• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اختلافِ تعبیر قرآن اور منکرین ِحدیث

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اختلافِ تعبیر قرآن اور منکرین ِحدیث

پروفیسر حافظ محمددین قاسمی​
’’اجی، چھوڑیئے، احادیث کو۔ ان میں اختلافات ہیں، لہٰذا وہ اسلامی آئین کے لئے بنیاد اور مسائل حیات کے لئے دلیل و سند کیوں کر ہوسکتی ہیں۔‘‘
یہ ہیں وہ الفاظ، جو اکثر و بیشتر منکرین حدیث کی زبان پر جاری و ساری رہتے ہیں، لیکن جب اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ ایسا اختلاف تعبیر قرآن میں بھی ممکن ہے… تو یہ جواب ، ان کے لئے، سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا معاملہ پیدا کردیتا ہے، جسے نہ ہی اُگلے بنے اور نہ ہی نگلے بنے۔ اُگلا جائے تب بھی مصیبت، اور نگلا جائے تب بھی کوفت۔ اسلم جیراجپوری صاحب نے تو بہرحال، جس طرح بھی بن پڑا، اسے اُگل کر یہ اعتراف کر لیا کہ واقعی قرآن میں اختلاف ہے، چنانچہ انہوں نے آیاتِ قرآنیہ میں ازالہ اختلاف اور رفع تضاد کے پیش نظر، اپنی کتاب ’نوادرات‘ میں ’وہم تعارض‘ کے زیر عنوان تقریباً بیس آیات میں تطبیق و توافق کی کوشش کی ہے۔ لیکن پرویز صاحب آخر تک تردّد اور تذبذب کے گردوغبار میں کھڑے ہو کر متضاد اور متناقض باتیں کرتے رہے ہیں، کبھی قرآن میں عدمِ اختلاف کا اعلان کیا اور کبھی ’بظاہر تعارض‘کا اعتراف کرتے ہی بنی، نہ صرف اعتراف بلکہ ’رفع تعارض‘ کے لئے عملاً تطبیق کی کوشش بھی کی۔ ایک وقت تھا جب وہ کہا کرتے تھے کہ
’’ قرآن کی تعلیم بڑی واضح، بین اور تضاد و تعارض سے پاک ہے۔‘‘ (مئی ۵۲، ص ۴۲)
’’قرآن کا یہ دعویٰ ہے کہ
(وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غيرالله لَوَجَدُوْا فيه اخْتِلاَفًاكثيرا) یعنی اگر قرآن خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سے اختلافات پائے جاتے۔
بالفاظِ دیگر، قرآن نے اپنے من جانب اللہ ہونے کی دلیل یہ دی ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں، پھر اس نے یہ بھی کہا کہ میری تعلیم صاف اور واضح ہے اس میں کوئی پیچیدگی نہیں، ابہام نہیں، التباس نہیں، رَیب نہیں، تشکیک نہیں۔‘‘ (اپریل ۵۹ئ، ص ۸)
بلکہ پرویز صاحب تو یہاں تک کہا کرتے تھے کہ قرآن کی کسی آیت سے متعدد تعبیروں کے نکلنے کا خیال ہی، قرآن کریم کی تعلیم سے ناواقفیت کی دلیل ہے :
’’یہ سمجھنا کہ زندگی کے عملی مسائل سے متعلق جو کچھ قرآن میں آیاہے، ا سکی متعدد تعبیریں کی جاسکتی ہیں، قرآن کی تعلیم سے ناواقفیت کی دلیل ہے یا اس پر پردہ پوشی کی کوشش ہے۔‘‘ (اپریل۵۹ئ: ص ۹)
پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ پرویز صاحب کو ماننا پڑا کہ قرآن میں اختلاف ہے :
’’قرآنِ کریم کی تعلیم کا ایک حصہ وہ ہے جس میں ا س نے انسانی زندگی کے لئے راہنمائی دی ہے( اور یہی حصہ اس کے بنیادی مقصد سے متعلق ہے)، انہیں اُصولِ حیات یا مستقل اقدار کہا جاتا ہے۔ یہ اصول و اقدار بالکل واضح اور متعین ہیں اور ان کے سمجھنے میں کوئی اختلاف نہیں پیدا ہوسکتا، اُمورِ مملکت کا تعلق اسی گوشہ سے ہے… قرآنی تعلیم کا دوسرا گوشہ وہ ہے جس کا تعلق، حقائق کائنات اور مابعد الطّبعیاتی (Meta-Physics) مسائل سے ہے۔ ان حقائق کے سمجھنے کا مدار انفرادی فکر اوربہ ہیئت ِمجموعی انسانی علم کی سطح پر ہے۔ جوں جوں انسانی علم کی سطح بلند ہوتی جائے گی، یہ حقائق بے نقاب ہوتے جائیں گے اور کوئی شخص جس قدر زیادہ غور و فکر سے کام لے گا، وہ انہیں اسی قدر زیادہ عمدگی سے سمجھ سکے گا۔‘‘ (مارچ ۸۵ئ: ص ۶)
’’قرآنِ کریم میں جو مابعد الطّبیعاتی مسائل آئے ہیں، ان کے سمجھنے میں تو انسانی فکر میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن جن اُمور کا تعلق انسانی راہنمائی سے ہے (یہی قرآن کا بنیادی مقصد ہے)، ان میں وہ بالکل واضح اور متعین تعلیم پیش کرتا ہے، جس کی مختلف تعبیریں ہو نہیں سکتیں۔ بشرطیکہ قرآن کو خود اس کے اپنے تجویز فرمودہ طریق سے سمجھا جائے۔‘‘ (اگست۷۳ئ:ص۳۵)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جواب طلب دو سوالات

یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں:
اوّلاً یہ کہ
