• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابدال اور اوتاد نظامِ زندگی

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
896 - حدثنا أبو المغيرة، حدثنا صفوان، حدثني شريح يعني ابن عبيد، قال: ذكر أهل الشام عند علي بن أبي طالب، وهو بالعراق، فقالوا: العنهم يا أمير المؤمنين. قال: لا، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " الأبدال يكونون بالشام، وهم أربعون رجلا، كلما مات رجل أبدل الله مكانه رجلا، يسقى بهم الغيث، وينتصر بهم على الأعداء، ويصرف عن أهل الشام بهم العذاب " (2)مسند احمد حدیث نمبر ۔896
جناب علی ؓ جب عراق میں تھے ،تو انکے سامنے اہل شام کا ذکر ہوا ،حاضرین نے کہا :امیر المومنین : اہل شام پر لعنت کیجیئے ۔فرمایا:نہیں ،کیونکہ
ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺍﺑﺪﺍﻝ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ، ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ فوت هوتا ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﺍﺑﺪﺍﻝ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﮨﻞِ ﺷﺎﻡ ﺑﺎﺭﺵ ﺳﮯ ﺳﯿﺮﺍﺏ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﺑﺪﺍﻝ ﮐﮯ ﻭﺳﯿﻠﮯ ﺳﮯ ﻓﺘﺢ ﻋﻄﺎ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﺮﮐﺖ ﺳﮯ ﺍﮨﻞِ ﺷﺎﻡ ﺳﮯ ﻋﺬﺍﺏ ﮐﻮ ﭨﺎﻝ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎﮨﮯ۔
یہ روایت ناقابل اعتبار ،اور ضعیف ہے ،
مسند احمد کے محقق علامہ شعیب ارناوط اور انکے رفقاء نے اس روایت پر لکھا ہے کہ :
(2)
إسناده ضعيف لانقطاعه، شريح بن عبيد لم يدرك عليا، وصفوان بن عمرو السكسكي- وإن كان ثقة من رجال مسلم- ذكر له النسائي حديثا منكرا في عمار بن ياسر، وحديث الباب باطل عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انظر "المنار المنيف" ص 136 للشيخ ابن قيم الجوزية. أبو المغيرة: هو عبد القدوس بن حجاج الخولاني.
قلنا: وأحاديث الأبدال التي رويت عن غير واحد من الصحابة، أسانيدها كلها ضعيفة لا ينتهض بها الاستدلال في مثل هذا المطلب‘‘

یعنی ۔۔اس کی سند منقطع ہونے کے سبب ضعیف ہے ،شریح بن عبید نے جو یہاں سیدنا علی ؓ سے ناقل ہے
اس نے سیدنا علی ؓ سے شرف ملاقات نہیں پایا ؛
اورعلامہ شعیب ارناوط کہتے ہیں : ابدال کے وجود پر کئی ایک صحابہ سے روایات مروی تو ہیں ،لیکن ان میں سے کوئی بھی دلیل بننے کے لائق نہیں ۔۔سب ضعیف ہیں ؛
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ابدال کی حقیقت !

علامہ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
نقل از : اردو مجلس فورم

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ابدال کے بارے میں کچھ ثابت نہیں، جیسا کہ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨۔ ٥٩٧ھ) فرماتے ہیں : [AR]ولیس فی ہذہ الأحادیث شیء صحیح ۔ [/AR]''ان احادیث میں سے کوئی بھی ثابت نہیں۔''(الموضوعات لابن الجوزی : ٣/١٥٢)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦١١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :
[AR]تکلّم بہ بعض السلف ، ویروی فیہ عن النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم حدیث ضعیف [/AR]۔ ''اس بارے میں بعض پرانے بزرگوں نے بات کی ہے۔ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک غیرثابت حدیث مروی ہے۔''(مجموع الفتاوی : ٤/٣٩٤)
نیز فرماتے ہیں : [AR]الأشبہ أنّہ لیس من کلام النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔ [/AR]''درست بات یہی ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں ہے۔''(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ١١/٤٤١)

شیخ الاسلام ثانی ، عالم ربانی ، حافظ ابن القیم رحمہ اللہ (٦٩١۔٧٥١ھ) فرماتے ہیں:
[AR]أحادیث الأبدال والأقطاب والأغواث والنقباء والنجباء والأوتاد کلّہما باطلۃ علی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔ [/AR]''ابدال ، اقطاب ، اغواث، نقباء ، نجباء اور اوتاد کے بارے میں تمام کی تمام احادیث خود گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے لگائی گئی ہیں۔''(المنار المنیف لابن القیم : ص ١٣٦)

