• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اباضی فرقہ کون ہیں؟

abu khuzaima

رکن
شمولیت
جون 28، 2016
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
46
عمان میں قیام پذیر اباضی فرقہ کے متعلق کوئی اردو رسالہ درکار ہے یا کوئی یہاں مختصر روشنی ڈال دے ان کے عقائد پر

Sent from my SM-G920F using Tapatalk
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
ابن بطوطہ جب اومان گیا تھا تو اس نے ان کی مسجد میں جمعہ نماز پڑھنے گیا تودیکھا کہ امام نماز حضرت علی و عثمان رضہ اور معاویہ رضہ کو برا بھلا کہ رہا تھا۔ یہی وہ اباضی فرقہ تھا اور آج تک وہیں ہیں جو کہ خارجیوں کی اس دنیا میں آخری نشانی ہیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
عمان میں قیام پذیر اباضی فرقہ کے متعلق کوئی اردو رسالہ درکار ہے یا کوئی یہاں مختصر روشنی ڈال دے ان کے عقائد پر
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اباضی فرقہ کے متعلق " الاسلام سؤال و جواب " سائیٹ پر ایک تعارفی فتوی شائع اسے آپ کیلئے یہاں پیش کیا جاتا ہے
اس کا ترجمہ وقت ملتے ہی پیش کردیاجائے گا ،ان شاء اللہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الإباضية
11529
تاريخ النشر : 24-03-2003

السؤال

من هم الإباضية ؟.
نص الجواب
الحمد لله

أولاً : التعريف :

الإباضية إحدى فرق الخوارج ، وتنسب إلى مؤسسها عبد الله بن إباض التميمي ، ويدعي أصحابها أنهم ليسوا من الخوارج ، وينفون عن أنفسهم هذه النسبة ، والحقيقة أنهم ليسوا من غلاة الخوارج كالأزارقة مثلاً ، لكنهم يتفقون مع الخوارج في مسائل عديدة منها : تعطيل الصفات والقول بخلق القرآن وتجويز الخروج على أئمة الجور .

ثانياً : لمن تنسب الإباضية :

* مؤسسها الأول عبد الله بن إباض من بني مرة بن عبيد بن تميم ، ويرجع نسبه إلى إباض وهي قرية العارض باليمامة ، وعبد الله عاصر معاوية وتوفي في أواخر أيام عبد الملك بن مروان .

ثالثاً : أهم العقائد :

* يظهر من خلال كتبهم تعطيل الصفات الإلهية ، وهم يلتقون إلى حد بعيد مع المعتزلة في تأويل الصفات ، ولكنهم يدعون أنهم ينطلقون في ذلك من منطلق عقدي ، حيث يذهبون إلى تأويل الصفة تأويلاً مجازياً بما يفيد المعنى دون أن يؤدي ذلك إلى التشبيه ، ولكن كلمة الحق في هذا الصدد تبقى دائماً مع أهل السنة والجماعة المتبعين للدليل ، من حيث إثبات الأسماء الحسنى والصفات العليا لله تعالى كما أثبتها لنفسه ، بلا تعطيل ولا تكييف ولا تحريف ولا تمثيل .

* ينكرون رؤية المؤمنين لله تعالى في الآخرة .

* يحرفون بعض أمور الآخرة وينفون حقيقتها كالميزان والصراط .

* صفات الله ليست زائدة على ذات الله ولكنها هي عين ذاته .

* القرآن لديهم مخلوق ، وقد وافقوا الخوارج في ذلك ، يقول الأشعري في مقالات الإسلاميين ( والخوارج جميعاً يقولون بخلق القرآن ) مقالات الإسلاميين 1/203.

* مرتكب الكبيرة عندهم كافر كفر نعمة أو كفر نفاق .

* الناس في نظرهم ثلاثة أصناف :

- مؤمنون أوفياء بإيمانهم .

- مشركون واضحون في شركهم .