قرآن کریم کی آیات میں، مابعد الطّبیعاتی مسائل سے متعلقہ آیات اور احکام و قوانین سے متعلقہ آیات میں جو تفریق کی گئی ہے اور پھر اس تفریق کی بنیاد پر ایک حصہ میں اختلاف کا موجود ہونا اور دوسرے میں معدوم ہونا جو تسلیم کیا گیا ہے، آخر اس کی قرآنی دلیل کیا ہے؟… اگر ناسخ و منسوخ کی بحث میں، آپ کی طرف سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیت ِناسخہ کے ناسخہ ہونے کی اور آیت ِمنسوخہ کے منسوخہ ہونے کی ’قرآنی دلیل ‘کیا ہے تو یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآنی متن میں دو حصے کرنا، اور پھر ایک حصے کا حکم، دوسرے سے الگ کرنے کی قرآنی دلیل کیا ہے؟ یا یہ تقسیم بھی ویسی ہی من گھڑت ہے، جیسی یہ تقسیم کہ ’قرآن کی بعض آیات ’عبوری دور‘ سے متعلق ہیں اور بعض انتہائی اورتکمیلی دور سے… حالانکہ قرآن میں یہ تقسیم بھی کہیں مذکور نہیں ہے۔
ثانیاً، یہ کہ
مابعد الطّبیعاتی حصہ قرآن کی حد تک تو آپ نے قرآن میں وجودِ اختلاف کو تسلیم کر لیا، اس طرح آپ کا یہ نظریہ(لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا کَثِيْرًا) والی آیت سے ٹکرا نہیں جاتا؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
رہا ’منکرین ِقرآن‘کا یہ فرمان کہ احکام و قوانین سے متعلقہ آیات میں اختلاف نہیںہے۔ تو یہ بھی محض ایک دعویٰ بلا دلیل ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہر قسم کی آیات میں تعبیر اختلاف کی گنجائش ہے۔ قرآن میں جس اختلاف کی نفی کی گئی ہے، وہ مطلق اختلاف نہیں ہے بلکہ ایسا اختلاف ہے جو ناقابل توجیہ ہے۔ قابل توجیہ اختلاف تو پرویز صاحب کے مزعومہ، دونوں حصوں میں موجود ہے۔ احکام و قوانین سے متعلقہ حصہ میں تعبیرکا اختلاف تو ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے اور یہ اختلاف نیک نیتی کے باوجود بھی ہوسکتا ہے اور بدنیتی کے نتیجہ میں بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ البتہ پرویز صاحب جب بھی مسلمانوں میں اختلاف کا ذکرکرتے ہیں تو وہ اِن مختلف وجوہِ اختلاف کو فرقوں سے وابستہ افراد کی بدنیتی ہی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، ان کے نزدیک اس اختلاف کی بہت سی وجوہ ہیں، جو درج ذیل اقتباسات سے واضح ہیں :
’’آیاتِ قرآنی کی تعبیریں اس لئے مختلف ہوتی ہیں کہ ہر فرقہ، اس آیت کی تعبیر، اس روایت کی رُو سے کرتا ہے جسے وہ صحیح سمجھتا ہے اور چونکہ ہر فرقہ کی روایات مختلف ہیں، اس لئے ان کی رو سے قرآنی آیات کی تعبیر میں اختلاف ہوتا ہے۔‘‘ (فروری۶۲ئ: ص ۱۳)
’’تعبیرات کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ہر فرقہ اپنے معتقدات اور مسلک کو اوپر رکھتا ہے اور ان کے تابع قرآن کا مفہوم متعین کرتا ہے۔‘‘ (اگست۶۲ئ: ص ۱۰)
’’بات یہ ہے کہ مختلف فرقے، اپنے اپنے ہاں کے احکام کو محکم مانتے ہیں اور قرآن کو کھینچ تان کر ان کے مطابق بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور ا س کا نام رکھتے ہیں ’قرآن کی تعبیرات‘ …اگر قرآن کو محکم مان لیا جائے تو اس کے احکام کی مختلف تعبیریں ہو نہیں سکتیں۔‘‘ (دسمبر۶۲ئ: ص ۱۹)
جہاں کسی اللہ کے بندے نے قرآن کی تعبیرات میں اختلاف کا ذکر کیا۔ منکرین حدیث کی طرف سے فوراً اس پر یہ فتویٰ رسید کردیا گیا کہ
’’تم قرآن کا اتباع کرنا ہی نہیں چاہتے بلکہ اتباعِ قرآن سے گریز کے لئے، تعبیراتی اختلاف کو بطورِ بہانہ کے پیش کرتے ہو۔‘‘ :
’’عام طور پر کہا جاتا ہے کہ قرآن کی بھی مختلف تعبیریں ہوسکتی ہیں۔ اس لئے غلط اور صحیح کے پرکھنے میں، قرآنی معیار کے نتائج میں بھی فرق ہوسکتا ہے۔ اس قسم کے اعتراضات، درحقیقت قرآن کو سند و حجت تسلیم نہ کرنے کے لئے گریز کی راہیںہیں۔‘‘ (اگست۷۳ئ: ص ۳۵)
اور اگر کسی کی حق گوئی، اس پر غالب آگئی اور اس کی شامت نے اسے دھکا دے کر یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ … ’’حضور! قرآن، جس اختلاف کی نفی کرتا ہے، وہ ناقابل توجیہ اختلاف ہے، ورنہ قابل توجیہ اختلاف تو فی الواقع قرآن میں موجود ہے اور علمائِ امت کا غوروفکر ایسے اختلاف کو رفع کرتا رہا ہے۔‘‘… تو قائل کی بات کو اَن سنی کرتے ہوئے اور اسے ڈانٹ پلاتے ہوئے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ
’’قرآن کریم اپنے منجانب اللہ ہونے کی ایک دلیل یہ دیتا ہے کہ اس میں کوئی اختلافی بات نہیں۔ قرآن کے اس دعویٰ کے بعد یہ تسلیم کرنا کہ یہ مختلف فرقوں کو ایسے قوانین دیتا ہے جو ایک دوسرے کے خلاف اور باہم دِگر متضاد ہیں، قرآن کے منجانب اللہ ہونے سے انکار کے مترادف ہے اور کھلا ہوا کفر۔‘‘ (مارچ۷۸ئ: ص ۴۰)
ان بلند بانگ دعاویٰ کے بعد کہ وجہ ِاختلاف، قرآن نہیں بلکہ مختلف فرقوں کے اپنے مسالک وعقائد اور ان کی روایات؍ احادیث ہیں، رفع ِاختلاف کا انہوں نے یہ حل پیش کیا ہے :
’’اگر خالص قرآن کو اتھارٹی تسلیم کرلیا جائے تو کوئی اختلاف پیدا ہی نہیں ہوسکتا‘‘ (اگست۸۴ئ: ص ۱۴)
لیکن بارگاہِ قرآن میں آنے کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے جس کے بغیر قرآن سے استہداء (ہدایت پانا) ممکن نہیں ہے :
’’قرآن سے صحیح راہنمائی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان خالی الذہن ہو کر اس کی طرف آئے اور اس کے ہاں سے جو کچھ ملے، اسے من و عن قبول کرے، خواہ یہ اس کے ذاتی خیالات، رجحانات، معتقدات اور معمولات کے کتنا ہی خلاف کیوں نہ ہو۔‘‘ (اگست۶۱ئ: ص ۷۴)
باقی مسلمانوں کو تو خیر چھوڑیئے، کم از کم ’اہل قرآن‘ کے جملہ طبقوں سے تویہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ سب احزاب اہل قرآن کے تعبیری اختلافات سے خالی الذہن ہو کر بارگاہِ قرآن میں آئیں گے اور وہ نتیجتاً وحدتِ فکر و عمل میں یکتا ہوں گے لیکن -- اے بسا آرزو کہ خاک شد!
ایک طرف، پرویز صاحب اور ان کے متبعین اور دوسری طرف دیگر ’اہل قرآن‘ حضرات کو ہم دیکھتے ہیں تو ان میں بھی ہمیں ویسا ہی اختلاف و افتراق اور انتشار و شقاق نظر آتا ہے۔ چلو مان لیا کہ ’ملا‘ تو بیچارہ روایات میں اُ لجھ کر ’رستہ کھو بیٹھا‘ مگر حیرت ہے کہ یہ مسٹر لوگ بھی قرآن، قرآن کے بلند بانگ دعووں کے باوجود باہم متحد اور متفق ہونے کی بجائے ایک دوسرے کی تضلیل و تفسیق میں ہی ’مصروفِ جہاد‘ ہیں۔ خود پرویز صاحب لکھتے ہیں:
’’بعض لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ فرقہ اہل قرآن کا دعویٰ ہے کہ وہ خالص قرآن سے احکام متعین کرتے ہیں لیکن ان میں بھی باہمی اختلاف ہے۔ ایسا کہنے والوں کو دراصل اس کا علم نہیں کہ فرقہ اہل قرآن نے کون سی باتیں، قرآن سے متعین کر نے کی کوشش کی اور ان میں باہمی اختلاف ہوا؟ قرآن نے جن اُمور کو اصولی طور پر بیان کیا ہے، یہ فرقہ ان کی جزئیات کو بھی قرآن سے متعین کرنے لگ گیا۔ اب ظاہر ہے کہ جو باتیں قرآن میں ہوں ہی نہ، اگر کوئی انہیں بھی قرآن سے متعین کرنے بیٹھ جائے تو ان میں اختلاف نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا؟ جو لوگ یہ بھی قرآن سے متعین کرنا چاہیں کہ نماز میں ہاتھ کہاں باندھنے چاہئیں، ان میں ا ختلاف کے سوا اور کیا ہوگا؟ فرقہ اہل قرآن کی یہی بنیادی غلطی تھی جس کی وجہ سے وہ خود ناکام رہا اور اس کی وجہ سے قرآن بدنام ہوگیا۔‘‘ (اپریل۶۷ئ: ص ۳۴)
آخر یہ لوگ، قرآن سے جزئیات کیوں متعین کرنا چاہتے تھے، ان کا دعویٰ اور دلیل کیا تھی، خود پرویز صاحب ہی لکھتے ہیں:
’’دعویٰ یہ ہے کہ قرآنِ کریم کے تمام احکام کی جملہ تفصیلات و جزئیات خود قرآن میں موجود ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے سب سے پہلے نماز کی جزئیات کو لیا۔ میں کسی لمبی چوڑی بحث میں پڑے بغیر صرف اتنا بتا دینا چاہتا ہوں کہ ان کی اس سعی ٔ نامشکور کا نتیجہ کیا نکلا۔ اس فرقہ کے بانی تھے مولانا عبداللہ چکڑالوی (مرحوم) اور ان کے متبعین کا ایک گروہ لاہور میں مقیم ہے۔ ان دونوں نے نماز کی جزئیات اپنے دعوے کے مطابق قرآن کریم سے متعین کی ہیں اوران کی دریافت کردہ جزئیات کی کیفیت یہ ہے :
مولانا چکڑالوی
۱۔ پانچ وقت کی نماز
۲۔ نماز میں دو تین چار رکعتیں
۳۔ ہر رکعت میں صرف دو سجدے
لاہوری فرقہ
۱۔ تین وقت کی نماز
۲۔نماز کی صرف دو رکعتیں
۳۔ ہر رکعت میں صرف ایک سجدہ
