• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابو مطیع البلخی شاگرد ابوحنیفہ

شمولیت
اگست 28، 2013
پیغامات
162
ری ایکشن اسکور
119
پوائنٹ
75
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته کیا ابو مطیع البلخی شاگرد ابوحنیفہ کذاب تهے ۔احناف کو جب استواء کے معاملے میں شرح عقيدة الطحاوية کا حوالہ دیا جاتا تو وہ اس پر کذاب کی جرح کرکے رد کردیتے ہیں۔۔اس راوی کا احناف میں کیا مقام و مرتبہ ہے۔۔اہل علم روشنی ڈالے
 
شمولیت
مارچ 04، 2015
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
42
پوائنٹ
56
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
@اسحاق سلفی بھائی اس مسئلہ کی وضاحت کردیں، کہ ابومطیع البلخی کی حیثیت کیا ہے احناف کی نظر میں!
جزاک اللہ خیر!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
@اسحاق سلفی بھائی اس مسئلہ کی وضاحت کردیں، کہ ابومطیع البلخی کی حیثیت کیا ہے احناف کی نظر میں!
جزاک اللہ خیر!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ؛
ابو مطیع بلخی امام ابو حنیفہ کے شاگرد ،اور احناف کے ہاں درجہ امامت رکھنے والے فقیہ ہیں ؛
حنفی فقہاء اور علماء کے حالات و تعارف پر لکھی گئی کتابوں میں ان کو بڑے مقام کا عالم بیان کیا گیا ہے
مثلاً ۔۔’’ الطبقات السنية في تراجم الحنفية ‘‘ میں لکھا ہے کہ:


الحكم بن عبد الله بن مسلمة بن عبد الرحمن
أبو مطيع البلخي
الإمام العالم العامل، أحد أعلام هذه الأمة، ومن أقر له بالفضائل جهابذة الأئمة.
حدث عن هشام بن حسان، ومالك بن أنس، وسفيان الثوري، وأبي حنيفة، وكان من كبار أصحابه، وهو راوي " الفقه الأكبر ".
وروى عنه أحمد بن منيع، وجماعة من أهل خراسان.
وولي قضاء بلخ، وقدم بغداد غير مرة، وحدث بها، وتلقاه أبو يوسف، وتناظر معه، وكانت مدة ولايته على قضاء بلخ ستة عشر سنة، يقول بالحق ويعمل به.

یعنی ابو مطیع امام تھے ، اوراس امت کے ان نمایاں بڑے حضرات میں سے ایک تھے جن کے فضائل کا ائمہ کو بھی اقرار تھا ،
ابو مطیع نے امام مالکؒ ،ابو حنیفہ ،سفیان ثوریؒ ودیگر مشاہیر سے علم حاصل کیا ۔اور امام ابوحنیفہ کے بڑے شاگردوں ،ساتھیوں میں تھے ،اور انہوں ابو حنیفہ سے ۔۔الفقہ الاکبر ۔۔روایت کی ؛
’’ بلخ ‘‘ کے قاضی بھی رہے، کئی دفعہ بغداد آئے ،اور وہاں درس دیئے ۔اور ابو یوسف سے ملاقات ہوئی اور ان سے بحث و مناظرہ بھی ہوا ۔
بلخ کی قضاء یعنی عدالت میں سولہ سال قاضی رہے ۔حق کہتے بھی تھے اور حق پر عمل بھی کرتے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح ( تاج التراجم في طبقات الحنفية ) میں انکے بارے فضائل لکھے ہیں ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لیکن یاد رہے محدثین کے ہاں ان کا درجہ اور ہے ،
یعنی علم حدیث میں انکی حیثیت مستند و معتبر راوی یا محدث کی نہیں ؛
 
شمولیت
مئی 30، 2017
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
52
السلام علیکم

اسما رجال انکے بارے میں کیا کہتا ہے آیا عدالت کے او پر اتر ہیں یا ٹو نہیں ملتی انکی

