• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ائمہ اسلاف اور عرب مفتیان کے فتاویٰ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ائمہ اسلاف اور عرب مفتیان کے فتاویٰ

حافظ محمدمصطفی راسخ​
اہل سنت والجماعت کے جلیل القدر ائمہ نے اپنے اپنے دور میں ورَثَۃ الأنبیاء ہونے کا پوراپورا حق ادا کیا ہے اور حق کی پورے طور پر وضاحت فرما ئی ہے۔ ایسے اہل علم، جنہوں نے حق کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے دیئے ہیں، ان کی موجودگی میں کس طرح یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ عجم سے چند فتنہ پروروں نے اُٹھ کر قرآن کریم میں متنوع قراء ات کے عنوان سے اس قدر تحریف کردی ہو اور ان کو اس طرح جاری کردیا ہو کہ آج مسلمان اُنہیں بطور قرآن قبول کئے ہوئے ہیں او ر نمازوں میں سرعام تلاوت کررہے ہیں؟ یقینا ایسی باتوں کا امر واقعہ ہونا تو دور کی بات ، ایساسوچنا بھی انتہائی کم عقلی کی بات ہے۔ ایسے لوگوں کو پوری امت پر ’گمراہی‘ کا الزام عائد کرنے کے بجائے اپنے ذہنی علاج کی فکر کرنی چاہئے۔ ہم ذیل میں آئمہ اسلاف اور معاصر عرب مفتیان کی نمائندہ شخصیات کے قراء ات ِقرآنیہ سے متعلق فتاویٰ جات پیش کر رہے ہیں۔ ان فتاوی کو مجلس تحقیق الاسلامی، لاہور کے فاضل رکن جناب قاری مصطفی راسخ﷾نے بڑی محنت سے جمع کیا ہے اور ان کا اردو زبان میں سلیس ترجمہ فرما دیاہے۔ (اِدارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال:شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے نبی کریمﷺکے اس فرمان ’’ أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ (صحیح البخاري:۴۹۹۲، صحیح مسلم:۸۲۰) کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اس حدیث میں سبعہ سے کیا مراد ہے؟اور کیا امام عاصم رحمہ اللہ اور امام نافع رحمہ اللہ وغیرہ کی طرف منسوب یہ سات قراء ات ،سبعہ احرف ہیں یا سبعہ احرف میں سے ایک حر ف ہیں ؟اور مصحف کے احتمالی خط میں قراء کرام کے اختلاف کا کیا سبب ہے ؟ اور کیا روایت اعمش اور روایت ابن محیصن جیسی قراء ات شاذہ کے ساتھ قراء ت کرنا جائز ہے؟اور اگر ان کے ساتھ قراء ات کرنا جائز ہے تو کیا ان کے ساتھ نماز پڑھنا بھی جائز ہے یا کہ نہیں؟ جواب دے کر ماجور ہوں۔
جواب: شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
یہ ایک مختلف فیہ سوال ہے جس میں فقہاء ،قراء ، محدثین، مفسرین اور اہل کلام سمیت متعدد علماء نے کلام کی ہے۔ اوراس پر مستقل کتابیں لکھی ہیں، اس سلسلے کی آخری کتاب امام ابو محمد عبد الرحمن بن ابراہیم الشافعی ، المعروف بابن ابی شامہ رحمہ اللہ کی ہے۔اگر اس مسئلہ میں وارد تمام اقوال او ران کے دلائل کو ذکر کیا جائے تو جواب بہت طویل ہو جائے گا، جس کی یہاں گنجائش نہیں ہے، یہاں ہم صرف چند اہم نکات بیان کریں گے، جو مطلوب ہیں:
