جنهوں نے ساری زندگیاں نام نہاد جماعتوں اور تعصب سے بهری ہوئی تنظیموں میں گزاریں ہوں.اور جنهوں نے نام نہاد
امیروں
کے بارےباب امارہکی ساری حدیثوں کو
فٹ
کرنے علاوہ کچھ کیا ہی نہ ہو۔
تعجب والی بات کہ
باب امارہ
والیں حدیثں جو کل تک ان نام نہادامیروںکے بارے کشیدہ کی جاتی تهیں۔
آج وہی حدیثں
فرعون کی متکبر اولاد
کے لیے ثابت کی جارہی ہیں.
اور
فرعون کے بچوں
کوامیر المؤمنین اور خلیفة المسلمینثابت کرنے کی ناکام کوششیں کی جارہی ہیں.

http://www.truemanhaj.com/index.php/8-books-takfeer/62-2015-05-03-03-58-24.html

ویسے بھی جس نے ساری زندگی تعصبات، حسد اور مرتد حکمرانوں کے دفاع میں گزار دی ہو.تو اس بے چارے کو تو ہر چیز ہی نام نہاد ہی لگے گی۔
 
Top