جہاں تک اذکارِ صلوۃ کا تعلق ہے، وہ بھی بالکل نرالے ہیں، اگرچہ وہ مشتمل ہیں قرآنی آیات ہی پر۔ اب اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جس قرآن کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں نماز کی جزئیات تک میں اس قدر اختلا ف ہے تو اسے منزل من اللہ کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے تو سوچئے کہ اس کا کیا جواب دیا جاسکتا ہے؟ اور اگر یہ دونوں گروہ (مقتد ِی اور مقتدیٰ) آپس میں جھگڑنے لگ جائیں اور ایک دوسرے پر الزام دھریں کہ اس نے قرآن کو صحیح نہیں سمجھا تو اس سے ایک اور اعتراض وارد ہوگا جو پہلے اعتراض سے زیادہ نہیں تو کم سنگین بھی نہیں ہوگا۔
معترض کہے گا کہ قرآن کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ کتابِ مبین (روشن کتاب) ہے اور اپنی ہر بات کونہایت وضاحت سے بیان کرتی ہے لیکن عملاً اس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ اپنے حکم میں تعداد تک کو بھی غیر مبہم انداز میں بیان نہیں کرسکا، وہ جس انداز سے تعداد بتاتا ہے اس سے ایک شخص پانچ وقت سمجھتا ہے اور دوسرا تین وقت، کوئی دو تین چار رکعتیں سمجھتا ہے تو کوئی صرف دو رکعت، کوئی دو سجدے سمجھتا ہے تو کوئی ایک۔ بسیط حقائق (Abstract Realities) کے متعلق تو انسانوں کا فکری اختلاف، قابل فہم ہوتا ہے کیونکہ انہیں تشبیہی اندا زمیں بیان کیا جاتاہے، لیکن جس کتاب کا متعین احکام و قوانین کے متعلق یہ انداز ہو، اسے خداکی کتاب سمجھنا تو درکنار (معاذ اللہ) انسانی تصانیف میں بھی کوئی قابل قدر مقام حاصل نہیں ہوسکتا۔
آپ دیکھتے ہیں کہ اس سے قرآن کریم پر کتنی بڑی زَد پڑتی ہے۔ انتہائی صدمہ اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان لوگوں نے قرآن کا نام لے کر قرآن کے ساتھ کس قدر دشمنی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے خصوصیت سے ان کے نظریہ اور مسلک کی تردید کرنی پڑی ہے۔‘‘(تفسیر مطالب الفرقان: جلد اوّل، ص۱۳۵ تا ۱۳۶)
یہ حال ہے ان لوگوں کی اختلاف جزئیات کا، جو سنت سے ہاتھ دھو کر محض قرآن پراکتفا کرنے کے دعویدار ہیں۔ جمعہ، جمعہ آٹھ دن، دورِ حاضر میں یہ سب گروہ کل کی پیداوار ہیں اور پرویزی فرقہ بھی ان ہی میں سے ایک ہے جو قرآن کو نیزوں پر لٹکا کر منصہ شہود پر آیا ہے۔ نماز اور دیگر اُمور کی جزئیات کے اختلاف میں اس فرقہ نے نہ تو کوئی کمی کی ہے اور نہ ہی ان میں توفیق و تطبیق کے لئے کوئی حل پیش کیا ہے۔ بلکہ اپنے وجود سے اہل قرآن کے گروہوں میں ایک کا اور اضافہ کرد یا ہے۔ قرآن کی اساس پر طلوعِ اسلام کی لابی نے ازالہ اختلاف نہیں بلکہ امالہ اختلاف کیا ہے۔ یعنی ان جزئیات اور ان کے اختلاف کو کسی ’آنے والے‘ (مرکز ِملت) پر چھوڑ دیا ہے۔
غور فرمائیے کہ یہ سب لوگ، ابھی حریم قرآن میں داخل نہیںہوئے، وہ ابھی اس کی دہلیز پر ہی ہیں کہ اس سوال نے ان میں اختلاف و انتشار پیدا کردیا کہ … ’’قرآن نے صرف کلیات و اُصول ہی بیان کئے ہیں؟ یا ا س میں کلیات و جزئیات اور اصول و فروع سب کچھ مذکور ہیں‘‘ … حالانکہ تَفْصِيْلَ الْکِتَابِ اور تِبْيَانًا لِکُلِّ شَيْیٍٔ جیسے قرآنی الفاظ کی یہ سب خیر سے تلاوت کرنے والے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
طلوعِ اسلام، اپنے سوا دیگر اہل قرآن گروہوں کی ضلالت کی وضاحت کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ
’’ جب آج سے کچھ عرصہ پہلے فرقہ اہل قرآن کی اسی طرح مخالفت ہوئی ہے تو ہم نے سمجھا تھا کہ مخالفت، ان کی اس غلط روش کی بنا پر ہے جو فی الواقع غلط تھی۔ وہ اپنے غلو اور تشدد میں، رسول اللہﷺ کی صحیح حیثیت ہی کو بھلا بیٹھے اور انہوں نے حضور ؐ کا منصب صرف اس قدر سمجھا کہ آپ نے معاذ اللہ ایک چٹھی رساں کی طرح اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچا دیا یا آج کی اصطلاح میں یوں سمجھئے کہ ان کے نزدیک رسول ؐکی حیثیت معاذ اللہ ایک ریڈیو سیٹ (آلہ ابلاغ) کی سی ہے کہ محطۂ نشر الصوت(Broadcasting Station) میں جو کچھ نشر ہو، وہ آواز اس کے ذریعہ سننے والوں تک آپہنچی، یہ غلطی تھی۔‘‘ (جنوری ۴۲ئ: ص۱۱)
ٹھیک آج یہی گمراہی وابستگانِ طلوعِ اسلام نے بھی اختیار کر رکھی ہے، کیونکہ انکارِ حدیث کا یہ لازمی اور منطقی نتیجہ ہے۔ یہ لوگ بھی آج نبﷺ کو صرف اتنی حیثیت ہی دیتے ہیں کہ وہ ڈاکیا کی طرح محض قرآن پہنچا دینے کی حد تک ہی مامور من اللہ ہیں۔ ا س کام کے بعد، پیغمبرﷺنے جو کچھ بھی کیا یا کہا ہے۔ وہ بطورِ نبیﷺ اور رسولﷺکے نہیں بلکہ بطور ایک فرد بشر کے کیا ہے۔ پیغمبر آخرالزمانﷺ نے وحی کی اساس پر جو معاشرہ تشکیل دیا تھا، اگرچہ اس میں آپؐ کے حسن ِتدبر اور سیرت و کردار کا مثالی نمونہ تھا مگر یہ سب کچھ کارنامہ رسول نہ تھا بلکہ محض فردِ بشر کی کارگزاری تھی۔ بزمِ طلوع اسلام کے ایک نمایاں فرد جناب ڈاکٹر عبدالودود صاحب (پٹھہ چوہدری غلام احمد پرویز)نے ٹھیک یہی بات ’سنت کی دستوری اہمیت‘ پر مولانا مودودیؒ سے قلمی مناظرہ کے دوران کہی تھی :
