• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احناف کی کتب ضعیف وموضوع روایات سے پر ہیں (علامہ البانی رحمہ اللہ)۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
عظیم محدث علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فما قيمة قول هؤلاء الفقهاء مهما كان شأنهم في المعرفة بالفقه والفهم لنصوص الكتاب والسنة، حينما يتكلمون فيما ليس من اختصاصهم فيدَّعون أن حديث: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب»، هو حديث آحاد وأمير المؤمنين في الحديث ألا وهو الإمام محمد بن إسماعيل البخاري، يقول في مطلِع رسالته المعروفة بجزء القراءة في الصلاة تواتر الخبر عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أنه قال: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب»، فإذا أنأخذ بقول الحنفية الذين قد امتلأت كتبهم بالأحاديث الضعيفة، بل وفيها قسم كبير من الأحاديث الموضوعة؟[الهدى والنور 84/ 7 مفرغ]۔

نمایاں الفاظ کا ترجمہ یہ ہے:
حنفیوں کی کتابیں ضعیف احادیث سے بھری پڑی ہیں حتی کہ ان میں موضوع ومن گھڑت احادیث بھی بڑی مقدار میں موجود ہیں۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
لولی بھائی کے درج کردہ لنک پرجاکر دیکھاتوپتہ چلاکہ ’’عظیم محدث‘‘کتنی عظیم غلط فہمی کے شکار ہیں۔اوریہ صرف مذکورہ’’عظیم محدث‘‘کی ہی غلطی نہیں بلکہ تقریباہرنام نہاد اہل حدیث اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ احناف قران کے عمومات میں خبر واحد کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔اوریہ غلط فہمی آج کل کی پیداوارنہیں ہے بلکہ اس غلط فہمی کی جڑیں کافی قدیم ہیں۔
البانی صاحب حنفی گھرانے میں پلے پڑھے ان کے والد خود بڑے حنفی عالم تھے لیکن لگتاہے کہ انہوں نے اپنے والد سے کچھ بھی حاصل نہیں کیاکم ازکم اصول فقہ حنفیہ کو ہی ٹھیک سے سمجھ لیتے۔
احناف خبرواحد سے عمومات قرآنی کی تخصیص نہیں کرتے اس کا یہ معنی نہیں کہ احناف خبرواحد کو لاپرواہی کے ساتھ نظرانداز کردیتے ہیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ احناف خبرواحد سے عمومات قرآنی میں تخصیص کو درجہ فرض میں قرارنہیں دیتے۔یعنی اگرکسی قرآن کی آیت عام ہے اورخبرواحد سے اس کی تخصیص ہورہی ہے تواس کو وہ درجہ وجوب میں تخصیص قراردیں گے درجہ فرض میں تخصیص خبرواحد سے نہیں کرتے۔
اس کی مثال زیربحث مسئلہ ہے کہ قرآن کی آیت فاقرئوا ماتیسراالخ عام ہے اورلاصلوۃ الخ والی حدیث خبرواحد ہے۔ لہذا خبرواحد کی بنیاد پر احناف کہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ کاپڑھناواجب ہوگا فرض نہیں ہوگا۔ یاجیسے حدیث تعدیل ہے احناف اس کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ نماز میں تعدیل ارکان واجب ہے فرض اس لئے نہیں کہتے کہ وہ خبرواحد ہے۔
کسی حدیث سے ثابت ہونے والے حکم کو درجہ وجوب میں رکھناکیاحدیث کونظرانداز کرنے سے تعبیر کیاجاسکتاہے۔ جمشید صاحب نے اپنے مضمون امام کرخی کے اصول میں اس کی اچھی وضاحت کی ہے اوران سے گزارش ہے کہ وہ اس خاص موضوع پر کوئی تحریر ضرور لکھیں تاکہ ایک عام غلط فہمی کا ازالہ ہوسکے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ندوی صاحب !
آپ بھی انہیں لوگوں میں سے معلوم ہوتے ہیں جن کا یہ حربہ ہوتا ہے فریق مخالف کی باتوں کا جواب نہ بن پڑے توان پر یہ الزام لگا دو کہ وہ سمجھ ہی نہیں پائے ۔
تاکہ بھولے بھالے قارئیں بس اتناسن کر ہی مطمئن ہوجائیں کہ فلاں شخص اصل بات ہی نہیں سمجھ پایا اس لئے غلط فہمی کا شکار ہوگیا ، پھر اس کے نتیجے میں اس کے جو بھی اعتراضات تھے وہ سب بے معنی ہوگئے۔

