• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اجماع ! صحیح بخاری قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب ہے !!!

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
جزاک اللہ خیرا۔ بہت ہی عمدہ مضمون ہے اور کافی دن بعد کوئی تحقیقی چیز پڑھنے کو ملی ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

باقی اس سلسلے میں جو آپ نے فرمایا تو امام شافعیؒ کے قول کے مطابق مسئلہ ایسا واضح اور مشہور ہونا چاہیے کہ جس عالم سے بھی پوچھا جائے تو اس کا ایک ہی جواب ملے۔
جب کہ یہاں ہم اپنے مسئلے کو دیکھتے ہیں تو بخاری کی روایات کے صحیح ہونے کا مسئلہ تو ہمیں ایسا معلوم ہوتا ہے لیکن بخاری کے کتاب اللہ کے بعد دنیا کی تمام کتابوں سے زیادہ صحیح ہونے کا مسئلہ ہمیں ایسا معلوم نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو کم از کم کوئی ایک شخص یا کوئی ایک عالم تو اس کی صراحت کرتا۔ جن علماء نے بھی صراحت کی انہوں نے صحت کی کی ہے لیکن یہ دعوی کسی نے نہیں کیا کہ کتاب اللہ کے بعد اس سے زیادہ صحیح کتاب روئے زمین پر کوئی نہیں ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ سمجھ بھی آتی ہے۔ اس زمانے میں کتب مدون ہو رہی تھیں اس لیے یہ عین ممکن تھا کہ کوئی اس سے بھی زیادہ صحیح سندوں پر مشتمل کتاب مدون کر لے اس لیے یہ دعوی تقریبا نا ممکن تھا۔ ابن صلاح کا زمانہ چھٹی صدی ہجری کا ہے۔ جب کہ چوتھی صدی سے تدوین کتب کا کام ہمیں انتہائی کم نظر آتا ہے اور اس کے مقابلے میں جمع بین الکتب اور اصول حدیث و جرح و تعدیل کا کام زیادہ نظر آتا ہے۔ اس لیے چھٹی صدی تک پہنچتے پہنچتے ابن صلاح کے زمانے کے علماء کے لیے غالبا یہ واضح ہو گیا تھا کہ اب اس کے بعد اپنی اسناد سے اس سے زیادہ صحیح کتاب لکھنا ممکن نہیں تو انہوں نے اس پر اجماع کا دعوی کیا۔
ہماری اس بات کی تائید اس سے بھی ملتی ہے کہ دارقطنی وغیرہ نے بخاری کی بعض احادیث پر نقد کیا ہے۔ اگرچہ اس کا بعد میں جواب دے دیا گیا لیکن اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ناقدین کے ہاں بخاری کو قرآن کے بعد اصح کہنے کا تصور نہیں تھا بلکہ بعض حدیثوں میں صحیح کہنا بھی ان کے ہاں محل نظر تھا۔ ان کے اس نقد کی موجودگی میں ان کے زمانے میں اجماع کا وجود تو ہو نہیں سکتا قطعی طور پر۔
ہذا ما ظہر لی۔ واللہ اعلم
متقدمین علماء نے صحیح بخاری کے صحیح ترین ہونے کی صراحت کی لیکن یہ بات درست ہے کہ ان الفاظ میں نہیں کی جن کا آپ کا تقاضا کر رہے ہیں یعنی اصح الکتب بعد کتاب اللہ۔ اور دوسری بات یہ کہ بعض روایات پر نقد کا موجود ہونا اس کے اصح ہونے کے منافی نہیں ہے۔ اصح کا مطلب یہ ہے کہ کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین نہ کہ جس پر نقد نہ ہوئی ہو۔ نقد تو قرآن پر بھی ہوئی ہے اور حدیث سے زیادہ ہوئی ہے۔ مستشرقین نے بہت زیادہ کی ہے لیکن اہل علم نے اس کا جواب دیا ہے۔ اس پر راقم نے اسلام اور مستشرقین کے نام سے ایک کتاب مرتب کی ہے جو عنقریب شائع ہو جائے گی۔ نقد ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ہاں، البتہ علمی مکالمے میں نقد کو ثابت کر دکھانا کچھ معنی رکھتا ہے۔

