• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابو یحیٰی نور پوری کی علمی خیانت یا لاعلمی

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71

موصوف نے خالد بن مخلد القطوانی پر جرح مفسر کا دعوی کیا ہے کہ خالد بن مخلد کوفیوں سے روایت کرنے میں ضعیف ہے اور موصوف نے یہ کہا کہ میں نے تعدیل کے اقوال نقل کر کے مخلط مبحث کی ہے جبکہ میں نے یہ ثابت کیا کہ یہ ایک منفرد قول ہے اور کسی نے بھی اس کی جانب التفاء نہیں کیا ہے چنانچہ پہلے اصول پر نظر ڈالتے ہیں موصول نے لکھا کہ جرح مفسر تعدیل پر مقدم ہوتی ہے جبکہ "الجرح مفسر الاولی بتعدیل" کا اصول اس وقت لاگو ہو گا جب جرح بھی تعدیل کے برابر یا اس سے قدر کم ہوں
اتفق اہل علم ان جرحہ الواحد والاثنان عدلہ مثل عدد من جرحہ فان الجرح اولی(الکفایہ فی علم الرویہ ص 108)

اور یہاں تو ایک منفرد قول ہے جس کو جرح مفسر کا نام دیا جا رہا ہے


ذكر الغلابي في تاريخه. قال: القطواني يؤخذ عنه مشيخة المدينة، وابن بلال فقط يريد سليمان بن بلال.
ومعنى هذا أنه لا يؤخذ عنه إلا حديثه عن أهل المدينة، وسليمان بن بلال منهم، لكنه أفرده بالذكر.

(شرح علل ترمذی2/775)
اس قول کے مطابق خالد بن مخلد کی صرف کوفیوں سے نہیں اہل مدینہ کے علاوہ کسی سے بھی روایت قبول نہیں ہے
موصوف اس کو جرح مفسر فرما رہےہیں جبکہ جرح مفسر اسے کہتے ہیں کہ جس میں راوی کے بابت وجہ بیان کی گئی مثلا"ضعیف الحدیث" جرح مفسر میں شمار ہوتی ہے کہ روای حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہے مگر امام الغلابی نے صرف یہ بیان کیا"
يؤخذ عنه مشيخة المدينة" کہ خالد بن مخلد کے اہل مدینہ کے شیوخ سے روایات لی ہے" اس میں کونسی جرح مفسر ہے اس سے اہل مدینہ کے سوا رواۃ سے روایات کو کیوں ترک کیا گیا ہے اس کی وجہ بتائی گئی ہے کیا اسے جرح مفسر کہتے ہیں؟اس کے برعکس جب ابن عدی نے اس پر جرح کی تو کس قدر وضاحت اور مفسر بیان کیا ہے چنانچہ اس کی اہل مدینہ ہی کے شییوخ سے بعض منکر روایات نقل کرکے فرماتے ہیں ۔ وهذه الأحاديث التي ذكرتها عن مالك وعن غيره لعله توهما منه أنه كما يرويه أو حمل على حفظه.(کامل ضعفاء لابن عدی 3/466)
اس میں ابن عدی نے ان روایات کے منکر ہونے کی وجہ بیان کی ہے کہ اس میں اپنے حافظہ کی وجہ سے وہم کا شکار ہوا ہے۔
یہ جرح مفسر کہلاتی ہے کہ اس میں وجہ بیان کی گئی ہےکہ اہل مدینہ سے بعض روایات بیان کرنے میں اپنے حافظہ کی بنا پر وہم اور غلطی کا شکار ہوا ہے جبکہ امام الغلابی کے قول کے مطابق اس کی اہل مدینہ کے شیوخ کے علاوہ روایات ضعیف ہوتی ہیں جبکہ ابن عدی اس کے اہل مدینہ کے بعض شیوخ "مالک بن انس، سیلمان بن بلال" کی بعض روایات کو منکر قرار دیا ہے اور انہوں نے اس روایت کا ذکر تک نہیں کیا جس کو موصوف ضعیف فرما رہے ہیں اور نہ اہل کوفہ سے ہی کوئی منکر روایت اپنی کتاب میں درج کی ہے جبکہ امام ابن عدی کا عمومی منہج یہ ہے کہ وہ اپنی کتاب میں راوی کی منکر روایات نقل کرتے ہیں اور ان منکر روایات میں ایک روایت بھی اہل کوفہ سے نہیں ہے۔
ان دلائل سے موصوف کا جرح مفسر اور امام الغلابی کے اس قول کا کافی خلاصہ ہو گیا لیکن اگر اس کو جرح مفسر مان بھی لیا جائے تو جمہور نے اس کو مخالف جاتے ہوئے خالد بن مخلد کی اہل کوفہ سے روایات لی ہیں اور ان پر صحیح کا حکم بھی لگایا ہے
(1)امام ترمذی نے جامع ترمذی میں اس کی اہل کوفہ سے روایت لی ہے اور اس کو حسن صحیح بھی کہا ہے

