• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احناف کے نزدیک زیر ناف ہاتھ باندھنے والی روایت ضعیف ہے.

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
نماز میں قیام میں کہاں ہاتھ باندھنے چاہئیے ۔ کیا کوئی صحیح حدیث پیش کرسکتے ہیں ؟
دلیل نمبر١:
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ،
"ثم وضع یدہ الیمنیٰ علی ظھر کفہ الیسریٰ والرسغ والساعد "
پھر آپ نے دایاں ہاتھ بائیں ہتھیلی، کلائی اور (ساعد)بازوپر رکھا۔
صحیح ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸۰، ۷۱۴) صحیح ابن حبان (۱۶۷/۳ ح ۱۸۵۷ والموارد: ۴۸۵) مسند احمد (۳۱۸/۴ ح ۱۹۰۷۵) سنن نسائی(۱۲۶/۲ ح ۸۹۰) سنن ابی داؤد مع بذل المجہود (۴۳۷/۴، ۴۳۸ ح ۷۲۷ وسندہ صحیح)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: "لان العبرۃ بعموم اللفظ حتی یقوم دلیل علی التخصیص"
جب تک تخصیص کی دلیل قائم نہ کی جائے عموم لفظ کا ہی اعتبار ہوتا ہے۔ (فتح الباری ۲۶۱/۱۲ تحت ح ۲۹۵۱)
"بعض الساعد" کی تخصیص کسی حدیث میں نہیں ہے، لہٰذا ساری "الساعد" پر ہاتھ رکھنا لازم ہے، تجربہ شاہد ہے کہ اس طرح ہاتھ رکھے جائیں تو خودبخود سینے پر ہی ہاتھ رکھے جاسکتے ہیں۔
دلیل نمبر ۲:
قال الامام احمد فی مسندہ: "ثنا یحیی بن سعید عن سفیان حدثنی سماک عن قبیصۃ بن ھلب عن ابیہ قال: رایت النبی ﷺ ینصرف عن یمینہ وعن شمالہ ورایتہ یضع ھذہ علی صدرہ/ وصف یحیی الیمنی علی الیسریٰ فوق المفصل"

ہلب الطائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے بنی ﷺ کو (نماز سے فارغ ہوکر) دائیں اور بائیں (دونوں) طرف سلام پھیرتے ہوئے دیکھا ہے اور دیکھا ہے کہ آپ یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے۔ یحیی (القطان راوی) نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر (عملاً) بتایا۔ (مسنداحمد ۲۲۶/۵ح۲۲۳۱۳ وسندہ حسن والتحقیق لابن الجوزی ۲۸۳/۱)
دلیل نمبر٣:
قال ابن خزیمۃ فی صحیحہ: "نا ابوموسیٰ : نا مؤمل : نا سفیان عن عاصم بن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجر قال: صلیت مع رسول اللہ ﷺ ووضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ علی ٰ صدرہ"

سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ ﷺ نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر سینہ پر رکھا۔ (ابن خزیمہ۲۴۳۱/۱ح ۴۷۹ واحکام القرآن للطحاوی ۱۸۶/۱ ح ۳۲۹)
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
نماز میں قیام میں کہاں ہاتھ باندھنے چاہئیے ۔ کیا کوئی صحیح حدیث پیش کرسکتے ہیں ؟
گویا آپ کو تسلیم ہے کہ زیر ناف ہاتھ باندھنے والی روایت ضعیف ہے۔
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
آپ کی بیان کردہ پہلی حدیث میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر نہیں ۔ صرف ایک احتمال کےتحت آپ نے کہا اگر اس حدیث کے بیان کردہ طریقہ کے مطابق ہاتھ باندھیں گے تو سینے پر ہی باندھا جاسکتا ہے ۔ یہ ایک احتمال ہے کوئی پکی دلیل ہے ۔ حدیث میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی الفاظ بھی لہیں ہیں ۔


دوسری حدیث متکلم فیہ ہے اور اس میں ضعف بھی ہے

سماک بن حرب کو سفیان ، ابن مبارک اور شعبہ نے ضعیف کہا ہے (میزان الاعتدال ، تھذیب التھذیب )