اس امر پر اہل علم میں سے کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس حدیث مبارکہ ’’ أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ میں مذکور’سبعہ أحرف ‘ سے مراد مشہور’ سات قراء ات ‘ نہیں ہیں،بلکہ ان سات قراء ات کو سب سے پہلے تیسری صدی ہجری میں امام ابوبکر بن مجاہدرحمہ اللہ نے جمع کیا ، انہوں نے حرمین(مکہ ومدینہ) عراقیین(کوفہ وبصرہ) اور شام کے مشہور سات قراء کرام کو جمع کر دیا، کیونکہ اس زمانے میں یہی پانچوں شہر علوم وفنون کے مرکز تھے، اور فقہ واُصول فقہ، حدیث واُصول حدیث اورعلوم دینیہ کا گہوارہ تھے۔ چنانچہ انہوں نے ان پانچ شہروں کے سات مشہور قراء کرام کی قراء ات کو جمع کر دیا۔ تاکہ سات کا عدد حدیث مبارکہ میں مذکور ’سبعۃ أحرف ‘ کے موافق ہو جائے ۔ان کا یا ان کے علاوہ کسی بھی اہل علم کا یہ عقیدہ ہرگز نہیں تھا کہ مذکورہ قراء اتِ سبعہ ہی ’أحرف سبعـۃ‘ہیں، یا ان سات قراء ات کے علاوہ کوئی اور قراء ت پڑھنا جائز نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی لیے بعض اَئمہ قراء ت میں سے بعض کہنے والوں نے کہا ہے کہ اگر امام ابن مجاہدرحمہ اللہ ، امام حمزہ کوفی رحمہ اللہ کوذکر کرنے میں مجھ پر سبقت نہ لے جاتے تو میں امام حمزہ رحمہ اللہ کی جگہ امام یعقوب الحضرمی رحمہ اللہ کو ذکرکر تا جو دوسری صدی ہجری میں جامع مسجد بصرہ اوراپنے زمانے میں قراء بصرہ کے امام تھے۔
مسلمانوں کا اس امر پر بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو سبعہ احرف پر نازل فرمایا ہے اور یہ ساتوں حروف باہم متناقض اور متضاد نہیں ہیں۔ بلکہ بسا اوقات ان کا معنی متفق ہوتا ہے جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے تم کسی کو کہو: ہَلُمَّ ،أَقْبِلْ اورتَعَالِ ان سب کا ایک ہی معنی ہے کہ ’’ آؤ‘‘۔
اور بسا اوقات دونوں کا معنی مختلف ہوتا ہے مگر دونوں کے معنی میں تناقض اور تضاد کی بجائے تنوع اور تغایر ہوتا ہے،او ردونوں معنی ہی برحق ہوتے ہیں ۔جیسا کہ نبی کریمﷺکی مرفوع حدیث میں منقول ہے کہ آپﷺنے فرمایا: ’’ أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف،إن قلت : غفورا رحیما ، أو قلت:عزیزا حکیما،فاﷲ کذلک ، مالم تختم آیۃ رحمۃ بآیۃ عذاب،أو آیۃ عذاب بآیۃ رحمۃ ‘‘ (سنن أبوداؤد:۱۴۷۷)
’’قرآن مجید سات حروف پر نازل کیا گیا ہے ۔ اگر آپ ’’غفورا رحیما‘‘ کہیں یا ’’ عزیزا حکیما ‘‘ کہیں تو اللہ تعالی ایسا ہی ہے۔ جب تک آپ آیت رحمت کو آیت عذاب کے ساتھ اور آیت عذاب کو آیت رحمت کے ساتھ ملا کر ختم نہ کر یں‘‘
اور یہی حکم ان قراء ات مشہورہ کا بھی ہے:
(رَبُّنَا بَاعَدَ) اور (رَبَّنَا بَاعِدْ)
(اِلَّا اَنْ یَّخَافَا ألَّا یُقِیْمَا) اور (إِلَّا أنْ یُّخَافَا ألَّا یُقِیْمَا)
(وان کان مکرہم لِتَزُوْلَ) اور(وان کان مکرہم لَتَزُوْلُ)
(بل عَجِبْتَ) اور( بل عَجِبْتُ) وغیرہ وغیرہ۔
اور بعض قراء ات ایسی ہیں جن کا معنی من وجہ متفق ہوتا ہے اور من وجہ متباین ہوتا ہے، جیسے:
(یَخْدَعُوْنَ) اور (یُخٰدِعُوْنَ)
(یَکْذِبُوْنَ) اور (یُکَذِّبُوْنَ)
(لَمَسْتُمْ) اور (لٰـمَسْتُمْ)
(حَتّٰی یَطْہُرْنَ) اور ( حَتّٰی یَطَّہَّرْنَ) وغیرہ وغیرہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وہ قراء ات جن میں معنی متغایر ہوتا ہے سب کی سب برحق ہیں،او رہر قراء ۃ دوسری قراء ۃ کے ساتھ، ایک ایک آیت کے مرتبے میں ہے۔ ان تمام پر ایمان لانا اور ان کے تقاضوں کی اتباع کرنا واجب ہے۔ اوران دونوں میں سے ایک کو چھوڑنا جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’من کفر بحرف منہ فقد کفر کلہ‘‘ (تفسیر الطبری:۱؍۵۴) جس شخص نے قرآن مجید کے ایک حرف کا بھی انکار کر دیا اس نے سارے قرآن کا انکار کر دیا۔
