• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احکام و عبادات حکمت و فلسفہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شریعتِ موسوی میں اور اسلام میں احکام و عبادات کی اہمیت کا اندازہ مذکورہ بالا قرآن و تورات کے حوالہ جات سے بخوبی کیا جا سکتا ہے جس میں احکامِ الٰہیہ کی اطاعت و فرماں برداری کی صورت میں فراوانی رزق و مال دنیاوی جاہ و جلال غلبہ بر دشمن اور نصرت خداوندی کا وعدہ کیا گیا ہے اور اخروی فلاح و کامیابی و جنت نعیم کی خوشخبری دی گئی ہے۔
وہاں احکامِ الٰہی کی نافرمانی کی صورت میں انسان تنگی معاش بے برکتی، مرعوبت، ذلت و پستی اورہلاکت سے دوچار ہونے کی وعید کی گئی ہے اور آخرت میں سخت عذاب کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ شریعت موسوی میں تو احکامِ الٰہی کی روگردانی کی صورت میں سزائیں اور بھی زیادہ المناک و ہولناک اور شدید ہیں۔ جو شریعت کے مخاطبین کو حد درجہ احکام الٰہیہ کی پیروی و بجا آوری کی تلقین کرتی ہے تاکہ عذابِ الٰہی سے بچ سکیں اور فلاح داراین کو حاصل کر سکیں اور یہی امر احکامات کی روح کو سمجھنے اور اس کی کما حقہ تعمیل کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے تاکہ انسان اپنے مقصد تخلیق سے آگاہ ہو اور ترقی و شعور اور کامیابیوں و کامرانیوں کے منازل الہامی شریعت کی مرضی و منشاء کے زیر سایہ طے کر سکے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فصل دوم
دینی احکام

حضرت آدم؈ سے لے کر خاتم النبیین تک تمام انبیائے کرام کا دین اور دعوت کے بنیادی عنصر ایک ہی تھے یعنی توحید، رسالت اور آخرت لیکن دین ہمیشہ سے ایک ہی تھا، ایک ہی رہا اور اب بھی ایک ہی ہے مگر شریعتیں بہت سی آئیں اور بہت سی منسوخ ہوئیں بہت سی بدلی گئیں اورکبھی ان کے بدلنے سے دین نہیں بدلا۔ حضرت نوح؈ کا دین بھی وہی تھا جو حضرت ابراہیم؈ کا تھا اورحضرت موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کا تھا۔ حضرت شعیب اور حضرت صالح اور حضرت ہود علیہم السلام کا تھا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے مگر شریعتیں ان سب کی کچھ نہ کچھ مختلف رہیں۔ ان کے باوجود سب مسلمان تھے حضرت نوح؈ کے پیرو بھی، حضرت ابراہیم ؈ کے پیرو بھی حضرت موسیٰ ؈ کے پیرو بھی اور ہم بھی اس لیے کہ دین سب کا ایک ہے۔ (ابو الاعلیٰ مودودی، خطبات، ص ۱۲۳)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
توحید کا معنی و مفہوم
والتوحید (الإیمان) باللہ وحدہ لا شریک لہ واللہ الواحد الأحد ذوالوحدنیۃ والتوحد۔(لسان العرب، ۳؍۴۵۰؛معجم المقاییس اللغۃ، ص ۱۰۴۵؛مفردات القرآن،ص۵۱۴)

The Vision of Islamمیں توحید کی تعریف اس انداز میں مذکور ہے:
"
There is no god but God" means that there is only a single true and worthy object of worship God. (Murata and Chittick, The Vision of Islam, P37)
تمام شریعتوں کی روح توحید
رسولوں کی امت ایک ہے جو ایک عقیدہ اور ایک ملت پر قائم ہے۔ اس کی بنیاد توحید ہے۔ جس کی گواہی وجود کے قوانین دیتے ہیں اور یہ وہی اصل ہے جس کی طرف رسولوں نے پہلی رسالت سے آخری رسالت تک دعوت دی اس عظیم اصل میں کوئی تبدیلی اور تغیر نہیں ہوا جو زندگی کے عقیدہ توحید کی بنیاد پر استوار تھیں۔
(فی ظلال القراٰن،۶؍۲۳۵؛تبیان القرآن،۷؍۶۶۱)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ هَـٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ ﴿٩٢ (سورۃ الأنبیاء۲۱:۹۲)
’’یہ ہے تم سب کا دین ایک ہی دین اور میں تم سب کا پروردگار پس تم میری ہی عبادت کرو۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شریعت موسوی میں عقیدۂ توحید
یہودی توحید کے علمبردار تھے انھوں نے ملک شام میں خدا پرستی کا چراغ اس وقت جلایا جب تمام دنیا اصنام پرستی میں گرفتار تھی۔ وہ اپنے معبود کو یہواہ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ جو ابراہیم و اسحق اور یعقوب علیہم السلام کا خدا تھا اور بنی اسرائیل کو مصر کی غلامی سے چھڑا کر لایا تھا۔ وہ ازلی و ابدی، حاضر و ناظر، حی ّ قیوم تھا۔ اس نے تمام عالم اور جمیع مخلوقات کو اپنے حکم سے پیدا کیا۔ فرشتے اس کے تابعدار، چاند، سورج، ستارے تابع فرمان، اس کی حکومت اور قدرت میں کوئی شریک نہیں وہ جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلیل کرے۔( داستانِ زوال و تباہی بنی اسرائیل،۔۲۱۹)
مذہب یہود کا لب لباب اس حکم میں ہے
’’سن اے اسرائیل! خدا وند ہمارا خدا ایک ہی خدا ہے۔‘‘ (استثناء ،۶:۴)
یہی وجہ ہے کہ یہود موسیٰ ؈ کو نہیں بلکہ خدائے بزرگ و برتر کو بائبل کا ہیرو قرار دیتے ہیں کیونکہ الہامی احکامات کا سرچشمہ وہی ہے۔

God is the hero of Bible. Every thing that is narated, enjoined, or forefold in biblical literature is related to him yet now where does the Bible offer any proof of the diety's existance, or command belief in him. (Encyclopaedia Judaica 7/ 65; Maxweber, Ancient Judaism, P. 400)
بائبل ادب میں ہر چیز جو بیان کی گئی ہے یا جس کی پیش گوئی کی گئی ہے اس کا محور اللہ تعالیٰ ہے۔
According to Hastings Dictionary of Bible:
It never occured to any writer of the OT to prove or argue the existance of God. To do so might will have seemed a super fluity, for all prophets and writers more among ideas that pre-suppose God's existance Prophecy itself is the direct product of his influence. (Hasting's Dictionary of Bible, 2/196)
OTکے کسی مصنف نے اللہ تعالیٰ کے وجود کے ثبوت پیش نہیں کیے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی دلائل دیے۔ غالباً یہ تاثر لیتے ہوئے کہ یہ ناموافق ہو گا چونکہ ہر پیغمبر یا عالم اس تصور سے آگے بڑھا کہ اللہ تعالیٰ کا تصور پہلے ہی سے موجود ہے اورنبوت خود اسی تصور ہی کی پیداوار ہے۔
یہی وجہ ہے کہ
Geoffery Parrinderاپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ یہودیت میں خدا کی وحدانیت پر سختی سے زور دیا گیا ہے۔ بقول مصنف:
The unity of God was defended strictly in Judaism. (Worship in the World's Religions, P.172)
یہودیت میں عقیدۂ توحید کے متعلق Standered Jewish Encyclopaediaمیں بیان کیا گیا ہے۔
The supreme being although the concept of a creator. Divine were related to the one creator and only God. He is majestic and condescending, terrible and kind, destructive and loving, punishing and forgiving etc. (Standered Jewish Encyclopaedia P. 762,763; Baron and Blau, Judaism, P. 33)
خالقِ کائنات کا جب بھی ذکر آتا ہے تو اس سے مراد عظیم ترین اور مقدس ترین ہستی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو قادر مطلق ہے۔ پوری کائنات کا نگہبان ہے۔ ہر قوت کا مرکز ہے۔ نہایت شفیق اور مہربان بھی ہے۔ جبکہ ساتھ ہی بد اعمالیوں کے لیے تباہ کن اور خوفناک قوت رکھتا ہے۔ اگر وہ ایک طرف سزا دیتا ہے تو دوسری طرف معاف اور درگزر کرنے کا منبع بھی وہی ہے۔
یہودیت اور اسلام کے عقیدۂ توحید کی مزید مماثلت کا اندازہ ان الفاظ سے کیا جا سکتا ہے۔

There is one eternal God, who is the sole origin of all things and forces and the source of all living souls. He rules the universe with Justice, righteousness, mercy and love. (Judaism, Israel Abrahams, P. 37; Judaism, Baron and Blau, P. 45; Alexander Altman, Isaac Israel, P.151)
اللہ تعالیٰ کی ایک دائمی حیثیت ہے جو کائنات کی ہر شے اور ہر قوت پہ قادر ہے جو اسی ذات کی تخلیق ہے۔ ہر بے جان یا جان دار، انسان ،حیوان، چرند پرند کا خالق وہی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے بنیادی اجزاء انصاف، سچائی، رحم اورمحبت ہے۔
Coller's Encyclopaediaکا مقالہ نگار یہودیت میں توحید کے اثبات میں مزید دلائل دیتے ہوئے بیان کرتا ہے:
A Jew acknowledges, first of all, the reality of God and he believes that God is one. (Collier's Encyclopaedia, 13/658; Harry Austryn, Philo, 1/178)
مشہوریہودی سکالرSoloman Schechterنے تورات کا مقصد خدا سے خلوت میں راز و نیاز سے دل کی بات کہنا اور خدائی موجودگی پر ایمان لانا بیان کیا ہے۔ (Studies in Judaism, (Retrived from December 10, 2009 http://www.sacred text.com/jud/studies.htm.))
یہود صرف خدا پر ایمان ہی نہ لاتے اور اسے واحد تصور کرتے تھے بلکہ یہودی لٹریچر میں خوفِ خدا کی بھی انتہائی ترغیب دی گئی ہے جس کی تائید تالمود میں ربی یوخانن کا واقعہ کرتا ہے:

