یہودیت میں احکام کا مفہوم و فلسفہ
Hasting's Dictionary of Bible
میں احکام"Law
"کے متعلق بیان کیا گیا ہے:
Word for "law" is to point out or to direet, meaning properly, a pointing out or direction and being used specially of authoritative direction. (Hasting's Dictionary of the Bible, 3/64; The Standard Jewish Encyclopaedia, P.1174)
احکام سے مراد اشارہ کرنے یا درستگی کے ہیں اور اصطلاحی معانی واضح کرنا یا ہدایت دینے کے ہیں اور خاص کر اس سے مراد ’’الہامی ہدایت‘‘ کے لیا جاتا ہے۔
According to the Jewish theory yahwa is the source of all law. Moses the medium through whom it was revealed to Israel. (Encyclopaedia Biblica, 3/2730)
یہود کے نظریہ کے مطابق ’’اللہ تعالیٰ‘‘ ہی تمام شرعی احکام کا ماخذ ہے۔ اور موسیٰ ایک وسیلہ ہیں۔ جن کے ذریعے احکاماتِ الٰہی اسرائیل پر ظاہر ہوئے۔
اگرچہ شریعت موسوی میں تورات ہی منبع احکام ہے تاہم یہود یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ تورات کے ساتھ ساتھ تالمود اور مشنہ میں بھی احکامات دیے گئے ہیں جو یا تو تورات سے اخذ کیے گئے ہیں یا وہ زبانی احکامات ہیں جو نسل در نسل چلتے رہے اور اب بالآخر ان کو ان کتب میں لکھا گیا۔
Jewish Religion
کی ویب سائٹ میں درج ہے:
Many laws in judaism are not directly mentioned in Torah, but are derived from texutal hints, which were expanded orally and eventually written down in the talmud and Mishnah. (Jewish Religion, (Retrived from 20 February, 2010,
http://www.space and motion, com religion judaism,Jewis,htm); Everyman's Encyclopaedia , 7/102;Black's Bible Dictionary, P.725;New Dictionary of the History of Ideas,3/1171)
تورات میں اکثر مقامات پر احکام کا ذکر کیا گیا ہے۔ استثناء میں درج ہے:
اور اب اے اسرائیلیو! جو آئین اور احکام میں تم کو سکھاتا ہوں تم ان پر عمل کرنے کے لیے ان کو سن لو تاکہ زندہ رہو۔ (استثناء،۴:۱)
اگر تم میری شریعت پر چلو اور میرے حکموں کو مانو اور ان پر عمل کرو تو میں تمہارے لیے بروقت مینہ برساؤں گا۔ (احبار،۲۶:۳)
اور تمہارے ان حکموں کو سننے اور ماننے اور ان پر عمل کرنے کے سبب خداوند تیرا خدا بھی تیرے ساتھ اس عہد اور رحمت کو قائم رکھے گا۔ (استثناء،۷:۱۲)
کتاب گنتی کے آخری باب کی آخری آیت میں لکھا ہے:
جو احکام اور فیصلے خداوند موسیٰ کی معرفت موآب کے میدانوں میں جو یریحو کے مقابل یردن کے کنارے واقع ہیں بنی اسرائیل کو دیے وہ یہی ہیں۔ (گنتی،۳۶:۱۳)
Soloman Schechter
احکامِ الٰہیہ کے متعلق بیان کرتا ہے:
The Torah as a revealed code is under no necessity of deducing things from each other for all the commandments came from the same divine authority and therefore, are alike evident, and have the same certainty. (Soloman Schechter, Studies in Judaism, the Dogmas of Judaism, (Retrived from 20January, 2010,
http://www.sacred.texts.com/ jud studies,htm))
کہ تمام احکامِ تورات ایک ہی ہستی خدائے مقدس سے آئے ہیں۔ اس لیے تمام احکام معتبر اور مکمل طور پر قابلِ یقین ہیں۔ اس سے کہ تمام قوانین و احکام کا ماخذ و منبع خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہے اور موسیٰ کو شریعت دیتے وقت ان احکام کی تعمیل کا یہود سے وعدہ لیا گیا تھا ان کی اطاعت کی صورت میں دنیا و آخرت میں فلاح و کامرانیوں کا وعدہ کیا گیا تھا اور نافرمانی اور عصیان کی صورت میں انتہائی ذلت و دردناک عذاب کی وعید دی گئی تھی۔ کیونکہ یہ شریعت اور احکام دینے والی اور وعدہ تعمیل کروانے والی ذات کوئی عام نہیں بلکہ انتہائی افضل،مقدس ذات خالقِ کائنات تھی۔
اس سلسلے میںDummelow's Commentory on Holy bible
میں احکام کا فلسفہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہود سے وعدہ لیا تھا کہ اگر اس کے احکامات پر عمل پیرا ہو گے تو ان کو خوشحالی اور ترقی عطا کرے گا۔
Promise of prosperity attached to obedience. (Dummelow's Commentory on the Holy Bible, P.100)