وہ قراء ات جولفظاً ومعناًمتحد ہیں فقط ان کی نطقی کیفیات میں تنوع ہے جیسے : ہمزات، مدات، امالات،نقل الحرکات، اظہار ،ادغام ، اختلاس، ترقیق اللامات والراء ات اور ان کی تغلیظ وغیرہ وغیرہ۔یہ زیادہ ظاہر اور بین ہیں اور ان میں ’متنوع اللفظ والمعنی قراء ات‘ کی نسبت بالکل ہی تضاد اور تناقض نہیں ہے، کیونکہ متنوع نطقی کیفیات سے لفظ ایک ہی رہتا ہے۔
اسی لیے علماء اسلام نے تمام مسلم ممالک میں ایک ہی معین قراء ت پڑھنے پر زور دیا ہے،بلکہ جس شخص کے نزدیک امام حمزہ رحمہ اللہ کے شیخ الاعمش رحمہ اللہ یا امام یعقوب رحمہ اللہ کی قراء ت ثابت ہو اور اس کے نزدیک قراء تِ حمزہ وکسائی بھی ثابت ہو تو اس کے لئے تمام اہل علم کے نزدیک بلا نزاع اس کی تلاوت کرنا جائز ہے۔ بلکہ اکثر اَئمہ کرام نے قراء تِ حمزہ کو لیا ہے جیسے سفیان بن عیینہ، احمد بن حنبل اور بشربن الحارث رحمہم اللہ، جبکہ دیگر نے امام ابو جعفر بن قعقاع رحمہ اللہ اور شیبہ بن نصاح رحمہ اللہ مدنیین کی قراء ت کو اختیار کیا ہے۔
بعض اہل علم نے بصریوں کی قراء ت جیسے یعقوب بن اسحاق رحمہ اللہ کے شیوخ ہیں، کواختیار کیا ہے ، جبکہ بعض نے حمزہ رحمہ اللہ اورکسائی رحمہ اللہ کی قراء ت کو لیا ہے۔
اس مسئلہ میں اہل علم کی معروف کلام موجود ہے۔ اس لیے اہل عراق جن کے نزدیک قراء ات سبعہ کی مانندقراء ات عشرہ یا قراء ات الاحد عشر ثابت ہیں، وہ ان تمام قراء ات کو اپنی کتب میں جمع کرتے ہیں اور نماز و غیر نماز میں ان کی تلاوت کرتے ہیں۔ اور یہ امر تمام اہل علم کے نزدیک متفق علیہ ہے ، اس پر کسی نے انکار نہیں کیا ۔
ابن شنبوذرحمہ اللہ پر انکار کے حوالے سے قاضی عیاض رحمہ اللہ نے جو کچھ ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ چوتھی صدی ہجری میں نمازمیں قراء ات شاذہ کے ساتھ تلاوت کیا کرتے تھے،ان کا قصہ مشہور ہے ،یہ دراصل مصحف سے خارج قراء اتِ شاذہ کے بارے میں تھا جیسا کہ عنقریب ہم واضح کریں گے۔
اہل علم میں سے کسی نے بھی قراء اتِ عشرہ کا انکار نہیں کیا ، لیکن جو شخص ان قراء ات کا عالم نہ ہو ، یا کوئی قراء ت اس کے نزدیک ثابت نہ ہو، جیسے بلادِ مغرب میں رہنے والے کسی شخص تک کوئی قراء ت پہنچی نہ ہو تو اس کے لئے ایسی قراء ات کی تلاوت کرناجائز نہیں ہے جس کا اسے علم نہیں۔بیشک قراء ت (جیسا کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ)سنت ہے جسے بعد والے پہلوں سے اخذ کرتے ہیں۔ جیسا کہ نبی کریمﷺسے نماز شروع کرتے وقت استفتاح کی متعدد دعائیں ثابت ہیں، اذان اور اِقامت کی کئی اَنواع منقول ہیں ، نماز خوف کی کئی صورتیں مروی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مذکورہ تمام صورتیں حسن او رجائزہیں اور ان کا علم رکھنے والے کے لئے ان پر عمل کرنا مشروع ہے۔