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ} [المائدة: 93] قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتَ مِنْهُمْ» . «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»
(کتاب التفسر رقم 3053)
(2) امام حاکم نے اپنی مستدرک میں اس کی کوفیوں سے روایت لی ہے اور امام ذہبی نے تلخیص میں اس کو بخاری اور مسلم کی شرط پر کہا ہے
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ الْعَامِرِيُّ، ثنا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ الْقَطَوَانِيُّ، ثنا حَمْزَةُ بْنُ حَبِيبٍ الزَّيَّاتُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «فَضْلُ الْعِلْمِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ فَضْلِ الْعِبَادَةِ، وَخَيْرُ دِينِكُمُ الْوَرَعُ»
على شرطهما
(مستدرک الحاکم رقم 314)
اس میں "حمزۃ بن حبیب الزیات" کوفی ہیں اور موصوف جس روایت کوضعیف فرما رہے اس کو امام حاکم نے بخاری اور مسلم کی شرط پر کہا ہے اور امام ذہبی نے تلخیص میں اس کی موافقت کی ہے۔ تو امام ذہبی کے نذدیک یہ روایت صحیح ہے

mustadrik haik khalid ki toseek.png



موصوف نے ابو یحیٰی نور پوری کے حوالے سے بکر بن سھل کی توثیق کے لئے "المختارۃ، ابو عوانۃ، مستخرج ابو نعیم" کے حوالے دے کر یہ فرمایا کہ بکر بن سھل کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے کہ وہ ان کتب میں موجود ہیں اسی طرح ہم بھی ذیل میں نقل کر رہے ہیں کہ خالد بن مخلد کی اہل کوفہ سے روایات ان کتب میں موجود ہے اور سونے پر سوھاگہ یہ ہے کہ المختارۃ میں یہی روایت بمع اسی سند کے موجود ہے جس کو ابو یحیٰی نور پوری کی وساطت سے موصوف ضعیف فرما رہے ہیں
(3)
أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَتْحِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي الْفَتْحِ الْخَرَقِيُّ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بن حمد بن الْحسن الدوبي أَخْبَرَهُمْ أبنا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ الْكَسَّارِ الدِّينَوَرِيُّ أبنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ السُّنِّيِّ ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شُعَيْبٍ النَّسَائِيُّ أبنا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الأَوْدِيُّ عَنْ خَالِدِ بْنِ مُخَلَّدٍ ثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ بِعَرَفَاتٍ فَقَالَ مَا لِي لَا أَسْمَعُ النَّاسَ يُلَبُّونَ فَقُلْتُ يَخَافُونَ مِنْ مُعَاوِيَةَ فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ مِنْ فُسْطَاطِهِ فَقَالَ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ تَرَكُوا السُّنَّةَ مِنْ بُغْضِ عَلِيٍّ
الاحادیث المختارۃ 10/378رقم403)
(4)
حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ السِّجْزِيُّ، قَالَ: ثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: ثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي عُمَرَ الْبَهْرَانِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «كَانَ يُنْبَذُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّبِيذُ» ، قَالَ: «فَيَشْرَبُهُ فِي الْيَوْمِ، وَالْغَدِ، وَبَعْدَ الْغَدِ، إِلَى مَسَاءِ الثَّالِثِ، ثُمَّ أَمَرَ بِهِ بِسِقَاءِ الْخَدَمِ، أَوْ يُهَرَاقُ»
(
مستخرج ابوعوانۃ رقم8121)
اس میں ابو معاویہ "محمد بن خازم التميمى السعدى ، أبو معاوية الضرير الكوفى" ہیں
تو مستخرج ابو عوانۃ میں خالد بن مخلد کی کوفیوں سے روایت موجود ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی کوفیوں سے روایت صحیح ہوتی ہے
موصوف نے ان ہی کتب کا حوالے دے کر بکر بن سھل کی توثیق ثابت کرنے کی کوشش کی تھی جس کا خلاصہ ہم آگے کریں گے یہاں موصوف سے عرض ہے اپ ہی کے اصول پر جب بکر بن سھل ان کتب میں موجود ہو کر ثقہ ہو سکتا ہے تو خالد بن مخلد کی ان کتب میں کوفیوں سے موجود روایت کیونکر صحیح نہیں ہیں۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا


(5) شیخ البانی کے مطابق بھی اہل کوفہ سے خالد بن مخلد کی روایت صحیح ہے(دیکھئے سنن نسائی رقم 3006)
(6) شیخ شعیب الانوروط نے بھی سنن نسائی کی تخریخ میں اس روایت کو صحیح کہا ہے(سنن نسائی تخریج شیخ شعیب)
(7) محمد مصطفی الاعظیمی نے صحیح ابن خزیمہ کی تخریج میں اسی روایت کو صحیح کہا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ رقم 2830)
(8)شیخ زبیر علی زئی نے بھی انوار صحیفہ فی احادیث الضیعفہ میں اس روایت کو نقل نہیں کیا ہے اس کا معنی یہی ہے کہ ان کے نذدیک بھی یہ روایت صحیح ہے۔
امام ترمذی سے لے کر شیخ زبیر علی زئی تک ان تمام کے نزدیک اہل کوفہ سے خالد بن مخلد کی روایت صحیح ہے اور انہوں نے اس کو قبول کیا ہے اور موصوف نے میرے جن حوالاجات کوخلط مبحث کا نام دے کر رد کرنے کی کوشش کی تھی وہ اسی حوالے سے تھی کہ کسی بھی محدث نے امام الغلابی کے اس منفرد قول کو قبول ہی نہیں کیا ہے اور خالد بن مخلد کی روایت کو بلا شرط قبول کیا ہے اور امام ابن عدی نے اس کی اہل مدینہ سے چند منکر روایات نقل کرکے یہ پورے طریقے سے ثابت کر دیا کہ یہ ایک منفرد اور مردود قول ہے کہ خالد بن مخلد کی روایات اہل کوفہ سے ضعیف ہوتی ہیںوگرنہ ابن عدی اہل کوفہ سے اس کی ضعیف روایات ضرور نقل کرتے۔ خالد بن مخلد صدوق راوی ہے اور اس کی بیان کردہ حدیث حسن ہوتی ہے اور محترم کا یہ مفروضہ امام الغلابی کے قول کی طرح منفرد اور مردود ہے۔


 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
موصوف نے امام نسائی کے ایک قول"ھلال بن یساف لم یسمعہ من عبداللہ بن ظالم" کے حوالے سے لکھا ہے کہ میں عربی زبان سے ناواقف ہوں اور اس کا ترجمہ جومیں نے کیا ہے"ھلال بن یساف نے عبداللہ بن ظالم سے کچھ نہیں سنا " غلط کیا ہے موصوف سے عرض ہے "ہم طفل مکتب ہیں آپ ہی کرم فرمائیے"
میں نے یہ اس بنا پر لکھا تھا کہ ھلال بن یساف سے عبداللہ بن ظالم سے ہماری معلومات کی حد تک فقط دو احادیث نقل ہوئی ہیں اور ان دونوں میں امام نسائی نے ھلال بن یساف اور عبداللہ بن ظالم کے درمیان ابن حیان کا واسط نقل کیا ہے۔
پہلی روایت :

أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنِ ابْنِ حَيَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: تَحَرَّكَ حِرَاءُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَذَكَرَ مِثْلَهُ

دوسری روایت:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَيَكُونُ بَعْدِي فِتَنٌ يَكُونُ فِيهَا وَيَكُونُ» فَقُلْنَا: إِنْ أَدْرَكْنَا ذَلِكَ هَلَكْنَا؟ قَالَ: «بِحَسْبِ أَصْحَابِي الْقَتْلُ»
(الطبرانی الکبیر رقم 346)

اور اس کی ابن حیان کے واسطے والی سند یہ ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ فُلَانِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَه
(الطبرانی الکبیر رقم 347)

ان دونوں احادیث کے علاوہ ھلال بن یساف سے عبداللہ بن ظالم کی سند سے اور کوئی حدیث ہمارے علم میں نہیں ہے اور ان دونوں میں ابن حیان کا واسطہ ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ھلال بن یساف نے عبداللہ بن ظالم سے کوئی حدیث نہیں سنی مگر اس میں ابن حیان کا واسطہ ہے اگر اس کے علاوہ کوئی حدیث موصوف پیش کر سکتے ہیں تو ضرور پیش کریں جس میں ابن حیان کا واسطہ نہ ہو پھر یہ ثابت ہو گا کہ ھلال بن یساف نے عبداللہ بن ظالم سے اور بھی احادیث سنی ہیں اور امام نسائی کی منشاء یہی تھی کہ وہ اس ایک روایت کا انکار کرتے ہیں اور ھلال بن یساف اور عبداللہ بن ظالم کے سماع کا اثبات کرتے ہیں

