• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اتباعِ سنت کی اہمیت اور جشن میلاد ؟

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اتباعِ سنت کی اہمیت اور جشن میلاد ؟

بیت اﷲ الحرام میں تاریخی خطبہ​
ڈاکٹر شیخ عبدالرحمن سدیس
ترجمہ :حافظ انس مدنی
حمد و صلوٰۃ کے بعد !
مسلمان بھائیو! اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرو کہ اُس نے تم ہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو تم پر اُس کی آیات تلاوت کرتا، تمہیں پاک صاف کرتااور تمہیں کتاب و حکمت اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اُس نعمت کو عملی جامہ پہناؤ کہ نبی مکرم رسولِ معظمﷺ کی سنت کی اتباع بجا لاؤ، ان کے بتائے ہوئے طریقے پرچلو، ان کی لائی ہوئی شریعت پر گامزن رہو اور خواہشات و نفسیات کے مارے ہوئے لوگوں نے جو بدعات و منکرات ایجاد کررکھی ہیں، ان سے کنارہ کشی اختیار کرو۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
برادرانِ اسلام !
رسول اللہﷺ کی اطاعت و تابعداری اور آپﷺ کی سنت کو مضبوطی سے تھام لینے کے بارے میں احکامات کثرت سے قرآن و حدیث میں وارد ہوئے ہیں، یہ سب کے سب صریح اور واضح نصوص ہیں جو آپﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری اور بلاچوں و چراں سرآفندگی و سپردگی پہ دلالت کرتی ہیں اور کسی طرح بھی ان سے سرموانحراف کی گنجائش نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا أَطِیْعُوْا اﷲَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْہٗ وَأنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ ‘‘ (الانفال :۲۰)
’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول کاکہنا مانو اور اس سے روگردانی نہ کرو حالانکہ تم سن رہے ہو۔‘‘
نیز فرمایا:
’’ وَأَطِیْعُوْا اﷲَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ‘‘ (آل عمران :۱۳۲)
’’اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرادری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
نیز فرمایا:
’’ وَمَا اٰ تَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھَاکُمْ عَنْہٗ فَانْتَھُوْا ‘‘ (الحشر :۷)
’’اور تمہیں جو کچھ رسول دے ،لے لو اور جس سے روکے رُک جاؤ‘‘
نیز ارشاد فرمایا:
’’ قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِيْ یُحْبِبْکُمُ اﷲُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ‘‘(آل عمران:۳۱)
’’کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘
پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ رسول اللہ ﷺ سے بدظنی اور آپﷺ کی شانِ عقیدت میں گستاخی کی ناعاقبت اندیشی سے ڈراتے ہیں، خواہ رسول ﷺ کی زندگی میں سرزد ہو، یا آپﷺ کی وفات کے بعد آپ کے دائرہ سنت میں اس طرح کہ
آپ کی سنت کو پس پشت ڈال کر کسی اور طریقہ کو اوّلیت و فوقیت دی جائے یا کسی سنت ِمطہرہ کی مخالفت کی جائے یا آپﷺ کے ارشادات کے مقابلہ میں عناد و تعصب برتا جائے، دین میں بدعات کا دروازہ کھولا جائے اور اس کے فروغ کی کاوشیں کی جائیں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
’’ یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَيِ اﷲِ وَرَسُوْلِہِ وَاتَّقُوْا اﷲَ إنَّ اﷲَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا أصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ‘‘ (الحجرات :۱،۲)
’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسولﷺسے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقینا اللہ تعالیٰ سننے جاننے والاہے، اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ اس سے اونچی آواز میں بات کرو، جیسے ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال اِکارت جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کی نافرمانی اور آپﷺ کی سنت کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ان کے بُرے انجام سے آگاہ کردیا ہے۔ فرمایا:
’’ وَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِہِ أنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ أوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ ‘‘ (النور :۶۳)
’’سنو! جو لوگ حکم رسولﷺ کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں کوئی دُکھ کی مار نہ پڑے۔ ‘‘
اسی طرح رسول ﷺ کی اطاعت و اتباع کی خلاف ورزی خواہ زندگی میں ایک بار ہی کیوں نہ ہو، کو کھلی گمراہی اور دین میں انحراف کے مترادف قرا ردیا ہے جوبلا شبہ نعمت ِایمان کے فقدان اور اس کے زوال کا موجب ہے۔ فرمایا:
’’ وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ إذَا قَضَی اﷲُ وَرَسُوْلُہٗ أمْرًا أنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أمْرِھِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اﷲَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِیْنًا ‘‘
’’اور کسی مسلمان مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے بعد کسی امر کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے، وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔‘‘ (الاحزاب:۳۶)
نیز فرمایا:
’’ فَلَا وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حتیّٰ یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِيْ أَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ‘‘ ( النساء :۶۵)
’’سو قسم ہے تیرے پروردگار کی یہ ایماندار نہیںہوسکتے جب تک آپس کے تمام اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں۔ پھر جو فیصلہ آپ ان میں کردیں، اس سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔‘‘
نیز فرمایا:
’’ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہٗ إِلَی اﷲِ وَالرَّسُوْلِ إنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الٰاخِرِ ‘‘ (النساء :۵۹)
’’اگرکسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
احادیث ِ مبارکہ کے بیش بہا ذخیرے بھی ان دلائل و احکامات سے بھرے پڑے ہیں۔ رسول اللہﷺ کی ایک حدیث کا ٹکڑا ملاحظہ فرمائیے ، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:
’’ فمن رغب عن سنتی فلیس منی ‘‘ (صحیح بخاری:۱۸۲۸)
’’جس نے میری سنت سے اعراض وپہلو تہی برتی، وہ مجھ سے نہیں۔‘‘
نیز سیدنا عرباض بن ساریہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’ إنہ من یعش منکم فسیرٰی اختلافا کثیرا فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین عضوا علیھا بالنواجد وإیاکم و محدثات الأمور فان کل بدعۃ ضلالۃ ‘‘ (سنن ابوداؤد :۴۶۰۷ وجامع ترمذی:۲۶۷۶)
’’تم میں جو شخص زندہ رہا تو وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور خلفاے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھام لو، اور اپنے دانتوں سے اس پر اپنی گرفت مضبوط کر لو اور دین میں نت نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچو کیونکہ ہربدعت (من گھڑت کام) گمراہی ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
برادرانِ اسلام!
کتاب و سنت کے ان مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں کو سنت ِنبویﷺ سے وابستہ رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور دین میں نئی نئی باتیں، جن کا اس دین سے کوئی تعلق نہیں، کو اختیار و ایجاد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ برابر اپنے خطبوں میں سنت پر گامزن رہنے اور بدعات سے پرہیز کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ آپﷺ نے اپنے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا:
