• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابن حزم کا عقیدہ ؟

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
انسان کو الله نے حواس خمسہ دیے ہیں اور اس کے لئے کہا

فجعلناه سَمِيعاً بَصِيراً


ہم نے اس کو سننے والا دیکھنے والا بنا دیا


لیکن البصیر نہیں کہا بصیر کہا لہذا البصیر الله ہے یہ ایسے ہی ہے کہ العلی الله کا نام ہے اور علی ایک صحابی کا

جب ابن حزم کہتے ہیں کہ الله کے لئے (قوت) سمع اور بصر کا اطلاق درست نہیں تو ان کا مقصد یہی ہوتا ہے انسانی حواس خمسہ سے الله کو بلند رکھیں

ابن حزم کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں کہتے ہیں
http://shamela.ws/browse.php/book-6521/page-267
قَالَ الله تبَارك وَتَعَالَى {لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير} فَقُلْنَا نعم إِنَّه سميع بَصِير لَا كشيء من البصراء وَلَا السامعين مِمَّا فِي الْعَالم وكل سميع وبصير فِي الْعَالم فَهُوَ ذُو سمع وبصر فَالله تَعَالَى بِخِلَاف ذَلِك بِنَصّ الْقُرْآن فَهُوَ سميع كَمَا قَالَ لَا يسمع كالسامعين وبصير كَمَا قَالَ لَا يبصر كالمبصرين لَا يُسَمِّي رَبنَا تَعَالَى إِلَّا بِمَا سمى بِهِ نَفسه وَلَا يخبر عَنهُ إِلَّا بِمَا أخبر بِهِ عَن نَفسه فَقَط كَمَا قَالَ الله تَعَالَى {هُوَ السَّمِيع الْبَصِير} فَقُلْنَا نعم هُوَ السَّمِيع الْبَصِير وَلم يقل تَعَالَى إِن لَهُ سمعا وبصرا فَلَا يحل لأحد أَن يَقُول إِن لَهُ سمعا وبصراً فَيكون قَائِلا على الله تَعَالَى بِلَا علم وَهَذَا لَا يحل وَبِاللَّهِ تَعَالَى


الله تعالی کہتا ہے لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير اس کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ السَّمِيع الْبَصِير ہے پس ہم کہتے ہیں ہاں وہ سننے والا دیکھنے والا ہے لیکن کسی بینا کی طرح نہیں اور کسی سننے والے کی طرح نہیں جو اس عالم میں ہیں ، اور ہر سننے والا اور دیکھنے والا جو اس عالم میں ہے تو وہ سمع و بصر والا ہے- لیکن الله تعالی کے لئے اس کے خلاف قرآن میں نص ہے پس وہ سننے والا ہے جیسا اس نے کہا ، نہ کہ وہ سنتا ہے ایسے جسے کوئی (انسان یا جانور) سنّتا ہے، اور دیکھتا ہے جیسا اس نے کہا، مگر ایسے نہیں جسے کوئی دیکھنے والا دیکھتا ہے – ہمارے رب تعالی نے کوئی نام نہ رکھا سوائے وہ جو اس نے خود رکھا اور کسی دوسرے نام کی خبر نہیں دی سوائے ان کے جن کی اس نے خبر دی- الله نے کہا کہ هُوَ السَّمِيع الْبَصِير پس ہم کہتے ہیں ہاں وہ السَّمِيع الْبَصِير ہے اور الله کے لئے (قوت) سمع اور بصر نہیں کہتے کیونکہ یہ حلال نہیں کسی کے لئے بھی کہ وہ الله کے لئے سمع و بصر کہے کیونکہ وہ الله پر وہ بات بولے گا جس کا علم نہیں اور یہ حلال نہیں ہے


ہم اپ کی رائے سے متفق ہیں کہ ہاں ان صفات کی کیفیت و ماہیت کے بارے میں گفتگو کرنا ہمارے لیے منع ہے یہی بات اوپر ابن حزم کہہ رہے ہیں۔

کیوں منع ہے ؟ اسی لئے کہ ان کی کیفیت کا پتا نہیں ہے

ہم کو پورے قرآن پر ایمان لانا ہے مشابھات پر بھی لایا جاتا ہے لیکن ان کی تاویل منع ہے- ابن حزم کی رائے میں چونکہ اسماء کا مفھوم انسان کی عقل سے دور ہے لہذا ان کو صرف اسم ہی کہنا صحیح ہے ان کی تاویل منع ہے اور چونکہ الله نے کہا ہے مجھ کو میرے ناموں سے پکارو تو اس کو ان ہی ناموں سے پکارا جائے گا- ان کے نزدیک الله کے ناموں کا مفھوم بھی ہے لیکن ان کی صحیح کیفیت الله کو پتا ہے

