• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم ابتدائی مسلمانوں کا صبر وثبات اور اس کے اسباب وعوامل

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ابتدائی مسلمانوں کا صبر وثبات اور اس کے اسباب وعوامل

یہاں پہنچ کر گہری سوجھ بوجھ اور مضبوط دل ودماغ کا آدمی بھی حیرت زدہ رہ جاتا ہے اور بڑے بڑے عقلاء دم بخود ہوکر پوچھتے ہیں کہ آخر وہ کیا اسباب وعوامل تھے جنہوں نے مسلمانوں کو اس قدر انتہائی اور معجزانہ حد تک ثابت قدم رکھا؟ آخر مسلمانوں نے کس طرح ان بے پایاں مظالم پر صبر کیا جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل لرز اٹھتا ہے۔ باربار کھٹکنے اور دل کی تہوں سے ابھرنے والے اس سوال کے پیش نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان اسباب وعوامل کی طرف ایک سرسری اشارہ کردیا جائے۔
ان میں سب سے پہلا اور اہم سبب اللہ کی ذاتِ واحد پر ایمان اور اس کی ٹھیک ٹھیک معرفت ہے۔ کیونکہ جب ایمان کی بشاشت دلوں میں جانشیں ہوجاتی ہے تو وہ پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور اسی کا پلہ بھاری رہتا ہے اور جو شخص ایسے ایمانِ محکم اور یقین کامل سے بہرہ ور ہو وہ دنیا کی مشکلات کو ...خواہ وہ جتنی بھی زیادہ ہوں اور جیسی بھی بھاری بھرکم ، خطرناک اور سخت ہوں...اپنے ایمان کے بالمقابل اس کا ئی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا جو کسی بند توڑ اور قلعہ شکن سیلاب کی بالائی سطح پر جم جاتی ہے۔ اس لیے مومن اپنے ایمان کی حلاوت ، یقین کی تازگی اور اعتقاد کی بشاشت کے سامنے ان مشکلات کی کوئی پروا ہ نہیں کرتا کہ :
فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً ۖ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْ‌ضِ (۱۳: ۱۷)
''جو جھاگ ہے وہ تو بیکار ہوکر اڑ جاتا ہے اور جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے وہ زمین میں برقرار رہتی ہے۔''
پھر اسی ایک سبب سے ایسے اسباب وجود میں آتے ہیں جو اس صبر وثبات قدمی کو قوت بخشتے ہیں۔ مثلاً:
پر کشش قیادت:... معلوم ہے کہ نبیﷺ جو امت ِ اسلامیہ بلکہ ساری انسانیت کے سب سے بلند پایہ قائد ورہنماتھے۔ ایسے جسمانی جمال ، نفسانی کمال ، کریمانہ اخلاق ، باعظمت کردار اور شریفانہ عادات واطوار سے بہرہ ور تھے کہ دل خود بخود آپﷺ کی جانب کھنچے جاتے تھے اور طبیعتیں خودبخود آپﷺ پر نچھاور ہوتی تھیں کیونکہ جن کمالات پر لوگ جان چھڑکتے ہیں ان سے آپﷺ کو اتنا بھر پور حصہ ملا تھا کہ اتنا کسی اور انسان کو دیا ہی نہیں گیا۔ آپﷺ شرف دعظمت اور فضل وکمال کی سب سے بلند چوٹی پر جلوہ فگن تھے۔ عفت وامانت ، صدق وصفا اور جملہ امورِ خیر میں آپﷺ کا وہ امتیاز ی مقام تھا کہ رفقاء تو رفقاء آپﷺ کے دشمنوں کو بھی آپﷺ کی یکتائی وانفرادیت پر کبھی شک نہ گزرا۔ آپﷺ کی زبان سے جو بات نکل گئی ، دشمنوں کو بھی یقین ہوگیا کہ وہ سچی ہے اور ہوکر رہے گی۔ واقعات اس کی شہادت دیتے ہیں۔ ایک بار قریش کے ایسے تین آدمی اکٹھے ہوئے جن میں سے ہر ایک نے اپنے بقیہ دوساتھیوں سے چھپ چھپا کر تن تنہا قرآن مجید سنا تھا لیکن بعد میں ہر ایک کا راز دوسرے پر فاش ہوگیا تھا۔ انہی تینوں میں سے ایک ابو جہل بھی تھا۔ تینوں اکٹھے ہوئے تو ایک نے ابوجہل سے دریافت کیا کہ بتاؤ تم نے جو کچھ محمد (ﷺ ) سے سنا ہے اس کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے ؟ ابوجہل نے کہا : میں نے کیا سنا ہے ؟ بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے اور بنو عبد مناف نے شرف وعظمت میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے (غرباء ومساکین کو ) کھلا یا تو ہم نے بھی کھلایا۔ انہوں نے داد ودہش میں سواریاں عطاکیں تو ہم نے بھی عطا کیں۔ انہوں نے لوگوں کو عطیات سے نوازا تو ہم نے بھی ایسا کیا یہاں تک کہ جب ہم اور وہ گھنٹوں گھنٹوں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوگئے اور ہماری اور ان کی حیثیت ریس کے دومقابل گھوڑوں کی ہوگئی تو اب بنوعبد مناف کہتے ہیں کہ ہمارے اندر ایک نبی (ﷺ ) ہے جس کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ بھلا بتایئے ہم اسے کب پاسکتے ہیں ؟ اللہ کی قسم ! ہم اس شخص پر کبھی ایمان نہ لائیں گے ، اور اس کی ہرگز تصدیق نہ کریں گے۔ 1چنانچہ ابوجہل کہا کرتا تھا : اے محمد (ﷺ ) ہم تمہیں جھوٹا نہیں کہتے لیکن تم جو کچھ لے کر آئے ہو اس کی تکذیب کرتے ہیں اور اسی بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَـٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّـهِ يَجْحَدُونَ ﴿٣٣﴾ (۶: ۳۳)
''یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں۔'' 2
اس واقعے کی تفصیل گزر چکی ہے کہ ایک روز کفار نے نبیﷺ کو تین بار لعن طعن کی اور تیسری دفعہ میں آپﷺ نے فرمایا کہ اے قریش کی جماعت !میں تمہارے پاس ذبح لے کر آیا ہوں تو یہ بات ان پر اس طرح اثر کرگئی کہ جو شخص عداوت میں سب سے بڑھ کر تھا۔ وہ بھی بہتر سے بہتر جو جملہ پاسکتا تھا اس کے ذریعہ آپﷺ کو راضی کرنے کی کوشش میں لگ گیا۔ اسی طرح اس کی بھی تفصیل گزر چکی ہے کہ جب حالت سجدہ میں آپﷺ پر اوجھڑی ڈالی گئی ، اور آپﷺ نے سر اٹھا نے کے بعد اس حرکت کے کرنے والوں پر بددعا کی تو ان کی ہنسی ہوا ہوگئی اور ان کے اندر غم وقلق کی لہر دوڑ گئی، انہیں یقین ہوگیا کہ اب ہم بچ نہیں سکتے۔
یہ واقعہ بھی بیان کیا جاچکا ہے کہ آپﷺ نے ابو لہب کے بیٹے عتیبہ پر بددعا کی تو اسے یقین ہوگیا کہ وہ آپﷺ کی بددعا کی زد سے بچ نہیں سکتا۔ چنانچہ اس نے ملک شام کے سفر میں شیر کو دیکھتے ہی کہا : واللہ! محمد(ﷺ ) نے مکہ میں رہتے ہوئے مجھے قتل کر دیا۔
ابی بن خلف کا واقعہ ہے کہ وہ بار بار آپﷺ کو قتل کہ دھمکیا ں دیا کرتا تھا۔ ایک بار آپﷺ نے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۳۱۶ 2 ترمذی : تفسیر سورۃ الانعام ۲/۱۳۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جواباً فرمایا کہ (تم نہیں ) بلکہ میں تمہیں قتل کروں گا۔ ان شاء اللہ۔ اس کے بعد جب آپﷺ نے جنگ احد کے روز ابی کی گردن پر نیزہ مارا تو اگر چہ اس سے معمولی خراش آئی تھی لیکن ابی برابر یہی کہے جارہا تھا کہ محمدﷺ نے مجھ سے مکہ میں کہا تھا کہ میں تمہیں قتل کروں گا، اس لیے اگر وہ مجھ پر تھوک ہی دیتا تو بھی میری جان نکل جاتی۔1 (تفصیل آگے آرہی ہے )
اسی طرح ایک بار حضرت سعد بن معاذؓ نے مکے میں امیہ بن خلف سے کہہ دیا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمان تمہیں قتل کریں گے تو اس سے امیہ پر سخت گھبراہٹ طاری ہوگئی ، جو مسلسل قائم رہی، چنانچہ اس نے عہد کرلیا کہ وہ مکے سے باہر نہ نکلے گا اور جب جنگ ِ بدر کے موقع پر ابو جہل کے اصرار سے مجبور ہوکر نکلنا پڑا تو اس نے مکے کا سب سے تیزرو اونٹ خریدا تاکہ خطرے کی علامات ظاہر ہوتے ہی چَمپت ہوجائے۔ ادھر جنگ میں جانے پر آمادہ دیکھ کر اس کی بیوی نے بھی ٹوکا کہ ابو صفوان ! آپ کے یثربی بھائی نے جو کچھ کہا تھا اسے آپ بھول گئے ؟ ابوصفوان نے جواب میں کہاکہ نہیں ، بلکہ میں...اللہ کی قسم!... ان کے ساتھ تھوڑی ہی دور جاؤں گا۔2
