• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احکام حیض

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال19:
ایک صاحب سوال کرتے ہیں کہ ایک عورت نے نفاس کیوجہ سےرمضان کے سات روزے نہیں رکھے , اور دوسرا رمضان آنے تک اس نے ان روزوں کی قضا بھی نہیں کی , پھر دوسرے رمضان کے بھی اس کے سات روزے رہ گئے کیونکہ وہ بچے کو دودہ پلا رہی تھی ,بیماری کا عذر ہونے کیوجہ سے اس نے ان روزوں کی بھی قضا نہیں کی , اب جبکہ تیسرا رمضان قریب ہے اس عورت کو کیا کرنا چاہئے ؟ جواب سے مستفید فرمائیں , اللہ تعالی آپ کو اجروثواب سے نوازے –
جواب :
مذکورہ عورت اگروا قعی مریض ہے اور روزوں کی قضا کی استطاعت نہیں رکھتی , تو چونکہ وہ معذور ہے اس لئے جب بھی اپنے اندر استطاعت پائے روزوں کی قضا کرے. اگرچہ دوسرا رمضان آجائے , لیکن اگر اسکے پاس کو ئی عذر نہیں ,بلکہ بہانہ بازی اور سستی کر رہی ہے , تو اسکے لئے یہ جائز نہیں کہ ایک رمضان کے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دوسرے رمضان تک موخر کرے , عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :" ميرے ذمہ روزے باقی ہوتے تھے,تو میں شعبان ہی میں ان کی قضا کر پاتی تھی"
بنابریں اس عورت کو اپنے سلسلے میں غور کرنا چاہئے , اگراسکے پاس کوئی معقول عذر نہیں ہے تو وہ گنہگار ہے, اور اسکے ذمہ جو روزے باقی ہیں ان کی قضا کرنے میں جلدی کرے ,لیکن اگر وہ واقعی معذور ہے تو روزوں کی قضا میں سال دوسال کی بھی تاخیر ہو جائے تو اس مین کوئی حرج نہیں –
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال 20:
بعض عورتوں کا حال یہ ہے کہ دوسرا رمضان آجاتا ہے اور وہ ابھی گزشتہ رمضان کےچھوڑے ہوئے روزوں کی قضا نہیں کئے ہوتی ہیں , تو ایسی عورتوں پر کیا واجب ہے؟
جواب :
ایسی عورتوں پريہ واجب ہے کہ وہ اس فعل سے اللہ تعالی سے سچی توبہ کریں (اور دوسرا رمضان ختم ہوتے ہی ان روزوں کی قضا کرلیں ) کیونکہ بغیر کسی عذر کے ایک رمضان کے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دوسرے رمضان تک موخر کرنا جائز نہیں ,جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے" میرے ذمہ روزے باقی ہوتے تہے ,تو میں شعبان ہی میں ان کی قضا کرپأتی تھی "
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ایک رمضان کے روزوں کی قضا دوسرے رمضان کے بعد تک مؤخر کرنا ممکن نہیں ,لہذ ا ایسی عورتوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے اس فعل سے اللہ عزوجل سے سچی توبہ کریں اوردوسرے رمضان کے بعد چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کرلیں-
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال 21:
اگر عورت دوپہر کے بعد مثلاً ایک بجے حائضہ ہوجائے اور اس نے ابھی تک ظہر کی نماز نہ پڑھی ہو ,تو کیا پاک ہونے کے بعد اسے اس نماز کی قضا کرنی ہوگی؟
جواب :
اس مسئلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے , بعض کا یہ کہنا ہے کہ مذکورہ عورت پر اس نماز کی قضا واجب نہیں ,کیونکہ اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی اورنہ ہی گنہگار ہوئی ,کیونکہ اس کیلئے نماز کواس کے آخری وقت تک مؤخرکرنا جائز ہے ,لیکن بعض دوسرے علماء یہ کہتے ہیں کہ اس پر مذکورہ نمازکی قضا واجب ہے ,کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث عام ہے"جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی اس نے نمازپالی " ویسے احتیاط اسی میں ہے کہ وہ اس نماز کی قضا کرلے ,کیونکہ ایک نماز کی بات ہے جس کی قضا میں عورت کیلئے کوئی مشقت وپریشانی نہیں –