اتنی سی وضاحت کے بعد ابدال کے متعلق مروی احادیث پر مختصر تبصرہ پیشِ خدمت ہے:
حدیث نمبر 1 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [AR]خیار أمّتی فی کلّ قرن خمس مأۃ ، والأبدال أربعون ، فلا الخمسمأۃ ینقصون ، ولا الأربعون ، کلما مات رجل أبدل اللّٰہ عزّ وجلّ من الخمسمأۃ مکانہ ، وأدخل من الأربعین مکانہ [/AR]۔۔۔۔۔
''میری امت میں ہر زمانہ میں پانچ سو خیار(پسندیدہ لوگ) ہوں گے اور چالیس ابدال۔ ان دونوں میں کمی نہ ہو گی۔ ان میں سے جو فوت ہو گا ، ان پانچ سو میں سے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے شخص کو ان چالیس میں داخل کر دے گا۔''
(حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبہانی : ١/٨، تاریخ ابن عساکر : ١/٣٠٢، ٣٠٣)
تبصرہ : یہ روایت کئی وجوہ سے باطل ہے جیسا کہ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨۔٥٩٧ھ)اس کے بارے میں لکھتے ہیں : [AR]موضوع ، وفیہ مجاھیل [/AR]۔ ''یہ من گھڑت روایت ہے۔ اس میں کئی مجہول راوی ہیں۔''
(الموضوعات لابن الجوزی : ٣/١٥١)
آئیے اس کے بطلان کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں :
1 اس کے راوی سعید بن ابی زیدون کے حالات نہیں ملے۔
2 عبد اللہ بن ہارون الصوری راوی کی توثیق نہیں مل سکی۔ اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ (٦٧٣۔٧٤٨ھ) لکھتے ہیں : عن الأوزاعیّ ، لا یعرف ، والخبر کذب فی أخلاق الأبدال ۔ ''یہ اوزاعی سے بیان کرتا ہے اور غیر معروف راوی ہے۔ اس کی طرف سے ابدال کے اوصاف میں بیان کی گئی روایت جھوٹ ہے۔''(میزان الاعتدال للذہبی : ٢/٥١٦)
3 اس میں امام زہری رحمہ اللہ کی تدلیس موجود ہے۔ سماع کی تصریح نہیں ملی۔
حدیث نمبر 2 : سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الأبدال فی ہذہ الأمّۃ ثلاثون رجلا ، قلوبہم علی قلب إبراہیم خلیل الرحمن ، کلّما مات منہم رجل أبدل اللّٰہ مکانہ رجلا ۔ ''اس امت میں تیس ابدال ہوں گے جن کے دل سیدنا ابراہیمuکے دل پر ہوں گے۔ ان میں سے جو فوت ہو گا، اللہ اس کی جگہ دوسرا بدل دے گا۔''(مسند الامام احمد : ٥/٣٢٢، اخبار اصفہان لابی نعیم : ١/١٨٠)
تبصرہ : اس کی سند ''ضعیف'' ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ یہ روایت بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں : وہو منکر ۔ ''یہ روایت منکر ہے۔''
1 اس کا راوی عبدالواحد بن قیس شامی اگرچہ جمہور کے نزدیک ''موثق، حسن الحدیث'' ہے لیکن اس سے بیان کرنے والے راوی الحسن بن ذکوان کے بارے میں امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : [AR]کان الحسن بن ذکوان یحدّث عنہ بعجائب ۔ [/AR]''حسن بن ذکوان اس سے عجیب و غریب (منکر) روایات بیان کرتا تھا۔''(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٦/٢٣، وسندہ، صحیحٌ)
2 الحسن بن ذکوان ''مدلس'' راوی ہے ، سماع کی تصریح نہیں ملی۔
3 عبدالواحد بن قیس شامی کا سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔لہٰذا یہ روایت منکر ، مدلَّس ہونے کے ساتھ ساتھ ''منقطع''بھی ہے۔
حدیث نمبر 3 : سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [AR]الأبدال فی أمّتی ثلاثون ، بہم تقوم الأرض ، وبہم تمطرون وبہم تنصرون ۔ [/AR]''میری امت میں تیس ابدال ہوں گے ۔ ان کے سبب سے ہی زمین قائم رہے گی اور ان کی وجہ سے ہی تم پر بارش کی جائے گی اور تمہاری مدد کی جائے گی۔''(تفسیر ابن کثیر : ١/٣٠٤، مجمع الزوائد : ١٠/٦٣)
تبصرہ : اس روایت کی سند ''ضعیف'' ہے کیونکہ :
1، 2 اس کے دو راویوں عمرو البزار اور عنبسہ الخواص کے بارے میں حافظ ہیثمی رحمہ اللہ (٧٣٥۔٨٠٧ھ) خود فرماتے ہیں : وکلاہما لم أعرفہ ۔
''ان دونوں کو میں نہیں جانتا۔ ''(مجمع الزوائد : ١٠/٦٣)
3 اس روایت میں امام قتادہ کی ''تدلیس'' بھی موجود ہے۔
حدیث نمبر 4 : سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [AR]إنّ الأبدال بالشام یکونون ، وہم أربعون رجلا ، بہم تسقون الغیث ، وبہم تنصرون علی أعدائکم ، ویصرف عن أہل الأرض البلاء والغرق ۔ [/AR]''ابدال شام میں ہوتے ہیں اور وہ چالیس مرد ہیں۔ ان کے سبب سے تمہیں بارش دی جاتی ہے اور ان کی وجہ سے تمہیں دشمنوں پر فتح دی جاتی ہے اور ان کے سبب سے اہل زمین سے تکالیف اور مصائب دور کیے جاتے ہیں۔''(تاریخ ابن عساکر : ١/٢٨٩)
تبصرہ : اس کی سند ''ضعیف'' ہے کیونکہ شریح بن عبید کا سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے۔ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ہذا منقطع بین شریح وعلی ، فإنّہ لم یلقہ ۔
''یہ روایت شریح اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درمیان منقطع ہے کیونکہ شریح نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں کی۔ ''
حدیث نمبر 5 : سیدنا مالک بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل شام کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[AR]فیہم الأبدال ، وبہم تنصرون ، وبہم ترزقون ۔ [/AR]''ان میں ابدال ہوں گے۔انہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جائے گی اور انہی کی وجہ سے تمہیں رزق دیا جائے گا۔''(المعجم الکبیر للطبرانی : ١٨/٦٥، : ١٢٠، تاریخ ابن عساکر : ١/٢٩٠)
تبصرہ : اس کی سند سخت ''ضعیف'' ہے کیونکہ :
1 اس کے راوی عمرو بن واقد کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
