• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احناف کے پیچھے نماز۔ اہل سنت کا منہج تعامل

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
احناف کے پیچھے نماز

فضیلۃ الشیخ ابو بصیر الطرطوسی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
ائمہ مساجد تین اقسام کے ہوتے ہیں:

(۱) عادل فرمانبردار امام :
اس کی اقتداء میں نماز کے جائز ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔

(۲) گنہگار(فاسق) امام:
اس کا گناہ اور انحراف جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی اس سے قطع تعلقی کرنا اور اس کو چھوڑ کر کسی ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا زیادہ افضل ہوگا جو اس سے کم منحرف ہو اور اس سے زیادہ دین دار ہو۔لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنے سے جمعہ کی نماز یا جماعت کی نماز کو چھوڑنا نہ پڑے۔ اور اگر اس سے قطع تعلقی کرنے سے جمعہ اور جماعت رہ جاتی ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا واجب ہو جاتا ہے ۔

۳)کافر و مرتدامام:
وہ امام جس کا کفر اور ارتداد یقینی دلیل سے ثابت ہو جائے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں اس بات میں قطعا ًکوئی اختلاف نہیں ہے۔(فتویٰ نمبر:۹۴۳)

جس امام کے متعلق معلوم ہو کہ یہ کفر و شرک کا عقیدہ رکھتا ہے تو چونکہ اس کی اپنی نماز باطل ہے اس لئے اس کی اقتدا میں پڑھی گئی نماز درست نہیں جیسا کہ شیخ بدیع الدین شاہ راشدی  کی کتاب'' امام صحیح العقیدہ ہونا چاہیے''، حافظ عبداللہ بہاولپوری کی کتاب'' اہل حدیث کی نماز غیر اہل حدیث کے پیچھے'' میں شرکیہ و کفریہ نظریات رکھنے والے دیوبندی کے پیچھے نماز نہ ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ اورجس امام کے عقیدہ کے متعلق معلوم نہ ہو یعنی مجہول الحال ہو تو اس بارے میں گزشتہ صفحات میں تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔

رہا وہ امام جو غیر شرکیہ بدعات میں ملوث ہے یا فقہی مسائل میں کسی مذہب کا مقلد ہے تو اس کی اقتداء میں نماز ادا کرنا درست ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فضیلہ الشیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں :

'' امت میں باہمی اختلاف کا ایک پہلو فقہی و فروعی اور استنباط و استخراج مسائل کا ہے ، اور یہ اختلاف صحابہ کرام ،تابعین عظام اور ائمہ کرام سے چلا آرہا ہے مگر اس کے باوجود سلف میں کوئی تفریق و انتشار نہ تھا۔ چنانچہ صحابہ کرام و تابعین میں مَس ذکر سے وضو ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے کا اختلاف تھا، آگ سے پکی ہوئی چیز کے کھانے سے وضو ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے کا اختلاف تھا اور اس میں بھی اختلاف تھا کہ خون کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں لیکن اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کا احترام کرتے اور ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے۔

سیدنا عثمان؄ نے حج کے دوران چار رکعتیں پڑھائیں تو سیدنا عبداللہ بن مسعود وغیرہ صحابہ؇نے ان سے اس بارے میں اختلاف تو کیا مگر ان کے پیچھے خود چار رکعتیں ہی پڑھیں۔ جب سیدناعثمان؄ نے چار رکعتیں پڑھائیں تو سیدنا عبداللہ بن مسعود؄ نے افضل عمل چھوڑنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے 'انا للہ وانا الیہ راجعون' پڑھا۔ (مسلم :ج۱ص۲۴۳)

ان سے کہا گیا کہ آپ سیدنا عثمان؄ پر اعتراض تو کرتے ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ ان کے ساتھ چار رکعتیں بھی پڑھتے ہیں تو انہوں نے فرمایا : ''الخلاف شر'' اختلاف برا ہے(أبودائود ،رقم :۱۹۶۰)اور بیہقی کے الفاظ ہیں ''انی لأکرہ الخلاف '' میں اختلاف کو برا جانتا ہوں ...۔