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال22:
حاملہ عورت اگر ولادت سے ایک یا دو دن پہلے خون دیکھ لے ,تو کیا اس کی وجہ سے وہ نماز اور روزہ ترک کردیگی ؟
جواب:
حاملہ عورت اگر ولادت سے ایک یادودن پہلے خون دیکہ لے اورولادت کی تکلیف (دردزہ) محسوس کرے ,تو یہ نفاس شمار ہوگا ,لہذا اس کی وجہ سے عورت نماز اورروزہ چھوڑدے گی –لیکن اگرخون آنے کےساتہ دردزہ محسوس نہ کرے ,تو یہ فاسد خون مانا جائے گا جس کا کوئی اعتبار نہیں , اورنہ ہی یہ خون نماز اور روزہ سے مانع ہے –
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال 23:
لوگوں کے ساتہ روزہ رکھنے کی غرض سے مانع حیض گولیوں کے استعمال کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
جواب:
میں اس بات سے سختی سےمنع کرتا ہوں ,کیونکہ اطباء کے ذریعہ میرے نزدیک یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ان گولیوں کے بڑے نقصانات ہیں ,لہذا عورتوں سے یہی کہنا ہے کہ یہ بات اللہ تعالی نے تمام عورتوں کیلئے مقدر فرمادی ہے ,اسلئے اللہ عزوجل کی مقررکردہ تقدیر پر قانع رہو, اور جب کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو تو روزہ رکھو ,اور جب کوئی شرعی رکاوٹ درپیش ہو تو اللہ عزوجل کی تقدیر پر رضا مند رہتے ہوئے روزہ توڑدو-
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال24:
ایک صاحب سوال کرتے ہیں کہ ایک عورت کو شوہر سے ہمبستری اور حیض سے پاک ہونے کے دوماہ بعد خون کے چھوٹے چھوٹے قطرے آنے لگے ,اب اس حالت میں وہ نماز اورروزہ چھوڑ دے یا کیا کرے؟
جواب:
حیض اور نکاح (جماع) سے متعلق عورتوں کی مشکلات اس سمندر کےمانند ہےجسکا کوئی ساحل ہی نہیں,( یعنی بےشمار ہیں) ,جس کا ایک سبب مانع حیض اور مانع حمل گولیوں کا استعمال بھی ہے , سابقہ دور میں اس قسم کے اکثر اشکالات کو جانتے بھی نہ تھے ,یہ صحیح ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ہی سے بلکہ جب سے عورت کا وجود ہو ا اسی وقت سے اشکالات موجود ہیں ,لیکن اشکالات کی ایسی کثرت وبہتات کہ انسان ان کے حل کرنے میں حیران وپریشان ہوجائے ,بڑی افسوسناک بات ہے.
لیکن اس سلسلہ میں عام قاعدہ یہ ہے کہ عورت جب پاک ہوجائے , اور حیض میں یقینی طور پر طہر دیکہ لے,اور حیض میں یقینی طور پر طہر دیکھنے سےمیری مرا د یہ ہے کہ اسے وہ سفید پانی نظر آجائے جسے عورتیں جانتی ہیں ,خواہ وہ پانی مٹ میلا ہو ,یا زردی مائل ہو , یا قطرہ ہو , یا رطوبت ہو , تو یہ سب حیض میں شمار نہیں ہیں , اسلئے اس کے لئے نماز اورروزہ سے مانع نہیں اورنہ ہی اس کے شوہر کیلئے مجامعت سے مانع,کیونکہ یہ سب چیزیں حیض سے نہیں ,
جیسا کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
"هم زردي مائل يا مٹ میلے پانی کا کچھ اعتبار نہیں کرتے تھے " اس حديث كو اما م بخاري نے روایت کیا ہے.اور امام ابوداود نے اس میں لفظ طہر کا اضافہ کیا ہے (یعنی طہر کے بعد ہم زردی مائل یا مٹ میلے پانی کا کچھ اعتبار نہیں کرتے تھٍے ) اس حدیث کی سند صحیح ہے.