الذھبی کتاب العَلو للعلي الغفار میں بتاتے ہیں کہ أبو معاذ خالد بن سلیمان کہتے ہیں
كَانَ جهم على معبر ترمذ وَكَانَ فصيح اللِّسَان لم يكن لَهُ علم وَلَا مجالسة لأهل الْعلم فَكلم السمنية فَقَالُوا لَهُ صف لنا رَبك عزوجل الَّذِي تعبده
فَدخل الْبَيْت لَا يخرج مِنْهُ ثمَّ خرج إِلَيْهِم بعد أَيَّام
فَقَالَ هُوَ هَذَا الهوا مَعَ كل شَيْء وَفِي كل شَيْء وَلَا يَخْلُو مِنْهُ شَيْء فَقَالَ أَبُو معَاذ كذب عَدو الله بل الله جلّ جَلَاله على الْعَرْش كَمَا وصف نَفسه


جھم (بن صفوان) ترمذ کی گزر گاہ پر تھا اور فصیح تھا لیکن صاحبِ عِلم نہ تھا اور نہ ہی عِلم والوں کے ساتھ اُسکا اُٹھنا بیٹھنا تھا ، لہذا وہ لوگوں کے ساتھ باتیں کیا کرتا ، لوگوں نے اُسے کہا جِس الله کی تم عِبادت کرتے ہو ہمیں اُسکی صفات بتاو تو وہ (جھم بن صفوان) اپنے گھر میں داخل ہوا اور کئی دِن کے بعد باہر نکلا اور لوگوں کو جواب دِیا کہ وہ جیسے کہ یہ ہوا ہر چیز کے ساتھ ہے ، اور ہر چیز میں ہے اور کوئی چیز اُس سے خالی نہیں تو أبو معاذ نے کہا اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے ، اللہ تو اپنے عرش پر ہے جیسا کہ خود اللہ نے اپنے بارے میں بتایا ہے


ابن حزم کے موقف کو جھمیت کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟ ہماری رائے میں نہیں، یہ ایک رائے ضرور ہے لیکن اس میں مطلق انکار نہیں جو جھمی کرتے تھے

اہل سنت کے باقی علماء الله کو شی کہتے ہیں پھر الله کے ناموں کو صفات کہتے ہیں- یہ طریقہ استدلال فلسفہ کی وجہ سے رائج ہوا کیونکہ معتزلہ اس طریقہ کار کو استعمال کرتے تھے – یہ طریقہ فلسفہ یونان کے امہات میں سے ہے کہ اشیاء اپنی صفت اور ضد سے پہچانی جاتی ہیں- ابن حزم کے نزدیک الله کے نام کو صفت کہنا بدعت اور اس کے ناموں میں الحاد ہے- الله کو ضد اور صفت کی بجائے اس طرح سمجھا جائے گا جیسا اس نے کتاب الله میں بیان کیا ہے بس نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم

ہمارے نزدیک ابن حزم اور باقی اہل سنت کے موقف میں طریقہ استدلال کے فرق کی وجہ سے کچھ اختلاف ضرور ہے لیکن وہ اتنا نہیں کہ اس پر ابن حزم کو اہل سنت سے ہی خارج کر دیا جائے واللہ اعلم

@خضر حیات بھائی غیر متفق کی وجہ تو بتا دیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
انسان کو الله نے حواس خمسہ دیے ہیں اور اس کے لئے کہا

