• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احکام ومسائل از شیخ عبدالوکیل ناصر

عمیراشرف

مبتدی
شمولیت
جولائی 30، 2012
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
57
پوائنٹ
0
فتاویٰ الملۃالبیضاء
المعروف
احکام ومسائل

۱۔کیا امام سیو طی ؒ نے مروجہ جشن میلادالنبی ﷺ کو جا ئز کہا ہے؟ (خضر حیا ت، گلشن اقبال )
جواب: امام سیوطی ؒ نے اس سلسلے میں ایک رسالہ لکھا ہے جس کانام ’’ حسن المقصد فی عمل المو لد‘‘ ہے ، یہ رسالہ علیحدٰ ہ بھی طبع ہو چکا ہے اور امام سیوطی ؒ کی کتاب ’’الحاوی اللفتا ویٰ‘‘ میں بھی شامل ہے۔
امام سیو طیؒ نے میلادالنبی ﷺ کی خو شی منانے پر قیاس سے استد لال کیا ہے وہ خود لکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں ہمارے پاس نص نہیں ہے بلکہ قیاس ہے ۔نیز انہو ں نے اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں ہے بعد از بعثت نبی مکرمﷺ نے اپنا عقیقہ خو د کیا تھا ۔
اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس مسئلے میں ’’نص‘‘ نہ ہو نے کا اقرار امام سیو طیؒ کو بھی ہے ، لہذٰا جواس مسئلہ پر نص، نص کہتے پھر تے ہیں وہ صراحۃّ غلطی پر ہیں باقی جہاں تک استدلال و قیاس کا معاملہ ہے تو ضروری نہیں کہ مانابھی جا ئے اور یہ اسی طرح کا قیاس ہے امام سیوطی ؒ سے قبل اس طرح کا قیاس سلف صالحین سے ثابت نہیں اور پھر صحابہؓ و دیگر خیر القرون کے جمہور اصحاب نے بھی جشن میلاد النبی ﷺ نہیں منا یا جیسا کہ طاہرالقادری صاحب نے بھی لکھا ہے۔(دیکھئے میلادالنبی ﷺ از طاہر القادری )
عقیقہ کی جس روایت سے امام سیوطیؒ نے استدلال و قیاس کی عمارت کھڑی کی ہے وہ روایت صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے جیسا کہ امام ابن القیمؒ نے امام احمدؒ سے نقل کیا ہے۔(دیکھئے زادالمعاد) واللہ اعلم

۲۔گاہک کو دھوکہ دینے کے لئے قربانی کے جانوروں کے سینگ نکال دینا کہ خوبصورت معلوم ہویا ان کے دانت توڑکر دو دانت والا بنانا کیسا ہے؟ (عبدالوحید، پاک کالونی)
جواب: دین اسلام میں دھوکہ دہی کی شدید مذمت وارد ہوئی ہے ، نبی ﷺ نے فرمایا ’’من غش فلیس منا‘‘ یعنی جس نے دھو کہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔(صحیح الجامع الصغیر)
لہذٰا اس فعل سے کلی اجتنا ب ضروری ہے اور اس طریقے سے کمایا ہوامال بھی ناجائز ہی ہوگا۔
دوسری وجہ اس فعل میں قباحت کی یہ ہے کہ اس طرح جانور کو تکلیف ہوتی ہے اور جانور کو بے جا تکلیف دینا شرعاّ حرام ہے ۔صحیح بخاری میں ہے کہ ایک بلی کو تکلیف دینے کی وجہ سے ایک عورت جہنم کے عذاب سے دوچار ہو گئی ۔لہذٰا فوراً اس بد عملی اور دھوکہ دہی سے توبہ کرنا چاہئے اور احباب کو دانستہ طور پر ایسے لوگوں کے ساتھ کاروبار نہیں کرنا چاہئے ۔واللہ اعلم ۔