When Rabbi Jochanan was ill his pupils visited him and asked him for blessing, with his dyinig voice the Rabbi said, I pray that you may fear God as you fear man." what exclaimed his pupils. "Should be not fear God more than man? "I should be well content," answered the sage," if your actions proved that you feared him as much, when you do wrong you first make sure that no human eyes see you, show the same fear of God, who sees every where, and every thing at all times. (H Polano, Talmud, P. 247, 248)
جب ربی یوخانن بیمار ہوا تو اس کے شاگرد اس کے پاس آئے تو ربی نے نحیف آواز میں ان کو برکت دی اورکہا کہ تم خدا کا خوف رکھو جیسے تم آدمیوں کا خوف رکھتے ہو اوریہ کہ جب تم کوئی غلطی کرتے ہو اور تمہیں یقین ہے کہ کوئی انسانی آنکھ تمہیں نہیں دیکھتی اور تم اس وقت بھی خدا کا خوف رکھتے ہو جو ہر جگہ دیکھتا ہے اورہر وقت اورہر چیز کو اپنی نگاہ میں رکھتا ہے۔
شریعت موسوی ؈ اورمحمدیﷺ کا منبع و ماخذ ذات واحد خدائے بزرگ و برتر ہے اس لیے تصور توحید اور خشیت الٰہی انتہا درجے یکساں ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عقیدۂ توحید کے قرآنی دلائل
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَـٰنُ الرَّحِيمُ (سورۃ البقرۃ۲:۱۶۳)
’’تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ بہت رحم کرنے والا اور بڑا مہربان ہے۔‘‘
سورۃ الانبیاء میں ارشاد ہے:

قُلْ إِنَّمَا يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿١٠٨ (سورۃ الأنبیاء ۲۱:۱۰۸)
کہہ دیجیے! میرے پاس تو بس وحی کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک ہی ہے تو کیا تم بھی اس کی فرماں برداری کرنے والے ہو۔
سورۃ الأنبیاء میں ارشاد ہے:

لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا ۚ (سورۃ الأنبیاء ۲۱:۲۲)
’’اگر آسمان و زمین میں سوائے اللہ تعالیٰ کے اورمعبود بھی ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہو جاتے۔‘‘
امین احسن اصلاحی بیان کرتے ہیں:
کائنات کی بقاء کا انحصار اس امر پر ہے کہ اس کے مختلف اجزاء و عناصر اور اس کی تمام اضداد میں نہایت گہرا توافق ہے۔ اگر یہ توافق ایک لمحے کے لیے بھی ختم ہو جائے تو اس کائنات کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے یہ توافق صریح طور پر اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ اس کائنات پر ایک ہی ذات کا ارادہ کار فرما ہے۔
(تدبر قرآن ،۵؍۱۳۶؛تفسیر ابن کثیر، ۳؍۴۱۷؛فی ظلال القرآن، ۶؍۱۸۶)
سورۃ اخلاص میں عقیدۂ توحید کی بہترین وضاحت کی گئی ہے:

قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١ اللَّـهُ الصَّمَدُ ﴿٢ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿٤(سورۃ الأخلاص ۱۱۲:۱-۴)
کہو وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے نہ اس کی کوئی اولاد ہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے اس کا کوئی ہمسر نہیں۔
اللہ ہی عرشِ عظیم کا رب ہے

فَسُبْحَانَ اللَّـهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ (سورۃ الأنبیاء ۲۱:۲۲)
اللہ تعالیٰ عرش کا رب ہے اور ہر اس وصف سے پاک ہے جو یہ مشرک بیان کرتے ہیں۔
عرش کا ذکر اس لیے فرمایا کہ مشرکین بتوں کو خدا کہتے اللہ تعالیٰ نے ان کا رد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عرشِ عظیم کا رب ہے۔ آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ نور، ظلمت، لوح، قلم، اجسام عناصر، موالید، جمادات، نباتات، حیوانات، انسانوں اور فرشتوں کا خالق ہے۔ اس کو چھوڑ کر بے جامد چیزوں کی پرستش کرنا اور ان کو معبود کہنا جن کو ان کے ہاتھوں نے بنایا ہے کتنی بے عقلی کی بات ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، ۳؍۴۱۷؛تبیان القرآن، ۷؍۵۳۳؛مفتی محمد شفیع، معارف القرآن، ۶؍۱۷۸)
قرآن میں ایک اور مقام پر ارشاد ہے:

اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ۩ ﴿٢٦(سورۃ النمل ۲۷:۲۶)
’’اس کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں وہی عظمت والے عرش کا مالک ہے۔‘‘
صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس
ؓ سے روایت ہے:
کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یدعو عند الکرب لا الہ الا اللہ العظیم الحلیم۔ لا الہ الا اللہ رب السموت ورب الأرض ورب العرش الکریم۔ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الدعوات، باب الدعا عند الکرب، رقم الحدیث ۶۳۴۶؛ص ۵۳۴)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں رسول اکرمﷺ مصیبت کے وقت یہ دعا کرتے تھے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو بہت بڑا اور بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو آسمانوں اورزمین اور باعزت عرش کا مالک ہے۔
مسعود احمد بیان کرتے ہیں کہ الٰہ بہت جامع لفظ ہے اس کا اطلاق معبود،حاکم، مطاع، خالق، مالک، مشکل کشا، حاجت روا، مددگار، عالم الغیب، حی، قیوم وغیرہ وغیرہ غرض یہ کہ بے شمار صفات پر ہوتا ہے اور جس ہستی میں یہ تمام صفات بدرجہ کمال پائی جائیں وہ الٰہ ہے اور ایسی ہستی سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جو شخص یہ تسلیم کرتا ہے وہ مسلم ہے اور جو شخص یہ تسلیم نہیں کرتا وہ کافر ہے۔
(مسعود احمد، تفسیر قرآن عزیز، ۶؍۶۹۴؛تفسیر ثنائی، ۵؍۱۲۳؛تدبر قرآن، ۵؍۱۹۹)
سورۃ المؤمن میں ارشاد ہے:

ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ﴿٦٢ (سورۃ المؤمن ۴۰:۶۲)
یہی اللہ ہے تم سب کا رب ہر چیز کا خالق، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر کہاں تم پھرے جاتے ہو؟
سورۃ الفرقان کے مطابق روئے زمین کی ہر چیز اور تقدیر کا خالق خدائے بزرگ و برتر ہی کی ذات ہے:

وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا ﴿٢(سورۃ الفرقان ۲۵:۲)
جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی تقدیر مقرر کی۔
عبداللہ بن مینار نے حضرت ابن عباس
ؓ سے روایت کیا ہے کہ آسمان بند تھے ان سے بارش نہیں ہوتی تھی اور زمین بند تھی اس سے سبزہ نہیں اُگتا تھا پھر آسمان کو بارش سے کھول دیا اور زمین کو سبزہ اُگانے کے ذریعہ کھول دیا۔ (زاد المسیر، ۳؍۱۸۹؛ تیسیر القرآن، ۳؍۱۰۲؛معارف القرآن، ۶؍۱۸۱،۱۸۲)
سورۃ الانبیاء میں ظاہر و باطن کا عالم اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ ارشاد ہے:

إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ مِنَ الْقَوْلِ وَيَعْلَمُ مَا تَكْتُمُونَ﴿١١٠ (سورۃ الأنبیاء، ۲۱:۱۱۰)
البتہ اللہ تعالیٰ تو کھلی اور ظاہر بات کو بھی جانتا ہے اور جو تم چھپاتے ہو اسے بھی جانتا ہے۔
ابن کثیر بیان کرتے ہیں:
ظاہر باطن کا عالم اللہ ہی ہے جو تم ظاہر کرو اور جو تم چھپاؤ اسے سب کا علم ہے۔ بندوں کے کل اعمال ظاہر اور پوشیدہ اس پر آشکارا ہیں چھوٹا بڑا اورکھلا چھپا عمل سب کچھ وہ جانتا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، ۳؍۴۵۴:معارف القرآن، ۶؍۲۳۳؛تبیان القرآن، ۷؍۶۹۷)
لہٰذا جب سے دنیا میں سلسلۂ رسالت شروع ہوا اس وقت سے عقیدۂ توحید دین کی پہلی بنیاد رہی ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی اور تغیر نہیں ہوا اور نہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ عقیدہ ہے اور عقیدوں میں تبدیلی ناممکن ہے۔ کیونکہ الوہیت اور ربوبیت ایک ہی ذات برحق میں ہے۔ ان دونوں میں جدائی ناممکن ہے لہٰذا نہ تو الوہیت میں شرک کا وجود ہو سکتا ہے نہ عبادت میں عقلاً بھی یہی قاعدہ ہے اور نقلاً بھی۔ (فی ظلال القرآن، ۶؍۱۸۷،۱۸۸)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رسالت