یہ تو آپﷺ کے دشمنوں کا حال تھا۔ باقی رہے آپﷺ کے صحابہ ؓ اور رفقاء تو آپﷺ تو ان کے لیے دیدہ ودل اور جان وروح کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے دل کی گہرائیوں سے آپﷺ کے لیے حبِّ صادق کے جذبات اس طرح ابلتے تھے جیسے نشیب کی طرف پانی بہتا ہے اور جان ودل اس طرح آپﷺ کی طرف کھنچتے تھے جیسے لو ہا مقناطیس کی طرف کھنچتا ہے :


فصورتہ ھیولی کل جسم​
ومغناطیس أفئدۃ الرجال​
آپ کی صورت ہر جسم کا ہیولیٰ تھی​
اور آپ کا وجود ہر دل کے لیے مقناطیس​
اس محبت وفداکاری اور جاں نثاری وجاںسپاری کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرامؓ کو یہ گوارانہ تھا کہ آپﷺ کے ناخن میں خراش آجائے یا آپﷺ کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے خواہ اس کے لیے ان کی گردنیں ہی کیوں نہ کوٹ دی جائیں۔
ایک روز ابوبکر صدیقؓ کو بری طرح کچل دیا گیا اور انہیں سخت مار ماری گئی، عتبہ بن ربیعہ ان کے قریب آکر انھیں دوپیوند لگے جوتوں سے مارنے لگا، چہرے کو خصوصیت سے نشانہ بنایا، پھر پیٹ پر چڑ ھ گیا۔ کیفیت یہ تھی کہ چہرے اور ناک کا پتہ نہیں چل رہا تھا، پھر ان کے قبیلہ بنو تیم کے لوگ انہیں ایک کپڑے میں لپیٹ کر گھر لے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۸۴ 2 صحیح بخاری ۲/۵۶۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
گئے۔ انہیں یقین تھا کہ اب یہ زندہ نہ بچیں گے لیکن دن کے خاتمے کے قریب ان کی زبان کھل گئی۔ (اور زبان کھلی تو یہ ) بولے کہ رسول اللہﷺ کیا ہوئے ؟ اس پر بنو تیم نے انہیں سخت سست کہا۔ ملامت کی اور ان کی ماں ام الخیر سے یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ انہیں کچھ کھلا پلا دینا۔ جب وہ تنہا رہ گئیں تو انہوں نے ابوبکر ؓ سے کھانے پینے کے لیے اصرار کیا لیکن ابوبکرؓ یہی کہتے رہے کہ رسول اللہﷺ کا کیا ہوا ؟ آخر ام الخیر نے کہا :مجھے تمہارے ساتھی کا حال معلوم نہیں۔ ابوبکرؓ نے کہا : ام جمیل بنت خطاب کے پاس جاؤ اور اس سے دریافت کرو۔ وہ ام جمیل کے پاس گئیں اور بولیں: ابو بکر ؓ تم سے محمد بن عبد اللہ (ﷺ ) کے بارے میں دریافت کررہے ہیں۔ ام جمیل نے کہا:میں نہ ابوبکر کو جانتی ہوں نہ محمد بن عبد اللہﷺ کو، البتہ اگر تم چاہو تو میں تمہارے ساتھ تمہارے صاحبزادے کے پاس چل سکتی ہوں۔ ام الخیر نے کہا : بہتر ہے۔ اس کے بعد ام جمیل ان کے ہمراہ آئیں دیکھا تو ابوبکر ؓ انتہائی خستہ حال پڑے تھے۔ پھر قریب ہوئیں تو چیخ پڑیں اور کہنے لگیں: جس قوم نے آپ کی یہ درگت بنائی ہے وہ یقینا بد قماش اور کافر قوم ہے۔ مجھے امید ہے کہ اللہ آپ کا بدلہ ان سے لے کر رہے گا۔ ابوبکر ؓ نے پوچھا : رسول اللہﷺ کیا ہوئے ؟ انہوں نے کہا :یہ آپ کی ماں سن رہی ہیں۔ کہا:کوئی بات نہیں۔ بولیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحیح سالم ہیں۔ پوچھا: کہاں ہیں ؟کہا : ابن ارقم کے گھر میں ہیں۔ ابو بکر ؓ نے فرمایا: اچھا تو پھر اللہ کے لیے مجھ پر عہد ہے کہ میں نہ کوئی کھانا کھاؤں گا نہ پانی پیوں گا یہاں تک کہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں۔ اس کے بعد ام الخیر اور ام جمیل رکی رہیں، جب آمد ورفت بند ہوگئی اور سیاپا پڑ گیا تو دونوں ابوبکر ؓ کو لے کر نکلیں وہ ان پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اور اس طرح انہوں نے ابوبکر ؓ کو رسول اللہﷺ کی خدمت میں پہنچادیا۔ 1