’’آپ کا اگلا سوال یہ ہے کہ جو کام حضورؐ نے تیئس سال پیغمبرانہ زندگی میں سرانجام دیئے، ان میں آنحضرتؐ کی پوزیشن کیا تھی؟ میرا(یعنی ڈاکٹر عبدالودود کا) جواب یہ ہے کہ حضورؐ نے جو کچھ کرکے دکھایا، وہ ایک بشر کی حیثیت سے لیکن ’ما اَنزل اللہ‘ کے مطابق کرکے دکھا یا۔‘‘ (ترجمان القرآن، منصب ِرسالت نمبر : ستمبر ۱۹۶۱ئ، ص ۵۵)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
خود پرویز کی تحریروں میں منصب ِنبوت کا یہ تصور موجود ہے، صر ف ایک حوالہ ملاحظہ فرمائیے :
’’رسول کا فریضہ، وحی خداوندی کو دوسروں تک پہنچا دینا ہی نہیں ہوتا، وہ اس پر خود عمل کرتا ہے اور ایک ایسا معاشرہ متشکل کرتا ہے جس میں وحی کی یہ تعلیم ایک عملی نظام بن کر سامنے آتی ہے۔ اس کے لئے اسے سخت ترین مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بیسیوں لڑائیاں لڑنی پڑتی ہیں۔ پھر جب یہ نظام متشکل ہوجاتا ہے تو اُسے وہ تمام امور سرانجام دینے ہوتے ہیں جو ایک مملکت کے سربراہ کے فرائض کہلاتے ہیں۔ وہ یہ تمام اُمور ایک انسان کی حیثیت سے سرانجام دیتا ہے اور اس میں اپنے حسن تدبر اور سیرت و کردار کا ایسا مثالی نمونہ پیش کرتا ہے جسے شرفِ انسانی کی معراجِ کبریٰ کہا جائے۔‘‘ (ستمبر۷۸ئ: ص ۲۶)
حقیقت یہ ہے کہ ’اہل قرآن‘ کے جملہ گروہ بشمول پرویزی فرقہ، اگر قرآن کے ساتھ حامل قرآنؐ اور مہبطِوحی ا کو بھی وہی حیثیت دیں جو خود قرآن نے انہیں دے رکھی ہے تو ان پر یہ امر واضح ہوجاتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو شارع (Law Giver) کا مقام بھی دیا ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ
(يَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالاَغْلَالَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَيْهِمْ) (۷؍۱۵۷)
’’وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لئے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور اُن پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے ہیں اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے ہیں۔‘‘
منکرین حدیث اگر خود شارع بننے کی بجائے، نبی ہی کو شارع قرار دیتے اور اپنی تشریح کرنے کی بجائے نبی ہی کی تشریحات کو قبول کرتے تو وہ کبھی اس گمراہی میں نہ پڑتے، جس کا الزام طلوعِ اسلام نے دوسرے ’اہل قرآن‘ گروہوں پر عائد کیا ہے۔ حالانکہ وہ خود بھی آج اسی گمراہی میں مبتلا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سورۃ النحل کی اس آیت کے حاشیہ میں صاحب ِتفہیم القرآن نے جو کچھ لکھا ہے، وہ غور سے پڑھنے کے قابل ہے :
’’ یہ آیت جس طرح ان منکرین نبوت کی حجت کے لئے قاطع تھی جو خدا کا ’ذِکر‘ بشر کے ذریعہ آنے کو نہیں مانتے تھے، اسی طرح آج یہ ان منکرین حدیث کی حجت کے لئے بھی قاطع ہے جو نبی کی تشریح و توضیح کے بغیر صرف ’ذکر‘ کو لے لینا چاہتے ہیں۔ وہ خود اس با ت کے قائل ہوں کہ نبی نے تشریح و توضیح کچھ بھی نہیں کی تھی، صرف ذکر پیش کیا تھا یا اس بات کے قائل ہوں کہ ماننے کے لائق صرف ذکر ہے، نہ کہ نبی کی تشریح یا اس کے قائل ہوں کہ اب ہمارے لئے صرف ’ذکر‘ ہی کافی ہے،نبی کی تشریح کی کوئی ضرورت نہیں یا اس بات کے قائل ہوں کہ اب صرف ’ذکر‘ ہی قابل اعتماد حالت میں باقی رہ گیا ہے، نبی کی تشریح یا تو باقی ہی نہیں رہی، یا باقی ہے بھی تو بھروسے کے قابل نہیں ہے۔ غرض ان چاروں باتوں میں سے، جس بات کے بھی وہ قائل ہوں، ان کا مسلک بہرحال قرآن کی اس آیت سے ٹکراتا ہے‘‘ …
’’وہ پہلی با ت کے قائل ہوں تو اس کا معنی یہ ہے کہ نبی نے اس منشا ہی کو فوت کردیا جس کی خاطر ’ذکر‘ کو فرشتوں کے ہاتھ بھیجنے یا براہِ راست لوگوں تک پہنچا دینے کی بجائے، اسے واسطہ تبلیغ بنایا گیا۔‘‘…