تیسری حدیث بھی متکلم فیہ ہے اور اس میں ضعف بھی ہے

مومل بن اسماعیل – امام بخاری اس کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے ۔ ابن حبان کہتے ہیں کہ اس کی روایات میں کثرت سے خطا ہوئی ہے ۔ امام ابو حاتم اور امام دار قطنی نے کثیر الخطا کہا ہے (میزان الاعتدال ، تھذیب الکمال )
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
گویا آپ کو تسلیم ہے کہ زیر ناف ہاتھ باندھنے والی روایت ضعیف ہے۔
افتاب بھائی بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے انس بھائی کے اس سوال کا جواب تو دیتے جائیں۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
آپ کی بیان کردہ پہلی حدیث میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر نہیں ۔ صرف ایک احتمال کےتحت آپ نے کہا اگر اس حدیث کے بیان کردہ طریقہ کے مطابق ہاتھ باندھیں گے تو سینے پر ہی باندھا جاسکتا ہے ۔ یہ ایک احتمال ہے کوئی پکی دلیل ہے ۔ حدیث میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی الفاظ بھی لہیں ہیں ۔
محترم بھائی، اگر آپ اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہتھیلی، کلائی اور بازو پر رکھیں، تو آپ کے ہاتھ جہاں تک بھی پہنچ سکیں وہیں رکھ کر نماز پڑھ لیا کریں۔ اس حدیث پر بہرحال عمل ہو جائے گا۔ہمارے ہاتھ تو سینے پر ہی پہنچتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ حدیث عمل کرنے کے لئے ہی ہے نا کہ صحیح ہونے کے باوجود بس خودساختہ احتمال کی زد میں لا کر رد کرنے کے لئے۔ اور یہ عمل چاہے سینے پر ہاتھ باندھنے کا ہو یا نہ ہو لیکن زیر ناف ہاتھ تو خیر کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ اور یہ آپ کو بھی تسلیم ہوگا ہی کہ دو ہی طرح کی احادیث پائی جاتی ہیں ۔ یا تو سینے پر ہاتھ باندھنے کی یا زیر ناف ہاتھ باندھنے کی۔ احناف کہتے ہیں کہ سینے پر ہاتھ باندھنے والی احادیث ضعیف ہیں اور اہلحدیث کہتے ہیں کہ زیر ناف والی احادیث ضعیف ہیں۔
لہٰذا ناصر بھائی کی پیش کردہ حدیث نمبر ایک سے یہ فیصلہ خودبخود ہو جاتا ہے کہ ہاتھ سینے پر ہی باندھنے چاہئیں۔ اگر اس حدیث کی سند و متن میں کوئی کلام ہے تو ارشاد فرمائیں!
پھر حدیث نمبر ٢ اور ٣ پر بھی بات کر لیجئے گا۔ اگر پہلی حدیث سے ہی کوئی فیصلہ کیا جانا ممکن ہے تو اسی پر مدار رکھنا چاہئے۔ امید ہے کہ آپ بھی مان جائیں گے۔ جیسے کہ آپ نے یہاں تسلیم کیا ہے کہ آپ اندھے مقلد بہرحال نہیں ہیں۔ اور مجھے بھی یہی حسن ظن ہے آپ سے ان شاء اللہ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
[=افتاب;6194]آپ کی بیان کردہ پہلی حدیث میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر نہیں ۔ صرف ایک احتمال کےتحت آپ نے کہا اگر اس حدیث کے بیان کردہ طریقہ کے مطابق ہاتھ باندھیں گے تو سینے پر ہی باندھا جاسکتا ہے ۔ یہ ایک احتمال ہے کوئی پکی دلیل ہے ۔ حدیث میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی الفاظ بھی لہیں ہیں ۔
اس کا تو راجا بھائی نے خوب جواب دیا ہے،، جزاک اللہ راجا بھائی

دوسری حدیث متکلم فیہ ہے اور اس میں ضعف بھی ہے

سماک بن حرب کو سفیان ، ابن مبارک اور شعبہ نے ضعیف کہا ہے (میزان الاعتدال ، تھذیب التھذیب )
اور سماک بن حرب کے بارے میں تفصیل ملاحظہ ھو:-

سماک بن حرب:صدوق وروایتہ عن عکرمۃ خاصۃ مضطربۃ وقد تغیر باخرۃ فکان ربما تلقن۔ (تقریب التہذیب: ۲۶۲)
یاد رہے کہ سماک کی یہ روایت عکرمہ سے نہیں ہے، لہٰذا اضطراب کا خدشہ نہیں، سفیان الثوری نے سماک سے حدیث کا سماع قدیماً (اختلاط سے پہلے) کیا ہے لہٰذا ان کی سماک سے حدیث مستقیم ہے۔
(دیکھئے بذل المجہود ج ۴ ص۴۸۳، تصنیف خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی)