عقائد میں توحید کے بعد عقیدۂ رسالت کا درجہ ہے جس طرح عقائد کے اعتبار سے توحید دینِ الٰہی کی جڑ اور بنیاد ہے۔ اسی طرح اطاعت اور پیروی کے لحاظ سے رسالت اصل دین ہے۔

رسالت کے معنی و مفہوم

راغب اصفہانی بیان کرتے ہیں:
اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اسی سے رسول ہے جس کے معنیٰ ہیں روانہ ہونے والا۔ چنانچہ اسی مناسبت سے اس سے رسول مشتق ہے مگر کبھی رسول کالفظ صرف پیغام پر بولا جاتا ہے۔ اور کبھی اس سے مراد انبیاء علیہم السلام ہوتے ہیں۔ (مفردات القرآن، ص۳۹۶)
لسان العرب کے مطابق:
الرسول: معناہ فی اللغۃ الذی یتابع أخبار الذی یعثہ أخذا من قولھم جاء ت الإبل رسلا أی متتابعۃ۔(لسان العرب، ۱۱؍۲۸۴)
Encyclopaedia Biblicaمیں نبوت کے معنی بیان کیے گئے ہیں:
Prophet are connected by most with a root meaning in Arabic (nab'at un) a rushing sound and in Assyrian (nabu) to call or name. Nebu is sometimes called the prophet is primarily either a giver of oracles, or a speaker of spokesman. (Encyclopaedia Biblica, 3/3853)
پیغمبر کے لیے عربی کا لفظ نبوت ہے۔ آسرین(Assyrian)زبان میں پیغمبر کے لیے لفظ ’’نبو‘‘ (نبی) ہے۔ جس کے معانی ہیں بلانا یا نام دینا۔ بعض اوقات ’’نبو‘‘ کا مطلب خداؤں(Gods)کے درمیان نبی لیا جاتا ہے۔ اگر صحیح تصورلیا جائے تو پیغمبر مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے والا، ایک مقرر یا پھر ترجمان۔
محمد یوسف اصلاحی لکھتے ہیں:
خدا نے اپنے بندوں تک اپنے احکام پہنچانے اور ان کو ہدایت اور رہنمائی کے لیے جو انتظام کیا ہے اس کو رسالت کہتے ہیں اور خدا کے احکام پہنچانے والے برگزیدہ بندوں کو رسول، نبی یا پیغمبر کہتے ہیں۔(آسان فقہ، ۱؍۶۹)

شریعت موسوی میں عقیدۂ رسالت

یہود عقیدہ ٔرسالت پر ایمان لاتے تھے اور اس امر پر یقین رکھتے تھے کہ پیغمبر کا تعین اللہ کرتا ہے جو اس کی ذات کا پیغام انسان تک پہنچاتا ہے اور مستقبل کے لیے راہ نمائی کرتا ہے۔
According to Standered Jewish Encyclopaedia.
A prophet is designated by God to convey his message to men and to give guidence for the future. (Standered Jewish Encyclopaedia., P. 1546)
نبی خدا کی طرف سے لوگوں تک اس کا پیغام پہنچانے کے لیے بھیجا جاتا ہے تاکہ مستقل کی بھلائی کی خاطر لوگوں کی راہ نمائی کرے۔
Judaismکا مصنف بیان کرتا ہے کہ انسان کے حاصل کردہ سارے علوم کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے یہ اسی کی ذات سے انسان کے منہ تک پہنچتی ہے۔
All human knowledge is a direct manifestation of his grace. (Israel, Judaism, P. 41)
پیغمبر اپنے پیغام کو اس شدت سے (Yahwa)یعنی اللہ تعالیٰ سے وابستہ کرتا ہے کہ وہ بسا اوقات اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ظاہر کرتا ہے یا پھر ترجمان۔ نیز پیغمبر کا کام ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کا مقصد وقت سے پہلے بیان کر دے۔
So completely does the prophet refer his utterness to yahwe as their only source that he frequently represents yahwe as being himself the speake the task of the prophet - to declare before hand the purpose of God. (Encyclopaedia Biblica, 3/3867, 3868; Charles Foster Kent, The Sermons epistles and apocalypses of Israel's prophets., P. 4)
صحیفہ یرمیاہ میں عقیدہ رسالت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:
پھر خداوند تعالیٰ کا کلام یرمیاہ پر نازل ہوا۔ (یرمیاہ ،۳۳:۱۹)
کتاب خروج اور استثناء میں عقیدہ رسالت اور وحی کی وضاحت اس انداز سے کی گئی ہے :
سو تو اسے سب کچھ بتانا اور یہ سب باتیں اسے سکھانا اور میں تیری اور اس کی زبان کا ذمہ لیتا ہوں اورتم کو سکھاتا رہوں گا کہ تم کیا کرو۔ (خروج ،۴:۱۵)
جب سب اسرائیلی خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں جنھیں وہ خود چنے گا تو اس شریعت کو پڑھ کر سب اسرائیلیوں کو سنانا اور سب لوگوں کو یعنی مردوں، عورتوں، بچوں اور اپنی بستیوں کے مسافروں کو جمع کرنا تاکہ وہ سنیں۔ (استثناء، ۳۱:۱۱،۱۲)
صحیفہ یرمیاہ میں درج ہے:
اور میں نے اپنے تمام خدمت گزار نبیوں کو تمہارے پاس بھیجا اور ان کو بروقت یہ کہتے ہوئے بھیجا کہ تم ہر ایک اپنی برُی راہ سے باز آؤ اور اپنے اعمال کو درست کرو اور غیر معبودوں کی پیروی اور عبادت نہ کرو۔ (یرمیاہ ۳۵:۱۵)
Encyclopaedia Biblicaمیں شریعت یہود میں عقیدہ رسالت کی مزید وضاحت اس طرح کی گئی ہے:
The prophet gives forth only that which Yahwe has spoken to him. He utters nothing of his own motion but feels himself to be wholly the instrument of God. (Encyclopaedia Biblica, 3/3868)
پیغمبر آگے وہ پیغام پہنچاتا ہے جو اسے یحوا(Yahwa)یعنی اللہ بیان کرتا ہے اور یہ کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا نبی آپ کو اللہ تعالیٰ کا محض ایک اوزار تصور کرتے تھے۔
لہٰذا عقیدہ توحید کی طرح یہودیت اور اسلام کے عقیدہ رسالت میں بھی حد درجہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شریعت محمدیﷺ میں عقیدہ رسالت

اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان دوگنی کامیابی حاصل کرے بھی دنیا و آخرت میں اس کامیابی کے حصول کا طریقہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اس کے احکام کی اطاعت ہے۔ جس طرح رسالت کے بغیر اللہ تعالیٰ کے احکامات سے واقف نہیں ہوا جا سکتا اسی طرح رسالت پر ایمان لائے بغیر پوری طرح مومن یا مسلم نہیں بن سکتے۔ (خورشید احمد، اسلامی نظریۂ حیات، ص ۲۲۰)
منصبِ رسالت کے لحاظ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء میں کوئی فرق نہیں اور قرآنِ مجید کا صریح فیصلہ ہے کہ رسولوں کے درمیان کسی قسم کی تفریق جائز نہیں تمام انبیاء اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں۔ سب بنی نوعِ انسان کے ہادی و رہنما ہیں۔ سب کی اطاعت فرض ہے اور سب کی سیرت بنی آدم؈ کے لیے نمونہ تقلید ہے۔ (مودودی، اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی،ص۲۰۸)
قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِہٖ (سورۃ النسآء ۴:۱۳۶)
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ پر ،اس کے رسول پر اور اس کی کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری ہے ایمان لاؤ۔
ایک اور مقام پر سلسلہ انبیاء کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْہِمْ مِّنْ اَہْلِ الْقُرٰى (سورۃ یوسف ۱۲:۱۰۹)
کفار و مشرکین کے اس اعتراض پر کہ ہم ایسے شخص کو رسول کیسے مان لیں جو ہماری ہی طرح کا ایک انسان ہے کہ جواب میں فرمایا:
وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْہِمْ فَسْــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (سورۃ الأنبیاء ۲۱:۷)
تم سے پہلے جتنے پیغمبر ہم نے بھیجے سبھی مرد تھے جن کی طرف ہم وحی اتارتے تھے پس تم اہل کتاب سے پوچھ لو اگر خود تمہیں علم نہ ہو تو۔
اہل الذکر سے مراد اس جگہ علماء تورات و انجیل ہیں۔ یعنی بت پرست اگر انبیاء کے حال سے ناواقف ہیں تو یہود و نصاریٰ خوب انبیائے کرام کی پہچان رکھتے ہیں۔ جن کو پہلے خدا کی کتاب ملی اور وہ نبیوں اور رسولوں کی تاریخ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ (تدبر قرآن، ۵؍۱۲۶؛معارف القرآن، ۶؍۱۷۱؛تفسیر ابن کثیر،۳؍۴۱۴)
انبیاء کا گناہوں سے بری ہونا ان کی معصوم اور پاکیزہ سیرت ہے۔ پھر جن کافروں نے ان انبیاء کی تکذیب کی تھی ان پر آسمان سے عذاب بھیجا جس نے ان کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔ اور ملیا میٹ کر دیا اور انبیاء اور مومنوں کو اس عذاب سے محفوظ رکھا۔ (تبیان القرآن، ۷؍۵۲۴،۵۲۵؛تفہیم القرآن، ۳؍۱۵۰)
نبوت اللہ تعالیٰ کا خصوصی عطیہ ہے اس میں انسانی کوشش اور ارادے کا کوئی دخل نہیں۔ ارشادِ ربانی ہے:
اَللہُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ (سورۃ الأنعام ۶:۱۲۴)
اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی پیغامبری کا کام کس سے لے اور کس طرح لے پیغمبر دینی اور شریعت کے نام پر جو کچھ انسانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ وہ سب اللہ کی جانب سے ہوتا ہے۔ وہ ہدایت ربانی کے تابع ہوتے ہیں نہ خود ان کی کوئی مرضی ہوتی ہے نہ ذاتی ارادہ وہ وہی کرتے ہیں اور کہتے ہیں جس کا انھیں خدا کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے۔ (اسلامی نظریہ حیات، ص ۲۲۴)
ارشادِ ربانی ہے:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰى اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى (النجم ۵۳:۳،۴)
وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے۔
شاہ ولی اللہ دہلوی انتہائی عمدگی سے رسالت کی حکمت و افادیت بیان کرتے ہیں:
خدا تعالیٰ کی اپنے بندوں پر یہ بڑی نعمت ہے کہ اس نے وحی کے ذریعے سے انبیاء علیہم السلام کو ثواب اور عذاب بتا دیا۔ جو اعمال پر مرتب ہوتے ہیں تاکہ انبیاء لوگوں کو اس سے آگاہ کر دیں اور ان کے دل بیم و رجاء سے مملو ہو جائیں اور اپنے ذاتی قصہ اور ارادے سے لوگ ان شرائع کی پیروی کریں جیسے کہ اور باقی امور کی بیم و اُمید کیا کرتے ہیں جس سے کوئی ضرر دور ہو جاتا ہے یا ان سے کوئی نفع حاصل ہو تاہے۔( حجۃ اللہ البالغہ، ۱؍۲۷۱)
سید سلیمان ندوی بیان کرتے ہیں:
اس وقت دنیا میں جہاں کہیں بھی نیکی کی روشنی اور اچھائی کا نور ہے۔ جہاں کہیں بھی خلوص اور دل کی صفائی کا اجالا ہے۔ کیا وہ صرف ان ہی بزرگوں کی تعلیم و ہدایت کا نتیجہ نہیں جن کو تم انبیائے کرام کے نام سے جانتے ہو۔ پہاڑوں کے غاروں، جنگلوں کے جھنڈ، شہروں کی آبادیاں، غرض جہاں بھی رحم، انصاف، غریبوں کی مدد، یتیموں کی پرورش اور نیکیوں کا سراغ ملتا ہے وہ اس برگزیدہ جماعت کے کسی نہ کسی فرد کی دعوت و پکار کا دائمی اثر ہے۔ (خطباتِ مدراس، ص۲۷،۲۸)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آخرت