متروک ۔ ''یہ پرلے درجے کا جھوٹا شخص تھا۔''(تقریب التہذیب : ٥١٣٢)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وقد ضعّفہ جمہور الأئمّۃ ۔
''اسے جمہور ائمہ کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔''(مجمع الزوائد : ١٠/٦٣)
2 اس میں انقطاع بھی ہے کیونکہ محمد بن المبارک الصوری اور اس کے متابع ہشام بن عمار دونوں کی عمرو بن واقد سے ملاقات نہیں ہوئی۔ عمرو بن واقد کی وفات ١٣٠ ہجری میں ہوئی جبکہ ان دونوں کی ولادت ١٥٣ ہجری میں ہوئی تھی۔
حدیث نمبر 6 : سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الأبدال بالشام ، وہم أربعون رجلا ، کلّما مات رجل أبدل اللّٰہ مکانہ رجلا ، یسقی بہم الغیث ، وینصر بھم علی الأعداء ، ویصرف عن أہل الشام بہم العذاب ۔ ''ابدال شام میں ہیں۔ وہ چالیس مرد ہیں۔ جو ان میں سے فوت ہو جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا بدل دیتا ہے۔ ان کے سبب سے تمہیں بارش دی جاتی ہے اور دشمنوں کے مقابلہ میں امداد دی جاتی ہے، نیز اہل شام سے ان کے سبب سے عذاب دور کیا جاتا ہے۔''
(مسند الامام احمد : ١/١١٢)
تبصرہ : اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ''ضعیف'' ہے۔ شریح بن عبید کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع و لقاء نہیں۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وہو حدیث منقطع ، لیس بثابت ۔ ''یہ حدیث منقطع ہے، صحیح و ثابت نہیں ہے۔''(الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان لابن تیمیۃ : ص ١٠١)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ولا یصحّ أیضا ، فإنّہ منقطع ۔
''یہ روایت بھی ثابت نہیں کیونکہ یہ منقطع ہے۔'' (المنار المنیف لابن القیم : ص ١٣٦)
خوب یاد رہے کہ منقطع حدیث ''ضعیف'' ہوتی ہے۔ سند کا متصل ہونا صحت ِ حدیث کے لیے ضروری اور بنیادی شرط ہے۔
حدیث نمبر 7 : سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [QH]الأبدال أربعون رجلا وأربعون امرأۃ ، کلّما مات رجل أبدل اللّٰہ مکانہ رجلا ، وکلّما ماتت امرأۃ أبدل اللّٰہ مکانہا امرأۃ ۔[/QH]
''ابدال چالیس مرد اور چالیس عورتیں ہیں۔ جب ان میں سے کوئی مرد مر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا بدل دیتا ہے اور جب کوئی عورت مرجاتی ہے تو اللہ اس کی جگہ دوسری عورت بدل دیتا ہے۔''(مسند الدیلمی : ١/١١٩، ح : ٤٠٥، القول المسدد لابن حجر : ٨٣، من طریق الخلال)
تبصرہ : اس روایت کی سند ''ضعیف''ہے۔ اس کو حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے الموضوعات (٣/١٢٥) میں ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے : ففیہ مجاہیل ۔
''اس میں کئی مجہول راوی ہیں۔''
نیز عطاء الخراسانی کا سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ، لہٰذا یہ سند منقطع بھی ہے۔
حدیث نمبر 8 : امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الأبدال من الموالی ۔ ''ابدال موالی میں سے ہوں گے۔''(میزان الاعتدال للذہبی : ٢/٤٧)
تبصرہ : یہ باطل روایت ہے کیونکہ :
1 عطاء تابعی ڈائریکٹ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کررہے ہیں، لہٰذا مرسل ہونے کی بنا پر یہ روایت ''ضعیف'' ہوئی۔
2 اس کا راوی ابوعبید الآجری نامعلوم شخص ہے۔
3 اس کا راوی الرجال بن سالم مجہول ہے۔ اس کے اور اس کی روایت کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : لا یدری من ہو ، والخبر منکر ۔
''یہ نامعلوم شخص ہے اور اس کی بیان کردہ روایت منکر ہے۔''(میزان الاعتدال : ٢/٤٧)
حدیث نمبر 9 : بکر بن خنیس مرفوعاً بیان کرتے ہیں :
علامۃ أبدال أمّتی أنّہم لا یلعنون شیأا أبدا ۔ ''میری امت کے ابدال کی نشانی یہ ہے کہ وہ کسی بھی چیز پر لعن طعن نہیں کرتے۔''(کتاب الاولیاء لابن ابی الدنیا : ٥٩)
تبصرہ : اس کی سند سخت ''ضعیف'' ہے۔ بکر بن خنیس کوفی راوی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ''ضعیف و متروک'' ہے ۔ نیز اس کا تعلق طبقہ سابعہ ہے۔ کبار تابعین میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ یہ کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت بیان کر سکتا ہے؟ یہ سند معضل(پے در پے منقطع) بھی ہے۔
2 اس میں عبدالرحمن بن محمد المحاربی راوی ''مدلس'' بھی ہے۔
حدیث نمبر 10: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لن تخلو الأرض مثل إبراہیم خلیل الرحمن ، بہم تغاثون ، وبہم ترزقون ، وبہم تمطرون ۔ ''زمین خالی نہ رہے گی ایسے لوگوں سے جو مثل ابراہیم خلیل الرحمن uکے ہوں گے۔ ان کے سبب سے تمہیں رزق دیا جائے گا اور بارش برسائی جائے گی۔''(کتاب المجروحین لابن حبان : ٢/٦١، ت : ٦٠٥)
تبصرہ : یہ گھڑنتل ہے ۔ اس کو ایجاد کرنے والا راوی عبد الرحمن بن مرزوق بن عوف ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
[AR]یضع الحدیث ، لا یحلّ ذکرہ إلّا علی سبیل القدح فیہ ۔[/AR]
''یہ حدیث گھڑنے کا کام کرتا تھا۔ جرح کے بغیر اس کا ذکر جائز نہیں۔''
حدیث نمبر11 : سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إنّ أبدال أمّتی لم یدخلوا الجنّۃ بالأعمال ، ولکن إنّما دخلوا برحمۃ اللّٰہ وسخاوۃ النفس وسلامۃ الصدر ۔۔۔
''میری امت کے ابدال اپنے اعمال کے سبب سے جنت میں داخل نہ ہوں گے بلکہ اللہ کی رحمت سے ، نفسوں کی سخاوت سے اور سینوں کی سلامتی سے داخل ہوں گے۔۔۔''