آپ اورآپ جیسے لوگ اس حربہ سے صرف اپنے انہیں لوگوں کو مگن کرسکتے ہیں ، جنہوں نے اندھی تقلید کی قسم کھائی ہو ۔

حقیقت یہ ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ سے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی بلکہ ندوی صاحب یا تو مذکورہ حربہ استعمال کررہے ہیں یا الٹا چور کوتوال کو ڈانٹنے والا معاملہ ہے، یعنی غلط فہمی خود ندوی صاحب ہی سے ہوئی اور موصوف خود ہی علامہ البانی رحمہ اللہ کی عبارت سمجھ نہ سکے اوراپنی غلط سمجھ کو بنیاد بناکر ایک عظیم محدث پر غلط فہمی کا الزام جڑ دیا ۔ لاحول ۔۔۔۔۔

ندوی صاحب لکھتے ہیں:
احناف خبرواحد سے عمومات قرآنی کی تخصیص نہیں کرتے اس کا یہ معنی نہیں کہ احناف خبرواحد کو لاپرواہی کے ساتھ نظرانداز کردیتے ہیں بلکہ یہ مطلب ہے۔۔
محترم ندوی صاحب علامہ البانی نے کہاں کہا کہ احناف خبرواحد کو نظر انداز کردیتے ہیں ؟؟؟؟؟

جناب والا !
علامہ البانی رحمہ اللہ خبرواحد کو رد کرنے یا قبول کرنے پر بات نہیں کررہے ہیں بلکہ علم حدیث میں احناف کی اس یتیمی پر بات کررہے ہیں جو انہیں ابوحنیفہ سے ورثہ میں ملی ہے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ کے کلام کا مقصود یہ ہے کہ :
احناف نے یہ اصول تو بنادیا کہ خبرواحد سے قران کی تخصیص نہیں کریں گے لیکن یہ بے چارے یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ کون حدیث خبر واحد ہے اورکون متواتر ہے :

علامہ البانی فرماتے ہیں:
[ARB]ولست أريد أن أناقش هذه المسألة من كل جوانبها أو أطرافها، لكني أريد أن أدندن حول قولهم بأن حديث: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب»، حديث آحاد، فما قيمة قول هؤلاء الفقهاء مهما كان شأنهم في المعرفة بالفقه والفهم لنصوص الكتاب والسنة، حينما يتكلمون فيما ليس من اختصاصهم فيدَّعون أن حديث: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب»، هو حديث آحاد وأمير المؤمنين في الحديث ألا وهو الإمام محمد بن إسماعيل البخاري، يقول في مطلِع رسالته المعروفة بجزء القراءة في الصلاة تواتر الخبر عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أنه قال: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب»،[/ARB][الهدى والنور 84/ 7]۔

اس عبارت کا خلاصہ یہ کہ علامہ البانی فرماتے ہیں میں اصل مسئلہ پر مناقشہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ بتانا چاہتاہوں کہ احناف اس حدیث «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب»، کو خبرواحد کہتے ہیں ، حالانکہ أمير المؤمنين في الحديث امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو متواتر کہتے ہیں ۔

علامہ البانی رحمہ اللہ آگے فرماتے ہیں:
فماذا نقول في هؤلاء الفقهاء حينما يقولون ذاك الحديث: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب»، هو حديث آحاد وأمير المؤمنين في الحديث يقول إنه تواتر عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم [الهدى والنور 84/ 7]۔

اس عبارت کا بھی مفہوم وہی ہے جو اوپر پیش کیا گیا یعنی حدیث «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب»، کو احناف خبرواحد سمجھتے ہیں جبکہ أمير المؤمنين في الحديث امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو متواتر قراردیتے ہیں۔

