• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احادیث اور اہل حدیث کا عمل بالرفع الیدین

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
دونوں باتیں ایک دوسرے سے متعلق ہیں ۔ چند متاخرین اہل علم کے علاوہ کسی سے بھی اس روایت کی تصحیح منقول نہیں ، اس حدیث کی صحت و ضعف کا مسئلہ ’ علل ‘ سے تعلق رکھتا ہے ، معروف ائمہ علل میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے ، جس نے اس کی تصحیح کی ہو ، بلکہ سب اس کے ’ وہم ‘ اور ’ خطا ‘ ہونے پر متفق ہیں ۔
سفیان کی تدلیس کی بنا پر اس روایت پر جرح متقدمین میں سے کس نے کی ہے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
سفیان کی تدلیس کی بنا پر اس روایت پر جرح متقدمین میں سے کس نے کی ہے؟
میرے علم کی حد تک تو کسی نے بھی نہیں کی ۔ البتہ انہوں نے جس بنا پر روایت پر کلام کیا ہے ، اس میں تدلیس کی نفی نہیں ہے ۔ یہ روایت وہم اور خطا ہے ، یہ ہوا کس سے ؟ نقاد نے دو لوگوں کی نشاندھی کی ہے ، یا سفیان یا پھر وکیع ۔ تیسرا یہ ہوسکتا ہے کہ اس روایت میں اصل خطا اسی شخص سے ہو ، جس کو تدلیس کی وجہ سے گرا دیا گیا ہے ۔
اصل بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جن علما نے اس روایت کا دفاع کیا ہے ، انہوں نے محدثین کی ’ تعلیل ‘ کو گویا بلا دلیل ہونے پر رد کیا ہے ، جبکہ ان علما کے پاس سفیان ثوری کی تدلیس کا جواب بھی انہیں ائمہ کی ’ عدم تعلیل ‘ ہے ، جن کی بات کو وہ ’ بلادلیل ‘ ہونے کی بنا پر پہلے رد کر چکے ہیں ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
انہوں نے محدثین کی ’ تعلیل ‘ کو گویا بلا دلیل ہونے پر رد کیا ہے ،
کیا معاملہ اسی طرح ہے؟ اگر ایسا ہے تو کئی روایتیں صحیح قرار پائیں گی. بطور مثال:
سنن ابی داؤد: 4924

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْغُدَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعَ ابْنُ عُمَرَ مِزْمَارًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَوَضَعَ إِصْبَعَيْهِ عَلَى أُذُنَيْهِ وَنَأَى عَنِ الطَّرِيقِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ لِي:‏‏‏‏ يَا نَافِعُ هَلْ تَسْمَعُ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَرَفَعَ إِصْبَعَيْهِ مِنْ أُذُنَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَ مِثْلَ هَذَا فَصَنَعَ مِثْلَ هَذَا ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عَلِيٍّ الْلُؤْلُئِيُّ:‏‏‏‏ سَمِعْت أَبَا دَاوُد، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ.

ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک باجے کی آواز سنی تو اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں ڈال لیں اور راستے سے دور ہو گئے اور مجھ سے کہا: اے نافع! کیا تمہیں کچھ سنائی دے رہا ہے میں نے کہا: نہیں، تو آپ نے اپنی انگلیاں کانوں سے نکالیں، اور فرمایا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، اس جیسی آواز سنی تو آپ نے بھی اسی طرح کیا۔ ابوعلی لؤلؤی کہتے ہیں: میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا: یہ حدیث منکر ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اصل بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جن علما نے اس روایت کا دفاع کیا ہے ، انہوں نے محدثین کی ’ تعلیل ‘ کو گویا بلا دلیل ہونے پر رد کیا ہے ، جبکہ ان علما کے پاس سفیان ثوری کی تدلیس کا جواب بھی انہیں ائمہ کی ’ عدم تعلیل ‘ ہے ، جن کی بات کو وہ ’ بلادلیل ‘ ہونے کی بنا پر پہلے رد کر چکے ہیں ۔
کیا یہ تقلید جامد نہیں ہے کہ جس کی ایک بات مانی ہے اسی کی سب باتیں مانی جائیں؟ یا پھر دیگر دلائل اور قرائن کو دیکھا جائے گا؟
 
شمولیت
دسمبر 31، 2017
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
23
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

وہ کس بناء پر نہیں کرتا، اس پر منحصر ہے!
اگر کوئی شخص یہ سمجھتے ہوئے نہیں کرتا کہ رفع الیدین کے بغیر بھی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور رفع الیدین نہ کرنا اولی ہے، یا یہ منسوخ ہے، یا کہ اس کو رفع الیدین کا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہونا واضح نہیں ہوا، تو۔۔
نماز ادا ہو جائے گی، کیونکہ رفع الیدین نماز کی شروط، رکن یا فرائض وواجبات میں سے نہیں!
اور اگر کسی کو معلوم ہے کہ رفع الیدین ثابت ہے اور اس کا نسخ ثابت نہیں، پھر بھی وہ تقلید کے سبب رفع الیدین کی سنت کو ترک کرتا ہے، تو ایسے شخص کو فکر کرنی چاہیئے کہ وہ اس حدیث کے مصداق نہ ٹھہرے:
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ الطَّوِيلُ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا فَقَالُوا وَأَيْنَ نَحْنُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ أَحَدُهُمْ أَمَّا أَنَا فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ أَنْتُمْ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي.
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ، کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی ، کہا ہم کو حمید بن ابی حمید طویل نے خبر دی ، انہوں نے حضرت انس بن مالک سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ تین حضرات ( علی بن ابی طالب ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن مظعون رضی ا للہ عنہم ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے ، جب انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیاتو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیامقابلہ ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کردی گئی ہیں ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات پھر نماز پڑھا کروںگا ۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوںگا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوںگا ۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروںگا ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں ؟ سن لو ! اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیز گا ر ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں ۔ نماز پڑھتا ہوں ( رات میں ) اور سوتا بھی ہوں اور میںعورتوں سے نکاح کر تا ہوں ۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے ۔
صحيح البخاري»» كِتَابُ النِّكَاحِ»» بَابُ التَّرْغِيبِ فِي النِّكَاحِ