’’ أما بعد فإن خیر الحدیث کتاب اﷲ وخیر الھدي ھدي محمد ﷺ وشر الأمور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلـٰلۃ ‘‘ (صحیح مسلم:۸۶۷)
’’سب سے بہتر بات اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہترین طریقہ رسولﷺ کا طریقہ اور سب سے بدترین کام نئی نئی چیزوں کی اختراع ہے اور ہر نئی بات گمراہی ہے۔‘‘
نیز سیدہ عائشہؓ صدیقیہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھورد ‘‘ (صحیح بخاری:۲۶۹۷ )
’’جس نے ہمارے اس دین میں نئی بات پیدا کی جس کا اس سے تعلق نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘
اس سلسلہ میں سلف صالحین کے ایسے نقوشِ پا موجود ہیں جو قرونِ اولیٰ کے بہترین طرزِعمل کی وضاحت کرتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے ہر زبان و مکان میں بہترین کردار اور اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ انہی سے اپنے دوشِ زندگی اور اپنے کردار و خیالات کی راہ متعین کریں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:
’’اتباع و تابعداری کرتے رہو اور نئی نئی باتیں مت گڑھو، یہی تمہارے لئے کافی ہے۔‘‘
نیز آپؓ نے ارشاد فرمایا:
’’سنت ِرسول پہ اکتفا کرلینا کہیں بہتر ہے اس سے کہ بدعات کی ترویج کے لئے آدمی کوشاں ہو۔‘‘
سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں:
’’لوگوں پہ کوئی سال ایسا نہ گزرے گا جس میں وہ کوئی بدعت ایجاد نہ کریں گے اور کسی سنت کو مردہ کرچکے ہوں گے۔ یہاں تک کہ بدعتیں زندہ وپائندہ ہوتی رہیں گی اور سنتیں مردہ ہوتی چلی جائیں گی۔‘‘ (المعجم الکبیراز امام طبرانی :۱۰؍۳۱۹)
سیدنا حذیفہؓ فرماتے ہیں:
’’ہر نئی بات گمراہی ہے خواہ لوگ اسے حسنات میں شمار کیوں نہ کریں۔‘‘
سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ فرماتے ہیں:
’’رسول اللہﷺ اور آپ کے بعد آپ کے خلفا نے سنت پہ ثابت قدم رہ کربتلا دیا کہ اس کی پابندی درحقیقت قرآنِ مجید کی تصدیق، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور دین ِمتین کو تقویت پہنچانا ہے۔ جو اس پر عمل پیرا ہو، وہ راہ یاب ہے، جس نے اس سے مدد چاہی وہ فائز المرام ہے اور جو اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگیا، اس نے مؤمنین، صالحین و کاملین سے بغاوت کی راہ اختیار کی، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو منہ کی کھلائے گا اور جہنم رسید کرے گا۔‘‘
امام مالک ؒ فرماتے ہیں :
’’اس امت کے متاخرین کی اصلاح و کامیابی صرف اس طریقہ پر ہوگی جس پر چل کر قرونِ اولیٰ کے مسلمان کامیاب و راہ یاب ہوئے۔‘‘ (الاعتصام از امام شاطبی:۱؍۴۹)
بعض بزرگوں سے یہ قول منقول ہے کہ
’’ مخلوق ُاللہ کے لئے تمام راستے بند ہیں، صرف ایک ہی راستہ ہے کہ رسول اللہﷺ کے نقش ِقدم کی پیروی کی جائے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
میرے دینی بھائیو!
جب دین و مذہب پر غربت و اجنبیت طاری ہے، جب اس کے اعوان و انصار کی قلت ہوگئی، جب دشمنانِ دین کی تعداد فزوں تر ہوگئی، جب اہل ایمان ویقین تہی دامن و تہی دست ہوگئے اور دین سے بیزار ہوکر گریز کی راہ اپنالی، جب داعیانِ سوء اور اربابِ بدعات و خرافات کی کثرت ہوگئی تو حالات میں ایک تغیر رونما ہوگیا۔ معرو ف نے منکر کا روپ دھار لیا اور سنت کو بدعت اور بدعت کو سنت کا نام دے دیا گیا۔ پھر تو بدعات لوگوں میں رواج پذیر ہوگئیں، ان کے دل و دماغ اور ان کے قلوب و اذہان میں سرایت کرگئیں، جیسے جسم میں خون کی آمیزش ہوجاتی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
برادرانِ اسلام!