لیکن جو شخص ان تمام صورتوں میں سے کسی ایک کا علم رکھتا ہو ، دیگر کا نہیں، تو اس کے لئے معلوم صورت کو چھوڑ کر غیر معلوم صورت پر عمل کرنا جائز نہیں ہے ،اور نہ ہی اس کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی جہالت کی بناء پر عالم پر انکار کرے یا اس کی مخالفت کرے۔جیسا کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: ’’لا تختلفوا فان من کان قبلکم اختلفوا فہلکوا‘‘ (صحیح البخاري:۲۴۱۹، مسند أحمد:۱؍۴۰۱) ’’اختلاف نہ کرو بیشک تم سے پہلے لوگوں نے اختلاف کیا اور وہ ہلاک ہوگئے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصاحف عثمانی کے رسم سے خارج قراء اتِ شاذہ ، جیسے سیدنا عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ اورسیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کی قراء ت ہے۔(وَاللَّیْلِ إذَا یَغْشَی وَالنَّہَارِ إذَا تَجَلّٰی وَالذَّکَرَ وَالاُنْثٰی ) (صحیح البخاري: ۴۹۴۳، صحیح مسلم:۸۲۴)
اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی قراء ت ہے (فصیام ثلاثۃ ایام متتابعات ) ،(ان کانت الا زقیۃ واحدۃ) مذکورہ قراء ات اگر صحابہ کرام سے ثابت ہوں تو کیا نماز میں ان کی تلاوت کرنا جائز ہے؟
اس سلسلے میں اہل علم کے دو قول ہیں۔ امام احمدرحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ سے بھی دو مشہور روایتیں منقول ہیں:
(١) جائز ہے: کیونکہ صحابہ کرام او رتابعین عظام ان قراء ات شاذہ کے ساتھ نماز میں تلاوت کیا کرتے تھے۔
(٢) ناجائز ہے: یہ اکثر اہل علم کا قول ہے، کیونکہ یہ قراء ات نبی کریم ﷺسے تواتر کے ساتھ ثابت نہیں ہیں او راگر ثابت بھی ہیں تو عرضۂ اخیرہ سے منسوخ ہو چکی ہیں۔اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ اورسیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جبر ئیل علیہ السلام ہر سال نبی کریمﷺکے ساتھ قرآن مجید کا ایک مرتبہ دور کیا کرتے تھے ، لیکن جس سال آپ نے وفات پائی ہے اس سال جبرئیل علیہ السلام نے آپ کے ساتھ دو مرتبہ دور کیا۔ (صحیح البخاري:۳۶۲۴، صحیح مسلم:۲۴۵۰)
عرضۂ اَخیرہ ہی سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ وغیرہ کی قراء ت ہے،اور اسی پر ہی خلفاء راشدین نے مصاحف کو لکھنے کاحکم دیا تھا۔خلافت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ قرآن مجید کو ایک جگہ جمع کر دیں ۔پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اس کے کئی نسخے تیار کروا کر مختلف شہروں کی طرف روانہ کر دئیے،اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سمیت تمام صحابہ کااس پر اجماع ہے۔
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس نزاع کو اس اصل پر محمول کیا جائے جس کے بارے میں سائل نے سوال کیا ہے کہ کیا قراء ات سبعہ ،حروف سبعہ میں سے ایک حرف ہیں یا کہ نہیں؟
جمہور اہل علم کے نزدیک قراء ات سبعہ ،حروف سبعہ میں سے ایک حرف ہیں، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ مصحف عثمان حروف سبعہ میں سے ایک حرف تھاجو عرضۂ اخیرہ کو متضمن تھا۔ متعدد اَحادیث وآثار اس قول پر دلالت کرتے ہیں۔
فقہاء ،قراء اور اہل کلام کی ایک جماعت کے نزدیک یہ مصحف( عثمان)ساتوں حروف پر مشتمل تھا،کیونکہ اُمت کے لئے سبعہ احرف میں سے کسی (حرف) کو نقل نہ کرنا جائز نہیں ہے۔اور ان کا مصحف عثمان کونقل کرنے، اور اس کے علاوہ دیگر مصاحف کوچھوڑنے پر اتفاق ہے،کیونکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے لکھوائے ہوئے صحف سے نقل کرنے کا حکم دیا تھا اور صحابہ کرام کے مشورے سے کئی نسخے تیار کروا کر مختلف شہروں کی طرف بھیجے تھے۔ اور ان (سرکاری) مصاحف کے علاوہ باقی مصاحف کو جلادینے کا حکم دیاتھا۔
نیز ان کا کہنا ہے کہ بعض احرف سبعہ کی قراء ت سے منع کرنا جائز نہیں ہے۔ امام محمد بن جریررحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ احرف سبعہ پر قراء ت کرنا اُمت پر واجب نہیں ہے ،بلکہ یہ ایک رخصت اور اِجازت تھی کہ وہ جس حرف کو آسان سمجھیں اسے اختیار کر لیں۔بالکل ایسے ہی جیسے سورتوں کی تر تیب وجوبی نہیں ہے بلکہ اجتہادی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے مصحف کی ترتیب سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لکھے ہوئے مصحف سے مختلف تھی،لیکن آیتوں کی ترتیب منزل من اللہ ہے۔ ان کو سورتوں کی مانند آگے پیچھے کرنا جائز نہیں ہے۔
یہی صورتِ حال سبعہ احرف کی ہے، جب صحابہ کرام نے دیکھا کہ اگر ہم ایک حرف پر جمع نہ ہوئے تو اُمت متفرق ہو جائے گی اورمنتشر ہو جائے گی ،تو انہوں نے ایک حرف پر اجماع کر لیا اوروہ اس امر سے معصوم ہیں کہ گمراہی پر جمع ہو جائیں، اور اس میں نہ تو ترکِ واجب ہے اور نہ ہی فعلِ مخطور ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بعض اہل علم کاخیال ہے کہ سبعہ احرف پر پڑھنے کی رخصت شروع اسلام میں تھی،کیونکہ اس وقت ایک حرف پر پڑھنے سے مشقت محسوس ہوتی تھی، جب زبانیں مانوس ہو گئیں اور ایک ہی حرف پر پڑھنا آسان ہو گیا توانہوں نے ایک ہی حرف پر اجماع کر لیا،جو حرف عر ضۂ اخیرہ میں تھا۔ نیز وہ کہتے ہیں کہ عرضۂ اخیرہ نے دیگر حرو ف کو منسوخ کر دیا ہے۔
ان کے قول کے موافق اس شخص کا بھی قول ہے جو کہتا ہے کہ سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ وغیرہما کے جو حرف رسم عثمانی کے مخالف ہیں وہ منسوخ ہیں،لیکن جوشخص سیدنا عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے حوالے سے کہتا ہے کہ وہ قراء ت بالمعنی کو جائز کہتے تھے وہ سیدناعبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ پر جھوٹ بولتا ہے،کیونکہ انہوں نے کہا: میں نے قراء کی قراء ات کو باہم متقارب پایا ہے، جیسے تم میں سے کوئی شخص کہے: أقبل،تعال،ہلم ۔ جیسے تمہیں سکھایا گیا ہے ویسے ہی پڑھو۔
پھر جو شخص مصحف سے خارج صحابہ کرام سے ثابت قراء ات کی تلاوت کو جائز قرار دیتا ہے ، اس کے نزدیک نماز میں تلاوت کرنابھی جائز ہے، کیونکہ وہ احرف سبعہ میں سے ہے جس پر قرآن مجید نازل کیا گیا ہے۔ اور جوشخص ناجائز قرار دیتا ہے ۔ اس کے پاس تین دلائل ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) وہ اَحرف سبعہ میں سے نہیں ہے۔
(٢) وہ حروفِ منسوخہ میں سے ہے۔
(٣) اسے چھوڑنے پر صحابہ کا اجما ع ہے۔
(٤) جن ذرائع سے قرآن ثابت ہوتا ہے وہ ان ذرائع سے ثابت نہیں ہوا۔
(٥) اس مسئلے میں تیسرا قول میرے دادا ابو البرکات رحمہ اللہ کا اختیار ہے کہ ٰاگر کوئی شخص ان قراء ات کو قراء تِ واجبہ (جیسے سورۃ الفاتحہ) میں پڑھتا ہے تو اس کی نماز درست نہیں ہوگی، کیونکہ اسے اپنی قراء ت واجبہ کی ادائیگی کا یقین نہیں ہوتا ،کیونکہ اس قراء ت کے قرآن ہونے کا اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اور اگروہ ان قراء ات کو قراء تِ غیر واجبہ( جیسے سورۃ الفاتحہ کے بعد والی قراء ت) میں پڑھتا ہے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوگی، کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ ٰاس نے نماز کوباطل کرنے والی کوئی شے سرانجام نہیں دی،نیز ممکن ہے کہ وہ قراء ت احر ف سبعہ میں سے ہو۔
