• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابن صیاد کون تھا؟

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
شیخ @مقبول احمد سلفی بھائی! کیا ابن صیاد کے حوالہ سے وارد شدہ احادیث سے بھی یہ استدلال قائم کیا جاسکتا ہے، کہ ابن صیاد کا انسان ہونا ، اور پھر ان کے دجال ہونے کہ شبہ کے حوالہ سے احادیث و آثار اس بات کی دلیل ہے کہ دجال کو صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی انسان ہی سمجھا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی؟
اس کی وضاحت فرمادیں!
جزاک اللہ خیراً
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ابن صیاد انسان ہی ہے ، روایتوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے ۔ اسی طرح دجال کے متعلق صحابہ کرام کا موقف انسان ہونے کا ہی مجھے پتہ چلتا ہے جیساکہ مندرجہ ذیل روایت سے واضح ہوتا ہے۔

ابن صیاد کے بارے میں یہ معلومات ملی ہیں - اگر آپ کے پاس مزید معلومات ہوں تو یہاں شئر کریں -

ابن صیاد کون تھا
ابن صیاد ایک نو مسلم تھا جس کی ماں یہودی تھیں پھر ایمان لے آئیں لیکن ابن صیاد پر کہانت کا اثر تھا اس کے پاس شیاطین اتے تھے جو اس کو عالم بالا کی خبریں دیتے اس میں اس کو جنت کی خبر تھی کہ اس کی مٹی سفید ہے اور یہ شیطان جنت سے نکلنے سے پہلے دیکھ چکا ہے-

اس کی والدہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اپنے بیٹے کا حال بتایا اور اس کی اس کیفیت کا راز جاننے کے لئے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس سے ملنے گئے

ابن صیاد جب بچہ تھا تو اس میں بچپنا بھی تھا مثلا اس کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انصار کے قبیلہ بني مَغَالَة کے بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا تو اس سے کہا

حرملہ بن یحیی بن عبد اللہ بن حرملہ بن عمران تجیبی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم بن عبد اللہؓ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک جماعت میں ابن صیاد کی طرف نکلے یہاں تک کہ اسے بنی مغالہ کے مکانوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے پایا اور ابن صیاد ان دنوں قریب البلوغ تھا اور اسے کچھ معلوم نہ ہو سکا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی کمر پر ضرب ماری، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد سے فرمایا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ کر کہا کہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امیوں کے رسول ہیں! پھر ابن صیاد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا آپؐ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا


ظاہر ہے کہ ایک بچہ ایسی بات بول سکتا ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بھی اس کو اسی طرح لیا
اس نے لیکن کہا کہ اس پر القا ہوتا ہے جس میں اسکو خبر ملتی ہے

واضح رہے کہ کسی حدیث میں نہیں کہ ابن صیاد کو دجال سمجھتے ہوئے مدینہ کے مسلمان بچوں نے اس کے ساتھ کھیلنا ترک کر دیا یا مسلمانوں نے اپنے بچوں کو اس کے پاس جانے سے منع کیا

نووی کتاب تهذيب الأسماء واللغات میں اس پر لکھتے ہیں

وكان عنده كهانة. قال: ومات بالمدينة فى الأكثر، وقيل: فُقد يوم الحرة فلم يُوجد، وكانت الحرة فى زمن يزيد سنة ثلاث وستين


اور ان کے پاس کہانت تھی اور یہ مدینہ میں مرے اور کہا جاتا ہے حرہ کے دن یزید کے دور میں سن ٦٣ ھ میں کسی کو نہ ملے


لیکن یہ صیغہ تمریض ہے جس میں سند نہیں ہے لہٰذا مطلقا کسی نے نہیں کہا کہ یہی دجال تھے
کیونکہ دجال کا قتل عیسیٰ علیہ اسلام کے ہاتھوں ہے

سنن ابو داود کی حدیث ہے

حدَّثنا أحمدُ بنُ إبراهيم، حدَّثنا عُبيدُ الله -يعني ابن موسى- حدَّثنا شيبانُ، عن الأعمش، عن سالمٍ عن جابر، قال: فَقَدنا ابنَ صيَّاد يومَ الحرَّة