- قوم أعلنوا كلمة التوحيد وأقروا بالإسلام لكنهم لم يلتزموا به سلوكاً وعبادة فهم ليسوا مشركين لأنهم يقرون بالتوحيد ، وهم كذلك ليسوا بمؤمنين لأنهم لا يلتزمون بما يقتضيه الإيمان ، فهم إذن مع المسلمين في أحكام الدنيا لإقرارهم بالتوحيد وهم مع المشركين في أحكام الآخرة لعدم وفائهم بإيمانهم ولمخالفتهم ما يستلزمه التوحيد من عمل أو ترك .

* يعتقدون بأن مخالفيهم من أهل القبلة كفار غير مشركين ، ومناكحتهم جائزة وموارثتهم حلال، وغنيمة أموالهم من السلاح والخيل وكل ما فيه من قوة الحرب حلال وما سواه حرام .

* مرتكب الكبيرة كافر ولا يمكن في حال معصيته وإصراره عليها أن يدخل الجنة إذا لم يتب منها ، فإن الله لا يغفر الكبائر لمرتكبيها إلا إذا تابوا منها قبل الموت .

* الذي يرتكب كبيرة من الكبائر يطلقون عليه لفظة (كافر) زاعمين بأن هذا كفر نعمة أو كفر نفاق لا كفر ملة ، بينما يطلق عليه أهل السنة والجماعة كلمة العصيان أو الفسوق ، ومن مات على ذلك – في اعتقاد أهل السنة – فهو في مشيئة الله ، إن شاء غفر له بكرمه وإن شاء عذبه بعدله حتى يطهُر من عصيانه ثم ينتقل إلى الجنة ، أما الإباضية فيقولون بأن العاصي مخلد في النار ، وهي بذلك تتفق مع بقية الخوارج والمعتزلة في تخليد العصاة في جهنم .

* ينكرون الشفاعة لعصاة الموحدين ، لأن العصاة – عندهم – مخلدون في النار فلا شفاعة لهم حتى يخرجوا من النار .

* يتهجم بعضهم على أمير المؤمنين عثمان بن عفان ومعاوية بن أبي سفيان وعمرو بن العاص رضي الله عنهم .
المصدر: موسوعة الأديان والمذاهب المعاصرة ( 1 / 63 )
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
ابن بطوطہ جب اومان گیا تھا تو اس نے ان کی مسجد میں جمعہ نماز پڑھنے گیا تودیکھا کہ امام نماز حضرت علی و عثمان رضہ اور معاویہ رضہ کو برا بھلا کہ رہا تھا۔ یہی وہ اباضی فرقہ تھا اور آج تک وہیں ہیں جو کہ خارجیوں کی اس دنیا میں آخری نشانی ہیں
ابن بطوطہ کذاب اور مفتری ہے اس کے بیان کا کوئی اعتبار نہیں ،
ابن بطوطہ کے جھوٹا ہونے کا ثبوت دیکھئے اس تھریڈ میں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اباضی فرقہ کے متعلق کوئی اردو رسالہ درکار ہے یا کوئی یہاں مختصر روشنی ڈال دے ان کے عقائد پر
اباضیہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے​