نیز سائل کا یہ سوال کہ مصحف کے احتمالی خط میں قراء کرام کے اختلاف کا کیاسبب ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ قراء ات کا مرجع و مصدر نقل اور لغت عربیہ ہے،کسی کے لئے مجرد اپنی رائے سے قراء ت کرنا جائز نہیں ہے،بلکہ قراء ت سنت متبعہ ہے۔ جب انہوں (صحابہ )نے مصحف امام میں مکتوب قرآن مجید پر اتفاق کر لیا اوربعض نے یاء کے ساتھ اور بعض نے تاء کے ساتھ پڑھا توان دونوں قراء ات میں سے کوئی ایک قراء ت بھی مصحف سے خارج نہیں ہے۔ (کیونکہ خط مصحف دونوں قراء ات کا احتمال رکھتا تھا)
بعض مقامات پر تمام قراء کرام’یاء‘ یا’تاء‘ پڑھنے پر متفق ہیں جیسے اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے۔’’ وَمَا اﷲُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ‘‘ (البقرۃ:۴۷) اس جگہ تمام قراء کرام بالتاء ہی پڑھتے ہیں۔ جبکہ دیگر دو مقامات پر قراء کرام کے درمیان اختلاف ہے اور ہم پہلے ہی یہ بتا چکے ہیں کہ دو قراء ات دو آیتوں کی مانند ہیں۔ جتنی زیادہ قراء ات ہوں گی اتنی ہی آیات شمار ہو ں گی ، لیکن جب دونوں قراء توں کا خط ایک ہی ہوجو دونوں کاہی احتمال رکھتا ہو تو رسم میں آسانی ہوجاتی ہے۔
نقل قرآن میں اصل اعتماد مصاحف کی بجائے حفظ القلوب پر ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں نبی کریمﷺسے ثابت ہے کہ آپﷺنے فرمایا:
میرے رب نے مجھے حکم دیا کہ کھڑا ہو جا اورقریش کو ڈرا! میں نے کہا: اے میرے رب! وہ تو میرا سر کچل دیں گے۔ اللہ تعالی نے فرمایا : میں تجھے بھی آزمانے والا ہوں اور تیرے ساتھ (دیگر لوگوں ) کو بھی آزمانے والا ہوں اورمیں تیرے اوپر ایک ایسی کتاب نازل کرنے والا ہوں جسے پانی نہیں دھو سکے گا ۔آپ اسے نیند اور بیداری دونوں حالتوں میں پڑھیں گے۔ آپ ایک لشکر روانہ کریں میں اس سے دوگنا بڑا لشکر روانہ کروں گا۔ اوراپنے مطیع لوگوں کو ساتھ لے کر نافرمانوں سے لڑائی کر اور تو خرچ کر میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔(صحیح مسلم:۲۸۶۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی کتاب(قرآن مجید) اپنی حفاظت میں صحیفوں کی محتاج نہیں ہے، جن کو پانی سے دھویا جاسکتا ہو،بلکہ نبی کریمﷺ ہر حالت میں اسے پڑھتے تھے۔ نیز نبی کریمﷺنے اس امت کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
’’ أناجیلہم فی صدورہم‘‘ (مجمع الزوائد:۸؍۲۷۴) ’’ان کی اناجیل یعنی قرآن ان کے سینوں میں ہے۔‘‘
بخلاف اہل کتاب کے،کیونکہ وہ اپنی کتاب کی حفاظت صرف کتابوں میں کرتے تھے، اسے زبانی یاد نہیں کرتے اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ عہد نبویﷺمیں صحابہ کرام کی ایک جماعت نے قرآن مجید کو جمع کر لیا تھا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ معروف قراء کرام جیسے امام نافع رحمہ اللہ، اورامام عاصم رحمہ اللہ وغیرہ کی طرف منسوب قراء ات ،سبعہ احرف نہیں ہیں ، جن پر قرآن مجید نازل کیا گیا تھا،اور اس پر تمام سلف وخلف اہل علم کا اتفاق ہے۔