الأعمش نے سالم ابن أبي الجعد سے روایت کیا کہ ابن صیاد حرہ کے دن ہم سے کھو گیا


یہ روایت ضعیف ہے الأعمش مدلس عن سے روایت کرتا ہے
سالم بن أبي الجعد بھی مدلس ہے عن سے روایت کرتا ہے

كوثَر المَعَاني الدَّرَارِي في كَشْفِ خَبَايا صَحِيحْ البُخَاري از الشنقيطي

قَالَ الْخَطَّابِيِّ: اخْتَلَفَ السَّلَفُ فِي أَمْرِ ابْنِ صَيَّادٍ بَعْدَ كِبَرِهِ فَرُوِيَ أَنَّهُ تَابَ مِنْ ذَلِكَ الْقَوْلِ وَمَاتَ بِالْمَدِينَةِ، وَأَنَّهُمْ لَمَّا أَرَادُوا الصَّلَاةَ عَلَيْهِ كَشَفُوا وَجْهَهُ حَتَّى يَرَاهُ النَّاسُ وَقِيلَ لَهُمْ: اشْهَدُوا.


الْخَطَّابِيِّ کہتے ہیں سلف کا ابن صیاد کے امر پر اختلاف ہے پس روایت کیا جاتا ہے کہ اس نے اپنے اقوال سے توبہ لر لی تھی مدینہ میں مرے اور جب ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی تو چہرہ کھول کر لوگوں کو دکھایا گیا


یعنی لوگوں پر واضح کیا گیا کہ ان کا جنازہ ہوا

ابن صیاد کی شادی بھی ہوئی اور اولاد بھی کسی روایت میں نہیں کہ اس کو دجال سمجھتے ہوئے مسلمانوں نے اس کو بیٹی دینے سے انکار کیا

بلکہ اس کی اولاد موطا امام مالک میں راوی ہے

عمارة ابن عبد الله ابن صياد اس کے بیٹے ہیں اور مدینہ کے فقہا میں سے ہیں

الإصابة في تمييز الصحابة از ابن حجر کے مطابق

وكان من خيار المسلمين من أصحاب سعيد بن المسيّب


ابن صیاد کے بیٹے اچھے مسلمانوں میں سے تھے سعید بن المسیب کے ساتھیوں میں سے


تاریخ زبیر بن بکار کے مطابق عمارة ابن عبد الله ابن صياد خلیفہ الولید بن عبد الملک کے دور تک زندہ تھے
یعنی ابن صیاد پر جو بھی شک ہوا وہ صرف اس تک محدود تھا

ابن صیاد نے حج بھی کیا لیکن اس کی اس مخصوص کیفیت کی وجہ سے اصحاب رسول کو اس سے کراہت ہوتی تھی

ابن صیاد خود کہتا تھا يقولون إني الدجال. والدجال كافر

یہ مجھے دجال کہتے ہیں جبکہ وہ کافر ہے


ابن صیاد کے حوالے سے یہ سب مسائل اس وقت پیدا ہوئے جب مدینہ میں ایک عورت نے اس کو جنا اور یہ پیدائشی کانا تھا (مسند احمد) لہذا اس کا سنتے ہی اغلبا لوگوں کو دجال کا خیال آیا

اس کا امر مشتبہ ہوا جب اس نے اپنے اوپر القا ہونے کا دعوی بھی کر دیا اس طرح دجال کی جو نشانیاں تھیں وہ اس میں جمع ہونا شروع ہوئیں اور اسی وجہ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس سے سوال جواب کیا

طبقات ابن سعد کے مطابق وغزا مع المسلمين ابن صیاد نے مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں حصہ بھی لیا اگر تمام اصحاب رسول اس کو دجال ہی سمجھتے تو اس کو جہاد میں شامل ہی نہ کرتے

لیکن جیسا ہم نے لکھا ابن صیاد خود ایسی بآتیں کرتا جس سے لوگوں کو اس پر شک ہوتا اور ختم ہوتا مثلا ابو سعید الخدری رضی الله عنہ سے اس نے کہا

ألستم أعلم الناس بحديث رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ألم يقل رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إنه عقيم لا يولد له، وقد خلفت ولدي بالمدينة؟ ألم يقل رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إنه لا يدخل مكة ولا المدينة؟ ألست من أهل المدينة، وأنا هوذا أنطلق إِلَى مكة؟ قال: فوالله ما زال يجيء بهذا حتى قلت فلعله مكذوب عليه، ثم قال: يا أبا سَعِيد، والله لأخبرنك خبرًا حقًا، والله إني لأعرفه وأعرف والده، وأين هو الساعة من الأرض، فقلت: تبا لك سائر اليوم.


