• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابتھال

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ابتھال

(گڑگڑانا/التجا کرنا)​
لغوی بحث:
ابتھال لفظ ”بَهَلٌ“سے ماخوذ جو سیاق و سباق کے لحاظ سے۳ (تین)معنوں کے لئے مستعمل ہے:
(۱) خلوت پسندہونا،
(۲) دعاء کی ایک قسم کے لئے استعمال ہوتا ہے جس میں انسان گڑگڑاکر اپنے رب سے دعا مانگتا ہے،
(۳)پانی کی قلت واقع ہونا۔
ابتھال لفظِ ”بُهْلٌ“سے بھی لیا جاتا ہےجو دوسرے معنی پردلالت کرتا ہے۔ابن فارس رحمہ اللہ کہتے ہیں: ابتہال ”بُهْلٌ“ سے دوسرے معنی کےلئے مستعمل ہے یعنی اللہ تعالیٰ کےلئے تضرع اور عاجزی اختیار کرنا اور مباھلہ بھی اسی سے ماخوذ ہےکیونکہ آپس میں دو مباھلہ کرنے والےا یک دوسرے کےلئے بددعاء کرتے ہیں۔
اور”البَهْلُ“بددعاء کےمعنی میں ہے۔ ابن صبغاء رحمہ اللہ و الی حدیث میں ہے:
”الَّذِیْ بَهَلَهُ بُرَيْقٌ، أَیْ الَّذِیْ لَعَنَهُ وَدَعَا عَلَیْهِ رَجُلٌ اِسْمُهُ بُرَیْقٌ“.
ترجمہ:جس شخص کوآپ نے بددعا دی تھی اس کا نام بُریق تھا۔
دعا میں بُهْلٌ اور”اِبْتِهَالٌ“ عاجزی اور انکساری کو کہا جاتا ہے.1
”بَهَلَهُ اللهُ بَهْلاً“ کا معنی ہے: اللہ اس پر لعنت کرے (اسے اپنی رحمت سے دور کرے) اور”عَلَيْهِ بَهْلَةُ اللهِ“ اور ”بُهْلَةُ اللهِ“ کا معنی ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے:”مَنْ وَلِیَ مِنْ اُمُوْرِ النَّاسِ شَیْئًا فَلَمْ یُعْطِهِمْ کِتَابَ اللہِ فَعَلَیْهِ بَهْلَةُ اللہِ أَیْ لَعْنَةُ اللہِ“
ترجمہ: جو لوگوں کے معاملات کا ذمہ دار ٹھہرا اور ان کے فیصلے اللہ کی کتاب پر نہ کئے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
بُهْلَةٌ“: باء کے پیش اور زبر دونوں طرح پڑھا جاتا ہےاور”بَاهَلَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا وَتَبَاهَلُوْا وَابْتَھَلُوْا“ سب کا معنی ہے کہ لوگوں نے آپس میں ایک دوسرےپر لعنت بھیجی اور بددعا کی۔
مُبَاهَلَةٌ“ ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے کے معنی میں ہے۔
”بَاهَلْتُ فُلاَناً“ کا معنی ہے میں نے فلاں شخص کو بددعا دی(ایک دوسرے پر لعنت بھیجی)۔
اسی طرح فقہاءِ اسلام نےفقہی کتب میں ایک باب قائم کیا ہے جس کو بَابُ الْمُلَاعَنَة کا نام دیا ہے، جس کی وجہ تسمیہ اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان سے ماخوذہے:
وَالَّذِينَ يَرْ‌مُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْ‌بَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّـهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ ﴿٦﴾ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّـهِ عَلَيْهِ إِن كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ ﴿٧النور: ٦ - ٧
ترجمہ: وہ لوگ جو اپنی بیویوں پر الزام لگاتےہیں اور ان کے اپنے علاوہ گواہ نہ ہوں تو ان میں سے ہر ایک اللہ کی چار قسمیں کھا کر کہے گا میں سچا ہوں اور پانچویں دفعہ کہے گا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔
اور”مُبَاهَلَةٌ“ کا معنی یہ ہے کہ لوگوں کا جب کسی مسئلے میں اختلاف ہو تو وہ سب جمع ہو کر یہ کہیں کہ جو ہم میں سے ظالم ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک مسئلے میں کہا کہ جو میرےساتھ مباھلہ کرنا چاہتا ہے میں اس کے ساتھ مباھلہ کرتاہوں کہ حق میرے پاس ہے۔
