• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ائمہ اسلاف اور عرب مفتیان کے فتاویٰ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال: شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص قوم کی امامت کرتے وقت اپنی نماز میں عموما امام ابوعمرو بصری کی قراء ت پڑھتا ہو، لیکن کبھی کبھار قراء تِ ابو عمرو بصری کے ساتھ ساتھ روایت ورش یا قراء ت نافع ،یعنی مختلف روایات ،میں قرا ء ت کر لیتا ہو تو کیا وہ گنہگار ہو گا؟ یا اس کی نماز میں نقص واقع ہو جائے گا؟ یا وہ اپنی نماز کو دوبارہ پڑھے گا؟
جواب:شیخ الا سلام رحمہ اللہ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن مجید کا بعض حصہ امام ابوعمر و بصری کی قراء ت میں اور بعض حصہ امام نافع رحمہ اللہ کی قراء ت میں پڑھنا جائز ہے،برابر ہے کہ وہ ایک ہی رکعت میں ہو یا دو رکعات میں ہو، داخل نماز میں ہو یا خارج نماز میں ہو۔ (الفتاویٰ الکبری لابن تیمیۃ:۱؍۲۳۰)
٭……٭……٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات قرآنیہ کاتعدد
سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ قراء ات قرآنیہ کے متعدد ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں اختلاف ہے اوروہ کافی وشافی معانی تک دلالت نہیں کرتا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
’’وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْ مَ الْقِیَامَۃِ کِتَابًا یَّلْقَاہُ مَنْشُوْراً ‘‘ (الاسراء:۱۳)
جواب: نبی کریمﷺسے صحیح ثابت ہے کہ آپﷺنے فرمایا:
’’إن القرآن نزل من عند اﷲ علی سبعۃ أحرف‘‘ (صحیح البخاري :۴۹۹۲، صحیح مسلم:۸۱۸)
’’بیشک قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے سات حروف پر نازل ہوا ہے۔‘‘
یعنی آسانی کے لئے عربوں کی سات لغات اور لہجات پر نازل ہوا ہے ۔ اور تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے۔
تمام قراء ات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہیں۔ قراء ات کا تعدد تحریف وتغییر کا نتیجہ ہے اور نہ ہی ان سے معانی میں التباس ،تناقض یا تضاد پیدا ہوتا ہے۔ بلکہ بعض قراء ات بعض قراء ات کے معانی کی تصدیق کرتی ہیں۔
بعض قراء ات سے متنوع معانی سامنے آتے ہیں ۔ جن میں سے ہر ایک معنی مقاصد شریعت اور بندوں کی مصلحتوں میں سے کسی مصلحت کو محقق کرنے والے حکم پر دلالت کرتا ہے۔
ایسی قراء ات میں سے ایک ، اللہ تعالیٰ کا فرمان:
’’وَکُلَّ اِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاہُ طَائِرَہُ فِیْ عُنِقِہٖ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کِتَابً یَّلْقَاہُ مَنْشُوْرًا‘‘ (الاسراء:۱۳)
اس آیت مبارکہ میں لفظ ’’یلقاہ‘‘ میں دو قراء ات ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) یَلْقَاہُ (بفتح الیاء والقاف مخففۃ)اس قراء ت کی صورت میں اس آیت مبارکہ کا معنی ہوگا کہ ہم روزِ قیامت انسان کے لئے ایک کتاب نکالیں گے جو اس کے اعمال کا صحیفہ ہوگا اور وہ آدمی اس صحیفے کے پاس اس حال میں پہنچے گا کہ وہ مفتوح (کھلا ہوا) ہو گا۔ اگر وہ شخص جنتی ہو گا تو اسے اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑے گا اور اگر جہنمی ہوگا تو اسے اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑے گا۔