موصوف یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ امام نسائی نے صرف ایک روایت کے حوالے سے اپنا قول نقل کیا ہے اس لئے وہ صرف اس ایک روایت کا ہی انکار کر رہے ہیں اور باقی کے اثبات کے قائل ہیں مگر یہ مفروضہ بھی غلط ہے

أَخْبرنِي مُحَمَّد بن عبد الله بن عمر قَالَ ثَنَا قَاسم الْجرْمِي قَالَ ثَنَا سُفْيَان عَن مَنْصُور عَن هِلَال بن يسَاف عَن فلَان بن حَيَّان عَن عبد الله بن ظَالِم قَالَ اسْتقْبلت سعيد بن زيد قَالَ أمراؤنا يأمروننا أَن نلعن إِخْوَاننَا وَإِنَّا لَا نلعنهم وَلَكِن نقُول عَفا الله لَهُم سَمِعت رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يَقُول سَتَكُون بعدِي فتن يكون فِيهَا وَيكون فَقَالَ رجل لَئِن أدركناها لَنهْلكَنَّ قَالَ بحسبكم الْقَتْل قَالَ ثمَّ جَاءَ رجل فَقَالَ إِنِّي أَحْبَبْت عليا لم أحبه شَيْئا قطّ قَالَ أَحْبَبْت رجلا من أهل الْجنَّة ثمَّ أنشأ يحدث قَالَ كَانَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَأَبُو بكر وَعمر وَعُثْمَان وَعلي وَطَلْحَة وَالزُّبَيْر
وَعبد الرَّحْمَن وَسعد وَلَو شِئْت عددت الْعَاشِر يَعْنِي نَفسه فَقَالَ أثبت حراء فَإِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْك إِلَّا نَبِي أَو صديق أَو شَهِيد

فضائل الصحابہ للنسائی رقم 102)

اس روایت میں امام نسائی نے مفصل روایت بیان کی ہے اور اس میں ابن حیان کا واسطہ بیان کیا ہے اور اس میں دونوں روایات کے الفاظ موجود ہے ہم نے خط کشید کیے ہوئے ہیں تو اب یہ ممکن نہیں کہ ایک سند میں دونوں الفاظ موجود ہوں ایک تو ابن حیان سے سنے ہو اور دوسرے نہیں سنےچنانچہ میں نے یہاں فقط مفہوم بیان کیا تھا کہ ھلال بن یساف نے عبداللہ بن ظالم سے کچھ نہیں سنا تو موصوف اگر ان دونوں کے علاوہ کوئی اور روایت ھلال بن یساف سے عبداللہ بن ظالم سے پیش کر سکتے ہیں تو پیش کردیں وگرنہ اس کا مفہوم یہی رہے گا۔


موصوف نے جو امام بخاری کے قول "
وَزَادَ بعضُهم: ابْنَ حَيّان، فيهِ، وَلَمْ يَصِحَّ. کے حوالے سے لکھا ہے کہ میں امام بخاری کے قول کی منشاء سمجھنے سے قاصر رہا ہوں اور اس حوالے سے موصوف نے تقریبا شیخ کفایت اللہ سنابلی کے تھوکے ہوئے چنے چبانے کی کوشش کی ہے اس لئے اس کے جواب کے لئے میں مختصر عرض کر دیتا ہوں جو صاحب شوق ہوں وہ اس کی تفصیل کے لئے اس لنک کو دیکھ سکتے ہیں

[FONT=Arial, sans-serif]http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-یہ-روایت-واقعی-ضعیف-ہے.37144/
[/FONT]


(1) پہلی بات یہ ہے کہ یہ ایک الگ قول ہے جس کو بلاوجہ ایک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے امام ابن عدی نے امام بخاری کا یہ قول اپنی کتاب میں اپنی سند سے نقل کیا ہے


سمعتُ ابن حماد يقول: قال البُخارِيّ
عَبد الله بن ظالم عن سَعِيد بن زيد عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ ولم يصح.