محبت و جاں سپاری کے کچھ اور بھی نادر واقعات ہم اپنی اس کتاب میں موقع بہ موقع نقل کریں گے۔ خصوصاً جنگ احد کے واقعات اور حضرت خبیب ؓ کے حالات کے ضمن میں۔
احساسِ ذمہ داری: ...صحابہ کرامؓ جانتے تھے کہ یہ مشتِ خاک جسے انسان کہا جاتا ہے اس پر کتنی بھاری بھرکم اور زبردست ذمہ داریاں ہیں اور یہ کہ ان ذمہ داریوں سے کسی صورت میں گریز اور پہلو تہی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس گریز کے جو نتائج ہوں گے وہ موجودہ ظلم وستم سے زیادہ خوفناک اور ہلاکت آفریں ہوں گے اور اس کے گریز بعد خود ان کو اور ساری انسانیت کو جو خسارہ لاحق ہوگا وہ اس قدر شدید ہوگا کہ اس ذمہ داری کے نتیجہ میںپیش آنے والی مشکلات اس خسارے کے مقابل کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔
آخرت پر ایمان: ...جو مذکورہ احساسِ ذمہ داری کی تقویت کا باعث تھا۔ صحابہ کرامؓ اس بات کا غیر متزلزل یقین رکھتے تھے کہ انہیں رب العالمین کے سامنے کھڑے ہونا ہے۔ پھر ان کے چھوٹے بڑے اور معمولی و غیرمعمولی ہر طرح کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ اس کے بعد یا تو نعمتوں بھری دائمی جنت ہوگی یا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 البدایہ والنہایہ ۳/۳۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عذاب سے بھڑکتی ہوئی جہنم۔ اس یقین کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرامؓ اپنی زندگی امید وبیم کی حالت میں گزارتے تھے۔ یعنی اپنے پروردگار کی رحمت کی امید رکھتے تھے اور اس کے عذاب کا خوف اور ان کی کیفیت وہی رہتی تھی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے کہ :
وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَ‌بِّهِمْ رَ‌اجِعُونَ ﴿٦٠﴾ (۲۳: ۶۰)
''وہ جو کچھ کرتے ہیں دل کے اس خوف کے ساتھ کرتے ہیں کہ انہیں اپنے رب کے پاس پلٹ کر جانا ہے۔''
انہیں اس کا بھی یقین تھا کہ دنیا اپنی ساری نعمتوں اور مصیبتوں سمیت آخرت کے مقابل مچھر کے ایک پر کے برابر بھی نہیں اور یہ یقین اتنا پختہ تھا کہ اس کے سامنے دنیا کی ساری مشکلات ، مشقتیں اور تلخیاں ہیچ تھیں ، اس لیے وہ ان مشکلات اور تلخیوں کوکوئی حیثیت نہیں دیتے تھے۔
4 انہی پر خطر مشکل ترین اور تیرہ وتار حالات میں ایسی سورتیں اور آیتیں بھی نازل ہورہی تھیں جن میں بڑے ٹھوس اور پر کشش انداز سے اسلام کے بنیادی اصولوں پر دلائل وبراہین قائم کیے گئے تھے اور اس وقت اسلام کی دعوت انہی اصولوں کے گردش کر رہی تھی۔ ان آیتوں میں اہل اسلام کو ایسے بنیادی امور بتلائے جارہے تھے ، جن پر اللہ تعالیٰ نے عالم انسانیت کے سب سے باعظمت اور پر رونق معاشرے، یعنی اسلامی معاشرے کی تعمیر وتشکیل مقدر کر رکھی تھی۔ نیز ان آیات میں مسلمانوں کے جذبات واحساسات کو پامردی وثبات قدمی پر ابھارا جارہا تھا۔ اس کے لیے مثالیں دی جارہی تھیں اور اس کی حکمتیں بیان کی جاتی تھیں :
أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّ‌اءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّ‌سُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ‌ اللَّـهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ‌ اللَّـهِ قَرِ‌يبٌ ﴿٢١٤﴾ (۲:۲۱۴)