”اِبْتَهَلَ فِیْ الدُّعَاءِ“ کا معنی ہے دعا میں گڑگڑایا۔ اور”مُبْتَهِلٌ“ کا معنی ہے دعاء میں عاجزی کرنے والا۔
اِبْتِهَالٌ“ کا مطلب عاجزی اختیار کرنا، دعا میں گڑگڑانا اور اللہ تعالیٰ کےلئےا خلاص قائم کرناسہے ۔
قرآن کریم میں ہے:
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ﴿٦١﴾ (آل عمران)
ترجمہ: اس لئے جو شخص آپ كے پاس اس علم كے آجانے كے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ كہہ دیں كہ آؤہم اورتم اپنے اپنے بیٹوں كو اور اپنی اپنی عورتوں كو اور خاص اپنی اپنی جانوں كو بلالیں ،پھر ہم عاجزی كے ساتھ التجا كریں اور جھوٹوں پر اللہ كی لعنت كریں۔​
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ”مُبْتَهِلٌ“عربی زبان میں اللہ کی پاکی بیان کرنےو الے اور اللہ کو زیادہ یاد کرنے والےکو کہا جاتا ہے ۔
انہوں نےنابغہ شیبانی کے اس شعر سے دلیل لی ہے جس کے الفاظ درج ذیل ہیں:
”أَقْطَعُ اللَّیْلَ آهَةً وَ انْتِحَاباً وَ ابْتِهَالاً لِلہِ أَیَّ ابْتِهَالٍ“
ترجمہ: میں افسوس کرتا ہوں زور زور سے روتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کرتا ہوا رات گذارتا ہوں۔​
بعض علماء کہتےہیں: ”مُبْتَهِلٌ“دعاءکرنے والے کو کہا جاتا ہے،جیسا کہ آیت کریمہ کے اس لفظ میں وارد ہے : نَبْتَهِلْ کا معنی ”ثُمَّ نَلْتَعِنْ“(پھر ہم ایک دوسرے پر لعنت بھیج دیں گے)ہے۔کہا جاتا ہے: ”مَا لَهُ بَهَلَهُ اللہُ“ یعنی اس کو کیا ہوا؟ اللہ اس پر لعنت کرے اور”مَا لَهُ عَلَيْهِ بُهْلَةُ اللہِ“ کا معنی ہے اس کو کیا ہوا؟ اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
دعا والی حدیث میں ہے: ”وَ الإِبْتِهَالُ أَنْ تَمُدَّ یَدَيْكَ جَمِيْعًا“
ترجمہ: ابتھال یہ ہے کہ تم اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاؤ۔
ابتھال دراصل عاجزی اور سوال کرنےمیں مبالغہ کرنے کو کہا جاتا ہے۔2
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اصطلاحی وضاحت:
ابتھال اصطلاح میں عاجزی اور اخلاص کے ساتھ اللہ کےلئے ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنے کو کہتےہیں۔3

وہ آیات جو ابتھال کے متعلق وارد ہوئی ہیں

الْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكَ فَلَا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِ‌ينَ ﴿٦٠﴾ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ﴿٦١آل عمران
تیرے رب كی طرف سے یہی حق ہے خبردار شك كرنے والوں میں نہ ہونا(60)اس لئے جو شخص آپ كے پاس اس علم كے آجانے كے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ كہہ دیں كہ آؤہم اورتم اپنے اپنے بیٹوں كو اور اپنی اپنی عورتوں كو اور خاص اپنی اپنی جانوں كو بلالیں ،پھر ہم عاجزی كے ساتھ التجا كریں اور جھوٹوں پر اللہ كی لعنت كریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
وہ احادیث جو ابتھال پر دلالت کرتی ہیں

