- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
ابو طالب کی خدمت میں قریش کا آخری وفد
رسول اللہﷺ نے شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعدپھر حسبِ معمول دعوت وتبلیغ کا کام شروع کردیا اور اب مشرکین نے اگر چہ بائیکاٹ ختم کردیا تھا لیکن وہ بھی حسب معمول مسلمانوں پر دباؤ ڈالنے اور اللہ کی راہ سے روکنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے اور جہاں تک ابو طالب کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنی دیرینہ روایت کے مطابق پوری جاں سپاری کے ساتھ اپنے بھتیجے کی حمایت وحفاظت میں لگے ہوئے تھے لیکن اب عمر اَسّی سال سے متجاوز ہوچلی تھی۔ کئی سال سے پے در پے سنگین آلام وحوادث نے خصوصاً محصوری نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ ان کے قویٰ مضمحل ہوگئے تھے اور کمر ٹوٹ چکی تھی، چنانچہ گھاٹی سے نکلنے کے بعد چند ہی مہینے گزرے تھے کہ انہیں سخت بیماری نے آن پکڑا۔ اس موقع پر مشرکین نے سوچا کہ اگر ابوطالب کا انتقال ہوگیا اور اس کے بعد ہم نے اس کے بھتیجے پر کوئی زیادتی کی تو بڑی بدنامی ہوگی۔ اس لیے ابوطالب کے سامنے ہی نبیﷺ سے کوئی معاملہ طے کرلینا چاہیے۔ اس سلسلے میں وہ بعض ایسی رعائتیں بھی دینے کے لیے تیار ہوگئے جس پر اب تک راضی نہ تھے۔ چنانچہ ان کا ایک وفد ابوطالب کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ ان کاآخری وفد تھا۔
ابن اسحاق وغیرہ کا بیان ہے کہ جب ابوطالب بیمار پڑ گئے اور قریش کو معلوم ہوا کہ ان کی حالت غیر ہوتی جارہی ہے تو انہوں نے آپس میں کہا : دیکھو ! حمزہ اور عمر مسلمان ہوچکے ہیں اور محمدﷺ کا دین قریش کے ہر قبیلے میں پھیل چکا ہے۔ اس لیے چلو ابو طالب کے پاس چلیں کہ وہ اپنے بھتیجے کو کسی بات کا پابند کر یں اور ہم سے بھی ان کے متعلق عہد لے لیں۔ کیونکہ واللہ! ہمیں اندیشہ ہے لوگ ہمارے قابو میں نہ رہیں گے۔ ایک روایت یہ ہے کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ بڈھا مر گیا اور محمد (ﷺ ) کے ساتھ کوئی گڑ بڑ ہوگئی تو عرب ہمیں طعنہ دیں گے۔ کہیں گے کہ انہوں نے محمد (ﷺ ) کو چھوڑے رکھا۔(اور اس کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت نہ کی) لیکن جب اس کا چچا مر گیا تو اس پر چڑھ دوڑے۔
بہرحال قریش کا یہ وفد ابوطالب کے پاس پہنچا اور ان سے گفت وشنید کی۔ وفد کے ارکان قریش کے معزز ترین افراد تھے، یعنی عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو جہل بن ہشام ، امیہ بن خلف ،ابو سفیان بن حرب اور دیگر اشرافِ قریش جن کی کل تعداد تقریبا ً پچیس تھی۔
انہوں نے کہا:
اے ابو طالب ! ہمارے درمیان آپ کا جو مرتبہ ومقام ہے اسے آپ بخوبی جانتے ہیں۔ اور اب آپ جس حالت سے گزر رہے ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ آپ کے آخری ایام ہیں، ادھر ہمارے اور آپ کے بھتیجے کے درمیان جو معاملہ چل رہا ہے اس سے بھی آپ واقف ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ انہیں بلائیں اور ان کے بارے میں ہم سے کچھ عہد وپیمان لیں اور ہمارے بارے میں ان سے عہد وپیمان لیں، یعنی وہ ہم سے دستکش رہیں اور ہم ان سے دستکش رہیں۔ وہ ہم کو ہمارے دین پر چھوڑ دیں اور ہم ان کو ان کے دین پر چھوڑ دیں۔
اس پر ابو طالب نے آپﷺ کو بلوایا اور آپﷺ تشریف لائے تو کہا: بھتیجے ! یہ تمہاری قوم کے معزز لوگ ہیں، تمہارے ہی لیے جمع ہوئے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں کچھ عہد وپیمان دے دیں اور تم بھی انہیں کچھ عہد وپیمان دے دو۔ اس کے بعد ابوطالب نے ان کی یہ پیشکش ذکر کی کہ کوئی بھی فریق دوسرے سے تعرض نہ کر ے۔
