• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم ابو طالب کی خدمت میں قریش کا آخری وفد

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ابو طالب کی خدمت میں قریش کا آخری وفد

رسول اللہﷺ نے شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعدپھر حسبِ معمول دعوت وتبلیغ کا کام شروع کردیا اور اب مشرکین نے اگر چہ بائیکاٹ ختم کردیا تھا لیکن وہ بھی حسب معمول مسلمانوں پر دباؤ ڈالنے اور اللہ کی راہ سے روکنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے اور جہاں تک ابو طالب کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنی دیرینہ روایت کے مطابق پوری جاں سپاری کے ساتھ اپنے بھتیجے کی حمایت وحفاظت میں لگے ہوئے تھے لیکن اب عمر اَسّی سال سے متجاوز ہوچلی تھی۔ کئی سال سے پے در پے سنگین آلام وحوادث نے خصوصاً محصوری نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ ان کے قویٰ مضمحل ہوگئے تھے اور کمر ٹوٹ چکی تھی، چنانچہ گھاٹی سے نکلنے کے بعد چند ہی مہینے گزرے تھے کہ انہیں سخت بیماری نے آن پکڑا۔ اس موقع پر مشرکین نے سوچا کہ اگر ابوطالب کا انتقال ہوگیا اور اس کے بعد ہم نے اس کے بھتیجے پر کوئی زیادتی کی تو بڑی بدنامی ہوگی۔ اس لیے ابوطالب کے سامنے ہی نبیﷺ سے کوئی معاملہ طے کرلینا چاہیے۔ اس سلسلے میں وہ بعض ایسی رعائتیں بھی دینے کے لیے تیار ہوگئے جس پر اب تک راضی نہ تھے۔ چنانچہ ان کا ایک وفد ابوطالب کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ ان کاآخری وفد تھا۔
ابن اسحاق وغیرہ کا بیان ہے کہ جب ابوطالب بیمار پڑ گئے اور قریش کو معلوم ہوا کہ ان کی حالت غیر ہوتی جارہی ہے تو انہوں نے آپس میں کہا : دیکھو ! حمزہ اور عمر مسلمان ہوچکے ہیں اور محمدﷺ کا دین قریش کے ہر قبیلے میں پھیل چکا ہے۔ اس لیے چلو ابو طالب کے پاس چلیں کہ وہ اپنے بھتیجے کو کسی بات کا پابند کر یں اور ہم سے بھی ان کے متعلق عہد لے لیں۔ کیونکہ واللہ! ہمیں اندیشہ ہے لوگ ہمارے قابو میں نہ رہیں گے۔ ایک روایت یہ ہے کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ بڈھا مر گیا اور محمد (ﷺ ) کے ساتھ کوئی گڑ بڑ ہوگئی تو عرب ہمیں طعنہ دیں گے۔ کہیں گے کہ انہوں نے محمد (ﷺ ) کو چھوڑے رکھا۔(اور اس کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت نہ کی) لیکن جب اس کا چچا مر گیا تو اس پر چڑھ دوڑے۔
بہرحال قریش کا یہ وفد ابوطالب کے پاس پہنچا اور ان سے گفت وشنید کی۔ وفد کے ارکان قریش کے معزز ترین افراد تھے، یعنی عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو جہل بن ہشام ، امیہ بن خلف ،ابو سفیان بن حرب اور دیگر اشرافِ قریش جن کی کل تعداد تقریبا ً پچیس تھی۔
انہوں نے کہا:
اے ابو طالب ! ہمارے درمیان آپ کا جو مرتبہ ومقام ہے اسے آپ بخوبی جانتے ہیں۔ اور اب آپ جس حالت سے گزر رہے ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ آپ کے آخری ایام ہیں، ادھر ہمارے اور آپ کے بھتیجے کے درمیان جو معاملہ چل رہا ہے اس سے بھی آپ واقف ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ انہیں بلائیں اور ان کے بارے میں ہم سے کچھ عہد وپیمان لیں اور ہمارے بارے میں ان سے عہد وپیمان لیں، یعنی وہ ہم سے دستکش رہیں اور ہم ان سے دستکش رہیں۔ وہ ہم کو ہمارے دین پر چھوڑ دیں اور ہم ان کو ان کے دین پر چھوڑ دیں۔