(الکامل ضعفاء ابن عدی ترجمہ1035)
اس میں نہ ابن حیان کا لفظ ہے اور نہ "بعضھم" مگر پھر بھی لوگ ان دونوں اقوال کو ایک کرنے میں سر توڑ رہے ہیں

حَدَّثَنِي آدَمُ بْنُ مُوسَى قَالَ: سَمِعْتُ الْبُخَارِيَّ قَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يَصِح
(الضعفاء الکبیر للعقیلی ترجمۃ 827)
حافظ العقیلی نے بھی اس قول کو اپنی کتاب میں اپنی سند سے نقل کیا ہے اور اس میں بھی نہ ابن حیان ہے اور نہ "بعضھم" کے الفاظ ہیں کس طرح صرف ایک "لم یصح" کی بنا پر ان کو ایک مان لیا جائے جبکہ یہ دونوں کو الگ الگ اماموں نے "ابن عدی اور حافظ العقیلی"نے اپنی کتب میں اپنی سند سے نقل کیے ہیں اور امام بخاری کا یہ قول "
وَزَادَ بعضُهم: ابْنَ حَيّان، فيهِ، وَلَمْ يَصِحَّ. کے الفاظ امام بخاری نے اپنی تاریخ الکبیر میں نقل کیے ہیں اس لئے موصوف کو چاہئے کہ وہ اس قول سے جان چھڑانے کے بجائے اس کو کوئی توجہہ پیش کر دیں
اور رہی بات کہ آئمہ فن نے اس کو ایسے ہی سمجھا ہے تو موصوف کی خدمت میں عرض ہے کہ آئمہ فن نے ان اقوال کا مفہوم یہی سمجھا ہے جن کو امام ابن عدی اور حافظ العقیلی نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے اور اس کا معنی وہی ہے جو موصوف نے بیان کیا ہے کیونکہ امام العقیلی امام ابن عدی اور امام ذہبی نے بھی وہی عبارت امام بخاری کے حوالےسے نقل کی ہے وہ یہ ہے

حَدَّثَنِي آدَمُ بْنُ مُوسَى قَالَ: سَمِعْتُ الْبُخَارِيَّ قَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يَصِح
اور میں نے جو تاریخ الکبیر سے عبارت پیش کی ہے وہ یہ ہے
"
وَزَادَ بعضُهم: ابْنَ حَيّان، فيهِ، وَلَمْ يَصِحّ
میری اس عبارت کو پیش کرکے اگر امام العقیلی، ابن عدی اور امام ذہبی نے یہ کہا ہوتا کہ اس عبارت میں امام بخاری کا ارادہ اس روایت کو ضعیف کہنا ہے تو یہ بات قابل التفاء ہوتی مگر انہوں نے تو وہ عبارت ہی نہیں لکھی ہے جو میں نے پیش کی ہےیہ منصف حضرات دیکھ سکتے ہیں دراصل اس عبارت کو توڑنے مروڑنے کا مقصد واضح ہے کہ اگر اس عبارت کو مان لیا جائے تو امام علل امام المحدثین کا قول ہی رائج ہو گا کہ ابن حیان کا واسطہ اس میں ہے ہی نہیں اور موصوف کی ساری تحقیق جو اس قول پر کھڑی ہے اس کی ہوا اکھڑ جائی گی مگر موصوف کو کیا معلوم امام بخاری کا فیصلہ اٹل ہے کہ اس میں کوئی ابن حیان نہیں ہے اور یہ بات امام یحییٰ بن معین کے قول سے بھی ثابت ہوتی ہے جو مجھے حال ہی میں ملا اور جس کی بنیاد پر میرا یقین امام بخاری کے اس قول پر اور پختہ ہو گیا ہے
امام احمد بن حنبل نے اپنی کتاب "العلل ومعرفۃ الرجال" میں نقل کیا ہے۔

سَأَلت يحيى عَن عبيد بن سعيد الْقرشِي فَقَالَ لَيْسَ بِهِ بَأْس ثِقَة قد رَأَيْته وَكَانَ أَصْغَر من أبي أَحْمد الزبيرِي وَهَؤُلَاء الصغار وَهُوَ أَخُو يحيى بن سعيد الْأمَوِي قلت لَهُ حدث عَن سُفْيَان عَن مَنْصُور عَن هِلَال بن يسَاف عَن عبد الله بن ظَالِم عَن فلَان بن حَيَّان عَن سعيد بن زيد فَأنكرهُ يحيى وَقَالَ لَا عبد الله بن ظَالِم سَمعه من سعيد بن زيد