اسی طرح امام احمد سے پوچھا گیاکہ ایک شخص قرآن کا حافظ ہے مگر رفع الیدین نہیں کرتا ،اور دوسرا وہ ہے جو رفع الیدین کرتا ہے مگر قرآن کا حافظ نہیں کس کو امام بنایا جائے؟ امام احمد صاحب نے جواب دیا جو قرآن کا حافظ ہے وہ امامت کرائے اور اُسے چاہیے کہ وہ رفع الیدین کرے کیونکہ یہ سنت ہے ۔ (مسائل أحمد بروایۃ عبداللہ ج ۱ ص ۲۳۶)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اسی نوعیت کی متعدد مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خیر القرون میں ایسے فقہی مسائل میں اختلاف کے باوجود سلف ایک دوسرے کا احترام کرتے اور ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے ،ان میں کوئی افتراق و انتشار نہ تھا ...اس کے برعکس تقلید و جمود کے دور میں جو کچھ کہا گیا اور اجتہادی مسائل کی بنیاد پرایک دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے جو فتوے داغے گئے حتی کہ عین خانہ کعبہ میں چار چار جماعتیں ہونے لگیں ۔اقتداء خلف المخالف کا مسئلہ فقہائے متاخرین کی کتابوں میں عموماً پایا جاتاہے ...بلکہ متاخرین کی اسی تنگ نظری کی بنیاد پر باہم جنگ و جدال تک کی نوبت آتی رہی ہے جس کی تفصیل تاریخ کے اوراق میں موجود ہے ۔''اسباب اختلاف فقہاء :حقیقی و مصنوعی عوامل '' میں ہم نے اس کا ذکر بھی کیا ہے ۔مگر یہ صورت حال قطعاً محمود نہیں ۔ہر دور میں درد مند دل رکھنے والے علماء نے سلف کے طریقے کو پسند فرمایا اور ان فروعی ،فقہی مسائل کو باہم انتشار و افتراق کا باعث بننے سے روکا ۔ (مقالات تربیت ۱۷۹۔۱۸۲)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  لکھتے ہیں :
''ان مسائل میں اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے پیچھے نماز جائز ہے جیسا کہ صحابہ کرام ،تابعین عظام اور ان کے بعد ائمہ اربعہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ ان میں سے کسی نے نہیں کہا کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے ،جو اس کا انکار کرتا ہے وہ بدعتی ،گمراہ اور کتاب و سنت اور سلف امت اور ان کے ائمہ کے اجماع کے مخالف ہے ''۔(مجموع الفتاوی ،ج ۲۳ص۳۷۴)

جن دیوبندیوں کی مساجد کے ائمہ بعض بدعات میں ملّوث ہیں اور ان کے ہاں کفر وشرک نہیں پایا جاتا علمائے اہلحدیث نے ان کے پیچھے نماز کے جائز ہونے کے فتاویٰ دئیے ہیں ملاحظہ فرمائیں:
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
(۱)حافظ عبداللہ محدث روپڑی 

سوال: حنفی ،شافعی،مالکی، حنبلی مسلمان ہیں یا نہیں؟مقلدین کے پیچھے نماز اہلحدیث کو جائز ہے یا نہیں؟ اگر یہ فرقے مسلمان ہیں تو اہل سنت والجماعت میں شامل ہیں یا نہیں ؟ مقلد کو اپنی لڑکی کا رشتہ دینا اور لینا جائز ہے یا نہیں؟مقلد کی منکوحہ سے نکاح حلال ہے یا حرام؟

جواب:۔احناف دیوبندی اہل سنت میں شامل ہیں اور اہل سنت کے کئی فرقے ہیں جن میں سے بعض ہر مسئلہ میں ترجیح رکھتے ہیں وہ جماعت اہل حدیث ہے اگر کوئی دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھ لے تو ہو جائے گی لیکن ترجیح اہل حدیث کو ہے اگر امام مقرر کرنا ہو تو اہل حدیث کی کوشش کرنی چاہیے۔باقی باتوں کے جوابات بھی اس کی تحت آگئے۔ اس طرح نکاح پر نکاح بھی صحیح نہیں۔''(فتاویٰ اہلحدیث،ص:۶)

سوال :یہاں اہلحدیث کی کوئی مسجد نہیں ۔ہم جامعہ مسجد اہل احناف میں نماز پنچگانہ ادا کرتے ہیں مگر یہ تمام اوقات نماز پنچگانہ گرا کر نماز پڑھتے ہیں مثلاً ظہر دو بجے عصر ساڑھے چار بجے ۔ خاص کر فجر کی نماز کو یہ لوگ بہت دیر کر کے پڑھتے ہیں ۔لہذا ان اوقات پر کیا ہم بھی ان کے ساتھ ہی نماز باجماعت ادا کرتے رہیں یا اول وقت علیحدہ اپنے گھروں میں نماز پڑھ لیا کریں ۔