1- عَنْ أَبِي الْقَمُوصِ زَيْد بْن عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنِي أَحَدُ الْوَفْدِ الَّذِينَ وَفَدُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ قَالَ وَأَهْدَيْنَا لَهُ فِيمَا يُهْدَى نَوْطًا أَوْ قِرْبَةً مِنْ تَعْضُوضٍ أَوْ بَرْنِيٍّ فَقَالَ مَا هَذَا فَقُلْنَا هَذِهِ هَدِيَّةٌ قَالَ: وَأَحْسِبُهُ نَظَرَ إِلَى تَمْرَةٍ مِنْهَا فَأَعَادَهَا مَكَانَهَا وَقَالَ: أَبْلِغُوهَا آلَ مُحَمَّدٍ قَالَ: فَسَأَلَهُ الْقَوْمُ عَنْ أَشْيَاءَ حَتَّى سَأَلُوهُ عَنْ الشَّرَابِ فَقَالَ: لَا تَشْرَبُوا فِي دُبَّاءٍ وَلَا حَنْتَمٍ وَلَا نَقِيرٍ وَلَا مُزَفَّتٍ، اشْرَبُوا فِي الْحَلَالِ الْمُوكَى عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ قَائِلُنَا: يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا يُدْرِيكَ مَا الدُّبَّاءُ وَالْحَنْتَمُ وَالنَّقِيرُ وَالْمُزَفَّتُ قَالَ: أَنَا لَا أَدْرِي مَا هِيَهْ؟ أَيُّ هَجَرٍ أَعَزُّ قُلْنَا الْمُشَقَّرُ قَالَ: فَوَاللهِ لَقَدْ دَخَلْتُهَا وَأَخَذْتُ إِقْلِيدَهَا قَالَ: وَكُنْتُ قَدْ نَسِيتُ مِنْ حَدِيثِهِ شَيْئًا فَأَذْكَرَنِيهِ عُبَيْدُ اللهِ بْنُ أَبِي جَرْوَةَ قَالَ: وَقَفْتُ عَلَى عَيْنِ الزَّارَةِ ثُمَّ قَالَ: اللهم اغْفِرْ لِعَبْدِ الْقَيْسِ إِذْ أَسْلَمُوا طَائِعِينَ غَيْرَ كَارِهِينَ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا مَوْتُورِينَ إِذْ بَعْضُ قَوْمِنَا لَا يُسْلِمُونَ حَتَّى يُخْزَوْا وَيُوتَرُوا وَقَالَ: وَابْتَهَلَ وَجْهُهُ هَاهُنَا مِنْ الْقِبْلَةِ يَعْنِي: عَنْ يَمِينِ الْقِبْلَةِ حَتَّى اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ يَدْعُو لِعَبْدِ الْقَيْسِ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ خَيْرَ أَهْلِ الْمَشْرِقِ عَبْدُ الْقَيْسِ.4
(۱)ابی القموص زید بن عدی فرماتے ہیں مجھے ایک شخص نے یہ خبر دی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفدِ عبدالقیس میں شریک تھے کہا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کھجور کی ٹوکری ہدیہ کے طور پر پیش کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا یہ کیا ہے؟ہم نے کہا یہ ہدیہ ہے ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کھجور وں میں سے ایک کھجور کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دو، پھر ہماری قوم والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ساری چیزوں کے متعلق پوچھا ۔ یہاں تک کہ پینے کی چیزوں کے متعلق پوچھا کہ کن برتنوں میں پیئں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ پیو کدونما برتن میں، نہ طلاء شدہ مٹکوں میں، اور نہ کھوکھلی لکڑی میں اور نہ تارکول کے برتن میں۔حلال برتن میں پیو جو ڈھکا ہوا ہو۔ پھر کہا ہم میں سے کسی نے اے اللہ کے رسول! آپ کو کس نے خبر دی کہ الدُّبَّاءُ،الْحَنْتَمُ، النَّقِيرُ اور الْمُزَفَّتُ کیا ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نہیں جانتا وہ کیا ہے،پھر آپ نے پوچھا کونسی زمین بہتر ہے ؟ ہم نے کہا کہ مشقر نامی زمین(یہ بحرین میں قدیم قلعہ تھا) پھر کہا اللہ کی قسم میں اس میں ایک مرتبہ داخل ہوا تھا اور میں نے اس کی چابی بھی لی، پھرابو القموس کہتے ہیں کہ میں کچھ باتیں بھول چکا ہوں جو مجھے عبیداللہ بن ابی جروہ نے یاد دلائی ہیں ،وہ یہ باتیں ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک زارانامی چشمے پر کھڑا ہوا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ ! عبدالقیس کے وفد کو معاف فرمادے۔ کیوں کہ ان لوگوں نے دل کی خوشی سے اسلام قبول کیا ہے۔ بغیر کسی کراہت وحقارت کے۔کیونکہ کچھ لوگ ذلت اور رسوائی کے بعدمسلمان ہوتے ہیں۔ پھر کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ قبلہ کی طرف عاجزی سےجھک گیا یہاں تک قبلہ رخ ہوکر عبدالقیس کے لئے دعائیں فرمائیں پھر آپ نے فرمایا مشرق والوں میں سب سے بہترین لوگ عبدالقیس والے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
2- عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ أَوَّلُ مَا اتَّخَذَ النِّسَاءُ الْمِنْطَقَ مِنْ قِبَلِ أُمِّ إِسْمَاعِيلَ اتَّخَذَتْ مِنْطَقًا لَتُعَفِّيَ أَثَرَهَا عَلَى سَارَةَ ثُمَّ جَاءَ بِهَا إِبْرَاهِيمُ وَبِابْنِهَا إِسْمَاعِيلَ وَهِيَ تُرْضِعُهُ حَتَّى وَضَعَهُمَا عِنْدَ الْبَيْتِ عِنْدَ دَوْحَةٍ فَوْقَ زَمْزَمَ فِي أَعْلَى الْمَسْجِدِ وَلَيْسَ بِمَكَّةَ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ فَوَضَعَهُمَا هُنَالِكَ وَوَضَعَ عِنْدَهُمَا جِرَابًا فِيهِ تَمْرٌ وَسِقَاءً فِيهِ مَاءٌ ثُمَّ قَفَّى إِبْرَاهِيمُ مُنْطَلِقًا فَتَبِعَتْهُ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ فَقَالَتْ يَا إِبْرَاهِيمُ أَيْنَ تَذْهَبُ وَتَتْرُكُنَا بِهَذَا الْوَادِي الَّذِي لَيْسَ فِيهِ إِنْسٌ وَلَا شَيْءٌ فَقَالَتْ لَهُ ذَلِكَ مِرَارًا وَجَعَلَ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهَا فَقَالَتْ لَهُ أَاللهُ الَّذِي أَمَرَكَ بِهَذَا قَالَ: نَعَمْ قَالَتْ: إِذَنْ لَا يُضَيِّعُنَا ثُمَّ رَجَعَتْ فَانْطَلَقَ إِبْرَاهِيمُ حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ الثَّنِيَّةِ حَيْثُ لَا يَرَوْنَهُ اسْتَقْبَلَ بِوَجْهِهِ الْبَيْتَ ثُمَّ دَعَا بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ وَرَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ: رَّ‌بَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّ‌يَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ‌ ذِي زَرْ‌عٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّ‌مِ رَ‌بَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْ‌زُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَ‌اتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُ‌ونَ ﴿٣٧﴾ (إبراهيم: ٣٧). 5
(۲) ابن عباس ؓسے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ شروع میں عورتوں نے جو كمر بند بنایا تو وہ اسماعیل علیہ السلام كی والدہ ہاجرہ رضی اللہ عنہا سے سیكھا كیونكہ سب سے پہلے انہوں نے ہی كمر بند استعمال كیا تھا ان كی غرض یہ تھی كہ سارہ رضی اللہ عنہا ان كا سراغ نہ پائیں اس كے بعد ابراہیم علیہ السلام انہیں اور ان كے بیٹے اسماعیل علیہ السلام كو لے آئے اس وقت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اسماعیل علیہ السلام كو دودھ پلارہی تھیں اور ان دونوں كو خانہ كعبہ كے پاس ایك بڑے درخت كے نیچے چاہ زم زم پر مسجد حرام كی جگہ چھوڑ دیا اس وقت مكہ میں تو آدمی كا نام و نشان نہ تھا اور نہ ہی پانی موجود تھا خیر حضر ت ابراہیم علیہ السلام ان دونوں كو وہاں چھوڑ گئے ان كے قریب ہی ایك تھیلا كھجوروں كا اور ایك مشكیزہ پانی كا ركھ دیا۔