اسلام کے ایک اعتقادی مذہب اسلامی کی ایک شاخ جو ایک رہنما عبداللہ بن اباض سے منسوب ہے۔ عقیدہ تھا کہ غاصب اور ظالم حاکم کے خلاف جنگ و جدال میں اٹھ کھڑا ہونا مذہبی فریضہ ہے۔ لہذا وہ بنو امیہ کے خلاف بار بار اٹھتے رہے، یہاں تک کہ مسلسل جنگ و جدال نے خود انہیں صفحہ روزگار سے مٹا دیا۔ عبداللہ بن اباض نے تشدد کی بجائے رواداری برتی تھی۔ اس لیے اس کے پیروکار آج کے اس دور تک تھی اباضی فرقے کے ارکان کے طور بچ گئے۔ اباضی دوسری صدی ہجری میں شمالی افریقا کی طرف نکل گئے تھے۔ اباضی زیادہ تر الجزائر کے علاقہ میزاب اور عمان میں آباد ہیں۔
تاریخ :
مشرقی افریقہ) کے دار السلطنت، دارالسلام میں مختلف شیعی گروہوں کے علاوہ خارجی فرقہٴ اباضیہ بھی اپنی ایک خاص شناخت اور طاقت رکھتا ہے، اس فرقے کی پرشِکُوہ مسجدیں کسی بھی زائر کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ایشیائی مسلمان، اباضیہ کو بھی اہل السنة والجماعة میں شمار کرتے ہوئے بلاجھجک ان کی مسجدوں میں نماز پڑھتے ہیں۔
سُنی اسلام کی بنیادوں کو متزلزل کرنے اور مسلمانوں کو ابتداہی سے غیر معمولی نقصانات پہنچانے میں روافض کے ساتھ خوارج کا اہم کردار رہا ہے، یہ صحیح ہے کہ مرورِزمانہ کے ساتھ خوارج کی ساکھ کمزور ہوتی گئی اور وہ رفتہ رفتہ ناپید ہوتے گئے؛ تاہم بعض علاقے اب تک خارجی اثرات ومعتقدات کے زیراثر ہیں اورانھی خوارج کی باقیات میں سے فرقہٴ اباضیہ بھی ہے۔ مذہب اباضیہ کو عام طور سے عبد اللہ بن اباض تمیمی کی طرف منسوب کیاجاتاہے، جن کی وفات 80ھ میں ہوئی ہے؛ جبکہ علمی اور فکری اعتبار سے اس کا سرچشمہ ابوالشعثاء کو قرار دیا جاتا ہے۔
دیگر مذاہب کی طرح اباضیہ کے پاس بھی مسائل کے استنباط کے خاص مناہج اور فقہی اصول وضوابط ہیں۔ فرقہٴ اباضیہ کو ”اہلِ دعوت، اہل استقامت اور جماعة المسلمین“ کے ناموں سے بھی جانا جاتا رہا ہے۔

خوارجِ اباضیہ کی مستند کتب اور علماء
مشہور اباضی علما میں جنھیں مرجعیت حاصل رہی ہے۔ ابراہیم اَطّفش الجزائری اور ابراہیم بن عمر بیوض الجزائری ہیں۔ یہ دونوں اباضیت میں متشدد نہیں تھے، حتیٰ کہ آخرالذکر کے بارے میں بعض لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مرنے سے پہلے انھوں نے اباضیت سے توبہ کرکے مالکی مسلک کو اختیار کرلیاتھا؛ اگرچہ اباضیین اس کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ اباضیین کے یہاں معتمد اور مستند کتابوں میں، عقیدہ میں نور الدین سالمی کی مشارق الانوار،اصول فقہ میں طلعة الشمس، فقہ میں محمداظفیش کی شرح النبیل وشفاء العلیل۔ سعدی کی قاموس الشریعة اوراحمد کندی کی المصنف جیسی کتابیں ہیں؛ جبکہ حدیث میں مسند الربیع بن حبیب کو اتنی زیادہ اہمیت دے رکھی ہے کہ وہ اسے اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا مصداق اور صحیح بخاری وصحیح مسلم سے فائق قرار دیتے ہیں۔
عمان، اعتدال پسند خارجی فرقے، اباضیہ کا سب سے بڑا مرکز
اس وقت اباضیین کی بڑی تعداد الجزائر، تونس، لیبیا، مشرقی افریقہ اور سلطنت عمان وغیرہ میں آباد ہے۔ عمان کو ان کی مذہبی اور فکری سرگرمیوں کا مرکز قرار دیا جاسکتا ہے؛ کیوں کہ ایک اندازے کے مطابق وہاں کے پچھتّر فیصد باشندے اباضی ہیں۔ شیخ ابوزہرہ مصری فرماتے ہیں: یہ فرقہ خارجیوں میں معتدل اور فکر ورائے میں عام مسلمانوں سے زیادہ قریب، غلو اور انتہا پسندی سے الگ تھا، نیز وہ لکھتے ہیں: یہی وجہ ہے کہ عالمِ اسلام کے بعض اطراف میں یہ اب تک موجود ہیں۔“ [2] یاقوت حموی نے بھی اپنے دور کے باشندگان عمان کی اکثریت کو اباضی قرار دیا ہے، وہ کہتے ہیں:
أکثر أہلہا في أیامنا خوارج اباضیة، لیس بہا من غیر ہذا المذہب الا طاری غریب، وہم لا یخفون ذٰلک[3]
ترجمہ: ہمارے زمانے میں عمان کے اکثر باشندے اباضی خوارج ہیں اور سوائے کسی اجنبی نووارد شخص کے اباضیہ کے علاوہ کو ماننے والا کوئی شخص نہیں ہے اور اباضیین اپنے عقائد کو چھپاتے بھی نہیں ہیں۔