جواب :۔جو اوقات آپ نے نمازوں کے لکھے ہیں ۔ان میں بعض میں زیادہ دیر ہے مثلاً آج کل عصر وہاں ساڑھے چار بجے زیادہ تاخیر سے ہوتی ہے اسی طرح ظہر میں کچھ زیادہ تاخیر ہے ۔سو آپ جس نماز کو وہ زیادہ تاخیر سے پڑھیں اکیلے پڑھ لیا کریں ۔اگر دوبارہ ان کے ساتھ موقعہ ملے پڑھ لی ورنہ پہلی کافی ہے ۔(فتاویٰ اہلحدیث جلد اول :۵۵۸)

(۲)مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی  ۱۹۰۰ء ؁فرماتے ہیں بالعموم یہ کہنا کہ غیر مقلد کی نما ز مقلد کے پیچھے نہیں ہوتی صحیح نہیں!
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ غیر مقلد کی نماز مقلد کے پیچھے ہوتی ہے یا نہیں اور مقلد کی نماز غیر مقلد کے پیچھے ہوتی ہے یا نہیں ؟
(۲)امام اعظم کی تقلید کرنا شرک ہے یا نہیں ؟
(۳) جو شخص یہ کہے کہ غیر مقلد کی نماز مقلد کے پیچھے نہیں ہوتی ،اس کے لیے حکم شارع کیا ہے ؟مندرجہ بالا سوالات کے جوابات حدیث سے ہونے چاہئیں۔

الجواب :۔ہر مسلمان کے پیچھے نماز ہوتی ہے ،وہ مقلد ہو یا غیر مقلد ،بشرطیکہ مشرک اور مبتدع ببدعت مکفرہ نہ ہو ۔،اس واسطے کہ مشرک کے پیچھے نماز نہیں ہوتی اور نہ ہی ایسے مبتدع کے پیچھے نماز ہوتی ہے ،جس کی بدعت مکفرہ ہو ،پس جو مقلد مشرک نہیں ،اور مبتدع ببدعت مکفرہ بھی نہیں ہے ،اس کے پیچھے نماز بلا شبہ جائز ودرست ہے اور ہاں واضح رہے بعض مقلدین کی تقلید مفضی الی الشرک (شرک تک پہنچانے والی )ہوتی ہے ،سو ایسے مقلدین کے پیچھے نماز جائز نہیں ،اور تقلید مفضی الی الشرک یہ ہے کہ کسی ایک خاص مجتہد کی اس طرح تقلید کرے کہ جب کوئی صحیح حدیث غیر منسوخ اپنے مذہب کے خلاف پاوے تو اس کو قبول نہ کرے اور یہ سمجھے بیٹھا ہو ،کہ ہمارے امام سے خطا اور غلطی ناممکن ہے اور اس کا ہر قول حق اور صواب ہے ،اور اپنے دل میں یہ بات جما رکھی ہو کہ ہم اپنے امام کی تقلید ہرگز نہیں چھوڑیں گے اگرچہ ہمارے مذہب کے خلاف قرآن و حدیث سے دلیل قائم ہو ،پس جس مقلد کی تقلید ایسی ہو وہ مشرک ہے ...

(۲)امام اعظم صاحب کی تقلید اگر مفضی الی الشرک ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا ،تو بےشک امام اعظم صاحب کی یہ تقلید شرک ہے ،والا فلا۔(اور اگر ایسی نہیں تو مشرک نہیں ہے )

(۳)اس شخص کا علی الاعلان یہ کہنا صحیح نہیں ہے ہاں اگر اس شخص کے کہنے سے یہ مراد ہو کہ مقلد مشرک (یعنی جس کی تقلید مفضی الی الشرک ہو )کے پیچھے غیر مقلد کی نماز نہیں ہوتی تو اس کا یہ کہنا صحیح ہے ،واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب (فتاویٰ نذیریہ ،کتاب التقلیدو الاجتھاد :ج:۱،ص:168,169)

......مولانا سید نذیر حسین مرحوم و مغفور (ان شا اللہ) دہلی کی جامع مسجد اور عیدگاہ میں جا کر حنفی امام کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے ، ان کا یہ طرز عمل خبر متواتر سے ثابت اور معلوم و مشہور ہے ۔(الاعتصام ،۲۵ جون تا یکم جولائی،ص:۲۱)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
(۳)شیخ الاسلام مولانا ابو الوفا ء ثناء اللہ امرتسری 