جب وہاں سے واپس ہوئے تو اسماعیل كی والدہ آپ كے پیچھے گئیں اور کہا:اے ابراہیم علیہ السلام تم كہاں جا رہے ہو؟ ہمیں ایك ایسے جنگل میں چھوڑ کر جہاں نہ کوئی آدمی ہےاور نہ ہی كوئی چیز ہے انہوں نے كئی بار پكار پكار كر كہا مگر ابراہیم علیہ السلام نے ان كی طرف دیكھا تك نہیں پھر اسماعیل علیہ السلام كی والدہ نے ان سے كہا كیا یہ حكم آپ كو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے كہا:ہاں، اسماعیل علیہ السلام كی والدہ نے كہا پھر تو اب ہمیں وہ ضائع نہیں كرے گا ۔اس كے بعد وہ لوٹ آئیں اور ابراہیم علیہ السلام چلے گئے پھر وہ ثنیہ( گھاٹی) كے پا س پہنچے جہاں وہ انہیں نہ دیكھ سكتے تھے تو انہوں نے كعبہ كی طرف منہ كر كے ہاتھ اٹھائے اور ان الفاظ میں دعا كرنے لگے: رَّ‌بَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّ‌يَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ‌ ذِي زَرْ‌عٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّ‌مِ رَ‌بَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْ‌زُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَ‌اتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُ‌ونَ ﴿٣٧
اے میرے پروردگار میں نے اپنی اولاد کے ایک حصے كو بے آب وگیاہ وادی میں تیرے محترم گھركے پاس لا بسایا ہے۔ (إبراهيم: ٣٧) آخرتك دعاکی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
3- عَنْ أَنَسٍ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي الدُّعَاءِ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ إِبْطَيْهِ.6​
(۳) انس كہتے ہیں كہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو دعا میں اس قدر ہاتھ اٹھائے دیكھتا تھا كہ بغلوں كی سفیدی نظر آنے لگتی تھی۔


4-
عَن ابْن عَبَّاسٍ، أَنَّ ضِرَارَ بْنِ الأَزْوَرِ لمَاَّ أَسْلَم أَتَى النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَنْشَأَ يَقُوْلُ:
تَرَكْتُ القِدَاحَ وَعَزْفَ القِيَا نِ وَالْخَمْر تَصْلِيْةً وَابْتِهَالاَ
وَكَرِّي الْمُحَبَّرَ فِي غَمْرَةٍ وَجَهْدِي عَلَى الْمُسْلِمِيْنَ القِتَالاَ
وَقَالَتْ جَمِيْلَةُ بَدَرَّتَنَا وَطَرَحْتَ أَهْلَكَ شَتَّى شِمَالاَ
فَيَا رَبِّ لاَ أُغْبَنَنْ صَفْقَتِي فَقَدْ بِعْتُ أَهْلِي وَمَالِي بَدَالاَ​
فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : « مَا غَبِنْتَ صَفْقَتَكَ يَا ضِرَارُ. 7

(۴)عبداللہ بن عباس ؓفرماتے ہیں جب ضرار بن لازور ؓاسلام لے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ آ کر یہ اشعار پڑھنے لگے:​
آج میں نے شراب نوشی ،زنا کاری اللہ کے لئے چھوڑ دیئے ،
اور میں نے مسلمانوں کے خلاف قتال کرتے ہوئےاپنا محبرنامی گھوڑابھگایا
اور میری بیوی نے کہا ہمیں چھوڑ دیا اور اپنے گھر والوں کو بکھیر دیا
اے میرے رب! میں نے یہ سب کچھ تیرے لئے کیا ہے ،یہ سودا بازی کامیاب ہو
میں نے اپنے گھروالوں کو اور مال کو آپ کے راستے میں قربان کیا​
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ضرار آپ کا سودا نقصان زدہ نہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