عقائد میں اباضیہ کا اہل السنة والجماعة سے اختلاف
چند اہم عقائد جن میں اباضیہ کا نقطئہ نظر اہل السنة والجماعة سے مختلف ہے، درج ذیل ہیں:
1- اباضیین صفاتِ الٰہی کا انکار کرتے ہیں،اور صفات کو عین ذات باری تعالیٰ قرار دیتے ہیں؛ جبکہ اہل السنة والجماعة، ذات باری تعالیٰ کے لیے صفات کو ثابت جانتے ہیں۔
2- آیات ربانیہ اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آخرت میں اہل ایمان کو اللہ پاک کا دیدار نصیب ہوگا؛ چنانچہ سورئہ یونس کی آیت کریمہ ”للذین أحسنوا الحسنٰی وزیادة“ (یونس:6) ”جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے خوبی ہے اور مزید برآں بھی“ میں زیادہ کی تفسیر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیدار الٰہی سے کی ہے؛
چنانچہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت پاک ”للذین أحسنوا کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے تو ایک پکارنے والا پکارے گا، اے جنتیو! اللہ پاک نے تم سے ایک وعدہ کررکھا ہے، اللہ اپنے اس وعدے کو پورا کرنا چاہتا ہے، تو جنتی جواب دیں گے، وہ کیا ہے؟ کیا اللہ پاک ہمارے ترازو کو بھاری، ہمارے چہروں کو روشن اور ہمیں دوزخ سے دور کرکے جنت میں داخل نہیں کردیاہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: اس کے بعد پردہ ہٹادیا جائے گا اور جنتی اللہ پاک کا دیدار کریں گے، تو خدا کی قسم اللہ کی عطا کردہ ساری نعمتوں میں اللہ کا دیدار سب سے پسندیدہ اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخشنے والا ہوگا“۔ یہ حدیث مسلم شریف، ترمذی شریف سمیت کئی کتب حدیث میں موجود ہے ،
اور اس مضمون کی اور بھی متعدد روایات ہیں، لہٰذا قرآنی آیات اور احادیث وآثار کے پیش نظر اہل السنة کا اجماعی عقیدہ ہے کہ آخرت میں اللہ پاک کا دیدار ہوگا؛ لیکن اباضیین اس کا انکار کرتے ہیں اورکہتے ہیں یہ ممکن ہی نہیں ہے۔
3- اباضیین، قرآن کریم کے مخلوق اور حادث ہونے کے قائل ہیں، جو معتزلہ کا مشہور عقیدہ ہے۔ اسی کے انکار کی وجہ سے معتزلہ کی ایماء پر عباسی خلفاء نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر کوڑے برسائے اور سخت اذیتیں دیں؛ لیکن حضرت امام کے پائے استقامت میں ذرا جنبش نہیں ہوئی اور وہ اہل السنة والجماعة کے اس عقیدے پر جمے رہے کہ قرآنِ مقدس مخلوق نہیں، جو حادث ہو، یہ اللہ پاک کا کلام ہے جو اس کی صفات میں سے ہے۔
4-اباضیین کا عقیدہ ہے کہ جو شخص گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرکے دنیا سے جائے گا؛ اگرچہ وہ کلمہ گو اور پابند نماز وغیرہ ہو، پھر بھی اسے ہمیشہ کے لیے جہنم میں جانا پڑے گا۔ اسے کبھی جنت نصیب نہیں ہوگی؛