۔صحیح مسلم کی حدیث کہ عہد عمر فاروقؓ میں انہوں نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی قرار دیااسکی وضاحت درکار ہے۔(شاہدنذیر، اورنگی)
جواب: جی ہا ں صحیح مسلم میں سیدنا عمر فاروقؓ کے اس فیصلے کا ذکر ملتا ہے مگر اس سے قبل یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ نبی مکرمﷺ کے عہد میں، صدیق اکبرؒ کے عہد میں اور خود امیر عمرؒ کے ابتدائی دو سالوں تک ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی تصور کیا جاتا تھا ۔(صحیح مسلم )
لہذٰا یہ ماننا پڑیگا کہ امیر عمرؒ کا یہ فیصلہ تعزیر ی اور سیاسی طرز کا تھا ۔اس طرح کے مزید چند ایک فیصلے کتب احادیث میں موجود ہیں جن کا فیصلہ اور حکم از بس تعزیری و سیاسی ہی تھا۔بعض الناس نے فیصلہ عمرؒ کو صحیح مسلم کی اس حدیث کا ناسخ قرار دینے کی کو شش کی ہے کہ جس میں ہے کہ نبی مکرمﷺ ، صدیق اکبرؓ وغیرہ کے دور میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا ۔مگر انکا یہ دعوٰی بھی بلا دلیل ہے ، نیز کیا امیر عمرؓ کاسیاسی فیصلہ (جس پر وہ بعدمیں نادم بھی ہوئے کمافی انمااللفھان) نبی مکرمﷺ کی حدیث کا ناسخ ہو سکتا ہے؟
علمائے احناف نے بھی امیر عمرؓ کے فیصلے کو سیاسی فیصلہ ہی قرار دیا ہے (دیکھئے حاشیہ طحطاوی علی الدرالمختارو مجمع الانھرشرح متقی الابھر بحوالہ ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل از صلاح الدین یو سف طبع دارالسلام)

۴۔ایک شخص نے مروجہ طریقے پر طلاق دی اور اب اس طلاق کو دس سال کا عرصہ گزر چکا ہے، ایک وقت کی تین طلاقوں کے شرعی حکم کے اعتبار سے مذکورہ شخص کو کیا کرنا چاہئے ؟وہ اپنے فعل پر نادم ہے۔(شکیل احمد،اورنگی)
جواب: مروجہ طریقے پر ایک ہی مجلس میں میں تین طلاقیں دی جا تی ہیں جو کہ سراسر شریعت اسلامیہ کی مخالفت پر مبنی فعل ہے اور اس طرح طلاق دینے سے ایک ہی طلاق رجعی واقع ہوتی ہے۔صحیح مسلم شریف میں ہے کہ نبی مکرم ﷺکے عہد میں ، صدیق اکبرؓ کے دور خلافت میں اور امیر عمرؓ کے عہد کے ابتدائی دو سالوں میں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں ۔
لہذٰا اس صورت میں مرد کو عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے۔اور بعد از عدت تجدید نکا ح کے ذریعے سے وہ اپنے گھر کو آباد کر سکتاہے۔
سوال مذکور کے مطابق مروجہ طریقے پر طلاق کو دس سال کا عرصہ گزر چکا ہے(جبکہ طلاق رجعی تھی) تو ایسی صورت میں اگر عورت نے کہیں اور نکاح نہیں کیا ہے تو یہ شخص (سابقہ شوہر) تجدید نکاح کے ذریعے سے اپنے گھر کو آباد کر سکتا ہے بشرط یہ کہ نکاح حق مہر جدید و گواہوں کے ساتھ ہو۔واللہ اعلم ۔
شیخ ابن بازؒ سے اس طرح کا سوال ہواتو شیخ نے ایسا ہی جواب ارشاد فرمایا تھا۔ (دیکھئے فتاویٰ برائے خواتین اسلام طبع دارالکتاب و السنہ)