اس بنا پر ہم کہ سکتے ہیں کہ طہر کا یقین ہو جانے کے بعد اس قسم کی جو بھی چیز ظاہر ہو وہ عورت کیلئے مضر نہیں , اور نہ ہی اس کے لئے نماز ,روزہ اور شوہر کے ساتھ ہمبستری سے مانع ہے , لیکن اس پر واجب ہے کہ جب تک وہ طہر نہ دیکھ لے جلدی نہ کرے ,کیونکہ بعض عورتیں جیسے ہی دیکھتی ہیں کہ خون بند ہو گیا طہر دیکھے بغیر جلدی سے غسل کر لیتی ہیں , یہی وجہ ہے کہ صحابیات –رضی اللہ عنہن- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کےپاس کرسف یعنی خون والی روئی بھیجتیں , تو وہ جواب میں ان سے فرماتیں کہ جلدی نہ کرو یہاں تک کہ سفیدی دیکھ لو .
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال25:
بعض عورتوں کو مسلسل خون جاری رہتا ہے , اورکبھی ایسا ہوتا ہےکہ ایک یا دو دن بند رہنے کے بعد دوبارہ شروع ہو جاتا ہے ,ایسی حالت میں ان کیلئے نماز ,روزہ اوردیگر عبادتوں کا کیا حکم ہے؟
جواب:
بہت سے اہل علم کےنزدیک مشہور یہی ہے کہ اگر عورت کی کوئی مخصوص عادت (یعنی متعین مدت ) ہے , تو اس عادت کے پوری ہوجانے کے بعد وہ غسل کرے اور نماز پڑھے اور روزہ رکھے , اور دو یا تین دن کے بعد وہ جو خون دیکھتی ہے وہ حیض نہیں ھے , کیونکہ ان علماء کے نزدیک طہر کی کم سے کم مدت تیرہ (13)دن ہے , اور بعض دوسرے اہل علم یہ کہتے ہیں کہ جب وہ خون دیکھے حائضہ شمارہوگی , اور جب نہ دیکھے پاک شمار ہو گی , اگرچہ دونوں حیض کے درمیان تیرہ (13) دن کا وقفہ نہ ہو.
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال26:
عورت کیلئے رمضان المبارک کی راتوں میں گھرمیں نماز پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں ؟ خاص کر اس صورت میں جبکہ مسجد میں وعظ ونصیحت کا سلسلہ بھی ہو ؟ نیز مسجد میں نماز پڑھنے والی عورتوں کو آپ کیا نصیحت فرماتے ہیں ؟
جواب:
افضل یہ ہے کہ عورت اپنے گھر میں نماز پڑھے , کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث عام ہے :"اور عورتوں کے لئے ان کا گھر نماز کے لئے زیادہ بہترہے"
نیز اس لئے کہ عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا بہت سے حالات میں فتنہ سے خالی نہیں ہوتا , اس لئے اس کا گھر میں نمازپڑھ لینا مسجد جانے سے بہتر ہے, جہان تک وعظ ونصیحت کے سننے کی بات ھے ,تو یہ کیسٹ کے ذریعہ بھی ہو سکتا ہے - جو عورتیں نماز کیلئے مسجد جاتی ہیں ان کو میری یہی نصیحت ہے کہ وہ کسی زیب وزینت کا مظاہرہ نہ کریں اورنہ ہی خوشبو لگا کرجائیں.
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال 27:
عورت كے لئے رمضان المبارک کے مہینہ میں روزہ کی حالت میں کھانا چکھنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب :
ضرورت اسکی متقاضی ہو تو اسکے چکھنےمیں کوئی حرج نہیں ,لیکن چکھنے کے بعد وہ اسے تھوک دے .