اس کو یوں سمجھیں کہ :

کوئی حنفی کہے کہ لمباسفر ٹرین کا ہو تو میں لازما سو جاتاہوں لیکن اگر بس کا سفر ہو بمشکل ہی سوپاتاہوں اس لئے جاگتارہتاہوں ۔
اب اس حنفی کو کسی نے ٹرین میں بٹھادیا لیکن ٹرین میں بیٹھنے کے باوجود بھی بندہ شب بیداری کررہا ہے پوچھا گیا حنفی بھائی سوتے کیوں نہیں ؟ کہنے لگا : بتایا نا کہ بس میں مجھے مشکل ہی سے نیندآتی ہے !!!
حالانکہ بے چارا بس میں نہیں ٹرین ہی میں بیٹھا ہے ۔

جی ہاں حنفیوں کی یہی وہ حالت ہے جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے اوپر بتایا ہے۔
یعنی حنفیوں نے اصول بنایا کہ قران کی تخصیص خبرواحد سے نہیں ہوتی بلکہ متواترسے ہوتی ہے۔
اب اس کے سامنے متواتر حدیث پیش کی گئی تو کہتاہے کہ یہ خبرواحد ہے ۔
یعنی بندے کو اپنا اصول معلوم ہے ، لیکن کون حدیث متواتر ہے اورکون خبرواحد یہ پتہ ہی نہیں ۔