انبیائے کرام کی دعوت و دین کا تیسرا بڑا عنصر عقیدۂ آخرت ہے۔ مولانا مودودی بیان کرتے ہیں :
آخرت کا یہ عقیدہ جس طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا ہے۔ اسی طرح پچھلے تمام انبیاء نے بھی اس کو پیش کیا اور ہر زمانے میں اس پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لیے لازمی شرط ہے۔ تمام نبیوں نے اس شخص کو کافر قرار دیا جو اس سے انکار کرے یا اس میں شک کرے کیونکہ اس عقیدے کے بغیر خدا اور اس رسولوں اور اس کی کتابوں کو ماننا بالکل بے معنی ہو جاتا ہے اور انسان کی ساری زندگی خراب ہو جاتی ہے۔( دینیات، ص ۱۰۹،۱۱۰)

آخرت کا معنی و مفہوم

اٰخرٌ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اٰخَرُ (دوسرا) واحد کے مقابلے میں آتا ہے اور الدار الاخرۃ سے نشأۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ مراد لی جاتی ہے۔ (مفردات القرآن، ص۲۱)
لسان العرب کے مطابق:
والاخرۃ دار البقاء صفۃ غالبۃ والاخر بعد الاول (لسان العرب، ۴؍۱۴)
اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی طرف اپنا رسول بھیجتا ہے تو اس کے لیے ایک ہی راہ باقی رہ جاتی ہے کہ وہ ایمان لائے اگر وہ یہ راہ اختیار نہیں کرتی تو اتمام حجت کے بعد وہ لازماً تباہ کر دی جاتی ہے۔ (تفہیم القرآن، ۳؍۱۴۴؛تفسیر ابن کثیر، ۳؍۴۷۶؛تدبر قرآن، ۵؍۱۲۲)

شریعت موسوی میں عقیدہ آخرت

یہود عقیدہ ٔآخرت پر مکمل یقین رکھتے تھے۔ اسی لیے شریعت موسوی میں گناہوں سے بچنے اورنیک اعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ Soleman Schechterاس سلسلے میں بیان کرتے ہیں:
All man's action are carefully regulated by God, and connected with his holiness. (Studies in Judaism, (Retrived from December 20, 2000, from http://www.sacred text.com/jud/studies,htm.))
ہر انسان کے اعمال کو خداوند نہایت احتیاط سے ترتیب دیتا ہے اور وہ اس کی ہی ذات سے منسلک ہوتا ہے۔
تالمود میں عقیدہ آخرت کو اس طرح واضح کیا گیا ہے۔
Those who were born are to die, and those who are dead are to be born again those who are alive are to be judged, to proclaim, and to make known that he is the Lord , the Master, the creator; He, the Discerner; He the judge; and he shall surely judge. Blessed be He. Before Him there is no injustice and he forgetting, nor regard for persons, nor taking of Bribes for all is his, and every thing will accord with the recknoning. (Talmud, P. 39,40(Retrived from November 7, 2009 http://www.sacred-texts.com/jud/bata/ bata 04.htm)
جو انسان بھی پیدا ہوا ہے اسے مرنا ہے اورجو مر گئے ہیں۔ انھوں نے دوبارہ زندہ ہونا ہے اور جو زندہ ہیں ان کے اعمال کا فیصلہ ان کے علم، ان کے اعمال اور ان کے عقیدہ پر ہو گا کہ انھوں نے خداوند کی ذات کو متعارف کرایا جو کہ ہم سب کا آقا ہے۔ خالق ہے منصف ہے، جاننے والا ہے، شاہد ہے جس کے آگے شکایت کی جا سکتی ہے اور یقینا انصاف کرنے والا ہے نا انصافی سے دور ہے چونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ہر چیز کا مقام اس کی نسبت سے ہے۔
صحیفہ حزقی ایل میں درج ہے:اور اے میرے لوگو! جب میں تمہاری قبریں کھولوں گا اور تمہیں ان سے باہر نکالوں گا تب تم جانوگے خداوند میں ہوں۔ (حزقی ایل، ۳۷:۱۳)
صحیفہ حزقی ایل کے اس بیان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہود قبروں کے کھلنے اور مردوں کے دوبارہ جی اٹھنے پر یقین رکھتے تھے۔
عقیدۂ آخرت کے متعلق Hasting's dictionary of the Bible.میں درج ہے:
The death was not the end of existence but was the end of life. (Hastings dictionary of the Bible,4/231)
لہٰذا اُخروی نجات کے لیے ضروری ہے کہ اگر کسی سے گناہ سرزد ہو جائے تو وہ غوروفکر، عبادت، مطالعہ تورات اور سب سے بڑھ کر نیک اعمال کے ذریعہ معافی مانگے۔جس کو Collier's Encyclopaediaکے مقالہ نگارJudaism کے تحت ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
It a man sins, by omission and commission, the way is open for forgiveness through reflection, prayer, study of Torah, and above all good works. (Colliers Encyclopaedia, 13/658)
تالمود میں درج ہے:
ربی یوحنا(Yohana)نے کہا تھا تین چابیاں ایسی ہیں جو خدا تعالیٰ نے اپنے کسی پیغمبر کو عطا نہیں کی بلکہ اپنے پاس رکھی ہے۔ ان میں سے پہلی ہے ’’بارش‘‘ دوسری ہے’’پیدائش‘‘ اور تیسری چابی ہے ’’موت کے بعد آخرت کی حیات۔جس کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
There are three keys which the holy one, blessed be he, has not entrusted into the hands of any messenger, but keeps in his own hand these the key of rain, The key of Birth, and the key of ressurection of the dead. (Talmud, P. 132(Retrived from November 7, 2009 http://www. sacred-texts.com/jud/bata/bata 04.htm)
شریعت موسوی کا عقیدہ ٔآخرت بالکل اسلام کے عقیدہ آخرت کی مانند ہے جس کا اظہار خود یہودی عالمRabbi Geigerنے کیا ہے۔ جس میں وہ بیان کرتا ہے کہ ہمارے عقیدۂ آخرت کی جھلک قرآن میں واضح پائی جاتی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھتا ہے کہ روح کو کبھی موت نہیں آتی اس کی زندگی کا سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے اور جس دن روزِ حساب برپا ہو گا تب نیک اور پارسا ارواح خدا کے نور سے لطف اندوز ہوں گی۔ بقول مصنف:
The life of soul never ceases, it becomes unnecessary to fix a time, at which the judgment shall take place; and so in most talmudic passages a future world is Pictured in which every thing earthly is stripped away and pious souls enjoy the brightness of God's presence. Echoes of this teaching are to be found in the Quran. (Judaism and Islam, P.53)
لہٰذا یہود مُردوں کے دوبارہ جی اُٹھنے، آخرت کے قائم ہونے اور اس دن اچھے اور برے اعمال کی جزا اور سزا پر مکمل ایمان رکھتے ہیں۔