اسی طرح موجودہ قراء ات سبعہ بھی احرف سبعہ میں سے مکمل ایک حرف نہیں ہیں، جن پر قرآن مجید نازل کیا گیا ہے۔ بلکہ دیگر آئمہ قراء ات سے ثابت قراء ات بھی (جیسے امام اعمش، امام یعقوب، امام خلف، امام ابو جعفر یزیدبن قعقاع اور امام شیبہ بن نصاح رحمہم اللہ کی قراء ت ہیں)ان قراء ات سبعہ کے مقام ومرتبہ میں ہیں۔ جس طرح یہ قراء ات سبعہ ثابت ہیں ایسے ہی وہ قراء ات بھی ثابت ہیں۔ آئمہ فقہاء اور قراء کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
متاخرین نے مصحف عثمانی کے بارے میں اختلاف کیا۔ جس پر صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کا اجماع ہے،کیا اس مصحف میں قراء ات سبعہ یا مکمل قراء ات عشرہ موجود تھیں؟ کیا وہ أحرف سبعہ میں ایک حرف تھا جس پر قرآن مجید نازل کیا گیا ہے یا سبعہ احر ف کا مجموعہ تھا ؟ اس میں دومشہور قول ہیں:
(١) وہ مصحف سبعہ احرف میں سے ایک حر ف پر مشتمل تھا۔ یہ سلف آئمہ اور اہل علم کا قول ہے۔
(٢) وہ مصحف تمام سبعہ احرف پر مشتمل تھا۔ یہ بعض اہل کلام اور قراء کرام وغیرہ کا قول ہے۔
اورتمام اہل علم اس امر پر متفق ہیں کہ احرف سبعہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں کہ ان کے معنی میں تضاد اور تناقض ہو بلکہ وہ ایک دوسرے کے معنی کی تصدیق وتائید کرتے ہیں۔ جس طرح آیات قرآنیہ ایک دوسرے کی تصدیق کر تی ہیں۔مصحف کے احتمالی خط میں قراء ات کے تنوع کا سبب شارع کی طرف سے اِجازت ہے،کیونکہ قراء ات کا مصدر سنت اور اتباع ہے،رائے اور بدعت نہیں۔
اگر کہا جائے کہ یہ قراء ات ہی احرف سبعہ ہیں تو بطریق اولی واضح ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ان کوسبعہ احرف میں پڑھنے کی اجازت دے دی جوسب کے سب شافی وکافی ہیں۔ باوجودیکہ رسم میں احرف کاتنوع تھا۔ اب جبکہ رسم میں حروف کا اتفاق ہے تو اسے بالاولی جائز ہونا چاہیے ۔ یعنی ایک رسم کی وجہ سے یاء اورتاء کی قراء ت بالاولی صحیح ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عہد صحابہ کرام میں قرآن مجید کو اعراب اور نقطوں کے بغیر لکھا گیا تھا تاکہ رسم کی صورت دونوں قراء ات کا احتمال رکھے ۔ جیسے یاء اور تاء ،ضمہ اور فتحہ ۔ اور وہ ان دونوں قراء ات کو تلفظ سے ضبط کرتے تھے۔ اور ایک ہی رسم الخط دونوں قراء ات پر دلالت کرتا تھا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریمﷺسے قرآن مجید کے الفاظ اور معانی دونوں اکٹھے حاصل کئے۔ جیسا کہ ابو عبد الرحمن السلمی رحمہ اللہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ،نبی کریم ﷺکے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ آپﷺنے فر مایا:
(خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ) (صحیح البخاري:۵۰۲۷)
’’تم میں سے بہتر ین شخص وہ ہے جو خود قرآن مجید سیکھتا ہے اور اسے آگے سکھاتا ہے۔‘‘
امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اورسیدنا عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نبی کریمﷺسے قرآن مجید سیکھتے تھے اور اس وقت تک اگلی آیات نہ پڑھتے تھے جب تک ان آیات میں موجود علم وعمل سے آگاہ نہ ہو جاتے تھے وہ فرماتے ہیں کہ :