اب دیکھیں ندوی صاحب کیا فرماتے ہیں:
اس کی مثال زیربحث مسئلہ ہے کہ قرآن کی آیت فاقرئوا ماتیسراالخ عام ہے اورلاصلوۃ الخ والی حدیث خبرواحد ہے۔ لہذا خبرواحد کی بنیاد پر احناف کہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ کاپڑھناواجب ہوگا فرض نہیں ہوگا۔ یاجیسے حدیث تعدیل ہے احناف اس کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ نماز میں تعدیل ارکان واجب ہے فرض اس لئے نہیں کہتے کہ وہ خبرواحد ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ایک سوال!
کتنے محدثین نے حدیث لاصلوۃ کو حدیث متواتر کہاہے۔
تاکہ ہمارے علم میں بھی متواتر حدیث میں ایک نئے کا اضافہ ہو ۔ویسے حیرت کی بات یہ ہے کہ قرائت فاتحہ خلف الامام حنفیوں اورشافعیوں کے درمیان مشہور نزاعی مسئلہ ہے اس کے باوجود کسی نے آج تک اس کا حوالہ نہیں دیاکہ یہ حدیث متواتر ہے۔ لہذا احناف کو اس کو مانناہی چاہئے۔ویسے کفایت اللہ صاحب کے ذمہ ایک تیسری چیز بھی ہے وہ امام بخاری کے رسالہ کے استنادی حیثیت بیان کردیں کہ وہ ان سے کتنی مضبوط سند سے مروی ہے۔
جہاں تک البانی صاحب کی بات ہے توفقہاء کے کلام کو سمجھنے میں ان کی معذوری کاہم خیال رکھتے ہیں اوراسی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اوریہ صرف ان کی ہی بات نہیں بہت سارے دیگر محدثین کے ساتھ بھی ایسارہاہے۔
ذرایہ دیکھئے ابن عبدالبر اپنے شیخ کی شان میں کیاکہتے ہیں۔
أما خلف بن القاسم بن سهل الحافظ فشيخ لنا وشيخ لشيوخنا أبي الوليد بن الفرضي وغيره، كتب بالمشرق عن نحو ثلاثمائة رجل، وكان من أعلم الناس برجال الحديث وأكتبهم له، وأجمعهم لذلك وللتواريخ والتفاسير ولم يكن له بصر بالرأي، يعرف بابن الدباغ وهو محدث الأندلس في وقته
بغية الملتمس في تاريخ رجال أهل الأندلس (1/288)
اس کے علاوہ مزید مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں تو البانی صاحب کاحنفی فقیہہ باپ کے گھر میں پیداہوکر فقہ حنفی سے ناآشنارہ جاناکوئی تعجب کی بات نہیں قرات فاتحہ خلف الامام میں احناف کے دلائل کیاہیں اورکن بنیادوں پر انہوں نے یہ شق اختیار کیاہے۔ اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے توکچھ انہیں معلوم ہوتالیکن جب آدمی یہی نعرہ لگاناشروع کردے کہ سب سے بڑامحدث ہی سب سے بڑافقیہہ بھی ہے(یہ بات البانی صاحب نے بھی کہی ہے۔ اورانہی کے تاثر میں شاید کفایت اللہ صاحب نے اس کی حمایت میں فورم پر تحریر لکھی تھی)تواسی سے اس کی فقاہت کا اندازہ ہوجاتاہے؟ویسے کمال یہ ہے کہ اسماعیل سلفی صاحب نے بھی تحریک آزادی فکر نامی کتاب میں قرات خلف الامام میں احناف کے دلائل کی مضبوطی کی جانب اشارہ کیاہے۔
اورآج غیرمقلدین کا جومسلک ہے قرات فاتحہ خلف الامام نہ ہو تو نماز نہیں ہوگی وہ جمہور امت کے مسلک کے خلاف ہے!
بہرحال یہ مسئلہ ایساہے جس پر مولانا سرفراز خان صفدر نے احسن الکلام میں تفصیلی بحث کی ہے اوراحناف کے موقف کو تفصیلی طورپر سامنے رکھاہے جس کے بعد ایک انصاف پسند کیلئے یہ طے کرنے میں دشواری نہیں ہوگی کہ احناف کے دلائل کیاہے اورکیسے ہیں؟
ویسے ضعیف اورموضوع احادیث سے اپنی کتاب پرکرنے کاجوشکوہ البانی کو احناف سے ہے وہی شکوہ حافظ ذہبی نے خطیب ،ابونعیم اور ابن مندہ کے تعلق سے کیاہے۔اوراس تعلق سے جو عذر گناہ بعدترازگناہ بیان کیاجاتاہے اس پر بھی رد کیاہے؟
فقہاء نے اگرکمزوراورموضوع حدیثیں بیان کردیں تو ان کا عذرقابل مسموع ہے کہ وہ اس فن شریف سے اس قدر آشنانہیں لیکن جوآشناہیں انہوں نے اپناحال ناآشنائوں جیساکیوں بیان کررکھاہے۔
حافظ ذہبی نے ان کے علاوہ بھی محدثین زمانہ کا رونارویاہے کہ وہ اپنی کتابون میں غریب منکر شاذ اوراسی قسم کی واہی تباہی حدیثیں بیان کرتے ہیں ان کو علم وفن سے کوئی واسطہ نہیں اوربہت کچھ ۔یہ سب باتیں بھی البانی کے علم میں ہوں گی لیکن ان کی تان ٹوٹی تواحناف پر آکر۔
احناف کو اپنی محبت کیلئے خاص کرنے کی وجہ کیاتھی توہم سوائے اس کے اورکیاکہہ سکتے ہیں کہ ساون کے اندھے کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بہرحال یہ مسئلہ ایساہے جس پر مولانا سرفراز خان صفدر نے احسن الکلام میں تفصیلی بحث کی ہے اوراحناف کے موقف کو تفصیلی طورپر سامنے رکھاہے جس کے بعد ایک انصاف پسند کیلئے یہ طے کرنے میں دشواری نہیں ہوگی کہ احناف کے دلائل کیاہے اورکیسے ہیں؟
مولانا سرفراز صفدر صاحب کی تفصیلی بحث کے باوجود احناف کے دلائل کے حوالے سے سوالیہ نشان (؟) باقی رہ جاتا ہے ۔ البتہ اگر مولانا ارشاد الحق اثری صاحب کی توضیح الکلام پڑھ لی جائے تو پھر حتمی انداز میں کہا جاسکتا ہے کہ احناف کے دلائل بالکل کچھ بھی نہیں ہیں ۔

