محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
احناف کے پیچھے نماز
فضیلۃ الشیخ ابو بصیر الطرطوسی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
ائمہ مساجد تین اقسام کے ہوتے ہیں:
(۱) عادل فرمانبردار امام :
اس کی اقتداء میں نماز کے جائز ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔
(۲) گنہگار(فاسق) امام:
اس کا گناہ اور انحراف جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی اس سے قطع تعلقی کرنا اور اس کو چھوڑ کر کسی ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا زیادہ افضل ہوگا جو اس سے کم منحرف ہو اور اس سے زیادہ دین دار ہو۔لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنے سے جمعہ کی نماز یا جماعت کی نماز کو چھوڑنا نہ پڑے۔ اور اگر اس سے قطع تعلقی کرنے سے جمعہ اور جماعت رہ جاتی ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا واجب ہو جاتا ہے ۔
۳)کافر و مرتدامام:
وہ امام جس کا کفر اور ارتداد یقینی دلیل سے ثابت ہو جائے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں اس بات میں قطعا ًکوئی اختلاف نہیں ہے۔(فتویٰ نمبر:۹۴۳)
جس امام کے متعلق معلوم ہو کہ یہ کفر و شرک کا عقیدہ رکھتا ہے تو چونکہ اس کی اپنی نماز باطل ہے اس لئے اس کی اقتدا میں پڑھی گئی نماز درست نہیں جیسا کہ شیخ بدیع الدین شاہ راشدی کی کتاب'' امام صحیح العقیدہ ہونا چاہیے''، حافظ عبداللہ بہاولپوری کی کتاب'' اہل حدیث کی نماز غیر اہل حدیث کے پیچھے'' میں شرکیہ و کفریہ نظریات رکھنے والے دیوبندی کے پیچھے نماز نہ ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ اورجس امام کے عقیدہ کے متعلق معلوم نہ ہو یعنی مجہول الحال ہو تو اس بارے میں گزشتہ صفحات میں تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
رہا وہ امام جو غیر شرکیہ بدعات میں ملوث ہے یا فقہی مسائل میں کسی مذہب کا مقلد ہے تو اس کی اقتداء میں نماز ادا کرنا درست ہے۔