(شعب الایمان للبیہقی : ١٠٨٩٣)
تبصرہ : اس کی سند سخت ''ضعیف'' ہے کیونکہ :
1 اس کے راوی صالح بن بشیر المری ابوبشر البصری کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ ''ضعیف'' راوی ہے۔(تقریب التھذیب لابن حجر : ٢٨٤٤)
2 اس میں حسن بصری رحمہ اللہ کی ''تدلیس'' بھی موجود ہے۔
حدیث نمبر 12 : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : البدلاء أربعون ، اثنان وعشرون بالشام وثمانیۃ عشر بالعراق ، کلّما مات منہم واحد بدّل اللّٰہ مکانہ آخر ، فإذا جاء الأمر قبضوا کلّہم ، فعند ذلک تقوم الساعۃ ۔ ''ابدال چالیس ہیں،بائیس شام میں ہوتے ہیں اور اٹھارہ عراق میں۔ ان میں سے جو فوت ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا بدل دیتا ہے اور جب اللہ کا حکم آئے گا تو سب فوت ہو جائیں گے۔ اسی وقت قیامت آئے گی۔''(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : ٥/٢٢٠،٢٢١)
تبصرہ : یہ خود ساختہ روایت ہے۔ اس کا راوی العلاء بن زید ثقفی وضّاع(اپنی طرف سے حدیثیں گھڑنے والا)ہے۔ خود امام ابن عدی رحمہ اللہ نے اسے ''منکر الحدیث'' قرار دیا ہے۔ کبار ائمہ محدثین نے اسے ''متروک'' کہا ہے۔
حدیث نمبر 13 : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لن تخلو الأرض من أربعین رجلا مثل خلیل الرحمن ، فبہم یسقون ، وبہم ینصرون ، ما مات منہم أحد إلّا أبدل اللّٰہ مکانہ آخر ۔ ''چالیس مرد جو مثل خلیل اللہ کے ہیں ، ان سے زمین کبھی خالی نہ ہو گی۔ ان کی وجہ سے تمہیں بارش اور تمہیں مدد دی جائے گی۔ جب ان سے کوئی فوت ہو ، اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا بدل دے گا۔''(المعجم الاوسط للطبرانی : ٤/٢٤٧، ح : ٤١٠١)
تبصرہ : اس کی سند ''ضعیف'' ہے کیونکہ :
1۔3 اس میں عبد الوہاب بن عطاء الخفاف ، اس کا استاذ سعید بن ابی عروبہ اور اس کا استاذ قتادہ تینوں ہی ''مدلس'' ہیں اور وہ ''عن'' سے روایت کر رہے ہیں۔ سماع کی تصریح ثابت نہیں، لہٰذا روایت سخت''ضعیف'' ہے۔
4 اسحاق بن زریق کی توثیق بھی معلوم نہیں ہو سکی۔
حدیث نمبر 14 : سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا یزال أربعون رجلا من أمّتی ، قلوبہم علی قلب إبراہیم علیہ السلام ، یدفع اللّٰہ بہم عن أھل الأرض ، یقال لہم : الأبدال۔۔۔
''میری امت میں چالیس مرد ہمیشہ ایسے رہیں گے جن کے قلوب (دل) قلب ابراہیمu کی مانند ہوں گے۔ ان کی وجہ سے اہل زمین سے تکالیف دور کی جائیں گی۔ ان کو ابدال کہا جاتا ہے۔''(المعجم الکبیر للطبرانی : ١٠/١٨١، ح : ١٠٣٩٠، حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبہانی : ٤/١٧٢،١٧٣)
تبصرہ : اس کی سند کئی وجوہ سے ''ضعیف'' ہے :
1 اس میں اعمش راوی کی ''تدلیس''ہے۔
2 ثابت بن عیاش الاحدب راوی غیر معروف ہے۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اسے نہیں جانتا۔(مجمع الزوائد : ١٠/٦٣)
حدیث نمبر15 : سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إنّ للّٰہ عزّ وجلّ فی الخلق ثلاثمائۃ قلوبہم علی قلب آدم علیہ السلام ، وللّٰہ تعالیٰ فی الخلق أربعون قلوبہم علی قلب موسیٰ ، وللّٰہ فی الخلق سبعۃ قلوبہم علی قلب إبراہیم ، وللّٰہ تعالیٰ فی الخلق خمسۃ قلوبہم علی قلب جبرائیل ، وللّٰہ فی الخلق ثلاثۃ قلوبہم علی قلب میکائیل ، وللّٰہ فی الخلق واحد قلبہ علی قلب إسرافیل ۔ ''اللہ تعالیٰ کے تین سو بندے مخلوق میں جن کے دل سیدنا آدمuکے دل کی مانند ہیں، چالیس ایسے ہیں جن کے دل موسیٰuکے دل کی مانند ہیں، سات ایسے ہیں جن کے دل سیدنا ابراہیمu کے دل کی مانند ہیں، پانچ ایسے ہیں جن کے دل جبرائیلu کے دل پر ہیں، تین ایسے ہیں جن کے دل میکائیل کے قلب پر ہیں اور ایک ایسا بندہ ہے جس کا دل اسرافیلuکے دل پر ہے۔''
(حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبہانی : ١/٨،٩)
تبصرہ : یہ روایت جھوٹ کا پلندا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہو کذب ، فقاتل اللّٰہ من وضع ہذا الإفک ۔ ''یہ جھوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ جھوٹ اختراع کرنے والے کو تباہ و برباد کرے۔''(میزان الاعتدال للذہبی : ٣/٥٠)
نیز فرماتے ہیں : أتّہمہ بہ أو عثمان ۔ ''میں اس جھوٹ کا خالق اس (عبد الرحیم بن یحییٰ الآدمی) کو یا عثمان (بن عمارہ) کو سمجھتا ہوں۔''
(میزان الاعتدال للذہبی : ٢/٦٠٨)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ متردّد ہیں کہ اس حدیث کو عبدا لرحیم بن یحییٰ الآدمی نے گھڑا ہے یا عثمان بن عمارہ نے۔ یہ دونوں حضرات نامعلوم و مجہول ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کارستانی ان دونوں میں سے ایک کی ہے۔
اس روایت میں ابراہیم نخعی کی ''تدلیس'' بھی موجود ہے۔
حدیث نمبر 16 : محمد بن علی بن جعفر ابوبکر الکتانی الصوفی کہتے ہیں:
النقباء ثلاث مأۃ ، والنجباء سبعون ، والبدلاء أربعون ، والأخیار سبعۃ ، والعمد أربعۃ ، والغوث واحد ۔ ''نقباء تین سو ہیں، نجباء ستر ہیں ، ابدال چالیس ہیں ، اخیار سات ، قطب چار اور غوث ایک ہے۔ــ''(تاریخ بغداد للخطیب : ٣/٧٥)
تبصرہ : یہ جھوٹی کہانی ہے ، اس کو گھڑنے والا شخص علی بن عبداللہ بن الحسن بن جہضم الہمدانی ہے۔ اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
متّہم بوضع الحدیث ۔ ''یہ حدیث گھڑنے کے ساتھ متہم ہے۔''