ہم نے نبی کریمﷺسے قرآن کا علم اور عمل اکھٹے سیکھے ہیں۔لہذا قرآ ن مجید کے حروف اور معانی کی اکھٹی تعلیم نبی کریمﷺکے اس قول (خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ) کے معنی میں داخل ہے بلکہ حروف کی تعلیم حاصل کرکے معانی سیکھنا ہی مقصود ہے۔ اور اسی سے ایمان میں زیادتی ہوتی ہے ۔
جیسا کہ جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ؟وغیرہ فرماتے ہیں:
’’ہم نے پہلے ایمان سیکھا پھر قرآن سیکھا جس سے ہمارا ایمان زیادہ ہو گیا،او رتم پہلے قرآن سیکھتے ہو پھر ایمان سیکھتے ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
صحیحین میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے ہمیں دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک کو میں نے دیکھ لیا ہے جبکہ دوسری کے انتظار میں ہوں۔ آپ نے فرمایا بے شک امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ میں نازل ہوئی ہے، پھر قرآن نازل ہو ا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری :۶۴۹۷، صحیح مسلم:۱۴۳)
جس طرح اللہ تعالی نے قرآن مجید نازل فرمایا تھا اس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریمﷺ سے اس حروف اورمعانی کو ہم تک پہنچا دیا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وَکَذَلِکَ أوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ أمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَاالْکِتٰبُ وَلَا الاِیْمَانُ وَلٰکِنْ جَعَلْنَاہُ نُوْرًا نَہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَشَائُ مِنْ عِبَادِنَا…‘‘ (الشوری:۵۲)
نماز اور غیر نماز میں رسم مصحف کے موافق قراء ات ثابتہ کی تلاوت کرنا جائز ہے،لیکن قراء تِ شاذہ کے ساتھ نہیں۔ (مجموع الفتاویٰ لابن تیمیۃ:۱۳؍۳۸۹)
٭……٭……٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء اتِ سبعہ کو جمع کرنے کا حکم

سوال: شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا قراء اتِ سبعہ کو جمع کرنا سنت ہے یا بدعت ؟اور کیا عہد نبوی میں ان قراء ات کو جمع کیا گیا یا نہیں؟ اور کیا قراء ات کو جمع کرکے پڑھنے والے کو ایک روایت پڑھنے والے سے زیادہ ثواب ملتا ہے یا نہیں؟
جواب: شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
نفسِ قراء ات کی معرفت اور ان کا حفظ سنت متبعہ ہے، جسے بعد والے پہلے والوں سے اَخذ کرتے چلے آئے ہیں قرآن مجید کی معرفت ،جسے خود نبی کریمﷺپڑھتے تھے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پڑھاتے رہے اور جس پر ان کا اجماع ہے ، سنت ہے، اور قراء ات کو جاننے اور انہیں حفظ کرنے والے کے لئے صرف ایک روایت جاننے والے کی نسبت زیادہ ثواب ہے۔
نماز یا عام تلاوت میں ان قراء ات کو جمع کر کے پڑھنا بدعت مکروہہ ہے، لیکن حفظ اور تعلیم کے لئے ان کو جمع کر کے پڑھنا اجتہاد ہے جس پر ایک گروہ نے عمل کیا ہے۔ (مجموع فتاویٰ لابن تیمیۃ:۱۳؍۴۰۴)
(نیز یاد رہے کہ آج کل محافل قراء ات میں جمع کرکے پڑھی جانے والی قراء ات کا مقصد بھی تعلیم ہی ہوتا ہے تاکہ عوام الناس کو قراء ات کا تعارف ہو جائے اس اعتبار سے محافل قراء ات میں جمع کر کے پڑھناجائز ہے ۔ مترجم)
٭……٭……٭
 
Top