جبکہ اہل السنة والجماعة کا متفقہ عقیدہ ہے کہ مرتکب کبیرہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔ اگر ایمان پر اس کا خاتمہ ہوا ہے تو اسے بھی اللہ پاک جنت کا داخلہ نصیب کریں گے یا تو اللہ پاک اس کا گناہ معاف کر دیں یا گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد اللہ پاک اس کے حق میں جنت کا فیصلہ فرمادیں؛ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”اہل توحید میں سے کچھ لوگوں کو جہنم میں عذاب دیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ اس میں کوئلہ بن جائیں گے، پھر اللہ کی رحمت متوجہ ہوگی، تو انھیں آگ سے نکال کر جنت کے دروازوں پر ڈال دیا جائے گا، تو جنتی ان پر پانی چھڑکیں گے جس کے نتیجے میں وہ اس طرح اگیں گے جس طرح سیلاب کے بہاؤ میں گھاس اگ جاتی ہے“۔
5- جنھوں نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے، اباضیین کے نزدیک وہ مستحق شفاعت نہیں ہیں، جبکہ اہل السنة والجماعة کا عقیدہ ہے کہ ان کے حق میں بھی شفاعت ہوگی۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لیخرجن قوم من امتی من النار بشفاعتي یُسمّون الجہنمیین“
ترجمہ: میری سفارش کی وجہ سے میری امت کے ایک گروہ کو جن کا لقب جہنمی پڑجائے گا، جہنم سے نکالا جائے گا۔
6- قرآن وحدیث میں آخرت کے متعلق کئی چیزوں کا تذکرہ ہے، مثلاً میزانِ عدل قائم کیا جائے گا، پل صراط سے گزرنا ہوگا؛ لیکن اباضیین اس طرح کی چیزوں میں تاویل کرتے ہیں اور احادیث میں ان چیزوں کی جو تفصیلات ہیں انھیں نہیں مانتے ہیں؛ جبکہ اہل السنة والجماعة اسی طرح ان کو مانتے ہیں جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔
7- اہل السنة والجماعة کا اتفاق ہے کہ قرآنِ مقدس کے بعد روئے زمین پر سب سے صحیح کتاب بخاری شریف ہے،اس کے بعد مسلم شریف وغیرہ دیگر کتب احادیث کا مقام ہے؛ لیکن اباضیین اس تصور کو خارج کردیتے ہیں، ان کے نزدیک بخاری ومسلم سے بڑھ کر مسند ربیع بن صہیب ہے۔ قرآن مجید کے بعد سب سے اہم کتاب وہ اسی مسند کو قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح اباضیین نے بہت سے اجماعی مسائل کا بھی انکار کیا ہے۔[4]
چند متفقہ فقہی مسائل میں اباضیہ کا نظریہ
جب اصول وعقائد میں اباضیہ کا نقطئہ نظر اہل السنة والجماعة کے نقطئہ نظر سے مختلف ہے، تو فروع وجزئیات فقہیہ میں اختلاف تو لابدی اور فطری ہے۔ ہم یہاں چند اہم مسائل درج کر رہے ہیں، جن میں اباضیین نے اہل السنة والجماعة کے اجتماعی موقف سے شذوذ کیاہے۔
1-شیعوں کی طرح اباضیین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ خفین پر مسح کرنا جائز نہیں؛ حالاں کہ چمڑے کے موزے پر مسح کا جواز اہل السنة کا متفقہ مسئلہ ہے اورامام ابوحنیفہ نے خفین پر مسح کے جواز کو اہل السنة والجماعة کی علامتوں میں شمار کیا ہے۔
2- نماز کے آغاز میں تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانے کے قائل نہیں اور پوری نماز ہاتھ چھوڑ کر ہی ادا کرتے ہیں۔
3- اگر رمضان میں حالت جنابت میں صبح ہوئی تواس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔
4- جو جزیہ نہیں دیتے، مثلاً موجودہ اہل کتاب، ان کا ذبیحہ حرام ہے۔
5- ورثہ کے علاوہ دیگر رشتہ داروں کے لیے وصیت واجب ہے۔
6- مکاتب، عقد کتابت کے وقت سے ہی آزاد ہے۔

