• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احمد بن علی ابو بکر الجصاص الحنفی کون تھے؟

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
میں سمجھتی ھوں عامی کا اعتماد چنداں معنی نہیں رکھتا۔ بلکہ عامی کو چاہییے کہ ایسا عالم تلاش کرے جس سے وہ صحیح علم حاصل کرسکیں۔
یہ اصل اعتماد ہے۔ یعنی اپنی کوشش کے بقدر ایسا عالم تلاش کرے گا اور پھر جب اسے ایسا عالم مل جائے گا جس کے علم پر اسے اعتماد ہوگا کہ اس کا علم صحیح ہے تو اس سے مسئلہ پوچھے گا۔

اور پھر وہ انسان بھی فقط اپنے والدین کے نظریات کے حامل علماء پر ہی اعتماد کرتا رھتا ھے۔ یہاں تک کہ والدین کا دین اُسی کا دین بن جاتا ھے۔
کفر اور اسلام کے لیے اللہ پاک نے عقلی دلائل دیے ہیں تاکہ ان کی تمییز ہر کوئی کر سکے۔ لہذا کسی کے لیے اس میں کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ دین میں کسی عالم پر اعتماد کرے اور وہ عالم غلط ہو۔ لیکن ایسے مسائل بہت ہی کم ہیں۔
جو فروعی مسائل ہیں ان میں انسان اپنی استطاعت کے بقدر ہی سیکھ سکتا ہے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر اس میں پوری کوشش کرکے کسی عالم پر اعتماد کر لیا اور وہ عالم غلط ہوا تو یہ ان شاء اللہ "لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا" کے قانون کے مطابق بری ہوگا۔
و اللہ اعلم
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
مطلب ایک عامی کو کیسے تمیز حاصل ھوگی جبکہ وہ بریلوی یا شیعہ گھر میں پیدا ھوا ھو؟
1* الله کے علاوہ کوئی غیب کے علم کا مالک نہیں؟
2* نبی علیہ السلام بذات اللہ کے نور میں سے نور نہیں۔
3* اللہ کے علاوہ غائب میں کسی کو پکارنا جائز نہیں ؟ وغیرہ۔
یہ تو بنیادی عقائد ھیں جو ایک عامی کو معلوم ھونے ہی چاہییں۔ لیکن ہم دیکھ رھے ھیں۔ کہ عامی انہیں چیزوں پر اعتماد کرتا ھے۔ جو اس کے ماں باپ کے دین کے مطابق ھوتی ھیں !!
یہ اصل اعتماد ہے۔ یعنی اپنی کوشش کے بقدر ایسا عالم تلاش کرے گا
یہ جو عامی کا اعتماد ھوگا۔ یہ تو عامی اپنے علم کے بقدر ہی کرسکے گا نہ؟ اور اگر عامی اس مسئلے میں غیر جانبدار ھوگا۔ تو یہ عامی کا اجتھاد ھوگا؟ نہ کہ تقلید؟
اور تقلید یہی تو ھے نہ کہ عامی بس جس دین پر پیدا ھو اور اسی دین کو حق سمجھتا ھوا اپنے آباؤاجداد کی تقلید میں آگے بڑھتا رہے؟
۔
بحرحال ۔ جب ہم ھم اس پر متفق ھیں کہ عامی کو اسقدر تو شعور لازم ھونا چاہییے کہ۔ وہ دیکھے وہ کہاں سے علم حاصل کر رہا ھے۔ (خصوصاً عقائد میں) تو پھر ہم نے فروع میں عامی کو کیوں سائیڈ لائن کردیا ھے یہ کہہ کر کہ عامی بس ایک ہی شخص کی فروعات کو تسلیم کرے۔ کیا یہ جانبداری نہیں؟
کیا وہ ایک ہی شخص اس طرح سے شارع نہیں بن جاتا ؟
جبکہ ہم دیکھتے ھیں۔ اور واقعہ ومشاھدہ بھی یہی ھے۔ کہ جو لوگ ایک ہی امام کی فروع پر چلنے کے دعویدار ھیں۔ وہ خود بہت سے مسائل میں اپنے امام سے اختلاف کیئے ھوئے ہیں۔
تو پھر یہ بنیاد بنانا۔ کہ بس عامی کو ایک ہی امام کی فروع پر چلنا چاہییے۔ اور پھر اسی بنیادی اصول کو خود توڑ بھی دینا۔۔ کیا یہ غلط بات نہیں؟
۔
اور اگر بات عامی کے علم کے بقدر کسی عالم پر (عقائد میں) اعتماد ہی کی ھے۔ تو وہ عامی اُسی عالم پر ہی اعتماد کرکے فروع بھی اُسی عالم سے کیوں نہ سیکھے؟؟؟
کہیں غلط ہوں تو اصلاح کردیں۔ شکریہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
مطلب ایک عامی کو کیسے تمیز حاصل ھوگی جبکہ وہ بریلوی یا شیعہ گھر میں پیدا ھوا ھو؟
1* الله کے علاوہ کوئی غیب کے علم کا مالک نہیں؟
2* نبی علیہ السلام بذات اللہ کے نور میں سے نور نہیں۔
3* اللہ کے علاوہ غائب میں کسی کو پکارنا جائز نہیں ؟ وغیرہ۔
یہ تو بنیادی عقائد ھیں جو ایک عامی کو معلوم ھونے ہی چاہییں۔ لیکن ہم دیکھ رھے ھیں۔ کہ عامی انہیں چیزوں پر اعتماد کرتا ھے۔ جو اس کے ماں باپ کے دین کے مطابق ھوتی ھیں !!
علم حاصل کرنے سے۔ اتنا علم حاصل کرنا تو اس پر فرض ہے جس سے وہ بنیادی عقائد کو درست کر سکے۔
اور یہ وہ عقائد ہیں جن کو اللہ پاک نے قرآن کریم میں عقلی دلائل یا واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں فروعی مسائل بہت ہی کم ہیں۔ سب عقیدے کی بات ہے۔ مختلف انداز سے، مثالوں سے، واقعات سے، پیار سے، ڈانٹ سے ہر طرح عقیدہ مذکور ہے۔ کیوں کہ یہ بنیاد ہے۔ اس کے بغیر فروعی مسائل کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ اگر کوئی عامی اللہ پاک کی کتاب ہی نہیں پڑھتا تو پھر وہ در اصل تقلید میں مسلمان ہے۔ اگر اس کے ماں باپ کافر ہوتے تو وہ بھی کافر ہوتا۔
لہذا اس میں کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اس نے اپنا عقیدہ خود درست کرنا ہے اور اس کے لیے قرآن کریم کافی ہے۔

