السلام علیکم
ایک بھائی سے آج ملاقات ہوئی تو وہ اب بات پر بحث کر رہا تھا کہ قرآن میں اللہ نے فرمایا ہے کہ
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ
اور الله کے اذن کے سوا کوئی مر نہیں سکتا
تو جب مرنے والا اللہ کے اذن سے مر رہا ہے، پھر خود کشی کرنے والے کو سزا کیوں ملے؟ اس نے تو اللہ کے اذن سے یہ کیا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ یہاں پر اللہ کے اذن سے کیا مراد ہے ؟
شکریہ
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس بات کو علمی انداز میں یوں بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ کا ایک ارادہ ہے کونیہ ہے ، دوسرا ہے شرعیہ ۔
کونیہ کا تعلق کائنات میں ہونے والی ہر چیز کا تعلق ہے ، جب ہم کہتے ہیں کہ کوئی چڑی بھی اللہ کی اجازت کے بغیر پر نہیں مار سکتی تو اس سے مراد یہی کونیہ ہوتا ہے ۔
ارادہ شرعیہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کسی چیز کو پسند کرتا ہے ، اللہ کے ہاں وہ افعال و اعمال مطلوب ہیں ، مثلا نماز پڑھنا ، روزہ رکھنا وغیرہ ، اسی ارادہ کے تحت اللہ کو کچھ اعمال ناپسندیدہ ہیں ، اللہ تعالی کی مرضی نہیں کہ اس کے بندے یہ کام کریں ۔
اگر اللہ تعالی تمام انسانوں کو اپنے ارادہ شرعیہ کا پابند بنا لیں تو پھر تو آزمائش اور امتحان اور اس پر اجر و وثواب سب بے معنی ہوجاتا ہے ، اس لیے اللہ تعالی نے انسان ک اس کا پابند نہیں بنایا ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی نہیں کہ کچھ کام اللہ کی مشیئت و ارادے کے بغیر ہوتے ہیں ، کیونکہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ وہ گناہ گاروں کے اندر گناہ کرنے کی طاقت ہی سلب کرلے ، یا گناہ ہی ختم کردے ، لیکن امتحان کو برقرار رکھنے کے لیے یہ سب کچھ کرنے کی اجازت اللہ تعالی دیتے ہیں اپنے ’ ارادہ کونیہ ‘ کے تحت ۔
آیت میں جس اذن یعنی اجازت کی بات ہے ، اس سے خود کشی جائز نہیں ہوگی ، بلکہ خودکشی کرنے کی صلاحیت اللہ کے ارادہ کونیہ کے تحت ہے ، جبکہ اللہ کا ارادہ شرعیہ اور حکم یہی ہے کہ کوئی بندہ اس گناہ عظیم کا ارتکاب نہ کرے ، جیسا کہ شرعی نصوص سے بالکل واضح ہے ۔
گویا خود کشی کرنے والے کو مرنے دیا جائے گا ، تاکہ انسان مجبور محض نہ ہو ، البتہ اسے اس گناہ کی سزا ملے گی ، کیونکہ اس نے اللہ کے حکم اور ارادہ شرعیہ کی مخالفت کی ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب ۔
تفصیل کے لیے یہ تھریڈ ملاحظہ فرمائیں :
اللہ تعالی کا ارادہ کونیہ اور ارادہ شرعیہ