''تم سمجھتے ہوکہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ وہ سختیوں اور بد حالیوں سے دوچار ہوئے اور انہیں جھنجوڑ دیا گیا۔ یہاں تک کہ رسول اور جولوگ ان پر ایمان لائے تھے بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سنو ! اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔''
الم ﴿١﴾ أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَ‌كُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ﴿٢﴾ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّـهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ ﴿٣﴾ (۲۹: ۱،۲،۳)
''الٓمٓ۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انہیں یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لائے ، اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی، حالانکہ ان سے پہلے جولوگ تھے ہم نے ان کی آزمائش کی۔ لہٰذا (ان کے بارے میں بھی ) اللہ یہ ضرور معلوم کرے گا کہ کن لوگوں نے سچ کہا اور یہ بھی ضرور معلوم کرے گا کہ کون لوگ جھوٹے ہیں۔''
اور انہی کے پہلو بہ پہلو ایسی آیات کا نزول بھی ہورہا تھا جن میں کفار ومعاندین کے اعتراضات کے دندان شکن جواب دیئے گئے تھے، ان کے لیے کوئی حیلہ باقی نہیں چھوڑا تھا اور انہیں بڑے واضح اور دوٹوک الفاظ میں بتلادیا گیا تھا کہ اگر وہ اپنی گمراہی اورعناد پر مصررہے توا س کے نتائج کس قدر سنگین ہوں گے۔ اس کی دلیل میں گزشتہ قوموں کے ایسے واقعات اور تاریخی شواہد پیش کیے گئے تھے جن سے واضح ہوتا تھا کہ اللہ کی سنت اپنے اولیاء اور اعداء کے بارے میں کیا ہے۔ پھر اس ڈراوے کے پہلو بہ پہلو لطف وکرم کی باتیں بھی کہی جارہی تھیں اور افہام وتفہیم اور ارشاد ورہنمائی کا حق بھی ادا کیا جارہا تھا تاکہ باز آنے والے اپنی کھلی گمراہی سے باز آسکیں۔
درحقیقت قرآن مسلمانوں کو ایک دوسری ہی دنیا کی سیر کراتا تھا اور انہیں کائنات کے مشاہد ، ربوبیت کے جمال ، الوہیت کے کمال ، رحمت ورافت کے آثار اور لطف ورضا کے ایسے ایسے جلوے دکھاتا تھا کہ ان کے جذب وکشش کے آگے کوئی رکاوٹ برقرار ہی نہ رہ سکتی تھی۔
پھر انہیں آیات کی تہہ میں مسلمانوں سے ایسے ایسے خطاب بھی ہوتے تھے جن میں پروردگار کی طرف سے رحمت ورضوان اور دائمی نعمتوں سے بھری ہوئی جنت کی بشارت ہوتی تھی اور ظالم وسرکش دشمنوں اور کافروں کے ان حالات کی تصویر کشی ہوتی تھی کہ وہ رب العالمین کی عدالت میں فیصلے کے لیے کھڑے کیے جائیں گے۔ ان کی بھلائیاں اورنیکیاں ضبط کر لی جائیں گی اور انہیں چہروں کے بل گھسیٹ کر یہ کہتے ہوئے جہنم میں پھینک دیا جائے گا کہ لو جہنم کا لطف اٹھاؤ۔
کامیابی کی بشارتیں:...ان ساری باتوں کے علاوہ مسلمانوں کو اپنی مظلومیت کے پہلے ہی دن سے ... بلکہ اس کے بھی پہلے سے... معلوم تھا کہ اسلام قبول کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ دائمی مصائب اور ہلاکت خیز یاں مول لے لی گئیں، بلکہ اسلامی دعوت روزِ اول سے جاہلیت جہلاء اور اس کے ظالمانہ نظام کے خاتمے کے عزائم رکھتی ہے اور اس دعوت کا ایک اہم نشانہ یہ بھی ہے کہ وہ روئے زمین پر اپنا اثر ونفوذ پھیلائے اور دنیا کے سیاسی موقف پر اس طرح غالب آجائے کہ انسانی جمعیت اور اقوامِ عالم کو اللہ کی مرضی کی طرف لے جاسکے اور انہیں بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں داخل کرسکے۔