اسلام میں عقیدۂ آخرت

جس طرح مسلمان ہونے کے لیے عقیدۂ توحید پر دل و جان سے ایمان لانا ضروری ہے۔ اسی طرح عقیدۂ آخرت بھی اسی اہمیت کا حامل ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے جہاں توحید پر دلائل دیتے ہیں۔ وہاں ایمان بالآخرت پر بھی دلائل ہیں۔
ارشادِ ربانی ہے:
وَمَا ہٰذِہِ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ (سورۃ العنکبوت ۲۹:۶۴)
اور دنیا کی یہ زندگی محض کھیل تماشا ہے۔ البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے۔ کاش! یہ جانتے ہوتے۔
سورۃ القمر میں قیامت کا نقشہ بیان کیا گیا ہے:
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَۃً يُّعْرِضُوْا (سورۃ القمر ۵۴:۱،۲)
قیامت قریب آپہنچی اور چاند شق ہو گیا اور اگر وہ کافر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو اعراض کر لیتے ہیں
حدیث مبارکہ ہے:
عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال: بعثت أنا والساعۃ کھاتین: یعني إصبعین۔ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم،بعثت أنا والساعۃ کھاتین، رقم الحدیث ۶۵۰۵،ص۵۴۶)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں اور قیامت دونوں اتنے نزدیک بھیجے گئے ہیں جیسے یہ دو انگلیاں ۔
سورۃ الانبیاء میں آخرت کے دلائل قیامت کے واقعات کو بیان کر کے واضح کیے گئے ہیں۔
يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاۗءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ كَـمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُہٗ وَعْدًا عَلَيْنَا اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْنَ (سورۃ الأنبیاء ۲۱:۱۰۴)
جس دن ہم آسمان کو یوں لپیٹ لیں گے جیسے طورمار میں اوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور کر کے ہی رہیں گے۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِہٖ (سورۃ الزمر ۳۹:۶۷)
ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہو گی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں ہوئے ہوں گے۔
حدیث مبارکہ میں ہے:
عن ابن عمر رضی اللہ عنہما عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :أنہ قال ان یقبض یوم القیٰمۃ الارض وتکون السموت بیمینہ، ثم یقول أنا الملک (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ {لما خلقت بیدی} رقم الحدیث ۷۴۱۲،ص۶۱۷)
بے شک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زمین کو مٹھی میں لے لے گا اور آسمان کو داہنے ہاتھ پر لپیٹ لے گا پھر فرمائے گا کہ میں بادشاہ ہوں۔
یعنی جس طرح کسی چیز کو صحیفے میں لکھ کر صحیفے کو لپیٹ لیا جاتا ہے اسی طرح روزِ قیامت آسمانوں کو لپیٹ لیا جائے گا۔ (التفسیر الکبیر، ۸؍۱۹۱؛زاد المسیر، ۳؍۲۱۶)
اور آخرت دنیا پر کیے گئے انسانوں کے اچھے اور بُرے اعمال کے جزا اور سزا کا دن ہے۔
قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا يَّرَہٗ (سورۃ الزلزال ۹۹:۷،۸)
پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزِ قیامت حساب کا دن ہے۔ ہم اعمال کے حقائق کے تعین کو بھی خوب جانتے ہیں۔ اور کسی کی رائی بھر عمل کو بھی نیز یہ کہ ہمارا لیا ہوا حساب آخری اور فیصلہ کن ہو گا جس کی نہ کوئی پڑتال کرنے کا حق رکھتا ہے نہ کوئی دوسرا اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی کی کچھ بھی مدد نہ کر سکے گا۔ (تیسیر القرآن، ۳؍۱۰۸،۱۰۹:فی ظلال القرآن، ۶؍۲۰۱؛تبیان القرآن، ۷؍۵۹۱،۵۹۷)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تورات اور قرآن کا فلسفۂ احکام و عبادات

انسان کی پیشانی کو خود بخود ایک مسجود کی تلاش رہتی ہے جس کے سامنے وہ جھکے، اندرونِ دل کی عرض نیاز کرے اور اپنی دلی تمناؤں کو اس کے سامنے پیش کرے۔ غرض عبادت روح کے اسی فطری مطالبے کا جواب ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو انسانی روح کے جوشِ جنوں کا علاج ممکن نہیں وحشی سے وحشی مذاہب میں بھی عبادت کے کچھ رسوم اس ندائے فطرت کی تسلی کے لیے موجود ہیں پھر آسمانی مذاہب اس سے کیونکر خالی ہو سکتے ہیں۔ (شبلی نعمانی، عبادات، ص ۳۲)
یہی وجہ ہے کہ اسلامی شریعت کی طرح شریعت موسوی میں بھی دونوں طرح کی یعنی انفرادی اور اجتماعی عبادت کا تصورملتا ہے اور عقائد پر ایمان کے بعد عبادات میں اولین اہمیت کی حامل نماز (صلوٰۃ) ہے۔
صلوٰۃ کا معنی و مفہوم
امام راغب اصفہانی بیان کرتے ہیں:
صلوٰۃ عبادات مخصوصہ(نماز) کا نام ہے اس کی اصل دعا ہے اور چونکہ اس عبادت کا ایک جزو دعا ہے اس لیے کل کو جزو کا نام دے دیا گیا ہے۔ کوئی شریعت صلوٰۃ سے خالی نہیں رہی۔ اگر اس کی ہیئت مختلف شریعتوں میں مختلف تھی عبادت کی جگہ کو بھی صلوٰۃ کہتے ہیں اس لیے کلیسا پر بھی صلوٰۃ کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ (المفردات،ص۲۸۵)
اسی لیے قرآنِ کریم میں فرمان ہے:
لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ (سورۃ الحج ۲۲:۴۰)