(العلل و معرفۃ الرجال لاحمد روایۃ ابنہ رقم3903 جلد3 ص8)
اس عبارت کو غور سے پڑھیں اس میں یحیٰی بن معین سے جب امام احمد بن حنبل نے سفیان کی اسی سند کے بارے میں سوال کیا جس میں امام نسائی ھلال بن یساف اور عبداللہ بن ظالم کے درمیان واسطہ بتا رہے ہیں اور یہ فرما رہے ہیں کہ ھلال بن یساف نے عباللہ بن ظالم سے نہیں سنا امام یحیٰی بن معین عبداللہ بن ظالم اور سعید بن زید کے درمیان ابن حیان کا واسطہ فرما رہے ہیں اور عبداللہ بن ظالم کے بارے میں یہ فرما رہے ہیں کہ انہوں نے سعید بن زید سے نہیں سنا۔


اب موصوف کس کی بات مانیں گے امام نسائی کی جو ابن حیان کا واسطہ ھلال بن یساف اور عبداللہ بن ظالم کے درمیان بتا رہے ہیں یا امام یحیٰی بن معین کی مانیں گے جو عبداللہ بن ظالم اور سعید بن زید کے درمیان اس واسطے کو نقل کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ میرا یقین امام بخاری کے قول پر اور پختہ ہو گیا ہے کہ اس میں جو لوگ ابن حیان کا واسطہ مانتے ہیں وہ صحیح ہی نہیں ہے اب موصوف کیا فرمائیں گے امام نسائی اس میں ھلال بن یساف اور عبداللہ بن ظالم کے درمیان انقطاع اور واسطہ مانتے ہیں اور امام یحیٰی بن معین عبداللہ بن ظالم اور سعید بن زید کے درمیان واسطہ اور انقطاع مانتے ہیں اور امام علل یہ فیصلہ صادر فرما رہے ہیں کہ یہ واسطہ ہی غلط ہے اور ھلال بن یساف کا عبداللہ بن ظالم سے بھی سماع ہے اور عبداللہ بن ظالم کا سعید بن زید سے بھی سماع ثابت ہے۔ واللہ اعلم
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71


موصوف نے بکر بن سھل کے حوالے سے لکھا کہ جمہور نے ان کو ثقہ کہا ہے موصوف کے لئے میں یہی عرض کروں گا

خرد کا نام جنوں کردے جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے


موصوف نے جتنی بھی توثیق پیش کی ہیں وہ بکر بن سھل کی روایت کے حوالے سے ہے بکر بن سھل کی بعض روایت کو حسن یا صحیح کہا گیا ہے اور جن کتب میں کہا گیا ہے اس پر بھی بات کرتے ہیں فحال موصوف نے بکر بن سھل کی جو توثیق پیش کی ہے وہ ضمنی توثیق کہلاتی ہے اور کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ بکر بن سھل ثقہ یا صدوق ہے محدث العصر کا قول صواب ہے کہ بکر بن سھل کی کسی نے توثیق نہیں کی ہے چنانچہ موصوف کی اس ضمنی توثیق کے مقابلے پر امام نسائی کی جرح کو رد کیا ہے موصوف کو میں ایک بار ان کا پیش کیا اصول یاد دلا دوں کہ جس طرح جرح مفسر تعدیل پرمقدم ہوتی ہے اسی طرح جرح مبھم بھی تعدیل مبھم پر مقدم ہوتی ہے اور صرف امام نسائی نے نہیں متعدد محدثین نے اس پر جرح کی ہے
مسلمۃ بن قاسم:
انہوں نے اس پر جرح کی ہے

تكلم الناس فيه ووضعوه(لسان المیزان 195)
اس حوالے سے موصوف نے ابویحیٰی نور پوری کے مجلہ میں پیش کی ہوئی تحقیق میں یہ فرمایا کہ مسلمۃ بن قاسم خود کوئی صحیح آدمی نہیں تھا جبکہ ان کے اقوال سے کتب الرجال بھری ہوئی ہے الرواۃ پر جرح اور تعدیل کے حوالے سےمحدثین اور آئمہ نے ان کے قول پر اعتماد کیا ہےاور امام ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب الجرح التعدیل میں ان کو الحافظ فرمایا ہے تاریخ اہل اندلس میں محدث جانے جاتےہیں اس کے باوجود اس روایت کو صحیح کرنے کی خاطر ایک محدث پر الزام لگانا اہل علم کو زیب نہیں دیتا ہے
دوسری بات یہ کہی گئی کہ وہ عموما اس طرح کا کلام راوۃ کے بابت کرتے ہیں تو ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ اپ سے کئی سو سال قبل اس قول پر ابن حجر کا اعتماد یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کا یہ قول عمومی نہیں تھا بلکہ اس بنیاد پر انہوں نے بکر بن سھل کی منفرد روایت کو رد کیا ہے اوراس روایت کے شاہد روایت موجود ہونے پر بھی اس کو قبول کیا ہے اگر تو بکر بن سھل ثقہ ہوتا اور بقول موصوف کے جمہور نے ثقہ کہا ہےتو حافظ ابن حجر اس کی منفرد روایت کو قبول کرتے۔
محدث العصر ناصر الدین البانی نے امام المناوی کے حوالے سے نقل کیاہےکہ اس میں ضعف ہے