(میزان الاعتدال للذہبی : ٣/١٤٢)
نیز فرماتے ہیں : لیس بثقۃ ، بل متّہم ، یأتی بمصائب ۔
''یہ ثقہ نہیں بلکہ متہم راوی ہے جو کہ جھوٹ طوفان بیان کرتا ہے۔''
(سیر اعلام النبلاء للذہبی : ١٧/٢٧٦)
نیز یہ نہ قرآن ہے نہ حدیث ، نہ قول صحابی ہے نہ قول تابعی ۔
یہ باطل و ضعیف قول آگے یوں ہے : فمسکن النقباء المغرب ، ومسکن النجباء مصر ، ومسکن الأبدال الشام ، والأخیار سیّاحون فی الأرض، والعمد فی زوایا الأرض ، ومسکن الغوث مکّۃ ، فإذا عرضت الحاجۃ من أمر العامّۃ ابتہل فیہا النقباء ، ثمّ النجباء ، ثمّ الأبدال ، ثمّ الأخیار ، ثمّ العمد ، ثمّ أجیبوا ، وإلّا ابتہل الغوث ، فلا یتمّ مسألتہ حتّی تجاب دعوتہ ۔
''نقباء کا مسکن مغرب ، نجباء کا مصر ، ابدال کا شام ہے۔ اخیار سیّاح (گھومنے پھرنے والے)ہوتے ہیں۔ قطب زمین کے گوشوں میں ہوتے ہیں۔ جب مخلوق کو عمومی مصیبت آ جائے تو دعا کے لیے نقباء ہاتھ پھیلاتے ہیں ، اگر قبول نہ ہو تو نجباء ، پھر اخیار ، پھر قطب ، اگر پھر بھی قبول نہ ہو تو غوث دُعا کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے حتی کہ اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے۔''(تاریخ بغداد للخطیب : ٣/٧٥)
یہ کتانی کے قول کا بقیہ حصہ ہے جس کے راوی کے متعلق آپ جان چکے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :
وکذا کلّ حدیث یروی عن النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی عدّۃ الأولیاء والأبدال والنقباء والنجباء والأوتاد والأقطاب ، مثل أربعۃ أو سبعۃ أو اثنی عشر أو أربعین أو سبعین أو ثلاثمائۃ وثلاثۃ عشر أو القطب الواحد ، فلیس فی ذلک شیء صحیح عن النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، ولم ینطق السلف بشیء من ہذہ الألفاظ إلا بلفظ الأبدال ۔۔۔ ''اسی طرح ہر وہ روایت جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اولیاء ، ابدال ، نقباء ، نجباء ، اوتاد اور اقطاب کی تعداد مثلا چار ، سات ، بارہ، چالیس ، ستر ، تین سو ، تیرہ یا ایک قطب کے بارے میں بیان کی گئی ہے، ان میں سے کوئی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں نہ ان الفاظ میں سے سلف نے کوئی لفظ بولا ہے ، سوائے ابدال کے لفظ کے۔۔۔''(الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان لابن تیمیۃ : ١٠١)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ستکون فتنۃ یحصل الناس منہا کما یحصل الذہب فی المعدن ، فلا تسبّوا أہل الشام ، وسبّوا ظلمتہم ، فإنّ فیہم الأبدال، وسیرسل اللّٰہ إلیہم سیبا من السماء فیغرقہم ، حتّی لو قاتلتہم الثعالب غلبتہم، ثمّ یبعث اللّٰہ عند ذلک رجلا من عترۃ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی اثنی عشر ألفا إن قلّوا وخمسۃ عشر ألفا إن کثروا ، إمارتہم أو علامتہم أمت أمت علی ثلاث رایات ، یقاتلہم أہل سبع رایات ، لیس من صاحب رایۃ إلّا و ہو یطمع بالملک ، فیقتتلون و یہزمون ، ثمّ یظہر الہاشمیّ ، فیردّ اللّٰہ إلی الناس إلفتہم ونعمتہم ، فیکونون علی ذلک حتّی یخرج الدجّال۔
''عنقریب فتنہ نمودار ہو گا۔ لوگ اس سے ایسے کندن بن کر نکلیں گے جیسے سونا بھٹی میںکندن بنتا ہے۔ تم اہل شام کو بُرا بھلا نہ کہو بلکہ ان پر ظلم کرنے والوں کو بُرا بھلا کہو کیونکہ اہل شام میں ابدال ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان پر آسمان سے بارش نازل کرے گا اور ان کو غرق کر دے گا۔اگر لومڑیوں جیسے مکار لوگ بھی ان سے لڑیں گے تو وہ ان پر غالب آ جائیں گے۔پھر اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں سے ایک شخص کو کم از کم بارہ ہزار اور زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار لوگوں میں بھیجے گا۔ ان کی علامت أمت أمت ہو گی ۔ وہ تین جھنڈوں پر ہوں گے۔ ان سے سات جھنڈوں والے لڑائی کریں گے۔ہر جھنڈے والا بادشاہت کا طمع کرتا ہو گا۔ وہ لڑیں گے اور شکست کھائیں گے، پھر ہاشمی غالب آ جائے گا اور اللہ تعالیٰ لوگوں کی طرف ان کی الفت اور محبت و مودّت لوٹا دے گا۔ وہ دجّال کے نکلنے تک یونہی رہیں گے۔''(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٤/٥٩٦، ح : ٨٦٥٨، وسندہ، صحیحٌ)
اس روایت کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ''صحیح الاسناد'' اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ''صحیح'' قرار دیاہے۔
ابدال کی تعریف و تفسیر میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ)فرماتے ہیں :
فسّروہ بمعان ، منہا : أنّہم أبدال الأنبیاء ، ومنہا : أنّہ کلّما مات منہم رجل أبدل اللّٰہ مکانہ رجلا ، ومنہا : أنّہم أبدلوا السیّأات من أخلاقہم وأعمالہم وعقائدہم بحسنات ، وہذہ الصفات لا تختصّ بأربعین ، ولا بأقلّ ، ولا بأکثر ، ولا تحصر بأہل بقیّۃ من الأرض ۔ ''علمائے کرام نے اس کی کئی تفسیریں کی ہیں۔ ایک یہ ہے کہ وہ انبیاء کے بدل ہیں۔ ایک یہ کہ ان میں سے جب کوئی فوت ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے شخص کو کھڑا کر دیتے ہیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے اپنے اخلاق ، اعمال اور عقائد سے برائیوں کو نکال کر ان کی جگہ نیکیوں کو دے دی ہے۔ یہ صفات چالیس یا کم و بیش کے ساتھ خاص نہیں نہ باقی زمین والوں سے ان کو بند کیا گیا ہے۔''(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ١١/٤٤٢)

