• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ائمہ اسلاف اور عرب مفتیان کے فتاویٰ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال:اگر قرا ء اتِ شاذہ کے ساتھ تلاوت کرنا جائز نہیں ہے اورکوئی شخص ان کی تلاوت کرتا ہے اور اس پر مصر ہے تو کیا اسے گناہ کرنے والے کی مانند منع کیا جائے گا؟
جواب: اسے منع کرنا واجب ہے، اگر اسے اس قراء ت کے شاذہ ہونے کاعلم بھی ہو تو وہ گناہ گار ہے اور تعزیر کا مستحق ہے۔ (فتاوی و مسائل لابن الصلاح:۱؍۲۳۲)
٭……٭……٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال: اگر کوئی شخص روکنے کے باوجود قراء ات شاذہ کی تلاوت کرنے سے باز نہیں آتا تو اس کی کیا سزا ہے؟
جواب: اسے قید کر دیا جائے اور اس کی توہین کی جائے،صاحب قدرت شخص پر واجب ہے کہ وہ اسے دوبارہ قراء ات شاذہ کے ساتھ تلاوت کرنے کی اجازت نہ دے۔ (فتاوی ومسائل لابن الصلاح:۱؍۲۳۲)
٭……٭……٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن حزم الاندلسی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’الملل والنحل‘میں جمع قرآن ، سبعہ احرف اور قراء ات کے حوالے سے عیسائیوں کے اعتراضات کے جواب میں تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
پہلی شق:
ان لوگوں نے یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ تم لوگ اپنی کتاب (قرآن ) کی نقل کو کیسے صحیح کہہ سکتے ہو؟ حالانکہ اس کی قراء ات میں باہم شدید اختلاف ہے ۔ تم میں سے بعض لوگ بہت سے حروف بڑھادیتے ہیں اور بعض لوگ انہیں حذف کر دیتے ہیں، یہ تو اختلاف کاایک باب ہوا۔
دوسری شق:
تم لوگ ایسی اسانید سے جو تمہارے یہاں انتہائی صحت کوپہنچی ہوئی ہیں روایت کرتے ہو کہ تمہار ے نبیﷺکے اَصحاب کے چند گروہوں نے ،اوران کے ایسے تابعین نے ،جن کی تم تعظیم کرتے ہو اور اپنا دین ان سے اَخذ کرتے ہو، قرآن کو ایسے الفاظ زائدہ و مبدلہ میں پڑھا ہے،کہ تم لوگ ان الفاظ میں پڑھنے کوجائز نہیں سمجھتے جیسا کہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا مصحف(قرآن مجید) تمہارے مصحف کے خلاف تھا۔
تیسری شق:
نیز تمہارے علماء کے چند گروہ جن کی تم تعظیم کرتے ہو اور ان سے اپنا دین اخذ کرتے ہو کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہنے بہت سی صحیح قراء ات کو نکال ڈالا جب انہوں نے وہ مصحف لکھا جس پر انہوں نے تم لوگوں کو جمع کیا اور ان سات حرفوں میں سے جن پر تمہارے نزدیک قرآن نازل کیا گیا ہے، صرف ایک حر ف باقی رکھا ہے۔
تیسری شق:
نیزروافض یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تمہارے نبی کے اصحاب نے قرآن کو بدل دیا اور اس میں گھٹا بڑھا دیا۔
احقاق حق:
ان سب باتوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔ جیسا کہ ہم ایسے طریقے سے بیان کریں گے جس میں کسی کو کوئی اشکال نہ ہو گا۔ وباﷲ تعالی التوفیق
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اختلاف قراء ا ت:
تم لوگوں کا یہ کہنا کہ ہم اپنی کتاب کی قراء ا ت میں باہم مختلف ہیں، بعض چند حروف بڑھاتے ہیں بعض چند حروف گھٹاتے ہیں، تو یہ کوئی اختلاف نہیں ہے ،بلکہ وہ بھی ہمارا اتفاق ہے اور صحیح ہے ۔ اس لیے کہ ان حروف اور ان تمام قراء توں کی انتہا پوری پوری جماعتوں کی روایت سے رسول اللہ1تک ثابت ہے کہ وہ سب آپ پر نازل ہوئیں۔ اس لیے ان تمام قراء توں میں سے ہم جوبھی پڑھیں وہ صحیح ہے اور وہ سب قراء تیں شمار کی ہوئیں، محفوظ اوریاد کی ہوئیں اور معلوم ہیں جن میں نہ کوئی زیادتی ہے نہ کمی۔لہٰذا اس فصل سے جو تمہارا اعتراض وتعلق تھا وہ باطل ہو گیا۔ وﷲ تعالی الحمد
قر اء ات متروکہ:
تمہارا یہ کہنا کہ اصحاب رسول اللہﷺکے ایک گروہ سے اور ان تابعین سے کہ جن کی ہم تعظیم کرتے ہیں اور ان سے اپنا دین اَخذ کرتے ہیں باسانید ِصحیح مروی ہے کہ انہوں نے قرآن کو ایسی قر اء توں میں پڑھا کہ ہم لوگ ان قراء توں میں پڑھنا جائز نہیں سمجھتے ۔ تو یہ صحیح ہے۔
ہم لوگ اگرچہ رسول اللہﷺکے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعظیم میں انتہا کوپہنچے ہوئے ہیں اور اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ہمارا تقرب ان کی محبت کی وجہ سے ہے۔ مگر صحابہ کو وہم و خطاء سے بعید نہیں سمجھتے اور نہ کسی ایسی چیز میں ان کی تقلید کرتے ہیں جس کو انہوں نے کہا ہے۔
ہم تومحض وہ چیز صحابہ سے لیتے ہیں جس کے متعلق ہمیں انہوں نے رسول اللہﷺسے خبردی ہے جس کا انہوں نے خود مشاہدہ کیا ہے یا آنحضرتﷺسے سنا ہے اور وہ بھی اس وجہ سے کہ ان کی عدالت ،ثقاہت اور صدق ثابت ہو چکا ہے، لیکن ان امور میں ان کا خطا و وہم سے معصوم ہونا جو وہ اپنی رائے و ظن وقیاس سے کہیں تو ہم اس کے قائل نہیں۔
اگر تم لوگ بھی اپنے ان اَحبار واساقفہ کے ساتھ جو تمہارے اور انبیاء علیم السلام کے درمیان ہوئے ہیں ایسا ہی کرتے تو ہم تم پر ملامت نہ کرتے۔ بلکہ تم لوگ بھی صواب وہدایت پر ہوتے ، نازل شدہ حق کے پیرو اور خطائے مہمل سے دور ہو جاتے،لیکن تم لوگوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ ان لوگوں نے تمہارے لیے جو شریعت بنائی تم نے ان کی تقلید کر لی اور دنیا وآخرت میں ہلاک ہوئے۔
وہ قراء تیں جن کا تم نے ذکر کیا وہ محض صحابی یا تابعی پر موقوف ہیں( ان کا سلسلہ رسول اللہﷺ تک نہیں پہنچتا) لہذا لا محالہ وہ صحابی یا تابعی کا وہم ہے اور انبیاء علیم السلام کے بعد وہم سے کوئی خالی نہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف ابن مسعودرضی اللہ عنہ:
تمہارا یہ کہنا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا مصحف تمہارے مصحف کے خلاف ہے یہ کذب وباطل اور تہمت ہے۔ مصحف عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ میں بلاشک محض انہی کی قراء ت ہے مگر ان کی قراء ت وہی ہے جو امام عاصم کی قراء ت ہے کہ دنیائے مشرق ومغرب میں تمام اہل اسلام کے یہاں مشہور ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ ہم اس کوبھی پڑھتے ہیں اور دوسری قراء ات کو بھی، کیونکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ ساری قراء ات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی ہیں ۔ لہٰذا اس کے متعلق بھی ان کا اعتراض باطل ہوگیا ۔ والحمد ﷲ رب العالمین
مصحف عثمانی:
تمہارا یہ کہنا کہ ’’علماء کی ایک جماعت نے جن سے ہم اپنا دین اخذ کرتے ہیں، بیان کیا ہے کہ حضرت عثمان بن عفانtنے جب وہ مصحف لکھا جس پر انہوں نے لوگوں کو جمع کر لیا تو اس میں نازل شدہ حروف میں سے چھ حروف نکال ڈالے اور صرف ایک حرف رہنے دیا تو یہ انہیں اغلاط میں سے ہے جن کا تذکرہ ہو چکا ہے ۔یہ وہ گمان ہے جس کے قائل نے خطا کی ہے، واقعہ ایسا نہیں ہے جیسا اس نے کہا بلکہ یہ سب مثل آفتاب روشن کے برہان سے باطل ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسے وقت ہوئے ہیں کہ تمام جزیرۃ العرب مسلمانوں ،قرآنوں، مسجدوں اور قاریوں سے بھرا ہوا تھا ۔قاری، بچوں عورتوں اور ہر موجود اور دور سے آنے والے کو قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ تمام یمن جو ان کے زمانے میں متعدد شہروں اوربستیوں پر مشتمل تھا،اسی طرح بحرین اور عمان جن کی وسیع آبادی میں متعدد شہر اور دیہات تھے،اسی طرح تمام مکہ، طائف ،مدینہ اور شام، اسی طرح جزیرۃ، اسی طرح تمام مصر اور اسی طرح کوفہ وبصرہ کہ ان تمام آبادیوں میں اس قدر قرآن وقاریان قرآن تھے کہ ان کاشمار سوائے اللہ کے کوئی نہیں کر سکتا ، جیسا کہ یہ لوگ بیان کرتے ہیں اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کا قصد بھی کرتے تو ہر گز اس پر قادر نہ ہوتے۔
یہ کہنا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک قرآن پر جمع کر دیا تو یہ بھی باطل ہے۔ مذکورہ بالاوجوہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس پر بھی قادر نہیں ہو سکتے تھے اور نہ کبھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس طرف گئے کہ لوگوں کو اپنے لکھے ہوئے مصحف پر جمع کریں انہیں محض یہ اندیشہ ہوا کہ فاسق آ کے دین میں مکر کی کوشش کرے یا اہل خیر ہی میں سے کوئی وہم کرے اور قرآ ن کا کچھ حصہ بدل دے۔ نتیجے میں ایسا اختلاف ہو گا جو گمراہی تک پہنچا دے گا۔ انہوں نے متفق ہو کر چند قرآن لکھے اور ہر سمت ایک قر آن بھیج دیا کہ اگر کوئی وہم کرنے والا وہم کرے یا کوئی بدلنے والا بدل دے تو اس متفق علیہ قرآن کی طرف ر جوع کر لیا جائے لہذا حق ثابت و واضح ہو گیا اور کید و وہم باطل ہو گیا۔
یہ کہنا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چھ حروف مٹا دیئے تو جو یہ کہتا ہے ، وہ جھوٹا ہے۔ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسا کرتے یا ایسا کرنے کا ارادہ کرتے تو اسلام سے خارج ہو جاتے اور ایک ساعت بھی نہ ٹھہرتے ۔ یہ ساتوں حروف ہمارے یہاں موجود ہیں۔ جیسے تھے ویسے ہی قائم ہیں مشہور ومنقول وماثور قراء توں میں محفوظ ثابت ہیں۔ والحمد للہ رب العالمین۔
(مذکورہ بالا بحث امام ابن حزم رحمہ اللہ کی کتاب الفصل فی الملل والاہواء والنحل کے اردو ترجمے ’قوموں کا عروج وزوال‘ مترجم:مولانا عبداللہ عمادی سے لی گئی ہے صفحہ نمبر۳۱۷تا۳۱۹۔نیز قراء ات عشرہ اور سبعہ احرف کے حذف کے حوالے سے یہی بحث امام ابن حزم رحمہ اللہ کی کتاب الاحکام فی أصول الاحکام میں بھی موجود ہے۔ (۱/۵۶۵) اختصار کی غرض سے یہاں نقل نہیں کی جارہی)
٭……٭……٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن حزم رحمہ اللہ معوذتین او رسورۃالفاتحہ کے بار ے میں فرماتے ہیں:
وہ قرآن مجید جو مشرق ومغرب میں مسلمانوں کے پاس مصاحف میں موجود ہے، سورۃ الفاتحہ سے لے کر آخر معوذتین تک۔ اللہ تعالیٰ کا کلام اور وحی الٰہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی جناب محمدﷺکے دل پر نازل فرمایا: جس شخص نے اس (قرآن) میں سے ایک حرف کابھی انکار کیا وہ کافر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