’’اور اگر وہ دوسری یا تیسری بات کے قائل ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ میاں نے معاذ اللہ، یہ فضول حرکت کی ہے کہ اپنا ’ذکر‘ ایک نبی کے ذریعہ بھیجا کیونکہ نبی کی آمد کا حاصل بھی وہی ہے جو نبی کے بغیر صرف ’ذکر‘ کے مطبوعہ شکل میں نازل کرنے کا ہوسکتاتھا۔‘‘
’’اور اگر وہ چوتھی بات کے قائل ہیں تو دراصل یہ قرآن اور نبوت محمدی، دونوں کے نسخ کا اعلان ہے جس کے بعد، اگر کوئی مسلک معقول باقی رہ جاتا ہے تو وہ صرف ان لوگوں کا مسلک ہے جو ایک نئی نبوت اور نئی وحی کے قائل ہیں، اس لئے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ خود قرآن مجید کے مقصد نزول کی تکمیل کے لئے نبی کی تشریح کو ناگزیر ٹھہرا رہا ہے او رنبی کی ضرورت ہی اس طرح ثابت کر رہا ہے کہ وہ ’ذکر‘ کے منشا کی توضیح کرے۔ اب اگر منکرین حدیث کا یہ قول صحیح ہے کہ نبی کی تشریح وتوضیح دنیا میں باقی نہیں رہی تو اس کے دو کھلے ہوئے نتیجے ہیں، پہلا نتیجہ یہ کہ نمونہ اتباع کی حیثیت سے نبوت محمدی ختم ہوگئی اور اب ہمارا تعلق محمدﷺ کے ساتھ صرف اس طرح کا رہ گیا جیسا ہود،ؑ صالح اور شعیب علیہم السلام کے ساتھ ہے کہ ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں، ان پر ایمان لاتے ہیں، مگر ان کا کوئی اسوہ ہمارے پاس نہیں ہے جس کا ہم اتباع کریں، یہ چیز آپ سے آپ، نئی نبوت کی ضرورت ثابت کردیتی ہے۔ صرف ایک بیوقوف ہی اس کے بعد ختم نبوت پر اصرار کرسکتا ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ کہ اکیلا قرآن، نبی کی تشریح و تبیین کے بغیر خود اپنے بھیجنے والے کے قول کے مطابق ہدایت کے لئے ناکافی ہے۔ اس لئے قرآن کے ماننے والے، خواہ کتنے ہی زور سے چیخ چیخ کر اسے بجائے خود کافی قرار دیں، مدعی سست کی حمایت میں گواہان چست کی بات، ہرگز نہیں چل سکتی اور ایک نئی کتاب کے نزول کی ضرورت، آپ سے آپ، خود قرآن کی رو سے ثابت ہو جاتی ہے۔ قَاتَلَھُمُ اللّٰہُ، اس طرح یہ لوگ حقیقت میں انکارِ حدیث کے ذریعہ دین کی جڑ کھود رہے ہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۵۴۳ تا ۵۴۵)
تنہا قرآن کا نعرہ بلند کرنے والے، آج پاکستان میں کچھ وہ لوگ ہیں جو حلقہ ’طلوعِ اسلام‘ میں ہیں اور کچھ وہ ہیں جو ادارہ ’بلاغ القرآن‘ سے وابستہ ہیں۔ دونوں مخالف ِسنت اور ساتھ ساتھ ہی تمسک بالقرآن کے دعویدار ہیں اور دونوں اس امر کے مُعلن ہیں کہ تنہا قرآن کے ساتھ وابستگی ہی باہمی اختلافات کا ازالہ اور فرقوں کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ قرآن کے بغیر تعبیرات کا اختلاف ختم نہیں ہوسکتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی قرآن کی بنیاد پر ’طلوعِ اسلام‘اور ’بلاغ القرآن‘ والے اکٹھے ہوچکے ہیں؟ اور کیا ان دونوں کے تعبیرات کے اختلافات دَم توڑ چکے ہیں؟ اور ان سے وابستہ افراد اپنے باہمی فروق و امتیازات کو ختم کرکے باہم دِ گر متحدو متفق ہوچکے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
طلوعِ اسلام اور بلاغ القرآن کے تعبیری اختلافات
یہ بات پہلے بیان ہوچکی ہے کہ تنہا قرآن کی بارگاہ میں آنے کا قصد کرتے ہی سب سے پہلے اس اختلاف سے دوچار ہونا پڑتا ہے کہ ’’آیا قرآن، اصول و فروعات اور کلیات و جزئیات پر مشتمل ہے یا صرف اُصول و کلیات پر؟‘‘… طلوعِ اسلام کے مخالفین پہلی بات کے قائل ہیں جیسا کہ چکڑالوی اور لاہوری فرقوں سے متعلقہ اقتباس میں ہم دیکھ چکے ہیں اور خود وابستگانِ طلوعِ اسلام دوسری بات کے قائل ہیں۔ اس اختلاف کی موجودگی میں ایک گروہ قرآن سے جزئیات و فروعات بھی اخذ کرے گا اور دوسرا گروہ کسی ’آنے والے‘ (مرکز ِملت) کی راہ دیکھے گا اور یہ ایسا شدید اختلاف ہے جس کے باعث ایک طرف دونوں گروہ مرتے دم تک متحد نہیں ہوسکتے اور دوسری طرف؛ یہ اتنا سنگین اختلاف ہے کہ بقولِ پرویز
’’اس سے قرآن بدنام ہوتا ہے اور ایسا کرنے والے ناکام و نامراد ٹھہرتے ہیں۔‘‘
تاہم قرآن کے مشتمل برکلیات و جزئیات ہونے یا نہ ہونے کے اَمر کو نظر انداز کرتے ہوئے جب بارگاہِ قرآن میں داخل ہو کر تشریح و تفسیر کا موقع آتا ہے تو یہاں قدم قدم پر اختلاف واقع ہوتا ہے، حالانکہ دونوں گروہ، نیک نیتی سے تمسک بالقرآن کے دعویدار ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