جواب میں رسول اللہﷺ نے وفد کو مخاطب کر کے فرمایا : آپ لوگ یہ بتائیں کہ اگر میں ایک ایسی بات پیش کروں جس کے اگر آپ قائل ہوجائیں تو عرب کے بادشاہ بن جائیں اور عجم آپ کے زیرِ نگیں آجائے توآپ کی رائے کیاہوگی ؟ بعض روایتوں میں یہ کہا گیا ہے کہ آپﷺ نے ابو طالب کو مخاطب کرکے فرمایا: میں ان سے ایک ایسی بات چاہتا ہوں جس کے یہ قائل ہوجائیں تو عرب ان کے تابع فرمان بن جائیں اور عجم انہیں جزیہ ادا کریں۔ ایک روایت میں یہ مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا : چچا جان ! آپ کیوں نہ انہیں ایک ایسی بات کی طرف بلائیں جو ان کے حق میں بہتر ہے۔ انہوں نے کہا: تم انہیں کس بات کی طرف بلانا چاہتے ہو ؟۔ آپ نے فرمایا: میں ایک ایسی بات کی طرف بلانا چاہتا ہوں جس کے یہ قائل ہوجائیں تو عرب ان کا تابع فرمان بن جائے اور عجم پر ان کی بادشاہت ہوجائے...ابن اسحاق کی ایک روایت یہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا : آپ لوگ صرف ایک بات مان لیں جس کی بدولت آپ عرب کے بادشاہ بن جائیں گے اور عجم آپ کے زیر ِ نگیں آجائے گا۔
بہر حال جب یہ بات آپﷺ نے کہی تو وہ لوگ کسی قدر توقف میں پڑ گئے اور سٹپٹا سے گئے۔ وہ حیران تھے کہ صرف ایک بات جو اس قدر مفید ہے اسے مسترد کیسے کر دیں ؟ آخر کار ابو جہل نے کہا : اچھا بتاؤ تو وہ بات کیا ہے ؟ تمہارے باپ کی قسم ! ایسی ایک بات کیا دس باتیں بھی پیش کرو تو ہم ماننے کو تیار ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : آپ لوگ لا الٰہ الا اللّٰہ کہیں اور اللہ کے سوا جو کچھ پوجتے ہیں اسے چھوڑ دیں۔ اس پر انہوں نے ہاتھ پیٹ پیٹ کر اور تالیاں بجا بجا کر کہا : محمد! (ﷺ ) تم یہ چاہتے ہو کہ سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالو ؟ واقعی تمہارا معاملہ بڑا عجیب ہے۔
پھر آپس میں ایک دوسر ے سے بولے : اللہ کی قسم! یہ شخص تمہاری کوئی بات ماننے کو تیار نہیں۔ لہٰذا چلو اور اپنے آباء واجداد کے دین پر ڈٹ جاؤ، یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور اس شخص کے درمیان فیصلہ فرمادے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی اپنی راہ لی۔ اس واقعے کے بعد انہی لوگوں کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیات نازل ہوئیں :
ص ۚ وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ ﴿١﴾ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ ﴿٢﴾ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ فَنَادَوا وَّلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ ﴿٣﴾ وَعَجِبُوا أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ ۖ وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَـٰذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ ﴿٤﴾ أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ ﴿٥﴾ وَانطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَىٰ آلِهَتِكُمْ ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ ﴿٦﴾ مَا سَمِعْنَا بِهَـٰذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ ﴿٧﴾ (۳۸: ۱تا۷)
''ص ، قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی۔ بلکہ جنہوں نے کفر کیا ہی کڑ ی اور ضد میں ہیں۔ ہم نے کتنی ہی قومیں ان سے پہلے ہلاک کر دیں اور وہ چیخے چلائے۔ (لیکن اس وقت ) جبکہ بچنے کا وقت نہ تھا۔ انہیں تعجب ہے کہ ان کے پاس خود انہی میں سے ایک ڈرانے والا آگیا۔ کافر کہتے ہیں کہ یہ جادوگر ہے، بڑا جھوٹا ہے۔ کیا اس نے سارے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا ڈالا۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے اور ان کے بڑے یہ کہتے ہوئے نکلے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر ڈٹے رہو۔ یہ ایک سوچی سمجھی اسکیم ہے۔ ہم نے کسی اور ملت میں یہ بات نہیں سنی ، یہ محض گھڑنت ہے۔'' 1
****
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ1 ابن ہشام ۱/۴۱۷ تا ۴۱۹ ، ترمذی حدیث نمبر ۳۲۳۲ (۵/۳۴۱) مسند ابی یعلیٰ حدیث نمبر ۲۵۸۳ (۴/۴۵۶ ) تفسیر ابن جریر