شیخ اسحاق رہنمائی جناب

جزک اللہ خیرا
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

اس کے بارے میں امام اہل سنت امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا: “لا ینبغي أن یروی عنہ…. ‎شئ” اس سے کوئی چیز بھی روایت نہیں کرنی چاہئے ۔ (کتاب العلل ۲۵۸/۲ ت ۱۸۶۴) اسماء الرجال کے جلیل القدر امام یحییٰ بن معینؒ نے فرمایا: “وأبو مطیع الخراساني لیس بشيءٍ” اور ابو مطیع الخراسانی کچھ چیز نہیں ہے ۔ (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری : ۴۷۶۰) ان کے علاوہ دوسرے محدثین مثلاً امام نسائی، ابوحاتم الرازی اور حافظ ابن حبان وغیرہم نے اس پر جرح کی ہے ۔ متاخرین میں سے حافظ ذہبی ایک حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:“فھذا وضعہ أبو مطیع علیٰ حماد” پس اس کو ابومطیع نے حماد (بن سلمہ) پر گھڑا ہے ۔ (میزان الاعتدال۴۲/۳) معلوم ہواکہ حافظ ذہبی کے نزدیک ابو مطیع مذکورو ضاع (جھوٹا ، حدیثیں گھڑنے والا) تھا۔

شیخ رفیق طاہر نے یہاں بھی تفصیل دی ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم
اسما رجال انکے بارے میں کیا کہتا ہے آیا عدالت کے او پر اتر ہیں یا ٹو نہیں ملتی انکی
شیخ اسحاق رہنمائی جناب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
ویسے جواب تو عدیل سلفی بھائی نے دے دیا ہے ، تاہم سلام دعاء کیلئے میں بھی کچھ لکھے دیتا ہوں شاید کام آجائے ؛
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ " لسان المیزان " میں لکھتے ہیں :
" قال ابن معين ليس بشيء وقال مرة ضعيف وقال البخاري ضعيف صاحب رأي وقال النسائي ضعيف وقال ابن الجوزي في الضعفاء الحكم بن عبد الله ابن سلمة أبو مطيع الخراساني القاضي يروي عن إبراهيم بن طهمان وأبي حنيفة ومالك قال أحمد لا ينبغي أن يروي عنه بشيء وقال أبو داود تركوا حديثه وكان جهميا وقال ابن عدي هو بين الضعف عامة ما يرويه لا يتابع عليه قال ابن حبان كان من رؤساء المرجية ممن يبغض السنن ومنتحليها "
( امام ابن معین فرماتے ہیں کہ ابو مطیع (حدیث کی روایت میں ) کوئی شیء نہیں ، اور اسے ضعیف کہا ، اور امام بخاریؒ اور امام نسائیؒ بھی اسے ضعیف کہتے ہیں ، اور ابن الجوزیؒ لکھتے ہیں کہ امام احمدؒ فرماتے ہیں : کہ ابومطیع بلخی اس لائق نہیں کہ اس روایت نقل کی جائے ، اور امام ابو داودؒ فرماتے ہیں : محدثین کے ہاں یہ متروک ہے ، یہ جہمی تھا ۔ ابن عدیؒ کہتے ہیں : یہ یقیناً ضعیف راوی ہے اسکی اکثر روایات کی متابعت نہیں ملتی ، امام ابن حبانؒ فرماتے ہیں " یہ مرجئہ کے سرداروں میں سے تھا ، اور سنت اور اہل سنت سے بغض رکھنے والوں میں اس کا شمار تھا "
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ!
﴿بلا تبصرہ منقول ہے﴾