اس پر ابو طالب نے آپﷺ کو بلوایا اور آپﷺ تشریف لائے تو کہا: بھتیجے ! یہ تمہاری قوم کے معزز لوگ ہیں، تمہارے ہی لیے جمع ہوئے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں کچھ عہد وپیمان دے دیں اور تم بھی انہیں کچھ عہد وپیمان دے دو۔ اس کے بعد ابوطالب نے ان کی یہ پیشکش ذکر کی کہ کوئی بھی فریق دوسرے سے تعرض نہ کر ے۔
جواب میں رسول اللہﷺ نے وفد کو مخاطب کر کے فرمایا : آپ لوگ یہ بتائیں کہ اگر میں ایک ایسی بات پیش کروں جس کے اگر آپ قائل ہوجائیں تو عرب کے بادشاہ بن جائیں اور عجم آپ کے زیرِ نگیں آجائے توآپ کی رائے کیاہوگی ؟ بعض روایتوں میں یہ کہا گیا ہے کہ آپﷺ نے ابو طالب کو مخاطب کرکے فرمایا: میں ان سے ایک ایسی بات چاہتا ہوں جس کے یہ قائل ہوجائیں تو عرب ان کے تابع فرمان بن جائیں اور عجم انہیں جزیہ ادا کریں۔ ایک روایت میں یہ مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا : چچا جان ! آپ کیوں نہ انہیں ایک ایسی بات کی طرف بلائیں جو ان کے حق میں بہتر ہے۔ انہوں نے کہا: تم انہیں کس بات کی طرف بلانا چاہتے ہو ؟۔ آپ نے فرمایا: میں ایک ایسی بات کی طرف بلانا چاہتا ہوں جس کے یہ قائل ہوجائیں تو عرب ان کا تابع فرمان بن جائے اور عجم پر ان کی بادشاہت ہوجائے...ابن اسحاق کی ایک روایت یہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا : آپ لوگ صرف ایک بات مان لیں جس کی بدولت آپ عرب کے بادشاہ بن جائیں گے اور عجم آپ کے زیر ِ نگیں آجائے گا۔
بہر حال جب یہ بات آپﷺ نے کہی تو وہ لوگ کسی قدر توقف میں پڑ گئے اور سٹپٹا سے گئے۔ وہ حیران تھے کہ صرف ایک بات جو اس قدر مفید ہے اسے مسترد کیسے کر دیں ؟ آخر کار ابو جہل نے کہا : اچھا بتاؤ تو وہ بات کیا ہے ؟ تمہارے باپ کی قسم ! ایسی ایک بات کیا دس باتیں بھی پیش کرو تو ہم ماننے کو تیار ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : آپ لوگ لا الٰہ الا اللّٰہ کہیں اور اللہ کے سوا جو کچھ پوجتے ہیں اسے چھوڑ دیں۔ اس پر انہوں نے ہاتھ پیٹ پیٹ کر اور تالیاں بجا بجا کر کہا : محمد! (ﷺ ) تم یہ چاہتے ہو کہ سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالو ؟ واقعی تمہارا معاملہ بڑا عجیب ہے۔
پھر آپس میں ایک دوسر ے سے بولے : اللہ کی قسم! یہ شخص تمہاری کوئی بات ماننے کو تیار نہیں۔ لہٰذا چلو اور اپنے آباء واجداد کے دین پر ڈٹ جاؤ، یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور اس شخص کے درمیان فیصلہ فرمادے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی اپنی راہ لی۔ اس واقعے کے بعد انہی لوگوں کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیات نازل ہوئیں :
ص ۚ وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ ﴿١﴾ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ ﴿٢﴾ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ فَنَادَوا وَّلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ ﴿٣﴾ وَعَجِبُوا أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ ۖ وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَـٰذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ ﴿٤﴾ أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ ﴿٥﴾ وَانطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَىٰ آلِهَتِكُمْ ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ ﴿٦﴾ مَا سَمِعْنَا بِهَـٰذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ ﴿٧﴾ (۳۸: ۱تا۷)