لمحہ فکریہ : ''حاجی کفایت اللہ صاحب بیان کرتے ہیں : اعلیٰ حضرت (احمد رضا خان بریلوی) بنارس تشریف لے گئے۔ایک دن دوپہر کو ایک جگہ دعوت تھی۔ میں ہمراہ تھا، واپسی میں تانگے والے سے فرمایا: اس طرف فلاں مندر کے سامنے سے ہوتے ہوئے چل۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اعلیٰ حضرت بنارس کب تشریف لائے اور کیسے یہاں کی گلیوں سے واقف ہوئے اور اس مندر کا نام کب سنا؟ اسی حیرت میں تھا کہ تانگہ مندر کے سامنے پہنچا، دیکھا کہ ایک سادھو مندر سے نکلا اور تانگہ کی طرف دوڑا۔ آپ نے تانگہ رُکوا دیا۔ اس نے اعلیٰ حضرت کو ادب سے سلام کیا اور کان میں کچھ باتیں ہوئیں جو میری سمجھ سے باہر تھیں، پھر وہ سادھو مندر میں چلا گیا، ادھر تانگہ بھی چل پڑا، تب میں نے عرض کی : حضور ! یہ کون تھا؟ فرمایا : ابدالِ وقت۔ عرض کی : مندر میں ؟ فرمایا : آم کھائیے ، پتے نہ گنیے۔''(اعلی حضرت ، اعلی سیرت از محمد رضا الحسن قادری بریلوی : ص ١٣٤)
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جزاکم اللہ خیرا۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ !
جزاک اللہ خیرا اسحاق بھائی!
محترم @امان اللہ اصغر بھائی!
توجہ کریں!
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
امان اللہ اصغر صاحب نے ذاتی پیغام میں کچھ اور ساتھیوں سے بھی یہی سوال پوچھا تھا ،، میرے خیال میں اس طرح کے سوال ’’ ذاتی پیغام ‘‘ میں کرنے کی بجائے ، اوپن فورم پر کرنے چاہییں ، اور اہل علم کو اس میں ٹیگ کردینا چاہیے ، تاکہ محنت میں تکرار نہ ہو ، اور دیگر لوگ بھی ان سوالوں کے جواب سے مستفید ہوسکیں ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ان الفاظ میں ملتی ہے:
الابدال یکونون بالشام وہم اربعون رجلا کلما مات رجل ابدل اللہ مکانہ رجلا یسقی بھم الغیث وینتصربھم علی الاعداء ویصرف عن اھل الشام بھم العذاب
(ابدال شام میں ہوں‌گے وہ چالیس مرد ہیں جب بھی ان میں سے کوئی مرد مرے گا تو اللہ اس کی جگہ دوسرا مرد پیدا کرے گا انہی کے ذریعہ مینہ برستا ہے انہی کے ذریعہ دشموں پر فتح حاصل ہوتی ہے اور انی کے ذریعہ اہل شام سے عذاب دور کیا جاتا ہے۔)
(مشکوۃ الصابیح ح:6277)