یہ جو عامی کا اعتماد ھوگا۔ یہ تو عامی اپنے علم کے بقدر ہی کرسکے گا نہ؟ اور اگر عامی اس مسئلے میں غیر جانبدار ھوگا۔ تو یہ عامی کا اجتھاد ھوگا؟ نہ کہ تقلید؟
اور تقلید یہی تو ھے نہ کہ عامی بس جس دین پر پیدا ھو اور اسی دین کو حق سمجھتا ھوا اپنے آباؤاجداد کی تقلید میں آگے بڑھتا رہے؟
جی تقلید یہی ہے لیکن جو آپ نے ذکر کی ہے یہ دین میں یعنی عقیدے میں تقلید ہے۔ اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ عقیدے میں تقلید درست نہیں ہے۔

عامی جو اعتماد کرتا ہے یہ درحقیقت اجتہاد کی سب سے ادنی قسم ہوتی ہے۔ ہم کسی کو مقلد کہتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ بس اب اس کی آنکھیں بند ہو گئی ہیں اور اب وہ اندھوں کی طرح چلے گا۔ حالانکہ یہ اسلام کی فطرت کے خلاف ہے۔ عامی کا اعتماد اس کے اپنے درجے کا اجتہاد ہوتا ہے۔ جصاصؒ نے یہی کہا ہے:
هو قد يمكنه الاجتهاد في تغليب الأفضل والأعلم في ظنه، وأوثقهم في نفسه، فغير جائز إذا أمكنه الاحتياط بمثله أن يعدل عنه فيقلد بغير اجتهاد منه، إذ كان له هذا الضرب من الاجتهاد.
بحرحال ۔ جب ہم ھم اس پر متفق ھیں کہ عامی کو اسقدر تو شعور لازم ھونا چاہییے کہ۔ وہ دیکھے وہ کہاں سے علم حاصل کر رہا ھے۔ (خصوصاً عقائد میں) تو پھر ہم نے فروع میں عامی کو کیوں سائیڈ لائن کردیا ھے یہ کہہ کر کہ عامی بس ایک ہی شخص کی فروعات کو تسلیم کرے۔ کیا یہ جانبداری نہیں؟
کیا وہ ایک ہی شخص اس طرح سے شارع نہیں بن جاتا ؟
جبکہ ہم دیکھتے ھیں۔ اور واقعہ ومشاھدہ بھی یہی ھے۔ کہ جو لوگ ایک ہی امام کی فروع پر چلنے کے دعویدار ھیں۔ وہ خود بہت سے مسائل میں اپنے امام سے اختلاف کیئے ھوئے ہیں۔
تو پھر یہ بنیاد بنانا۔ کہ بس عامی کو ایک ہی امام کی فروع پر چلنا چاہییے۔ اور پھر اسی بنیادی اصول کو خود توڑ بھی دینا۔۔ کیا یہ غلط بات نہیں؟
۔
اور اگر بات عامی کے علم کے بقدر کسی عالم پر (عقائد میں) اعتماد ہی کی ھے۔ تو وہ عامی اُسی عالم پر ہی اعتماد کرکے فروع بھی اُسی عالم سے کیوں نہ سیکھے؟؟؟
کہیں غلط ہوں تو اصلاح کردیں۔ شکریہ
اس پر میں کلاس سے فارغ ہو کر بات کرتا ہوں۔ کچھ غلط فہمیاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ہم خود تقلیداً حاصل کرتے ہیں حالانکہ حقیقت ایسی نہیں ہوتی۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
