• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابن تیمیہ کےہاں ، اسلامی تہذیب ومعاشرت کےاصول

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
یہ ابن تیمیہ کی کتاب اقتضاءالصراط المستقیم کاترجمہ ہے۔(دوستوں کو جہاں عبارت کی تفہیم مشکل ہورہی ہو اس کا استفسارضرور کریں)
خطبہءمسونونہ کےبعد:
میں نےتہواروں میں کفارسے مشابہت اختیارکرنےسےروکاتھا۔اس حوالے سے میں نےکچھ قدیم اثار،شرعی دلائل اورشریعت کی بعض حکمتیں نقل کیں تھیں کہ اہل کتاب اور عجمیوں (اہل فارس وروم وغیرہ)سےکیوں روکاگیاہے۔اور شریعت نےان کی مخالفت کاہمیں کیوں حکم دیاہے؟
اگرچہ کفارسے یہ مشابہت کی ممانعت، شریعت اسلامیہ کےعظیم قواعدمیں سےایک قاعدہ ہے۔اس کی بہت زیادہ شاخیں ہیں ۔یہ ایک ایسی جامع اصطلاح ہےجس کےاندر کئی ایک اصول وفروع شامل ہیں۔لیکن اس وقت میرےپاس اس کاکوئی کافی وشافعی جواب نہیں تھا۔تاہم جتنابن سکا اتنامیں نےاللہ کی توفیق سے کردیا۔اللہ نےاس سےبھی بہت نفع دیا۔پھر مجھےپتاچلاکہ کچھ لوگوں نےکفارکی معاشرت میں نشونماپائی ہے۔ وہ کسی بھی تہوارمیں ان کی مخالفت کرنےکو ناممکن تصورکرتےہیں۔اوراس کیلے شریعت کےعمومی دلائل کا سہار ا لیتے ہیں۔اس پرمیرے بعض رفقانےاصل مسلےپرجامع اندازمیں لکھنےکو کہا۔کیونکہ اس مسلہ کاتعلق اصول معاشرت وتہذیب سےتھااس وجہ سے اسکےنکھارنے سے بہت زیادہ فوائداور ہر خاص وعام کیلے منافع تھے۔چناچہ جب لوگو ں نےاس مسلہ کےبارےمیں بہت زیادہ آرادیناشروع کردیں ۔تو ان جاہلانہ قسم کی آراکو سن کرمیرےلئےایک آزمائش بن گئی ۔پھر میں نےجو میسرتھا وہ رقم کردیا۔لیکن اس کےساتھ ہی جب میں نےاس مسلے کےبارےمیں دلائل ،علماکےاقوال اور آثارجمع کیےتو مجھےمحسوس ہواکہ وہ میرےلکھےہوئےسے کہیں زیادہ ہیں۔اب میں یہ خیال نہیں کرتاکہ ہر وہ شخص جو فقہ اسلامی میں مہارت رکھتاہو،شریعت کےمقاصداوراشارات کو سمجھتاہو، فقہاکےعلتیں اوران کےمسائل پرعبوررکھتاہووہ اس باب میں کوئی شک وشبہ کاشکارہو۔بلکہ اس بھی بڑھ کرمیں یہ بھی گمان کرتا ہوں کہ ہروہ شخص جس کےدل میں ایمان ہو ،وہ اسلام کیلے مخلص ہو،اسے اللہ کا دین کہتاہواوراس کےسواکوئی دوسراطرزحیات قبول نہ کرتاہووہ جب اس نکتےسے آگاہوگاتومیرانہی خیال وہ بہت جلد اس سے اجتناب نہ کرنےکی کوشش کرے۔بس ضروری یہ ہےکہ ا سکا دل زندہ،ایمان سالم ہو۔ لیکن ہم اللہ سے دلوں کےشکوک اور نفسانی خواہشات سے پناہ مانگتےہیں۔یہ دونوں ہی حق کی معرفت اور اس کی اتباع سے روک دیتے ہیں۔
ر
 
Top