اس بات کو یوں بھی بیان کروں گا کہ متقدمین میں صحیح بخاری کے علاوہ صحیح مسلم کے بارے اصح ہونے کا دعوی کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ میرے علم میں کسی کتاب کے بارے یہ دعوی موجود نہیں ہے۔ اب صحیح مسلم کی جن روایات پر نقد ہوئی ہے، ان کی تعداد صحیح بخاری کی ان روایات سے زیادہ ہے کہ جن پر نقد ہوئی ہے لہذا نقد کے بعد بھی صحیح ترین کتاب بخاری ہی رہی۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
متقدمین علماء نے صحیح بخاری کے صحیح ترین ہونے کی صراحت کی لیکن یہ بات درست ہے کہ ان الفاظ میں نہیں کی جن کا آپ کا تقاضا کر رہے ہیں یعنی اصح الکتب بعد کتاب اللہ۔ اور دوسری بات یہ کہ بعض روایات پر نقد کا موجود ہونا اس کے اصح ہونے کے منافی نہیں ہے۔ اصح کا مطلب یہ ہے کہ کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین نہ کہ جس پر نقد نہ ہوئی ہو۔ نقد تو قرآن پر بھی ہوئی ہے اور حدیث سے زیادہ ہوئی ہے۔ مستشرقین نے بہت زیادہ کی ہے لیکن اہل علم نے اس کا جواب دیا ہے۔ اس پر راقم نے اسلام اور مستشرقین کے نام سے ایک کتاب مرتب کی ہے جو عنقریب شائع ہو جائے گی۔ نقد ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ہاں، البتہ علمی مکالمے میں نقد کو ثابت کر دکھانا کچھ معنی رکھتا ہے۔

اس بات کو یوں بھی بیان کروں گا کہ متقدمین میں صحیح بخاری کے علاوہ صحیح مسلم کے بارے اصح ہونے کا دعوی کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ میرے علم میں کسی کتاب کے بارے یہ دعوی موجود نہیں ہے۔ اب صحیح مسلم کی جن روایات پر نقد ہوئی ہے، ان کی تعداد صحیح بخاری کی ان روایات سے زیادہ ہے کہ جن پر نقد ہوئی ہے لہذا نقد کے بعد بھی صحیح ترین کتاب بخاری ہی رہی۔
جزاک اللہ
یعنی صراحتا اس پر اجماع کا دعوی ہم نہیں کر سکتے۔ البتہ دلالۃ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی اسے قرآن کریم کے بعد اصح ترین دو کتب میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔
کیا میں درست ہوں؟
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
جزاک اللہ
یعنی صراحتا اس پر اجماع کا دعوی ہم نہیں کر سکتے۔ البتہ دلالۃ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی اسے قرآن کریم کے بعد اصح ترین دو کتب میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔
کیا میں درست ہوں؟
یعنی نہ نہ کرتے آپ مان ہی گئے اور اپنے دعویٰ سے دستبردار ہونے کا اشارہ بھی دے دیا۔ جہاں تک صراحت کا تعلق ہے تو اہل حدیث، دیوبندی اور بریلوی کا اس سلسلہ میں دعویٰ صریح ہے۔ کسی مخصوص زمانہ کا دعویٰ نہ کرکے امت مسلمہ نے ثابت کردیا ہے کہ یہ اجماع شروع سے ہے یعنی بخاری کے منظر عام پر آنے سے لے کر آج تک۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں صرف ان احادیث کا انتخاب کیا تھا جن کے صحیح ہونے پر پہلے ہی محدثین کا اجماع تھا۔ پھر یہ بھی اہم بات ہے کہ امام بخاری سے بخاری کا سماع کرنے والے بھی کثیر تعداد میں تھے۔ جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد فربری کہتے ہیں: جن لوگوں نے آپ سے صحیح بخاری کا سماع کیا ہے ان کی تعداد نوے ہزار ہے۔ (مقدمہ فتح الباری، ص686 بحوالہ صحیح بخاری، جلد1، ص32 از داودرازرحمہ اللہ)

