• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اتّحاد کا عوامی اور شرعی مفہوم؛ ایک موازنہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اتحاد کے شرعی مفہوم سے ماخوذ نکات

اتحاد کے شرعی مفہوم کے تحت حسبِ ذیل نکات آتے ہیں:

1. مذکورہ آیات میں الّف کے الفاظ ہیں۔ یہ لفظ 'تالیف'سے ہے جس کے معنیٰ جوڑنے کے ہیں۔جب اس کے ساتھ 'قلوب' کا لفظ آ ئے گا تو اس سے مراد یہ ہو گا کہ دل باہم جڑے ہوئے ہوں۔ دلوں میں نفرت نام کی چیز نہ ہو، اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی ہو۔گویا وہ اتحاد اتحاد نہیں ہے جس میں دل جدا جدا ہوں کیونکہ جب دیواروں میں دراڑیں پڑ جائیں تو دیواریں گر جاتی ہیں اور دلوں میں دراڑیں آ جائیں تو دیواریں بن جاتی ہیں۔

2. 'اعتصموا' کا قرآنی لفظ بھی اپنے اندر بہت جامعیت رکھتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللّٰہ کی رسّی کو ایسی مضبوطی سے تھام لیا جائے کہ گرنے کا یا راہ سے ہٹنے کا خدشہ نہ رہے کیونکہ اعتصام کے حقیقی معنیٰ رُک جانے اور بچ جانے کے ہیں۔

آپ اگر اپنے بچاؤ کےلیے کسی رسّی کو تھامتے ہیں تو اسے کس قدر مضبوطی سے پکڑیں گے!! آپ کے سر پر خطرہ منڈلاتا رہے گا کہ یہ رسی چھوٹی نہیں اور میں گرا نہیں۔ ایسے حالات میں لمحہ بھر کے لیے بھی آپ اس رسی کو چھوڑنا گوارا نہیں کرتے۔ اسی طرح فرقہ بندی کے گڑھے میں انسان اسی وقت گر سکتا ہے جب اس نے اللّٰہ کی رسی کو مضبوطی سے نہ تھاما ہو۔ انسان کے تحفظ اور بچاؤ کے لیے صرف ایک ہی رسی ہے اور وہ 'حبل اللّٰہ' ہے۔

اسے تھامنے کے لیے اپنے ہاتھ بالکل خالی کرنے پڑتے ہیں۔ اگر پہلے سے ہاتھ میں کچھ ہو گا تو اس رسّی پر گرفت اسی قدر کمزور ہوتی چلی جائے گی اور اس رسی کے چھوٹنے کا خدشہ بڑھ جائے گا اور اتحاد اسی صورت میں ممکن ہے جب سب لوگ اپنی اپنی رسیاں اور اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چیزیں چھوڑ کر، انہیں توڑ کر صرف اس رسّی کو تھام لیں گے۔ جو اس رسی سے منسلک ہو گیا وہ اتحاد کا داعی ہے اور امن کا خوگر ہے، جو اس سے وابستہ نہیں ہوا وہ لاکھ کہے مگر وہ اپنے دعوے میں سچا نہیں ہو گا۔ حدیث مبارکہ میں قرآنِ مجید کو واضح طور پر اللّٰہ کی رسی قرار دیا گیا ہے۔9

جو مسلمان اسے تھامے ہوئے ہیں، وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوں اور کسی بھی رنگ ونسل سے تعلق رکھتے ہوں وہ متحد سمجھے جائیں گے، خواہ ان پر کوئی لیبل نہ بھی لگا ہو، اس کے برعکس ظاہری طور پر ایک ہی جماعت سے منسلک لوگ اگر 'حبل اللّٰہ ' کو نہیں تھامتے تو قرآن کی رو سے وہ متحد نہیں ہیں بلکہ 'مفترق' (بکھرے ہوئے) ہیں۔

اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ اتحاد برائے اتحاد کوئی شرعی تقاضا نہیں، کہ کسی بھی نظریاتی وحدت کے بغیر برائے نام اتحاد کرلیا جائے، بلکہ اس اتحاد کا ایک مرکزومحور ہے جو قرآن وسنت ، اللّٰہ کی شریعت، اور حبل اللّٰہ یعنی اللّٰہ کی رسی ہے۔اور یہی بات قرآن مجید اور نبی کریمﷺ نے فرمائی ہے جیسا کہ ﴿وَاعْتَصِمُوْا بحَبْلِ اللهِ﴾ سے واضح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3. وہی شرعی اتحاد کہلائے گا جس میں «مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي»9 کے ضابطے کا خیال رکھا جائے گا۔

4. سابقہ قوموں میں اختلاف اس وقت رونما ہوا جب اُنہیں علم سے نوازاگیا۔ اللّٰہ نے فرمایا: ﴿وَمَا تَفَرَّقُوْۤا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ ﴾
''اور وہ آپس میں جدا جدا نہیں ہوئے مگر اس کےبعد جب ان کے پاس علم آ گیا۔''

ہونا تویہ چاہیے تھا کہ علم کی وجہ سے اختلاف وافتراق ختم ہو مگر راستے سے ہٹی قوموں نے اسے ہی افتراق و انتشار کا باعث بنا لیا اور اُمتِ مسلمہ بھی ان کی پیروی میں کسی سے کم نہیں۔گویا خود ساختہ ، انسانی نظریات مفادات کے سانچوں کے ڈھلے ہوتے ہیں، ان کی بنا پر کبھی حقیقی اتحاد نہیں ہوسکتا۔

5. قرآن مجید میں باہمی افتراق اور فرقہ بندی کے لیے 'تفرق' کا مادہ استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ ہیں جان بوجھ کر جدا جدا ہونا،جدا ہونے کے لیے کوشش کرنا،دلائل تلاش کرنا،عصبیت کو ابھارنا اور مختلف فیہ امور کو ہوا دینا۔ مگر آپﷺ کے سامنے جب بھی کوئی ایسی بات آئی جس میں گروہ بندی کا یا باہمی اختلاف کا خدشہ تھا تو آپﷺ نے سختی سے منع فرمایا۔ پیچھے گزر چکا ہے کہ سیدنا عبد اللّٰہ بن مسعودؓ نے کسی شخص سے قراءت سنی تو وہ اس سے مختلف تھی جو آپﷺ سے عبد اللّٰہ بن مسعودؓ نے خود سنی تھی۔ عبد اللّٰہ بن مسعودؓ نے اس شخص کو آپﷺ کی خدمت میں لے آئے۔ کہتے ہیں کہ میں نے یہ معاملہ آپ کے گوش گزار کیا تو آپ کے چہرہ انور پر ناپسندیدگی کے آثار نمایاں ہونے لگے اور فرمانے لگے:

«كِلَا كُمَا مُحْسِنٌ وَلَا تَخْتَلِفُوْا فَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ اخْتَلَفُوْا فَهَلَكُوْا»10
''تم دونوں ہی ٹھیک پڑھ رہے ہو اور آپس میں اختلاف نہ کیا کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں نے بھی باہمی اختلاف کیا تو وہ ہلاکت سے دوچار ہو گے۔''

یہ تو الفاظ کا فرق تھا اور دونوں قراءتیں آپﷺ ہی نے پڑھائی تھیں، پھر بھی اس قدر متنبہ فرمایا تو کیا خیال ہے جو مفہوم کے فرق سے آپس میں جدا جدا ہو جاتے ہیں اور اسے ہوا دیتے ہیں اور نفرتوں کے بیج بوتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6. آپ احادیث پڑھ چکے ہیں کہ نبی ﷺ نے صحابہ کرام کو وقتی طور پر بھی علیحدہ علیحدہ بیٹھنے کو مناسب نہیں سمجھا۔ ایک ہی مسجد ہے،ایک ہی ذہن کے لوگ ہیں اور ایک ہی عمل کو اختیار کرنے والے ہیں۔ درمیان میں کوئی دیوار نہیں کھڑی کی،ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی نہیں ہے۔ نہ دلائل کا تبادلہ نہ مناظرے کا خیال، نہ مجادلہ کی کیفیت...!!!