(٢) یُلَقَّاہُ (بضم الیاء وتشدید القاف) اس قراء ات کی صورت میں اس آیت مبارکہ کا معنی ہوگا کہ ہم روز قیامت انسان کے لئے ایک کتاب نکالیں گے جو اس کے اعمال کا صحیفہ ہوگا اوروہ کتاب انسان کو اس حال میں دی جائے گی کہ وہ مفتوح (کھلی ہوئی) ہوگی۔
مذکورہ دونوں قراء ات کے معانی معمولی سے فرق سے واضح ہوتا ہے کہ بالآخر دونوں کا ایک ہی معنی ہے، کیونکہ کتاب کے پاس جانا یا کتاب کادیا جانا ایک ہی شیٔ ہے۔ اور دونوں صورتوں میں ہی وہ کتاب مفتوح (کھلی ہوئی) ہوگی۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
’’فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ فَزَادَہُمُ اﷲُ مَرَضاً وَّلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ ‘‘ (البقرۃ:۱۰)
اس آیت مبارکہ میں لفظ یکذبون میں دو قراء اتیں ہیں۔
(١) یَکْذِبُوْنَ: (بفتح الیاء وسکون الکاف وکسر الذال) اس قراء ات کی صورت میں اس کا معنی ہو گا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور مومنوں کی طرف سے جھوٹی خبریں دیتے ہیں۔
(٢) یُکَذِّبُوْنَ :(بضم الیاء فتح الکاف وتشدید الذال المکسورۃ) اس قراء ات کی صورت میں اس کا معنی ہوگا کہ وہ رسولوں اور ان کی لائی ہوئی شریعت کو جھٹلاتے ہیں۔
مذکورہ دونوں قراء ات کے معنی میں نہ تو تناقض ہے اور نہ ہی تضاد ہے بلکہ دونوں قراء ات میں سے ہر ایک نے منافقین کے اَوصاف میں سے ایک ایک وصف بیان کیا ہے۔
پہلا وصف: وہ اللہ تعالی ،رسول اللہﷺاور لوگوں کی اخبار میں جھوٹ بولتے ہیں۔
دوسرا وصف: وہ اللہ تعالی کی طرف سے رسولوں کی دی گئی شریعت کو جھٹلاتے ہیں۔
اورمنافقین کے بارے میں یہ دونوں صفات ہی برحق ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ان دونوں صفات(کذب اور تکذیب) کو ہی اپنے اندر جمع کر لیا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعداد قراء ات اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی حکمت کی بناء پر ہے۔ تحریف وتغیر کا نتیجہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی قراء ات سے معانی میں التباس ،تناقض یا تضاد پیدا ہوتا ہے ، بلکہ بعض قراء ات بعض قراء ات کی تصدیق کرتی ہیں۔
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء
عضو عضو نائب رئیس اللجنۃ الرئیس عبد اﷲ بن قعود عبد اﷲ بن غدیان عبد الرزاق عفیفی عبد العزیز بن باز​
(فتویٰ رقم: ۱۹۷۷،۴،۴؍۱۰)
٭……٭……٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
روایت ورش میں قراء ت کرنے کا حکم
سوال: کیا نماز میں روایت ورش کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرنا جائز ہے؟ حالانکہ ہمارے ہاں روایت حفص عن عاصم متداول ہے۔
جواب:روایت ورش عن نافع کے ساتھ قراء ت کرنا فی نفسہا علماء قراء ات کے نزدیک صحیح اور معتبر ہے، لیکن ایسی جگہ اس کی قراء ت کرنا جہاں اس کے علاوہ کوئی دوسری روایت، مثلاً روایت حفص عن عاصم متداول ہو تو وہاں روایت ورش کی تلاوت مقتدیوں کے دل میں خلش پیدا کر دے گی لہٰذا مقتدیوں کی خلش کو دور کرنے کے لئے روایت ورش کی قراء ت نہ کی جائے ۔ ہاں اگر کوئی شخص منفرد(تنہا) نماز ادا کر رہا ہو تو اس کے لئے عدم مانع کی بناء پر اس کی تلاوت کرنا جائز ہے۔ وباللہ التوفیق
اللجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیۃ والافتاء
عضو عضو نائب رئیس اللجنۃ الرئیس
عبد اﷲ بن قعود عبد اﷲ بن عدیان عبد الرزاق عفیفی عبد العزیز بن باز​