رسول الله نے فرمایا دجال بے اولاد ہو گا جبکہ میری اولاد ہے
انہوں نے بتایا وہ مدینہ میں داخل نہ ہو گا جبکہ میں مدینہ میں ہوں اور مکہ جا رہا ہوں
اے ابو سعید و الله میں تم کو ایک سچی خبر دوں میں اس دجال کو جانتا ہوں اور اسکی ماں کو بھی اور یہ بھی کہ وہ اس وقت زمین میں کہاں ہے
ابو سعید الخدری نے کھا بربادی ہو تیرے لئے سارا دن


صحیح مسلم

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ صَائِدٍ: وَأَخَذَتْنِي مِنْهُ ذَمَامَةٌ: هَذَا عَذَرْتُ النَّاسَ، مَا لِي وَلَكُمْ؟ يَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ أَلَمْ يَقُلْ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّهُ يَهُودِيٌّ» وَقَدْ أَسْلَمْتُ، قَالَ: «وَلَا يُولَدُ لَهُ» وَقَدْ وُلِدَ لِي، وَقَالَ: «إِنَّ اللهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَيْهِ مَكَّةَ» وَقَدْ حَجَجْتُ، قَالَ: فَمَا زَالَ حَتَّى كَادَ أَنْ يَأْخُذَ فِيَّ قَوْلُهُ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ: أَمَا، وَاللهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ الْآنَ حَيْثُ هُوَ، وَأَعْرِفُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ، قَالَ: وَقِيلَ لَهُ: أَيَسُرُّكَ أَنَّكَ ذَاكَ الرَّجُلُ؟ قَالَ فَقَالَ: لَوْ عُرِضَ عَلَيَّ مَا كَرِهْتُ


یحیی بن حبیب، محمد بن عبد الاعلی، معتمر، ابو نضرہ، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابن صائد نے مجھ سے ایسی بات کہی جس سے مجھے شرم آئی، کہنے لگا کہ لوگوں کو تو میں نے معذور جانا اور تمہیں میرے بارے میں اصحابِ محمدؐ کیا ہوگیا؟ کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ نہیں فرمایا کہ دجال یہودی ہوگا؛ حالانکہ میں اسلام لا چکا ہوں اور کہنے لگا کہ اور اس کی اولاد نہ ہوگی؛ حالانکہ میری تو اولاد بھی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے اس پر مکہ کو حرام کردیا ہے، میں تحقیق حج کر چکا ہوں اور وہ مسلسل ایسی باتیں کرتا رہا قریب تھا کہ میں اس کی باتوں میں آجاتا، اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ وہ اس وقت کہاں ہے اور میں اس کے باپ اور ماں کو بھی جانتا ہوں اور اس سے کہا گیا: کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تو ہی وہ آدمی ہو؟ اس نے کہا: اگر یہ بات مجھ پر پیش کی گئی تو میں اسے ناپسند نہیں کروں گا۔


دوسری سند امام مسلم نے دی ہے

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا دَاوُدُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: صَحِبْتُ ابْنَ صَائِدٍ إِلَى مَكَّةَ، فَقَالَ لِي: أَمَا قَدْ لَقِيتُ مِنَ النَّاسِ، يَزْعُمُونَ أَنِّي الدَّجَّالُ، أَلَسْتَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّهُ لَا يُولَدُ لَهُ» قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَقَدْ وُلِدَ لِي، أَوَلَيْسَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ وَلَا مَكَّةَ» قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَقَدْ وُلِدْتُ بِالْمَدِينَةِ، وَهَذَا أَنَا أُرِيدُ مَكَّةَ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ لِي فِي آخِرِ قَوْلِهِ: أَمَا، وَاللهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ مَوْلِدَهُ وَمَكَانَهُ وَأَيْنَ هُوَ، قَالَ: فَلَبَسَنِي