احکامِ الٰہی زندگی کے ہر نشیب و فراز اور حیاتِ ارضی کے ہر موڑ پر کام آتے ہیں۔ ہر مصیبت و آفت میں سکون دل اور راحتِ جان بخشنے والے ہیں اور ہر مشکل وپریشانی میں صبر و استقامت ،امید اور ڈھارس دینے والی اور خوشی اور مسرت کے تمام اوقات میں خلق خدا سے ہمدردی و شفقت اور خوف خدا کا درس دیتے ہیں۔ انسان اپنی ناکامیوں کے اسباب کا جائزہ لے کر وحی الٰہی کی روشنی میں کامیاب زندگی گزار سکتا ہے۔ تورات اور اس کے احکامات کے متعلقHarding Wood
نے یہی فلسفہ بیان کیا ہے۔
بقول مصنف:
What does the Pentateuch say to us today? It reveals to us our own human failure and god's divine faith fullness and it does this very largely in a panorama of pictures. (Harding Wood, A bird's -eye Views of the Bible, 1/24)
Israel Abraham
احکام تورات کا تصور بیان کرتا ہے:
The feature of judaism which first attracts on out sider's attention and which claims a front place in this survey, is its legalism. Life was placed under the control of law. Not only morality religion was also codefied. (Israel Abraham, Judaism, P.13)
یہودیت کی خصوصیات جو غیر یہودی کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتی ہیں۔ وہ اس کا قانون ہے کیونکہ یہودی مذہب میں تمام زندگی کو احکام کے تحت گزارنے پر پابند کیا گیا ہے۔ کیونکہ احکام اخلاقیات اور مذہب دونوں کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا مذہبی اور معاشرتی و معاشی ہر اعتبار سے احکام رہنمائی کرتا نظر آتا ہے اور نہ صرف ایک یہودی کی زندگی بلکہ پورے یہودی معاشرے کا ذریعہ ہے۔
یہی باتAnder Neher
احکام کے متعلق بیان کرتا ہے:
It is not law, it is the way, the road along which a common enterprise is possible. (Ander Ncher, Moses, P.106)
یہ صرف احکام ہی نہیں ہیں بلکہ زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ ہیں۔
Jewish Encyclopaedia
میں شرعی احکام کا مقصد انتہائی عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔
The law was accordingly a privilege which was granted to Israel because of God's special favour. Instead of blind faith, Judaism requires good works for the protection of man against the spirit of sin. The law was to impress the life of the jew with the holiness of duty. It spirtualized the whole of life. It trained the Jewish people to exercise self control and moderation. (Jewish Encyclopaedia, (Retrived from January 20, 2010, http:// www. jewish encyclopaedi.com/view,jsp?artid=666&letter=J&search Judaism#2316)
تورات میں دئیے گئے احکامات کا مقصد اعمالِ صالحہ کا حصول ہے جس کے ذریعے انسان گناہ کی زندگی سے اجتناب کر سکتا ہے اور احکامِ الٰہی کی تابعداری ہی سے ایک یہودی اپنی زندگی کو پاکیزہ بنا سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ احکام تورات یہودی قوم کے لیے ضبطِ نفس کی تربیت کا بہترین ذریعہ ہیں۔
Encyclopaedia of Religion and Ethics
کا مقالہ نگار شریعت موسوی میں احکام کا مقصد ومنشا بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
It is often alleged that all the laws aim at the well-being of the individual and of society but it is quite as frequently emphasized that only the unselfish fulfilment of the law has moral value, and that the ennobling of humanity is the highest aim. (Encyclopaedia of Religion and Ethics, 7/857)
اکثر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ تمام احکام کا مقصد فرد اور معاشرے کی فلاح و بہبود ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کو باوقار بنانا بھی احکام اور دوسرے معنوں میں قوانین کا بڑامقصد ہے۔ کیونکہ اکثر یہودی لٹریچر میں احکام کو قانون کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ تورات قانون کی کتاب ہے جبکہ اس میں احکامات بیان کیے گئے ہیں۔ جو موسیٰ علیہ السلام کو عنایت کیے گئے۔
اس سلسلے میں مزید وضاحتAbraham
کے اس بیان سے کی جا سکتی ہے:
The law was the expression of the will of God, and obeyed and loved as such. But the law was also the expression of the divine reason. Hence man had the right and the duty to examine and realise how his own human reason was satisfied by the law. (Israel Abraham, Judaism, P.51)
قانون منشائے الٰہی کا مظہر تھا اور اسی لیے اس کی اطاعت کی جاتی اور اس سے محبت کی جاتی ہے لیکن قانون، حکمت الٰہیہ کا بھی مظہر تھا اس سے انسان کا یہ حق اور فرض بنتا تھا کہ وہ اس امر کی تحقیق و تعیین کرے کہ قانون اس کی اپنی انسانی دانش کو کس طرح مطمئن کرتا ہے اس بیان سے واضح علم ہو رہا ہے کہ احکام الٰہیہ کو ہی یہودی لٹریچر میں قانون کہا گیا ہے۔ کیونکہ احکامِ الٰہیہ ہی ان کی زندگیوں کو گزارنے کے لیے ایک قانون ہیں جس کی منشاء کے تحت انھوں نے اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہے۔
J.H. Hertz
احکامِ تورات کی منشاء حق اور سچ کو باطل سے جدا کرنا بیان کرتا ہے:
Judaism mission is just to teach the world that there are false gods and false ideals as to bring it nearer to the true one. Abraham, the friend of God, who was destined to become the first winner of souls, began it career, according to the legend, with breaking idols, and it is his praticular glory to have been the opposition to the world. (A Book of Jewish Thoughts, P.23)
یہودیت کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو یہ سبق پڑھایا جائے کہ جھوٹے خدا اور جھوٹے تصورات جو پائے جاتے ہیں۔وہ اسے سچے خدا کے قریب پہنچا دیتے ہیں۔ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جسے روحوں کے فاتح ہونے کا کردار ادا کرنا تھا۔ اس نے اپنا کردار بتوں کو توڑنے سے شروع کیا۔ یہ اس کی خاص عظمت ہے کہ وہ دنیا کی مخالفت میں کھڑا ہو گیا اسی طرح شریعت موسوی جھوٹے تصورات اور خداؤں کو باطل قرار دینے اور ایک خدا کی عبادت اور حق اور سچ پر عمل پیرا ہونے کے لیے عطا کی گئی۔
Encyclopaedia Judaica
کا مقالہ نگار احکام تورات کے مقاصد و اہمیت کو بیان کرتا ہے:
In Jewish law the man is subject to a system of obligation and precepts. This is clearly evident in Mishnah, which states that, "No one is free but on who studies Torah
.
Man is not at all free in this world, because he is subject to commandments of "you shall" and "youshall not" and that only in death one becomes free, because when a person is dead, he is free, in the sence of being exempt of the obligation of the commandments. (Encyclopaedia Judaica, 17/311)
یہودی قانون انسان کے فرائض اورنصائح کے ایک نظام کا تابع ہے۔ یہ یہودی ہدایات کی کتاب مشناہ میں واضح طور پر لکھا گیا ہے جو کہتی ہے’’ کہ کوئی بھی آزاد نہیں ما سوائے اس کے جو توراۃ کا مطالعہ کرتا ہے۔‘‘ انسان اس دنیا میں ہرگز آزاد نہیں ہے۔ وہ ان احکامات کا اتباع کرتا ہے ’’تم ایسا کرو گے‘‘اور’’ تم ہرگز ایسا نہ کرنا۔ ‘‘اور صرف موت ہی ہے جس کے آنے پر انسان آزاد ہو جاتا ہے کیونکہ جب کوئی فرد مرتا ہے تو وہ وجود کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے اور احکامات کی پابندیوں سے مستثنیٰ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا احکام انسان کی آخری سانس تک اس کو عمل کا پابند بناتے ہیں جو اس کو مقصد تخلیق انسانی اور رضائے الٰہی سے روشناس کرانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
Illustrated World Encyclopaedia
کا مقالہ نگار بائبل میں بیان کیے گئے احکام کا مقصد اسے پرُامن اور عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام قرار دینا ہے جس میں تمام لوگوں کو ان کے حقوق میسر ہوں اور اس کے ساتھ احکام پر عمل پیرا ہونے والوں کے دلوں میں جذبہ حبّ الٰہی بھی لازما ہو۔
The commandments, and other laws described in the Bible formed the basis of Judaism, the religion of the Jews. Its teaching included a love of God, respect for parents and the aged, a love of neighbour includings, kindness to animals and a love of peace. (Illustrated World Encyclopaedia, P.907)