''ص ، قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی۔ بلکہ جنہوں نے کفر کیا ہی کڑ ی اور ضد میں ہیں۔ ہم نے کتنی ہی قومیں ان سے پہلے ہلاک کر دیں اور وہ چیخے چلائے۔ (لیکن اس وقت ) جبکہ بچنے کا وقت نہ تھا۔ انہیں تعجب ہے کہ ان کے پاس خود انہی میں سے ایک ڈرانے والا آگیا۔ کافر کہتے ہیں کہ یہ جادوگر ہے، بڑا جھوٹا ہے۔ کیا اس نے سارے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا ڈالا۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے اور ان کے بڑے یہ کہتے ہوئے نکلے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر ڈٹے رہو۔ یہ ایک سوچی سمجھی اسکیم ہے۔ ہم نے کسی اور ملت میں یہ بات نہیں سنی ، یہ محض گھڑنت ہے۔'' 1
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۱۷ تا ۴۱۹ ، ترمذی حدیث نمبر ۳۲۳۲ (۵/۳۴۱) مسند ابی یعلیٰ حدیث نمبر ۲۵۸۳ (۴/۴۵۶ ) تفسیر ابن جریر
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غم کا سال

ابو طالب کی وفات:
ابو طالب کا مرض بڑھتا گیا اور بالآخر وہ انتقال کر گئے۔ ان کی وفات شعب ابی طالب کی محصوری کے خاتمے کے چھ ماہ بعد رجب ۱۰ نبوی میں ہوئی۔ 1ایک قول یہ بھی ہے کہ انہوں نے حضرت خدیجہ ؓکی وفات سے صرف تین دن پہلے ماہ رمضان میں وفات پائی۔
صحیح بخاری میں حضرت مسیبؒ سے مروی ہے کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو نبیﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے، وہاں ابو جہل بھی موجود تھا۔ آپ نے فرمایا: چچا جان ! آپ لا الٰہ الا اللہ کہہ دیجیے۔ بس ایک کلمہ جس کے ذریعے میں اللہ کے پاس آپ کے لیے حجت پیش کرسکوں گا۔ ابو جہل اور عبد اللہ بن امیہ نے کہا : ابوطالب ! کیا عبدالمطلب کی ملت سے رخ پھیر لو گے؟ پھر یہ دونوں برابر ان سے بات کرتے رہے یہاں تک کہ آخری بات جو ابو طالب نے لوگوں سے کہی یہ تھی کہ ''عبد المطلب کی ملت پر۔'' نبیﷺ نے فرمایا: میں جب تک آپ سے روک نہ دیا جاؤں آپ کے لیے دعائے مغفر ت کرتا رہوں گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی :
وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّـهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ ﴿١١٤﴾ (۹: ۱۱۳)
''نبی (ﷺ ) اور اہل ایمان کے لیے درست نہیں کہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ اگرچہ وہ قربت دار ہی کیوں نہ ہوں ، جبکہ ان پر واضح ہوچکا ہے کہ وہ لوگ جہنمی ہیں۔''
اور یہ آیت بھی نازل ہوئی :
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ (۲۸: ۵۶)
''آپ جسے پسند کریں ہدایت نہیں دے سکتے۔''2
یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ابو طالب نے نبیﷺ کی کس قدر حمایت وحفاظت کی تھی۔ وہ درحقیقت مکے کے بڑوں اور احمقوں کے حملوں سے اسلامی دعوت کے بچاؤ کے لیے ایک قلعہ تھے لیکن وہ بذاتِ خود اپنے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 سیرت کے مآخذ میں بڑا اختلاف ہے کہ ابو طالب کی وفات کس مہینے میں ہوئی؟ ہم نے رجب کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ بیشتر مآخذ کا اتفاق ہے کہ ان کی وفات شعب ابی طالب سے نکلنے کے چھ ماہ بعد ہوئی اور محصوری کا آغاز محرم ۷ نبوی کی چاند رات سے ہوا تھا۔ اس حساب سے ان کی موت کا زمانہ رجب ۱۰ نبوی ہی ہوتا ہے۔