۵۔میرا سوال یہ ہے کہ میں نے اپنے بڑے بھا ئی کے بیٹے کی پرورش جب سے کی ہے جب وہ 4 سال کاتھا اور اب وہ 26 سال کا ہو چکا ہے اس کے تما م دستاویزات پر میرا نام چل رہا ہے جبکہ اس کو بھی پتہ ہے کہ میرے حقیقی ماں باپ دوسرے ہیں لیکن چاچا جان نے میری پرورش کی ہے اور اب اس کی اس ماہ کی 20تاریخ کو شادی ہے برائے مہر بانی اس بات کی قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کی نکا ح نامہ پر اس کے حقیقی والد کی ولدیت آئے گی یا میر ی برائے مہر بانی وضاحت فرمائیں۔(محمداحسان انصاری، کراچی)
جواب: صورت مسؤلہ میں بر صحت سوال۔جواب عرض کیا جا تا ہے کہ دور جاہلیت میں اور ابتدائے اسلام میں متنبی (منہ بولے بیٹے) کو اپنا بیٹا بطور نسبت کے قرار دیا جانا اور پھر اسے باقاعدہ میراث میں بھی شریک کرنا درج ذیل آیت کی روشنی میں منسو خ ہو چکا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وماجعل ادعیا ئکم ابنا ئکم۔۔۔۔۔۔۔۔ (سورۃاحزاب)
یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہاراحقیقی بیٹا نہیں بنایاہے، نیز ارشاد ہو تاہے۔
ادعو ھم لآباءھم ھواقسط عنداللہ۔۔۔۔۔۔۔۔ (احزاب)
یعنی ان منہ بولے بیٹوں کو ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کیا کروکہ عنداللہ یہی بات مبنی بر انصاف ہے۔
خود نبی مکرمﷺ نے سیدنازیدؓ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنارکھا تھا اور آپ ﷺ کے اصحاب زیدؓ کو زید بن محمد ﷺ بھی پکارا کرتے تھے ۔مگر مذکورہ آیت کے نزول کے بعد انھو ں نے سیدنا زیدؓ کو ان کے حقیقی والد کی طرف ہی منسوب کیا ہے یعنی زید بن حارثہؓ کہنے لگے۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر و تفسیر قرطبی وغیرہ)
*دین اسلام نے بچہ لیکر پالنے والوں کو حکم دیا ہے کہ انھیں ان کے حقیقی باپ کی طرف منسوب کریں کیونکہ دو باپ تو کسی کے بھی نہیں ہوسکتے۔البتہ کسی کو پیار سے بیٹا کہنا اور بات ہے۔
*منہ بولے بیٹے اور دیگر لوگو ں کو حکم ہے کہ وہ خود کو اپنے حقیقی والد کی طرف ہی منسوب کریں، نبی مکرمﷺکا ارشاد ہے کہ’’جس شخص نے جان بوجھ کر حقیقی باپ کے بجائے کسی اور کو اپنا باپ قرار دیا تو اس نے کفر کیا ۔ (صحیح بخاری ، کتاب المناقب)
اور ایک روایت میں ہے کہ اس پر جنت حرام ہے۔ (صحیح بخاری ، کتاب الفرائض )
لہذٰا منہ بولے بیٹے کو اس کے حقیقی باپ کی طرف ہی منسو ب کیا جائیگا۔تعارف میں کاغذات وغیرہ میں اگر کچھ اور لکھا جا چکا ہے تو اسے تبدیل کروا یا جا سکتا ہے۔معروف عالم دین حافظ عبدالمنان نور پوری صاحب نے بھی اسی طرح کا فتو یٰ صادر کیا ہے۔
منہ بولے بیٹے کی بلوغت کے بعد پالنے والے کی زوجہ کو اس سے پردہ بھی کرنا ہوگااور دیگر غیر محارم عورتوں کو بھی الا یہ کہ رضاعت کا کوئی رشتہ قائم ہو چکا ہو۔ (واللہ اعلم بالصواب)

۶۔اگلی صف سے کسی شخص کو پیچھے کھینچ کر اپنے ساتھ ملانا کیسا ہے؟ (محمد صدیق)
جواب: اگلی صف میں سے کسی شخص کو دوران نماز کھینچناصحیح نہیں ہے کیونکہ اس سلسلے میں وارد حدیث شریف صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے ۔ (دیکھئے سلسلہ ضعیفہحدیث نمبر 922 از علامہ البانی)
شیخ ناصر الدین البانیؒ فرماتے ہیں کہ اگلی صف سے کسی کو کھینچنا صحیح نہیں ہے البتہ بعد میں آنے والے کیلئے اگر ممکن ہو تو وہ اگلی صف میں جا ملے اور اگر ایسا ممکن نہ ہوتو وہ اکیلا نماز پڑھ لے اسکی نماز درست ہے۔اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا اور جس حدیث میں اکیلے نماز پڑھنے پر لوٹانے (دہرانے) کا حکم ہے تو وہ اس شخص کے لئے ہے جس نے قصداً اگلی صف میں خلا چھو ڑ کر نماز ادا کی ہو ۔اور یہی اختیار کیا ہے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے کما فی الاختیارات۔(سلسلہ ضعیفہ حدیث نمبر 922)
ڈاکٹر شفیق الرحمٰن حفظہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں!
اگر صف میں جگہ ہے تو پیچھے اکیلے آدمی کی نماز نہیں ہوتی اور اگر صف میں جگہ نہیں ہے تو یہ اضطراری کیفیت ہو گی ایسی صورت میں اکیلے ہی کھڑے ہو جاناچاہئے نماز ہو جائیگی کیونکہ اگلی صف میں سے کسی مقتدی کو پیچھے کھینچنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔امام مالک،امام احمد ، امام اوزاعی ، امام اسحٰق اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ علیہم کا یہی مذہب ہے کہ صف سے آدمی نہ کھینچا جائے البتہ ایک امام اور ایک مقتدی و الے مسئلے پر قیاس کر کے اس کا جواز ملتا ہے۔(نماز نبوی طبع دارالسلام)اس مسئلہ میں بلا وجہ کا تشدد صحیح نہیں ہے کہ کھینچنا ہی واجب ہے۔ واللہ اعلم۔
سیدنا جابرؓ نبی ﷺ کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک او ر صاحب آگئے اور وہ نبی ﷺکے بائیں طرف کھڑے ہو گئے تو نبی ﷺ نے ان دونوں ہی کو پیچھے دھکیل دیا یہاں تک کہ وہ دونوں نبی ﷺکے پیچھے کھڑے ہو گئے ۔(صحیح مسلم) پیچھے کھینچنے والے اس حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں ۔
لہٰذا اگر کسی نے اگلی صف سے کسی کو کھینچ ہی لیا ہے تو کوئی قیامت نہیں آگئی۔