قطب وابدال اوتاد وغیرہ سے متعلق تمام روایات جھوٹی ، موضوع و من گھڑت ہیں -یہ حقیقت میں صوفی مذہب کی تراشیدہ اصطلاحات ہیں اور صوفیا کے حلقوں میں زبان زد ہیں جن میں سے کوئی بھی حدیث صحیح نہیں بلکہ سب کی سب موضوع ہیں یا منکر یا بے حد ضعیف اور اپنے متن اور مضمون کے اعتبار سے اسلام کے عقیدہ توحید سے براہ راست متصادم ہیں۔ کیوں کہ ان کے بارے میں یہ عقیدہ کہ یہ کائنات میں صاحب“تصرف“ ہیں اور عالم کے انتظام وانصرام میں ان کا عمل دخل بھی ہے اس لیے ان کو وسیلہ بنانے ان کوپکارنے اور ان سے استعانت کو جائزسمجھا جاتا ہے اور یہ کہ ابدال عالم کے انتظام کے رض سے مختلف جگہوں پر متعین کردیئے گئے ہیں-یہ الله کی ذات و صفات کے ساتھ صریح کفرو شرک ہے-

قرآن مجید میں الله رب العزت کا واضح فرمان ہے -

قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭ
اے نبی مکرم! ان سے کہیےکہ تمہیں آسمان اور زمین سے رزق کون دیتا ہے کون ہے جو تمہاری آنکھوں اور تمہارے کانوں کا مالک کون ہے جو مردہ سے زندہ نکالتا ہےاور زندہ سے مردہ نکالتا ہے اور پوری کائنات کے معاملات کون سنبھالتا ہے؟؟ (یعنی الله کے علاوہ بھی کوئی ہے)-

إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ ۖ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ سوره العنکبوت ١٧
تم الله کے سوا جن کی عبادت کرتے ہو اور جھوٹ بناتے ہو جنہیں تم الله کے سوا پوجتے ہو وہ تمہاری روزی کے مالک نہیں سو تم الله ہی سے روزی مانگو اور اسی کی عبادت کرو اوراسی کا شکر کرو اسی کے پاس لوٹائے جاؤ گے-

وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ سوره یونس ١٠٧
اوراگر الله تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اسے ہٹانے والا کوئی نہیں اور اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچانا چاہے توکوئی اس کے فضل کو پھیرنے والا نہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنا فضل پہنچاتا ہے اور وہی بحشنے والا مہربان ہے-

ان جاہلوں کی وضع کردہ من گھڑت روایات میں قطب وابدال زیادہ ترشام و عراق کی سر زمین پر پاے جاتے ہیں - جب کہ تاریخ گواہ ہے کہ شام و عراق کی سر زمین عرصہ دراز سے جنگ و جدل اور خون میں نہائی ہوئی ہے- سوال ہے کہ ان ابدالوں، قطبوں اوتادوں نے اب تک اس سر زمین پر امن و امان قائم کرنے کے لیے کیا کیا -؟؟ ان کی برکات کہاں غائب ہوگئیں؟؟ ایک جھوٹی روایت میں یہ بھی ہے کہ امام مہدی کی خروج کی خبر سن کر شام و عراق کی ابدال ان سے بیت کے لئے مکہ آئیں گے- اگر یہ ابدال وغیرہ زمین پر خود تصرف رکھتے ہیں تو ایک خلیفہ کی مدد کرنا چہ معنی دارد ؟؟-

حقیقت یہ ہے کہ یہ اصطلاحات تو شیعی حضرات ضرور استعمال کرتے ہیں لیکن اب اہل سنت کے ہاں بھی ان کا تصور پیدا ہو گیا ہے -ہم مسلمانوں کی جاننا چاہیے کہ اللہ کے کاموں‌ میں کسی کو دخل نہیں۔ صرف اللہ ہی خالق و مالک و رازق ہے۔ جس طرح عبادت کی مستحق ذات صرف وصرف اللہ ہے اسی طرح تدابیر اور تصرفات یہ بھی اللہ کا حق ہے جو جاہل صوفی اور دیگر بدعقیدہ لوگ اللہ کے ساتھ دوسروں کو صفات میں شریک کرتے ہیں انہیں‌ چاھیے کہ وہ توبہ کرلیں ورنہ شرک ان کے اعمال کو برباد کردے گا۔

الله ہم کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ہم مسلمانوں کی جاننا چاہیے کہ اللہ کے کاموں‌ میں کسی کو دخل نہیں۔ صرف اللہ ہی خالق و مالک و رازق ہے۔ جس طرح عبادت کی مستحق ذات صرف وصرف اللہ ہے اسی طرح تدابیر اور تصرفات یہ بھی اللہ کا حق ہے جو جاہل صوفی اور دیگر بدعقیدہ لوگ اللہ کے ساتھ دوسروں کو صفات میں شریک کرتے ہیں انہیں‌ چاھیے کہ وہ توبہ کرلیں ورنہ شرک ان کے اعمال کو برباد کردے گا۔
ہمارے دور کے اہل دیوبند جو توحید پرستی کے دعویدار بھی ہیں ، خیر سے وہ بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ :
قطب و ابدال کائنات میں تصرف کی طاقت و اختیار رکھتے ہیں ‘‘