سوال :ایک شخص حنفی المذہب کہتا ہے کہ ایک وتر پڑھنا گمراہی ہے ۔کیاایسے شخص کے پیچھے نماز درست ہے؟

جواب:ایک وتر پڑھنا حدیث شریف میں آیا ہے(بخاری شریف )جو شخص جان بوجھ کر حدیث کو گمراہی کہے وہ خود گمراہ ہے ۔امام احمد کا قول ہے کہ ایک رکعت وتر زیادہ ثابت ہے ۔نماز بحکم قرآن و حدیث ہر مسلمان کے پیچھے جائز ہے ۔(۲۴جون ۱۹۳۸؁ء) (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول :554)

سوال :جو شخص جماعت اہلحدیث کو گمراہ اور جہنمی قرار دیتا ہے اور علمائے اہل حدیث کے پیچھے نماز ناجائز قرار دیتا ہے ۔ایسے شخص پر منجانب قرآن واحادیث نبویہ کوئی حرف اطلاق ہو سکتاہے یا نہیں ؟اور ایسے شخص کے پیچھے نماز ہوتی ہے یا نہیں ؟الخ

جواب :ایسے شخص کی وہی سزا ہے جو حدیث میں آئی ہے کہ جو شخص کسی کو کافر یا فاسق کہے اور وہ اصل میں نہ ہو تو وہ الفاظ اس پر لوٹ پڑتے ہیں ۔لیکن ایسے شخص کو امام نہیں بنانا چاہیے ۔اگر نماز پڑھا رہا ہو تو اقتداء جائز ہے ۔صحیح بخاری میں باب امامۃ المفتون والمبتدعملاحظہ ہو۔(۵نومبر ۱۹۳۷؁ء) (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول:222)

سوال :مقلدین کو رسول ﷺ کی شفاعت نصیب ہو گی یا نہیں ؟

جواب :ہر کلمہ گو غیر مشرک کو شفاعت نصیب ہوگی ۔مقلدین بھی اس میں داخل ہیں ۔ (۶نومبر ۱۹۳۷؁ء) (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول:۱۸۶)

(۴)مولانا ثنا اللہ امرتسری،مولانا ابو القاسم سیف بنارسی اور مولانا عبدالوہاب آروی اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹیجمیعت علماء ہند کی مجالس شوریٰ میں شرکت کے موقع پر مفتی کفایت اللہ صاحب اور دوسرے اکابر علماء احناف کی اقتداء میں نماز بلا کراہت ادا کرتے تھے ۔(ہفت روزہ الاعتصام ،۲ تا ۸ جولائی،ص۱۵)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
(۵)شیخ الحدیث حافظ ثنا اللہ مدنی حفظہ اللہ

سوال:کیا دیوبندیوں ،بریلویوں وغیرہ کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟

جواب:غیر اللہ کو حاجت روا ،مشکل کشا سمجھنے والے مشرک بریلوی امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا ناجائز ہے ۔
قرآن میں ہے ﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ﴾(التوبہ:۲۸)

اور دیوبندی غیر متعصب امام کے پیچھے بوقت ضرورت نماز پڑھی جا سکتی ہے تاہم مستقلاً اپنا علیحدہ بندوبست کرنا چاہیے کسی بھی مخصوص مقام کو مسجد قرار دیا جا سکتا ہے ۔حدیث میں ہے :((جعلت لی الارض مسجدًا وطھورًا))

(۶)مولانا عبدالقہار صاحب دہلوی۔مفتی جماعت غربا ء اہلحدیث پاکستان

سوال:[۱]حنفی مسلک و عقائد کے حامل دیوبندی کے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟ اگر نماز اسے ایسا سمجھتے ہوئے پڑھ لی تو کب اس نماز کو دھرانا واجب ہے ؟

[۲] کیا انہیں ہم مشرک یا بدعتی کہہ سکتے ہیں ؟

[۳] کسی دینی تحریک میں ان کا ساتھ دینا کیسا ہے ؟ ازراہ کرام مذکورہ سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں۔(سائل :قاری محمد)

جواب:۱۔ صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ شرعا’’ امام عقیدہ و اخلاق اور معاملات میں مقتدیوں سے بہتر ہونا چاہیے جیسا کہ حدیث شریف میں مروی مذکور ہے :
اجعلو ائمتکم خیارکم…رواہ الدارقطنی(نیل الاوطار للشوکانی)