’’فأجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلَامَ اﷲِ ‘‘(التوبۃ:۶)
نیز فرمایا : ’’ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الأَمِیْنُ عَلٰی قَلْبِکَ ‘‘ (الشعراء :۱۹۳)
نیز فرمایا : ’’وَکَذَلِکَ أوْحَیْنَا اِلَیْکَ قُرْآنًا عَرَبِیًّا ‘‘ (الشوریٰ: ۷)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب وہ روایت جس میں مذکور ہے کہ ان کے مصحف میں سورۃ الفاتحہ اور معوذتین موجود نہیں تھیں، جھوٹی اور موضوع ہے اور ان سے صحیح ثابت نہیں ہے بلکہ ان سے امام عاصم کی قراء ت عن زر بن حبیش عن ابن مسعودرضی اللہ عنہ صحیح ثابت ہے، اور اس قراء ت میں سورۃ الفاتحہ او رمعوذتین موجود ہیں۔ (المحلی:۱؍۱۳)
٭……٭……٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن حزم رحمہ اللہ ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ کے متعلق فرماتے ہیں:
جو شخص ان قراء کرام کی قراء ت یاروایت پڑھتا ہے جنہوں نے’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘‘ کوقرآن مجید کی آیت شمار کیا ہے ، اس کی نمازبدون ِبسملہ درست نہیں ہو گی۔ بسملہ کو آیت شمار کرنے والوں میں امام عاصم بن ابی النجود ،امام حمزہ ، امام کسائی ، امام عبد اللہ بن کثیررحمہم اللہ او رمتعدد صحابہ کرام وتابعین عظام شامل ہیں۔اور جو شخص ان قراء کرام کی قراء ت یار وایت پڑھتا ہے جو بسملہ کو سورۃ الفاتحہ کی آیت شمار نہیں کرتے، وہ بسملہ پڑھنے او رنہ پڑھنے کے درمیان مختار ہے۔ بسملہ کو آیت شمار نہ کرنے والوں میں امام ابن عامر شامی، امام ابو عمرو بصری اٰور امام یعقوب رحمہم اللہ شامل ہیں۔
آگے چل کر امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حق یہی ہے کہ نماز میں سورۃ الفاتحہ کی قراء ت کرنا فرض ہے۔ اور ان قراء اتِ قرآنیہ کے برحق اورقطعی ہونے میں اہل اسلام کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ تمام کی تمام قراء ات رسول اللہﷺسے ثابت ہیں۔ نبی کریمﷺنے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے نقل کی ہیں۔ جب تمام قراء ات برحق ہیں تو انسان ان میں سے جو چاہے پڑھ سکتاہے ۔ ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم ‘‘ بعض صحیح قراء ات میں سورۃ الفاتحہ کی آیت ہے، جبکہ بعض صحیح قراء ات میں سورۃ الفاتحہ کی آیت نہیں ہے۔ بسملہ کی طرح متعدد ایسے الفاظ ہیں بعض صحیح قراء ات میں موجود ہیں اور بعض میں نہیں ہیں جیسے ’’ہو الغنی الحمید ‘‘ میں لفظ ’’ہو‘‘ وغیرہ
قرآن مجید سبعہ احرف پر نازل ہوا ہے اور تمام کے تمام حروف برحق ہیں۔اور قراء ات کامذکورہ اختلاف بھی بالاجماع انہی برحق سبعہ احرف میں سے ہے۔ (المحلی: ۳؍۲۵۱، ۲۵۴)
اس کے علاوہ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ ’’ حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِالْوُسْطٰی‘‘ کی شرح میں مختلف قراء ات شاذہ کا تذکرہ کیا ہے۔ (المحلی:۴؍۲۵۴)
نیز انہوں نے سجود القرآن کی وضاحت کرتے ہوئے بھی مختلف قراء ات کو نقل کیا ہے۔ (المحلی:۵؍۱۰۵،۱۱۰)