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
’’ India
سوال # 41793
حضرت براہ کرم مجھے یہ بتائیے کہ قطب ابدال کے متعلق ہمارے علماء دیوبند کا کیا موقف ہے ؟
1۔کیا کتاب اللہ یا حدیث رسول ? سے یہ بات ثابت ہے ؟
2۔ اگر احادیث میں کہیں پر قطب و ابدال کا ذکر ملتا ہے تو ایسی احادیث کی صحت کیسی ہے ؟
3۔ کیا رسو ل اللہ ? نے کسی صحابی کے متعلق کبھی یہ ارشاد فرمایا کہ فلاں صحابی قطب ہے یا فلاں صحابی ابدال ہے ؟
4۔کیا قطب و ابدال معصوم علی الخطاء ہوتے ہیں ؟ اگر یہ ہستیاں نظام عالم کو سنبھالے ہوئے ہیں اور بشریت کی بناء پر ان کے درمیان کسی معاملہ میں اختلاف ہو جائے تو کیا نظام عالم متاثر نہ ہو جائیگا ؟

Published on: Nov 14, 2012
جواب # 41793
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1626-594/L=12/1433

قطب ابدال کے متعلق علمائے دیوبند کا موقف یہ ہے کہ یہ اولیاء اللہ کے مختلف مراتب ہیں۔
(۱، ۲) ان کا ثبوت احادیث سے ہے، علامہ سیوطی نے تقریباً بیس کتب وروات سے ایسی حدیثیں نقل کی ہیں جن سے ابدال وغیرہ کا ثبوت ہوتا ہے، اور تمام حدیثوں کو صحیح وحسن فرمایا ہے۔ (دلائل السلوک: ۹۳)
(۳) علامہ سیوطی کی کتاب الحاوی للفتاوی میں حضرت ابوہریرہ کی روایت میں ہے کہ حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے غلام کے بارے میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ ان سات میں سے ایک ہے۔ جن کے ذریعے اللہ تعالی زمین والوں کو محفوظ رکھتے ہیں (الحاوی للفتاوی: ۲/۲۴۹)
(۴) یہ ہستیاں معصوم عن الخطاء نہیں ہوتی ہیں البتہ اللہ تعالیٰ ان کو بشری کمزوریوں سے پاک کردیتے ہیں، عالم کی وجود وبقاء کے لیے جو امور من جانب اللہ ان کے سپرد ہوتے ہیں وہ اس کو بجالاتے ہیں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں کرتے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ہمارے دور کے اہل دیوبند جو توحید پرستی کے دعویدار بھی ہیں ، خیر سے وہ بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ :
قطب و ابدال کائنات میں تصرف کی طاقت و اختیار رکھتے ہیں ‘‘

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
’’ India
سوال # 41793
حضرت براہ کرم مجھے یہ بتائیے کہ قطب ابدال کے متعلق ہمارے علماء دیوبند کا کیا موقف ہے ؟
1۔کیا کتاب اللہ یا حدیث رسول ? سے یہ بات ثابت ہے ؟
2۔ اگر احادیث میں کہیں پر قطب و ابدال کا ذکر ملتا ہے تو ایسی احادیث کی صحت کیسی ہے ؟
3۔ کیا رسو ل اللہ ? نے کسی صحابی کے متعلق کبھی یہ ارشاد فرمایا کہ فلاں صحابی قطب ہے یا فلاں صحابی ابدال ہے ؟
4۔کیا قطب و ابدال معصوم علی الخطاء ہوتے ہیں ؟ اگر یہ ہستیاں نظام عالم کو سنبھالے ہوئے ہیں اور بشریت کی بناء پر ان کے درمیان کسی معاملہ میں اختلاف ہو جائے تو کیا نظام عالم متاثر نہ ہو جائیگا ؟

Published on: Nov 14, 2012
جواب # 41793
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1626-594/L=12/1433

قطب ابدال کے متعلق علمائے دیوبند کا موقف یہ ہے کہ یہ اولیاء اللہ کے مختلف مراتب ہیں۔
(۱، ۲) ان کا ثبوت احادیث سے ہے، علامہ سیوطی نے تقریباً بیس کتب وروات سے ایسی حدیثیں نقل کی ہیں جن سے ابدال وغیرہ کا ثبوت ہوتا ہے، اور تمام حدیثوں کو صحیح وحسن فرمایا ہے۔ (دلائل السلوک: ۹۳)
(۳) علامہ سیوطی کی کتاب الحاوی للفتاوی میں حضرت ابوہریرہ کی روایت میں ہے کہ حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے غلام کے بارے میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ ان سات میں سے ایک ہے۔ جن کے ذریعے اللہ تعالی زمین والوں کو محفوظ رکھتے ہیں (الحاوی للفتاوی: ۲/۲۴۹)
(۴) یہ ہستیاں معصوم عن الخطاء نہیں ہوتی ہیں البتہ اللہ تعالیٰ ان کو بشری کمزوریوں سے پاک کردیتے ہیں، عالم کی وجود وبقاء کے لیے جو امور من جانب اللہ ان کے سپرد ہوتے ہیں وہ اس کو بجالاتے ہیں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں کرتے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
حیرت ہے کہ :

ایک طرف دیوبندی فتویٰ میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ہستیاں (قطب و ابدال) معصوم عن الخطاء نہیں ہوتی ہیں اور دوسری طرف سادہ لوح عوام کو یہ بھی بآور کرایا جارہا ہے کہ "البتہ اللہ تعالیٰ ان کو بشری کمزوریوں سے پاک کردیتے ہیں" - ؟؟

معصوم عن الخطاء کا تو مطلب ہی یہی ہے کہ وہ بشری کمزوری سے پاک ہیں-
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔ ہمیں دائرہ اسلام میں رکهے ۔ آزمائشوں میں ثابت قدم رکهے ۔ آمین
 
Top