آج دین میں نئی نئی باتوں کا رواج بڑھتا جارہا ہے، جن سے لوگوں کے خیالات و افکار متاثر ہورہے ہیں، اور یہ خیالات دل و دماغ میں راسخ و پیوست ہوتے جارہے ہیں۔ جن پربلا شبہ معروف وحسنات کا لبادہ ڈال دیا گیا ہے۔ یہ وہ اعمال ہیں جنہیں وہ ربیع الاوّل کے مہینے میں انجام دیتے ہیں، جلسے جلوس اور محفلیں منعقد کرتے ہیں، جن کے جواز کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ میں کوئی دلیل نہیں۔ ان جلسے، جلوسوں اور محفلوں کو وہ ’میلاد النبیﷺ‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
بعض نے تو حد کردی کہ وہ اس مہینہ میں خاص طور پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا بالقصد رخت ِسفر باندھتے ہیں کہ وہ جناب محمدرسول اللہﷺ کا تقرب حاصل کریں۔ یہ حضرات بڑے زعم و فریب میں مبتلا ہیں جب کہ ان کے پاس افعال و اعمال کے لئے کوئی سند ودلیل نہیں ۔
یہ وہ تخصیص ہے جس کے لئے وہ کوئی ثبوت و شہادت نہیں پیش کرسکتے:
’’ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ إنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ‘‘ (البقرۃ:۱۱۱)
’’آپ ان سے کہئے: کہ اگر اس دعویٰ میں سچے ہو تو کوئی دلیل پیش کرو۔‘‘
ربیع الاول کے اس مہینہ یا اس کے بعض دنوں کو مجالس و محافل کے لئے خصوصیت سے اپنا لینا مندرجہ ذیل امور کی بنا پر شرعاً صحیح نہیں ہے:
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اوّلاً:
یہ دین میں ایک نئی ایجاد ہے، اس لئے کہ یہ نہ تو خود رسول اللہﷺ کا عمل ہے، نہ ہی خلفاے راشدین، دیگر صحابہ کرامؓ، تبع تابعین اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں میں سے کسی نے ایسا کیا۔ حالانکہ یہ حضرات سنت ِرسولﷺ کے سب سے زیادہ پابند و شناسا، آپﷺ کی محبت میں سب سے زیادہ سرشار اور آ پﷺ کی شریعت کے سب سے زیادہ تابعدار و فرمانبردار تھے۔ لہٰذا ہم بعد کے مسلمانوں کے لئے بھی اتنی ہی کی گنجائش ہے جس قدر گنجائش اُنہوں نے روا رکھی، اگر یہ طرزِعمل خیر کا باعث ہوتا تو وہ یقینا اس میں ہم سے پہل کرچکے ہوتے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ثانیاً:
مذکورہ بالا آیاتِ قرآنیہ اور احادیث ِ شریفہ کی روشنی میں یہ بات ظاہرو باہر ہوچکی ہے کہ رسول اللہﷺ کی اطاعت واجب، آپﷺ کی سنت کی پیروی ضروری اور ابتداع فی الدین سے پرہیز و اجتناب لازم ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ثالثاً :
اللہ تبارک و تعالیٰ نے دین کی تکمیل فرما دی اور اللہ کے رسولﷺ نے من وعن اللہ کا پیغام واضح انداز میں لوگوں تک پہنچا دیا۔ اب میلاد النبیﷺ کے نام سے دین میں اختراع گویا اس بات کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے معاذ اللہ دین کی تکمیل نہیں فرمائی اور اللہ کے رسولﷺ نے پیغامِ الٰہی کی تبلیغ میں کوتاہی برتی تاآنکہ چھٹی صدی ہجری میں متاخرین اور ان کے بعد کچھ دوسرے لوگ پیدا ہوئے اور اُنہوں نے شریعت ِالٰہی میں اپنی طرف سے کچھ نئی چیزیں شامل کرلیں۔
حالانکہ ان کے پاس نہ کوئی دلیل ہے نہ کوئی ثبوت، اور نہ ہی احکامِ الٰہی کو ان کی بدعات سے کوئی واسطہ، بالائے ستم یہ کہ وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ یہ محافل تقرب الیٰ اللہ کا ذریعہ ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ کی شان میں بے باکانہ اعتراض کی یہ جرات لاحاصل اور تبلیغ رسالت ِمحمدی 1 کی ان تھک کوششوں کے آگے مجنونانہ گستاخی نہیں؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رابعاً:
اس طرح کی محفلوں اور اجتماعات کا انعقاد جادۂ حق سے بغاوت کی علامت اور یہود و نصاریٰ کے اعیاد و مراسم کی نقل ہے، حالانکہ ہمیں اہل کتاب سے مشابہت اور ان کے طریقوں کی نقل سے روکا گیا ہے۔
 
Top