لیکن آپﷺ نے فرمایا: «مَالِيْ أَرَاكُمْ عِزِيْنَ»11 ''مجھے کیا ہے کہ میں تمہیں بکھرا ہوا دیکھ رہا ہوں۔'' ہمارا فسادِ فکر ونظر یہ ہے کہ افتراق وانتشار پیدا کرنے والی ہر چیز کو سرفہرست رکھ کر اسے ہی عین اسلام سمجھا جانے لگا ہے۔

7. جب قرآن مجید کے بیان کردہ اتحاد واتفاق اور اخوت کے مفہوم میں دلوں کا ملنا ضروری ہے تو پھر دل سے متعلقہ تمام معاملات کا متفق ہونا ضروری ہے۔ مثلاً دل ایک ہے تو فکر بھی ایک ہو، سوچ بھی ایک ہو۔ یہ کوئی ایسا جمگھٹا یا ظاہری اکٹھ نہ ہو کہ لوگ تو ایک جگہ جمع نظر آئیں مگر افکار ونظریات ایک دوسرے کے مخالف ہوں۔قرآن مجید میں اللّٰہ تعالیٰ نے دوسری اقوام کے ذکر میں فرمایا ہے: ﴿بَأسُهُم بَينَهُم شَديدٌ ۚ تَحسَبُهُم جَميعًا وَقُلوبُهُم شَتّىٰ... ﴿١٤... سورة الحشر
''انکی آپس میں شدید لڑائی ہے۔ آپ انہیں اکٹھا سمجھتے ہیں، جبکہ ان کے دل مختلف ہیں۔''

قرآنِ مجید بالکل عیاں طور پر ایسی جمعیت یا پلیٹ فارم کی نفی کر رہا ہے جو محض جسموں کو جمع کرنے کے لیے وجود میں آئے جبکہ ان کی فکر جدا جدا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
8. یہ دوریاں اورگروہ بندیاں بلاشبہ نبی کریمﷺ کی شدید ناراضی کا سبب اورشیطان کی طرف سے ہیں۔

9. گروہ بندی یا تفرقہ بازی کرنے والا وہ ہے جو صحیح اسلام سے ہٹ کر کوئی نیا تصور دیتا ہے اور نئی جماعت اور نیا پلیٹ فارم بناتا ہے۔ جو بغیر کسی لیبل کے اصل اسلام کو اپنائے ہوئے ہے، وہ گروہ بندی میں نہیں آتا۔اور اصل اسلام کی وضاحت گزشتہ احادیث میں گزر چکی ہے کہ جو نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ کے راستے پر گامزن ہیں، وہی الجماعۃ اورجماعتِ ناجیہ ہیں۔

بہت سے لوگ ایک خاص نقطہ نظر کے حامل اور خاص طریقے سے عمل کرنے والے ہوتے ہیں مگر وہ اپنے طور پر بڑے خوش ہوتے ہیں کہ ہم کسی گروہ میں نہیں۔ایسی سوچ ان کے راہ حق پر ہونے کی دلیل نہیں ہے، بلکہ جادہ حق ، کتاب وسنت کی اتباع ہی ہے۔