نوٹ

دجال یہودی ہو گا یہ الفاظ اس روایت میں صرف راوی سُلَيْمَانُ بنُ طَرْخَانَ أَبُو المُعْتَمِرِ التَّيْمِيُّ بصری کے ہیں دیگر راوی اس کو نہیں بولتے

امام بخاری نے جو احادیث روایت کی ہیں ان کے مطابق دجال مومن ہونے کا دعوی کرے گا نہ کہ یہودی ہونے کا
یعنی ابن صیاد خود مشکوک باتیں کرتا اس وجہ سے لوگ بھی اس پر مختلف رائے ہو گئے

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ امت میں ٣٠ دجال ہوں گے جن روایات میں ہے کہ ابن صیاد دجال ہے وہاں اس کا یہی مفھوم ہے کہ ممکن ہے یہ ٣٠ میں سے ایک ہے

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو جو الوحی آئی وہ اپ نے امت کو بتائی ابن صیاد کے معاملے میں جو بھی علم دیا گیا وہ اپ نے اصحاب کو بتایا

شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں

النَّوَوِيُّ: قَالَ الْعُلَمَاءُ: قِصَّةُ ابْنِ صَيَّادٍ مُشْكِلَةٌ وَأَمْرُهُ مُشْتَبِهٌ، وَلَكِنْ لَا شَكَّ أَنَّهُ دَجَّالٌ مِنْ الدَّجَاجِلَةِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لَمْ يُوحَ إلَيْهِ فِي أَمْرِهِ بِشَيْءٍ، وَإِنَّمَا أُوحِيَ إلَيْهِ بِصِفَاتِ الدَّجَّالِ، وَكَانَ فِي ابْنِ صَيَّادٍ قَرَائِنُ مُحْتَمِلَةٌ. فَلِذَلِكَ كَانَ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لَا يَقْطَعُ فِي أَمْرِهِ بِشَيْءٍ.


نووی کہتے ہیں علماء نے کہا ہے کہ ابن صیاد کا قصہ مشکل ہے اور اس کا امر مشتبہ ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ دجالوں میں سے دجال تھا اور جو ظاہر ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو اس سلسلے میں الوحی نہیں ہوئی بلکہ انکو دجال کی صفات پر الوحی ہوئی اور ابن صیاد کے قرائن ان صفات سے ملتے تھے جس پر احتمال ہوتا اس وجہ سے رسول الله نے اس کے امر پر کسی چیز کو ختم نہیں کیا


البیہقی کتاب الاسماء و الصفات میں کہتے ہیں

اختلف الناس في أمر ابن صياد اختلافاً كثيراً هل هو الدجال؟”


لوگوں کا اس امر میں اختلاف ہے کہ کیا ابن صیاد دجال تھا؟


أبو بكر ابن العربي في “عارضة الأحوذي” 9/ 106: میں کہتے ہیں

الصحيح أن الدَّجَّال ليس بابن صياد، فإن ابن صياد كان بالمدينة صبياً،


صحیح یہ ہے کہ ابن صیاد دجال (اکبر) نہیں ہے اور یہ مدینہ میں لڑکا تھا


فتح الباري لابن حجر (13 / 326 – 327) . کے مطابق

بیہقی اور ابن کثیر النهاية في الفتن والملاحم میں کہتے ہیں

الصحيح أن الدجال غير ابن صياد، وأن ابن صياد كان دجالًا من الدجاجلة


صحیح یہ ہے کہ دجال (اکبر) ابن صیاد نہیں ہے اور ابن صیاد دجالوں میں سے ایک دجال تھا


ابن تیمیہ الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان میں کہتے ہیں

وتوقف النبي صلى الله عليه وسلم في أمره حتى تبين له فيما بعد أنه ليس هو الدجال، لكنه من جنس الكهان


اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے اسکے امر پر توقف کیا یہاں تک کہ اس کا امر واضح ہوا کہ یہ الدجال (اکبر) نہیں ہے لیکن کاہنوں کی جنس میں سے ہے