5- عَن ابْنِ عَبَّاسٍ، رضي الله عنهما أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: «هَذاَ الإِخْلَاصُ يُشِيْرُ بِإِصبَعِهِ الَّتِي تَلِي الإِبْهَامَ وَهَذاَ الدُّعَاء فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ وَهَذَا الإِبْتِهَالُ فَرَفَعَ يَدَيْهِ مَدًّا» 8
(۵) ابن عباس رضی اللہ عنہمابیان كرتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دعا میں اخلاص یہ ہے كہ تو شہادت كی انگلی سے اشارہ كرے، اور دعا كرنے كا طریقہ یہ ہے كہ ہاتھوں كو كندھوں كے برابراٹھانا ۔اور ابتھال یہ ہے كہ دعا كرتے وقت ہاتھوں كو اس طرح پھیلایا جائے (كہ بغل كی سفیدی نظر آجائے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
6- عَن ابْن عَبَّاسٍ « أَنَّ وَفَدَ نَجْرَان مِنَ النَّصَارَى قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَهُمْ أَرْبَعَة عَشَر رَجُلاً مِنْ أَشْراَفِهِم . مِنْهُمْ السَيِّدُ وَهُوَ الكَبِيْر ، وَالعاَقِبُ وَهُوَ الذَّي يَكُوْنُ بَعْدَهُ ، وَصَاحِبُ رَأْيِهِمْ ، فَقاَل رَسُولُ اللهِ لهَمُاَ : أَسْلِمَا قَالاَ : أَسْلَمْنَا . قَالَ: مَا أَسْلَمْتُمَا . قَالا: بَلَى. قَدْ أَسْلَمْنَا قَبْلَكَ. قَالَ: كَذَبْتُمَا يَمْنَعُكُمْ مِنَ الإِسْلَام ثَلَاثٌ فِيْكُمَا. عِبَادَتُكُمَا الصَّلِيْب، وَأَكْلُكُمَا الخِنْزِيْرَ، وَزَعْمُكُمَا أَنَّ لِلهِ وَلَداً. وَنَزَلَ: إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَ‌ابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿٥٩﴾ آل عمران: ٥٩ الآية . فَلَمَّا قَرَأَهاَ عَلَيْهِمْ قَالُوا: مَا نَعْرِفُ مَا تَقُول . وَنَزَلَ: فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ﴿٦١﴾ آل عمران: ٦١ يَقُول: مَنْ جَادَلَكَ فِي أَمْر عِيْسَى مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ العِلْمِ مِنَ القُرْآنِ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ﴿٦١﴾آل عمران: ٦١ يَقُول: نَجْتَهِدْ فِي الدُّعَاءِ أَنَّ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُحَمَّدُ هُوَ الْحَقُّ، وَأَنَّ الَّذِي يَقُولُوْنَ هُوَ البَاطِلُ فَقَال لَهُمْ: إِنَّ اللهَ قَدْ أَمَرَناَ إِنْ لَمْ تَقْبَلُوا هَذاَ أَنْ أُبَاهِلَكُمْ فَقَالُوا: يَا أَبَا الْقَاسِمْ بَلْ نَرْجِعْ فَنَنْظُرُ فِي أَمْرِنَا ثُمَّ نَأْتِيْكَ. فَخَلا بَعْضُهُمْ بِبَعْضٍ وَتَصَادَقُوا فِيْمَا بَيْنَهُمْ قَالَ السَّيِّدُ لِلْعَاقِبِ: قَدْ وَاللهِ عَلِمْتُمْ أَنَّ الرَّجُلَ نَبِيٌّ مُرْسَل، وَلَئِنْ لاَعَنْتُمُوْه إِنَّهُ لَيَسْتَأْصِلُكُمْ، وَمَا لاَعَنَ قَوْمٌ قَطٌّ نَبِياً فَبَقِيَ كَبِيْرُهُمْ، وَلَا نَبَتَ صَغِيْرُهُمْ. فَإِنْ أَنْتُمْ لَمْ تَتَّبِعُوْهُ وَأَبَيْتُمْ إِلاَّ إِلْفَ دِيْنِكُمْ فَوَادِعُوه وَارجِعُوا إِلَى بِلاَدِكُمْ. وَقَدْ كَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم خَرَجَ وَمَعَهُ عَلِيٌّ، وَالحَسَن، وَالحُسَيْن، وَفَاطِمَة ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : » إِنْ أَنَا دَعَوْتُ فَأَمِّنُوا أنْتُمْ . فَأَبَوْا أَنْ يُلَاعِنُوهُ وَصَالحُوهُ عَلَى الْجِزْيَةِ .