عام حالات میں ان اوصاف مذکورہ بالا کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ عارضی طور پر اوربحالت مجبوری بدعتی فاسق و فاجر کے پیچھے نماز پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ : امام بخاری ؒ نے باب امامۃ المفتون والمبتدع میں تابعی حضرت حسن بصریؒ کا قول نقل کیاہے :
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وقال الحسن: صل و علیہ بدعتہ'' تو بدعتی امام کے پیچھے نماز پڑھ لے اس کی بدعت کا وبال اسی پر ہو گا اور پھرسیدناعثمان؄ کی موقوف حدیث بیان کی ہے ' عبیداللہ بن عدی بن الخیار نے پوچھا تھا کہ آپ؄ امام العوام ہیں اور مشکل میں مبتلا ہیں ' اور ہمیں امام فتنہ نماز پڑھا رہے ہیں ' کیا ہم گناہ گار تو نہیں ہوں گے؟سیدنا عثمان؄ نے فرمایا کہ :

'' الصلاۃ احسن ما یعمل الناس فاذا احسن الناس فاحسن معہم واذا اساؤا فاجتنب اسائتھم ۔''
''کہ نماز لوگوں کا بہترین عمل ہے ' وہ اچھا عمل کریں توتم ان کے ساتھ شریک ہوجاؤاور اگر وہ برا ئی کریں تو تم ان کے ساتھ برائی کرنے میں شریک نہ ہو' '

اور امام بخاری  اپنی تاریخ میں تحریر فرماتے ہیں کہ عبدالکریم البکاء  فرماتے ہیں کہ میں نے دس صحابہ کرام؇ کو پایا وہ سب ائمہ جور کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔

اسی طرح حدیث ہے:صلو خلف من قال : لا الہٰ الا اللہ۔ رواہ الدارقطنی باسناد ضعیف' اور حدیث: الصلاۃ واجبۃ علیکم خلف کل مسلم برا کان او فاجراً وان عمل الکبائر... رواہ ابوداؤد باسناد منقطع' اس سے مجبوری و معذوری کی حالت میں' فاسق و فاجر ' بدعتی وغیرہ کے پیچھے نماز پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے ' بہر صورت امام عالم و موحد اور صحیح العقیدہ کے پیچھے ہی نماز پنجگانہ اداء کرنا چاہیے۔

۲۔شرک کرنے والے کو مشرک اور بدعت کے کام کرنے والے کو بدعتی کہتے ہیں' مشرک اور بدعتی کہنے کی بجائے انہیں حسن اخلاق کے ساتھ صحیح بات بتانی اور سمجھانی چاہیے۔ اور ان کے حق میں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے اور تقلید و بدعت سے انہیں نکال دے ۔ آمین

۳۔ کسی دینی تحریک اور نیک کام میں ہر شخص کا ساتھ دیا جا سکتا ہے کوئی حرج کی بات نہیں ہے ۔ لقولہ تعالی:﴿ وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾(المائدہ:۲)واللہ سبحانہ اعلم۔
(کتبہ محمد ادریس سلفی[نائب مفتی جماعت]الجواب صحیح عبدالقہار عفی عنہ [مفتی جماعت] ) (فتاویٰ ستاریہ ،ج۲ص۱۲۸)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
(۷)سماحۃ الشیخ علامہ صالح المنجد حفظہ اللہ

آپ 1380/12/3 ہجری کو پیدا ہوئے ۔ سعودیہ عرب کے دارلحکومت الریاض میں آپ نے ابتدائی اور انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی اس کے بعد آپ شہر'' ظہران'' منتقل ہو گئے جہاں آپ نے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کی ۔آپ کے درج ذیل اساتذہ ہیں ۔

سماحۃ الشیخ عبدالعزیز عبداللہ بن باز  ۔ان سے آپ نے ۱۵ سال تک علم حاصل کیا۔ فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین ،فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن جبرین ،فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن بن ناصر البراک حفظہ اللہ ۔ فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ ،فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن محمد الغنیمان حفظہ اللہ،فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن بن صالح المحمود حفظہ اللہ،ان کے علاوہ بھی آپ نے دیگرکئی اساتذہ سے علم حاصل کیا ۔