شریعت موسوی میں نماز کا تصور اور فلسفہ
قرآن پاک کی تعلیم کے مطابق دنیا میں کوئی پیغمبر ایسا نہیں آیا جس نے اپنی امت کو نماز کی تعلیم نہ دی ہو۔ اسلام کے زمانے میں بھی چند یہود و نصاریٰ نماز پڑھا کرتے تھے ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّۃٌ قَاۗىِٕمَۃٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللہِ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَ (سورۃ اٰل عمران ۳:۱۱۳)
ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔
اس سلسلے میں عرب کا ایک جاہلی شاعر جران العود کہتا ہے:
و أدرکن أعجازاً من اللیل بعدھا
أقام الصلوٰۃ العابد المتحنف​
(لسان العرب،۹؍۵۸)​
اور ان سواریوں نے رات کے پچھلے پہر میں جب عبادت گزار حینفی نماز پڑھ چکا تھا۔اس شعر سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب میں مذہب حنیفی کے پیروکار پچھلی رات میں نماز ادا کرتے تھے۔تورات و انجیل میں نماز کے لیے ’’خدا کا نام لینا‘‘ ’’دعا‘‘ اور ’’سجدہ کرنے‘‘ جیسی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔ مثلاً:
اور اُس نے وہاں مذبح بنایا اور خداوند سے دعا کی۔ (پیدائش ،۲۶:۲۵)
انجیل متی میں درج ہے:
لیکن یہ قسم دعا کے سوا اور کسی طرح نہیں نکل سکتی ۔ (متی ،۱۷:۲۱)
کتاب تواریخ میں نماز کے لیے ’’سجدہ کرنا‘‘ بیان کیا ہے۔
پھر داؤد نے ساری جماعت سے کہا اب اپنے خداوند کو مبارک کہو تب ساری جماعت نے خداوند اپنے باپ دادا کے خدا کو مبارک کہا اور سر جھکا کر انھوں نے خداوند اور بادشاہ کے آگے سجدہ کیا۔ (تواریخ ،۲۹:۲۰)
Standered Jewish Encyclopaediaمیں نماز کو اللہ تعالیٰ سے ایک التجا، درخواست اور شکر کے اظہار کا ذریعہ بیان کیا ہے۔ نیز شریعت موسوی میں بالترتیب تین نمازوں کو بیان کیا گیا ہے۔
جن میں صبح کی نماز کو (Shaharit) دوپہر کی نماز کو (Minhah) اور شام کی نماز کو (Maariv) کہا جاتا ہے:
It is man's appeal to God, wheather as a request or in the thanks-giving..... and it is recited three times a day morning, (Shaharit) after noon (Minahah) and evening (Maariv) (Standered Jewish Encyclopaedia, P. 1535)
Max Weber نے نماز کو توحید کے اقرار اور صرف خدائے بزرگ و برتر کو عبادت کے حق دار کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
Hear, O Israel, The Lord our God is one Lord." the openning sentence of present Jewish morning prayer stand at the head of exhortation. (Max Weber, Ancient Judaism, P. 244)
اسی لیے یہودیوں کی صبح کی دعا کا پہلا جملہ ہی یہ ہے :سن اے اسرائیل! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خدا ہے۔
Prayers in the Jewish tradition goes back to immemorial antiquity. Even at the time when the main emphasis of congregational services was laid on sacrificial worship, individuals turned to God with personal supplication or words of thanks-giving. (Baron and Blau, Judaism, P. 211; Rabbi Geiger, Judaism and Islam, P.68)
Collier's Encyclopaediaمیں شریعت موسوی میں نماز کا مقصد گناہوں سے معافی اور اخروی زندگی میں کامیابی کا حصول بیان کیا ہے۔
If a man sins by omission or commission, the way is open for forgiveness through reflection, Prayers, study of the Torah and above all, good works. (Collier's Encyclopaedia, 13/658)
یہودی عالم نے نماز کا فلسفہService of Heartقرار دیا ہے۔ یعنی دل سے خدا تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا کرنا اور پختہ یقین کے ذریعے اس کی خدائی کا تسلیم کرنا ہے۔
The ancient rabbies deduced the duty of daily prayer from the more general biblical injunction "to serve him with all thine heart." which is the service of heart"? they asked, and replied this is prayer. (Historia Religionum, (Ed by Bleeker and Widengren), 2/34; Encyclopaedia Judaica,16/ 458)
شریعت محمدیہﷺ کی طرح شریعت موسوی میں نماز کی ادائیگی کے بے شمار مقاصد میں شامل روحانیت کا حصول اور معاشرے میں استحکام اور اجتماعیت کے قیام بھی ہیں۔
It is intended that his prayers be ethical and not opposed to the intrests of others, and that his praying be marked by a sense of inwardness prayers at the synagogue is encouraged because here is added strength in praying as a community. (Collier's Encyclopaedia, 13/657)
یہودیت میں عبادات کے متعلق تصور کیا جاتا ہے کہ یہ نیک مقاصد کی خاطر ہوں اور کسی کے مفادات کے خلاف نہ ہوں اوریہ کہ عبادات اپنے اندر روحانیت کے احساسات لیتے ہوں اور اور عبادات کو ادا کرنے کے لیے عبادت گاہ کی تاکید اس لیے کی گئی ہے تاکہ یہودی معاشرے کو مضبوطی حاصل ہو۔
شریعت محمدیہ میں تصور نماز و فلسفہ
قرآنِ کریم میں بے شمار مقامات پر نماز کی ادائیگی اور فرضیت کو بیان کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ (سورۃ البقرۃ۲:۴۳)
اورنماز پڑھا کرو اورزکوٰۃ دیا کرو اور خدا کے آگے جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو۔
حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰى وَقُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِيْنَ (سورۃ البقرۃ۲:۲۳۸)
سب نمازیں خصوصاً بیچ کی نماز پورے التزام کے ساتھ ادا کرتے رہو اور خدا کے آگے ادب سے کھڑے رہا کرو۔
اس سلسلے میں مفتی شفیع بیان کرتے ہیں:
بیچ والی نماز سے مراد نمازِ عصر ہے کیونکہ اس کے ایک طرف دو نمازیں دن کی ہیں۔ فجر اورظہر اور ایک طرف دو نمازیں رات کی ہیں۔ مغرب اور عشاء اس کی تاکید خصوصیت کے ساتھ اس لیے کی گئی ہے کہ اکثر لوگوں کو یہ وقت کام کی مصروفیت کا ہوتا ہے۔ (معارف القرآن، ۱؍۵۸۹؛تدبر قرآن، ۱؍۵۵۳)
ادریس کاندھلوی بیان کرتے ہیں:
عصر کی تخصیص تاکید اور اہتمام کے لیے کی گئی کیونکہ یہ وقت لوگوں کے بازاروں میں مصروف رہنے کا ہے اس لیے اندیشہ ہے کہ یہ نماز فوت نہ ہو جائے یا بغیر جماعت کے ادا کی جائے یا تاخیر سے پڑھی جائے۔ (معارف القرآن، ۱؍۳۵۷)
قرآنِ کریم میں خصوصاً نمازِ جمعہ کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (سورۃ الجمعۃ ۶۲:۹)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔
قرآنِ کریم میں نمازِ جمعہ کے ساتھ نمازِ تہجد کی بھی تاکید آئی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الْمُزَّمِّلُ قُـمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِيْلًا (سورۃ المزمل ۷۳:۱،۳)
اے اوڑھ لپٹ کر سونے والے رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم، آدھی رات، یا اس سے کچھ کم کر لو۔
مفتی محمد شفیع تہجد کی حکمت بیان کرتے ہیں کہ رات کی نماز نفس کشی اور نفس کو قابو میں رکھنے اور ناجائز خواہشات پر اُڑنے سے روکنے میں نماز تہجد سے بڑی مدد ملتی ہے۔ (معارف القرآن، ۸؍۵۹۲)
ابن عباسؓ نے فرمایا کہ جب پانچ نمازوں کی فرضیت شب معراج میں نازل ہوئی تو نمازِ تہجد کی فرضیت منسوخ ہو گئی البتہ سنت پھر بھی رہی اور رسولﷺ نے ہمیشہ اس پر مداومت فرمائی اور اکثر صحابہ کرامؓ بڑی پابندی سے نمازِ تہجد ادا کرتے تھے۔ (تفسیر البغوی، ۱۳۵۵؛تفسیر قرطبی، ۲؍۳۱۷۵)
نماز کے بے شمار اسرار وحکم ہیں جن میں اولین بامقصد زندگی کا حصول اور اپنے رب سے آگاہی ہے۔
شاہ ولی اللہ بیان کرتے ہیں:
نماز ایک مرکب معجون ہے جس میں غوروفکر ہے۔ اس کے ذریعے سے خدا کی جانب توجہ ہوتی ہے نیز نماز میں مختلف دعائیں بھی شامل ہوا کرتی ہیں۔ جن سے صاف صاف اظہار کیا جاتا ہے کہ اس کا عمل خالصتاً خدا ہی کے لیے ہے اس کا رُخ اسی کی جانب ہے۔ ہرقسم کی اعانت کی خواستگاری صرف اسی سے ہے۔ نماز کی منفعت عام اور خاص سب لوگوں کے لیے یکساں ہے۔ ہر ایک اپنے درجے اور استعداد کے مطابق اس سے نفع اٹھا سکتا ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ، ۱؍۱۵۳)
نماز مقصد حیات کی یاد دہائی کا ایک بڑا ذریعہ ہے اس سلسلے میں پروفیسر خورشید احمد بیان کرتے ہیں:
انسان کی پوری زندگی کو عبادت میں تبدیل کرنے کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اس کے ذہن میں یہ شعور ہر وقت تازہ رہے کہ وہ خدا کا بندہ ہے اور اسے اپنی زندگی ایک مخصوص انداز سے گزارنی ہے۔ یہ نماز کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔ (اسلامی نظریۂ حیات، ص ۳۰۸)
نور محمد غفاری بیان کرتے ہیں:
نماز انسان کے ذہن میں اس حقیقت کو مرتسم کرتی ہے کہ وہ خدا کا بندہ ہے۔ شیطان و نفس کا بندہ نہیں۔ بے شک اس کی اپنی خواہشات ہیں۔ تقاضے ہیں ارادے ہیں، عزائم ہیں مگر ان سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا سب سے بڑی چیز ہے۔ (اسلام کا نظام عبادات،ص ۷۰)