قرآن مجید میں یہ بشارتیں ...کبھی اشارتاً اور کبھی صراحتاً...نازل ہوتی تھیں۔ چنانچہ ایک طرف حالات یہ تھے کہ مسلمانوں پر پوری روئے زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود تنگ بنی ہوئی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ اب وہ پنپ نہ سکیں گے بلکہ ان کا مکمل صفایا کردیا جائے گا مگر دوسری طرف ان ہی حوصلہ شکن حالات میں ایسی آیات کا نزول بھی ہوتا رہتا تھا جن میں پچھلے انبیاء کے واقعات اور ان کی قوم کی تکذیب وکفر کی تفصیلات مذکور ہوتی تھیں اور ان آیات میں ان کا جو نقشہ کھینچا جاتا تھا وہ بعینہٖ وہی ہوتا تھا جو مکے کے مسلمانوں اور کافروں کے مابین درپیش تھا۔اس کے بعد یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ ان حالات کے نتیجے میں کس طرح کافروں اور ظالموں کو ہلاک کیا گیا اور اللہ کے نیک بندوں کو روئے زمین کا وارث بنایا گیا۔ اس طرح ان آیات میں واضح اشارہ ہوتا تھا کہ آگے چل کر اہل مکہ ناکام ونامراد رہیں گے اور مسلمان اور ان کی اسلامی دعوت کامیابی سے ہمکنار ہوگی، پھر انہی حالات وایام میں بعض ایسی بھی آیتیں نازل ہوجاتی تھیں جن میں صراحت کے ساتھ اہل ایمان کے غلبے کی بشارت موجود ہوتی تھی۔ مثلاً: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْ‌سَلِينَ ﴿١٧١﴾ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنصُورُ‌ونَ ﴿١٧٢﴾ وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ ﴿١٧٣﴾ فَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتَّىٰ حِينٍ ﴿١٧٤﴾ وَأَبْصِرْ‌هُمْ فَسَوْفَ يُبْصِرُ‌ونَ ﴿١٧٥﴾ أَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُونَ ﴿١٧٦﴾ فَإِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنذَرِ‌ينَ ﴿١٧٧﴾ (۳۷: ۱۷۱ - ۱۷۷ )
''اپنے فرستادہ بندوں کے لیے ہمارا پہلے ہی یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ ان کی ضرور مدد کی جائے گی اور یقینا ہمارا ہی لشکر غالب رہے گا۔ پس (اے نبیﷺ ) ایک وقت تک کے لیے تم ان سے رخ پھیر لو اور انہیں دیکھتے رہو عنقریب یہ خود بھی دیکھ لیں گے۔ کیا یہ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچارہے ہیں تو جب وہ ان کے صحن میں اتر پڑے گا تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح بری ہوجائے گی۔''
نیز ارشاد ہے :
سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ‌ ﴿٤٥﴾ (۵۴: ۴۵)
''عنقریب اس جمعیت کو شکست دے دی جائے گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔''
جُندٌ مَّا هُنَالِكَ مَهْزُومٌ مِّنَ الْأَحْزَابِ ﴿١١﴾ (۳۸: ۱۱ )
''یہ جتھوں میں سے ایک معمولی سا جتھہ ہے جسے یہیں شکست دی جائے گی۔''
مہاجرین حبشہ کے بارے میں ارشاد ہوا :
وَالَّذِينَ هَاجَرُ‌وا فِي اللَّـهِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَلَأَجْرُ‌ الْآخِرَ‌ةِ أَكْبَرُ‌ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿٤١﴾ (۱۶: ۴۱)
''جن لوگوں نے مظلومیت کے بعد اللہ کی راہ میں ہجرت کی ہم انہیں یقینا دنیا میں بہترین ٹھکانہ عطا کریں گے اور آخرت کا اجر بہت ہی بڑا ہے اگر لوگ جانیں۔''
اسی طرح کفار نے رسول اللہﷺ سے حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ پوچھا تو جواب میں ضمناً یہ آیت بھی نازل ہوئی:
لَّقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِّلسَّائِلِينَ ﴿٧﴾ (۱۲: ۷)
''یوسف اور ان کے بھائیوں (کے واقعے ) میں پوچھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔''