أَبُو مُطِيع الْبَلْخِي صَاحب الإِمَام الحكم بن عبد الله بن مسلمة ابْن عبد الرَّحْمَن القَاضِي الْفَقِيه رَاوِي كتاب الْفِقْه الْأَكْبَر عَن الإِمَام أبي حنيفَة وروى عَن ابْن عون وَهِشَام بن حسان وَمَالك بن أنس وَإِبْرَاهِيم بن طهْمَان روى عَنهُ أَحْمد بن منيع وخلاد بن أسلم الصفار وَجَمَاعَة تفقه بِهِ أهل تِلْكَ الديار وَكَانَ بَصيرًا عَلامَة كَبِيرا كَانَ ابْن الْمُبَارك يعظمه ويبجله لدينِهِ وَعلمه كَانَ قَاضِيا ببلخ سِتَّة عشر سنة مَاتَ سنة سبع وَتِسْعين وَمِائَة عَن أَربع وَثَمَانِينَ سنة قَالَ مُحَمَّد بن الْفضل الْبَلْخِي سَمِعت عبد الله بن مُحَمَّد العابد يَقُول جَاءَ كتاب يَعْنِي من الْخلَافَة وَفِيه لوَلِيّ الْعَهْد ببلخ وَآتَيْنَاهُ الحكم صَبيا ليقْرَأ فَسمع أَبُو مُطِيع فَدخل على الْوَالِي وَقَالَ بلغ من خطر الدُّنْيَا أَنا نكفر بِسَبَبِهَا فكرر مرَارًا حَتَّى بَكَى الْأَمِير وَقَالَ إِنِّي مَعَك وَلَكِن لَا أجتري بالْكلَام فَتكلم وَكن مني آمنا وَكَانَ قَاضِيا يَوْمئِذٍ فَذهب يَوْم الْجُمُعَة فارتقى الْمِنْبَر ثمَّ قَالَ يَا معشر الْمُسلمين وَأخذ بلحيته وَبكى وَقَالَ بلغ من خطر الدُّنْيَا أَن نجر إِلَى الْكفْر من قَالَ وَآتَيْنَاهُ الحكم صَبيا غير يحيى فَهُوَ كَافِر فزج أهل الْمَسْجِد بالبكاء وهرب اللَّذَان قدما بِالْكتاب وَمن تفرداته أَنه كَانَ يَقُول بفرضية التسبحات الثَّلَاث فى الرُّكُوع وَالسُّجُود رَحمَه الله تَعَالَى
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 87 - 88 جلد 04 الجواهر المضية في طبقات الحنفية - عبد القادر بن محمد بن نصر الله القرشي، أبو محمد، محيي الدين الحنفي (المتوفى: 775هـ) - دار هجر،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 265 - 266 جلد 02 الجواهر المضية في طبقات الحنفية - عبد القادر بن محمد بن نصر الله القرشي، أبو محمد، محيي الدين الحنفي (المتوفى: 775هـ) - دار المعارف النظامية، حيدر آباد، دكن