نماز کے بے شمار اخلاقی، تمدنی اور معاشرتی مقاصد ہیں جن کو ڈاکٹر محمد اقبال یوں بیان کرتے ہیں مسلمانوں کی نماز کے لیے ایک ہی قبلے کا تعین ان کی جماعت کے لیے وحدت شعور کو یقینی بنانے کے لیے ہے اور اس کی ہیئت بالعموم اجتماعیت کی مساوات کے احساس کو متحقق کرتی ہے اور اس کے روابط کو مضبوط کرتی ہے۔ جو طبقاتی احساس اور امراء کے طبقے کی دوسرے طبقے پر فوقیت کے شعور کی آغاز میں ہی سرکوبی کر دیتی ہے۔ اگر وہ شاہی مزاج مغرور برہمن، جنوبی ہندوستان میں ہر روز اچھوتوں کے ساتھ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہو جائے تو یقینا ایک عظیم روحانی انقلاب برپا ہو جائے۔ (Reconstruction of Religious Thought in Islam, P. 74,75)
سید سلیمان ندوی بیان کرتے ہیں:
جماعت کی نماز مسلمانوں میں برادرانہ مساوات اور انسانی برابری کی درسگاہ ہے۔ یہاں امیر و غریب، کالے گورے، حبشی ،عرب وعجم کی کوئی تمیز نہیں سب ایک ساتھ ایک درجہ اور ایک صف میں کھڑے ہو کر خدا کے آگے سرنگوں ہوتے ہیں۔ یہاں شاہ و گدا، شریف و ذلیل سب ایک زمین پر ایک امام کے پیچھے دوش بدوش کھڑے ہوتے ہیں اور اس برادرانہ مساوات اور انسانی برابری کی مشق دن میں پانچ مرتبہ ہوتی ہے۔ (سیرۃ النبی، ۵؍۱۰۳)
آج کی دنیا میں معاشرتی بگاڑ کی جہاں اورکئی وجوہات ہیں وہاں ایک اہم وجہ غیر فطری عدم مساوات بھی ہے۔ وہ ممالک جو اپنے آپ کو تہذیب یافتہ اور انسانی حقوق کا علمبردار کہلاتے ہیں ان کے ہاں حال یہ ہے کہ رنگ و نسل کے امتیازات نے فساد بپا کیے رکھا ہے کالے اور گورے کے عبادت خانے اور قبرستان تک الگ الگ ہیں۔ (اسلام کا نظامِ عبادات،ص۸۰)
نماز اپنے اندر تکمیل اخلاق کی حکمت رکھتی ہے اس سلسلے میں شبلی نعمانی بیان کرتے ہیں:
اصلاحِ اخلاق کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ نفس ہر وقت بیدار اور اثر قبول کرنے کے لیے آمادہ رہے ۔ تمام عبادات میں صرف نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جو نفس کو بیدار رکھ سکتی ہے کیونکہ روزہ، حج، زکوٰۃ اوّلاً تو ہر شخص پر فرض نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ روزہ سال میں ایک بار فرض ہوتا ہے۔ زکوٰۃ کا بھی یہ ہی حال ہے اورحج عمر میں ایک بار ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس نماز دن میں پانچ مرتبہ ادا کرنی پڑتی ہے جس میں ہر چیز نفس میں تدریجی اثر پذیری کی قابلیت پیدا کرتی ہے۔(عبادات، ص ۱۲۶،۱۲۷)
قرآنِ حکیم نے اہل کتاب کے بگاڑ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی جس خرابی کو نمایاں طور پر پیش کیا وہ ترکِ الصلوٰۃ ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے:
فَخَــلَفَ مِنْۢ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّـبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا (سورۃ مریم ۱۹:۵۹)
پھر ان کے بعد وہ ناخلف لوگ ان کے جانشین بنے جنھوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں۔
ابن کثیر بیان کرتے ہیں کہ نماز تو دین کی بنیاد ہے اور تمام اعمال سے افضل و بہتر ہے۔ چنانچہ یہ لوگ نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے اور دنیا کی زندگی پر ریجھ گئے لہٰذا ان کو قیامت کے دن سخت خسارہ ہو گا اور وہ بڑے گھاٹے میں رہیں گے۔ (تفسیر ابن کثیر، ۳؍۳۵۱)
قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ (سورۃ العنکبوت ۲۹:۴۵)
یقینا نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے۔
نماز خود اپنی ذات میں بہت بڑی اور اہم عبادت اور دین کا عمود ہے اس کے ساتھ اس میں یہ حکمت بھی ہے کہ جو شخص نماز کی اقامت کرے تو نماز اس کو فحشاء اورمنکر سے روک دیتی ہے۔ یعنی اقامت صلوٰۃ کرنے والے کو منجانب اللہ خود بخود توفیق اعمالِ صالحہ کی ہوتی ہے اور ہر طرح کے گناہوں سے بچنے کی بھی۔ (معارف القرآن ،۶؍۶۹۶،۶۹۷)
نماز کا چھوڑنا ہی دراصل شہوت نفسانیہ کی پیروی ہے کیونکہ پابندی نماز میں حکمت شہوت پر قابو پانا اور منکرات پر بند باندھنا ہے۔ (اسلام کا نظام عبادات، ص ۶۲،۶۳)
اس سلسلے میں سید سلیمان ندوی بیان کرتے ہیں:
ایک مسلمان جو نماز پڑھتا ہے جب کبھی غلطی سے یا بشری کمزوری سے اس کا قدم ڈگمگاتا ہے تو رحمت الٰہی اس کا ہاتھ تھام لیتی ہے۔ اس کو اپنے فعل پر ندامت ہوتی ہے اور خدا کے سامنے شرم آتی ہے اس کا ضمیر ملامت کرتا ہے غرض نماز انسان کے اخلاقی حاسہ کو بیدار کرتی ہے اور اسے برائیوں سے بچاتی ہے۔ (سیرۃ النبیﷺ، ۵؍۹۸)
لہٰذا شریعت موسوی اور محمدی میں نماز، بندگی کے اظہار، رحمت و مغفرت کی طلبگار، روحانی پاکیزگی اورحصول قربِ الٰہی تصور کی گئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
روزہ
معنی و مفہوم
روزہ کے لغوی معنی ہے کسی چیز سے رکنا اور اس کو ترک کرنا اور روزہ کا شرعی معنی ہے مکلف اور بالغ شخص کا ثواب کی نیت سے طلوعِ فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے، جماع ترک کرنے اور اپنے نفس کو تقویٰ کے حصول کے لیے تیار کرنا۔ (تاج العروس، ۱۷؍۴۲۳؛مفردات القرآن، ۲۹۱)
تمام ادیان و ملل میں روزہ معروف ہے قدیم مصری، یونانی رومن اورہندو سب روزہ رکھتے تھے۔ (تبیان القرآن، ۱؍۷۰۰)
قرآنِ کریم کے ارشاد کے مطابق روزہ تربیت نفس کی قدیم ترین عبادت ہے۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (سورۃ البقرۃ۲:۱۸۳)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بنو۔
Encyclopaedia Americanaکے مقالہ نگار اس سلسلے میں لکھتا ہے:
It has been an almost universal practice of the human race from early times. (Encyclopaedia Americana, 12/52)
روزہ پہلے وقتوں سے ہی نسل انسانی کا عالمگیر عمل رہا ہے۔
شریعت موسوی… تصورِ روزہ اور فلسفہ
شریعت موسوی میں بھی روزہ فریضہ الٰہی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر چالیس دن بھوکے پیاسے گزارے سو وہ چالیس دن اور چالیس رات وہیں خداوند کے پاس رہا اور نہ روٹی کھائی نہ پانی پیا اور اس نے ان لوحوں پر اس عہد کی باتوں کو یعنی دس احکام کو لکھا۔ (خروج ،۳۴:۲۸)
چنانچہ عام طور پر یہود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی میں چالیس دن روزہ رکھنا اچھا سمجھتے ہیں لیکن چالیسویں دن کا روزہ ان پر فرض ہے۔ اس لیے تورات میں اس دن کے روزے کی نہایت تاکید آ،ئی ہے جو ان کے ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو پڑتا ہے اور روزے کو اپنی جان کو دکھ دینا کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اور یہ تمہارے لیے دائمی قانون ہو کہ ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو تم اپنی اپنی جان کو دُکھ دینا اور اس دن کوئی خواہ دیسی ہو یا پردیسی جو تمہارے بیچ بود و باش رکھتا ہو کسی طرح کا کام نہ کرے کیونکہ اس روز تمہارے واسطے تم کو پاک کرنے کے لیے کفارہ دیا جائے گا سو تم اپنے سب گناہوں سے خداوند کے حضور پاک ٹھہرو گے۔ (احبار ،۱۶:۲۹،۳۰؛۲۳-۲۷)
اس کے علاوہ یہودی صحیفوں میں اور دوسرے روزہ کے احکام بھی بتصریح مذکور ہیں۔
اور تو جا اور خداوند کا وہ کلام جو تو نے میرے منہ سے اس طومار میں لکھا ہے خداوند کے گھر میں روزہ کے دن لوگوں کو پڑھ کر سنا اور تمام یہوداہ کے لوگوں کو بھی جو اپنے شہروں سے آئے ہوں تو وہی کلام پڑھ کر سنا۔( یرمیاہ ،۳۶:۶)
Encyclopaedia Britannicaکا مقالہ نگار بیان کرتا ہے:
روزہ کے اصول اور طریقے گو آب و ہوا، قومیت و تہذیب اور گردش ِحالات کے اختلاف سے بہت کچھ مختلف ہیں لیکن بمشکل کسی ایسے مذہب کا نام ہم لے سکتے ہیں جس کے مذہبی نظام میں روزہ مطلقاً تسلیم نہیں کیا گیا۔ (Encyclopaedia Britannica, 9/106)
Encyclopaedia of Religionکا مقالہ نگار شریعتِ موسوی میں فرضیت صوم کے متعلق بیان کرتا ہے:
Within the Judaic tradition only one day of fasting was imposed by mosaic law, "Yom kipper" the day of antonement and Moses fasted forty days on Sinai. Judaism allowed for individual voluntary fasts and there is evidence that mondays and thursdays were set aside by some Jewish communities as special days of fasting. (Encyclopaedia of Religion, 5/287,288;Blacks Bible Dictionary, P.189)
شریعت موسوی میں"Yom Kipper"توبہ کے دن کا روزہ فرض کیا گیا اور موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر جو چالیس روزے رکھے ان کے علاوہ یہودیت میں انفرادی طور پر نفلی روزے بھی ہیں اور اس بات کا ثبوت ہے کہ یہودیوں کی بعض برادریوں میں سوموار اور جمعرات کو خاص طور پر روزے کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ (Encyclopaedia Britannica, 9/107)