اباضیین کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم
اباضیین کے پیچھے نماز پڑھنے کا بھی وہی حکم ہوگا،جو حکم خوارج کے پیچھے نماز پڑھنے کا ہے۔ یعنی اگرچہ اہل السنة والجماعة انھیں کافر نہیں قرار دیتے؛ لیکن ان کے عقائدِ فاسدہ اور اعمالِ شنیعہ کی وجہ سے ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے ضرور منع کرتے ہیں، عرب علما، چوں کہ اباضیین کے احوال سے زیادہ واقف ہیں؛اس لیے ہم اس سلسلے میں زیادہ تر انھیں کے فتاویٰ نقل کرتے ہیں۔
مشہور عرب عالم ابن جبرین فرماتے ہیں: ”ثم ہم مع ذٰلک یکفرون أہل السنة ویمنعون خلفنا، فلذٰلک یقول: لا یصلی خلف ہٰذہ الطائفة
ترجمہ:اباضیین اپنے غلط افکار کے ساتھ اہل السنة کو کافر قرار دیتے ہیں اور ہمارے پیچھے نماز پڑھنے سے روکتے ہیں؛ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اس فرقے کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جائے گی۔
شیخ محمد بن ابراہیم نے تو اباضیہ کے پیچھے نہ صرف نماز پڑھنے کو ناجائز قرار دیا ہے؛ بلکہ واضح طور پر کہا ہے کہ فرقہٴ اباضیہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کی گواہی بھی شرعاً معتبر نہیں ہوگی۔ [5]
سعودی عرب کے مفتیان کرام کی جماعت نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے کہ اباضیین کے پیچھے نماز درست نہیں ہوتی؛ کیوں کہ اباضیہ فرقہ ضالہ میں سے ہے۔ [6]
ان کے علاوہ شیخ سلمان العودة اور شیخ سلمان الغصن بھی اباضیہ کے پیچھے نماز درست نہیں قرار دیتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَّا أَهْلُ النَّارِ الَّذِينَ هُمْ أَهْلُهَا، فَإِنَّهُمْ لَا يَمُوتُونَ فِيهَا وَلَا يَحْيَوْنَ، وَلَكِنْ نَاسٌ أَصَابَتْهُمُ النَّارُ بِذُنُوبِهِمْ - أَوْ قَالَ بِخَطَايَاهُمْ - فَأَمَاتَهُمْ إِمَاتَةً حَتَّى إِذَا كَانُوا فَحْمًا، أُذِنَ بِالشَّفَاعَةِ، فَجِيءَ بِهِمْ ضَبَائِرَ ضَبَائِرَ، فَبُثُّوا عَلَى أَنْهَارِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ قِيلَ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، أَفِيضُوا عَلَيْهِمْ، فَيَنْبُتُونَ نَبَاتَ الْحِبَّةِ تَكُونُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ "، فَقَالَ: رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، كَأَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ بِالْبَادِيَةِ،(صحیح مسلم کتاب الایمان )
ترجمہ :
حضرت ابو سعیدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جہاں تک دوزخ والوں کی بات ہے تووہ لوگ جو (ہمیشہ کے لیے ) اس کے باشندے ہیں نہ تو اس میں مریں گے اور نہ جئیں گے ۔ لیکن تم (اہل ایمان ) میں سے جن لوگوں کو گناہوں کی پاداش میں (یا آپ نے فرمایا: خطاؤں کی بنا پر ) آگ کی مصیبت لاحق ہو گی تو اللہ تعالیٰ ان پر ایک طرح کی موت طاری کر دے گا یہاں تک کہ جب وہ کوئلہ ہو جائیں گے تو سفارش کی اجازت دے دی جائے گی ، پھر انہیں گروہ در گروہ لایا جائے گا اور انہیں جنت کی نہروں پر پھیلادیا جائے گا ، پھر کہا جائے گا:اے اہل جنت ! ان پر پانی ڈالو تو اس میں بیج کی طرح اگ آئیں گے جو سیلاب کے خس و خاشاک میں ہوتا ہے ۔‘‘ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: ایسا لگتا ہے جیسے رسول اللہ ﷺ صحرائی آبادی میں رہے ہیں ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
Top