آئیے! ہم چند اُمور میں یہ دیکھیں کہ بلاغ القرآن اور طلوعِ اسلام نے جب قرآن کو حَکَم بنایا تو کیا ان میں تعبیرات کا اختلاف ختم ہوگیا، یا باقی وبر قرار رہا؟
پہلی مثال
آیت البقرۃ:۱۷۳ میں ان اشیا کی فہرست دی گئی ہے جنہیں حرام کیا گیا ہے، ان اشیا میں لحم خنزیر بھی شامل ہے۔ جس کا مفہوم بلاغ القرآن کے ہاں سو ٔر کا گوشت نہیں بلکہ ’غدود کاگوشت‘ ہے۔اصل عبارت درج ذیل ہے :
(إنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْکُمُ الْمَيْتَهَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَا اُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّٰهِ) (البقرۃ:۱۷۳) ’’سوائے اسکے اور کوئی بات نہیں کہ تمہارے لئے حلال جانوروں کا (بھیمۃ الانعام ۱؍۵) کا مردہ خون، غدود کا گوشت اور وہ جانور یا گوشت جو غیر اللہ کی طرف منسوب کیا جائے، حرام کیا گیا ہے۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں ’لحم خنزیر‘کی وضاحت بایں الفاظ کی گئی ہے :
’’لحم خنزیر کا معنی لکھا گیا ہے ’غدود کا گوشت‘ حالانکہ تمام مترجمین نے اس کا معنی ’سور کا گوشت‘ لیا ہے۔ پہلے نمبر پر سور کا گوشت مراد لینا، اس لئے غلط ہے کہ آیت مجیدہ میں اِنّما کے حصر کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ مردہ، خون، لحم خنزیر اور غیر اللہ کی طرف منسوب حرام ہیں۔ اس حصر کو قائم رکھتے ہوئے، جانوروں میں سے صرف سور ہی حرام ٹھہرتا ہے اور باقی سب جانور کتا، بلا،بجو، ریچھ وغیرہ حلال ٹھہرتے ہیں اور قرآن مجید میں نقیض پیدا ہوتی ہے کہ ایک طرف ۱؍۵ میں صرف بھیمۃ الانعامحلال ٹھہرائے جاتے ہیں اور دوسری طرف صرف سور کو حرام قرار دیا گیا ہے، گویا چارپایوں میں سے صرف سور حرام ہے۔‘‘ (تفسیر القرآن بالقرآن: جلد اوّل ، ص ۱۳۶، ادارہ بلاغ القرآن، ۱۱؍ این سمن آباد، لاہور)
اسی آیت کا مفہوم، طلوعِ اسلام کے جناب پرویز ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں :
’’…اب سن لو! کہ خدا نے حرام کس کس چیز کو قرار دیا ہے: مردار، بہتا ہوا خون (۶؍۱۴۶) خنزیر کا گوشت اور ہر وہ شئے جسے اللہ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کردیا جائے۔‘‘ (مفہوم القرآن، ص ۶۲)
لغات القرآن میں خود پرویز نے
’خنزیر‘ کا معنی ’سو ٔر‘ ہی کیا ہے۔ ملاحظہ ہو لغات القرآن، ص۶۲۱۔
تعبیر کا یہ ا ختلاف ملاحظہ فرمائیے، کہ لحم خنزیر سے مراد، ایک کے ہاں ’غدود کا گوشت ‘ ہے اور دوسرے کے ہاں ’سؤر کا گوشت‘ اور دونوں خالی الذہن ہو کر سوئے قرآن آئے ہیں، مگر نتیجہ پھر وہی ڈھاک کے تین پات !!
میں نے خنزیر بمعنی غدود کی تحقیق نہیں کی، ممکن ہے کہ بلاغ القرآن کے دعویٰ کے مطابق لغاتِ عربیہ میں کہیں سے اس کی تائید ہوجائے۔ لیکن اس سے یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ اگر کسی لفظ کے ایک سے زیادہ معانی ہوں اور قرآنی تشریح کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو قرآن بازیچہ اطفال بن کر رہ جائے گا، کوئی کچھ معانی کرے گا اور کوئی کچھ، اور اختلافات کا سیلابِ عظیم ہوگا اور اُمت کا فرقوں میں بٹ جانا ناگزیر ہوگا، لیکن اگر اس بات کی طرف رجوع کیا جائے جس پر خود یہ قرآن نازل ہوا ہے تو پھر یہ ممکن ہے کہ اس خطرے کا سدباب ہوجائے، کیونکہ مہبط ِوحی ہونے کی وجہ سے وہی مرضاتِ الٰہیہ کا نمائندہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمسک بالسنۃ کی وجہ سے چودہ صدیوں میں آج تک لحم خنزیر کا مفہوم متفق علیہ رہا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دوسری مثال
قرآنِ کریم میں وضو اور غسل کے ضمن میں
(وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا)کے الفاظ آئے ہیں۔ جن کا ترجمہ بالعموم یہ کیا جاتا ہے کہ ’’اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو( نہا کر) پاک ہوجائو۔‘‘ …
حالت جنابت کیا ہے؟ اور جُنُبًا سے کون لوگ مراد ہیں؟ بلاغ القرآن والوں کے نزدیک جنب کے معنی ہیں ’بدخوابی‘ ۔ ملاحظہ ہو تفسیر القرآن بالقرآن، جلد سوم ص۲۷
جبکہ پرویز صاحب کے ہاں، اس کے معنی وہی ہیں جو علماء اُمت میں معروف و متداول ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