فجعلناه سَمِيعاً بَصِيراً


ہم نے اس کو سننے والا دیکھنے والا بنا دیا


لیکن البصیر نہیں کہا بصیر کہا لہذا البصیر الله ہے یہ ایسے ہی ہے کہ العلی الله کا نام ہے اور علی ایک صحابی کا
چلیں مقام شکر ہے کہ آپ ’‘ انسان ’‘ کو ۔۔سمیع ، بصیر تو تسلیم کیا ، یہی مطلوب ہے ؛
بن حزم کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں کہتے ہیں
http://shamela.ws/browse.php/book-6521/page-267
قَالَ الله تبَارك وَتَعَالَى {لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير} فَقُلْنَا نعم إِنَّه سميع بَصِير لَا كشيء من البصراء وَلَا السامعين مِمَّا فِي الْعَالم وكل سميع وبصير فِي الْعَالم فَهُوَ ذُو سمع وبصر فَالله تَعَالَى بِخِلَاف ذَلِك بِنَصّ الْقُرْآن فَهُوَ سميع كَمَا قَالَ لَا يسمع كالسامعين وبصير كَمَا قَالَ لَا يبصر كالمبصرين لَا يُسَمِّي رَبنَا تَعَالَى إِلَّا بِمَا سمى بِهِ نَفسه وَلَا يخبر عَنهُ إِلَّا بِمَا أخبر بِهِ عَن نَفسه فَقَط كَمَا قَالَ الله تَعَالَى {هُوَ السَّمِيع الْبَصِير} فَقُلْنَا نعم هُوَ السَّمِيع الْبَصِير وَلم يقل تَعَالَى إِن لَهُ سمعا وبصرا فَلَا يحل لأحد أَن يَقُول إِن لَهُ سمعا وبصراً فَيكون قَائِلا على الله تَعَالَى بِلَا علم وَهَذَا لَا يحل وَبِاللَّهِ تَعَالَى


الله تعالی کہتا ہے لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير اس کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ السَّمِيع الْبَصِير ہے پس ہم کہتے ہیں ہاں وہ سننے والا دیکھنے والا ہے لیکن کسی بینا کی طرح نہیں اور کسی سننے والے کی طرح نہیں جو اس عالم میں ہیں ، اور ہر سننے والا اور دیکھنے والا جو اس عالم میں ہے تو وہ سمع و بصر والا ہے- لیکن الله تعالی کے لئے اس کے خلاف قرآن میں نص ہے پس وہ سننے والا ہے جیسا اس نے کہا ، نہ کہ وہ سنتا ہے ایسے جسے کوئی (انسان یا جانور) سنّتا ہے، اور دیکھتا ہے جیسا اس نے کہا، مگر ایسے نہیں جسے کوئی دیکھنے والا دیکھتا ہے – ہمارے رب تعالی نے کوئی نام نہ رکھا سوائے وہ جو اس نے خود رکھا اور کسی دوسرے نام کی خبر نہیں دی سوائے ان کے جن کی اس نے خبر دی- الله نے کہا کہ هُوَ السَّمِيع الْبَصِير پس ہم کہتے ہیں ہاں وہ السَّمِيع الْبَصِير ہے اور الله کے لئے (قوت) سمع اور بصر نہیں کہتے کیونکہ یہ حلال نہیں کسی کے لئے بھی کہ وہ الله کے لئے سمع و بصر کہے کیونکہ وہ الله پر وہ بات بولے گا جس کا علم نہیں اور یہ حلال نہیں ہے
لذھبی کتاب العَلو للعلي الغفار میں بتاتے ہیں کہ أبو معاذ خالد بن سلیمان کہتے ہیں

كَانَ جهم على معبر ترمذ وَكَانَ فصيح اللِّسَان لم يكن لَهُ علم وَلَا مجالسة لأهل الْعلم فَكلم السمنية فَقَالُوا لَهُ صف لنا رَبك عزوجل الَّذِي تعبده
فَدخل الْبَيْت لَا يخرج مِنْهُ ثمَّ خرج إِلَيْهِم بعد أَيَّام
فَقَالَ هُوَ هَذَا الهوا مَعَ كل شَيْء وَفِي كل شَيْء وَلَا يَخْلُو مِنْهُ شَيْء فَقَالَ أَبُو معَاذ كذب عَدو الله بل الله جلّ جَلَاله على الْعَرْش كَمَا وصف نَفسه


جھم (بن صفوان) ترمذ کی گزر گاہ پر تھا اور فصیح تھا لیکن صاحبِ عِلم نہ تھا اور نہ ہی عِلم والوں کے ساتھ اُسکا اُٹھنا بیٹھنا تھا ، لہذا وہ لوگوں کے ساتھ باتیں کیا کرتا ، لوگوں نے اُسے کہا جِس الله کی تم عِبادت کرتے ہو ہمیں اُسکی صفات بتاو تو وہ (جھم بن صفوان) اپنے گھر میں داخل ہوا اور کئی دِن کے بعد باہر نکلا اور لوگوں کو جواب دِیا کہ وہ جیسے کہ یہ ہوا ہر چیز کے ساتھ ہے ، اور ہر چیز میں ہے اور کوئی چیز اُس سے خالی نہیں تو أبو معاذ نے کہا اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے ، اللہ تو اپنے عرش پر ہے جیسا کہ خود اللہ نے اپنے بارے میں بتایا ہے
ان دونوں عبارتوں کا ترجمہ کسی عربی شناس سے درست کروا کر سیکھ لیں ، ان شاء اللہ الکریم فائدہ ہوگا ؛
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
چلیں مقام شکر ہے کہ آپ ’‘ انسان ’‘ کو ۔۔سمیع ، بصیر تو تسلیم کیا ، یہی مطلوب ہے ؛