یعنی اہل مکہ جو آج حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ پوچھ رہے ہیں یہ خود بھی اسی طرح ناکام ہوں گے جس طرح یوسف علیہ السلام کے بھائی ناکام ہوئے تھے اور ان کی سپر اندازی کا وہی حال ہوگا جوا ن کے بھائیوں کا ہوا تھا۔ انہیں حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے واقعے سے عبرت پکڑنی چاہیے کہ ظالم کا حشر کیا ہوتا ہے۔ ایک جگہ پیغمبروں کا تذکرہ کر تے ہوئے ارشاد ہوا :
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لِرُ‌سُلِهِمْ لَنُخْرِ‌جَنَّكُم مِّنْ أَرْ‌ضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۖ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ رَ‌بُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ ﴿١٣﴾ وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْ‌ضَ مِن بَعْدِهِمْ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ ﴿١٤﴾ (۱۴: ۱۳،۱۴)
''کفار نے اپنے پیغمبروں سے کہا کہ ہم تمہیں اپنی زمین سے ضرور نکال دیں گے یا یہ کہ تم ہماری ملت میں واپس آجاؤ۔ اس پر ان کے رب نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو یقینا ہلاک کردیں گے اور تم کو ان کے بعد زمین میں ٹھہرائیں گے۔یہ (وعدہ) ہے اس شخص کے لیے جومیرے پاس کھڑے ہونے سے ڈرے اور میری وعید سے ڈرے۔''
اسی طرح جس وقت فارس وروم میں جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے اور کفار چاہتے تھے کہ فارسی غالب آجائیں کیونکہ فارسی مشرک تھے اور مسلمان چاہتے تھے کہ رومی غالب آجائیں۔ کیونکہ رومی بہر حال اللہ پر ، پیغمبروں پر ، وحی پر ، آسمانی کتابوں پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے کے دعویدار تھے لیکن غلبہ فارسیوں کو حاصل ہوتا جارہا تھا تو اس وقت اللہ نے یہ خوشخبری نازل فرمائی کہ چند بر س بعد رومی غالب آجائیں گے، لیکن اسی ایک بشارت پر اکتفاء نہ کی بلکہ اس ضمن میں یہ بشارت بھی نازل فرمائی کہ رومیوں کے غلبے کے وقت اللہ تعالیٰ مومنین کی بھی خاص مدد فرمائے گا جس سے وہ خوش ہوجائیں گے۔ چنانچہ ارشاد ہے :
وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَ‌حُ الْمُؤْمِنُونَ ﴿٤﴾ بِنَصْرِ‌ اللَّـهِ (۳۰: ۴،۵)
''یعنی اس دن اہل ایمان بھی اللہ کی (ایک خاص ) مدد سے خوش ہوجائیں گے۔''
(اور آگے چل کر اللہ کی یہ مدد جنگ بدر کے اندر حاصل ہونے والی عظیم کامیابی اور فتح کی شکل میں نازل ہوئی )
قرآن کے علاوہ خود رسول اللہﷺ بھی مسلمانوں کو وقتاً فوقتاً اس طرح کی خوشخبری سنایا کرتے تھے۔ چنانچہ موسم حج میں آپ عکاظ ، مجنہ اور ذو المجاز کے بازاروں میں لوگوں کے اندر تبلیغ کے لیے تشریف لے جاتے توصرف جنت ہی کی بشارت نہیں دیتے تھے، بلکہ دوٹوک لفظوں میں اس کا بھی اعلان فرماتے تھے :
(( یا أیہا الناس قولو لا الہ الا اللہ تفلحوا وتملکوا بہا العرب وتدین لکم بہا العجم فاذا متم کنتم ملوکاً فی الجنۃ۔)) 1
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن سعد ۱/۲۱۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
''لوگو! لاالٰہ الا اللہ کہو کامیاب رہو گے اور اس کی بدولت عرب کے بادشاہ بن جاؤ گے اور اس کی وجہ سے عجم بھی تمہارے زیر نگیں آجائے گا۔ پھر جب تم وفات پاؤ گے تو جنت کے اندر بادشاہ رہوگے۔''
یہ واقعہ پچھلے صفحات میں گزرچکا ہے کہ جب عتبہ بن ربیعہ نے آپﷺ کو متاعِ دنیا کی پیشکش کر کے سودے بازی کرنی چاہی اور آپﷺ نے جواب میں حمٓ تنزیل السجدہ کی آیات پڑھ کر سنائیں تو عتبہ کو یہ توقع بندھ گئی کہ انجام کار آپ غالب رہیں گے۔