ایسے شخص کو نماز سے قبل اپنے ایمان کی فکر کرنا چاہئے، کہ نماز میں رفع الیدین کا اثبات تو سب ہی مانتے ہیں، اور رکوع کی رفع الیدین بھی، جو رفع الیدین نہیں کرتے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ترک کردیا تھا! اور جو عمل اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، خواہ وہ منسوخ اور متروک بھی ہو، اس کا مذاق اڑانا، توہین رسالت کے زمرے میں آتا ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا عمل بھی کیا، یا ایک وقت تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سنت رہی، جو بعد میں منسوخ ہوئی، یعنی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سابقہ و متروک سنت کا مذاق اڑانا بھی کفر ہے!
جو اپنی لا علمی میں ایسا کرتے ہیں، اللہ انہیں بھی سمجھنے کو توفیق دے!
وعلیکم السلام!

جزاک اللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
کیا یہ تقلید جامد نہیں ہے کہ جس کی ایک بات مانی ہے اسی کی سب باتیں مانی جائیں؟ یا پھر دیگر دلائل اور قرائن کو دیکھا جائے گا؟
کسی ایک کی ہر ہر بات ماننے کی دعوت نہیں دی گئی ۔
ائمہ علل کے متفقہ فیصلےکی بات کی گئی ہے ۔
دلائل و قرائن کی روشنی میں ائمہ متقدمین سے اختلاف کیا جاسکتا ہے ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
دلائل و قرائن کی روشنی میں ائمہ متقدمین سے اختلاف کیا جاسکتا ہے
ہمارے ایک استاذ کہتے ہیں کہ متقدمین کی کسی حدیث کی سند کی علتوں کی بنا پر حدیث کی تضعیف کو تصحیح میں بدلنا بہت ہمت و جرات کا کام ہے. متقدمین کے پاس بے شمار سندیں ہوا کرتی تھیں. اس لئے اگر ان میں اختلاف ہو تو ہی تصحیح کے متعلق سوچا جا سکتا ہے.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ہمارے ایک استاذ کہتے ہیں کہ متقدمین کی کسی حدیث کی سند کی علتوں کی بنا پر حدیث کی تضعیف کو تصحیح میں بدلنا بہت ہمت و جرات کا کام ہے. متقدمین کے پاس بے شمار سندیں ہوا کرتی تھیں. اس لئے اگر ان میں اختلاف ہو تو ہی تصحیح کے متعلق سوچا جا سکتا ہے.
متقدمین ائمہ علل سے اتنا ہی اختلاف ہوسکتا ہے ، جتنا ایک سونار یا جوھری سے ہوتا ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
متفقہ فیصلے سے کیا مراد ہے؟ جتنے لوگوں نے کلام کیا ہے علماء ان سے کہیں زیادہ ہیں. جنہوں نے کلام نہیں کیا یا جنہوں نے خود روایت کی ہے جیسے سفیان اور وکیع کیا ہم انہیں بھی متفقہ فیصلے میں شمار کریں گے؟ اگر نہیں تو یہ فیصلہ "متفقہ" کیسے ہے؟
بلکہ معذرت کے ساتھ اس روایت کی تضعیف کی وجہ میں ہی ان کا اختلاف ہو گیا ہے. کوئی کہتا ہے سفیان کو وہم ہوا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ وکیع کو. یعنی اصل منبع بھی نہیں پکڑا جا رہا لیکن روایت کو ضعیف ہی سمجھنا ہے.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
متفقہ فیصلے سے کیا مراد ہے؟ جتنے لوگوں نے کلام کیا ہے علماء ان سے کہیں زیادہ ہیں. جنہوں نے کلام نہیں کیا یا جنہوں نے خود روایت کی ہے جیسے سفیان اور وکیع کیا ہم انہیں بھی متفقہ فیصلے میں شمار کریں گے؟ اگر نہیں تو یہ فیصلہ "متفقہ" کیسے ہے؟
بلکہ معذرت کے ساتھ اس روایت کی تضعیف کی وجہ میں ہی ان کا اختلاف ہو گیا ہے. کوئی کہتا ہے سفیان کو وہم ہوا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ وکیع کو. یعنی اصل منبع بھی نہیں پکڑا جا رہا لیکن روایت کو ضعیف ہی سمجھنا ہے.
متفقہ فیصلے سے مراد : متقدمین میں سے کسی نے بھی اس فیصلے کی مخالفت نہیں کی۔
وہم ہونے پر اتفاق ہے، کس کو ہوا ، اس کی تحدید میں اختلاف ہے ۔ گویا وہم یا خطا ہونے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ۔
بہر صورت جو آپ حضرات کا موقف ہے ، میں اسے کلیتا رد نہیں کرتا ، کیونکہ یہ صرف آج کے دو چار لوگوں کی بات نہیں ، کئی ایک اہل علم اس سے پہلے یہ باتیں کر چکے ہیں ۔ گو میرے نزدیک راحج موقف وہی جو ائمہ علل نے اختیار کیا ۔
 
Top