البتہ نابالغ بچوں، حاملہ عورتوں اور بیماروں کے لیے رعایت تھی کہ وہ روزہ نہ رکھیں۔ (Talmud, P. 123(Retrived from November 7, 2009 http://www. sacred-texts.com/jud/bata/bata 04.htm))
اسلام کی طرح یہودیت میں بھی روزے کا مقصد روح کی پاکیزگی قرار دیا گیا ہے۔
It is practiced for spiritual ends, as a sign of repentence or mourning or to request divine assistance. (Standered Jewish Encycylopaedia, P. 668)
یہ ایک روحانی مقاصد کے حصول کی ایک مشق قرار دی گئی ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رحمت و مدد کی التجا کی جاتی ہے۔
روزے کو سفر الاحبار میں ایک دوسرے لفظ نفس کشی سے تعبیر کیا گیا ہے کفارے کے دن کے بارے میں ہے:
تمہارے لیے یہ ایک دائمی قانون ہے کہ ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو تم اپنی اپنی جان کو دکھ دینا اور اس دن خواہ کوئی دیسی ہو یا پردیسی جو تمہارے بیچ بود و باش رکھتا ہو کسی طرح کا کام نہ کرے۔ (احبار ۱۶:۲۹)
یہودی فقہ کی کتابTalmudمیں ان احکام کی صراحت اس انداز میں کی گئی ہے۔
Just as no work mean sit and do nothing, that if one is sitting in the sun, and is hot he must not change his place and sit down in the shade, or if he is sitting in the shade and it is cold he must not sit down in the sun. (Lco Aurebech, Talmud P. 122(Retrived from November 7, 2009 http://www. sacred-texts.com/jud/bata/bata 04.htm)
یعنی اپنے نفس کو سختی میں ڈال کر اس کے اندر صبر اور برداشت کا جذبہ پیدا کرے جس سے نفس انسانی کو خدا کے ہر حکم کی اطاعت اور فرماں برداری کی توفیق حاصل ہو۔
یہودی شریعت میں روزہ کا مقصد ایسی زندگی کا حصول ہے جس میں گناہوں سے اجتناب کیا جائے اور سرزد گناہوں سے معافی حاصل ہو نفس کا تزکیہ کیا جائے اور باعمل زندگی گزاری جائے جو یقینا روزہ اور دیگر اعمال کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
Sin is evil life, atonement is the better life, the better life was attained by fasting, prayers and charity, by a purification of heart and a cleanliness of the hands. (Israel Abraham, Judaism, P. 45)
یہی وجہ ہے کہ گناہوں سے معافی اور رضائے الٰہی کی خاطر اکثر یہودی انفرادی طور پر روزہ رکھا کرتے تھے۔ (Standered Jewish Encyclopaedia, P. 668)
شبلی نعمانی بیان کرتے ہیں:
روزہ آسمانی شریعتوں میں ابتدا سے تربیت نفس کی خاص دریافت رہی ہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے (سورۃ البقرۃ۲:۱۸۱) میں ان تمام حقائق و رموز کو صرف ایک لفظ تقویٰ سے بے نقاب کر دیا ہے اور چونکہ روزے کی یہ حقیقت تمام مذاہب میں مشترک تھی اس بنا پر قرآنِ مجید نے دیگر مذاہب کو بھی اشارۃً اس حقیقت میں شریک کر لیا ہے۔ (شبلی نعمانی، عبادات، ص ۲۰۹:ادریس کاندھلوی، معارف القرآن، ۱؍۲۷۸)
الغرض شریعت موسوی میں روزے کا مقصد و فلسفہ حصولِ تقویٰ، تزکیہ نفس، رضائے الٰہی کا حصول، نیز صالح اور باعمل زندگی گزارنے کی ترغیب دینا ہے۔
اسلام کا فلسفۂ صوم
روزے کی فرضیت کا ذکر قرآنِ کریم میں اکثر مقامات پر آیا ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (سورۃ البقرۃ ۲:۱۸۳)
جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔
سورۃ البقرۃ میں ہی ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
كُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ (سورۃ البقرۃ۲:۱۸۷)
نیز راتوں کو کھاؤ پیو، یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدیٔ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے تب سب کام چھوڑ کر رات تک روزہ پورا کرو۔
اسلام میں فرض روزے کی تین اقسام ہیں جن میں رمضان کے تمام روزے، کفارہ کے روزے اور نذر مانے ہوئے روزے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نفلی روزے بھی ہیں جن میں شوال کے چھ روزے، ذی الحجہ کے ابتدائی دنوں کے روزے جو تقریباً نو ہیں محرم خصوصاً اس کی دس تاریخ کے روزے اور شعبان کے اکثر دنوں کے روزے حرمت والے مہینوں کے روزے، پیر اورجمعرات کا روزہ اور ایامِ بیض یعنی ہر ماہ میں تین دن کے روزے۔ (فقہ السنۃ، ۲؍۱۶۴-۱۸۵)
روزے کی حکمت و فلسفہ کے متعلق پروفیسر خورشید احمد بیان کرتے ہیں۔
تیس دن کی مسلسل مشق کا مقصد یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ہمارا نفس ہم پر غلبہ کرے ہم اپنے خادم پر پورا اقتدار حاصل کر لیں۔ جس خواہش کو چاہیں روک دیں اور اپنی جس قوت سے چاہیں کام لے سکیں۔ اس لیے کہ وہ شخص جسے اپنی خواہشات کا مقابلہ کرنے کی کبھی عادت نہ رہی ہو اور جو نفس کے ہر مطالبے پر بے چوں چرا سر جھکانے کا خوگر رہا ہو دنیا میں کوئی بڑا کام نہیں کر سکتا۔ (اسلامی نظریۂ حیات،ص ۳۱۸)
روزہ تزکیہ نفس اور روحانی بالیدگی کا بہترین ذریعہ ہے ۔ امام ابن القیم اس سلسلے میں بیان کرتے ہیں :
روزے سے مقصود شہوات سے جس نفس اور مالوفات سے انقطاع اور قوائے شہوانیہ کی تعدیل ہے تاکہ انسانی سعادت اور پورے انعامات حاصل ہو سکیں اور اسے شرفِ قبول حاصل ہو جو دراصل ذریعہ ہے تزکیہ نفس کا اور اسی میں حیاتِ ابدی مضمر ہے یہ وہ کیفیت ہے جس میں انسان دوسرے کی بھوک پیاس اور کلفت پورے طور پر محسوس کر سکتا ہے۔ (ابن القیم، زاد المعاد، ص ۷۸)
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ روزے کی حکمت بیان کرتے ہیں:
روزہ اعلیٰ درجے کی نیکی ہے اس سے ملکی قوت بڑھتی ہے اور بہیمی طاقت کمزور ہوتی ہے۔ روح کا چہرہ روشن کرنے کے لیے کوئی قلعی اس سے زیادہ مؤثر نہیں اور طبیعت کے مغلوب کرنے کی کوئی دوا اس سے زیادہ مفید نہیں۔ (حجۃ اللہ البالغۃ،۱؍۱۵۶)
مولانا محمد ادریس کاندھلوی بیان کرتے ہیں:
نفس کو مارنے اور روح کو زندہ کرنے کا بہترین طریقہ صبر ہے اور صبر حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ چند روز روزے رکھو قوت شہویہ اور قوت غضبیہ جو تمام معاصی کا منبع ہے اس کو کچلنے کے لیے روزہ تریاق اور اکسیر کا حکم رکھتا ہے۔ (معارف القرآن، ۱؍۲۷۷؛تدبر قرآن، ۱؍۴۴۵)
روزہ حصولِ تقویٰ کا ضامن ہے اس سلسلے میں مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں:
تقویٰ کو حاصل کرنے میں روزہ کو بڑا دخل ہے کیونکہ روزے سے اپنی خواہشات کو قابو رکھنے کا ایک ملکہ پیدا ہوتا ہے۔ وہی تقویٰ کی بنیاد ہے۔ (معارف القرآن، ۱؍۴۴۳)
اسی لیے قرآنِ کریم نے روزے کی حقیقت کو تقویٰ سے واضح کیا ہے کیونکہ یہ ایک مخفی اور خاموش عبادت ہے جو ریا اورنمائش سے بری ہے اور یہی چیز تمام عبادات کی جڑ ور اخلاق کی بنیاد ہے۔ (عبادات،ص ۲۳۲)
عبدالحامد بدایونی بیان کرتے ہیں کہ روزہ انسان کے اندر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ جس طرح خواہشات نفسانی کو ترک کیا ہے۔ اسی طرح محرمات و ممنوعات سے ہمیشہ محترز رہنا چاہیے۔ (فلسفہ عبادات اسلامی، ص ۴۹)
اشرف علی تھانوی روزہ کی حکمت بیان کرتے ہیں کہ فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی عقل کو اس کے نفس پر غلبہ اور تسلط دائمی حاصل رہے۔ مگر باعث بشریت بسااوقات اس کا نفس اس کی عقل پر غالب آتا ہے لہذا تہذیب و تزکیہ نفس کے لیے اسلام نے روزہ کو اصول میں سے ٹھہرایا ہے۔ (احکام اسلام عقل کی نظر میں،ص۱۰۵)
روزے کا مقصد جہاں حصولِ تقویٰ و تزکیۂ نفس ہے وہاں روزہ اسلامی معاشرے میں اخوت و مساوات اورجذبہ امداد باہمی کے فروغ کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔ صدر الدین اصلاحی بیان کرتے ہیں۔
روزہ اسلامی معاشرے میں ہمدردی اور مساوات کی ایک لہر دوڑا دیتا ہے۔ وہ مالداروں کو مسلسل ایک ماہ تک ناداری کے عملی تجربے کراتا ہے۔ اس کے اندر یہ احساس بیدار ہوتا ہے کہ فاقہ اوربھوک کسے کہتے ہیں اور بندگان خدا کے دلوں پر کیا گزرتی ہو گی جو اس کے شکار ہوا کرتے ہیں۔ اوریہی احساس قدرتی طور پر ان کے اندر یہ عزم پیدا کرتا ہے کہ اپنے غریب اور نادار بھائیوں کو ان کے اپنے حال پر نہ چھوڑا جائے اس طرح ان میں انسانی ہمدردی اور انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ فزوں تر ہوتا جاتا ہے۔ (اسلام ایک نظر میں،ص ۱۴۶)
بنت الاسلام بیان کرتی ہیں :
روزے کی پابندی بڑے بڑے کروڑ پتی کو بھی یہ احساس دلا دیتی ہے کہ جب انتڑیاں بھوک سے سوکھ رہی ہوں اورپیاس نے جان پر بنا رکھی ہو تو پھر کس اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ (صیامِ رمضان و حج بیت اللہ،ص۶۴)
الغرض یہودیت اور اسلام میں روزے کے بے شمار مقاصد اور حکمتیں پنہاں ہیں اور دونوں شرائع میں روزے کا فلسفہ یکساں ہی ہے جن میں حصولِ تقویٰ، تزکیہ نفس، روحانی بالیدگی، گناہوں کا کفارہ اور رضائے الٰہی کا حصول شامل ہیں۔
 
Top