اسی طرح ابوطالب کے پاس آنے والے قریش کے آخری وفد سے آپﷺ کی جو گفتگو ہوئی تھی اس کی بھی تفصیلات گزرچکی ہیں۔ اس موقعے پر بھی آپﷺ نے پوری صراحت کے ساتھ فرمایا تھا کہ آپﷺ ان سے صرف ایک بات چاہتے ہیں جسے وہ مان لیں تو عرب ان کا تابع فرمان بن جائے گا ، اور عجم پر ان کی بادشاہت قائم ہوجائے۔
حضرت خباب بن ارتؓ کا ارشاد ہے کہ ایک بار میں خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوا، آپ کعبہ کے سائے میں ایک چادر کو تکیہ بنائے تشریف فرما تھے۔ اس وقت ہم مشرکین کے ہاتھوں سختی سے دوچار تھے۔ میں نے کہا : کیوں نہ آپﷺ اللہ سے دعا فرمائیں۔ یہ سن کر آپﷺ اٹھ بیٹھے، آپﷺ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آپﷺ نے فرمایا :جولوگ تم سے پہلے تھے، ان کی ہڈیوں تک گوشت اور اعصاب میں لوہے کی کنگھیاں کردی جاتی تھی لیکن یہ سختی بھی انہیں دین سے باز نہ رکھتی تھی۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: اللہ اس امر کو، یعنی دین کو مکمل کرکے رہے گا، یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضرموت تک جائے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا۔ البتہ بکری پر بھیڑ یے کا خوف ہوگا۔1ایک روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ لیکن تم لوگ جلدی کررہے ہو۔ 2یاد رہے کہ یہ بشارتیںکچھ ڈھکی چھپی نہ تھیں، بلکہ معروف ومشہور تھیں اور مسلمانوں ہی کی طرح کفار بھی ان سے واقف تھے۔ چنانچہ جب اسود بن مطلب اور اس کے رفقاء صحابہ کرامؓ کو دیکھتے تو طعنہ زنی کرتیہوئے آپس میں کہتے کہ لیجئے !آپ کے پاس روئے زمین کے بادشاہ آگئے ہیں۔ یہ جلد ہی شاہانِ قیصر وکسریٰ کو مغلوب کرلیں گے۔ اس کے بعد وہ سیٹیاں اور تالیاں بجاتے۔3
بہر حال صحابہ کرامؓ کے خلاف اس وقت ظلم وستم اور مصائب وآلام کا جو ہمہ گیر طوفان بر پاتھا اس کی حیثیت حصولِ جنت کی ان یقینی امیدوں اور تابناک وپر وقار مستقبل کی ان بشارتوں کے مقابل اس بادل سے زیادہ نہ تھی جو ہوا کے جھٹکے سے بکھر کر تحلیل ہوجاتا ہے۔
علاوہ ازیں رسول اللہﷺ اہل ایمان کوایمانی مرغوبات کے ذریعے مسلسل روحانی غذا فراہم کررہے تھے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۱/۵۴۳ 2 صحیح بخاری ۱/۵۱۰
3 ا لسیرہ الحلبیہ ۱/۵۱۱، ۵۱۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تعلیم کتاب و حکمت کے ذریعے ان کے نفوس کا تزکیہ فرمارہے تھے۔ نہایت دقیق اور گہری تربیت دے رہے تھے اور روح کی بلندی ، قلب کی صفائی ، اخلاق کی پاکیزگی، مادیات کے غلبے سے آزادی ، شہوات کی مقاومت اور رب السموات والارض کی کشش کے مقامات کی جانب ان کے نفوسِ قدسیہ کی حدی خوانی فرمارہے تھے۔ آپﷺ ان کے دلوں کی بجھتی ہوئی چنگاری کو بھڑکتے ہوئے شعلوں میں تبدیل کردیتے تھے اور انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور زار ہدایت میں پہنچارہے تھے۔ انہیں اذیتوں پر صبر کی تلقین فرماتے تھے اور شریفانہ درگزر اور قہرِ نفس کی ہدایت دیتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی دینی پختگی فزوں تر ہوتی گئی اور وہ شہوات سے کنارہ کشی ، رضائے الٰہی کی راہ میں جاںسپاری ، جنت کے شوق ، علم کی حرص، دین کی سمجھ ، نفس کے محاسبے ، جذبات کو دبانے ، رجحا نات کو موڑنے ، ہیجانات کی لہروں پر قابو پانے اور صبر وسکون اور عزّووقار کی پابندی کرنے میں انسانیت کا نادرہ ٔ روز گار نمونہ بن گئے۔
****​
 
Top