(۶)ابن عباس سے روایت ہے کہ نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔اور وہ چودہ آدمی ان کے سرداروں میں سےتھے ۔ان میں سے ایک سید تھا جو ان کا بڑا تھا۔ اور عاقب بھی تھا، جو اس کا نائب تھا(یعنی سید کے بعد اسی نے سردار بننا تھا)اور باقی سارے مشورہ دینے والے تھے۔ پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں(سید اور عاقب)سے کہا تم دونوں اسلام قبول کرلو، دونوں نے کہا :ہم آپ سے پہلے کے مسلمان ہیں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تم جھوٹ بول رہے ہو، تم میں تین چیزیں ایسی ہیں جنہوں نے تم کو اسلام سے روکا ہوا ہے، تمہارا صلیب کی عبادت کرنا،اور خنزیر کا گوشت کھانا، اور تم دونوں کا یہ گمان کہ اللہ کا بیٹا ہے،اس پر یہ آیت نازل ہوئی : إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَ‌ابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿٥٩آل عمران: ٥٩ (ترجمہ)بے شک عیسیٰ علیہ السلام کی مثال اللہ کے ہاں آدم جیسی ہے اس کو بھی مٹی سے بنایا ۔ جب ان پر یہ آیت پڑھی کہنے لگے ہم نہیں جانتے آپ کیا کہہ رہے ہیں۔پھریہ آیت نازل ہوئی: فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ﴿٦١آل عمران: ٦١ (ترجمہ)“پھرجو بھی آپ سے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جھگڑا کرے اس کے بعد کہ آپ کے پاس علم آچکا فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ کہتے ہیں: پھر مل کر اللہ سے گڑگڑا کردعا کرتےہیں کہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں وہ حق ہے(سچ ہے)اور جو یہ لوگ کہتے ہیں وہ باطل ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:اللہ تعالٰی نے مجھے حکم دیاہے کہ اگر تم لوگ یہ قبول نہیں کرتےتو میں آپ لوگوں سے مباہلہ کروں، تو کہنے لگے ، اے ابو القاسم! ہم علیحدگی میں آپس میں مشورہ کرتے ہیں اور پھر آپ کے پاس آتے ہیں ۔چنانچہ وہ الگ ہوئے اور آپس میں بات چیت کی، پس سید نے عاقب سے کہا۔ اللہ کی قسم اب تم لوگوں نے جان لیا یہ آدمی بھیجا ہوا نبی ہے۔ اگر تم ان کے ساتھ مباہلہ کرو گے تونیست و نابود ہو جاؤ گےاور جو قوم کسی نبی سے مباہلہ کرتی ہے تو نہ ان کے بڑے باقی رہتے ہیں اور نہ ان کے چھوٹے پھلتے پھولتے ہیں ۔اگر تم ان کی پیروی اختیار نہیں کرتے اور کسی طرح نہیں مانتے اور اپنے دین سے ہی محبت کرتے ہو تو ان سے صلح کر لو اور اپنے ملک واپس چلو، ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مباہلہ کے لئے نکلے آپ کے ساتھ علی ؓ،حسن ؓ،حسین ؓ،اور فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ آپ نے ان (اہل بیت)سے کہا: اگر میں دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا لیکن ان (عیسائی ) لوگوں نے مباہلہ سے صاف انکار کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جزیہ کی ادائیگی پر صلح کر لی۔ 9
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
7- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ يَوْمَ جُمُعَةٍ مِنْ بَابٍ كَانَ نَحْوَ دَارِ الْقَضَاءِ وَرَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَائِمٌ يَخْطُبُ فَاسْتَقْبَلَ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَائِمًا ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ هَلَكَتْ الْأَمْوَالُ وَانْقَطَعَتْ السُّبُلُ فَادْعُ اللهَ يُغِثْنَا قَالَ: فَرَفَعَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ: اللهم أَغِثْنَا اللهم أَغِثْنَا اللهم أَغِثْنَا قَالَ: أَنَسٌ وَلَا وَاللهِ مَا نَرَى فِي السَّمَاءِ مِنْ سَحَابٍ وَلَا قَزَعَةٍ وَمَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ سَلْعٍ مِنْ بَيْتٍ وَلَا دَارٍ قَالَ: فَطَلَعَتْ مِنْ وَرَائِهِ سَحَابَةٌ مِثْلُ التُّرْسِ فَلَمَّا تَوَسَّطَتْ السَّمَاءَ انْتَشَرَتْ ثُمَّ أَمْطَرَتْ قَالَ: فَلَا وَاللهِ مَا رَأَيْنَا الشَّمْسَ سَبْتًا قَالَ: ثُمَّ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ ذَلِكَ الْبَابِ فِي الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ وَرَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَائِمٌ يَخْطُبُ فَاسْتَقْبَلَهُ قَائِمًا فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ هَلَكَتْ الْأَمْوَالُ وَانْقَطَعَتْ السُّبُلُ فَادْعُ اللهَ يُمْسِكْهَا عَنَّا قَالَ: فَرَفَعَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ: اللهم حَوْلَنَا وَلَا عَلَيْنَا اللهم عَلَى الْآكَامِ وَالظِّرَابِ وَبُطُونِ الْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ فَانْقَلَعَتْ وَخَرَجْنَا نَمْشِي فِي الشَّمْسِ قَالَ: شَرِيكٌ فَسَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ أَهُوَ الرَّجُلُ الْأَوَّلُ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي.