ان دونوں عبارتوں کا ترجمہ کسی عربی شناس سے درست کروا کر سیکھ لیں ، ان شاء اللہ الکریم فائدہ ہوگا ؛

ابن حزم کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں کہتے ہیں

قَالَ الله تبَارك وَتَعَالَى {لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير} فَقُلْنَا نعم إِنَّه سميع بَصِير لَا كشيء من البصراء وَلَا السامعين مِمَّا فِي الْعَالم وكل سميع وبصير فِي الْعَالم فَهُوَ ذُو سمع وبصر فَالله تَعَالَى بِخِلَاف ذَلِك بِنَصّ الْقُرْآن فَهُوَ سميع كَمَا قَالَ لَا يسمع كالسامعين وبصير كَمَا قَالَ لَا يبصر كالمبصرين لَا يُسَمِّي رَبنَا تَعَالَى إِلَّا بِمَا سمى بِهِ نَفسه وَلَا يخبر عَنهُ إِلَّا بِمَا أخبر بِهِ عَن نَفسه فَقَط كَمَا قَالَ الله تَعَالَى {هُوَ السَّمِيع الْبَصِير} فَقُلْنَا نعم هُوَ السَّمِيع الْبَصِير وَلم يقل تَعَالَى إِن لَهُ سمعا وبصرا فَلَا يحل لأحد أَن يَقُول إِن لَهُ سمعا وبصراً فَيكون قَائِلا على الله تَعَالَى بِلَا علم وَهَذَا لَا يحل وَبِاللَّهِ تَعَالَى


الله تعالی کہتا ہے لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير اس کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ السَّمِيع الْبَصِير ہے پس ہم کہتے ہیں ہاں وہ سننے والا دیکھنے والا ہے لیکن کسی بینا کی طرح نہیں اور کسی سننے والے کی طرح نہیں جو اس عالم میں ہیں ، اور ہر سننے والا اور دیکھنے والا جو اس عالم میں ہے تو وہ سمع و بصر والا ہے- لیکن الله تعالی کے لئے اس کے خلاف قرآن میں نص ہے پس وہ سننے والا ہے جیسا اس نے کہا ، نہ کہ وہ سنتا ہے ایسے جسے کوئی (انسان یا جانور) سنّتا ہے، اور دیکھتا ہے جیسا اس نے کہا، مگر ایسے نہیں جسے کوئی دیکھنے والا دیکھتا ہے – ہمارے رب تعالی نے کوئی نام نہ رکھا سوائے وہ جو اس نے خود رکھا اور کسی دوسرے نام کی خبر نہیں دی سوائے ان کے جن کی اس نے خبر دی- الله نے کہا کہ هُوَ السَّمِيع الْبَصِير پس ہم کہتے ہیں ہاں وہ السَّمِيع الْبَصِير ہے اور الله کے لئے (قوت) سمع اور بصر نہیں کہتے کیونکہ یہ حلال نہیں کسی کے لئے بھی کہ وہ الله کے لئے سمع و بصر کہے کیونکہ وہ الله پر وہ بات بولے گا جس کا علم نہیں اور یہ حلال نہیں ہے

صفحہ 377 jild ٢

ہم اپ کی رائے سے متفق ہیں کہ ہاں ان صفات کی کیفیت و ماہیت کے بارے میں گفتگو کرنا ہمارے لیے منع ہے یہی بات اوپر ابن حزم کہہ رہے ہیں الله کے نام کا مطلب ہے لیکن اس کی کیفیت کا پتا نہیں۔

ہم کو پورے قرآن پر ایمان لانا ہے مشابھات پر بھی لایا جاتا ہے لیکن ان کی تاویل منع ہے- ابن حزم کی رائے میں چونکہ اسماء کا مفھوم انسان کی عقل سے دور ہے لہذا ان کو صرف اسم ہی کہنا صحیح ہے ان کی تاویل منع ہے اور چونکہ الله نے کہا ہے مجھ کو میرے ناموں سے پکارو تو اس کو ان ہی ناموں سے پکارا جائے گا- ان کے نزدیک الله کے ناموں کا مفھوم بھی ہے لیکن ان کی صحیح کیفیت الله کو پتا ہے