الحكم بن عبد الله بن مسلمة بن عبد الرحمن
أبو مطيع البلخي
الإمام العالم العامل، أحد أعلام هذه الأمة، ومن أقر له بالفضائل جهابذة الأئمة.
حدث عن هشام بن حسان، ومالك بن أنس، وسفيان الثوري، وأبي حنيفة، وكان من كبار أصحابه، وهو راوي " الفقه الأكبر ".
وروى عنه أحمد بن منيع، وجماعة من أهل خراسان.
وولي قضاء بلخ، وقدم بغداد غير مرة، وحدث بها، وتلقاه أبو يوسف، وتناظر معه، وكانت مدة ولايته على قضاء بلخ ستة عشر سنة، يقول بالحق ويعمل به.
روي أنه جاء من الخليفة كتاب، ومعه حرسيان يقرآنه على رءوس الناس، يتضمن العهد لبعض ولد الخليفة، وكان صغيراً، وفيه مكتوب (وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيّا) ، فلما وصل الكتاب إل بلخ سمع به أبو مطيع، فقام فزعاً، ودخل والي بلخ، فقال له: بلغ من خطر الدنيا أنا نكفر بسببها. وكلمه مراراً، وعظه حتى أبكاه، فقال: إني معك فيما تراه، ولكنني رجل عامل، لا أجترئ بالكلام، فتكلم وكن آمناً، وقل ما شئت.
فلما كان يوم الجمعة ذهب أبو مطيع إلى الجامع، وقد قال له سلم بن سالم: إني معك. وقال له أيضاً أبو معاذ: إني معك. وجاء سلم إلى الجمعة متقلداً بالسيف، ثم لما اجتمع الناس وأذن المؤذن، ارتقى أبو مطيع إلى المنبر، فحمد الله وأثنى عليه، وصلى على النبي صلى الله عليه وسلم، وأخذ بلحيته فبكى، وقال: يا معشر المسلمين، بلغ من خطر الدنيا أن تجر إلى الكفر، من قال: (وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيّا) لغير يحيى بن زكريا فهو كافر. فرج أهل المسجد بالبكاء، وقام الحرسيان فهربا.
وقال ابن المبارك في حقه: أبو مطيع له المنة على جميع أهل الدنيا.
وقال محمد بن الفضل البلخي: مات أبو مطيع وأنا ببغداد، فجاءني المعلى بن منصور، فعزاني فيه ثم قال: لم يوجد هاهنا منذ عشرين سنة مثله.
وقال مالك بن أنس لرجل: من أين أنت؟ قال: من بلخ. قال: قاضيكم أبو مطيع قام مقام الأنبياء.
قال بعضهم: رأيت أبا مطيع في المنام، وكأني قلت له: ما فعل بك؟ فسكن حتى ألححت عليه، فقال: إن الله قد غفر لي وفوق المغفرة. قال: فقلت: ما حال أبي معاذ؟ قال: الملائكة تشتاق إلى رؤيته. قال: فقلت: غفر الله له؟ قال لي: من شتاق الملائكة لرؤيته لم يغفر الله له.
وكانت وفاته ببلخ، ليلة السبت، لاثنتي عشرة خلت من جمادى الأولى، سنة تسع وتسعين ومائة.
وقد نسبه بعض الناس إلى أنه كان جهميناً، والله تعالى أعلم بحاله.
*ومن تفرداته، أنه كان يقول بفرضية التسبيحات الثلاث في الركوع والسجود.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 178 - 180 جلد 03 الطبقات السنية في تراجم الحنفية - تقي الدين بن عبد القادر التميمي الداري الغزي (المتوفى: 1010هـ) - دار الرفاعي، الرياض

حکم بن عبد اللہ
حکم بن عبد اللہ بن سلمہ بن عبد الرحمن بلخی: امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے علامۂ کبیر اور فہامۂ بصیر تھے۔ ابو مطیع کنیت تھی، امام سے ان کی فقہ اکبر کے آپ ہی راوی ہیں، حدیث کو امام ابو حنیفہ و امام مالک و ابن ہشام بن حسان وگیرہ سے سُنا اور روایت کیا اور آپ سے احمد بن منیع اور فلاد بن اسلم وغیرہ نے روایت کی اور بلخ کے لوگوں نے تفقہ کیا۔ عبد اللہ بن مبارک آپ کے علم اور دیانت کے سبب آپ کی بڑی تعظیم وتکریم کرتے تھے، آپ مدت تک بلخ کے قاضی رہے اور امر معروف ونہین منکر میں بڑا خیال کرتے تھے لیکن حدیث کے معاملہ میں محدثین نے آپ کو ضعفاء میں شمار کیا ہے۔ آپ رکوع وسجود میں تین دفعہ تسبیح کہنے کی فرضیت کے قائل ہوئے۔
محمد بن فضل کہتے ہیں کہ ایک دفعہ خلیفہ کی طرف سے والی بلخ کے پاس ایک کتابت آئی جس میں ولیعہد کی نسبت لکھا تھا
وَاٰتَيْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِيتاً جب آپ نے اس بات کو سُنا تو والی بلخ کے پاس آکر کہا، کہ دنیاوی منفعت میں تم اس حد کو پہنچ گئے ہو کہ کفر تک نوبت پہنچی ہے، آپ نے اس کلمہ کو کئی دفعہ کہا، یہاں تک کہ امیر رو پڑا اس کا سبب بیان کرنے کی التجا کی، آپ جمعہ کے روز منبر پر چڑھ کر اپنی ڈاڑھی پکڑ کر رونے لگے اور فرمایا کہ جو شخص بغیر حضرت يحییٰ پیغمبر کے ایسا کلمہ کہے وہ کافر ہے۔ تمام لوگ یہ حال دیکھ کر رو پڑے اور جو آدمی وہ کتابت لائے تھے، بھاگ گئے۔ وفات آپ کی 199 ہجری میں ہوئی۔ ''پسندیدہ دین'' آپ کی تاریخ وصال ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 160 - 161 حدائقِ الحنفیہ – فقیر محمد جہلمی (المتوفی: 1334ھ) – مکتبہ ربیعہ، کراچی