جن احادیث کی صحت پر بخاری سے پہلے ہی اجماع تھا انہی احادیث کے بخاری میں شامل ہونے پر بخاری کے ’’اصح الکتب‘‘ ہونے پر اجماع کیوں نہیں ہوگا؟ اگر چھ سو سال قبل اس بات پر کسی کا قول نہیں ملتا تو ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے پر ’’قولی اجماع‘‘ نہیں تھا لیکن کم از کم ’’اجماع سکوتی‘‘ تو لازمی تھا کیونکہ کسی نے بھی صحیح بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے پر انکار نہیں کیا۔ اور اعتراض کرنا علیحدہ معاملہ ہے جو بخاری کے ’’اصح الکتب‘‘ ہونے میں مانع نہیں ہے جس کی وضاحت ابو الحسن علوی بھائی نے کی ہے۔ یعنی جہاں تک بخاری پر اعتراضات کرنے والوں کا تعلق ہے تو صرف اعتراض سے بخاری کے مقام پر یا اسکے ’’اصح الکتب‘‘ ہونے پر فرق نہیں پڑتا حتی کہ ان اعتراضات میں سے کوئی اعتراض پایہ ثبوت کو پہنچ کر کسی حدیث کا ضعیف ہونا ثابت کردیتا۔ ایسی صورت میں پھر لازمی صحیح بخاری ’’اصح الکتب‘‘ نہ رہتی لیکن چونکہ ایسا کچھ نہیں ہوا اور وقت نے ثابت کردیا کہ بخاری پر کئے جانے والے تمام اعتراضات غلط تھے۔ جیسا کہ خود آپ نے بھی اس بات کا اعتراف فرمایا ہے کہ ان اعتراضات کے جواب دئے گئے تھے۔ لہٰذا بخاری پر کئے جانے والے اعتراضات کا حوالہ دے کر اس کے ’’اصح الکتب‘‘ ہونے کا انکار درست نہیں ہے۔

صحیح بخاری سے پہلے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے کا اعزاز موطا امام مالک کو حاصل تھا۔ لیکن چونکہ موطا میں ایک ضعیف حدیث بھی شامل ہے جبکہ بخاری میں کوئی بھی ضعیف حدیث شامل نہ ہونے کی بنا پر یہ اعزاز صحیح بخاری کے حصہ میں آگیا اور قیامت تک رہے گا۔ ان شاء اللہ
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
یعنی نہ نہ کرتے آپ مان ہی گئے اور اپنے دعویٰ سے دستبردار ہونے کا اشارہ بھی دے دیا۔ جہاں تک صراحت کا تعلق ہے تو اہل حدیث، دیوبندی اور بریلوی کا اس سلسلہ میں دعویٰ صریح ہے۔ کسی مخصوص زمانہ کا دعویٰ نہ کرکے امت مسلمہ نے ثابت کردیا ہے کہ یہ اجماع شروع سے ہے یعنی بخاری کے منظر عام پر آنے سے لے کر آج تک۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں صرف ان احادیث کا انتخاب کیا تھا جن کے صحیح ہونے پر پہلے ہی محدثین کا اجماع تھا۔ پھر یہ بھی اہم بات ہے کہ امام بخاری سے بخاری کا سماع کرنے والے بھی کثیر تعداد میں تھے۔ جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد فربری کہتے ہیں: جن لوگوں نے آپ سے صحیح بخاری کا سماع کیا ہے ان کی تعداد نوے ہزار ہے۔ (مقدمہ فتح الباری، ص686 بحوالہ صحیح بخاری، جلد1، ص32 از داودرازرحمہ اللہ)

جن احادیث کی صحت پر بخاری سے پہلے ہی اجماع تھا انہی احادیث کے بخاری میں شامل ہونے پر بخاری کے ’’اصح الکتب‘‘ ہونے پر اجماع کیوں نہیں ہوگا؟ اگر چھ سو سال قبل اس بات پر کسی کا قول نہیں ملتا تو ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے پر ’’قولی اجماع‘‘ نہیں تھا لیکن کم از کم ’’اجماع سکوتی‘‘ تو لازمی تھا کیونکہ کسی نے بھی صحیح بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے پر انکار نہیں کیا۔ اور اعتراض کرنا علیحدہ معاملہ ہے جو بخاری کے ’’اصح الکتب‘‘ ہونے میں مانع نہیں ہے جس کی وضاحت ابو الحسن علوی بھائی نے کی ہے۔ یعنی جہاں تک بخاری پر اعتراضات کرنے والوں کا تعلق ہے تو صرف اعتراض سے بخاری کے مقام پر یا اسکے ’’اصح الکتب‘‘ ہونے پر فرق نہیں پڑتا حتی کہ ان اعتراضات میں سے کوئی اعتراض پایہ ثبوت کو پہنچ کر کسی حدیث کا ضعیف ہونا ثابت کردیتا۔ ایسی صورت میں پھر لازمی صحیح بخاری ’’اصح الکتب‘‘ نہ رہتی لیکن چونکہ ایسا کچھ نہیں ہوا اور وقت نے ثابت کردیا کہ بخاری پر کئے جانے والے تمام اعتراضات غلط تھے۔ جیسا کہ خود آپ نے بھی اس بات کا اعتراف فرمایا ہے کہ ان اعتراضات کے جواب دئے گئے تھے۔ لہٰذا بخاری پر کئے جانے والے اعتراضات کا حوالہ دے کر اس کے ’’اصح الکتب‘‘ ہونے کا انکار درست نہیں ہے۔