البانی سے سوال ہوا کہ هل آيات الصفات والأحاديث من المتشابهات أو من المحكمات ؟ کیا آیات صفات متشابھات ہیں؟

تو انہوں نے کہا

أما باعتبار الكيفية فهي متشابهة


کیفیت کے اعتبار سے متشابھات میں سے ہیں


بحوالہ موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني

ابن حزم نے کہیں بھی نہیں کہا کہ الله کے ناموں کا مطلب نہیں، اس کو اپ اچھی طرح سمجھ لیں

الذھبی کتاب العَلو للعلي الغفار میں بتاتے ہیں کہ أبو معاذ خالد بن سلیمان کہتے ہیں

كَانَ جهم على معبر ترمذ وَكَانَ فصيح اللِّسَان لم يكن لَهُ علم وَلَا مجالسة لأهل الْعلم فَكلم السمنية فَقَالُوا لَهُ صف لنا رَبك عزوجل الَّذِي تعبده
فَدخل الْبَيْت لَا يخرج مِنْهُ ثمَّ خرج إِلَيْهِم بعد أَيَّام
فَقَالَ هُوَ هَذَا الهوا مَعَ كل شَيْء وَفِي كل شَيْء وَلَا يَخْلُو مِنْهُ شَيْء فَقَالَ أَبُو معَاذ كذب عَدو الله بل الله جلّ جَلَاله على الْعَرْش كَمَا وصف نَفسه


جھم (بن صفوان) ترمذ کی گزر گاہ پر تھا اور فصیح تھا لیکن صاحبِ عِلم نہ تھا اور نہ ہی عِلم والوں کے ساتھ اُسکا اُٹھنا بیٹھنا تھا ، لہذا وہ لوگوں کے ساتھ باتیں کیا کرتا ، لوگوں نے اُسے کہا جِس الله کی تم عِبادت کرتے ہو ہمیں اُسکی صفات بتاو تو وہ (جھم بن صفوان) اپنے گھر میں داخل ہوا اور کئی دِن کے بعد باہر نکلا اور لوگوں کو جواب دِیا کہ وہ جیسے کہ یہ ہوا ہر چیز کے ساتھ ہے ، اور ہر چیز میں ہے اور کوئی چیز اُس سے خالی نہیں تو أبو معاذ نے کہا اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے ، اللہ تو اپنے عرش پر ہے جیسا کہ خود اللہ نے اپنے بارے میں بتایا ہے

ابن حزم کے موقف کو جھمیت کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟ ہماری رائے میں نہیں، یہ ایک رائے ضرور ہے لیکن اس میں مطلق انکار نہیں جو جھمی کرتے تھے

اہل سنت کے باقی علماء الله کو شی کہتے ہیں پھر الله کے ناموں کو صفات کہتے ہیں- یہ طریقہ استدلال فلسفہ کی وجہ سے رائج ہوا کیونکہ معتزلہ اس طریقہ کار کو استعمال کرتے تھے – یہ طریقہ فلسفہ یونان کے امہات میں سے ہے کہ اشیاء اپنی صفت اور ضد سے پہچانی جاتی ہیں- ابن حزم کے نزدیک الله کے نام کو صفت کہنا بدعت اور اس کے ناموں میں الحاد ہے- الله کو ضد اور صفت کی بجائے اس طرح سمجھا جائے گا جیسا اس نے کتاب الله میں بیان کیا ہے بس نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم

ابن حزم کا طریقہ استدلال المعتزلة جیسا بھی نہیں المعتزلة کے نزدیک الله کی صرف چھ صفت بذات تھیں اور باقی صفات بالفعل تھیں مثلا الله کسی کو رزق دیتا ہے اور کسی کو نہیں دیتا لہذا ان کے نزدیک الله ہر وقت نعوذ باللہ الرزاق نہیں – ابن حزم نے ایسی کوئی تقسیم نہیں کی

ہمارے نزدیک ابن حزم اور باقی اہل سنت کے موقف میں طریقہ استدلال کے فرق کی وجہ سے کچھ اختلاف ضرور ہے لیکن وہ اتنا نہیں کہ اس پر ابن حزم کو اہل سنت سے ہی خارج کر دیا جائے واللہ اعلم
 
Top