۷۔کیا دو سجدوں کی درمیانی دعا کے بھولنے سے سجدہ سہو کرنا ہو گا؟ (ہمشیرہ عبدالقادر)
جواب: جی ہا ں ہر سہو پر ہر نسیان پر سجدہ سہو کرنا ہی مسنون ہے۔نبی ﷺ نے فرمایا ’’لکل سھو سجد تان‘‘ ہر سہو پر دو سجدے ہیں۔(ابو داؤ د، ابن ماجہ)

۸۔سجدہ سہو کئے بغیر مقتدی حضرات گھروں کو لو ٹ گئے ؟ (مزمل صدیقی)
جواب: ایسی صورت میں احباب کو چاہئے کہ وہ اطلاع ملنے پر اپنی جگہو ں پر سجدہ سہو ادا کرلیں ، اللہ تعالیٰ ہی قبو ل کرنے والا ہے ۔ایک حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ سے جب سہو ہوا تھا تو آپﷺ نے چار کے بجائے دورکعات پر ہی سلام پھیر دیا اور پھر بہت سے احباب جلد بازی میں گھروں کو یہ کہتے ہوئے لوٹگئے کہ شاید نماز میں کمی ہو گئی ہے اور اس وا قعہ میں کہیں نہیں ملتا کہ انہیں واپس بلا کر مسجد ہی میں سجدہ سہو کا حکم دیا گیا ہو ۔واللہ اعلم بالصواب۔

۹۔نماز میں ایک سجدہ رہ گیا ؟ (ہمشیرہ عبدالقادر)
جواب: ایسی صو رت میں معلو م ہونا چاہئے کہ کچھ اعمال فرائض اور ارکا ن صلاۃ کا حکم رکھتے ہیں لہٰذا انہیں چھوڑدینے سے یا ان کے رہ جانے سے نماز بھی نہیں ہو تی یا یوں کہیں کہ کم از کم وہ رکعت نہیں ہو تی جس کے فرائض رہ گئے ہوں۔
ان فرائض و ارکان میں سے ایک عمل سجدہ بھی ہے۔لہٰذا سجدہ رہ جانے کی صو رت میں ایک مکمل رکعت دوبارہ ادا کرکے آخرمیں سجدہ سہو کیا جائیگا اور اس طرح نماز مکمل کر لی جا ئیگی ۔واللہ اعلم ۔

۱۰۔سلسلۃالبول (پیشاب کے قطرے ) کی بیماری والا انسا ن کیا کرے؟ (سائل جہا نگیر آباد)
جواب: ایسا شخص مریض ہے اور شرعاً معذور متصور ہو گااور ایسے شخص کے مسئلے کو مستحا ضہ کے مسئلے پر قیاس کر تے ہو ئے یہ حکم لاگو ہو گا کہ یہ شخص ایک وضوایک نماز ادا کریگا ۔یعنی ہر نماز کیلئے علیحدہ وضو کرے گا ۔یاد رہے کہ ایک نماز سے مراد مکمل نماز ہے جس میں اسکی قبل و بعد کی سنتیں بھی شامل ہیں ۔واللہ اعلم۔
جاری ہے۔۔۔۔​
 
Top