امام ابو مطیع حکیم بن عبد اللہ بن سلمہ بلخی (م 199 ہجری)
علامۂ کبیر اور محدث و فقیہ شہیر تھے۔ امام صاحب کے اصحاب وشرکاء تدوین فقہ میں سے تھے، امام صاحب سے ''فقہ اکبر'' کے راوی بھی ہیں، حدیث امام صاحب، امام مالک، ابن عون اور ہشام بن حسان وغیرہ سے روایت کی اور آپ سے احمد بن منیع، خلاد بن اسلم وغیرہ نے روایت کی، حضرت عبد اللہ بن مبارک آپ کے علم اور تدین کی وجہ سے بہت عظمت ومحبت کرتے تھے، مدت تک بلخ کے قاضی رہے، امر بالمعروف اور نہی منکر کا بہت زیادہ اہتمام رکھتے تھے کئی بار بغداد آئے اور درس حدیث دیا۔
محدث ابن رزین (تلمیذ ابی مطیع) کا بیان ہے کہ میں ان کے ساتھ بگداد پہنچا تو امام ابو یوسف نے ان کا استقبال کیا، گھوڑے سے اتر گئے اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر مسجد میں داخل ہوئے وہاں بیٹھ کر علمی مسائل پر گفتگو وبحث کی، حضرت عبد اللہ بن مبارک فرمایا کرتے تھے کہ ابو مطیع بلخی کا احسان تمام دنیا والوں پر ہے۔
بظاہر اس کا اشارہ تدوین فقہ کے سلسلہ میں ان کی گرانقدر آراء معلومات فقہی حدیثی کی طرف ہوگا اسی لئے تو امام یوسف جیسے اول درجہ کے حنفی فقیہ بھی ان کی تعظیم کرتے اور ان کی رائے وعلم سے مستفید ہوتے تھے۔ افسوس ہے کہ ان چالیس فقہاء شرکاء تدوین فقہ کے الگ الگ علمی امتیازات کی تفصیلات ابھی تک دستیاب نہ ہو سکیں جو تاریخ فقہ وحدیث کا اہم ترین باب ہے۔
رحمهم الله كلهم رحمة واسعة (جامع المسانید، جواہر مضیۂ وحدائق حنفیہ)
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 189 – 190 جلد 01 انوار الباری اردو شرح صحیح البخاری – سید احمد رضا بنجوری – ادارہ تالیفات اشرفیہ، ملتان
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
متاخرین میں سے حافظ ذہبی ایک حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:“فھذا وضعہ أبو مطیع علیٰ حماد” پس اس کو ابومطیع نے حماد (بن سلمہ) پر گھڑا ہے ۔ (میزان الاعتدال۴۲/۳) معلوم ہواکہ حافظ ذہبی کے نزدیک ابو مطیع مذکورو ضاع (جھوٹا ، حدیثیں گھڑنے والا) تھا۔
یہ جرح حافظ ذہبی کی نہیں، ابن حبان کی ہی ہے،دیکھئے:
وَهَذَا شَيْءٌ وَضَعَهُ أَبُو مُطِيعٍ الْبَلْخِيُّ عَلَى حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ فَسَرَقَهُ هَذَا الشَّيْخُ
المجروحين لابن حبان (2/ 103)
 
Top