وقال: بكر بن سهل؛ وإن ضعفه جمع لكنه لم ينفرد به كما ادعاه ابن الجوزي، فالحديث إلى الحسن أقرب. وأيا ما كان فلا اتجاه لحكم ابن الجوزي عليه بالوضع "!
(سلسلہ احادیث الضعیفہ رقم2827)
اس میں واضح موجود ہے کہ اگر بکربن سھل بقول موصوف کے جمہور کے نذدیک ثقہ ہوتے تو امام المناوی یہ نہ فرماتے کہ"
لم ينفرد به فالحديث إلى الحسن أقرب" (بکربن سھل)اس میں منفردنہیں ہے اوریہ حدیث حسن کے قریب ترہے" اگربکربن سھل ثقہ ہوتا تویہ روایت تفرد کے باوجود حسن یا صحیح ہوتی چنانچہ اس سے معلوم ہے کہ بکر بن سھل کا تفرد قبول نہیں ہے
بکر بن سھل کو امام ہیثمی نے بھی ضعیف قرار دیا ہے

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ عَنْ شَيْخِهِ بَكْرِ بْنِ سَهْلٍ، وَهُوَ مُقَارِبُ الْحَالِ، وَقَدْ ضُعِّفَ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ حَدِيثُهُمْ حَسَنٌ أَوْ صَحِيحٌ.(مجمع الزوائد رقم 19453)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ {وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ} [الزخرف: 44] قَالَ: شَرَفٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ عَنْ
بَكْرِ بْنِ سَهْلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَالِحٍ وَقَدْ وُثِّقَا وَفِيهِمَا ضَعْفٌ.

(رقم 11330 حوالہ ایضا)
ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ بکر بن سھل کا تفرد قابل قبول نہیں ہے اورموصوف کی پیش کردہ روایت بکر بن سھل کی منفرد روایات میں سے ہے اس لئے یہ روایت ضعیف ہی ہے
اب اس حوالے سے بات کرتے ہیں جو موصوف نے امام نسائی کی بکر بن سھل پر جرح کا انکار کیا ہے اور امام نسائی سے یہ جرح ثابت نہ ہونے کا دعوی کیا ہے اور اس حوالے سے حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی تحقیق پر اعتماد کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ امام نسائی کے بیٹے عبدالکریم کے حالات انہیں نہ مل سکے اس حوالے سے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ سلف سے خلف تک امام نسائی کے اس قول پر محدثین نے اعتماد کیا ہے اور اس بنا پر متعدد روایات و احادیث کو ضعیف قرار دیاہے تو آج اس کو غلط قرار دینا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح امام بخاری کے قول "لم یصح" کا آئمہ محدثین کا اس روایت ہی کو ضعیف سمجھنا ہے اور اس کا آج کوئی اور معنی کرنا کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔
تو اس حوالے سے اپ کا جو جواب ہوگا وہی ہمارا جواب ہے۔