صحیح بخاری میں جابر بن عبد الله کا قول ہے کہ ابن صیاد دجال ہے کیونکہ عمر رضی الله نے بھی ایسا نبی صلی الله علیہ وسلم کے سامنے کہا لیکن انہوں نے انکار نہیں کیا

جابر بن عبد الله رضی الله عنہ کے قول کی یہی تاویل ہے کہ ابن صیاد کو دجالوں میں سے ایک دجال سمجھا گیا نہ کہ مسیح الدجال

عبد بن حمید، روح بن عبادہ، ہشام، ایوب، حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی ابن صیاد سے مدینہ کے کسی راستہ میں ملاقات ہوگئی تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے ایسی بات کہی جو اسے غصہ دلانے والی تھی، پس وہ اتنا پھولا کہ راستہ بھر گیا، پھر ابن عمر رضی اللہ عنہ ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوئے اور انہیں یہ خبر مل چکی تھی تو انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اللہ آپ پر رحم فرمائے! آپ نے ابن صائد کے بارے میں کیا ارادہ کیا تھا؟ کیا آپ نہیں جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال کسی پر غصہ کرنے کی وجہ سے ہی نکلے گا۔


الفاظ فَانْتَفَخَ حَتَّى مَلَأَ السِّكَّةَ یعنی وہ پھولا کہ رستہ بند ہوا محاوراتی ہیں کوئی غصہ میں پھول جائے

یہ الفاظ عربی میں اب نہیں بولے جاتے لہذا اس کا ذکر غریب الحدیث میں ہے اور لغت میں السکہ کا مطلب کھجور کی بآڑھ ہے

یعنی یہ ایک تنگ جگہ ہو گی جہاں یہ کلام ہوا

ابو داود کی روایت

حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى الْمِنْبَرِ: «إِنَّهُ بَيْنَمَا أُنَاسٌ يَسِيرُونَ فِي الْبَحْرِ، فَنَفِدَ طَعَامُهُمْ، فَرُفِعَتْ لَهُمْ جَزِيرَةٌ، فَخَرَجُوا يُرِيدُونَ الْخُبْزَ، فَلَقِيَتْهُمُ [ص:120] الْجَسَّاسَةُ» قُلْتُ لِأَبِي سَلَمَةَ: وَمَا الْجَسَّاسَةُ؟ قَالَ: امْرَأَةٌ تَجُرُّ شَعْرَ جِلْدِهَا وَرَأْسِهَا، قَالَتْ: فِي هَذَا الْقَصْرِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَسَأَلَ عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ، وَعَنْ عَيْنِ زُغَرَ، قَالَ: هُوَ الْمَسِيحُ، فَقَالَ: لِي ابْنُ أَبِي سَلَمَةَ: إِنَّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ شَيْئًا مَا حَفِظْتُهُ، قَالَ: شَهِدَ جَابِرٌ أَنَّهُ هُوَ ابْنُ صَيَّادٍ، قُلْتُ: فَإِنَّهُ قَدْ مَاتَ، قَالَ: وَإِنْ مَاتَ، قُلْتُ: فَإِنَّهُ أَسْلَمَ، قَالَ: وَإِنْ أَسْلَمَ، قُلْتُ فَإِنَّهُ قَدْ دَخَلَ الْمَدِينَةَ، قَالَ: وَإِنْ دَخَلَ الْمَدِينَةَ


سنن ابو داؤد، کتاب الملاحم

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں : جابر نے پورے وثوق سے کہا : یہی ابن صیاد ہے ، تو میں نے کہا : وہ تو مر چکا ہے ، اس پر انہوں نے کہا : مر جانے دو ، میں نے کہا : وہ تو مسلمان ہو گیا تھا ، کہا : ہو جانے دو ، میں نے کہا : وہ مدینہ میں آیا تھا ، کہا : آنے دو ، اس سے کیا ہوتا ہے


البانی اسکو ضعيف الإسناد کہتے ہیں اس کی سند میں الوليد بن جميع ہے

قال ابن حبان: فحش تفرده فبطل الاحتجاج به.


ابن حبان کہتے ہیں اس کا تفرد فحش ہے جس سے دلیل باطل ہے
 
Top