(فتویٰ رقم: ۷۳۳۹، ۴؍۱۳)
٭……٭……٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نماز میں ایک آیت کو مختلف قراء ات سے پڑھنے کا حکم
سوال: کیا نماز کی ایک ہی رکعت میں کسی آیت کو مختلف قراء ات متواترہ ثابتہ کے ساتھ پڑھنا جائز ہے؟
مثلا ہم پڑھیں’’ مالک یوم الدین۔ ملک یوم الدین ‘‘اور اگر ناجائز ہے تو ایسا کرنے والے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ہمارے علم کے مطابق یہ بات ثابت ہے کہ نبی کریمﷺنماز میں سورۃ الفاتحہ وغیر الفاتحہ کے کسی بھی کلمہ کو دو مختلف قراء توں سے نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی خلفاء راشدین یا صحابہ کرام میں سے کسی سے ایسا کرنا منقول ہے ۔ اور نہ ہی ایسا کرنا مناسب ہے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے اور اس پر استمرار کرتا ہے تو وہ شخص دین میں بدعت ایجاد کرتا ہے جس کو اللہ اور اس کے رسولﷺنے شروع نہیں کیا۔بدعت کی مذمت میں نبی کریمﷺنے فرمایا:
(من أحدث فی أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد)
ایک دوسری روایت میں فرمایا:
’’من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فہو رد
لیکن ایسا کرنے والے آدمی کی نماز صحیح ہو گی۔
اللجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیۃ والافتاء
عضو عضو نائب رئیس اللجنۃ الرئیس
عبد اﷲ بن قعود عبد اﷲ بن عدیان عبد الرزاق عفیفی عبد العزیز بن باز​
(فتویٰ رقم۳۲۷۶:۲؍۳۹۴)
٭……٭……٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال: شیخ ابن بازرحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ امیر المؤمنین سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے جمع قرآن کے وقت سبعہ احرف میں سے بعض احرف یا بعض قراء ات کو حذف کر دیا تھا؟
سوال: نبی کریمﷺسے ثابت ہے کہ آپﷺنے فرمایا:
(إن ہذا القر آن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرء وا ما تیسر منہ)
محقق اہل علم فرماتے ہیں کہ اس سے متقارب المعنی،مختلف الالفاظ حرف مراد ہیں۔جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو لوگوں کے اختلاف کی خبر ملی اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے آکر کہا ’’أدرک الناس‘‘ لوگوں کو سنبھالیے! توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ جمع قرآن کا مشورہ کیا۔ چنانچہ انہوں نے قرآن مجید کو ایک حرف پر جمع کرنے کی تجویز دی تاکہ لوگ اختلاف نہ کریں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے چار رکنی کمیٹی بنا دی اور سیدنازید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ان کا رئیس مقرر کر دیا۔ اس چار رکنی کمیٹی نے قرآن مجید کو ایک حرف پر جمع کر دیا۔اورمملکت اسلامیہ کی تمام بڑے شہروں کی طرف اس کی ایک ایک کاپی بھیج دی۔
موجودہ قراء ات سبعہ یا قراء ات عشرہ اسی ایک حرف کے اندر موجود تھیں۔ قرآن مجید کو ایک حرف پر جمع کرنے کا مقصد ، کلام اللہ کی حفاظت، لوگوں کو اختلاف سے روکنا اور فتنے سے بچانا تھا۔
اللہ رب العزت نے سبعہ احرف پر پڑھنے کو واجب قرار نہیں دیا ،بلکہ نبی کریمﷺنے فرمایا: (فاقرء وا ما تیسر منہ)اس میں سے جو آسان ہو وہ پڑھو۔