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال28:
ایک عورت حمل کے ابتدائی ایام سے گزررہی تھی کہ ایکسیڈنٹ کا شکار ہوگئی اور بہت زیادہ خون گرنے کی وجہ سے جنین (پیٹ کا بچھ) سا قط ہو گیا , تو ایسی صورت میں کیا وہ روزہ توڑدے یا جاری رکھے ؟ اور اگر روزہ توڑدے تو کیا اس پر کوئی گناہ ہے ؟
جواب :
ہمارا یہ خیال ہے کہ حاملہ کو حیض نہیں آتا, جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ عورتوں کو حیض بند ہونے سے ہی حمل کا پتہ چلتا ہے , اور حیض کو جیسا کہ اہل علم کہتے ہیں ,اللہ تبارک وتعالی نے اس حکمت کے تحت پید ا فرمایا ہے کہ وہ ماں کے پیٹ میں جنیں کے لئے غذا بنے , لہذا جیسے ہی حمل قرار پاتا ہے حیض آنا بند ہوجاتا ھے ,
لیکن بعض عورتوں کو حسب عادت حمل کے بعد بھی حیض جاری رہتا ہے جسطرح حمل سے پہلے تھا , تو ایسی عورت پر یہ حکم لگایا جائے گا کہ اس کا یہ حیض صحیح حیض ہے , کیونکہ وہ حمل سے متاثر ہوئے بغیر جاری ہے –تو اس قسم کا حیض بھی ہر اس چیز سے مانع ہوگا جس سے غیر حاملہ کا حیض مانع ہوتا ہے ,اورہر اس چیزکو واجب کرنے والا ہوگا جس کو غیر حاملہ کا حیض واجب کرتا ہے, اور ہر اس چیز کو ساقط کردے گا جسے غیر حاملہ کا حیض ساقط کرتا ہے .
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حاملہ کو جو خون آتا ھے وہ دو طرح کا ہوتا ہے :
ايك طرح كے خون پر حیض کا حکم عائد ہوگا,اوریہ وہ خون ہے جوحمل کے بعد بھی پہلے ہی کی طرح جاری رہے , جسکا مطلب یہ ہے کہ وہ حمل سے متاثر نہیں ہوا ہے ,لہذا وہ حیض شمار ہوگا.
دوسرا خون وہ ہے جو کسی ایکسیڈ نٹ کےسبب یا کسی وزنی چیز کے اٹھانے کی وجہ سے یا کہیں سے گرجانے کے باعث اچانک آجائے ,تو یہ حیض نہیں ,بلکہ رگ کا خون ہے , لہذا اس کیلئے نماز اور روزہ سے مانع نہیں ہوگا ,بلکہ یہ پاک عورتوں کے حکم میں ھوگی,لیکن اگر ایکسیڈ نٹ کے سبب پیٹ کا بچہ یا حمل ساقط ہو جائے تو اہل علم کے بقول اس کی دو صورت ہے :
پہلی صورت یہ ہے کہ پیٹ کا بچہ اس حال میں ساقط ہو کہ اس کی شکل وصورت ظاہر ہوچکی ھے, تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس شمار ہو گا ,جس میں وہ نماز اورروزہ چھوڑ دے گی , اور پاک ہونے تک اس کا شوہر بھی اس سے ہمبستری نہیں کرسکتا.
دوسری صورت یہ ہے کہ حمل اس حال میں ساقط ہو کہ ابھی اس کی شکل وصورت ظاہر نہیں ہوئی ہے ,تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس نہیں, بلکہ فاسد خون شمارہو گا ,جو اس کے لئے نماز ,روزہ اور دیگر امور سے مانع نہیں .
ا ہل علم فرماتے ہیں کہ تخلیق (شکل وصورت ) ظاہر ہونے کی اقل مدت اکیاسی (81) دن ہے, جیسا کہ عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ صادق ومصدوق ہیں ,نے فرمایا :" ہر شخص اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ رہتا ہے , پھر اسی مدت کے بقدرخون کا لوتھڑا رہتا ہے ,پھر اس کے اسی مدت کے بقدر گوشت کا ٹکڑا رہتا ہے ,پھر اس کے پاس فرشتہ بھیجا جاتا ہے جسے چار باتوں کا حکم ہوتا ہے ,چنانچہ وہ اس کی روزی , اس کی زندگی کی مدت , اس کا عمل اور یہ کہ وہ نیک بخت ہوگا یا بد بخت لکھ دیتا ہے"
لہذا اس مدت سے پہلے پیٹ کے اندر جنین کی خلقت کا مظاہرہ ہونا ممکن نہیں ,ویسے عموما نوے (90) دن سے پہلے خلقت ظاہر نہیں ہوتی , جیسا کہ بعض اہل علم نے اس کی صراحت کی ہے .
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top