٭……٭……٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ مصحف عثمان میں موجود ہر قراء ت کو پڑھا جائے گا۔ امام احمدرحمہ اللہ سے منقول ہے کہ وہ قراء ت نافع عن اسماعیل بن جعفررحمہ اللہ کو پسند کرتے تھے،اس کے بعد قراء ت عاصم عن ابی بکر بن عیاش کو پسند کرتے تھے۔ نیز امام ابو عمرو بن العلاء البصری کی قراء ت کے بھی مدح خواں تھے۔ وہ قراء ات عشرہ میں سے قراء ت حمزہ اور قراء ت کسائی کے علاوہ ، کسی کو بھی نا پسند نہیں کرتے تھے۔ قراء ت حمزہ اور قراء ت کسائی کو امالہ ، ادغام ، تکلف اور لمبی مد کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے۔
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:’’نزل القرآن بالتفخیم ‘‘ قرآن مجید تفخیم کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ (ذکرہ السیوطی فی الجامع الکبیر: ۱؍۱۵۵)
اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’أنزل القرآ ن بالتفخیم والتثقیل‘‘
قرآن مجید تفیخم اور تثقیل کے ساتھ نازل کیا گیا ہے۔
اور نمازوں میں ان دونوں(امام حمزہ رحمہ اللہ او رامام کسائی رحمہ اللہ) کی قرا ء ت کے ساتھ تلاوت کرناجائز ہے۔ الاثرم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو عبد اللہ رحمہ اللہ سے کہاکہ: اگر کوئی شخص قراء تِ امام حمزہ کے ساتھ نماز پڑھاتا ہو تو کیا میں اس کے پیچھے نماز پڑھ لوں؟ تو انہوں نے فرمایا : اس درجے کو ان میں سے کوئی بھی نہیں پہنچتا۔ لیکن مجھے قراء ت حمزہ پسند نہیں ہے۔ (المغنی:۲؍۱۶۵)
٭……٭……٭
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مصحف عثمان سے خارج قراء ات میں سے ہر قراء ت،جیسے قراء ت ابن مسعود وغیرہ کے ساتھ نماز ادا کرنا غیر مناسب ہے ،کیونکہ قرآن مجید بطریق تواتر ثابت ہوتاہے جبکہ یہ قراء ات غیر متواتر ہیں او ران کا قرآن ہونا ثابت نہیں ہے اگر کوئی قراء ت ایسی ہو جس کی نقل صحیح اور سند متصل ہو تواس میں اہل علم کے دو قول ہیں:
(١) اس کے ساتھ نماز صحیح نہیں ہوگی۔
(٢) اس کے ساتھ نماز صحیح ہو گی، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم ﷺکی وفات سے پہلے اور بعد،دونوں زمانوں میں اپنی ان قراء ات کے ساتھ نماز پڑھاکرتے تھے، اور نبی کریمﷺسے صحیح ثابت ہے کہ آپﷺنے فرمایا:
(من أحب أن یقرأ القرآن غضا کما أنزل فلیقرأہ علی قراء ۃ ابن أم عبد)(سنن ابن ماجۃ:۱؍۴۹، مسند أحمد:۱؍۷،۲۶،۳۸،۴۴۵،۴۵۴)
’’جوشخص اس طرح قرآن پڑھنا چاہتا ہو جس طرح نازل ہوا ہے تو اسے چاہیے کہ ابن ام عبد (ابن مسعودرضی اللہ عنہ ) کی قراء ت پر پڑھے ۔‘‘
جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور سیدنا ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ نے قراء تِ قرآن میں اختلاف کیا تو انہیں نبی کریمﷺنے فرمایا ( اقرء وا کما علمتم)تمہیں جیسے سکھلایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جمعِ عثمانی سے قبل بعض ان قراء ات کے ساتھ بھی نماز ادا کیا کرتے تھے جوحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف سے حذف کر دیں۔ وہ ان قر اء ات کی تلاوت میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ان کی قراء ات کی تلاوت سے وہ بطلان نماز کے قائل تھے۔ [المغنی:۲؍۱۶۶]

٭_____٭_____٭
 
Top