(۷) انس بن مالكؓ بیان كرتے ہیں كہ ایك شخص مسجد میں جمعہ كے دن دارالقضاءدروازے كی طرف سے آیا جبكہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كھڑے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے آگے كھڑا ہو گیا اور عرض كیا كہ اے اللہ كے رسول لوگوں كے مال برباد ہو گئے اور راستے بند ہوگئے ،سو آپ اللہ تعالیٰ سے دعا كیجئے كہ ہم كوسیراب کر دے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور عرض كیا كہ یا اللہ ہم پر بارش برسا، یا اللہ ہم پر بارش برسا، یا اللہ ہم پر بارش برسا، انس ؓكہتے ہیں كہ اللہ كی قسم ہم آسمان میں نہ گھٹا دیكھتے تھے نہ بدلی كا كوئی ٹكڑا، اور ہمارے اور سلع پہاڑ كے درمیان نہ كوئی گھر تھا نہ محلہ،تو اچانك سلع پہاڑ كے پیچھے سے ایك بدلی ڈھال كے برابر اٹھی اور جب آسمان كے درمیان میں آئی تو پھیل گئی اور بارش برسنے لگی،پھر اللہ كی قسم ہم نے ایك ہفتہ تک آفتاب نہ دیكھا، پھر اگلے جمعہ ایك شخص اسی دروازے سے مسجد میں داخل ہوا جبكہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت كھڑے ہو كر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اس نے آپ كے سامنے آكر عرض كیا یا رسول اللہ! لوگوں كے مال برباد ہو گئے اور راستے بند ہوگئے ہیں اس لئے آپ اللہ تعالیٰ سے دعا كریں كہ اب بارش روك لے۔انس ؓكہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھا كر فرمایا: اے اللہ ہمارے ارد گرد بارش برسا ہم پر نہ برسا۔ ٹیلوں، پہاڑوں، میدانوں،وادیوں،اور درخت اگنے كے مقامات پر بارش برسا ۔راوی كہتا ہے كہ فوراً بارش بند ہو گئی اور ہم دھوپ میں چلنے پھرنے لگے۔ شریك نے انس بن مالك سے پوچھا كیا یہ وہی شخص تھا جو پہلے آیا تھا انہوں نے كہا میں نہیں جانتا۔10
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
8- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم تَلَا قَوْلَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي إِبْرَاهِيمَ: رَ‌بِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرً‌ا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٣٦﴾ (إبراهيم: ٣٦) وَقَالَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام : إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ‌ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١١٨﴾ (المائدة: ١١٨) فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَقَالَ: اللهم أُمَّتِي أُمَّتِي وَبَكَى فَقَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَا جِبْرِيلُ اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ فَسَلْهُ مَا يُبْكِيكَ؟ فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَأَلَهُ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِمَا قَالَ وَهُوَ أَعْلَمُ فَقَالَ اللهُ: يَا جِبْرِيلُ اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ فَقُلْ إِنَّا سَنُرْضِيكَ فِي أُمَّتِكَ وَلَا نَسُوءُكَ.11
(۸) عبداللہ بن عمر و بن العاص بیان كرتے ہیں كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم علیہ السلام كے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کی تلاوت فرمائی:
رَ‌بِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرً‌ا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٣٦إبراهيم: ٣٦
“اے میرے پالنے والے معبود انہوں نے بہت سے لوگوں كو راہ سے بھٹكا دیا ہے پس میری تابعداری كرنے والا میرا ہے۔
اور عیسیٰ علیہ السلام كے بارے میں یہ آیت تلاوت فرمائی:
إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ‌ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١١٨﴾ (المائدة)
” اگر تو ان كو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان كو معاف فرمادے تو تو زبردست ہے حكمت والا ہے“۔
پھر آپ نے ہاتھ اٹھا كر فرمایا:اے میرے رب میری امت ،میری امت، اور آپ رونے لگے ، اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام كو حكم دیا كہ جا كر پوچھو كہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حالانكہ اللہ كو سب كچھ معلوم ہے، جبریل علیہ السلام آئے دریافت كیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی امت كے لئے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا :جاؤكہہ دو كہ ہم آپ كو آپ كی امت كے بارے میں خوش كردیں گے اور آپ بالكل رنجیدہ نہ ہوں گے۔
 
Top