لوگوں کو ایک حرف پر جمع کرنا ،انتہائی پاکیزہ کام ہے جس پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ شکریئے کے لائق ہیں، کیونکہ اس میں لوگوں کی تسہیل وآسانی ہے اور مسلمانوں کے درمیان موجوداختلاف کا خاتمہ ہے۔ (مجموعہ فتاوی لابن باز :۹؍۳۲۱)
٭……٭……٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال: شیخ ابن بازرحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا سورۃ الضحی سے لے کر آخرقرآن تک تکبیر کہنا ثابت ہے؟
جواب: انہوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ نبی کریمﷺسے ثابت نہیں ہے ، جیسا کہ حافظ ابن کثیررحمہ اللہ نے سورۃ الضحی کی تفسیر کے شروع میں اس کی صراحت فرمائی ہے، لیکن یہ ایک عادت ہے جس پر بعض قراء کرام ایک ضعیف حدیث کو بنیاد بنا کر عمل کرتے ہیں۔ اس کو ترک کر دینا اولیٰ ہے،کیونکہ عبادات ضعیف احادیث سے ثابت نہیں ہوتیں۔ (مجموعہ فتاوٰی لابن باز:۱؍۴۴۰)
تنبیہ:یہ شیخ ابن بازرحمہ اللہ کی ذاتی رائے ہے حقیقت یہ ہے کہ سورۃ الضحی سے لے کر آخر قرآن تک تکبیر کہنے کے حوالے سے اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔ تفصیلات جاننے کے لئے اسی شمارہ میں موجود شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی﷾ کے مضمون (تکبیر کا بیان) کا مطالعہ فرمائیں۔
٭……٭……٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سعودی عرب کے ہی نامور عالم دین شیخ ابن جبرین﷾ ، تکبیر کے حوالے سے سوال کاجواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
سوال: قراء عشرہ میں سے امام ابن کثیر مکی کی قراء ت میں تکبیر (اﷲ أکبر کہنا) وارد ہے اور انہوں نے اپنے مشائخ سے لے کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک کی سند سے یہ روایت کیا ہے کہ سورۃ الضحی سے لے کر سورۃ الناس کے آخر تک ہرسورت کے بعد ’’اﷲ أکبر ‘‘ کہا جائے، لیکن محدثین سے یہ تکبیر منقول نہیں ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ مرفوعاً ثابت نہیں ہے۔امام ابن کثیررحمہ اللہ کے علاوہ قراء عشرہ میں سے کسی نے بھی تکبیر کو نقل نہیں کیا۔ لہٰذا جوشخص امام ابن کثیر مکی رحمہ اللہ کی قراء ت پڑھ رہا ہو،وہ تکبیر کہہ لے ،لیکن تکبیر کہنے والے یا نہ کہنے والے میں سے کسی پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا جائے گا۔(فتاوی إسلامیہ:۴؍۴۷)
٭……٭……٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال: دس آیات کی تلاوت میں سے کیا ہر آیت کو جدا جدا قراء ت میں تلاوت کرنا جائز ہے؟ یا دس کی دس آیات کو پہلی آیت میں پڑھی گئی قراء ت میں ہی مکمل کرنا لازم یا اولی ہے ؟
جواب: اولیٰ یہی ہے کہ جس قراء ت میں پہلی آیت کو شروع کیا جائے، دس کی دس آیات کو اسی قراء ت میں تلاوت کیا جائے، بلکہ مناسب یہ ہے کہ اس آیت کے موضوع سے متعلقہ تمام آیات کو اسی قراء ت میں تلاوت کیا جائے۔ (فتاوی و مسائل لابن الصلاح:۱؍۲۳۰)
٭……٭……٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال: کیا قراء اتِ شاذہ کے ساتھ تلاوت کرنا جائز ہے؟ اور کیا نماز میں قراء ات شاذہ کی تلاوت مکروہ ہے؟
جواب: قراء ات متواترہ کے سوا تلاوت کرنا ناجائز ہے۔اور وہ قراء ات جو تواتر کے ساتھ ثابت نہیں ہیں، نماز وغیر نماز دونوں حالتوں میں ان کی تلاوت کرنا مکر وہ ہے، اور ہر صاحب استطاعت شخص پر واجب ہے کہ وہ قیام واجب کیلئے اٹھ کھڑا ہو۔(فتاویٰ ومسائل لابن الصلاح:۱؍۲۳۱)
٭……٭……٭
 
Top