یعنی احکام ہی یہود کا اصل مذہب ہیں اور احکام کی تعلیمات میں خدا سے محبت، بزرگوں اور والدین کا احترام، ہمسایوں اور پردیسیوں سے محبت میں دین میں انصاف اور ہر کسی سے مہربانی شامل ہے۔
Ander Neher
احکامِ الٰہیہ کے اسرار و مقاصد یوں بیان کرتا ہے:
Law illuminates human life in its entirity, or rather it enfolds life like a gigantic wave, flowing through all its openings, infiltrating through all its channels and spreading between all its banks. From the most brutal biological instincts to the most refined spirtual sublimation, all is embraced by the law and impregnated by it. If the manifold aspects of life are intimated, with such realism, it is because the effort to attain sanctity must tend towards their organization and unification. (Moses, P.104)
احکام انسانی زندگی کے جملہ مظاہر پر روشنی ڈالتے ہیں اور زندگی کے تمام پرتوں کو ایک عظیم الشان لہر کی طرح کھولتے ہیں جس کو تمام منابع میں سے نکلتے ہوئے اس کو تمام ندی نالوں میں سے گزرتے ہوئے اور اس کو اپنے تمام کناروں کے مابین پھیلتے ہوئے دکھاتے ہیں۔ یہ زندگی کو اس کی انتہائی سنگ دلانہ جبلتوں سے لے کر اس کی روحانی عظمتوں تک جاتے ہوئے دکھاتے ہیں۔ ہر شعبہ حیات احکام (قانون) سے ہمکنار ہوتا ہے جو اس کے ہر پہلو سے اس کے اندر سرایت کرتا ہے۔ اگر زندگی کے تمام پہلوؤں کا حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو معقولیت کے تمام پیمانے ان کی تنظیم اور وحدت و یگانگت کی طرف لے جاتے ہیں۔ یعنی احکام زندگی کے ہر ہر پہلو کی راہنمائی کے لیے انسانی زندگی کے ساتھ منسلک ہیں اور ان پر عمل پیرا ہونے سے انسان اور معاشرے پر ان کی افادیت اور ثمرات ظاہر ہوتے ہیں۔
Jacob Neusner
احکامِ الٰہیہ کا مقصد و فلسفہ بیان کرتا ہے:
Law is not divorced from values, but rather concretizes man's belief and ideals. The purpose of commandments to show the road to sanctity, the way of God. (The Way of Torah: an Introduction to Judaism, P.25, (Retrived from 8th, January, 2010,
http://www.questia.com/reader/action/ open/98243209)
قانون اقدار سے جدا نہیں بلکہ انسان کے عقیدے اور تصورات کو مستحکم کرتا ہے اور احکامات کا مقصد عقل و تدبر کا راستہ دکھانا ہے جو کہ خدا کا راستہ ہے۔ لہٰذا یہودیت میں بھی احکامِ الٰہی کی پیروی ہی صراطِ مستقیم ہے اور باعث نجات بھی کیونکہ احکامِ الٰہی کی اطاعت دراصل خداوند کی اطاعت تصور کی جاتی ہے۔
Abba Hille Silver
احکام تورات کی حکمت بیان کرتا ہے:
The commandments were given for no other purpose than to help men to live because of them, and not to die. (Where Judaism Differ, P.266)
احکامات کا مقصد سوائے اس کے اورکچھ نہیں ہے کہ انسان کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندہ رہنے میں مدد دی جائے اورہلاکت و تباہی میں پڑنے سے روکا جائے۔
لہٰذا شریعت موسوی میں احکامِ الٰہی زندگی کے ہر موڑ، نشیب و فراز اور حیاتِ ارضی کے ہر موڑ پر کام آتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و رضا اور ا س کے تقرب کے حصول کا واحد ذریعہ ہیں۔ یہ انسان کے مکلف ہونے سے تادمِ مرگ اس کی زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہیں اور انسان کو فہم و فراست اور عقل و تدبر عطا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اس کی فلاح کا پیش خیمہ اور ہلاکت و بربادی کے سامنے ایک ڈھال ہیں۔ معاشرتی سطح پر عدل و انصاف، مساوات ،بھائی چارہ اور امن و سلامتی کو فروغ دیتے ہیں انسان کو اس کے مقصد تخلیق سے آگاہ کرتے ہیں اور ان ہی کے ذریعے حق و باطل اور جھوٹے اور سچے معبودوں کے درمیان تمیز کی جا سکتی ہے۔ یہ منشائے الٰہیہ اور حکمت الٰہیہ کا مظہر ہیں۔ الغرض دنیاوی و اخروی فلاح و نجات ان کی اطاعت ہی میں مضمر ہے اور یہی دراصل احکام کی حکمت ہے، یہی ان کا مقصد اور فلسفہ ہے۔