’’سورئہ مائدہ میں ہے (وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا) (۵؍۶) اس کے معنی حالت ِجنابت کے ہیں (ہم آغوشی کی رعایت سے)۔ ‘‘(لغات القرآن: ص۴۴۲)
یہاں بھی تعبیر کا اختلاف واضح ہے اور دونوں گروہ الفاظِ قرآن پر متفق ہونے کے باوجود معنی ٔ قرآن پر باہم مختلف ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تیسری مثال
قرآن کریم کی درج ذیل آیت ملاحظہ فرمائیے :
(وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنُ مِنْکُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا وَّصِيَّةً لّاَِ زْوَاجِهِمْ مَتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ غَيْرَ اِخْرَاج) (۲؍۲۴۰) ’’تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں او رپیچھے بیویاں چھوڑ جائیں، ان کو چاہئے کہ اپنی بیویوں کے حق میں وصیت کر جائیں کہ سال بھر تک گھر سے نکالے بغیر ان کو خرچہ دیا جائے۔‘‘
اس آیت کا ترجمہ ’بلاغ القرآن‘ والوں کے نزدیک یہ ہے :
’’اور تم میں سے جو لوگ روک لئے جائیں (یعنی لاپتہ ہوجائیں) اور وہ بیویاں چھوڑ جائیں، ان کی بیویوں کے لئے حکم ہے کہ انہیں ایک سال تک ضروریاتِ زندگی مہیا کی جائیں اورانہیں ان کے گھروں سے نہ نکالا جائے۔‘‘
ترجمہ کے بعد، اب آیت کی تفسیر بھی ملاحظہ فرمائیے :
’’واضح رہے کہ لاپتہ شوہر کی بیوی، ایک سال تک شوہر کے مال سے نان و نفقہ حاصل کرے گی، لیکن اگر شوہر کا مال کوئی نہ ہو، تو شوہر کے ورثا ایک سال کا بوجھ اٹھائیں گے اور اگر وارث کوئی نہ ہو، یا وہ بوجھ اُٹھانے کے قابل نہ ہوں تو اس ایک سال کا نان و نفقہ حکومت کے ذمہ ہوگا، غرض یہ کہ لاپتہ شوہر کی بیوی کے لئے ایک سال کا انتظار فرض ہے۔‘‘ (تفسیر القرآن بالقرآن: جلد اوّل، ص۱۹۶ تا ۱۹۷)
طلوعِ اسلام والوں کے ہاں، آیت کا مفہوم یہ ہے :
’’تم میں سے جو لوگ بیوہ عورتیں چھوڑ کر مر جائیں، انہیں چاہئے کہ اپنی بیویوں کے متعلق وصیت کر جائیں کہ سال بھر انہیں گھر سے نہ نکالا جائے اور انہیں سامانِ زندگی دیا جائے‘‘ (مفہوم القرآن، ص۹۲)
اوّل الذکر گروہ کی تعبیر کے مطابق، آیت کا تعلق لاپتہ شوہر کی بیوی کے نان و نفقہ سے ہے اور مؤخر الذکر طائفے کے ہاں، تعبیر آیت یہ ہے کہ شوہر اپنی وفات کے وقت یہ وصیت کرجائیں کہ ایک سال تک اس کی بیوی کو گھر سے نکالے بغیر اسے خرچہ دیا جائے۔
یہ تینوں مثالیں اس امر کو واضح کردیتی ہیں کہ احادیث ِرسول کو نظر انداز کرکے کوئی شخص خواہ کتنی ہی نیک نیتی کے دعووں کے ساتھ بارگاہِ قرآن میں آئے، وہ اختلاف تعبیرات سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔ ان تینوں آیات کا مفہوم احادیث ِرسولﷺ کی روشنی میں بعثت ِنبوی سے لے کر تاحال علمائِاُمت میں متفق علیہ رہا ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ سنت ِنبویہ کو نظر انداز کرکے تنہا قرآن کی بنیاد پر نہ صرف یہ کہ تعبیرات کا اختلاف ختم نہیں ہوگا بلکہ چودہ صدیوں میں جن مسائل پر اتفاق پایا جاتا ہے، وہ بھی اختلاف و انتشار کا شکار ہوجائیں گے۔
بلاغ القرآن والے ہوں یا طلوعِ اسلام والے، نیاز فتح پوری کے ہم مسلک ہوں یا عنایت اللہ مشرقی کے ہم مشرب، ’اُمت ِمسلمہ، امرتسر‘ کے وابستگان ہوںیا اسلم جیراجپوری کے متعلقین، ان سب کے ہاں قدرِ مشترک، صرف ’اسم قرآن‘ یا ’الفاظ قرآن‘ ہیں اور عملاً جو چیز درکا رہے وہ ’الفاظِ قرآن‘ نہیں، بلکہ ’مفہومِ قرآن‘ یا ’تعبیر قرآن‘ ہے؛ اور یہ ’اہل قرآن‘ کے ہر گروہ کی الگ الگ ہے، ان تمام احزاب کو ’اسم قرآن‘ پر جمع کر بھی دیا جائے۔ تو اپنی اپنی ’تعبیر قرآن‘ اس تضادات کے گٹھے کو تادیر بندھا نہیں رکھ سکتی۔ ان سب کو اکٹھا کرنا، تناقضات کو جمع کرنے کے مترادف ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
’مفکر ِقرآن‘ کے تعبیری تضادات

لیکن یہ مختلف گروہ ہیں جو تعبیر قرآن میں باہم مختلف ہیں، کیا ان میں سے کوئی فرقہ بھی قرآن کی کسی ایک اور حتمی تعبیر پر برقرار رہا ہے؟ ہرگز نہیں۔ غلام احمد پرویز کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ان کا پورا لٹریچر تضادات سے اَٹا پڑا ہے۔ ہر گردشِ زمانہ کے ساتھ ان کی تعبیرات بدلتی رہی ہیں، لیکن بڑے تسلسل اور تواتر کے ساتھ وہ نام، قرآن ہی کا لیتے رہے ہیں۔ چند ایک مثالیں ملاحظہ فرمائیے :
 
Top