یہ جو عامی کا اعتماد ھوگا۔ یہ تو عامی اپنے علم کے بقدر ہی کرسکے گا نہ؟ اور اگر عامی اس مسئلے میں غیر جانبدار ھوگا۔ تو یہ عامی کا اجتھاد ھوگا؟ نہ کہ تقلید؟
اور تقلید یہی تو ھے نہ کہ عامی بس جس دین پر پیدا ھو اور اسی دین کو حق سمجھتا ھوا اپنے آباؤاجداد کی تقلید میں آگے بڑھتا رہے؟
۔
بحرحال ۔ جب ہم ھم اس پر متفق ھیں کہ عامی کو اسقدر تو شعور لازم ھونا چاہییے کہ۔ وہ دیکھے وہ کہاں سے علم حاصل کر رہا ھے۔ (خصوصاً عقائد میں) تو پھر ہم نے فروع میں عامی کو کیوں سائیڈ لائن کردیا ھے یہ کہہ کر کہ عامی بس ایک ہی شخص کی فروعات کو تسلیم کرے۔ کیا یہ جانبداری نہیں؟
کیا وہ ایک ہی شخص اس طرح سے شارع نہیں بن جاتا ؟
جبکہ ہم دیکھتے ھیں۔ اور واقعہ ومشاھدہ بھی یہی ھے۔ کہ جو لوگ ایک ہی امام کی فروع پر چلنے کے دعویدار ھیں۔ وہ خود بہت سے مسائل میں اپنے امام سے اختلاف کیئے ھوئے ہیں۔
تو پھر یہ بنیاد بنانا۔ کہ بس عامی کو ایک ہی امام کی فروع پر چلنا چاہییے۔ اور پھر اسی بنیادی اصول کو خود توڑ بھی دینا۔۔ کیا یہ غلط بات نہیں؟
۔
اور اگر بات عامی کے علم کے بقدر کسی عالم پر (عقائد میں) اعتماد ہی کی ھے۔ تو وہ عامی اُسی عالم پر ہی اعتماد کرکے فروع بھی اُسی عالم سے کیوں نہ سیکھے؟؟؟
کہیں غلط ہوں تو اصلاح کردیں۔ شکریہ
اللہ پاک نے ہر انسان کو ایک جیسا نہیں بنایا۔ سب کی عقل اور سب کی صلاحیت مختلف رکھی ہے۔ میں بھائی کے ساتھ کنسٹرکشن کا کام کرتا ہوں۔ مزدور کی سمجھ الگ ہوتی ہے، مستری کی الگ اور ٹھیکیدار کی الگ۔ مزدور لاکھ کوشش کر لے تب بھی وہ مستری نہیں بن سکتا اور مستری کے لیے ٹھیکیدار بننا اور سب مستریوں کو سنبھالنا ناممکن ہے۔ ان سے اوپر ہم ہوتے ہیں جو انہیں ڈیزائن دیتے ہیں اور مختلف ٹیموں کو مینیج کرتے ہیں۔ میں کمپیوٹر پر نقشہ بھی ڈیزائن کرتا ہوں اور اکاؤنٹنگ بھی پراپر طریقے سے سنبھالتا ہوں۔یہ کام بھائی بھی کر سکتا ہے لیکن اس حد تک نہیں جیسے میں کرتا ہوں۔ وہ ٹیموں سے جیسے کام لیتا ہے ویسے میں نہیں لے سکتا۔
تو ہر شخص کی عقل اور لائن مختلف ہے۔ انسان تقلید تبھی کرتا ہے جب اس کے پاس کوئی اور راستہ اور چارا نہیں ہوتا۔