ویسے ضعیف اورموضوع احادیث سے اپنی کتاب پرکرنے کاجوشکوہ البانی کو احناف سے ہے وہی شکوہ حافظ ذہبی نے خطیب ،ابونعیم اور ابن مندہ کے تعلق سے کیاہے۔اوراس تعلق سے جو عذر گناہ بعدترازگناہ بیان کیاجاتاہے اس پر بھی رد کیاہے؟
فقہاء کا اور محدثین کا کسی ضعیف کو کتاب میں درج کرنا دونوں میں بڑا فرق ہے ۔ فقہاء احادیث درج کرتے ہیں استدلال کے لیے جبکہ محدثین کے احادیث ضعیفہ کو درج کرنے کے اور بھی بہت سارے مقاصد ہوتے ہیں ۔
اگر یہی کام آپ نے کرنا ہے تو پھر دور کیوں جاتے ہیں شیخ البانی پر ان کے سلسلہ ضعیفہ کو ہی لے کر الزامی جواب تھونپ دیں ۔

فقہاء نے اگرکمزوراورموضوع حدیثیں بیان کردیں تو ان کا عذرقابل مسموع ہے کہ وہ اس فن شریف سے اس قدر آشنانہیں لیکن جوآشناہیں انہوں نے اپناحال ناآشنائوں جیساکیوں بیان کررکھاہے۔
ویسے بڑے کام کی بات کی ہے ۔ بلکہ یوں کہنا چاہیےکہ بڑے کام کا اعتراف کیا ہے ۔بعض فقہاء کے بارے میں جو کہا جاتا ہے کہ وہ قلیل الحدیث تھے یہ اسی جملے کا بامحاورہ ترجمہ تو نہیں ؟

حافظ ذہبی نے ان کے علاوہ بھی محدثین زمانہ کا رونارویاہے کہ وہ اپنی کتابون میں غریب منکر شاذ اوراسی قسم کی واہی تباہی حدیثیں بیان کرتے ہیں ان کو علم وفن سے کوئی واسطہ نہیں اوربہت کچھ ۔یہ سب باتیں بھی البانی کے علم میں ہوں گی لیکن ان کی تان ٹوٹی تواحناف پر آکر۔
احناف کو اپنی محبت کیلئے خاص کرنے کی وجہ کیاتھی توہم سوائے اس کے اورکیاکہہ سکتے ہیں کہ ساون کے اندھے کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
حافظ ذہبی خود فن شناس ہیں وہ اہل فن کی ناقدری نہیں کر سکتے ۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے یہ بات ان ’’ محفقین ‘‘کے بارے میں کی ہو جن کے پاس قلۃ حدیث کا سرٹیفکیٹ ہے یا ہوسکتا ہے کہ امام ذہبی کے زمانہ میں بھی ایسے لوگ ہوں کہ جو موضوعات شریف کی بنیاد پر اپنے آپ کو محدث منوانے پر تلے ہوئے ہوں اور محدثین سے اظہار عداوت کرکے اپنے لیے خاص ’’قواعد فی علوم الحدیث ‘‘ بنا لیے ہوں ۔

یہ چند باتیں چٹکلہ بجواب چٹکلہ کے قبیل سے ہیں ۔ علمی باتوں کا جواب دینے کے لیے اہل علم موجود ہیں ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
یہ چند باتیں چٹکلہ بجواب چٹکلہ کے قبیل سے ہیں ۔ علمی باتوں کا جواب دینے کے لیے اہل علم موجود ہیں ۔
اپنی حیثیت عرفی کے تعیین کا بہت شکریہ۔
ویسے میری یہ غلط فہمی بھی آپ نے دورکردی کہ آپ اہل علم نہیں ہے۔ مزید شکریہ قبول فرمائیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اپنی حیثیت عرفی کے تعیین کا بہت شکریہ۔
ویسے میری یہ غلط فہمی بھی آپ نے دورکردی کہ آپ اہل علم نہیں ہے۔ مزید شکریہ قبول فرمائیں۔
شکر ہے کسی جگہ تو آپ کے ’’فہم ‘‘ سے ’’ غلطی ‘‘ دور ہوئی ہے ۔
حسن ظن کے لیے الف الف شکریہ
اور عربی کہاوت بھی ہے نا ! الصاحب ساحب ۔
 
Top