موصوف نے بکر بن سھل کی توثیق کے لئے المختارۃ ،مستخرج ابو نعیم اور مستخرج ابو عوانہ کا حوالہ دیا کہ ان کتب میں موجود ہونا اس کی توثیق کی دلیل ہے تو موصوف شاید یہ جانتے ہوں گے کہ المختارہ میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والا علی رضی اللہ عنہ سے اثر موجود ہے کیا واقع صحیح ہے؟(المختارۃ 2/386)کیا موصوف المختارۃ میں ہونے کی بنا پر اس کے راوی"عبدالرحمن بن اسحاق" کی توثیق قبول کریں گے اور متعدد رواۃ ایسے موجود ہے جوان کتب میں ہیں مگر جمہور کے نذدیک ضعیف ہیں۔
ابراہیم بن اسحاق الدبری نے امام عبدالرزاق سے روایت کی ہے اور اس کو مستخرج ابو عوانہ نے نقل کیا ہے(رقم 6914)
بکر بن یونس بن بکیر الشیبانی متفقہ طور پر ضعیف راوی ہے اور اس کی روایت بھی متتخرج ابو عوانۃ میں موجود ہے(رقم 6923)
چنانچہ جس طرح ان رواۃ کا ان کتب میں ہونے کے باوجود ضعیف ہونا مسلمہ امر ہے اسی طرح بکر بن سھل کا فقط ان کتب میں ہونا اس کی مطلق توثیق کی دلیل نہیں ہو سکتی ہے اس کی مطلق توثیق کسی محدث نے نہیں کی ہے جبکہ اس کے مقابلے پر متعدد محدثین نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے اور اس کی منفردات کو ضعیف قرار دیا ہےچنانچہ ابو یحیٰی نور پوری کا بکر بن سھل کی اس منفرد روایت کو صحیح کہنا قطعی غلط ہے۔
آخر میں موصوف سے یہ عرض کردیں کہ یہ روایت صحیح حدیث سے ٹکرانے اور درایت کے اصول پر بھی غلط ہے کیونکہ اس روایت کے مطابق عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ حق کے ساتھ فیصلہ کرنے والا نہ دیکھا جبکہ علی رضی اللہ عنہ احادیث کے نصوص سے خلیفہ راشد ہیں توکیا خلیفہ راشد انصاف سے فیصلہ نہیں کرتا تھا یا معاویہ رضی اللہ عنہ سے کم منصف تھے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق خلفاء راشدیں کی تحسین متعدد احادیث میں موجود ہے تو جن خلفاء نے منھج علی النبوۃ کی طرز خلافت قائم کی ہو وہ زیادہ منصف نہ ہوں یہ کیسے ممکن ہے اس لئے یہ ناصبی افکار کے حاملین کی روایت معلوم ہوتی ہے جس میں علی رضی اللہ عنہ کو غیر منصف ثابت کرنے اور ان کو معاویہ رضی اللہ عنہ سے کم تر بتانے کی کوشش کی گئی ہے جو واقعتا ناصبی افکار کی ترجمانی کر رہی ہے۔
ابو مالک الاشعجی کےسالم بن عبید سے سماع کا موصوف انکار کرتے ہیں اور اس کا ثبوت مانگ رہے ہیں جبکہ تاریخ الحلب میں ہی اس کا ثبوت موجود ہے کہ سالم بن عبید رضی اللہ عنہ سے تلامذہ میں ابو مالک الاشعجی کا نام موجود ہےاس کے بعد اب موصوف کو چاہیے کہ وہ صریح نصوص سے اس میں انقطاع پیش کریں وگرنہ یہ روایت یزید بن الاصم والی روایت کی شاہد ہے۔
آخر میں اسحاق بن راھویہ کا قول مجھے واقعی کسی صحیح سند سے نہیں ملا اور واقعی اسحاق بن راھویہ سے یہ قول ثابت نہیں ہےاور72 شہداء کربلا والی روایت میں نے صحیح تاریخ طبری سے نقل کی تھی۔
ان تمام اعتراضات اور ان کے ان جوابات کا مقصود نہ شہرت ہے اور نہ نمود ونمائش ہے اللہ اس سے محفوظ رکھے(آمین) کیونکہ شہرت وہ حاصل کرنا چاہے گا جس کو لوگ جانتے اور پہچانتے ہوں مجھے تو میرے حلقہ احباب میں لوگ اس حوالے سے نہیں جانتے نہ میں نے کبھی بتایا ہے میرا مقصد اور پیغام فقط یہی ہے کہ اس علم الحدیث جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے اہل الحدیث کے ہاتھوں میںدے رکھی ہے اس کو منھج محدثین کے مطابق لےکر چلیں اوراس ذمہ داری کو امانت داری اور دیانت سے سر انجام دیں اللہ کے لئےکسی بھی نیک مقصد کے لئے اس کو بدنام نہ کریں کیونکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم محمفوظ ہے اور رہی گی مگر پھر شاید اللہ یہ ذمہ داری ہم سے لے کر کسی اور کے سپرد نہ کردے اللہ ہم سب کو اس کی حفاظت میں حصہ دار بنائے آمین۔
 

Talha Salafi

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2018
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
28
@عامر عدنان بھائی جب سے شیخ ابو یحییٰ نورپوری حفظہ اللہ نے یہ جواب لکھا ہے، تب سے کوئی جواب نہیں آیا ہے مرزا رافضی کی طرف سے
 
Top