اس بات کو سمجھنے کے بعد ہم تقلید اور اجتہاد کو سمجھتے ہیں۔
ایک ہوتا ہے مقلد۔ کہا یہ جاتا ہے کہ مقلد وہ ہوتا ہے جو بغیر دلیل جانے کسی کے قول کو قبول کر لے۔ لیکن یہ تعریف کافی نہیں ہے۔ مقلدین کی ہم دو قسمیں کر سکتے ہیں:
1۔ مقلد مطلق: جسے ہم جاہل کہہ سکتے ہیں یعنی اس کے پاس دین کا علم نہیں ہوتا اور وہ حاصل بھی نہیں کر سکتا۔ یا اس کے پاس صلاحیت نہیں ہوتی اور یا اس کی مصروفیات ہوتی ہیں۔ اگر ہم سب کو مجبور کریں گے کہ وہ فروعی مسائل کو بمع دلائل کے سمجھیں تو دنیا کے باقی کام کون کرے گا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہر لائن میں کام کرتے تھے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بہت شاندار سپہ سالار تھے اور انہوں نے تعلیم کا شعبہ اختیار نہیں کیا۔
یہ مقلد مطلق دلیل سے بالکل دور ہوتا ہے۔ یہ دلیل کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ اس نے مسئلہ معلوم کر کے عمل کرنا ہوتا ہے۔ اسے آپ دلیل بتا بھی دیں تو اس کے سر کے اوپر سے باؤنس ہو جاتی ہے۔
ایک مزدور جسے عام مزاح سمجھ نہیں آتا اور وہ منہ پر بارہ بجائے کھڑا رہتا ہے، اسے دلیل کیسے سمجھائی جا سکتی ہے؟
یہاں ایک چیز اور بھی سمجھنے کی ہے۔ فقہی لحاظ سے دلیل صرف یہ نہیں ہوتی کہ فلاں حدیث میں یہ مذکور ہے۔ بلکہ تمام احادیث اور آثار کو یکجا کر کے مسئلہ اخذ کرنا ہوتا ہے اور پھر یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ جو مسئلہ ہم نے اخذ کیا ہے وہ کہیں غلط اخذ تو نہیں کر دیا؟ وہ مقاصد شریعت کے خلاف تو نہیں جا رہا؟ اس کے خلاف کسی اور اثر سے کوئی بات تو ثابت نہیں ہو رہی؟ اگر ایسا ہے تو پہلے اس مقام کو حل کرنا ہوتا ہے۔ یہ سب ایک عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے۔
میں اگر ایک مسئلے میں چار پانچ ایک دوسرے کے معارض روایات ذکر کر دوں تو اکثر عام علماء بھی کسی بڑے عالم کا قول تلاش کریں گے۔ اور عوام تو پوچھیں گے ہی علماء سے کہ ان کا کیا حل ہو۔ یعنی عوام میں اس مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔

2۔ مقلد عالم: یہ ہمارے (صرف حنفی نہیں بلکہ مطلقاً، سلفی بھی) عام علماء ہوتے ہیں۔ انہیں دلیل کا علم تو ہوتا ہے لیکن اعتماداً۔ یہ دلیل کسی سے لے کر اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اسی کو آگے پیش کرتے ہیں۔ خود سے دلیل کو اخذ نہیں کر سکتے کیوں کہ یہ صلاحیت نہیں ہوتی۔ یہ حضرات اگر خود سے دلیل اخذ کرنے لگیں تو ایسے ایسے "کارنامے" انجام دیتے ہیں کہ علماء کی مجالس میں ان پر ہنسا جاتا ہے۔ ان میں اکثر ہمارے مناظرین ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ بڑے نام بھی ایسے ہیں جن کا ذکر کرنا مناسب نہیں ہے۔
چونکہ ان میں آگے بڑھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی اس لیے یہ قال ابوحنیفۃ اور صححہ الالبانی سے آگے نہیں جا سکتے۔ یہ حضرات عالم ہونے کے باوجود مخالف کی صحیح دلیل بھی بسا اوقات اس لیے قبول نہیں کر سکتے کہ وہ اسے سمجھ نہیں پا رہے ہوتے۔

تقلید کے بعد اجتہاد کا سلسلہ شروع ہوتا ہے:
اس میں آسانی کے لیے اعلی درجے سے بات شروع کرتےہیں۔ سب سے اعلی درجہ مجتہد مطلق کا ہوتا ہے۔ یہ وہ شخص ہوتا ہے جس کی صلاحیت بے انتہا ہوتی ہے۔ یہ ڈائریکٹ نصوص سے نہ صرف مسائل اخذ کرتا ہے بلکہ ایسے اصول اور قواعد بھی اخذ کرتا ہے جو مزید مسائل کے استنباط کے لیے کام آتے ہیں۔ مجتہد مطلق کے سامنےبہت سی چیزیں ہوتی ہیں اور اس کی سوچ بہت وسیع ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم امام مالکؒ کو لیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اصول منضبط کیے۔ ان پر تفریعات کیں اور ایک ایسا طریقہ کار وضع کیا کہ اس پر چل کر ہمیشہ مسائل کاحل مل سکتا ہے۔
امام مالکؒ کا ایک اصول ہے جسے سد الذرائع کہتے ہیں۔ یعنی جو کام کسی برائی کا ذریعہ بن سکتا ہے اس سے بالکل روک دیا جائے۔ یہی اصول امام احمدؒ نے بھی لیا ہے۔ اس کی بنیاد پر قیامت تک چیزوں کو پرکھا جا سکتا ہے اور حکم لگایا جا سکتا ہے۔
مجتہد مطلق ہر علم میں موجود ہوتے ہیں لیکن بہت کم ہوتے ہیں۔ آئن اسٹائن کی E=mc2 معروف مساوات ہے جس کی بنیاد پر ایٹم بم بنا اور ایٹمی ری ایکٹر چلتے ہیں۔ یہ مساوات کسی اور کو کیوں نہیں آئی؟ اور اس میں مزید تبدیلی کیوں نہیں ہو سکتی؟ اس لیے کہ آئن اسٹائن کا ذہن جہاں پہنچا تھا وہاں کسی اور کا نہیں پہنچ سکا۔ اسی طرح ایڈیسن نے بلب ایجاد کیا، ابن سینا نے جراحت کا طریقہ کار دیا،خوارزمی نے الجبرا جیسی عجیب و غریب چیز دنیا کو سکھائی۔ یہ سب اپنے اپنے فن کے مجتہد مطلق تھے۔
فقہ میں مجتہد مطلق کئی ہیں لیکن چار فقہاء کی صلاحیت ایسی تھی کہ ان کے اصول ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ چاروں کی اپنی اپنی بڑی زبردست خصوصیات ہیں جن کا اثر ان کے اصولوں پر ہوا ہے۔ اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔

مجتہد فی المذہب: مجتہد مطلق کے بعد مجتہد فی المذہب کا درجہ ہوتا ہے۔ شوافع اسے مجتہد منتسب کہتے ہیں۔ یہ وہ شخص ہوتا ہے جو اپنے استاد یا کسی اور مجتہد مطلق کے اصولوں سے بے پناہ متاثر ہوتا ہے۔ یہ ان کی بنیاد پر مزید مسائل کا استنباط کرتا ہے لیکن عموماً اپنے اصول نہیں بناتا۔ ذرا سا فرق کر کے یہ کہیں کہ یہ اپنے اصول بناتا ہے لیکن وہ وہی ہوتے ہیں جو پچھلے شخص کے ہوتے ہیں تو زیادہ بہتر ہے۔ مجتہد مطلق کی صلاحیت تو بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے علم چاروں طرف پھیل رہا ہوتا ہے اور روز بے شمار لوگ اس کی مجلس میں بیٹھتے ہیں۔ لیکن اس کا علم آگے عموماً یہ مجتہد فی المذہب پھیلاتے ہیں۔
مجتہد مطلق علماء میں سے صرف امام شافعیؒ کے اصول پر موجود کتاب ہمارے پاس ہے۔ باقی سب کا علم ان کے شاگردوں سے آیا ہے جو مجتہد منتسب ہیں۔ یہ اصل میں مثالوں کے ذریعے مجتہد مطلق کے اصولوں کو مزید نکھار بھی دیتے ہیں۔

مجتہد فی المسائل: اس شخص کی صلاحیت اتنی ہوتی ہے کہ یہ مجتہد مطلق کے اصول یا فروع سے اختلاف تو نہیں کر پاتا لیکن جو مسائل اس سے منقول نہ ہوں ان کا استنباط یہ کر سکتا ہے۔ امام طحاویؒ بہترین محدث ہیں، دلائل اور اسانید ان کے پاس بہت ہیں طرز استدلال بھی بہترین اور "یونیک" ہے۔ لیکن نہ اصول میں ائمہ احناف سے اختلاف کرتے ہیں اور نہ فروع میں۔ شاذ و نادر کوئی اختلاف کرتے ہیں۔ یہاں بھی یہ نہیں ہوتا کہ مجتہد فی المسائل اصول اور منقول مسائل میں اندھا مقلد ہو۔ بلکہ وہ ان اصول اور منقول مسائل میں مجتہد مطلق اور مجتہد فی المذہب سے متفق اور متاثر ہوتا ہے۔ چونکہ وہ انہی کے انداز میں مسائل کو دیکھتا ہے اس لیے انہی کے نتیجے تک پہنچتا ہے۔

اصحاب التخریج: یہ حضرات اسی قدر اجتہاد کر سکتے ہیں کہ غیر واضح اقوال کی وضاحت کر سکیں، اقوال کے لیے دلائل لا سکیں، ذو معنی اقوال کے ایک معنی کو اختیار کر سکیں، منقول مسائل پر مزید قیاس کر سکیں۔ البتہ یہ ڈائریکٹ استنباط نہیں کر سکتے۔ جصاصؒ کو انہی میں ذکر کیا گیا ہے۔

اصحاب الترجیح: اس صلاحیت کے علماء اوپر مذکور علماء کے اقوال میں سے راجح اور مرجوح کی تعیین کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے وہ نصوص کو بھی دیکھتے ہیں اور اصول کو بھی۔

اصحاب التمییز: یہ اجتہاد کی سب سے ادنی صلاحیت سمجھی جاتی ہے۔ اس صلاحیت کا حامل شخص صرف اس بات کی وضاحت کر سکتا ہے کہ کون سا قول قوی ہے اور کون سا ضعیف ہے۔ کس قول کو ظاہر الروایہ کہا جائے گا اور کسے نادر سمجھا جائے گا۔ ان کے بعد عام علماء مقلدین ہوتے ہیں اور پھر مقلد مطلق۔

