مندرجہ ذیل عربی عبارت کی مکمل تحقیق و تخریج درکار ہے آیا کہ یہ بات با سند ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے یا نہیں؟
عن محمد بن سيرين قال ربما أفطر ابن عمر على الجماع
(المعجم الكبير 12/269، 13080)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ــــــــــــــــــــــــ
محترم بھائی
یہ روایت صرف امام طبرانیؒ ہی نے " المعجم الکبیر " میں روایت کی ہے ،
قال الطبراني في المعجم الكبير 12/269 :
حدثنا الهيثم بن خلف الدوري ثنا مؤمل بن هشام ثنا يحيى بن حماد عن السري بن يحيى عن محمد بن سيرين قال ربما أفطر ابن عمر على الجماع " (13080)
یعنی امام ابن سیرین فرماتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کبھی جماع پر روزہ افطار کرتے تھے ۔
قال الهيثمي في المجمع 3/156 : وإسناده حسن . علامہ نورالدین ھیثمیؒ (المتوفی 805ھ )مجمع الزوائد میں اس روایت کو نقل کرکے فرماتے ہیں کہ اس کی اسناد حسن ہے ،
لیکن اس کی اسناد اس شرط کے ساتھ حسن ہے کہ جناب ابن سیرینؒ کا سماع سیدنا ابن عمر سے اس روایت میں ثابت ہوجائے ،
کیونکہ علامہ آجریؒ سؤالات ابی داود میں فرماتے ہیں :
سَمِعْتُ أَبَا دَاوُد يَقُولُ: كَانَ ابن سِيْرِيْن يرسل وجلساؤه يعلمون أَنَّه لم يَسْمَع ،سَمِعَ من ابن عُمَر حَدِيْثَيْن، وأرسل عَنْه نحوًا من ثلاثين حَدِيْثًا."
یعنی معروف بات یہ ہے کہ جناب ابن سیرینؒ اکثر مرسل بیان کرتے تھے ،انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے صرف دو حدیثیں ہی سنی ہیں ، اور تیس30 کے قریب روایتیں ان سے مرسلاً نقل فرمائی ہیں "انتہیٰ
اور اندیشہ ہے کہ یہ روایت ان تیس مرسل میں سے بھی ہوسکتی ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور مشہور حنفی عالم جناب بدر الدین عینیؒ (المتوفی 855ھ) بھی شرح صحیح بخاری میں اس روایت کو حسن فرماتے ہیں ، لکھتے ہیں :
فائدة : قال العيني في عمدة القاري 11/66 :
واستحب القاضي حسين أن يكون فطره على ماء يتناوله بيده من النهر ونحوه حرصا على طلب الحلال للفطر لغلبة الشبهات في المآكل ، وروينا عن ابن عمر أنه كان ربما أفطر على الجماع رواه الطبراني من رواية محمد ابن سيرين عنه وإسناده حسن وذلك يحتمل أمرين :
أحدهما أن يكون ذلك لغلبة الشهوة وإن كان الصوم يكسر الشهوة
والثاني أن يكون لتحقق الحل من أهله وربما يتردد في بعض المأكولات