10. فرقہ بندی عموماً دینی معاملات میں سامنے آتی ہے، اس لیے دین میں افتراق کو ناجائز کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ سیاسی وسماجی سطح پر جتنے مرضی گروہ بنا لیے جائیں۔ آپﷺ نے مسلمانوں کو چند لمحوں کے لیے بھی علیحدہ بیٹھنے کو نامناسب سمجھا ہے۔تاہم مختلف مقاصد کے لیے مختلف افراد متوجہ ویکسو ہوکر سماجی جدوجہد کرسکتے ہیں، اور ایسی تحریکوں کا باہمی تعلق ایک دوسرے کی تائید اور محبت واپنائیت کا ہونا چاہیے، وہ سب اللّٰہ کے راستے کے راہی اور حبل اللّٰہ سے منسلک ہیں، باہمی افتراق اور تعصّبات پراُنہیں کسی طور گامزن ہونے سے بچنا ہوگا۔

11. مسلمانوں کا باہمی تعلق محبت اخوت سے سرشار ہو۔ یہ نہ ہو کہ ایک طرف اتحاد بین المسلمین کے نعرے ہوں اور دوسری طرف اغیار کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی بیخ کنی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوں۔اس رویے کو اہل اسلام کی دینی قیادت کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت یعنی حکمرانوں کو بھی اختیار کرنا ہوگا۔کہ وہ ملکوں کے نام پر ملت اسلامیہ کے مفادات کی بجائے اپنے اپنے مفادات کے اسیر بن جائیں اور اس طرح افتراق کو قائم کردیں، تو یہ رویے بھی سراسر غلط ہیں۔

12. افتراق کا زیادہ تر باعث باہمی عناد، ضد اورہٹ دھرمی بنتی ہے، مسلمان کو ہردم اپنی اصلاح کے لئے آمادہ ہونا چاہیے۔کسی کے پاس حق پر ہونے کی اس کے سوا کوئی دلیل نہیں کہ وہ قرآن وسنت پر قائم اور عمل پیرا ہو۔

13. اتحاد واتفاق اللّٰہ کی نعمت ہے، اسکے حصول کے تقاضے پوری یکسوئی سے پورے کرنے چاہئیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اتحاد کے ثمرات

یہ وہ شرعی اتحاد ہے جس کے فوائد وثمرات حسبِ ذیل ہیں:

1. مسلمان کامل متحد ہوں تو ان کے خلاف کفار سازشیں ناکام ہوتی ہیں۔

2. اللّٰہ کی رحمت برستی اور برکت بسیرا کر لیتی ہے۔

3. مسلمان ایک طاقت بن جاتے ہیں جن کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں رہتا۔

4. اتحاد کی حقیقی کاوش کرنے سے ایک مسلمان ایک وقت میں بہت سی آیات اور احادیث پر عمل کر رہا ہوتا ہے۔ جس کا اجر اسے یقینی طور پر ملے گا، اسی طرح وہ قرآن وسنت کی مخالفت سے بھی بچ جاتا ہے۔

5. مسلمانوں کی ہر قسم کی صلاحیتیں اپنوں کے بجائے بیگانوں کے خلاف استعمال ہوتی ہیں۔

6. مسلم معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن جاتا ہے۔ امن وآشتی کی ہوائیں چلتی ہیں اور پیار ومحبت کی فضا قائم ہوتی ہے۔

7. مسلمان ایک دوسرے کے دست وبازو بن جاتے ہیں۔

8. ایثار کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔

اللّٰہ تعالیٰ ہم کو صحیح اسلامی اتحاد کے لیے کوششیں کرنے اور اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے۔ آمین!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حوالہ جات

1. صحیح مسلم:2890
2. صحيح مسلم: حدیث نمبر 240، باب وجوب ايمان اہل الكتاب برسالۃ الاسلام
3. صحیح بخاری: 3289
4. صحیح مسلم: 1000
5. صحیح مسلم: 430
6. سنن ابی داؤد:2628
7. سنن ابی داؤد:4597
8. جامع ترمذی: 2641 ، باب ماجاء فی افتراق الامۃ قال الالبانی: حسن
9. صحیح مسلم: 2408
10. جامع ترمذی: 2641 ، باب ماجاء فی افتراق الامۃ قال الالبانی: حسن
11. صحیح بخاری: 3289
12. صحیح مسلم: 430
 
Top