2 صحیح بخاری باب قصۃ ابی طالب ۱/۵۴۸
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بزرگ آباء و اجداد کی ملت پر قائم رہے۔ اس لیے مکمل کامیابی نہ پاسکے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبیﷺ سے دریافت کیا کہ آپ اپنے چچا کے کیا کام آسکے ؟ کیونکہ وہ آپ کی حفاظت کرتے تھے اور آپ کے لیے (دوسروں پر ) بگڑتے (اور ان سے لڑائی مول لیتے ) تھے۔ آپ نے فرمایا : وہ جہنم کی ایک چھچھلی جگہ میں ہیں اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے گہرے کھڈ میں ہوتے۔ 1
ابوسعید خدریؓ کا بیان ہے کہ ایک بار نبیﷺ کے پاس آپ کے چچا کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا : ممکن ہے قیامت کے دن انہیں میری شفاعت فائدہ پہنچا دے اور انہیں جہنم کی ایک اوتھلی جگہ میں رکھ دیا جائے ، جو صرف ان کے دونوں ٹخنوں تک پہنچ سکے۔ 2
حضرت خدیجہ ؓ جوارِ رحمت میں:
جناب ابوطالب کی وفات کے دوماہ بعد یا صرف تین دن بعد ...علی اختلاف الاقوال... حضرت ام المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ ؓ بھی رحلت فرماگئیں۔ ان کی وفات نبوت کے دسویں سال ماہِ رمضان میں ہوئی۔ اس وقت وہ ۶۵ برس کی تھیں اور رسول اللہﷺ اپنی عمر کی پچاسویں منزل میں تھے۔3
حضرت خدیجہؓ رسول اللہﷺ کے لیے اللہ تعالیٰ کی بڑی گرانقدر نعمت تھیں۔ وہ ایک چوتھائی صدی آپﷺ کی رفاقت میں رہیں اور اس دوران رنج وقلق کا وقت آتا تو آپ کے لیے تڑپ اٹھتیں۔ سنگین اور مشکل ترین حالات میں آپﷺ کو قوت پہنچاتیں۔ تبلیغ ِ رسالت میں آپﷺ کی مدد کرتیں اور اس تلخ ترین جہاد کی سختیوں میں آپ کی شریک کار رہتیں اور اپنی جان ومال سے آپﷺ کی خیر خواہی وغمگساری کرتیں۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ جس وقت لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا وہ مجھ پر ایمان لائیں۔ جس وقت لوگوں نے مجھے جھٹلایا انہوں نے میری تصدیق کی۔ جس وقت لوگوں نے مجھے محروم کیا انہوں نے مجھے اپنے مال میں شریک کیا اور اللہ نے مجھے ان سے اولاددی اور دوسری بیویوں سے کوئی اولاد نہ دی۔ 4
صحیح بخاری میں سیّدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبیﷺ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اے اللہ کے رسول ! یہ خدیجہ ؓ تشریف لا رہی ہیں، ان کے پاس ایک برتن ہے جس میں سالن یا کھانا یا کوئی مشروب ہے۔ جب وہ آپ کے پاس آپہنچیں تو آپ انہیں ان کے رب کی طرف سے سلام کہیں اور جنت میں موتی کے ایک محل کی بشارت دیں جس میں نہ شور وشغب ہوگا نہ درماندگی وتکان۔ 5
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1، 2 صحیح بخاری باب قصۃ ابی طالب ۱/۵۴۸
3 رمضان میں وفات کی صراحت ابن جوزی نے تلقیح الفہوم ص ۷ میں اور علامہ منصور پوری نے رحمۃ للعالمین ۲/۱۶۴ میں کی ہے۔
4 مسند احمد ۶/۱۱۸
5 صحیح بخاری باب تزویج النبی ﷺ خدیجہ وفضلہا ۱/۵۳۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غم ہی غم:
یہ دونوں الم انگیز حادثے صرف چند دنوں کے دوران پیش آئے۔ جس سے نبیﷺ کے دل میں غم والم کے احساسات موجزن ہوگئے اور اس کے بعد قوم کی طرف سے بھی مصائب کا طومار بندھ گیا کیونکہ ابوطالب کی وفات کے بعد ان کی جسارت بڑھ گئی اور وہ کھل کر آپﷺ کو اذیت اور تکلیف پہنچانے لگے۔ اس کیفیت نے آپﷺ کے غم والم میں اور اضافہ کر دیا۔ آپﷺ نے ان سے مایوس ہوکر طائف کی راہ لی کہ ممکن ہے وہاں لوگ آپﷺ کی دعوت قبول کرلیں۔ آپﷺ کو پناہ دے دیں۔ اور آپﷺ کی قوم کے خلاف آپﷺ کی مدد کریں لیکن وہاں نہ کوئی پناہ دہندہ ملا نہ مدد گار بلکہ الٹے انہوں نے سخت اذیت پہنچائی اور ایسی بدسلوکی کہ خود آپﷺ کی قوم نے ویسی بد سلوکی نہ کی تھی۔(تفصیل آگے آرہی ہے)
یہاں اس بات کا اعادہ بے محل نہ ہوگا کہ اہل مکہ نے جس طرح نبیﷺ کے خلاف ظلم وجورکا بازار گرم کر رکھا تھا۔ اسی طرح وہ آپﷺ کے رفقاء کے خلاف بھی ستم رانی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ چنانچہ آپﷺ کے ہمدم وہمراز سیّدنا ابوبکر صدیقؓ مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور حبشہ کے ارادے سے تن بہ تقدیر نکل پڑے ، لیکن برکِ غَماَد پہنچے تو ابن دغنہ سے ملاقات ہوگئی اور وہ اپنی پناہ میں آپ کو مکہ واپس لے آیا۔ 1
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جب ابوطالب انتقال کر گئے تو قریش نے رسول اللہﷺ کو ایسی اذیت پہنچائی کہ ابوطالب کی زندگی میں کبھی اس کی آرزوبھی نہ کر سکے تھے حتیٰ کہ قریش کے ایک احمق نے سامنے آکر آپﷺ کے سر پر مٹی ڈال دی۔ آپﷺ اسی حالت میں گھر تشریف لائے۔ مٹی آپﷺ کے سر پر پڑی ہوئی تھی آپﷺ کی ایک صاحبزادی نے اٹھ کر مٹی دھلی، وہ دھلتے ہوئے روتی جارہی تھیں اور رسول اللہﷺ انہیں تسلی دیتے ہوئے فرماتے جارہے تھے۔ بیٹی ! روؤ مت، اللہ تمہارے ابا کی حفاظت کرے گا۔ اس دوران آپ یہ بھی فرماتے جارہے تھے کہ قریش نے میرے ساتھ کوئی ایسی بد سلوکی نہ کی جو مجھے ناگوار گزری ہو یہاں تک کہ ابوطالب کا انتقال ہوگیا۔ 2
اسی طرح کے پے در پے آلام ومصائب کی بنا پر اس سال کا نام ''عام الحزن'' یعنی غم کا سال پڑگیا اور یہ سال اسی نام سے تاریخ میں مشہور ہوگیا۔
حضرت سَودَہ ؓسے شادی:
اسی سال - شوال ۱۰ نبوت - میں رسول اللہﷺ نے حضرت سودہ بنت زمعہ ؓ سے شادی کی۔ یہ ابتدائی دور
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1اکبر شاہ نجیب آباد ی نے صراحت کی ہے کہ یہ واقعہ اسی سال پیش آیا تھا۔ دیکھئے: تاریخ اسلام ۱/۱۲۰ ، اصل واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ ابن ِ ہشام ۱/۳۷۲ تا ۳۷۴ اور صحیح بخاری ۱/۵۵۲ ، ۵۵۳ میں مذکور ہے ۔
2 ابن ہشام ۱/۴۱۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
میں مسلمان ہوگئی تھیں اور دوسری ہجرت حبشہ کے موقع پر ہجرت بھی کی تھی۔ ان کے شوہر کا نام سکران بن عمرو تھا۔ وہ بھی قدیم الاسلام تھے اور حضرت سودہ نے انہیں کی رفاقت میں حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی لیکن وہ حبشہ ہی میں ... اور کہا جاتا ہے کہ مکہ واپس آکر... انتقال کر گئے ، اس کے بعد جب حضرت سودہؓ کی عدت ختم ہوگئی تو نبیﷺ نے ان کو شادی کا پیغام دیا اور پھر شادی ہوگئی۔یہ حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد پہلی بیوی ہیں جن سے رسول اللہﷺ نے شادی کی۔ چند برس بعد انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو ہبہ کردی تھی۔ 1
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1رحمۃ للعالمین ۲/۱۶۵،تلقیح الفہوم ص ۶

الرحیق المختوم
 
Top