اس وقت آپ سعودیہ کے شہر خبر میں جامع مسجد عمر بن عبدالعزیز کے امام اور خطیب ہیں جہاں آپ دروس کی صورت میں کئی کتابوں کی تعلیم دیتے ہیں۔اسی طرح آپ اسلام سوال و جواب نامی ویب سائٹ کے مدیر ہیں جہاں آپ سینکڑوں سوالات کے جواب دے چکے ہیں ۔آپ کے یہ فتاویٰ اس ویب سائٹ پر موجود ہیں ۔اسی طرح آپ بیسیوں کتابوں کے مولف بھی ہیں ۔امت مسلمہ اور خاص کر کے سلف صالحین کے منہج پر گامزن دنیا آپ کے فتاویٰ اور علمی کاشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان اور زندگی میں برکت عطا فرمائے اور آپ کو مزید اسلام کی خدمت کی توفیق بخشے ۔ آمین ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
سوال :۔محترم شیخ :۔میں ایسے علاقے میں رہتا ہوں جہاں حنفی مذہب کے پیروکار اور دیوبندی حضرات کثرت سے رہتے ہیں اور اس علاقے میں سلفیوں کی مساجد انتہائی قلیل ہیں ۔بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ میں کام کاج میں مصروف ہوتا ہوں اور نماز عصر کا وقت آپہنچتا ہے ۔ اب میرے نزدیک کوئی سلفی مسجد نہیں ہے کہ جہاں میں جاکر نماز ادا کر سکوں۔ اب کیا میرے لیے جائز ہے کہ میں حنفیوں کی مسجد میں جو کہ میرے قریب ہی ہے نماز ادا کروں جبکہ وہ لوگ نماز عصر کو انتہائی تاخیر کے ساتھ ادا کرتے ہیں ،وہ اسے اتنا لیٹ کرتے ہیں کہ مغرب کی نماز میں ایک گھنٹہ اور کچھ منٹ ٹائم باقی رہ جاتا ہے ؟ کیا ایسی حالت میں مجھے نماز کو موخر کرتے ہوئے ان کے ساتھ جماعت میں شامل ہو کر ادا کرنا چاہیے یا پھر مجھے اپنی ڈیوٹی کی جگہ پر ہی اسے اول وقت میں ادا کرنا چاہیے ؟
جواب:۔
نماز عصر کا مختار وقت اس وقت شروع ہوتا ہے کہ جب کسی چیز کا سایہ اس کی مثل سے بڑھ جائے ،اس وقت ظہر کی نماز کا ٹائم ختم ہو جاتا ہے ،عصر کا یہ وقت سورج کے زردہونے تک باقی رہتا ہے ۔کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان مبارک ہے:

''نماز ظہر کا وقت نماز عصر کے آغاز تک رہتا ہے اور نماز عصر کا آخری وقت سورج کی رنگت زرد ہو جانے تک رہتا ہے ''(مسلم :ح:۶۱۲)

اس لیے اس وقت سے زیادہ نماز میں تاخیر کرنا درست نہیں الا یہ کہ کوئی مجبوری ہو ۔

سورج کی رنگت کا زرد ہونا مختلف موسموں میں مختلف ہوتا ہے ،لیکن اگر عصر کی نماز مغرب سے ایک گھنٹہ پہلے ادا کر لی جائے تو یہ سورج کے زرد ہونے سے پہلے کا ہی ٹائم ہوتا ہے ۔یہ بات جاننی چاہیے کہ جمہور فقہاء کے نزدیک ظہر کی نماز کا آخری وقت وہ ہے کہ جب کسی چیز کا سایہ اس کی مثل ہو جائے جبکہ امام ابو حنیفہ  کا کہنا یہ ہے کہ ظہر کا آخری وقت کسی چیز کے سایہ کے اس کے دو مثل ہونے تک باقی رہتا ہے ۔بعض حنفیہ نے بھی امام صاحب کی اس بات سے اختلاف کرتے ہوئے جمہور کے موقف کو اپنایا ہے ان میں امام صاحب کے دونوں ساتھی ابو یوسف اور محمد بھی شامل ہیں ،اسی طرح امام صاحب سے بھی ایک روایت اس موقف کی تائید میں ملتی ہے ......حاصل کلام یہ ہے کہ سورج کے زرد ہونے سے پہلے تک عصر کی نماز کو موخر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔البتہ بہتر پہلا وقت ہے ۔لیکن اس وجہ سے جماعت نہیں چھوڑی جا سکتی ۔
 
Top