سماک کی روایت صحیح مسلم ، بخاری فی التعلیق اور سنن اربعہ میں ہے۔


سماک بن حرب کتب ستہ کے راوی اور اوساط تابعین میں سے ہیں-

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ان کی درج ذیل روایتیں ہیں:
صحیح بخاری: (ح ٦٧٢٢
صحیح مسلم: )

224,168/436,
487
589,
499,
606,
618,
643,
670,
734,
862,
, ,866
965
,978
1075/173
,1385,

(صحیح مسلم میں اور بھی بہت ہیں آپ کہیں گے تو آپ کی تسلی کے لیے پیش کر دو گا،)
خیر
فواچ عبدالباقی کی ترقیم کے مطابق یہ پینتالیس (٤٥) روایتیں ہیں۔ ان میں سے بعض روایتیں دو دو دفعہ ہیں ۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ صحیح مسلم میں سماک کی پینتالیس سے زیادہ روایتیں موجود ہیں،
سنن ابی داود ، سنن ترمذی ، سنن ابن ماجہ اور سنن النسائی میں ان کی بہت سی روایتیں ہیں۔

آپ کی اس دلیل کا بھی جواب لیجئے جناب
سماک بن حرب کو سفیان ، ابن مبارک اور شعبہ نے ضعیف کہا ہے
١۔شعبہ: اس روایت کو یحی بن معین نے روایت کیا ہے اور یحی بن معین ١٥٧ ھ میں پیدا ھوے اور
شعبہ بن الحجاج ١٦٠ ھ میں فوت ھوے، یعنی یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے مردود ہے،
(تاریخ بغداد ٢١٥ ،٩،ت ٤٧٩٢)

٢۔سفیان الثوری :
امام العجلی (مولود ١٨٢ ھ متوفی ٢٦١ھ) نے کہا:
جائز الحدیث۔۔۔۔۔و کان فصیحا الا انہ کان فی حدیث عکرمت ربما و صل عن ابن عباس۔۔۔۔وکان
سفیان الثوری یضعفھ بعض الضعف،،،
تاریخ ا الثقات:٦٢١ و تاریخ بغداد ٩ /٢١٦
سفیان الثوری ١٦١ھ میں فوت ھوے لہٰذا یہ سند بھی منقطع ہے
اس کے برعکس شعبہ اور سفیان دونوں سے ثانت ہے کہ وہ سماک بن حرب سے روایتیں بیان کرتے تھے
لہٰذا اگر جرح ثابت بھی ہو ئی تو العجلی کے قول کی روشنی میں اسے " سماک عن عکرمہ عن ابن عباس " کی سند پر محمول کیا جاتا ۔ ابن عدی نےاحمد بن الحسین الصوفی ؟ ثنا محمد بن خلف بن عبد الحمید کی سند کی سا تھ سفیان سے نقل کیا ہے کی سماک ضیعف ہے (الکامل ٣ /١٢٩٩
محمد بن خلف مذکور کے حالات نا معلوم ہیں لہٰذا یہ قول ثابت نہیں ہے۔

٣۔ ابن المبا رک : (تھذیب التھذیب)
یہ روایت بلا سند ہے ۔ کامل ابن عدی (١٢٩٩/٣) میں ضیعف سند کے ساتھ یہی جرح اوپرمختصرا مروی ہے۔

تیسری حدیث بھی متکلم فیہ ہے اور اس میں ضعف بھی ہے

مومل بن اسماعیل – امام بخاری اس کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے ۔ ابن حبان کہتے ہیں کہ اس کی روایات میں کثرت سے خطا ہوئی ہے ۔ امام ابو حاتم اور امام دار قطنی نے کثیر الخطا کہا ہے (میزان الاعتدال ، تھذیب الکمال )

میں اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ امام بخاری کا ، منکر الحدیث ، کہنا
امام بخاری کی سند سے ثابت کریں، اور امام بخاری نے اپنی کس کتاب میں ذکر کیا ہے،؟


اور انس بھائی کی بات کا بھی جواب دیں،

aur urdu likhne mein kamzoor hon is liye koi galti hoee ho to mazrat
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اگر احناف کے نزدیک سینے پر ہاتھ رکھنے والی احادیث ضعیف ہیں تو پھر حنفی عورتیں نماز میں کس حدیث کی روشنی میں سینے پر ہاتھ رکھتی ہیں؟؟؟
ماشاء اللہ !اچھا نکتہ ہے۔ اس کا جواب آنا چاہیے۔
 
Top