صحیح بخاری سے پہلے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے کا اعزاز موطا امام مالک کو حاصل تھا۔ لیکن چونکہ موطا میں ایک ضعیف حدیث بھی شامل ہے جبکہ بخاری میں کوئی بھی ضعیف حدیث شامل نہ ہونے کی بنا پر یہ اعزاز صحیح بخاری کے حصہ میں آگیا اور قیامت تک رہے گا۔ ان شاء اللہ
محترم ابو الحسن علوی صاحب جواب دیں گے تو میں آپ کو بتا دوں گا کہ میں کس بات سے دستبردار ہوا ہوں۔
آپ سے جو پوچھا گیا ہے اس کا جواب دیں۔ ادھر ادھر کی باتیں نہیں کریں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
جزاک اللہ
یعنی صراحتا اس پر اجماع کا دعوی ہم نہیں کر سکتے۔ البتہ دلالۃ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی اسے قرآن کریم کے بعد اصح ترین دو کتب میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔
کیا میں درست ہوں؟
امام شافعی رحمہ اللہ نے اجماع کے انعقاد کا جو طریق کار مقرر کیا ہے، وہی میرے نزدیک اجماع کے انعقاد کا صحیح اور قابل اعتبار میکانزم ہے۔ اور یہی اجماع صریح ہے۔ صریح اسے اس لیے بھی کہتے ہیں کہ یہ صریح مسائل میں منعقد ہوتا ہے نہ کہ اس لیے کہ ہر کسی نے صراحت سے اپنی رائے بیان کی ہو۔ دوسرے معنی میں اجماع کا انعقاد ناممکن ہے اور اس پر امام احمد رحمہ اللہ کا کہنا تھا کہ جس نے اجماع کا دعوی کیا یعنی اس معنی میں تو وہ جھوٹا ہے۔ یہ تو پہلی بات ہوئی کہ یہ اجماع صریح ہے کیونکہ مسئلہ ایسا صریح ہے کہ اس میں دوسری رائے کی گنجائش پیدا ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

اب یہ بات درست ہے کہ ایک دوسری رائے پیدا ہو گئی کہ صحیح مسلم، اصح کتاب ہے۔ اب اس میں یہ دیکھیں گے کہ کیا دوسری رائے ایک زمانے ہی میں پیدا ہوئی ہے یا دوسرے زمانے میں۔ کیونکہ اجماع کی تعریف میں یہ بات شامل ہے کہ ایک زمانے کے اہل علم کا اتفاق۔ اور اگر اس زمانے کے بعد کے علماء نے اختلاف کیا ہو تو وہ اجماع میں مانع نہیں ہو گا۔ یعنی اگر تیسری صدی ہجری کے اہل علم کا کسی مسئلے میں اتفاق ہو جاتا ہے تو چوتھی صدی ہجری میں کسی عالم دین کا اس مسئلے میں اختلاف اجماع میں مانع نہیں ہے۔ تو صحیح مسلم کے اصح ہونے کی رائے ابو علی نیشاپوری متوفی ۳۴۹ھ سے منقول ہے لیکن اسے قبول عام حاصل نہ ہوا اور صحیح بخاری کی صحت پر اہل علم کا اتفاق ہو گیا۔ ابو علی نیشاپوری کی یہ رائے صحیح مسلم کے بارے ایسی ہی رائے تھی جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی اپنے استاذ امام مالک کی کتاب موطا کے بارے رائے تھی کہ وہ اصح کتاب ہے لیکن اسے قبول عام حاصل نہیں ہوا۔ تو انفرادی آراء کسی بھی دور میں اجماع کے انعقاد سے پہلے یا بعد میں کئی ہو سکتی ہیں۔ اجماع ایک زمانے میں ایک رائے پر اتفاق کا نام ہے اور جب وہ ہو جائے تو اس زمانے سے پہلے یا بعد میں انفرادی آراء کا پایا جانا اس میں مانع نہیں ہوتا ہے۔
 
Top