یہ تقسیم کوئی دینی تقسیم نہیں ہے بلکہ انسان کی ذہنی سطح کے اعتبار سے ہے۔ آج کے دور میں بھی آپ دیکھ سکتے ہیں۔ شیخ البانیؒ پر کتنے بڑے بڑے علماء کے ردود ہیں اور اس کے باوجود ان کی تصحیح و تضعیف ساری دنیا میں مقبول ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ قبول کرنے والے حضرات یہ بھی نہیں کر سکتے۔ جو کر سکتے ہیں وہ مکمل تجزیہ کرتے ہیں۔
کسی انسان کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کس سطح پر ہے۔ مسائل اور زمانے کے اعتبار سے انسان کی صلاحیت بدلتی رہتی ہے۔ ایک عالم ایک مسئلے میں مجتہد مطلق کی حد تک پہنچتے ہیں تو دوسرے میں صرف اپنے سے پہلے عالم کا قول نقل کرتے ہیں۔ ایک وقت میں ان کی صلاحیت کا لوہا ساری دنیا مان رہی ہوتی ہے تو دوسرے وقت میں وہ ایک عام سے مسئلے میں دوسرے علماء سے معلوم کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ تبدیلی آتی رہتی ہے۔
جب ایک شخص ابتدا میں دینی علوم پڑھنا شروع کرتا ہے تو وہ مقلد مطلق ہوتا ہے۔ جب وہ دلائل اور طرز استدلال کو سمجھ لیتا ہے تو وہ مقلد علماء کی صف میں آجاتا ہے۔ یہاں تک تو بہت ساروں کے اختیار میں ہوتا ہے۔ لیکن اس سے آگے صلاحیت کی بات ہوتی ہے۔ اگر اس میں صلاحیت ہو تو وہ آگے بڑھتا رہتا ہے حتی کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اس کے سامنے تمام فقہاء کے مسائل اور دلائل واضح ہو جاتے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ اسے ہر مسئلے میں سب کا علم ہو۔ اس میں یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ سب کے نقطہ نظر کو سمجھ سکتا ہے ۔ یہاں پہنچ کر وہ کسی کے مسلک پر اعتراض نہیں کر سکتا کیوں کہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ سامنے والا کیا کہہ رہا ہے اور کیوں کہہ رہا ہے۔ اس سے تھوڑا آگے بڑھے تو پھر وہ اپنی ذاتی راہ بھی متعین کر سکتا ہے۔
اس لیے۔۔۔۔۔۔
جو لوگ ایک ہی امام کی فروع پر چلنے کے دعویدار ھیں۔ وہ خود بہت سے مسائل میں اپنے امام سے اختلاف کیئے ھوئے ہیں۔
ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ انسان یا مقلد ہوگا اور یا مجتہد۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ انسان یا مزدور ہوگا اور یا امام مالک اورابو حنیفہ۔ یہ ناممکن ہے۔ درمیان میں بھی بہت کچھ ہے۔عموماً ہم متشدد علماء کی آراء سنتے ہیں جو کہ حقیقت سے دور ہوتی ہیں۔

اور اگر بات عامی کے علم کے بقدر کسی عالم پر (عقائد میں) اعتماد ہی کی ھے۔ تو وہ عامی اُسی عالم پر ہی اعتماد کرکے فروع بھی اُسی عالم سے کیوں نہ سیکھے؟؟؟
عقائد میں اعتماد کی بات نہیں کرتا۔ یہ راستہ تباہی کی طرف لے جائے گا۔ لیکن فروع کیوں نہ سیکھے؟ میں تو کہتا ہوں کہ اس عالم سے فروع سیکھنے کے بعد دنیا بھر کے علماء سے علم حاصل کرے۔ ہر کسی کے پاس ہیرے اور جواہرات ہیں، الگ الگ انواع اور اقسام کے۔ ایک بار اپنے اندر صلاحیت ایک جگہ رہ کر پیدا کرے تاکہ کسی گمراہ عالم کے ہاتھ نہ چڑھ جائے اور پھر ہر جگہ سے علم حاصل کرے۔ اسلاف کا طریقہ بھی یہی تھا کہ مبادی اپنے علاقے میں سیکھتے تھے اور پھر دنیا بھر میں جاتے تھے۔ اب تو انٹر نیٹ موجود ہے۔ سب کچھ مہیا ہے۔ بس حاصل کرنے والوں کی کمی ہے۔
البتہ سیکھنے کی ابتدا کے بعد وہ "عامی" نہیں "عالم" ہو جاتا ہے۔
 
Top